Surat Qaaf

Surah: 50

Verse: 33

سورة ق

مَنۡ خَشِیَ الرَّحۡمٰنَ بِالۡغَیۡبِ وَ جَآءَ بِقَلۡبٍ مُّنِیۡبِۣ ﴿ۙ۳۳﴾

Who feared the Most Merciful unseen and came with a heart returning [in repentance].

جو رحمٰن کا غائبانہ خوف رکھتا ہو اور توجہ والا دل لایا ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَن بِالْغَيْبِ ... Who feared Ar-Rahman unseen, who feared Allah in secret when only Allah the Exalted and Most Honored could see him. The Prophet said, وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللهَ تَعَالَى خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاه And a man who remembered Allah the Exalted while alone, and his eyes became tearful. Allah said, ... وَجَاء بِقَلْبٍ مُّنِيبٍ and brought a heart turned in repentance. meaning, he will meet Allah, the Exalted and Most Honored, on the Day of Resurrection with a heart turned in repentance to Him and absolutely free (of Shirk) and humbled to Him,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 مُنِیْبِ ، اللہ کی طرف رجوع کرنے والا اور اس کا اطاعت گزار دل۔ یا بمعی سلیم ، شرک و مصیت کی نجاستوں سے پاک دل۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٩] اگرچہ اس کی صفت رحمن ہے پھر بھی اس کی عظمت و جلال کی وجہ سے وہ اس سے ڈرتا رہا۔ اس خیال سے کہ شاید اس کا عمل اللہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت حاصل کرتا ہے یا نہیں۔ [٤٠] منیب۔ اناب کے معنی گناہ کے کاموں سے لوٹنا یا باز آنا۔ گناہ کا اعتراف اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کرنا۔ یعنی اس کا دل ہی ایسا تھا جسے گناہ کے کاموں سے نفرت تھی اور اگر اتفاق سے کوئی گناہ سرزد ہوجاتا تو فوراً اللہ کی طرف رجوع کرتا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) من خشی الرحمٰن بالغیب : یعنی رحمان کو دیکھے بغیر اس سے ڈرتا ہے اور اس وقت بھی ڈرتا ہے جب وہ ولگوں سے غائب ہوتا ہے، کوئی اس کے پاس نہیں ہوتا۔ یہاں ایک سوال ہے کہ خشیت کے ساتھ لفظ ” رحمان “ لانے میں کیا حکمت ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ رحمان کا لفظ لانے میں اس شخص کی تعریف مقصود ہے کہ وہ اللہ کی رحمت اور اس کے معافک ر دینے کی صفت کا علم رکھنے کے باوجود اس سے ڈرتا ہے۔ (زمخشری) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(سبعۃ یظلھم اللہ تعالیٰ فی ظلہ یوم لا ظل الا ظلہ)” سات آدمی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں جگہ دے گا جب اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ “ ان میں سے پانچویں کے بارے میں فرمایا :(ورجل دعتہ امراۃ ذات منصب و جمال فقال انی اخاف اللہ)” اور وہ آدمی ہے جسے اونچے حسب اور جمال والی عورت نے دعوت دی تو اس نے کہا میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ “ اور آخر میں فرمایا :(ورجل ذکر اللہ خالی اً فضاضت عیناہ) (بخاری، الزکاۃ باب الصدقۃ بالیمین : ١٣٢٣) ” اور ایک وہ آدمی جس نے اکیلے ہونے کی حالت میں اللہ کو یاد کیا تو اس کی آنکھیں بہ پڑیں۔ “ (٢) وجآء بقلب منیب : یعنی اس کے دل کا رجوع اللہ ہی کی طًرف رہتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse [ 33] we have the statement وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُّنِيبٍ (...and comes up with a heart oriented towards Him....50:33]. Abu Bakr Warraq (رح) says that the characteristics of a munib is that he always maintains respect for Allah and humbles himself to Him and gives up his sensual and base desires.

(آیت) وَجَاۗءَ بِقَلْبٍ مُّنِيْبِ ، ابوبکر وراق فرماتے ہیں کہ منیب کی علامت یہ ہے کہ وہ حق تعالیٰ جل شانہ کے ادب کو ہر وقت مستحضر رکھے اور اس کے سامنے تواضع اور عاجزی سے رہے اور اپنے نفس کی خواہشات کو چھوڑ دے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَنْ خَشِيَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَيْبِ وَجَاۗءَ بِقَلْبٍ مُّنِيْبِۨ۝ ٣٣ ۙ خشی الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ( خ ش ی ) الخشیۃ ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) غيب الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] ( غ ی ب ) الغیب ( ض ) غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ نوب النَّوْب : رجوع الشیء مرّة بعد أخری. وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر/ 54] ، مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم/ 31] ( ن و ب ) النوب ۔ کسی چیز کا بار بارلوٹ کر آنا ۔ یہ ناب ( ن ) نوبۃ ونوبا کا مصدر ہے، وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر/ 54] اپنے پروردگار کی طر ف رجوع کرو ۔ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم/ 31] ( مومنو) اس خدا کی طرف رجوع کئے رہو ۔ فلان ینتاب فلانا وہ اس کے پاس آتا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣ { مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ } ” جو ڈرتا رہا رحمن سے غیب میں ہونے کے باوجود۔ “ { وَجَآئَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبِ ۔ } ” اور لے کر آیا رجوع کرنے والا دل۔ “ قلب منیب سے بھی یہاں قلب سلیم ہی مراد ہے ۔ یہ ایسے شخص کا ذکر ہے جو دنیا میں اللہ کا فرمانبردار بندہ بن کر رہا۔ اللہ کی امانت کو اس نے پوری حفاظت اور سلامتی کے ساتھ رکھا اور صحیح و سلامت حالت میں لوٹایا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

42 That is, Although he could not see the Merciful God and could not perceive Him by his senses in any way, yet he feared His disobedience. His heart was more dominated by the fear of the unseen Merciful God than the fear of other perceptible powers and visible and mighty beings, and in spite of knowing that He is All-Merciful, he did not become a sinner, trusting His Mercy, but feared His displeasure in whatever he said and did. Thus, this verse points to two of the believer's important and basic characteristics: first, that he fears God although he cannot see and perceive Him; second, that he does not persist in sin in spite of his full awareness of God's quality of mercy. These very two characteristics make him worthy of honor in the sight of Allah. Besides, there is another subtle point also in it, which Imam Razi has pointed out. In Arabic, there are two words for fear, khauf and khashiyyat, which have a difference in their shade of meaning. The word khauf is generally used for the fear that a man feels in his heart on account of his sense of weakness as against someone's superior power and strength, and the word khashiyyat is used for the dread and awe with which a man is filled and inspired because of somebody's glory and grandeur and greatness. Here, the word khashiyyat has been used instead of khauf, which is meant to point out that a believer does not fear Allah only on account of the fear of His punishment, but it is the sense of Allah's glory and greatness that keeps him aweinspired at all times. 43 The word munib in the original is derived from inabat, which means to turn to one direction and to turn to the same again and again, just like the needle of the compass that points to the magnetic north persistently, however one may try to turn it away from that direction. Therefore, qalb-i-munib would mean such a heart as has turned away from every other direction and turned towards One Allah alone and then kept on turning towards Him again and again throughout life. The. same sense has been conveyed by the "devoted heart." This shows that in the sight of Allah the man of real worth is he who remains attached and devoted to Allah alone not merely verbally but also truly and sincerely.

سورة قٓ حاشیہ نمبر :42 یعنی باوجود اس کے کہ رحمان اس کو کہیں نظر نہ آتا تھا ، اور اپنے حواس سے کسی طرح بھی وہ اس کو محسوس نہ کر سکتا تھا ، پھر بھی وہ اس کی نافرمانی کرتے ہوئے ڈرتا تھا ۔ اس کے دل پر دوسری محسوس طاقتوں اور علانیہ نظر آنے والی زور آور ہستیوں کے خوف کی بہ نسبت اس اَن دیکھے رحمان کا خوف زیادہ غالب تھا ۔ اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ رحمٰن ہے ، اس کی رحمت کے بھروسے پر وہ گناہ گار نہیں بنا بلکہ ہمیشہ اس کی ناراضی سے ڈرتا ہی رہا ۔ اس طرح یہ آیت مومن کی دو اہم اور بنیادی خوبیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ ایک یہ کہ وہ محسوس نہ ہونے اور نظر نہ آنے کے باوجود خدا سے ڈرتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ وہ خدا کی صفت رحمت سے اچھی طرح واقف ہونے کے باوجود گناہوں پر جَری نہیں ہوتا ۔ یہی دو خوبیاں اسے اللہ کے ہاں قدر کا مستحق بناتی ہیں ۔ اس کے علاوہ اس میں ایک اور لطیف نکتہ بھی ہے جسے امام رازی نے بیان کیا ہے ۔ وہ یہ کہ عربی زبان میں ڈر کے لیے خوف اور خَشِیَّت ، دو لفظ استعمال ہوتے ہیں جن کے مفہوم میں ایک باریک فرق ہے ۔ خوف کا لفظ بالعموم اس ڈر کے لیے استعمال ہوتا ہے جو کسی کی طاقت کے مقالہ میں اپنی کمزوری کے احساس کی بنا پر آدمی کے دل میں پیدا ہو ۔ اور خشیت اس ہیبت کے لیے بولتے ہیں جو کسی کی عظمت کے تصور سے آدمی کے دل پر طاری ہو ۔ یہاں خوف کے بجائے خشیت کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ مومن کے دل میں اللہ کا ڈر محض اس کی سزا کے خو ف ہی سے نہیں ہوتا ، بلکہ اس سے بھی پڑھ کر اللہ کی عظمت و بزرگی کا احساس اس پر ہر وقت ایک ہیبت طاری کیے رکھتا ہے ۔ سورة قٓ حاشیہ نمبر :43 اصل الفاظ ہیں قلبِ مُنِیب لے کر آیا ہے ۔ مُنیب انابت سے ہے جس کے معنی ایک طرف رخ کرنے اور بار بار اسی کی طرف پلٹنے کے ہیں ۔ جیسے قطب نما کی سوئی ہمیشہ قطب ہی کی طرف رخ کیے رہتی ہے اور آپ خواہ کتنا ہی بلائیں جلائیں ، وہ ہِر پھر کر قطب ہی کی طرف مڑ گیا اور پھر زندگی بھر جو احوال بھی اس پر گزرے ان میں وہ بار بار اسی کی طرف پلٹتا رہا ۔ اسی مفہوم کو ہم نے دل گرویدہ کے الفاظ سے ادا کیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے ہاں اصلی قدر اس شخص کی ہے جو محض زبان سے نہیں بلکہ پورے خلوص کے ساتھ سچے دل سے اسی کا ہو کر رہ جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(50:33) من خشی الرحمن بالغیب : جوبن دیکھے رحمن سے ڈرتا ہے (رحمن اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے) یہ جملہ یا تو اواب حفیظ سے بدل ہے یا اس کی صفت کہ اواب حفیظ وہ شخص ہے جو کہ بن دیکھے خدا وند تعالیٰ سے ڈرے۔ وجاء بقلب منیب : یہ بھی اواب کی صفت میں ہے اور جو قلب منیب لے کر آیا ہے۔ قلب منیب موصوف و صفت منیب اسم فاعل واحد مذکر انابۃ (افعال) مصدر لوب مادہ۔ اللہ کی طرف خلوص سے رجوع کرنے والا۔ ہر طرف سے لوٹ کر اللہ کی طرف مڑنے والا۔ بار بار ۔ اللہ کی طرف لوٹنے والا۔ خلوص دل کے ساتھ اللہ سے توبہ کرنے والا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

18:َ ” من خشی۔ الایۃ “ یہ المتقین یا اواب سے بدل ہے (بحر، روح) ۔ اس صورت میں ادخلوھا سے پہلے ” یقال لہم “ مقدر ہوگا یا مبتدا ہے اور ادخلوھا بتقدیر یقال لہم اس کی خبر ہے (مدارک) ۔ یا منادی ہے اور حرف نداء محذوف ہے ای یا من خشی الرحمن الخ، اور ادخلوھا الخ، مقصود بالنداء ہے (الشیخ (رح) تعالیٰ ) ۔ ” بالغیب “ یعنی اللہ کو دیکھے بغیر اس کے عذاب سے ڈرتا رہا یعی خشی عقابہ وھو غائب من اللہ تعالیٰ یعنی فی الدنیا حین لم یرہ (مظیر ج 9 ص 73) ۔ ” قلب منیب “ اللہ کی طرف رجوع وانابت کرنے والا دل۔ یعنی یہ جنت ان لوگوں کے لیے ہے جو بغیر دیکھے خدا کے عذاب سے ڈرتے رہے اور اللہ ہی سے لو لگائے رکھی، اس کے اوامر کی اطاعت کرتے رہے اور معاصی مجتنب رہے۔ ” بسلام “ یعنی جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔ یہاں عذاب اور ہر فکر و غم سے محفوظ و سلامت رہوگے، جنت کی نعمتیں زوال سے محفوظ ہوں گی اور تم موت سے محفوظ ہوگے۔ ” ذلک یوم الخلود “ اس طرح آج کا دن خلود اور دائمی زندگی کی ابتداء ہے۔ ” لہم ما یشاؤون۔ الایۃ “ جنت میں انہیں ہر وہ چیز ملے گی جس کی وہ خواہش کریں گے بلکہ وہاں اور بھی بیشمار نعمتیں ہوں گی جو ان کے وہم و خیال اور ان کی خواہش سے باہر ہوں گی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(33) جو رحمان سے بن دیکھے اور غائبانہ ڈرتا رہا اور اللہ تعالیٰ کی جناب میں رجوع ہونے والا دل لے کر حاضر ہوا۔