Surat Qaaf

Surah: 50

Verse: 35

سورة ق

لَہُمۡ مَّا یَشَآءُوۡنَ فِیۡہَا وَلَدَیۡنَا مَزِیۡدٌ ﴿۳۵﴾

They will have whatever they wish therein, and with Us is more.

یہ وہاں جو چاہیں انہیں ملے گا ( بلکہ ) ہمارے پاس اور بھی زیادہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لَهُم مَّا يَشَاوُونَ فِيهَا ... There they will have all that they desire, means, whatever delights they wish and desire, they will find it brought before them. Allah's statement, ... وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ and We have more. is similar to His other statement, لِّلَّذِينَ أَحْسَنُواْ الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ For those who have done good is the best and even more....  (10:26) In the Sahih, Muslim recorded that Suhayb bin Sinan Ar-Rumi said; `more' refers to looking at the Most Honorable Face of Allah.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

35۔ 1 اس سے مراد رب تعالیٰ کا دیدار ہے جو اہل جنت کو نصیب ہوگا۔ (لِلَّذِيْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِيَادَةٌ) 10 ۔ یونس :26) ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤١] جنت کی سب سے بڑی نعمت & اللہ کی رضامندی :۔ یعنی وہ کچھ تو ملے گا ہی جس کی وہ خواہش کریں گے علاوہ ازیں کچھ ایسی نعمتیں بھی انہیں ملیں گی جو ان کے تصور میں بھی نہ ہوں گی۔ چناچہ سیدنا ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت سے فرمائے گا && اے اہل جنت !&&... ; وہ کہیں گے : ہمارے پروردگار ! ہم حاضر اور تیری خدمت کے لئے مستعد ہیں۔ بھلائی تیرے ہی دونوں ہاتھوں میں ہے && اللہ تعالیٰ فرمائے گا :&& اب تم خوش ہو ؟ && وہ جواب دیں گے : پروردگار ! ہم کیوں خوش نہ ہوں گے۔ تو نے ہمیں وہ کچھ عطا فرما دیا ہے جو اپنی مخلوق میں سے اور کسی کو عطا نہیں فرمایا && اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا میں تمہیں ایسی نعمت عطا نہ کروں جو ان سب نعمتوں سے بڑھ کر ہے ؟ && جنتی پوچھیں گے : پروردگار ! ان نعمتوں سے بڑھ کر اور کیا نعمت ہوسکتی ہے ؟ && اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میں تم پر اپنی رضا مندی اتارتا ہوں۔ اس کے بعد میں کبھی تم سے ناراض نہ ہوں گا && (بخاری۔ کتاب التوحید۔ باب کلام الرب مع اہل الجنۃ)   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) لھم مایشآء و ن فیھا : اس کی تفسیر کیلئے دیکھیے سورة حم السجدہ (٣١) اور سورة زخرف (٧١) ۔ (٢) ولدینا مرید : یعنی جو کچھ وہ چاہیں گے وہ بھی ملے گا اور ہمارے پاس مزید بھی بہت کچھ ہے، جس مں وہ چیزیں ہیں جن کا خیال تک کسی کو نہیں آیا۔ (دیکھیے سجدہ : ١٧) اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا دیدار بھی ۔ دیکھ... یے سورة یونس (٢٦) ۔۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Verse [ 35] depicts the delights of Paradise: The first part states لَهُم مَّا يَشَاءُونَ فِيهَا (For them there will be whatever they wish,,,,, 50:35]. In other words, the righteous will have whatever delights they wish brought forthwith without any delay. It is recorded in Musnad of Ahmad on the authority of Sayyidna Abu Said Khudri (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: |"I... f anyone in Paradise wishes for children, the conception, delivery of the baby and its growth will all take place in a short span of time.|" (Ibn Kathir) The second part of the verse states: وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ (and with Us there is even more.) In other words, there are with Allah such desirable delights which have not been conceived of by any man and, therefore, they could not wish or desire for them. Sayyidna Anas and Jabir (رض) said that |"more|" in this context refers to the greatest reward of enabling the people of Jannah to see Allah bila kaif [ without |"how|" or in an indescribable manner ]. This, according to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، is similar to His other statement in [ 10:26] لِّلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةٌ |"For those who have done good is the best and even more.|" Some reports narrate that the inmates of Paradise will see Allah on Friday [ Qurtubi ]  Show more

(آیت) لَهُمْ مَّا يَشَاۗءُوْنَ فِيْهَا (یعنی اہل جنت کو جنت میں ہر وہ چیز ملے گی جس کی وہ خواہش کریں گے) یعنی اہل جنت جس چیز کی خواہش کریں گے وہ فوراً حاضر تیار ملے گی، دیر و انتظار کی زحمت نہ ہوگی مسند احمد میں حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جنت م... یں اگر کسی شخص کو اولاد کی خواہش ہوگی تو حمل اور وضع حمل، پھر بچے کا بڑھنا یہ سب ایک ساعت میں ہوجائے گا (ابن کثیر) وَلَدَيْنَا مَزِيْدٌ، یعنی ہمارے پاس ایسی نعمتیں بھی ہیں جن کی طرف انسان کا وہم و خیال بھی نہیں جاسکتا اس لئے وہ ان کی خواہش بھی نہیں کرسکتا، حضرت انس اور جابر نے فرمایا کہ یہ مزید نعمت حق تعالیٰ کی زیارت بلا کیف ہے جو اہل جنت کو حاصل ہوگی، اس مضمون کی احادیث خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی آیت للذین احسنوا الحسنی و زیادة کی تفسیر میں روایت کی گئی ہے اور بعض روایات میں ہے کہ اہل جنت کو زیارت حق سبحانہ و تعالیٰ جمعہ کے روز ہوا کرے گی۔ (قرطبی)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَہُمْ مَّا يَشَاۗءُوْنَ فِيْہَا وَلَدَيْنَا مَزِيْدٌ۝ ٣٥ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ... ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ لدی لَدَى يقارب لدن . قال تعالی: وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] . ( ل د ی ) لدی یہ تقریبا لدن کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] اور دونوں کو دروازے کے پاس عورت کا خاوند مل گیا  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٥{ لَہُمْ مَّا یَشَآئُ وْنَ فِیْہَا وَلَدَیْنَا مَزِیْدٌ ۔ } ” ان کے لیے اس میں وہ سب کچھ ہوگاجو وہ چاہیں گے ‘ اور ہمارے پاس مزید بھی بہت کچھ ہے ۔ “ قرآن کے مختلف مقامات پر جنت کی نعمتوں کا جو تعارف ملتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کی نعمتوں کے تین درجے ہیں ۔ نفس انسانی کے بنیادی تقاضوں کی ... تسکین کا بھرپور سامان تو جنت میں پہلے سے موجود ہوگا۔ اس کے علاوہ ہر شخص اپنی پسند ‘ ذوق اور خواہش کے مطابق جو کچھ طلب کرے گا وہ بھی اسے فراہم کیا جائے گا۔ ظاہر ہے ہر شخص کی طلب اپنے ذوق اور معیار کے مطابق ہوگی۔ ایک سادہ لوح دیہاتی اپنی پسند کے مطابق کوئی چیز مانگے گا اور ایک حکیم و فلسفی اپنے ذوق کی تسکین چاہے گا۔ البتہ اس حوالے سے کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو کچھ بھی طلب نہیں کریں گے ‘ وہ لوگ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ (الکہف : ٢٨) کے مصداق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی رضا کے طالب ہوں گے۔ جیسے رابعہ بصری (رح) کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ایک مرتبہ جذب کے عالم میں ایک مشعل اور پانی کا لوٹا لیے گھر سے نکلیں ۔ لوگوں کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ میں اس آگ سے جنت کو جلانے نکلی ہوں اور اس پانی سے میں جہنم کی آگ کو بجھا دینا چاہتی ہوں تاکہ لوگ اللہ سے خالص اس کی ذات کے لیے محبت کریں نہ کہ جنت کے لالچ اور جہنم کے خوف کی وجہ سے اسے چاہیں۔ بہرحال جنت میں وہ لوگ بھی ہوں گے جنہیں اللہ کی رضا کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے ہوگا۔ جبکہ ان دو اقسام کے علاوہ تیسری قسم کی نعمتیں وہ ہوں گی جو انسانی تصور سے بالاتر ہیں اور آیت زیر مطالعہ کے الفاظ ” وَلَدَیْنَا مَزِیْدٌ“ میں انہی نعمتوں کی طرف اشارہ ہے۔ سورة السجدۃ میں جنت کی ان نعمتوں کا ذکر اس طرح ہوا ہے : { فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّــآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍج } (آیت ١٧) ” پس کوئی جان یہ نہیں جانتی کہ ان (اہل جنت) کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے “۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی وضاحت ان الفاظ میں فرمائی ہے : (قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ : اَعْدَدْتُ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالاَ عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ ، فَاقْرَئُ وْا اِنْ شِئْتُمْ : فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا اُخْفِیَ لَھُمْ مِنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ ) (١) ” اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : میں نے اپنے صالح بندوں کے لیے (جنت میں) وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ‘ نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا گمان ہی گزرا۔ (پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ) اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو : ” پس کوئی جان یہ نہیں جانتی کہ ان (اہل جنت) کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کچھ چھپا کررکھا گیا ہے۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

45 That is, "They will certainly get whatever they desire, but in addition We will also give them that which they have never conceived and, therefore, could not desire."

سورة قٓ حاشیہ نمبر :45 یعنی جو کچھ وہ چاہیں گے وہ تو ان کے ملے گا ہی ، مگر اس پر مزید ہم انہیں وہ کچھ بھی دیں گے جس کا کوئی تصور تک ان کے ذہن میں نہیں آیا ہے کہ وہ اس کے حاصل کرنے کی خواہش کریں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

14: جنت کی نعمتوں کی کچھ اجمالی جھلک تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی مختلف آیتوں میں بیان فرمائی ہے، لیکن جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے، اللہ تعالیٰ نے جنت میں وہ نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جو کسی آنکھ نے دیکھی نہیں، کسی کان نے سنی نہیں، اور کسی شخص کے دل میں اس کا خیال بھی پیدا نہیں ہوا، یہاں بڑے بلیغ انداز...  میں اللہ تعالیٰ نے ان نعمتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہمارے پاس کچھ اور زیادہ بھی ہے، انہی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت اللہ تعالیٰ کا دیدار بھی ہے، مزید دیکھیے سورۂ یونس (١٠۔ ٢٦)  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(50:35) مایشاء ون : ما موصولہ۔ یشاء ون مضارع جمع مذکر غائب صلہ۔ مشیۃ (باب فتح) مصدر وہ چاہتے ہیں یاد و چاہیں گے فیہا : ای فی الجنۃ۔ جنت میں۔ الدنیا مزید : واؤ عاطفہ لدینا مضاف مضاف الیہ ۔ ہمارے پاس ۔ مزید زیادہ ۔ زیادتی۔ زیادۃ سے مصدر میمی۔ یہ جملہ سابقہ جملہ سے حال ہے اور حال یہ ہے کہ ہمارے پاس...  (ان کے لئے) اس سے بھی زیادہ ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی جو کھ وہ چاہیں گے وہ تو انہیں ملے گا ہی اس کے علاو ہہم انہیں اتنا کچھ اور دیں گے جس کا تصور تک ان کے ذہن میں نہیں آیا کہ وہ اس کی خواہش کریں … یا ” مزید “ سے مراد دیدار الٰہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا للذین احسنوا الحسنی کی وزیادۃ جنہوں نے نیک کی ان کو بھلائی ملے گی اور کچھ بڑھ کر بھی یون... س 26 حضرت انس فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر روز انہیں اپنی تجلی سے نوازے گا۔ (ابن کثیر)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لھم م یشاءون فیھا ولدینا مزید (٥٠ : ٣٥) ” وہاں ان کے لئے وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے اور ہمارے پاس اس سے زیادہ بھی بہت کچھ ہے ان کے لئے “۔ وہ جس قدر چاہیں اللہ کے انعامات کی انتہا تک نہیں جاسکتے اور اللہ کے ہاں جو مزید ہے وہ لامحدود ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(35) ان کو اس بہشت میں جو وہ چاہیں گے وہ ملے گا اور میسر ہوگا اور ہمارے پاس ان کی چاہی ہوئی چیزوں سے اور بھی زیادہ ہے حدیث میں آتا ہے جس شخص نے شروع دن میں اور دن کے ابتدائی حصے میں چاررکعتیں پڑھنے پر مداومت کی اور چاررکعتیں ہر روز پابندی سے پڑھتا رہا تو وہ شخص اداب حفیظ میں داخل ہے یہ نماز اشتراق ک... ی چار رکعتیں ہیں گو اشراق کی نماز پر حفاظت رکھنے والے کو اداب حفیظ کہا گیا ہے۔ من خشی الرحمن یا تو اداب سے بدل ہے اور یا مبتدار ہے۔ بہرحال رحمان سے ڈرتا ہے اور باوجود اس علم کے کہ رحمان وسیع الرحمت ہے پھر بھی ڈرتا رہتا ہے۔ قلب منیب رجوع رکھنے والا دل یعنی صحیح عقیدہ رکھنے والا دل یا گناہوں سے نیکیوں کی طرف رجوع کرنے والا یا گناہ کرکے توبہ کرنے والا بہرحال اداب کے بہت سے معنی کئے گئے ہیں۔ اسی طرح منیب کے بھی بہت سے معنی کئے ہیں اخلاص رکھنے والا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی طرف متوجہ ہونے والا، سلامتی کے ساتھ داخل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عذاب سے سلامتی یا تفکرات اور ہر قسم کی تکلیف سے سلامتی ۔ یا اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کے سلام کے ساتھ والدینا فرید۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی رویت اور ان کا دیدار جو بلاکیف ہوگا یا اللہ تعالیٰ کے ارضی ہونے اور کبھی ناراض نہ ہونے کا اعلان۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جو نعمتیں ان کے خیال میں نہیں۔ آگے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی اور وقوع قیامت اور مردوں کے زندہ ہونے کا مضمون ہے۔  Show more