Removal of a Doubt relating to Resurrection قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنقُصُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ (We know very well how much of them is diminished by the earth,... 50:4). The disbelievers wondered at the idea that when they are dead and reduced to broken bones and particles of dust and scattered all over the world, whether it is possible that, on the Day of Resurrection, they will be raised up again. They thought that it was impossible when they are dead, disintegrated, with their organs torn apart that they will be brought back to their original shape and bodies. The verse refutes the disbelievers& objection: Allah says that He knows that which the earth takes of them, meaning He knows what the earth consumes of their dead bodies; where and how the bodies disintegrated, what they turned into and how they have become. Man&s knowledge is limited and narrow in scope which should not be compared to Allah&s vast, unlimited and encompassing knowledge - even the particles of objects which the earth disintegrates are well preserved in Allah&s infinite knowledge. And a little reflection may reveal that even the body of a living person is composed of innumerable particles that have been joined together by Allah from different places. Whatever a person intakes in the form of food or medicine is derived from different parts of the earth, and all this forms part of his body. Then why should it be difficult for Him if He recollects all these parts after they are disintegrated? Not only this, he had a perfect and full knowledge of every man&s destiny even before creating him as to what transformation will come about in every moment of his life and what phases he will go through after his death. All this is precisely recorded in the Preserved Tablet. It is astonishing indeed that the disbelievers wonder at Him whose knowledge is so perfect, full, complete and encompassing and whose power is so infinite and discount the possibility of Resurrection! This interpretation of &diminishing by earth& is reported from Sayyidna Ibn ` Abbas, Mujahid and majority of the interpreters (Al-Bahr-ul-Muhit). فِي أَمْرٍ مَّرِيجٍ (so they are in a confused state... 5). The word Mar, (translated above as &confused& ) means something mixed up with different elements. Such a thing generally becomes corrupt or spoiled. Therefore, Sayyidna Abu Hurairah (رض) ، translates the word marij as |"corrupt|". Sayyidna Dahhak, Qatadah, Hasan Basri رحمۃ اللہ علیہم and others interpret the word marij to mean |"in disarray, in a confused state|". This is the state of those who deny the prophethood of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : whatever they say and utter is no more than confusion. They are not even consistent in their claims. Sometimes they call the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) a sorcerer, at other times a poet; and yet at other times they refer to him as a soothsayer or an astrologer. They were so confused that they could not extricate themselves from their perplexity.
احیاء بعد الموت پر مشہور شبہ کا جواب : (آیت) قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ مِنْهُمْ ، کفار و مشرکین جو قیامت میں بعث بعد الموت (یعنی مردوں کے زندہ ہونے) کا انکار کرتے ہیں ان کی سب سے بڑی دلیل یہ تعجب ہے کہ مرنے کے بعد انسان کے اکثر اجزاء جسم مٹی ہوجاتے ہیں، پھر وہ مٹی منتشر ہو کر دنیا میں پھیل جاتی ہے، پانی اور ہوا اس کے ذرات کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں، قیامت میں دوبارہ زندہ کرنے کے لئے ساری دنیا میں بکھرے ہوئے اجزاء کو معلوم رکھنا کہ یہ جز فلاں کا ہے، یہ فلاں کا اور پھر ہر ایک کے اجزاء کو الگ الگ جمع کردینا کس کے بس کی بات ہے ؟ قرآن کریم نے اس کا جواب دیا کہ انسان اپنے محدود علم و بصیرت پر اللہ تعالیٰ کے غیر محدود و لامتناہی علم کو قیاس کر کے اس گمراہی میں پڑتا ہے ( قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ ) اللہ تعالیٰ کا علم تو اتنا وسیع اور محیط ہے کہ مرنے کے بعد انسان کا ایک ایک جز اس کی نظر میں ہے، وہ جانتا ہے کہ مردے کے کس کس حصہ کو زمین نے کھالیا ہے، کیونکہ اس کی کچھ ہڈیاں تو اللہ تعالیٰ نے ایسی بنائی ہیں کہ ان کو زمین نہیں کھاتی اور جن کو زمین کھا کر مٹی کردیتی ہے پھر وہ مٹی دنیا جہان کے جس گوشہ میں پہنچتی ہے وہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہے، جب وہ چاہے گا سب کو ایک جگہ جمع کر دے گا اور ذرا غور کرو تو اس وقت ہر انسان کا جسم جن اجزاء سے مرکب چلتا پھرتا نظر آتا ہے اس میں بھی تو ساری دنیا کے مختلف گوشوں کے اجزاء جمع ہیں، کوئی غذا کی صورت میں کوئی دوا کی صورت میں سارے عالم کے مختلف شہروں اور جنگلوں کے اجزاء ہی تو ہیں جن سے یہ موجودہ جسم مرکب ہوا ہے، پھر اس کے لئے کیا دشوار ہے کہ دوبارہ ان اجزاء کو دنیا میں منتشر کرنے کے بعد پھر ایک جگہ جمع کر دے اور صرف یہی نہیں کہ اب مرنے اور مٹی ہونے کے بعد انسان کے یہ اجزاء اس کے علم میں آئے ہوں، بلکہ انسان کے پیدا کرنے سے پہلے ہی اس کی زندگی کا ہر ہر لمحہ اور اس میں پیدا ہونے والے تغیرات اور پھر مرنے کے بعد اس پر کیا کیا حالات پیش آئیں گے وہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس پہلے سے لکھا ہوا لوح محفوظ میں موجود ہے۔ پھر جو ایسا علیم وبصیر ہے اور جس کی قدرت اتنی کامل اور سب چیزوں پر حاوی ہے اس کے متعلق یہ تعجب کرنا خود قابل تعجب ہے، مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ کی یہ تفسیر حضرت ابن عباس اور مجاہد اور جمہور مفسرین سے منقول ہے (بحرمحیط) فی امر مریج، لفظ مریج کے معنی لغت میں مختلط کے ہیں، جس میں مختلف چیزوں کا اختلاط اور التباس ہو اور ایسی چیز عموماً فاسد ہوتی ہے، اسی لئے حضرت ابوہریرہ نے مریج کا ترجمہ فاسد سے فرمایا اور ضحاک اور قتادہ اور حسن بصری وغیرہ نے مختلط اور ملتبس سے فرمایا ہے، مراد یہ ہے کہ یہ کفار و منکرین رسالت اپنے انکار میں بھی کسی ایک بات پر نہیں جمتے، کبھی آپ کو ساحر و جادوگر بناتے ہیں، کبھی شاعر کہتے ہیں، کبھی کاہن و نجومی کہتے ہیں، ان کا کلام خود ملتبس اور فاسد ہے جواب کس کا دیا جائے۔ آگے حق تعالیٰ کی قدرت مطلقہ کاملہ کا بیان ہے جو آسمان و زمین اور ان کے اندر پیدا ہونے والی بڑی بڑی چیزوں کی تخلیق کے حوالہ سے کیا گیا ہے اس میں آسمان کے متعلق فرمایا (آیت) وَمَا لَهَا مِنْ فُرُوْجٍ ، فروج، فرج کی جمع ہے جس کے معنی شق کے آتے ہیں، مراد یہ ہے کہ آسمان کا اتنا بڑا عظیم الشان کرہ حق تعالیٰ نے بنایا ہے اگر انسان کی بنائی ہوئی چیز ہوتی تو اس میں ہزار جوڑ و پیوند اور شقوق کے نشانات پائے جاتے مگر تم آسمان کو دیکھتے ہو اس میں نہ کوئی پیوند لگا ہوا ہے نہ کسی جگہ سے جڑائی اور سلائی کے نشان نظر آتے ہیں اس سے اس کی نفی نہیں ہوتی کہ آسمان میں اللہ تعالیٰ نے دروازے بنائے ہیں، دروازے کو شق نہیں کہا جاتا۔