Surat Qaaf

Surah: 50

Verse: 4

سورة ق

قَدۡ عَلِمۡنَا مَا تَنۡقُصُ الۡاَرۡضُ مِنۡہُمۡ ۚ وَ عِنۡدَنَا کِتٰبٌ حَفِیۡظٌ ﴿۴﴾

We know what the earth diminishes of them, and with Us is a retaining record.

زمین جو کچھ ان میں سے گھٹاتی ہے وہ ہمیں معلوم ہے اور ہمارے پاس سب یاد رکھنے والی کتاب ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنقُصُ الاَْرْضُ مِنْهُمْ ... We know that which the earth takes of them. meaning, `We know what the earth consumes of their dead bodies.' Where and how the bodies disintegrated, what they turned into and how they have become, all of this is never absent from Allah's knowledge. ... وَعِندَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ and with Us is a Book preserved, `that keeps all records. Therefore, Our knowledge is encompassing and the Book of decrees has everything precisely recorded in it. Al-`Awfi narrated that Abdullah bin Abbas commented on the statement of Allah the Exalted, قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنقُصُ الاَْرْضُ مِنْهُمْ (We know that which the earth takes of them), "It refers to what the earth consumes of their flesh, skin, bones and hair." A similar view was recorded from Mujahid, Qatadah, Ad-Dahhak and several others. Allah, the Exalted and Most Honored, explained the reason behind their disbelief, rebellion and discounting the possibility of what is truly possible, بَلْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءهُمْ فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَّرِيجٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 یعنی زمین انسان کے گوشت، ہڈی اور بال وغیرہ بوسیدہ کر کے کھا جاتی ہے یعنی اسے ریزہ ریزہ کردیتی ہے وہ نہ صرف ہمارے علم میں ہے بلکہ لوح محفوظ میں بھی درج ہے اس لئے ان تمام اجزا کو جمع کر کے انہیں دوبارہ زندہ کردینا ہمارے لئے قطعًا مشکل امر نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥] دوسرے اعتراض کا جواب :۔ حالانکہ ان کا یہ اعتراض محض ان کی کم عقلی اور عدم معرفت الٰہی کی بنا پر ہے۔ وہ اللہ کے علم اور اس کی قدرت کی وسعت کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ پہلی چیز تو یہ ہے کہ ان کی ہر چیز مٹی میں نہیں چلی جاتی بلکہ ان کی روح اللہ کے قبضہ میں چلی جاتی ہے۔ دوسری چیز یہ کہ ان کے جسم کے ذرات اگر مٹی میں مل بھی جائیں تو بھی وہ سب ذرات اللہ کے علم میں ہوتے ہیں۔ اور وہ جب چاہے ان ذرات کو اکٹھا کرکے پھر سے انسان کی شکل دے کر اور اس میں اس کی روح ڈال کر پھر سے زندہ کرسکتا ہے۔ تیسری چیز یہ ہے کہ ان کے ذرات کا اللہ کو علم ہی نہیں بلکہ اس کے پاس ہر چیز پہلے سے لکھی ہوئی بھی موجود اور محفوظ ہے۔ پھر جو چیز علم میں بھی ہو اور ضبط تحریر میں بھی آچکی ہو، اس کے یقینی ہونے میں کیا شک باقی رہ جاتا ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) قد علمنا ما تنقص الارض منھم : وہ دوبارہ زندہ ہونے کو اس لئے بعید کہہ رہے تھے کہ مٹی ہونے کے بعد اس کے ذرات تو سب ایک جیسے ہوجاتے ہیں، پھر جب ان کی مٹی کی دوسری مٹی سے پہچان ہی ختم ہوگئی تو وہ دوبارہ کیسے زندہ ہوسکتے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس شبہے کو رد کرتے ہیں فرمایا :(قد علمنا)” یقینا ہم جان چکے، یعنی ہمیں پہلے ہی سے معلوم ہے کہ مرنے کے بعد زمین ان کے جسم میں سے جن جن اجزا کو کم کرے گی اور انہیں مٹی میں بدلتی جائے گی وہ جہاں کہاں ہوں گے، ہمارے علم سے ایک ذرہ بھی باہر نہیں ہے۔ ” منھم “ میں لفظ ” من “ تبعیض کیلئے ہے اس میں اشارہ ہے کہ انسان کے تمام اجزا مٹی نہیں ہوتے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(لیس من الانسان شی الا یبلی الا عظماً واحدا وھو عجب الذنب و منہ برکب الخلق یوم القیامۃ) (مسلم، الفتن ، باب ما بین النفختین :2955 عن ابی ہریرہ (رض) )” انسان کی ہر چیز بوسیدہ ہوجاتی ہے سوائے ایک ہڈی کے جو ذم کی ہڈی ہے اور قیامت کے دن مخلوق کو اسی سے جوڑا جائے گا۔ “ (٢) وعندنا کتب حفظ :” حفیظ “ مبالغے کا صیغہ ہے۔ چونکہ لوگ لکھی ہوئی بات کو زیادہ معتبر سمجھتے ہیں اس لئے ان کی عام عادت کو مدنظر رکھتے ہوئے فرمایا، ان کا ذرہ ذرہ ہمارے علم میں ہونے کے علاوہ اس کتاب میں بھی درج ہے جو خوب محفوظ رکھنے والی ہے۔ پھر ہمارے لئے ان ذرات کو دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ہے ؟ “ کتب حفیظ “ سے اکثر مفسرین نے لوح محفوظ مراد لی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی وہ سب کچھ لکھ دیا ہے جو آئندہ ہونے والا ہے، اس میں ان کے ہر ذرے کے متعلق بھی درج ہے کہ وہ کہاں ہوگا۔” کتب حفیظ “ سے مراد ایسیک تاب بھی ہوسکتی ہے جس میں ہر انسان کا نام، اس کے اعمال اور اس پر زندگی میں اور متو کے بعد گزرنے والے تمام احوال ساتھ ساتھ درج ہوتے جاتے ہوں، حتیٰ کہ یہ بھی کہ مرنے کے بعد اس کے جسم کا کوئی بھی ذرہ کہاں کہاں منتقل ہوا اور کہاں موجود ہے۔ اس لئے قیامت کا انکار سا بنا پر درست نہیں کہ مٹی ہوجانے کے بعد وہ ذرات کیسے جمع کئے جائیں گے۔ کفار کو دوبارہ زندگی کا یقین دلانے کے لئے ” کتب حفیظ “ کا یہ مفہوم الفاظ کے زیادہ قریب ہے۔ (واللہ اعلم)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Removal of a Doubt relating to Resurrection قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنقُصُ الْأَرْ‌ضُ مِنْهُمْ (We know very well how much of them is diminished by the earth,... 50:4). The disbelievers wondered at the idea that when they are dead and reduced to broken bones and particles of dust and scattered all over the world, whether it is possible that, on the Day of Resurrection, they will be raised up again. They thought that it was impossible when they are dead, disintegrated, with their organs torn apart that they will be brought back to their original shape and bodies. The verse refutes the disbelievers& objection: Allah says that He knows that which the earth takes of them, meaning He knows what the earth consumes of their dead bodies; where and how the bodies disintegrated, what they turned into and how they have become. Man&s knowledge is limited and narrow in scope which should not be compared to Allah&s vast, unlimited and encompassing knowledge - even the particles of objects which the earth disintegrates are well preserved in Allah&s infinite knowledge. And a little reflection may reveal that even the body of a living person is composed of innumerable particles that have been joined together by Allah from different places. Whatever a person intakes in the form of food or medicine is derived from different parts of the earth, and all this forms part of his body. Then why should it be difficult for Him if He recollects all these parts after they are disintegrated? Not only this, he had a perfect and full knowledge of every man&s destiny even before creating him as to what transformation will come about in every moment of his life and what phases he will go through after his death. All this is precisely recorded in the Preserved Tablet. It is astonishing indeed that the disbelievers wonder at Him whose knowledge is so perfect, full, complete and encompassing and whose power is so infinite and discount the possibility of Resurrection! This interpretation of &diminishing by earth& is reported from Sayyidna Ibn ` Abbas, Mujahid and majority of the interpreters (Al-Bahr-ul-Muhit). فِي أَمْرٍ‌ مَّرِ‌يجٍ (so they are in a confused state... 5). The word Mar, (translated above as &confused& ) means something mixed up with different elements. Such a thing generally becomes corrupt or spoiled. Therefore, Sayyidna Abu Hurairah (رض) ، translates the word marij as |"corrupt|". Sayyidna Dahhak, Qatadah, Hasan Basri رحمۃ اللہ علیہم and others interpret the word marij to mean |"in disarray, in a confused state|". This is the state of those who deny the prophethood of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : whatever they say and utter is no more than confusion. They are not even consistent in their claims. Sometimes they call the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) a sorcerer, at other times a poet; and yet at other times they refer to him as a soothsayer or an astrologer. They were so confused that they could not extricate themselves from their perplexity.

احیاء بعد الموت پر مشہور شبہ کا جواب : (آیت) قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ مِنْهُمْ ، کفار و مشرکین جو قیامت میں بعث بعد الموت (یعنی مردوں کے زندہ ہونے) کا انکار کرتے ہیں ان کی سب سے بڑی دلیل یہ تعجب ہے کہ مرنے کے بعد انسان کے اکثر اجزاء جسم مٹی ہوجاتے ہیں، پھر وہ مٹی منتشر ہو کر دنیا میں پھیل جاتی ہے، پانی اور ہوا اس کے ذرات کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں، قیامت میں دوبارہ زندہ کرنے کے لئے ساری دنیا میں بکھرے ہوئے اجزاء کو معلوم رکھنا کہ یہ جز فلاں کا ہے، یہ فلاں کا اور پھر ہر ایک کے اجزاء کو الگ الگ جمع کردینا کس کے بس کی بات ہے ؟ قرآن کریم نے اس کا جواب دیا کہ انسان اپنے محدود علم و بصیرت پر اللہ تعالیٰ کے غیر محدود و لامتناہی علم کو قیاس کر کے اس گمراہی میں پڑتا ہے ( قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ ) اللہ تعالیٰ کا علم تو اتنا وسیع اور محیط ہے کہ مرنے کے بعد انسان کا ایک ایک جز اس کی نظر میں ہے، وہ جانتا ہے کہ مردے کے کس کس حصہ کو زمین نے کھالیا ہے، کیونکہ اس کی کچھ ہڈیاں تو اللہ تعالیٰ نے ایسی بنائی ہیں کہ ان کو زمین نہیں کھاتی اور جن کو زمین کھا کر مٹی کردیتی ہے پھر وہ مٹی دنیا جہان کے جس گوشہ میں پہنچتی ہے وہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہے، جب وہ چاہے گا سب کو ایک جگہ جمع کر دے گا اور ذرا غور کرو تو اس وقت ہر انسان کا جسم جن اجزاء سے مرکب چلتا پھرتا نظر آتا ہے اس میں بھی تو ساری دنیا کے مختلف گوشوں کے اجزاء جمع ہیں، کوئی غذا کی صورت میں کوئی دوا کی صورت میں سارے عالم کے مختلف شہروں اور جنگلوں کے اجزاء ہی تو ہیں جن سے یہ موجودہ جسم مرکب ہوا ہے، پھر اس کے لئے کیا دشوار ہے کہ دوبارہ ان اجزاء کو دنیا میں منتشر کرنے کے بعد پھر ایک جگہ جمع کر دے اور صرف یہی نہیں کہ اب مرنے اور مٹی ہونے کے بعد انسان کے یہ اجزاء اس کے علم میں آئے ہوں، بلکہ انسان کے پیدا کرنے سے پہلے ہی اس کی زندگی کا ہر ہر لمحہ اور اس میں پیدا ہونے والے تغیرات اور پھر مرنے کے بعد اس پر کیا کیا حالات پیش آئیں گے وہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس پہلے سے لکھا ہوا لوح محفوظ میں موجود ہے۔ پھر جو ایسا علیم وبصیر ہے اور جس کی قدرت اتنی کامل اور سب چیزوں پر حاوی ہے اس کے متعلق یہ تعجب کرنا خود قابل تعجب ہے، مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ کی یہ تفسیر حضرت ابن عباس اور مجاہد اور جمہور مفسرین سے منقول ہے (بحرمحیط) فی امر مریج، لفظ مریج کے معنی لغت میں مختلط کے ہیں، جس میں مختلف چیزوں کا اختلاط اور التباس ہو اور ایسی چیز عموماً فاسد ہوتی ہے، اسی لئے حضرت ابوہریرہ نے مریج کا ترجمہ فاسد سے فرمایا اور ضحاک اور قتادہ اور حسن بصری وغیرہ نے مختلط اور ملتبس سے فرمایا ہے، مراد یہ ہے کہ یہ کفار و منکرین رسالت اپنے انکار میں بھی کسی ایک بات پر نہیں جمتے، کبھی آپ کو ساحر و جادوگر بناتے ہیں، کبھی شاعر کہتے ہیں، کبھی کاہن و نجومی کہتے ہیں، ان کا کلام خود ملتبس اور فاسد ہے جواب کس کا دیا جائے۔ آگے حق تعالیٰ کی قدرت مطلقہ کاملہ کا بیان ہے جو آسمان و زمین اور ان کے اندر پیدا ہونے والی بڑی بڑی چیزوں کی تخلیق کے حوالہ سے کیا گیا ہے اس میں آسمان کے متعلق فرمایا (آیت) وَمَا لَهَا مِنْ فُرُوْجٍ ، فروج، فرج کی جمع ہے جس کے معنی شق کے آتے ہیں، مراد یہ ہے کہ آسمان کا اتنا بڑا عظیم الشان کرہ حق تعالیٰ نے بنایا ہے اگر انسان کی بنائی ہوئی چیز ہوتی تو اس میں ہزار جوڑ و پیوند اور شقوق کے نشانات پائے جاتے مگر تم آسمان کو دیکھتے ہو اس میں نہ کوئی پیوند لگا ہوا ہے نہ کسی جگہ سے جڑائی اور سلائی کے نشان نظر آتے ہیں اس سے اس کی نفی نہیں ہوتی کہ آسمان میں اللہ تعالیٰ نے دروازے بنائے ہیں، دروازے کو شق نہیں کہا جاتا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ مِنْہُمْ۝ ٠ ۚ وَعِنْدَنَا كِتٰبٌ حَفِيْظٌ۝ ٤ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ نقص النَّقْصُ : الخُسْرَانُ في الحَظِّ ، والنُّقْصَانُ المَصْدَرُ ، ونَقَصْتُهُ فهو مَنْقُوصٌ. قال تعالی: وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَالْأَنْفُسِ [ البقرة/ 155] ، وقال : وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنْقُوصٍ [هود/ 109] ، ( ن ق ص ) النقص ( اسم ) حق تلفی اور یہ نقصتہ ( ن ) فھو منقو ص کا مصدر بھی ہے جس کے معنی گھٹانے اور حق تلفی کر نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَالْأَنْفُسِ [ البقرة/ 155] اور جانوں اور مالوں ۔۔۔۔ کے نقصان سے وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنْقُوصٍ [هود/ 109] اور ہم ان کو ان کا حصہ پورا پوارا کم وکاست دینے والے ہیں ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو حفظ الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] ( ح ف ظ ) الحفظ کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اللہ تعالیٰ ان کی اس بات میں فرماتا ہے کہ ہم ان کے ان اجزا کو جانتے ہیں جن کو ان کے مرنے کے بعد مٹی کھاتی اور کم کرتی ہے اور جو اجزا چھوڑتی ہے۔ اور ہمارے پاس ایسی کتاب جو شیطانی تصرفات سے محفوط یعنی لوح محفوظ میں موجود ہے اس میں ان کا مرنا اور قید میں ٹھہرنا اور پھر قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہونا سب لکھا ہوا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤ { قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ مِنْہُمْ ج } ” ہم خوب جانتے ہیں کہ زمین ان میں سے کیا چیز کم کرتی ہے۔ “ ” ہم “ کے صیغے کے ساتھ یہ شاہانہ اندازِ بیان ہے۔ انسانوں کے دفن ہونے کے بعد زمین ان کے جسموں کے ساتھ کیا معاملہ کرتی ہے ‘ ہر انسان کا کون سا عضو کیسے ضائع ہوتا ہے اور پھر ان کے اجزاء کس کس صورت میں کہاں کہاں جاتے ہیں ‘ ہمیں ایک ایک چیز کا علم ہے۔ { وَعِنْدَنَا کِتٰبٌ حَفِیْظٌ ۔ } ” اور ہمارے پاس تو ایک محفوظ رکھنے والی کتاب بھی موجود ہے۔ “ ہمارے پاس ایک ایک چیز کا ریکارڈ موجود ہے ۔ ان کے جسموں کو ہم نے مٹی سے پیدا کیا تھا اور ان کی موت کے بعد ان کے تمام اجزاء کو ہم مٹی میں ہی محفوظ رکھتے ہیں۔ قیامت کے دن اسی مٹی سے ہم انہیں نکال لیں گے : { مِنْھَا خَلَقْنٰـکُمْ وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی ۔ } (طٰہٰ ) ۔ اس کے علاوہ ان کے ایک ایک عمل کی پوری تفصیل بھی ہم نے لکھ رکھی ہے اور ان کی ارواح بھی ہمارے پاس عِلِّیّین یا سِجِّین میں موجود ہیں ۔ غرض ان کی کوئی چیز بھی ہمارے علم یا قبضے سے باہر نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

3 This was the second cause of their surprise, the first being that a member of their own kind and clan had arisen with the claim that he had come as a warner to them from God. They were further surprised that the person was warning them to the effect that all men will be raised back to life after death and they will be produced aII together in the Court of AIIah where their deeds will be subjected to accountability and they will be rewarded and punished accordingly. 4 That is, "If it cannot be comprehended by intellect, it is their own narrow mind to blame. It does not mean that Allah's knowledge and power also should be narrow. They think that it is in no way possible to collect the scattered particles of the bodies of the countless human beings who have died since the beginning of creation and will die till Resurrection. But the fact is that Allah directly knows each of those particles in whatever form and in whichever place they are. Furthermore, a full record of this is being maintained in the Register of Allah, which has not left out any particle un-recorded. Then, as soon as AIIah commands, His angels will forthwith take out every particle from wherever it is with the help of this record, and will make up the same bodies once again in which human beings had lived and worked in the world." This verse also is one of those verses which point out that the lift hereafter will not only be a physical lift as it is in this world, but the body of every person also will be the same which he had in this world. If it were not so, it would be meaningless to tell the disbelievers: "We know very well whatever the earth consumes of their bodies and We have a Book which preserves everything. " (For further explanation, sec E.N. 25 of Surah Ha Mim As-Sajdah)

سورة قٓ حاشیہ نمبر :4 یعنی یہ بات اگر ان لوگوں کی عقل میں نہیں سماتی تو یہ ان کی اپنی ہی عقل کی تنگی ہے ۔ اس سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ اللہ کا علم اور اس کی قدرت بھی تنگ ہو جائے ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ابتدائے آفرینش سے قیامت تک مرنے والے بے شمار انسانوں کے جسم کے اجزاء جو زمین میں بکھر چکے ہیں اور آئندہ بکھرتے چلے جائیں گے ، ان کو جمع کرنا کسی طرح ممکن نہیں ہے ۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان میں سے ہر ہر جز جس شکل میں جہاں بھی ہے ، اللہ تعالیٰ براہ راست اس کو جانتا ہے ، اور مزید براں اس کا پورا ریکارڈ اللہ کے دفتر میں محفوظ کیا جا رہا ہے جس سے کوئی ایک ذرہ بھی چھٹا ہوا نہیں ہے ۔ جس وقت اللہ کا حکم ہو گا اسی وقت آناً فاناً اس کے فرشتے اس ریکارڈ سے رجوع کر کے ایک ایک ذرے کو نکال لائیں گے اور تمام انسانوں کے وہ جسم پھر بنا دیں گے جن میں رہ کر انہوں نے دنیا کی زندگی میں کام کیا تھا ۔ یہ آیت بھی من جملہ ان آیات کے ہے جن میں اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ آخرت کی زندگی نہ صرف یہ کہ ویسی ہی جسمانی زندگی ہوگی جیسی اس دنیا میں ہے ، بلکہ جسم بھی ہر شخص کا وہی ہوگا جو اس دنیا میں تھا اگر یہ حقیقت یہ نہ ہوتی تو کفار کی بات کے جواب میں یہ کہنا بالکل بے معنی تھا کہ زمین تمہارے جسم میں سے جو کچھ کھاتی ہے وہ سب ہمارے علم ہے ۔ اور ذرے ذرے کا ریکارڈ موجود ہے ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم ، تفسیر سورہ حٰم السجدہ ، حاشیہ 25 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: یہ اس بات کا جواب ہے کہ جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے تو، پھر ہمارے جسم کے وہ حصے دوبارہ کیسے جمع ہوں گے جن کو مٹی کھا چکی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ تمہارے جسم کے جن جن حصوں کو مٹی کھاتی ہے، ان سب کا ہمیں پورا پورا علم ہے، اس لیے ان کو دوبارہ بحال کردینا ہمارے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ 2: اس سے مراد لوح محفوظ ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(50:4) قدعلمنا : قد ماضی کے ساتھ تحقیق کا معنی دیتا ہے۔ تحقیق ہمیں علم ہے۔ ہم جانتے ہیں۔ ما تنقص الارض منھم : ما موصولہ، باقی جملہ اس کا صلہ۔ تنقص مضارع کا صیغہ واحد مؤنث غائب۔ نقص (باب نصر) مصدر۔ وہ کم کرتی ہے۔ وہ گھٹاتی ہے۔ منھم : ای من اجسامھم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان کے جسموں اور جسدوں سے۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع کافرون ہیں۔ یعنی ہم جانتے ہیں کہ مرنے والوں کے جسموں کو کھا کر مٹی ان کو مٹی بنا دیتی ہے تو اس کے ذرات کہاں کہاں ہیں۔ ان کو اکٹھا کرنا اور پھر زندہ کرکے اٹھانا ہمارے لئے دشوار نہیں ہے۔ کتب حفیظ۔ موصوف و صفت۔ حفیظ حفظ سے بروزن فعیل بمعنی فاعل۔ حفاظت رکھنے والا۔ اور بمعنی مفعول محفوظ ہے یہاں محفوظ مراد لیا گیا ہے ۔ ایسی کتاب جو ہر قسم کے دست تصرف سے باہر ہے۔ یہاں بمعنی لوح محفوظ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی ان کے جسموں میں سے جتنا کچھ زمین کھاتی جاتی ہے وہ سب ہمارے علم میں ہے پھر ہمارے لئے کیا مشکل ہے کہ بکھرے ہوئے تمام ذروں کو ایک جگہ جمع کردیں اور انہیں جوڑ کر دوبارہ زندگی بخش دیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس پر جو تبصرہ قرآن کرتا ہے وہ اس اثر کو مزید گہرا کردیتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ زمین اس جسم کو آہستہ آہستہ کھاتی ہے۔ قد علمنا ما۔۔۔۔۔ کتب حفیظ (٥٠ : ٤) ” ( حالانکہ ) زمین ان کے جسم میں سے جو چکھ کھاتی ہے وہ سب ہمارے علم میں ہے اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جس میں سب کچھ محفوظ ہے “۔ انداز تعبیر ایسا اختیار کیا گیا ہے کہ زمین کو زندہ اور متحرک کردیا گیا ہے اور وہ ان اجسام کو کھا رہی ہے جو اس کے منہ میں آہستہ آہستہ غائب ہو رہے ہیں۔ اور یہ زمین ان اجسام کو کھا رہی ہے ، نہایت آہستگی کے ساتھ۔ اور پھر ان کے اجسام کو یوں دکھایا گیا ہے کہ وہ تسلسل کے ساتھ کھائے جا رہے ہیں۔ زمین ان کے جسم کے جس حصے کو کھاتی ہے ، اسے اللہ جانتا ہے اور وہ لکھا جا رہا ہے کہ وہ حصہ کہا ہے۔ اس لئے ان کے جسم کے ذرے ، مرنے کے بعد کہیں گم نہیں ہوجاتے۔ رہی یہ بات کہ اس مٹی میں روح کس طرح ڈال دی جائے گی تو یہ بات تو ایک بار ہوچکی ہے ۔ اور ان کے اردگرد جو لاتعداد زندہ اشیاء پیدا کی جا رہی ہیں اور جن کی کوئی انتہا نہیں ہے ان کو تو وہ دیکھ رہے ہیں۔ یوں دلوں کو اس قدر تیز احساس دلایا جاتا ہے یہاں تک کہ یہ دل پگھل جاتے ہیں اور نرم ہوجاتے ہیں اور ان کے اندر احساس کو اس قدر تیز احساس دلایا جاتا ہے یہاں تک کہ یہ دل پگھل جاتے ہیں اور نرم ہوجاتے ہیں اور ان کے اندر احساس کو اس قدر تیز کردیا جاتا ہے کہ وہ بات کو جلدی مانتے ہیں۔ یہ بطور تمہید اصل مقصود بالذات بات کہنے سے پہلے کیا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:” قد علمنا۔ الایۃ “ یہ جواب شکوی ہے۔ یہ کفار کے اس استبعاد کا رد ہے کہ جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے تو پھر کس طرح زندہ ہوں گے۔ فرمایا مردوں کے اجساد کے جو حصے زمین کھاجاتی ہے وہ ہمیں خوب معلوم ہیں کوئی ذرہ ہمارے عہم سے باہر نہیں۔ اس لیے ان کو دوبارہ زندہ کرلینا ہمارے لیے کوئی مشکل نہیں ای ما تاکل الارض من لحومہم ودمائہم و عظامہم لایعزب عن علمنا شیء (معالم و خازن ج 6 ص 234) ۔ رد لاتبعادھم الرجع لان من لطف علمہ حتی علم ماتنقص الارض من اجساد الموتی وتاکلہ من لحومہم وعظامہم کان قادرا علی رجعہم احیا کما کانوا (مدارک ج 4 ص 134) ۔ ہمارے پاس ایک ایسی کتاب بھی ہے جس میں تمام تفاصیل اشیاء اور اعمال بنی آدم محفوظ ہیں۔ اس سے مراد لوح محفوظ اور علم الٰہی ہے حاصل یہ ہے کہ ہر چیز علم الٰہی میں موجود ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(4) یقینا ہم ان کے ان اجزا کو جانتے ہیں کہ جن کو زمین ان میں سے کم کرتی اور گھٹائی ہے اور ہمارے پاس کتاب ہے جس میں سب کچھ محفوظ ہے اور جو حفاظت کرنے والی ہے۔ یہ اس بعید از مکان کا جواب ہے کہ آخر یہ غیر ممکن کیوں ہے یا تو یوں کہو کہ محل میں حیات کی قابلیت نہیں اور یہ ہدایتہ غلط ہے کیونکہ محل تو بالفعل حیات سے متصف ہے یا یوں کہو کہ فاعل اور زندہ کرنے والے کو اتنا علم کہاں کہ وہ ہمارے اجزائے منتشرہ کو جمع کرسکے اس کو فرمایا کہ زمین جس قدر حصے کو کم کرتی ہے فاعل کو اس کا سب علم ہے اور یہ علم آج سے نہیں بلکہ تمہارے پیدا کرنے سے پہلے بھی جانتا تھا کہ تم مرکر کہاں جائو گے اور تمہارا ہڈی چمڑا کہاں کہاں منتشر ہوگا اور کسی قدر ذرے کہاں ہوں گے تو جس فاعل اور زندہ کرنے والے کا علم اتنا وسیع ہو اس کے لئے نہ بعید از عقل ہے نہ بعید ازامکان ہے۔ اسی کو فرمایا وعندنا کتاب حفیظ کہ ہمارے پاس لوح محفوظ ہے جس میں تمہارا بلکہ تمام عالم کا احوال درج اور ضبط ہے پھر تمہارا زندہ کرلینا اور تمہارا لوٹنا فاعل اور زندہ کرنے والے کو کیا مشکل ہے حفیظ کا ترجمہ اگر محفوظ کریں تو مطلب یہ ہے کہ ہر قسم کے تغیر سے ، شیاطین کے تصرف سے اور پرانا ہونے سے وہ محفوظ ہے اور اگر حافظ سے ترجمہ کریں جیسا کہ ہم نے دونوں کو ظاہر کردیا ہے تو مطلب یہ ہے کہ اس کتاب میں جو لکھا ہے وہ کتاب خود اس کی حفاظت کرنے والی اور نگہبان ہے۔ بہرحال حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی سارے مٹی نہیں ہوجاتے جان سلامت رہتی ہے۔ خلاصہ : یہ ہے کہ ہم کو معلوم ہے کہ کون مرتا ہے اور کس کو زمین کم کرتی ہے اور کیا چیز زندہ رہتی ہے آگے منکروں کی عام تکذیب کا ذکر فرماتے ہیں کہ بعث کے انکار پر کیا منحصر ہے یہ تو ہر امر حق کی تکذیب کرتے ہیں۔