Surat Qaaf

Surah: 50

Verse: 44

سورة ق

یَوۡمَ تَشَقَّقُ الۡاَرۡضُ عَنۡہُمۡ سِرَاعًا ؕ ذٰلِکَ حَشۡرٌ عَلَیۡنَا یَسِیۡرٌ ﴿۴۴﴾

On the Day the earth breaks away from them [and they emerge] rapidly; that is a gathering easy for Us.

جس دن زمین پھٹ جائے گی اور یہ دوڑتے ہوئے ( نکل پڑیں گے ) یہ جمع کر لینا ہم پر بہت ہی آسان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يَوْمَ تَشَقَّقُ الاَْرْضُ عَنْهُمْ سِرَاعًا ... On the Day when the earth shall be cleft, from off them (they will come out) hastening forth. Allah the Exalted and Most Honored will send down rain from the sky. From that rain the bodies of the creations will grow while they are in their graves, just as the seed grows in soil in the aftermath of rain. When the bodies grow to their full strength, Allah the Exalted will command angel Israfil and he will blow in the Trumpet (for a second time). The souls will be enclosed in a hole in the Trumpet. When Israfil blows in the Trumpet, the souls will depart from it and will fly between the heavens and earth. Allah the Exalted and Most Honored, will declare, "By My grace and power, each soul shall return to the body that it used to inhabit," and indeed, every soul will return to its body. The soul will enter its body just as poison enters the body, then the earth will be uncovered from above them, and they will all stand and head towards the Reckoning place hastening to obey the command of Allah the Exalted and Most Honored, مُّهْطِعِينَ إِلَى الدَّاعِ يَقُولُ الْكَـفِرُونَ هَـذَا يَوْمٌ عَسِرٌ Hastening towards the caller. The disbelievers will say: "This is a hard Day." (54:8), and, يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ وَتَظُنُّونَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلاَّ قَلِيلً On the Day when He will call you, and you will answer (His Call) with (words of) His praise and obedience, and you will think that you have stayed (in this world) but a little while! (17:52) In the Sahih, it is recorded that Anas said that the Messenger of Allah said, أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الاَْرْض The earth will open up first around me. Allah the Exalted and Most Honored said, ... ذَلِكَ حَشْرٌ عَلَيْنَا يَسِيرٌ That will be a gathering, quite easy for Us. `bringing them back to life is easy for Us and effortless.' Allah the Exalted and Most Honored said, وَمَأ أَمْرُنَأ إِلاَّ وَحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ And Our commandment is but one as the twinkling of an eye. (54:50) and, مَّا خَلْقُكُمْ وَلاَ بَعْثُكُمْ إِلاَّ كَنَفْسٍ وَحِدَةٍ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ The creation of you all and the resurrection of you all are only as of a single person. Verily, Allah is All-Hearer, All-Seer. (31:28) Comforting the Prophet The statement of Allah the Exalted and Most High,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

44۔ 1 یعنی اس آواز دینے والے کی طرف دوڑیں گے، جس نے آواز دی ہوگی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، جب زمین پھٹے گی تو سب سے پہلے زندہ ہو کر نکلنے والا میں ہوں گا۔ انا اول من تشق عنہ الارض۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٠] جس طرح زمین پھٹ جاتی ہے اور پودے کی کونپل زمین کو چیر کر اور پھاڑ کر زمین سے باہر نکل آتی ہے۔ اسی طرح اس دن زمین پھٹ جائے گی اور پودوں کی طرح انسان زمین سے اگتے اور باہر نکلتے چلے آئیں گے۔ ان کی فوراً نشوونما ہوتی چلی جائے گی پھر وہ اضطراراً اللہ کے دربار کی طرف دوڑ پڑیں گے جس میں ان کی اپنی مرضی کو کچھ دخل نہ ہوگا۔ [٥١] نباتات اور انسان کی پیدائش میں مماثلت کے پہلو :۔ اللہ تعالیٰ نے بیشمار مقامات پر نباتات کے زمین سے نکلنے اور مردہ انسانوں کے زمین سے نکلنے کو ایک دوسرے کے مشابہ قرار دیا ہے۔ اور جہاں تک میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ نباتات کے اگنے کی نسبت انسان کا زمین سے اگ آنا یا نکل آنا زیادہ آسان ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ نباتات کا اگنا ہر وقت ہمارے مشاہدہ میں آتا رہتا ہے۔ لہذا ہم اس میں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے اور مردوں کا اگنا چونکہ ہمارے مشاہدہ میں نہیں آیا لہذا کافر اس کا انکار کردیتے ہیں اور غور و فکر کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ گویا دونوں مقامات پر اصل کمی غور و فکر کی ہے۔ اب میں اس بات کو ایک مثال سے سمجھاؤں گا۔ فرض کیجئے ایک باغ میں یا ایک ہی قطعہ زمین میں چند میٹھے پھلوں مثلاً انار، آم، سیب کے درخت یا انگور کی بیلیں ہیں اور اسی قطعہ زمین میں چند کڑوے درخت یا بیلیں مثلاً نیم کا درخت یا کریلے کی بیل یا تھوہر کا پودا ہے۔ اب بارش اور مناسب آب و ہوا ملنے پر ہر درخت اور پودا اپنے بیج سے تعلق رکھنے والے اجزاء ہی زمین سے کھینچے گا اور زمین ویسے ہی اجزاء اسے مہیا کرے گی دوسرے نہیں۔ مثلاً یہ نہیں ہوسکتا کہ انار کے درخت میں انگور کے اجزاء اور شیرینی مل جائے، یا انار کے درخت میں کریلے کی کڑواہٹ کا بھی کوئی جز شامل ہوجائے۔ نہ ہی یہ ہوسکتا ہے کہ انگور کی بیل میں کچھ تھوڑے سے کریلے کے اجزاء اور کرواہٹ بھی شامل ہوجائے۔ یہی صورت انسان کی دوبارہ پیدائش یا زمین سے اگ آنے یا نکل آنے کی ہے۔ اس کا اصل بیج یعنی روح تو اللہ کے پاس پہلے ہی موجود ہے۔ اور مادی بیج بھی زمین میں محفوظ رہتا ہے اسے زمین کھا نہیں سکتی اور وہ عجب الذنب کا حصہ وہ ہے جو انسان کا مادی بیج ہے اور یہ بات احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ اب ہر انسان کا بیج زمین سے وہی اجزاء اپنی طرف کھینچے گا اور زمین اسے وہی اجزاء مہیا کرے گی جو اس کے بیج سے تعلق رکھتے ہیں زید کے جسم کے اجزاء بکر کے جسم میں داخل نہیں ہوسکتے اور نہ بکر کے اجزاء عمر کے جسم میں جاسکتے ہیں۔ اور انسانوں کا زمین سے اگنا نباتات سے بھی آسان اس لحاظ سے ہے کہ نباتات کی تقریباً پندرہ لاکھ انواع آج تک دریافت ہوچکی ہیں لیکن قیامت کو صرف دو انواع جن اور انسان زمین سے اگیں گی۔ اِلا یہ کہ کوئی اور چیز بھی اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) یوم تشقق الارض عنھم سراعاً ” سراعا “ ” سریع “ کی جمع ہے۔ ” یوم “ ” الینا المصیر “ کا ظرف ہے، یعنی ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے اس دن جب زمین ان سے پھٹے گی اور وہ اس سے نکل کر تیزی سے دوڑتے ہوئے نکلیں گے۔ (٢) ذلک حشر علینا یسیر : یہ کفار کی اس بات کا جواب ہے کہ جب ہم مر کر مٹی ہوچکے تو کیا اس وقت ہمیں زندہ کر کے اٹھا کھڑا کیا جائے گا ؟ یہ تو عقل سے بعید اور ناممکن ہے۔ فرمایا یہ حشر یعنی سب اگلے پچھلے انسانوں کو ایک آواز کے ساتھ اکٹھا کرلینا ہمارے لئے بالکل آسان ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْ‌ضُ عَنْهُمْ سِرَ‌اعًا (...on the Day when the earth will burst apart exposing them, while they will be hurrying up. - 50:44). The Prophetic Tradition indicates that this &hurrying up& will be towards Syria where the Dome of the Rock is situated. Israfil (علیہ السلام) will stand on it, and call the people on the Day of Judgment. It is recorded in Jami` Tirmidhi, on the authority of Sayyidna Mu` awiyah Ibn Hayadah (رض) ، that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، pointing towards Syria, said: مِن ھٰھُنَا اِلیٰ ھٰھُنَا تُحشَرُونَ رُکبَاناً وَّ مُشَاۃً وَّ تُجَرُّونَ علیٰ وُجُھِکُم یَومَ القِیامَۃ |"From here towards that [ pointing towards Syria ] you will be raised, some riding, and others on foot, and yet others will be dragged on the faces on the Day of Judgment...|"

(آیت) يَوْمَ تَشَقَّقُ الْاَرْضُ عَنْهُمْ سِرَاعًا (یعنی جب زمین پھٹ کر یہ سب مردے نکل آویں گے اور دوڑتے ہوں گے) حدیث سے معلوم ہے کہ یہ دوڑنا ملک شام کی طرف ہوگا، جہاں صخرہ بیت المقدس پر اسرافیل (علیہ السلام) ندا کرتے ہوں گے۔ جامع ترمذی میں حضرت معاویہ بن حیدہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دست مبارک سے ملک شام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ من ھھنا الی ھھنا تحشرون رکبانا و مشاة وتجرون علیٰ وجوھکم یوم القیمة الحدیث (ازقرطبی ) ” یہاں سے اس طرف (یعنی شام کی طرف) تم سب اٹھائے جاؤ گے کچھ لوگ سوار کچھ پیدا اور بعض کو چہروں کے بل گھسیٹ کر قیامت کے روز اس میدان میں لایا جائے گا “

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَوْمَ تَشَقَّقُ الْاَرْضُ عَنْہُمْ سِرَاعًا۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ حَشْرٌ عَلَيْنَا يَسِيْرٌ۝ ٤٤ شق الشَّقُّ : الخرم الواقع في الشیء . يقال : شَقَقْتُهُ بنصفین . قال تعالی: ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا[ عبس/ 26] ( ش ق ق ) الشق ۔ شگاف کو کہتے ہیں ۔ شففتہ بنصفین میں نے اسے برابر دو ٹکڑوں میں کاٹ ڈالا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا[ عبس/ 26] پھر ہم نے زمین کو چیرا پھاڑا ۔ سرع السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو : أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران/ 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران/ 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] ( س ر ع ) السرعۃ اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران/ 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران/ 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔ حشر ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة . ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔ يسير واليَسِيرُ والمَيْسُورُ : السّهلُ ، قال تعالی: فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء/ 28] واليَسِيرُ يقال في الشیء القلیل، فعلی الأوّل يحمل قوله : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب/ 30] ، وقوله : إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج/ 70] . وعلی الثاني يحمل قوله : وَما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب/ 14] الیسیر والمیسور سہل اور آسان قرآن میں ہے : ۔ فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء/ 28] تو ان سے نر می سے بات کہدیا کرو ۔ اور کبھی یسیر کے معنی حقیر چیز بھی آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب/ 30] اس کو دونی سزا دی جائیگی اور یہ بات خدا کو آسان ہے میں لفظ یسیرا کے معنی آسان اور سہل کے ہیں اور آیت وما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب/ 14] اور اس کے لئے بہت کم توقف کریں میں اس کے معنی بہت کم عرصہ کے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جس روز زمین ان پر سے کھل جائے گی اور وہ سب قبروں سے دوڑتے ہوں گے یہ جمع کرلینا ہمارے لیے آسان ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٤{ یَوْمَ تَشَقَّقُ الْاَرْضُ عَنْہُمْ سِرَاعًاط } ” جس دن زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور وہ تیزی سے نکل پڑیں گے۔ “ { ذٰلِکَ حَشْرٌ عَلَیْنَا یَسِیْرٌ ۔ } ” یہ (سب کا) جمع کردینا ہمارے لیے بہت آسان ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

54 This is the answer to the saying of the disbelievers that has been reproduced in verse 3 above. They said: "How can it be that when we arc dead and become dust, we shall be raised back to life once again 7 This resurrection is far removed from reason. " In reply it has been said: "This gathering together, i. e. , raising back to life and gathering alI the people of the former and latter times together, is very easy for Us. It is not at all difficult for Us to know as to where the dust of one particular person lies and where of the other. We shall also face no dificulty in knowing as to which arc the particles of Harry and which of Dick among the scattered particles of the dust. Gathering together alI these particles separately and re-making each and every man's body once again and then creating in that body, the same very personality which had lived in it before, is not a task that may require any hard labor from Us, but alI this can be accomplished immediately at one signal from Us. All those human beings who have been born in the world since the time of Adam till Resurrection can be brought together by one Command of Ours. If your petty mind thinks it is far off, it may think so, but it is not beyond the power of the Creator of the Universe."

سورة قٓ حاشیہ نمبر :54 یہ جواب ہے کفار کی اس بات کا جو آیت نمبر 3 میں نقل کی گئی ہے ۔ وہ کہتے تھے کہ بھلا یہ کیسے ہو سکتا کہ جب ہم مر کر خاک ہو چکے ہوں اس وقت ہمیں پھر سے زندہ کر کے اٹھا کھڑا کیا جائے ، یہ واپسی تو بعید از عقل و امکان ہے ۔ ان کی اسی بات کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ یہ حشر ، یعنی سب اگلے پچھلے انسانوں کو بیک وقت زندہ کر کے جمع کر لینا ہمارے لیے بالکل آسان ہے ۔ ہمارے لیے یہ معلوم کرنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ کس شخص کی خاک کہاں پڑی ہے ہمیں یہ جاننے میں بھی کوئی دقت نہیں پیش آئے گی کہ ان بکھرے ہوئے ذرات میں سے زید کے ذرات کون سے ہیں اور بکر کے ذرات کون سے ۔ ان سب کو الگ الگ سمیٹ کر ایک ایک آدمی کا جسم پھر سے بنا دینا ، اور اس جسم میں اسی شخصیت کو از سر نو پیدا کر دینا جو پہلے اس میں رہ چکی تھی ، ہمارے لیے کوئی بڑا محنت طلب کام نہیں ہے ، بلکہ ہمارے ایک اشارے سے یہ سب کچھ آناً فاناً ہو سکتا ہے ۔ وہ تمام انسان جو آدم کے وقت سے قیامت تک دنیا میں پیدا ہوئے ہیں ہمارے ایک حکم پر بڑی آسانی سے جمع ہو سکتے ہیں ۔ تمہارا چھوٹا سا دماغ اسے بعید سمجھتا ہو تو سمجھا کرے ۔ خالق کائنات کی قدرت سے یہ بعید نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(50:44) یوم تشقق الارض عنہم سراعا : یہ یوم ینادی سے بدل ہے وہ دن جب ان کے اوپر سے زمین پھٹ جائے گی۔ تشقق مضارع واحد مؤنث غائب تشقق (تفعل) مصدر سے۔ بمعنی پھٹ جانا۔ شگاف ہونا۔ اصل میں تتشقق تھا۔ ایک تاء کو حذف کردیا گیا۔ وہ پھٹ جائے گی۔ یعنی زمین پھٹ جائے گی۔ سراعا : ھو حال من الضمیر المجرور فی قولہ : عنھم ای تشقق الارض عنھم فی حال کو نھم مرعین الی الداعی وھو الملک الذی ینفخ فی الصور۔ یدعو الناس س الی الحساب والجزائ۔ اور یہ عنھم میں ضمیر مجرور ہم سے حال ہے۔ مطلب یہ کہ زمین ان کے اوپر سے پھٹ جائے گی۔ درآں حالیکہ وہ پکارنے والے کی طرف تیز تیز بھاگ رہے ہوں گے ۔ اور وہ پکارنے والا فرشتہ ہوگا جو صور پھونکے گا۔ اور لوگوں کو حساب و کتاب اور جزاء و سزاء کے لئے پکارے گا۔ (اضواء البیان) قیامت کے روز لوگوں کا قبروں سے نکلنا اور محشر کی طرف تیز تیز دوڑنے کے متعلق قرآن مجید میں اور بھی بہت سی آیات ہیں جیسے یوم یخرجون من الاجداث سراعا کانہم الی نصب یوفضون (70:43) اس دن یہ قبروں سے نکل کر (اس طرح دوڑیں گے جیسے (شکاری) شکار کے جال کی طرف روذتے ہیں ۔ وغیرہ وغیر۔ دوڑتے ہوئے، جلدی کرتے ہوئے سریع کی جمع جو کہ سرعۃ (باب فتح) مصدر سے جس کے معنی جلدی کرنا کے ہیں بروزن فعیل بمعنی فاعل ہے۔ ذلک حشر علینا یسیر : ای ذلک علینا حشر یسیر : ذلک : اسم اشارہ مراد اس سے یہ یک دم سب کافروں سے زندہ ہو کر نکل آنا ہے۔ علینا ہمارے لئے حشر یسیر موصوف مشبہ کا صیغہ واحد مذکر یسر مادہ۔ آسان، سہل ، ترجمہ :۔ یہ ہمارے نزدیک ایک آسان جمع کرلینا ہے۔ علینا کا ذکر یسیر سے پہلے اظہار خصوصیت کے لئے ہے حشر اموات اسی کے لئے آسان ہوسکتا ہے جو بذات خود عالم و قادر ہو اور کسی کام میں مشغولیت دوسرے کاموں سے اس کو غافل نہ بنا سکے اور ایسی ذات صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ذلک حشر علینا یسیر (٥٠ : ٤٤) ” اور یہ حشر ہمارے لئے بہت آسان ہے “۔ اور اس حقیقت کے اظہار کا یہ بہترین وقت و مقام تھا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(44) اس دن زمین مردوں پر سے کھل جائے گی اور وہ اس سے نکل کر دوڑتے ہوں گے یہ زندہ کرکے جمع کرلینا ہم پر بہت آسان ہے۔ یعنی دنیا میں بھی ہم ہی زندگی دینے والے ہیں اور ہم ہی موت دینے والے ہیں اور سب کی بازگشت بھی ہماری ہی طرف ہے۔ وہ دن ایسا ہوگا کہ اس دن زمین پھٹ جائے گی اور کھل جائے گی اور زمین سے مردے نکل کر دوڑنے لگیں گے یہی حشر ہے جو ہم پر بہت آسان ہے یعنی یہ سب کو زمین سے نکال کر جمع کرلینا ہم پر کچھ مشکل نہیں۔ کہتے ہیں زمین پر کوئی خاص قسم کا مینہ برسے گا جس کا اثر یہ ہوگا کہ مردے جگہ جگہ سے نکلنے شروع ہوجائینگے اور زندہ ہو کردوڑنے لگیں گے یہ ہر برسات میں مشاہدہ ہوتا ہے کہ پہلی بارش میں زمین سے نباتات کا اگنا شروع ہوجاتا ہے اور لاکھوں جاندار پیدا ہونے شروع ہوجاتے ہیں تمام حشرات الارض اساڑھ اور ساون کی بارش میں اسی زمین سے نکل آتے ہیں جو ہر سال ہوتا ہے۔ یہی حال اس بارش سے انسانوں کو پیدا ہونے کا ہوگا بہرحال صورت کچھ بھی ہو اللہ تعالیٰ پر تمام مخلوق کا دوبارہ زندہ کرلینا بہت ہی آسان ہے آگے پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے تبلیغ کا حکم کرتے ہیں۔