6 Question?
7 Here, by the sky is implied the whole firmament that man finds spread over him, day and night, in which the sun shines in the day and the moon and countless stars glitter at night, which amazes him even when he sees it with the bare eye, but which appears as a vast, limitless Universe when he looks at it through the telescope. It seems to be starting from nowhere and ending nowhere.... Millions of times larger planets than our earth are moving in it like tiny balls; thousands of times brighter stars than ow sun are shining in it our this entire solar system is located in a comer of its only one galaxy; only in this one galaxy there exist at (east three thousand million other stars like our own sun, and man's observation has s0 far discovered one million such galaxies. Out of the lacs of galaxies our nearest, neighboring galaxy is 'so distant from us that its light reaches the earth in ten lac years traveling at the speed of 186,000 miles per second. This shows the vastness of that part of the Universe which has so far been observed and explored by man. As to how vast is the entire Universe of God we have no means to estimate and judge. Maybe that the known Universe of man does not bear with the entire Universe even that ratio which a drop of water beats with the ocean. If about the God Who has brought this huge and wonderful Universe into being, this tiny talking animal, called man, who creeps the earth, asserts that He cannot recreate him once again after death, it would be due to narrowness of his own mind. The power of the Creator of the Universe would not at aII be affected by it !
8 That is, "In spite of its amazing vastness the wonderful order of the Universe is so coherent and firm and its composition so perfect that there is no crack or cleft in it, and its continuity breaks nowhere. This can be understood by an example. Radio astronomers of the present age have observed a galactic system which they have named Source 3c 295. They think that its rays which are now reaching us might have left it more than four thousand million years ago. The question is: How could it be possible for the rays to reach the earth from such a distant source had the continuity and coherence of the Universe between the earth and the galaxy been broken somewhere and its composition been split at some point. AIIah, in fact, alludes to this reality and puts this question before man "When you cannot point out even a small breach in this system of My Universe, how did the concept of any weakness in My power enter your mind, that after the respite of your test is over, if I like to bring you back to life to subject you to accountability before Me, I would not be able to do so?" This is not only a proof of the possibility of the Hereafter but also a proof .of Tauhid. These rays' reaching the earth from a distance of four thousand million light years and being detected by the man-made instruments expressly points to the fact that from the galaxy to the earth the entire world has been made up of one and the same substance continuously, one and the same kind of the forces are working in it, and they are functioning according to the same laws without any difference and disparity. Were it not so the rays could neither have reached here, nor detected by the instruments which Tnan had made after understanding the laws working on the earth and its surroundings. This proves that One God alone is the Creator of this whole Universe and its Master and Ruler and Controller . Show more
سورة قٓ حاشیہ نمبر :6
اوپر کی پانچ آیتوں میں کفار مکہ کے موقف کی نامعقولیت واضح کرنے کے بعد اب بتایا جا رہا ہے کہ آخرت کی جو خبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اس کی صحت کے دلائل کیا ہیں ۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کفار جن دو باتوں پر تعجب کا اظہار کر رہے تھے ان میں سے ایک ،... یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بر حق ہونے کی دو دلیلیں ابتدا ہی میں دی جاچکی ہیں ۔ اول یہ کہ وہ تمہارے سامنے قرآن مجید پیش کر رہے ہیں جو ان کے نبی ہونے کا کھلا ہوا ثبوت ہے ۔ دوم یہ کہ وہ تمہاری اپنی ہی جنس اور قوم اور برادری کے آدمی ہیں ۔ اچانک آسمان سے یا کسی دوسری سر زمین سے نہیں آ گئے ہیں کہ تمہارے لیے ان کی زندگی اور سیرت و کردار کو جانچ کر یہ تحقیق کرنا مشکل ہو کہ وہ قابل اعتماد آدمی ہیں یا نہیں اور یہ قرآن ان کا اپنا گھڑا ہوا کلام ہو بھی سکتا ہے یا نہیں ، اس لیے ان کے دعوائے نبوت پر تمہارا تعجب بے جا ہے ۔ یہ استدلال تفصیل کے ساتھ پیش کرنے کے بجائے دو مختصر اشاروں کی شکل میں بیان کیا گیا ہے ، کیونکہ جس زمانے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود مکہ میں کھڑے ہو کر ان لوگوں کو قرآن سنا رہے تھے جو بچپن سے جوانی اور ادھیڑ عمر تک آپ کی ساری زندگی دیکھے ہوئے تھے ، اس وقت ان اشاروں کی پوری تفصیل ماحول کے ہر شخص پر آپ ہی واضح تھی ۔ اس لیے اس کو چھوڑ کر اب تفصیلی استدلال اس دوسری بات کی صداقت پر کیا جا رہا ہے جس کو وہ لوگ عجیب اور عقل سے بعید کہہ رہے تھے ۔
سورة قٓ حاشیہ نمبر :7
یہاں آسمان سے مراد وہ پورا عالم بالا ہے جسے انسان شب و روز اپنے اوپر چھایا ہوا دیکھتا ہے ۔ جس میں دن کو سورج چمکتا ہے اور رات کو چاند اور بے حد و حساب تارے روشن نظر آتے ہیں ۔ جسے آدمی برہنہ آنکھ ہی سے دیکھے تو حیرت طاری ہو جاتی ہے ، لیکن اگر دوربین لگا لے تو ایک ایسی وسیع و عریض کائنات اس کے سامنے آتی ہے جو ناپیدا کنار ہے ، کہیں سے شروع ہو کر کہیں ختم ہوتی نظر نہیں آتی ۔ ہماری زمین سے لاکھوں گنے بڑے عظیم الشان سیارے اس کے اندر گیندوں کی طرح گھوم رہے ہیں ۔ ہمارے سورج سے ہزاروں درجہ زیادہ روشن تارے اس میں چمک رہے ہیں ۔ ہمارا یہ پورا نظام شمسی اس کی صرف ایک کہکشاں ( Galaxy ) کے ایک کونے میں پڑا ہوا ہے ۔ تنہا اسی ایک کہکشاں میں ہمارے سورج جیسے کم از کم 3 ارب دوسرے تارے ( ثوابت ) موجود ہیں ، اور اب تک کا انسانی مشاہدہ ایسی ایسی دس لاکھ کہکشانوں کا پتہ دے رہا ہے ۔ ان لاکھوں کہکشانوں میں سے ہماری قریب ترین ہمسایہ کہکشاں اتنے فاصلے پر واقع ہے کہ اس کی روشنی ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چل کر دس لاکھ سال میں زمین تک پہنچتی ہے ۔ یہ تو کائنات کے صرف اس حصے کی وسعت کا حال ہے جو اب تک انسان کے علم اور اس کے مشاہدہ میں آئی ہے ۔ خدا کی خدائی کس قدر وسیع ہے ، اس کا کوئی اندازہ ہم نہیں کر سکتے ۔ ہو سکتا ہے کہ انسان کی معلوم کائنات کے مقابلے میں وہ نسبت بھی نہ رکھتی ہو جو قطرے کو سمندر سے ہے ۔ اس عظیم کار گاہ ہست و بود کو جو خدا وجود میں لایا ہے اس کے بارے میں زمین پر رینگنے والا یہ چھوٹا سا حیوان ناطق ، جس کا نام انسان ہے ، اگر یہ حکم لگائے کہ وہ اسے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا نہیں کر سکتا ، تو یہ اس کی اپنی ہی عقل کی تنگی ہے ۔ کائنات کے خالق کی قدرت اس سے کیسے تنگ ہو جائے گی!
سورة قٓ حاشیہ نمبر :8
یعنی اپنی اس حیرت انگیز وسعت کے باوجود یہ عظیم الشان نظام کائنات ایسا مسلسل اور مستحکم ہے اور اس کی بندش اتنی چست ہے کہ اس میں کسی جگہ کوئی دراڑ یا شگاف نہیں ہے اور اس کا تسلسل کہیں جا کر ٹوٹ نہیں جاتا ۔ اس چیز کو ایک مثال سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے ۔ جدید زمانے کے ریڈیائی ہیئت دانوں نے ایک کہکشانی نظام کا مشاہدہ کیا ہے جسے وہ منبع 3 ج 295 ( Source 3c,285 ) کے نام سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اس کے متعلق ان کا اندازہ یہ ہے کہ اس کی جو شعاعیں اب ہم تک پہنچ رہی ہیں وہ 4 ارب سال سے بھی زیادہ مدت پہلے اس میں سے روانہ ہوئی ہونگی ۔ اس بعید ترین فاصلے سے ان شعاعوں کا زمین تک پہنچنا آخر کیسے ممکن ہوتا اگر زمین اور اس کہکشاں کے درمیان کائنات کا تسلسل کسی جگہ سے ٹوٹا ہوا ہوتا اور اس کی بندش میں کہیں شگاف پڑا ہوا ہوتا ۔ اللہ تعالیٰ اس حقیقت کی طرف اشارہ کر کے دراصل یہ سوال آدمی کے سامنے پیش کرتا ہے کہ میری کائنات کے اس نظام میں جب تم ایک ذرا سے رخنے کی نشان دہی بھی نہیں کر سکتے تو میری قدرت میں اس کمزوری کا تصور کہاں سے تمہارے دماغ میں آگیا کہ تمہاری مہلت امتحان ختم ہو جانے کے بعد تم سے حساب لینے کے لیے میں تمہیں پھر زندہ کر کے اپنے سامنے حاضر کرنا چاہوں تو نہ کر سکوں گا ۔
یہ صرف امکان آخرت ہی کا ثبوت نہیں ہے بلکہ توحید کا ثبوت بھی ہے چار ارب سال نوری ( Light Years ) کی مسافت سے ان شعاعوں کا زمین تک پہنچنا ، اور یہاں انسان کے بنائے ہوئے آلات کی گرفت میں آنا صریحاً اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کہکشاں سے لے کر زمین تک کی پوری دنیا مسلسل ایک ہی مادے سے بنی ہوئی ہے ، ایک ہی طرح کی قوتیں اس میں کار فرما ہیں ، اور کسی فرق و تفاوت کے بغیر وہ سب ایک ہی طرح کے قوانین پر کام کر رہی ہیں ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ شعاعیں نہ یہاں تک پہنچ سکتی تھیں اور نہ ان آلات کی گرفت میں آسکتی تھیں جو انسان نے زمین اور اس کے ماحول میں کام کرنے والے قوانین کا فہم حاصل کر کے بنائے ہیں ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک ہی خدا اس پوری کائنات کا خالق و مالک اور حاکم و مدبر ہے ۔ Show more