Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 20

سورة الذاريات

وَ فِی الۡاَرۡضِ اٰیٰتٌ لِّلۡمُوۡقِنِیۡنَ ﴿ۙ۲۰﴾

And on the earth are signs for the certain [in faith]

اور یقین والوں کے لئے تو زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And on the earth are signs for those who have faith with certainty. Allah says that there are signs on earth that testify to the might of the Creator and His boundless ability. These signs include what Allah placed on the earth, the various plants, animals, valleys, mountains, deserts, rivers and oceans. He also created mankind with different languages, colors, intentions and abili... ties, and a variety among them, differences in the power of understanding and comprehension, their deeds, and ultimately earning happiness or misery. Allah put every organ in their bodies in its rightful place where they most need it to be. So He said؛ وَفِي أَنفُسِكُمْ أَفَلَ تُبْصِرُونَ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣] زمین میں مختلف قسم کی قدرت کی نشانیاں :۔ اس سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو کائنات میں ہر سو بکھری ہوئی ہیں اور قرآن میں بار بار ان میں غور و فکر کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ یہ گردش لیل و نہار، یہ موسموں کی تبدیلی اور ان میں تدریج کا دستور، یہ بارش کا پورا نظام۔ اس سے مردہ زمین کا زندہ ہونا۔ مختل... ف قسم کی نباتات، غلے اور پھل اگانا اور اسی پیداوار سے ساری مخلوق کے رزق کی فراہمی، زمین کے اندر مدفون خزانے، سمندروں اور پہاڑوں بلکہ کائنات کی اکثر چیزوں اور چوپایوں پر انسان بےبنیان کا تصرف اور حکمرانی۔ غرض ایسی نشانیاں ان گنت اور لاتعداد ہیں۔ ان سب میں قدر مشترک کے طور پر جو چیز پائی جاتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہ سب چیزیں انسان کے فائدے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ اور ان سب میں ایک ایسا نظم و نسق پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ انسان کے لیے مفید ثابت ہوتی ہے۔ اگر ان میں ایسا مربوط نظم و نسق نہ پایا جاتا تو ایک ایک چیز انسان کو فنا کرنے کے لیے کافی تھی۔ یہی بات اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ ان سب کا خالق صرف ایک ہی ہستی ہوسکتی ہے اور دوسرے اس بات پر کہ کائنات کے اس مربوط نظم و نسق کا کوئی مفید نتیجہ بھی برآمد ہونا چاہئے اور وہ نتیجہ آخرت ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وفی الاضر ایت للموقنین : شروع سورت میں چار طرح کی ہواؤں کی قسم اٹھا کر فرمایا کہ قیامت حق ہے، پھر اس پر آسمان کی قسم اٹھائی۔ اب ” واؤ “ کے ذریعے سے اسی کے ساتھ سلسلہ کلام جوڑ کر فرمایا :” اور زمین میں بھی یقین کرنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔ “ یہ وہی استدلال ہے جو قرآن میں قیامت حق ہونے کے...  لئے جا بجا موجود ہے۔ مثلاً فرمایا :(ومن ایتہ انک تری الارض خاشعۃ فاذا انزلنا علیھا المآء اھترت و ربت ، ان الذین احیاھا لمحی الموتی (حم لسجدۃ : ٣٩)” اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ تو زمین کو دبی ہوئی (بنجر) دیکھتا ہے پھر جب ہم اس پر پانی اتارتے ہیں تو وہ لہلہاتی ہے اور پھولتی ہے۔ بیشک وہ جس نے اسے زندہ کیا، یقینا مردوں کو زندہ کرنے والا ہے۔ “ مطلب یہ ہے کہ زمین کی پہلی ساری کھیتی چورابن کر ختم ہوجاتی ہے، پھر دوبارہ نئی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جو ہر شخص کے مشاہدے میں آتی ہے، اس پر بہت زیادہ غور و فکر کی ضرورت نہیں، صرف یقین کی ضرورت ہے۔ اس لئے اس آیت میں غور و فکر کی دعوت نہیں دی، جس طرح اس کے بعد والی آیت میں ” افلا تبصرون “ فرمایا ہے، بلکہ فرمایا :” زمین میں قین کرنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔ “ یہ اس لئے فرمایا ہ ان نشانیوں سے فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جو یقین کرتے ہیں۔ (٢) وفی الارض ایت للموقین “ (اور زمین میں قین کرنیو الوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں) اس میں صریح ال فاظ میں یہ نہیں بتاتا کہ کس چیز کی نشانیاں ہیں، کیونکہ اس میں صرف قیامت حق ہونے ہی کی نشانیاں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے وجود اس کی وحدانیت اور اس کی لامحدود قدرت کی بھی بیشمار نشانیاں ہیں۔ زمخشری نے فرمایا :” اور زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں جو صانع اور اس کی قدرت و حکمت اور تدبیر پر دلالت کرتی ہیں ، چناچہ زمین اپنے اوپر والی چیزوں کے لئے بچھونے کی طرح ہے، جیسا کہ فرمایا :(الذی جعل لکم الارض مھداً ) (طہ : ٥٣)” وہ جس نے تمہارے لئیز مین کو بچھونا بنایا۔ “ اور چلنے والوں کے لئے اس میں راستے اور وسیع شاہ راہیں ہیں جو اس کے کندھوں پر چلتے پھرتے ہیں اور اس کے مختلف حصے میں، جیسے میدان، پہاڑ، ریگستان، سمندر وغیرہ اور کئی ٹکڑے ہیں، مثلاً سخت، نرم، زرخیز، شور وغیرہ۔ وہ حاملہ جانور کی طرح ہے جس کے پیٹ سے بیشمار پودے، درخت اور پھل پیدا ہوتے ہیں، جن کے رنگ، خوشبو اور ذائقے مختلف ہیں، حالانکہ سبھی ایک ہی پانی سے سیراب ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ ایک دوسرے پر برتری رکھتے ہیں اور یہ سب کچھ زمین پر رہنے والوں کی ضروریات ، ان کی صحت وب یماری کی مصلحتوں کے عین موافق ہے۔ پھر اس میں پھوٹنے والے چشمے، رنگا رنگ معدنیات اور خشکی، ہوا اور سمندر میں پھیلے ہوئے مختلف شکلوں ، صورتوں اور کاموں والے وحشی، پالتو، مفید اور زہریلے جانور اور اس کے علاوہ شمار سے باہر چیزیں ہیں جن میں یقین کرنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں، کیونکہ وہی دیکھنے والی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Allah&s Signs on the Earth and in Mankind وَفِي الْأَرْ‌ضِ آيَاتٌ لِّلْمُوقِنِينَ (And in the earth, there are signs for those who [ seek truth to ] believe,... 51:20). In the preceding verses in the first instance a description of the infidels and rejecters and their evil fate was given. As against those who flounder in the welter of wrong beliefs and evil deeds and deny the possibility of t... he Day of Judgment, the qualities of the believers and the righteous were subsequently given, and their elevated position was described. Now once again attention is drawn to those who deny the possibility of Judgment Day. They are invited to ponder on the signs of Allah on earth that testify to the might of the Creator and His boundless power, and thus the skeptics are advised to desist from denying the Judgment Day. In this way the statement is connected to the preceding statement in verse [ 8] |"You are involved in contradictory statement.|" Tafsir Mazhari is of the view that this verse too describes the quality of the believers and the righteous. The word muqinin (those who have certainty of faith) refers to the same God-fearing people mentioned in an earlier verse. The sense is that these people keep pondering on the divine signs spread on earth and in their own beings, and it increases their belief. In another verse they are described as وَيَتَفَكَّرُ‌ونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ |"...and ponder on the creation of the heavens and the earth...|". (3:191) Allah&s signs on earth include what Allah has placed on the earth, the various plants, animals, valleys, mountains, deserts, rivers and oceans. He also created mankind with different languages, colours, intentions and abilities, and a variety among them, differences in the power of understanding and comprehension, their deeds, and ultimately earning happiness or misery. Allah put every organ in their bodies in its rightful place where they most need it to be.  Show more

آفاق دانفس دونوں میں قدرت کی نشانیاں : (آیت) وَفِي الْاَرْضِ اٰيٰتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ ، ( یعنی زمین میں بہت نشانیاں قدرت کی ہیں، یقین کرنے والوں کے لئے) پچھلی آیات میں اول کفار و منکرین کا حال اور انجام بد بتلایا گیا ہے، پھر مومنین متقین کے حالات وصفات اور ان کے درجات عالیہ کا ذکر فرمایا، اب پھر کف... ار و منکرین قیامت کے حال کی طرف غور اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی نشانیاں ان کے پیش نظر کر کے انکار سے باز آجانے کی ہدایت ہے، تو اس جملہ کا تعلق مذکورہ سابق جملے (اِنَّكُمْ لَفِيْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ ) سے ہوا، جس میں قرآن و رسول سے انکار کا ذکر ہے۔ اور تفسیر مظہری میں اس کو بھی مومنین متقین ہی کی صفات میں داخل کیا، اور موقنین سے مراد وہی متقین ہیں اور اس میں ان کا یہ حال بتلایا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات قدرت جو زمین و آسمان میں پھیلی ہوئی ہیں ان میں غور و فکر اور تدبر سے کام لیتے ہیں جس کے نتیجہ میں ان کا ایمان و ایقان بڑھتا ہے جیسا کہ ایک دوسری آیت میں ان کے بارے میں ارشاد ہے ( آیت) ویتفکرون فی خلق السموت وا لارض) ۔ اور زمین میں جن آیات قدرت کا ذکر فرمایا ہے وہ بیشمار ہیں، زمین میں نباتات اور اشجار و باغات ہی کو دیکھو ان کے اقسام و انواع ان کے رنگ و بو ایک ایک پتہ کی تخلیق میں کمال حسن پھر ان میں سے ہر ایک کے خواص و آثار میں اختلاف کی ہزاروں قسمیں، اسی طرح زمین میں نہریں، کنویں اور پانی کے دوسرے مرکز اور ان سے تیار ہونے والی لاکھوں انواع مخلوقات، زمین کے پہاڑ اور غار، زمین میں پیدا ہونے والے حیوانات اور ان کی ان گنت اقسام و انواع، ہر ایک کے حالات اور منافع مختلف، زمین میں پیدا ہونے والے انسانوں کے حالات مختلف قبائل اور مختلف خطوں کے انسانوں میں رنگ اور زبان کا امتیاز، اخلاق و عادات کا اختلاف وغیرہ جن میں آدمی غور کرے تو ایک ایک چیز میں اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کے اتنے مظاہر پائے گا کہ شمار کرنا بھی مشکل ہے   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَفِي الْاَرْضِ اٰيٰتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ۝ ٢٠ ۙ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ... ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ يقن اليَقِينُ من صفة العلم فوق المعرفة والدّراية وأخواتها، يقال : علم يَقِينٍ ، ولا يقال : معرفة يَقِينٍ ، وهو سکون الفهم مع ثبات الحکم، وقال : عِلْمَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 5] «2» ، وعَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 7] «3» وحَقُّ الْيَقِينِ [ الواقعة/ 95] وبینها فروق مذکورة في غير هذا الکتاب، يقال : اسْتَيْقَنَ وأَيْقَنَ ، قال تعالی: إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ، وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] ، لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] وقوله عزّ وجلّ : وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] أي : ما قتلوه قتلا تَيَقَّنُوهُ ، بل إنما حکموا تخمینا ووهما . ( ی ق ن ) الیقین کے معنی کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ اس کے پایہ ثبوت تک پہنچ جانے کے ہیں اسی لئے یہ صفات علم سے ہے اور معرفت اور وغیرہ سے اس کا در جہ اوپر ہے یہی وجہ ہے کہ کا محاورہ تو استعمال ہوات ہے لیکن معرفۃ الیقین نہیں بولتے اور قدر معنوی فرق پایا جاتا ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد بیان کریں گے استیتن والقن یقین کرنا قرآن میں ہے : ۔ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ہم اس کو محض ظن ہی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا ۔ وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] یقین کرنے والوں کیلئے اور آیت کریمہ : ۔ وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا نہیں کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ انہیں ان کے قتل ہوجانے کا یقین نہیں ہے بلکہ ظن وتخمین سے ان کے قتل ہوجانے کا حکم لگاتے ہیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠{ وَفِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ ۔ } ” اور زمین میں (ہر چہارطرف) نشانیاں ہیں یقین کرنے والوں کے لیے۔ “ سورة البقرۃ ‘ آیت ١٦٤ (آیت الآیات) میں اللہ تعالیٰ کی ان نشانیوں کا ذکر تفصیل کے ساتھ ہوا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

18 The signs imply those proofs which testify to the possibility and necessity of the Hereafter. The earth's own body and its structure, its having been placed at a suitable distance from the sun at a particular angle, the arrangement of heat and light and of different seasons on it, the provision of air and water on it, and of countless different kinds of treasures in its belly, covering its surf... ace with a fertile crest and causing to grow in it an endless variety of vegetables, generating countless races of the animals of the land and water and air, providing suitable food and proper conditions for the life of every species, creating and making available all those means and resources on it even before the creation of man, so as to meet and suit his ever increasing needs in every stage of history as well as accord with the development of his civilization and way of living, these and countless other signs can be seen in the earth and its surroundings by every discerning eye. The case of the one who has closed the doors of his heart to belief and faith is different. He will see in these every thing else but not any sign that may point to the reality. But an un-prejudiced person who has an open mind, will never form the idea after observing these signs that all this has come about as the result of an accidental explosion, that had occurred suddenly in the universe millions of years ago; he will rather be convinced that this wise and perfect work of art is the creation of an Omnipotent and Omniscient God. And that God Who has made this earth cannot be helpless to resurrect tnan after death, nor can He be so foolish as to leave a sensible and intelligent being like man after granting him powers and authority to roam at will in His earth. The fact that man has been granted powers and authority by itself demands that he should be accountable; otherwise it would be against wisdom and justice; and the Creator's being all-powerful (Omnipotent) is by itself a proof that after the human species has fulfilled its function in the world, He can raise all its members back to life and gather them together from wherever they are lying dead in the catch for the purpose of accountability.  Show more

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :18 نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو آخرت کے امکان اور اس کے وجوب و لزوم کی شہادت دے رہی ہیں ۔ زمین کا اپنا وجود اور اس کی ساخت ، اس کا سورج سے ایک خاص فاصلے پر اور ایک خاص زاویے پر رکھا جانا ، اس پر حرارت اور روشنی کا انتظام ، اس پر مختلف موسموں کی آمد و رفت ، اس ... کے اوپر ہوا اور پانی کی فراہمی ، اس کے پیٹ میں طرح طرح کے بے شمار خزانوں کا مہیا کیا جانا ، اس کی سطح پر ایک زرخیز چھلکا چڑھایا جانا ، اس میں قسم قسم کی بے حد و حساب نباتات کا اگایا جانا ، اس کے اندر خشکی اور تری اور ہوا کے جانوروں کی بے شمار نسلیں جاری کرنا ، اس میں ہر نوع کی زندگی کے لیے مناسب حالات اور موزوں خوراک کا انتظام کرنا ، اس پر انسان کو وجود میں لانے سے پہلے وہ تمام ذرائع و وسائل فراہم کر دینا جو تاریخ کے ہر مرحلے میں اس کی روز افزوں ضروریات ہی کا نہیں بلکہ اس کی تہذیب و تمدن کے ارتقاء کا ساتھ بھی دیتے چلے جائیں ، یہ اور دوسری ان گنت نشانیاں ایسی ہیں کہ دیدۂ بینا رکھنے والا جس طرف بھی زمین اور اس کے ماحول میں نگاہ ڈالے وہ اس کا دامن دل کھینچ لیتی ہیں ۔ جو شخص یقین کے لیے اپنے دل کے دروازے بند کر چکا ہو اس کی بات تو دوسری ہے ۔ وہ ان میں اور سب کچھ دیکھ لے گا ، بس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے والی کوئی نشانی ہی نہ دیکھے گا ۔ مگر جس کا دل تعصب سے پاک اور سچائی کے لیے کھلا ہوا ہے وہ ان چیزوں کو دیکھ کر ہرگز یہ تصور قائم نہ کرے گا کہ یہ سب کچھ کسی اتفاقی دھماکے کا نتیجہ ہے جو کئی ارب سال پہلے کائنات میں اچانک برپا ہوا تھا ، بلکہ اسے یقین آ جائے گا کہ یہ کمال درجے کی حکیمانہ صنعت ضرور ایک قادر مطلق اور دانا و بینا خدا کی تخلیق ہے ، اور وہ خدا جس نے یہ زمین بنائی ہے نہ اس بات سے عاجز ہو سکتا ہے کہ انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کر دے ، اور نہ ایسا نادان ہو سکتا ہے کہ اپنی زمین میں عقل و شعور رکھنے والی ایک مخلوق کو اختیارات دے کر بے نتھے بیل کی طرح چھوڑ دے ۔ اختیارات کا دیا جانا آپ سے آپ محاسبے کا تقاضا کرتا ہے ، جو اگر نہ ہو تو حکمت اور انصاف کے خلاف ہو گا ۔ اور قدرت مطلقہ کا پایا جانا خود بخود اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں نوع انسانی کا کام ختم ہونے کے بعد اس کا خالق جب چاہے محاسبے کے لیے اس کے تمام افراد کو زمین کے ہر گوشے سے ، جہاں بھی وہ مرے پڑے ہوں ، اٹھا کر لا سکتا ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(51:20) الموقنین ۔ اسم فاعل جمع مذکر معرفہ مجرور ایقان (افعال) مصدر۔ اہل ایمان اہل توحید۔ اہل یقین، یقین کرنے والے۔ ی ق ن حروف مادہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 جو اس نظام کائنات کے خلاق، مالک کے وجود اور آخرت کے امکان بلکہ وجوب و لزوم کی شہادت دیتی ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جنت ایمان کے بدلے نصیب ہوگی اور ایمان یقین کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔ یقین کے ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر غور وخوض کرے، اور ان پر ایمان لائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اور صفات کی معرفت کے لیے نہ صرف زمین میں بیشمار نشانیاں پیدا کی ہیں بلکہ اس نے لوگوں کے وجود میں بھ... ی اپنی قدرت کی نشانیاں پیدا کی ہیں کہ لوگ ان پر غور کریں تو انہیں اپنے رب کی ذات اور صفات پر اس طرح یقین ہوجائے کہ وہ کسی اور کو الٰہ ماننے اور اس کا شریک بنانے اور اس کی نافرمانی کی جرأت نہ کرسکیں۔ لیکن بیشمار لوگ اپنے رب کی قدرتوں اور نعمتوں سے مستفید ہوتے ہیں مگر اس کی ذات اور صفات پر صحیح معنوں میں یقین نہیں رکھتے۔ ایسے لوگوں کو بالخصوص باربار دعوت دی جاتی ہے کہ وہ زمین و آسمان اور اپنے آپ پر غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کس طرح پیدا فرمایا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے یقین کرنے والوں کے لیے زمین میں اپنی قدرت کی بیشمار نشانیاں رکھی ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے وجود میں اپنی قدرت کی نشانیاں رکھی ہیں مگر لوگ غور و فکر نہیں کرتے۔ تفسیر بالقرآن انسان کی تخلیق میں اللہ کی قدرت کی نشانیاں : ١۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں اور زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا۔ (البقرۃ : ٢٢) ٢۔ ” اللہ “ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ (الروم : ٢٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک نطفے سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٤۔ ” اللہ “ ہی نے انسان کو بڑی اچھی شکل و صورت میں پیدا فرمایا۔ (التین : ٤)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس آیت کے ذریعے انفس وآفاق میں موجود نشانیوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ تمہارے لئے رزق کے جو ذرائع مقرر کردیئے ہیں وہ آسمان سے مقرر ہیں اور اللہ اپنی ذات کی قسم اٹھا کر فرماتا ہے یہاں ذات باری کو رب سماء اور ارض کہا گیا جن کا ذکر اس سبق میں ہوچکا ہے اور جو اب قسم یہی اہم سوال ہے یع... نی حشرونشر۔ وفی الارض ........ للموقنین (٥١ : ٠٢) وفی ........ تبصرون (٥١ : ١٢) ” زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں یقین لانے والوں کے لئے اور خود تمہارے وجود میں ہیں کیا تم کو سوجھتا نہیں “ یہ چھوٹا سا سیارہ جس کے اوپر ہم رہتے ہیں یہ ایک بہت بڑی نمائش گاہ ہے۔ ان آیات وعجائبات کے لئے جو اس میں اللہ نے رکھے ہیں۔ اس نمائش گاہ میں اس دنیا کے عجائبات میں سے بہت ہی کم ابھی تک نمائش کے لئے رکھے جاسکے ہیں۔ آئے دن نئے نئے انکشافات ہوتے رہتے ہیں اور نئے نئے عجائبات ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔ اسی قسم کی ایک نمائش گاہ خود ہماری ذات ہے۔ نفس انسانی ، اس کی پراسرار نفسیاتی دنیا ، اس حضرت انسان کے اندر بھی اس کائنات کے اسرار موجود ہیں۔ صرف زمین کے اسرار نہیں بلکہ پوری کائنات کے اسرار۔ ان دو نمائش گاہوں کی طرف ان آیات میں مختصر اشارہ ہے کہ ان دونوں نمائش گاہوں کے دروازے تمہارے لئے کھولے جارہے ہیں لیکن فائدہ اسی شخص کو ہوگا جو ان کو دیکھنا چاہے اور جو یقین کرنا چاہے اور اپنی زندگی کی نعمتوں اور خوشیوں سے بھرنا چاہے جو علم ومعرفت اور دانائی اور عبرت حاصل کرنا چاہے جن سے اس کا دل زندہ ہوگا اور عمر زیادہ ہوگی۔ اللہ نے اپنا یہ کلام اس طرح بنایا ہے کہ اس کی مخلوقات میں سے ہر سطح کے لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ہر صورت حال اور ہر قسم کے معاشروں کے لئے وہ رہنما ہے۔ ہر شخص ، ہر نفس اور ہر سطح کی عقل وادراک کے لئے اس کلام میں ہدایت اور دلچسپی اور علم ہے۔ ہر شخص اپنی عقلی قوت ہاضمہ کے مطابق اس سے استفادہ کرسکتا ہے۔ جوں جوں انسان علم ومعرفت میں ارتقائی منازل طے کرتا ہے ، جوں جوں اس کا دائرہ ادراک وسیع ہوتا ہے ، اس کی معلومات بڑھتی ہیں ، اس کے تجربات آگے بڑھتے ہیں اور وہ نفس اور کائنات کے اسرار حاصل کرتا ہے تو اس کا حصہ اس قرآن میں بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علوم قرآنی میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اس کی زاد راہ اور اس کا رزق اس قرآن میں بڑھ جاتا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے ” جس کے عجائبات ختم نہیں ہوتے اور زیادہ استعمال سے یہ پرانا نہیں ہوتا۔ “ یہ وہ الفاظ ہیں جو اس کے بارے حضور اکرم نے فرمائے کیونکہ اس کے اسرار و رموز سے زیادہ واقف حضور ہی ہیں۔ یہ زندہ تجربہ تھا جو آپ کو قرآن کے بارے میں ہوا اور جس کو آپ نے ان الفاظ میں بیان کیا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن لوگوں نے پہلی مرتبہ قرآن کو سنا تھا انہوں نے اس کائنات میں پائے جانے والے دلائل ونشانات کو اور خود ان کے نفوس کے اندر جو دلائل ونشانات تھے ان کو اس وقت کے علم ومعرفت کے مطابق سمجھا تھا۔ ان کے بعد آنے والی نسلوں نے بھی اپنے علم ومعرفت اور اپنے تجربات کے مطابق ان آیات کو سمجھا اور بیان کیا۔ آج ہم بھی اپنا حصہ پا رہے ہیں جس قدر علم ومعرفت اور جس قدر تجربات وانکشافات ہمارے سامنے آج تک آچکے ہیں ، آج ہم تک جو علوم اور تجربات پہنچے ہیں وہ اس عظیم کائنات اور انسان کے پر پیچ نفس کے آیات ونشانات میں سے بہت ہی قلیل حصہ ہیں۔ ہم سے بعد میں آنے والی نسلوں کو ہمارے مقابلے میں زیادہ آیات ونشانات ملیں گے۔ اس کائنات میں بھی اور نفس انسانی میں بھی اور قیامت تک اس نمائش گاہ عالم اور نمائش گاہ نفس انسانی میں نئے نئے عجائبات برائے نمائش رکھے جاتے رہیں گے۔ یہ زمین ، زندگی کے لئے تیار شدہ سیارہ ، جو زندگی کا گہوارہ ہے اور جسے زندگی کی تمام ضروریات سے لیس کیا گیا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ شاید اس عظیم اور ہولناک کائنات میں یہ واحد سیارہ ہے جسے حیات کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ اس میں ایک جگہ رکے ہوئے ستارے بھی ہیں اور مداروں میں چلنے والے سیارے بھی ہیں۔ ان میں سے جو ہمیں معلوم ہیں ان کی تعداد اربوں میں ہے اور یہ یادرکھنا چاہئے کہ اس کائنات کا جو حصہ معلوم ہے وہ نسبتاً بہت ہی کم ہے۔ اس میں کئی ملین کہکشاں ہیں اور ہر کہکشاں کے کروڑ ہا ستارے ہیں اور ان کے کواکب ہیں جو ان ستاروں کے ارد گرد چکر لگاتے رہتے ہیں۔ ان سیاروں میں سے صرف یہ زمین ہی ایک سیارہ ہے جسے اس پر موجود زندگی کے لئے عجیب خصوصیات دی گئی ہیں۔ ان میں سے ہر خصوصیت ایک نشانی ہے۔ اگر ان خصوصیات میں سے ایک خصوصیت بھی ختم ہوجائے یا اس کے اندر کچھ ردوبدل ہوجائے تو زمین کے اوپر سے ہر قسم کی زندگی کا وجود ہی خطم ہوجائے۔ اگر اس زمین کا حجم بدل جائے ، ٹیٹرھی ہوجائے یا چھوٹی ، اگر سورج سے اس کا فاصلہ بدل جائے ، کم ہوجائے یا زیادہ ، اگر سورج کا حجم بدل جائے اور اس کا درجہ حرارت بدل جائے اور یہ زمین اپنے محور پر جس طرح جھکی ہوئی ہے اگر اس کے اس جھکاؤ میں کوئی تغیر واقع ہوجائے اگر اس کی گردش محوری یا سورج کے گرد اس کی سالانہ گردش میں کمی بیشی آجائے اگر چاند کا حجم متغیر ہوجائے یا زمین سے قریب یا دور ہوجائے۔ اگر زمین کے اندر تری اور خشکی کی نسبت بدل جائے ، غرض اگر ، اگر ، اگر .... اور ہزار ہا اگر ، اگر ان ہزارہا موافقات اور سہولیات میں سے کوئی ایک بھی بدل جائے تو اس سیارے پر سے اس خوبصورت زندگی کا نام ونشان ہی ختم ہوجائے۔ کیا یہ ایک چیز نشانی نہیں ، کیا یہ سب چیزیں نشانات نہیں جو بتاتی ہیں کہ ایک ذات ہے جس نے ان کو منظم کیا ہے ، فراہم کیا ہے۔ اور خوراک اور رزق کی مختلف اقسام جو اس زمین پر رہنے والی اور بسنے والی مخلوقات کے لئے اللہ نے فراہم کی ہیں۔ یہ مخلوقات سطح زمین کے اوپر رہتی ہوں ، فضا میں تیررہی ہوں ، یا پانی میں تیررہی ہوں یا زمین کے غاروں میں رہتی ہوں یا اس کے پہاڑوں میں رہتی ہوں یا اس کی وادیوں اور بستیوں میں اندر رہتی ہوں ، سب کے لئے خوراک تیار ہے۔ بعض کی مرکب ہے اور بعض کی بسیط شکل میں ہے۔ بہرحال یہ ان زندہ چیزوں کے وجود کے لئے قابل قبول ہے اور ان لاتعداد زندہ اشیاء کی ضروریات پوری کرتی ہے جس طرح زندہ مخلوقات لاتعداد انواع و اقسام کی ہیں اسی طرح ان کی خوراک بھی لاتعداد و انواع و اقسام کی ہے۔ یہ انواع خوراک جو زمین کے اندر ہیں جو بہتی اور چلتی ہیں جو ہوا میں ہیں جو سطح زمین پر اگتی ہیں جو سورج سے آرہی ہیں جو دوسرے جہانوں سے آرہی ہیں جو تمہیں معلوم ہی نہیں لیکن یہ ہر قسم کی خوراک ان زندہ اشیاء کے لئے ہر طرف سے چلی آرہی ہے اور بڑی مقدار میں چلی آرہی ہے۔ اللہ کی مشیت اور اس کی تدبیر کے مطابق یہ ایک عظیم خزانہ اور اسٹو رہے جو ان لاتعداد انواع و اقسام کے کھانے والوں کے لئے سپلائی پوری کراتا ہے۔ یہ ہے ربانی سٹورالرزاق کا انتظام۔ پھر اس زمین کے مناظر ومشاہد کی رنگارنگی ، جہاں تک بھی نظر جاسکتی ہو جہاں جہاں بھی قدم جاسکے ہوں یہ بھی اپنی جگہ عجائبات ہیں جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ یہ تنگ گڑھے اور کشادہ نالے ، وادیاں اور پہاڑ ، سمندر اور بحیرے ، نہریں اور نالیاں اور باغات کے ٹکڑے ٹکڑے ، انگور اور کھجور ، اکہرے اور دوہرے ، یہ سب مناظر اور مشاہد ایسے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بنانے والے کے کمالات کا یہ عجوبہ ہیں۔ ان میں مسلسل تغیرات ہوتے رہتے ہیں اور یہ کسی وقت بھی ایک حالت میں نہیں ہوتے۔ انسان ایک زمین پر گزرتا ہے تو وہ خشک اور قحط زدہ نظر آتی ہے یہ بھی ایک منطر ہے اور پھر کیا دیکھتا ہے کہ وہ سر سبز اور نعمتوں اور چارہ سے بھری ہوتی ہے تو یہ بھی ایک منظر ہے۔ کبھی نہایت ہی سر سبزی اور شاداں ہوتی ہے۔ یہ ایک منظر ہے۔ کبھی وہ دیکھتا ہے کہ تمام زمین زرد اور خشک ہوگئی اور فصل کٹنے والی ہے۔ یہ بھی ایک منظر ہوتا ہے اور وہ اپنی جگہ پر کھڑا ہوتا ہے بالکل ادھر ادھر نہیں گیا ہوتا ہے۔ وہ تمام مخلوقات جو اس زمین کو آباد کررہی ہیں مثلاً زندہ مخلوقات نباتات وحیوانات ، مچھلیاں اور پرندے چوپائے اور حشرات اور انسان قرآن نے ان کا تذکرہ ایک ہی آیت میں کیا ہے۔ یہ مخلوقات جن کے انواع و اقسام کی تعداد کا بھی پوری طرح ہمیں علم نہیں ہے یہ تو دور کی بات ہے کہ ایک نوع کے افراد گنے جاسکیں۔ یہ تو محال ہے۔ ان میں سے ہر نوع کی مخلوقات ایک امت ہے اور ان کا ہر ایک فرد ایک عجوبہ ہے۔ ہر حیوان ، ہر پرندہ ، ہر چرندہ اور ہر کیڑا ، ہر پودا نہیں بلکہ ہر پودے کی ہر شاخ اور ہر شاخ کا ہر پتہ اور ہر شاخ کا ہر پھول اور ہر پھول کی ہر پتی یہ اللہ کی ایک نمائش گاہ ہے جس کے عجائبات ختم نہیں ہوتے۔ اگر انسان بیان کرنے لگے بلکہ تمام انسان بیک وقت بیان کرنے لگیں وہ غور کریں اور لکھیں اور بیان کریں کہ اس زمین میں کیا کیا نشانات الٰہیہ ہیں اور کیا کیا عجائبات ہیں تو نہ ان کی بات ختم ہو اور نہ ہی عجائبات واشارات ختم ہوں۔ قرآن کی یہ آیت تو صرف اس قدر بیان کرتی ہے کہ انسان کا دل و دماغ غور وفکر کے لئے بیدار ہوجائے اور اس عظیم الشان نمائش میں جو چیزیں قدرت نے رکھی ہیں ان کو دیکھیں اور روشنی میں لائیں سمجھیں اور سمجھائیں۔ ہنسیں اور ہنسائیں اور یوں اس کرہ ارض پر اپنے اس مختصر سفر کو خوشگوار بنائیں۔ لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ ان عجائبات کا ادراک وہی کرسکتا ہے اور ان کے ذریعے زندگی کے اس مختصر سفر کو وہی خوشگوار بنا سکتا ہے جس کا دل یقین سے بھر چکا ہو۔ وفی الارض ایت للموقنین (٥١ : ٠٢) ” اور زمین میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو یقین کرتے ہیں “ یہ یقین ہی ہے جو آنکھوں کو بینائی فراہم کرتا ہے تو وہ دیکھتی ہیں۔ یہ ایمان ہی ہے جو زمین کے ان مظاہر قدرت کو زندگی دیتا ہے اور وہ اپنے اسرار اور موز بتاتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ ان کی پشت پر دست قدرت کی کیا کیا کارستانیاں ہیں۔ بغیر ایمان کے یہ سب مناظر ومشاہد مردہ پڑے رہتے ہیں۔ جامد ہوجاتے ہیں اور مفہوم سے خالی ہوتے ہیں۔ یہ ایمان سے خالی دل سے ہمکلام نہیں ہوتے۔ وہ اس کے ساتھ ہمقدم ہوکر نہیں چلتے۔ کئی ایسے انسان ہیں جو اللہ کی اس نمائش گاہ میں چلتے پھرتے ہیں لیکن انہیں اس میں نظر کچھ نہیں آتا۔ ان کو یہ کائنات زندہ اور گویا نظر نہیں آتی۔ وہ اس کی زبان نہیں سمجھتے کیونکہ ان کے دلوں کو ایمان کے لمس سے زندگی نہیں بخشی۔ ان کے لئے ان کا ماحول زندہ نہیں ہے۔ بعض ایسے لوگوں میں بڑے بڑے علماء اور سائنس دان بھی ہوسکتے ہیں۔ یعلمون ........ الدنیا ” مگر وہ اس دنیا کی زندگی کے صرف چھلکے کے عالم ہیں “ رہی اس دنیا کی اندرونی حقیقت تو وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہے کیونکہ کوئی بھی دل اس کائنات کی حقیقت کو ایمان کی کنجی سے کھول سکتا ہے کوئی بھی آنکھ صرف ایمان کی روشنی سے ان حقائق کو دیکھ سکتی ہے۔ صدق اللہ العظیم ........  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

زمین میں اور انسانوں کی جانوں میں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی شان خالقیت اور رازقیت بیان فرمائی ہے ارشاد فرمایا کہ زمین میں یقین کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں اور تمہاری جانوں میں بھی نشانیاں ہیں ان میں غور کرنے سے تمہاری سمجھ میں یہ بات آسکتی ہے کہ اپنی مخلوق میں جو ایسے...  ایسے تصرفات کرنے والا ہے وہ مردوں کو بھی زندہ کرسکتا ہے، بصیرت کی آنکھوں سے دیکھنے والا اس بات کو کچھ سمجھ سکتا ہے کہ قیامت قائم کرنا اس ذات کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے جس کے یہ تصرفات ہیں۔ ﴿اِنَّ الَّذِيْۤ اَحْيَاهَا لَمُحْيِ الْمَوْتٰى﴾ اور ﴿اَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِيٍّ يُّمْنٰىۙ٠٠٣٧﴾ میں اس مضمون کو بیان فرمایا ہے۔ پھر فرمایا کہ آسمانوں میں تمہارا رزق ہے اور جو کچھ وعدہ کیا جاتا ہے وہ بھی ہے۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ رزق سے بارش مراد ہے جو آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ اور وہ انسانوں کی خوراک یعنی کھانے پینے کی چیزیں پیدا ہونے کا سبب بنتی ہے اور وما تو عدون کے بارے میں حضرت مجاہد (رح) سے نقل کیا ہے کہ اس سے خیر اور شر مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ ثواب اور عقاب مراد ہے یہ دونوں مقرر ہیں اور مقدر ہیں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7:۔ ” وفی الارض۔ تا۔ تنطقون “ یہ ثبوت قیامت پر عقلی دلیل ہے۔ زمین میں اور خود تمہاری جانوں میں بھی یقین لانے والوں کے لیے دلائل موجود ہیں تم غور و فکر کر کے انہیں سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ؟ اللہ نے زمین کو کیسی قدرت و حکمت سے پیدا فرمایا وہ دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔ ” وفی السماء رزقکم ال... خ “ یعنی آسمان سے باران رحمت نازل فرماتا ہے جس سے مختلف انواع و اقسام کا رزق پیدا ہوتا ہے۔ ” وما توعدون “ یعنی اولے بھی آسمان ہی سے گرتے ہیں۔ ” فورب السماء۔ الایۃ “ زمین و آسمان کے رب کی قسم حشر و نشر اسی طرح حق ہے جس طرح تم بولتے اور منہ سے الفاظ نکالتے ہو اسی طرح تم بھی قبروں سے نکالے جاؤ گے۔ قالہ الشیخ (رح) تعالی۔ یا مطلب یہ ہے کہ بولتے وقت جس طرح تمہیں یہ یقین ہوتا ہے کہ تم بول رہے ہو اسی طرح حشر و نشر بھی قطعی اور یقینی ہے۔ کما انہ لا شک لکم فی انکم تنطقون ینبغی ان لا تشکوا فی تحقق ذلک (بیضاوی) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(20) اور زمین میں یقین کرنیوالوں کے لئے بہت سے دلائل موجود ہیں۔