Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 26

سورة الذاريات

فَرَاغَ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ فَجَآءَ بِعِجۡلٍ سَمِیۡنٍ ﴿ۙ۲۶﴾

Then he went to his family and came with a fat [roasted] calf

پھر ( چپ چاپ جلدی جلدی ) اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ایک فربہ بچھڑے ( کا گوشت ) لائے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَرَاغَ إِلَى أَهْلِهِ ... Then he turned to his household, (Ibrahim discretely went inside in haste), ... فَجَاء بِعِجْلٍ سَمِينٍ and brought out a roasted calf. (from the best of his menu), And in another Ayah فَمَا لَبِثَ أَن جَأءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ And he hastened to entertain them with a roasted calf. (11:69) means roasted on hot coals

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١] یعنی فرشتوں سے یہ نہیں پوچھا کہ آپ کھانا کھائیں گے ؟ کیونکہ مہمان عموماً اس کے جواب میں یہی کہہ دیتے ہیں کہ تکلیف کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ چپکے سے اندر آگئے اور ایک موٹا تازہ بچھڑا ذبح کرکے اسے گھی میں تل کر یا بھون کر مہمانوں کی ضیافت کے لیے لے آئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) فراغ الی اھلہ :” راع بروع روعا “ (ن) کا معنی خفیہ طور پر جانا، حیلے کے ساتھ تیزی سے نکل جانا ہے۔ یہ ” روعان الثعلب “ سے ہے، لومڑی کا خفیہ طریقے سے آنا جانا۔ مطلب یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) مہمانوں کے لئے کھانے کا انتظام کرنے کے لئے خاموشی سے گئے، تاکہ انہیں خبر نہ ہو سکے اور وہ جاتے ہوئے دیکھ کر مہمانی لانے سے منع نہ کردیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مہمانوں سے پوچھنا کہ کیا آپ کھانا کھائیں گے تو ایک طرف، انہیں تو مہمانی کے اہتمام کا حتی الوسع پتا بھی نہیں لگنے دینا چاہیے۔ (٢) فجآء بعجل سمین : سورة ہود میں ” بعجل حنیذ “ (بھنا ہوا بچھڑا) آیا ہے۔ معلوم ہوا موٹا تازہ بچھڑا بھون کر لائے تھے۔ بعض مفسرین نے ” سمین “ کا معنی “ گھی میں تلا ہوا “ کیا ہے، کیونکہ ” سمن “ کا معنی موٹاپا بھی ہے اور گھی بھی۔ اس کے مطابق ” سمین “ کا معنی موٹا بھی ہوسکتا ہے اور گھی میں تلا ہوا بھی۔ مگر ” حنیذ “ کے ساتھ ” سمین “ کا معنی ” موٹا “ زیادہ مناسب ہے، کیونکہ ” حنیذ “ گرم پتھروں یا کوئلے پر بھنے ہوئے کو کہتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

رَ‌اغَ إِلَىٰ أَهْلِهِ (Then he slipped off to his home - 51:26). Ragha is derived from rawgh which means to slip out quietly. In other words, Holy Prophet Ibrahim (علیہ السلام) discreetly went in the house in haste to arrange for meal for his guests, so that they do not sense it. Otherwise they would have stopped him. Rules of Entertaining Guests Ibn Kathir says that this verse indicates proper manners for entertaining guests: Holy Prophet Ibrahim (علیہ السلام) ، the host, did not first mention that he would make food for them. He slipped out quietly, and brought the food to his guests quickly, while they were unaware that it was being prepared for them. Rather, he discreetly had it prepared and placed before them. He prepared the best kind of food he had, a young, fat roasted calf. Moreover, he did not place the food far from them and invite them to come close to it to eat. Rather, he placed it close to them فَقَرَّ‌بَهُ إِلَيْهِمْ &brought it close to them& and refrained from ordering them to eat. Instead he invited them politely, kindly and cordially to partake thus أَلَا تَأْكُلُونَ &Would you not eat?& This statement in the form of a question is similar to one of us saying to a guest, &Would you kindly partake of it - even if you are not hungry, at least for my sake?&

فَرَاغَ اِلٰٓى اَهْلِهٖ ، راغ، روغ سے مشتق ہے، جس کے معنی کسی جگہ سے کھسک جانے اور خفیہ طور پر چلے جانے کے ہیں، مطلب یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) مہمانوں کے لئے کھانے کا انتظام کرنے کے لئے گھر میں اس طرح گئے کہ مہمانوں کو ان کے اٹھ جانے کی خبر نہ ہو، ورنہ وہ کھانا اور مہمانی لانے سے انکار کرتے۔ آداب مہمانی : ابن کثیر نے فرمایا کہ اس آیت میں مہمان کے لئے چند آداب میزبانی کی تعلیم ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ پہلے مہمانوں سے پوچھا نہیں کہ میں آپ کے لئے کھانا لاتا ہوں، بلکہ چپکے سے کھسک گئے اور ان کی مہمانی کے لئے اپنے پاس جو سب سے اچھی چیز کھانے کی تھی یعنی بچھڑا ذبح کیا، اس کو بھونا اور لے آئے اور دوسرے یہ کہ لانے کے بعد مہمانوں کو اس کی تکلیف نہیں دی کہ ان کو کھانے کی طرف بلاتے، بلکہ جہاں وہ بیٹھے تھے وہیں لا کر ان کے سامنے پیش کردیا (فقربہ الیہم) تیسرے یہ کہ مہمانی پیش کرنے کے وقت انداز گفتگو میں کھانے پر اصرار نہ تھا بلکہ فرمایا الا تاکلون (کیا آپ کھائیں گے نہیں) اشارہ اس طرف ہوا کہ اگرچہ آپ کو حاجت کھانے کی نہ ہو، مگر ہماری خاطر سے کچھ کھایئے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَرَاغَ اِلٰٓى اَہْلِہٖ فَجَاۗءَ بِعِجْلٍ سَمِيْنٍ۝ ٢٦ ۙ فرغ الفَرَاغُ : خلاف الشّغل، وقد فَرَغَ فَرَاغاً وفُرُوغاً ، وهو فَارِغٌ. قال تعالی: سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَيُّهَ الثَّقَلانِ [ الرحمن/ 31] ، وقوله تعالی: وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] ، أي : كأنّما فَرَغَ من لبّها لما تداخلها من الخوف وذلک کما قال الشاعر : كأنّ جؤجؤه هواء «1» وقیل : فَارِغاً من ذكره، أي أنسیناها ذكره حتی سکنت واحتملت أن تلقيه في الیمّ ، وقیل : فَارِغاً ، أي : خالیا إلّا من ذكره، لأنه قال : إِنْ كادَتْ لَتُبْدِي بِهِ لَوْلا أَنْ رَبَطْنا عَلى قَلْبِها [ القصص/ 10] ، ومنه قوله تعالی: فَإِذا فَرَغْتَ فَانْصَبْ [ الشرح/ 7] ، وأَفْرَغْتُ الدّلو : صببت ما فيه، ومنه استعیر : أَفْرِغْ عَلَيْنا صَبْراً [ الأعراف/ 126] ، وذهب دمه فِرْغاً «2» ، أي : مصبوبا . ومعناه : باطلا لم يطلب به، وفرس فَرِيغٌ: واسع العدو كأنّما يُفْرِغُ العدو إِفْرَاغاً ، وضربة فَرِيغَةٌ: واسعة ينصبّ منها الدّم . ( ف ر غ ) الفراغ یہ شغل کی ضد ہے ۔ اور فرغ ( ن ) فروغا خالی ہونا فارغ خالی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] اور موسٰی کی ماں کا دل بےصبر ہوگیا ۔ یعنی خوف کی وجہ سے گویا عقل سے خالی ہوچکا تھا جیسا کہ شاعر نے کہا ہے کان جو جو ہ ھواء گویا اس کا سینہ ہوا ہو رہا تھا ۔ اور بعض نے فارغا کے معنی موسیٰ (علیہ السلام) کے خیال سے خالی ہونا کئے ہیں یعنی ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کا خیال ان کے دل سے بھلا دیا حتی کہ وہ مطمئن ہوگئیں اور موسیٰ (علیہ السلام) کو دریامیں ڈال دینا انہوں نے گوارا کرلیا بعض نے فارغا کا معنی اس کی یاد کے سوا باقی چیزوں سے خالی ہونا بھی کئے ہیں ۔ جیسا کہ اس کے بعد کی آیت : ۔ إِنْ كادَتْ لَتُبْدِي بِهِ لَوْلا أَنْ رَبَطْنا عَلى قَلْبِها [ القصص/ 10] اگر ہم ان کے دل کو مضبوط نہ کرتے تو قریب تھا کہ وہ اس قصے کو ظاہر کردیں سے معلوم ہوتا ہے اور اسی سے فرمایا : ۔ فَإِذا فَرَغْتَ فَانْصَبْ [ الشرح/ 7] تو جب فارغ ہوا کرو عبادت میں محنت کیا کروں سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَيُّهَ الثَّقَلانِ [ الرحمن/ 31] اے دونوں جماعتوں ہم عنقریب تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ اور افرغت الدلو کے معنی ڈول سے پانی بہا کر اسے خالی کردینا کے ہیں چناچہ آیت کریمہ : ۔ أَفْرِغْ عَلَيْنا صَبْراً [ الأعراف/ 126] ہم پر صبر کے دہانے کھول دے بھی اسی سے مستعار ہے ذھب دمہ فرغا اس کا خون رائیگاں گیا ۔ فرس فریغ وسیع قدم اور تیز رفتار گھوڑا گویا وہ دوڑ کر پانی کی طرح بہہ ر ہا ہے ۔ ضربۃ فریغۃ وسیع زخم جس سے خون زور سے بہہ رہا ہو ۔ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ عِجْلُ ( بچهڑا) : ولد البقرة لتصوّر عَجَلَتِهَا التي تعدم منه إذا صار ثورا . قال : عِجْلًا جَسَداً [ الأعراف/ 148] ، وبقرةٌ مُعْجِلٌ: لها عِجْلٌ. العجلۃ بچھڑے کو کہتے ہیں کیونکہ اس میں پھرتی پائی جاتی ہے جو بیل کی عمر تک پہنچنے پر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ عِجْلًا جَسَداً [ الأعراف/ 148] ایک بچھڑا ( بنالیا وہ ایک جسم تھا : ۔ اور وہ گائے جس کے ساتھ اس کا بچھڑ ہوا سے معجل کہا جاتا ہے ۔ سمن السِّمَنُ : ضدّ الهزال، يقال : سَمِينٌ وسِمَانٌ ، قال : أَفْتِنا فِي سَبْعِ بَقَراتٍ سِمانٍ [يوسف/ 46] ، وأَسْمَنْتُهُ وسَمَّنْتُهُ : جعلته سمینا، قال : ( س م ن ) السمن کے معنی موٹا پہ کے ہیں اور یہ ھزال کی ضد ہے اور سمین ( صیغہ صفت کے معنی ہیں فریہ ج سمان قرآن میں ہے : ۔ أَفْتِنا فِي سَبْعِ بَقَراتٍ سِمانٍ [يوسف/ 46] ہمیں ( اس خواب گی تعبیر) بتایئے کہ سات موٹی گایوں کو۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦{ فَرَاغَ اِلٰٓی اَہْلِہٖ فَجَآئَ بِعِجْلٍ سَمِیْنٍ ۔ } ” پھر وہ چپکے سے اپنے گھر والوں کی طرف گیا اور ایک (بھنا ہوا) موٹا تازہ بچھڑا لے آیا۔ “ سورة ہود (آیت ٦٩) میں ” عِجْلٍ حَنِیْذٍ “ (بھنا ہوا بچھڑا) کے الفاظ آئے ہیں۔ پرانے زمانے کی دعوتیں اسی انداز سے ہوا کرتی تھیں کہ جانور ذبح کیا اور گھی میں تل کر یا بھون کر پورے کا پورا مہمانوں کے سامنے حاضر کردیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

24 That is, "He did not tell his guests that he was going to arrange food for them, but after they were seated he went quietly into the house to arrange a feast for them, so that the guests should not rofuse it out of formality. " 25 In Surah Hud, the words are ijlin h_ anidh, a roasted calf; here bi-'ijlin samin: a fatted calf that he got roasted.

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :24 یعنی اپنے مہمانوں سے یہ نہیں کہا کہ میں آپ کے لیے کھانے کا انتظام کرتا ہوں بلکہ انہیں بٹھا کر خاموشی سے ضیافت کا انتظام کرنے چلے گئے ، تاکہ مہمان تکلفاً یہ نہ کہیں کہ اس تکلیف کی کیا حاجت ہے ۔ سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :25 سورہ ہود میں عِجْلٍ حَنِیْذٍ ( بھنے ہوئے بچھڑے ) کے الفاظ ہیں ۔ یہاں بتایا گیا کہ آپ نے خوب چھانٹ کر موٹا تازہ بچھڑا بھنوایا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(51:26) فراغ الی اھلہ : ف عطف اور ترتیب کے لئے ہے۔ راغ ماضی واحد مذکر غائب۔ روغ (باب نصر) مصدر بمعنی چپکے سے کسی چیز کی طرف ہونا۔ خفیہ دائو گھات لگانا۔ یعنی وہ چپکے سے اپنے اہل خانہ کی طرف گیا۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے فراغ الی الہتہم (37:91) وہ (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ) چپکے سے گھات لگا کر ان کے بتوں کی طرف گئے۔ فجاء بعجل سمین : ف ترتیب کی ہے۔ عجل بچھڑا۔ گائے کا بچہ، موصوف سمین : فربہ، موٹا تازہ، سمین (باب سمع ) مصدر سے بروزن فعلین صفت مشبہ ہے اس کی جمع سمان ہے۔ صفت اپنے موصوف کی، موٹا تازہ بچھڑا لایا (بھنا ہوا) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فراغ الی ........ الیھم (١٥ : ٧٢) ” پھر وہ چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گیا اور ایک بھنا ہوا موٹا تازہ بچھڑا مہمانوں کے آگے پیش کیا۔ “ حالانکہ روایات کے مطابق ان کی تعداد تین تھی۔ ان کے لئے تو ایک بازہ ہی کافی تھا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(26) ابراہیم خاموشی کے ساتھ اپنے گھر والوں کی طرف گیا اور ایک خوب فربہ اور موٹا بچھڑا گھی میں تلا ہوا لے آیا۔