Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 28

سورة الذاريات

فَاَوۡجَسَ مِنۡہُمۡ خِیۡفَۃً ؕ قَالُوۡا لَا تَخَفۡ ؕ وَ بَشَّرُوۡہُ بِغُلٰمٍ عَلِیۡمٍ ﴿۲۸﴾

And he felt from them apprehension. They said, "Fear not," and gave him good tidings of a learned boy.

پھر تو دل ہی دل میں ان سے خوف زدہ ہوگئے انہوں نے کہا آپ خوف نہ کیجئے اور انہوں نے اس ( حضرت ابراہیم ) کو ایک علم والے لڑکے کی بشارت دی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً ... Then he conceived fear of them. this Ayah is explained by Allah's statement, فَلَمَّا رَأَى أَيْدِيَهُمْ لاَ تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً قَالُواْ لاَ تَخَفْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمِ لُوطٍ وَامْرَأَتُهُ قَأيِمَةٌ فَضَحِكَتْ .. But when he saw their hands went not towards it, he mistrusted them, and felt a sense of fear of them. They said: "Fear not, we have been sent against the people of Lut." And his wife was standing (there), and she laughed ... (11:70-71), meaning, she was glad that the people of Lut would be destroyed on account of their rebellion and transgression against Allah, the Exalted. This is when the angels delivered the good news to her of a son, Ishaq, and Ya`qub after Ishaq, قَالَتْ يَا وَيْلَتَى أَأَلِدُ وَأَنَاْ عَجُوزٌ وَهَـذَا بَعْلِي شَيْخًا إِنَّ هَـذَا لَشَيْءٌ عَجِيبٌ قَالُواْ أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللّهِ رَحْمَتُ اللّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ She said: "Woe unto me! Shall I bear a child while I am an old woman, and here is my husband an old man Verily, this is a strange thing!" They said, "Do you wonder at the decree of Allah The mercy of Allah and His blessings be on you, O family of the house. Surely, He (Allah) is All-Praiseworthy, All-Glorious." (11:72-73) ... قَالُوا لاَا تَخَفْ ... They said: "Fear not." ... وَبَشَّرُوهُ بِغُلَمٍ عَلِيمٍ And they gave him glad tidings of a son having knowledge. This news was as good to Ibrahim as it was to his wife, for this son would be theirs, and therefore, they both were getting some good news. Allah the Exalted said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 ڈر اس لئے محسوس کیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سمجھے، یہ کھانا نہیں کھا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آنے والے کسی خیر کی نیت سے نہیں بلکہ شر کی نیت سے آئے ہیں۔ 28۔ 2 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے چہرے پر خوف کے آثار دیکھ کر فرشتوں نے کہا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢] سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے خوف کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ عرب میں قبائلی دستور یہ تھا کہ اگر مہمان کھانا نہ کھائے تو یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ کسی بری نیت سے آیا ہے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ عین ممکن ہے کہ مہمانوں کے کھانا نہ کھانے سے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو معلوم ہوگیا ہو کہ انسان نہیں بلکہ فرشتے ہیں۔ اس صورت سے ڈرنے کی وجہ یہ تھی کہ فرشتے غیر معمولی حالات کے سوا انسانی شکل میں نہیں آیا کرتے لہذا آپ کو خوف لاحق ہوا کہ غالباً کوئی خوفناک معاملہ در پیش ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) فاوجس منھم خیفۃ …: اس کی تفصیل کے لئے دیکھیے سورة ہود (٧٠) کی تفسیر۔ (٢) وبشروہ بغلم علیم : سورة ہود میں اس لڑکے کا نام اسحاق آیا ہے، وہ ” غلام علیم “ تھے اور اسماعیل (علیہ السلام) ” غلام حلیم۔ “ ان کا ذکر سورة صافات (١٠١) میں ہے۔ اسحاق (علیہ السلام) کو ” بغلم علیم “ فرمایا، حالانکہ ” علیم “ تو انہوں نے جوانی میں بننا تھا۔ اس سے ظاہر ہے کہ جو بچے حفظ شروع کردیں انہیں آئندہ کا لحاظ کرتے ہوئے حافظ کہا جاسکتا ہے۔ (واللہ اعلم)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً (So he felt some fear in his heart...51:28). When the guests did not eat the food, the Holy Prophet Ibrahim (علیہ السلام) conceived fear of them. In those days it was the custom of the noble people to entertain the guests who were expected to accept the hospitality of the host. If they did not, the host would become apprehensive that there is some danger afoot - probably they are enemies who came to cause some kind of trouble for them. In those days, even the rogues and wrongdoers had the noble quality that they would not cause any harm to anyone whose food they had eaten. Hence refusing to eat was a sign of hostility or danger.

فَاَوْجَسَ مِنْهُمْ ، یعنی ابراہیم (علیہ السلام) ان کے کھانا نہ کھانے کی وجہ سے ان سے خطرہ محسوس کرنے لگے جس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت شرفاء کا تعامل تھا کہ مہمان کچھ نہ کچھ مہمانی قبول کرتا اور کھاتا تھا جو مہمانی اتنی بھی قبول نہ کرے اس سے خطرہ ہوتا تھا کہ یہ شاید کوئی دشمن نہ ہو جو تکلیف پہنچانے آیا ہو، اس وقت کے چوروں ظالموں میں بھی شرافت تھی کہ جس کا کچھ کھالیا پھر اس کو نقصان نہیں پہنچاتے تھے، اس لئے نہ کھانا سبب خطرہ کا بنتا تھا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَوْجَسَ مِنْہُمْ خِيْفَۃً۝ ٠ ۭ قَالُوْا لَا تَخَـفْ۝ ٠ ۭ وَبَشَّرُوْہُ بِغُلٰمٍ عَلِيْمٍ۝ ٢٨ وجس الوَجْس : الصّوت الخفيّ ، والتَّوَجُّس : التّسمّع، والإيج اس : وجود ذلک في النّفس . قال تعالی: فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً [ الذاریات/ 28] فالوَجْس قالوا : هو حالة تحصل من النّفس بعد الهاجس، لأنّ الهاجس مبتدأ التّفكير ، ثم يكون الواجس الخاطر . ( و ج س ) الوجس کے معنی صوت خفی کے ہیں اور توجس ( تفعل ) خفی آواز سننے کی کوشش کرنے کو کہتے ہیں اور ایجاس کے معنی دل میں کوئی بات محسوس کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً [ الذاریات/ 28] اس وقت موسیٰ نے اپنے دل میں خوف معلوم کیا ۔ لہذا وجس اس حالت کو کہتے ہیں جو کسی ( خطرہ کے بعد دل میں پیدا ہوتی ہے اور جو کسی بنتی ہے اسے ھاجس اور اس کے بعد کی حالت کو واجس کہا جاتا ہے : خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ، وحقیقته : وإن وقع لکم خوف من ذلک لمعرفتکم . والخوف من اللہ لا يراد به ما يخطر بالبال من الرّعب، کاستشعار الخوف من الأسد، بل إنما يراد به الكفّ عن المعاصي واختیار الطّاعات، ولذلک قيل : لا يعدّ خائفا من لم يكن للذنوب تارکا . والتَّخویفُ من اللہ تعالی: هو الحثّ علی التّحرّز، وعلی ذلک قوله تعالی: ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر/ 16] ، ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اگر حالات سے واقفیت کی بنا پر تمہیں اندیشہ ہو کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے ) کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ جس طرح انسان شیر کے دیکھنے سے ڈر محسوس کرتا ہے ۔ اسی قسم کا رعب اللہ تعالیٰ کے تصور سے انسان کے قلب پر طاری ہوجائے بلکہ خوف الہیٰ کے معنی یہ ہیں کہ انسان گناہوں سے بچتا رہے ۔ اور طاعات کو اختیار کرے ۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ جو شخص گناہ ترک نہیں کرتا وہ خائف یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا نہیں ہوسکتا ۔ الخویف ( تفعیل ) ڈرانا ) اللہ تعالیٰ کے لوگوں کو ڈرانے کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگوں کو برے کاموں سے بچتے رہنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر/ 16] بھی اسی معنی پر محمول ہے اور باری تعالےٰ نے شیطان سے ڈرنے اور اس کی تخویف کی پرواہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ بشر واستبشر : إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] . ( ب ش ر ) البشر التبشیر کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : { إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ } ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر/ 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ { فَبَشِّرْ عِبَادِ } ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ { فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ } ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔ لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔ وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا غلم الْغُلَامُ الطّارّ «3» الشّارب . يقال : غُلَامٌ بيّن الغُلُومَةِ والغُلُومِيَّةِ. قال تعالی: أَنَّى يَكُونُ لِي غُلامٌ [ آل عمران/ 40] ، وَأَمَّا الْغُلامُ فَكانَ أَبَواهُ مُؤْمِنَيْنِ [ الكهف/ 80] ، وقال : وَأَمَّا الْجِدارُ فَكانَ لِغُلامَيْنِ [يوسف/ 19] ، وقال في قصة يوسف : هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] ، والجمع : غِلْمَةٌ وغِلْمَانٌ ، واغْتَلَمَ الْغُلَامُ :إذا بلغ حدّ الغلومة، ولمّا کان من بلغ هذا الحدّ كثيرا ما يغلب عليه الشّبق قيل للشّبق : غِلْمَةٌ ، واغْتَلَمَ الفحلُ. ( غ ل م ) الغلام اس لڑکے کو کہتے ہیں جس کی مسیں بھیگ چکی ہوں محاورہ ہے غلام بین الغلومۃ والغیو میۃ لڑکا جو بھر پور جوانی کی عمر میں ہو۔ کی عمر میں ہو قرآن پاک میں ہے : أَنَّى يَكُونُ لِي غُلامٌ [ آل عمران/ 40] میرے ہاں لڑکا کیونکہ ہوگا ۔ وَأَمَّا الْغُلامُ فَكانَ أَبَواهُ مُؤْمِنَيْنِ [ الكهف/ 80] اور وہ لڑکا تھا اس کے ماں باپ دونوں مومن تھے ۔ وَأَمَّا الْجِدارُ فَكانَ لِغُلامَيْنِ [يوسف/ 19] اور جو دیورار تھی سو وہ دو لڑکوں کی تھی ۔ اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قصہ میں فرمایا : هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] یہ تو نہایت حسین ) لڑکا ہے ۔ غلام کی جمع غلمۃ وغلمان آتی ہے ۔ اور اغتلم الغلام کے معنی ہیں لڑکا بالغ ہوگیا ۔ عام طور پر چونکہ اس عمر میں جنسی خواہش کا غلبہ ہوجاتا ہے اس لئے غلمۃ کا لفظ جنسی خواہش کی شدت پر بولا جاتا ہے ۔ اور اغتلم الفحل کے معنی ہیں سانڈ جنسی خواہش سے مغلوب ہوگیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جب پھر بھی انہوں نے نہ کھایا تو ان سے ابراہیم دل میں خوف زدہ ہوئے اور سمجھے کہ کہیں یہ دشمن نہ ہوں کیونکہ اس زمانہ میں جب کوئی شخص اپنے ساتھی کا کھانا کھا لیتا تھا وہ اس سے مطمئن ہوجاتا تھا غرض کہ جب فرشتوں نے حضرت ابراہیم کے خوف کو محسوس کیا تو وہ بولے ابراہیم آپ ہم سے ڈریے مت ہم آپ کے پروردگار کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرزند کی بشارت دی جو بچپن ہی سے بڑا عالم اور بڑھاپے میں بڑا حلیم اور عظیم المرتبت ہوگا یعنی اسحاق علیہ السلام۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨{ فَاَوْجَسَ مِنْہُمْ خِیْفَۃًط } ” تو اس نے ان کی طرف سے دل میں اندیشہ محسوس کیا۔ “ مہمانوں کے کھانا تناول نہ کرنے پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اندیشہ لاحق ہوا کہ شاید یہ لوگ میرے دشمن ہیں ‘ مجھے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور اسی لیے میرا نمک کھانے سے احتراز کر رہے ہیں۔ پرانے زمانے کے لوگ دشمنی میں بھی شرافت دکھاتے تھے ۔ اگر کسی کا نمک کھالیا جاتا تو اس کے بعد اسے نقصان پہنچانے کا نہیں سوچا جاتا تھا۔ { قَالُوْا لَا تَخَفْ ط } ” انہوں نے کہا : آپ ڈریں نہیں۔ “ { وَبَشَّرُوْہُ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ ۔ } ” اور انہوں نے اسے بشارت دی ایک صاحب علم بیٹے کی۔ “ صاحب علم بیٹے سے مراد حضرت اسحاق (علیہ السلام) ہیں جن کی پیدائش کی بشارت فرشتوں نے دی ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26 That is, "When they did not stretch out their hands for food, the Prophet Abraham became afraid in his heart. The reason for this fear could be that in tribal life the strangers' going to a house and avoiding food used to be an indication that they had come with an evil design. But most probably when they. refrained from food the Prophet Abraham realized that they were angels, who had come in human guise; and since the angels came in human guise only on extraordinary occasions, he became afraid that they must have come in that guise on some dreadful mission. 27 According to Surah Hud: 71, this was the good news of the birth of the Prophet Isaac (peace be upon him) and this also contained the good news that through the Prophet Isaac he would have a grandson like the Prophet Jacob (peace be upon him).

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :26 یعنی جب ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہ بڑھے تو حضرت ابراہیمؑ کے دل میں خوف پیدا ہوا ۔ اس خوف کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اجنبی مسافروں کا کسی کے گھر جا کر کھانے سے پرہیز کرنا ، قبائلی زندگی میں اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ وہ کسی برے ارادے سے آئے ہیں ۔ لیکن اغلب یہ ہے کہ ان کے اس اجتناب ہی سے حضرت ابراہیم سمجھ گئے کہ یہ فرشتے ہیں جو انسانی صورت میں آئے ہیں ، اور چونکہ فرشتوں کا انسانی شکل میں آنا بڑے غیر معمولی حالات میں ہوتا ہے اس لیے آپ کو خوف لاحق ہوا کہ کوئی خوفناک معاملہ در پیش ہے جس کے لیے یہ حضرات اس شان سے تشریف لائے ہیں ۔ سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :27 سورہ ہود میں تصریح ہے کہ یہ حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کا مژدہ تھا اور اس میں یہ بشارت بھی دی گئی تھی کہ حضرت اسحاق سے ان کو حضرت یعقوب علیہ السلام جیسا پوتا نصیب ہو گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

12: فرشتے چونکہ کچھ کھاتے نہیں ہیں، اس لیے انہوں نے کھانے سے پرہیز کیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس علاقے کی عادت کے مطابق یہ سمجھے کہ یہ کوئی دشمن ہیں۔ پھر جب انہوں نے اپنے بیٹے کی خوشخبری دی تو وہ سمجھ گئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ اس لیے آیت نمبر 30 میں انہوں نے اسی حیثیت سے ان سے خطاب فرمایا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(51:28) فاوجس : ف عاطفہ ۔ سببیہ ہے اوجس ماضی واحد مذکر غائب، ایجاس (افعال) مصدر بمعنی دل میں محسوس کرنا۔ قلب میں پوشیدہ آواز پانا۔ اس نے محسوس کیا۔ خیفۃ : خوف، ڈر، خاف یخاف کا مصدر ہے ۔ (باب فتح) بوجہ مفعول ہونے کے منصوب ہے ۔ قالوا ۔ یعنی مہمانوں نے کہا۔ لا تخف فعل نہی واحد مذکر حاضر خوف باب فتح مصدر۔ تو نہ ڈر۔ خوف مت کہا۔ بشروہ۔ ماضی جمع مذکر غائب تبشیر (تفعیل) مصدر۔ خوش خبری دینا۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب، جس کا مرجع حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں۔ ان مہمانوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو خوشخبری دی۔ بغلام علیم : غلام علیم : موصوف وصفت۔ صاحب علم بیٹے کی۔ فائدہ : قبائلی زندگی میں ایک دستور تھا۔ کہ اگر مہمان ضیافت قبول کرلیتا۔ تو سمجھا جاتا کہ اس کا آنا خیر سے ہوا ہے لیکن اگر وہ کھانا کھانے سے انکار کر دے تو سمجھ لیا جاتا کہ کسی بری نیت سے یہاں آیا ہے۔ جب فرشتوں نے کھانا کھانے کے لئے ہاتھ نہ بڑھائے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ایک گونہ خوف، خدشہ محسوس ہونے لگا۔ مہمانوں نے صورت حال بھانپ لی اور میزبان کی تسلی کے لئے کہا کہ خوف مت کھائیے ہم اللہ کے فرستادہ ہیں اور حضرت لوط کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے حضرت ابراہیم کو ایک بیٹے کی خوشخبری دی خداوند کریم کی طرف سے۔ یہ فرزند ارجمند جو خدا نے عنایت فرمایا حضرت اسحاق (علیہ السلام) تھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 کہ کہیں دشمن کے لوگ نہ ہوں جو برے ارادہ سے اس علاقہ میں آئے ہوں۔ عربوں میں قاعدہ تھا اگر کسی کے ہاں برے ارادے سے جاتے تو اس کا کھانا کھاتے۔ یا ان کے کھانا نہ کھانے سے مجھ گئے ہو یہ فرشتے ہیں اور کسی علاقہ میں عذاب نازل کرنے کا حکم لے کر نہ آئے ہوں۔ 14 یعنی حضرت اسحاق

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ مراد اس سے اسحاق (علیہ السلام) ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فاوجس منھم خیفة (١٥ : ٨٢) ” پھر وہ دل میں ان سے ڈرا “ یا تو اس لئے کہ آنے والا اجنبی اگر کھانا نہیں کھاتا تو اس کی نیت خراب ہے۔ وہ کوئی شریا خیانت کرنے کی نیت سے آیا ہے یا یہ کہ حضرت ابراہیم نے ان فرشتوں کے اندر کوئی عجیب علامات دیکھ لیں۔ جب انہوں نے ان کے چہرے خوف کے آثار دیکھے تو انہوں نے اپنا تعارف کرایا۔ ان کو اطمینان دلایا اور آپ کو ایک بیٹے کی بشارت دی۔ قالوا ........ علیم (١٥ : ٨٢) ؟ ؟ انہوں نے کہا ڈرو نہیں اور اسے ایک ذی علم لڑکے کی پیدائش کا مژدہ سنایا “ یہ بشارت حضرت اسحاق کے بارے میں تھی جو ان کی بانجھ بیوی سے پیدا ہوئے تھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(28) پھر ابراہیم (علیہ السلام) ان سے اپنے دل ہی دل میں خوف کرنے لگا ان مہمانوں نے کہا آپ ڈرئیے نہیں اور انہوں نے ابراہیم کو ایک ایسے لڑکے کی بشارت دی جو بڑا عالم ہوگا۔ جب انہوں نے کچھ نہ کھایا تو ان کو اندیشہ ہواکیون کہ مہمان کا کھانا نہ کھانا خطرناک سمجھا جاتا تھا کہ یہ کھانا نہیں کھاتے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نیت تکلیف پہنچانے کی ہے وہ فرشتے تھے ان کو معلوم ہوا تو انہوں نے کہا آپ خوف نہ کیجئے اور اندیشہ نہ کیجئے اور ایک لڑکے کی جو دانا اور علیم ہوگا یعنی نبی ہوگا اس کی بشارت دی یہ بشارت حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے ہونے کی تھی۔