Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 3

سورة الذاريات

فَالۡجٰرِیٰتِ یُسۡرًا ۙ﴿۳﴾

And those [ships] sailing with ease

پھر چلنے والیاں نرمی سے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And the steady Jariyat, Ali said, "The ships." The man asked, فَالْمُقَسِّمَاتِ أَمْرًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 جاریات، پانی میں چلنے والی کشتیاں، یُسْرا آسانی سے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢] آخرت دراصل انسان کے امتحان کے نتیجہ کا دن ہے جس پر جزا و سزا مرتب ہوگی :۔ زمین پر بارش کے نظام پر ہی زمین پر بسنے والی تمام مخلوق کے رزق اور زندگی کا انحصار ہے اسی وجہ سے اس پورے نظام کو بطور شہادت پیش کرکے یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ جو تم سے وعدہ کیا جارہا ہے وہ بالکل حقیقت پر مبنی ہے۔ وعدہ سے م... راد آخرت کا وعدہ بھی ہوسکتا ہے۔ جنت کا بھی، دوزخ کا بھی اور عذاب کا وعدہ بھی خواہ یہ دنیا کا عذاب ہو یا آخرت کا، اور بارش کا یہ نظام آخرت کے وعدہ پر دلیل اس لحاظ سے ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اور بالخصوص یہ بارش کا نظام چل رہا ہے ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو عبث ہو اور کوئی مفید نتیجہ پیدا نہ کرتی ہو۔ پھر اللہ نے انسان کو جو عقل اور تمیز دی ہے اور اسے کائنات کی بیشمار چیزوں پر تصرف بخشا ہے۔ اگر اس نے دنیا میں فائدہ اٹھا کر اور بعد میں مر کر مٹی میں ہی مل جانا ہے تو اس کی پیدائش اور اس کو اتنے انعامات عطا کرنے کا نتیجہ کیا نکلا ؟ پھر جب کائنات کی کوئی بھی چیز بےکار پیدا نہیں کی گئی تو کیا انسان کو ہی بےکار پیدا کیا گیا ہے جو اشرف المخلوقات ہے ؟ انسان کی پیدائش کا مفید نتیجہ جو اللہ کی مشیئت میں ہے اسی کا نام آخرت ہے اور یہ نتیجہ لازماً نکل کے رہے گا۔ لوگوں سے ان کے اعمال کی باز پرس ضرور ہوگی اور انہیں ان کے اعمال کا بدلہ مل کے رہے گا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فالجریت یسراً : یہ بھی ان ہواؤں ہی کی صفت ہے کہ پھر وہ اتنے بےحساب وزنی بادلوں کو اٹھا کر آسانی کے ساتھ چلتی ہیں، انہیں اس بوجھ کی وجہ سے چلنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آتی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَالْجٰرِيٰتِ يُسْرًا۝ ٣ ۙ جری الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] وقال تعالی: جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] ، وقال : وَلِتَجْرِي... َ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] ، وقال تعالی: فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] ، وقال : إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة/ 11] ، أي : السفینة التي تجري في البحر، وجمعها : جَوَارٍ ، قال عزّ وجلّ : وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن/ 24] ، وقال تعالی: وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] ، ويقال للحوصلة : جِرِّيَّة «2» ، إمّا لانتهاء الطعام إليها في جريه، أو لأنها مجری الطعام . والإِجْرِيَّا : العادة التي يجري عليها الإنسان، والجَرِيُّ : الوکيل والرسول الجاري في الأمر، وهو أخصّ من لفظ الرسول والوکيل، وقد جَرَيْتُ جَرْياً. وقوله عليه السلام : «لا يستجرینّكم الشّيطان» يصح أن يدّعى فيه معنی الأصل . أي : لا يحملنّكم أن تجروا في ائتماره وطاعته، ويصح أن تجعله من الجري، أي : الرسول والوکيل ومعناه : لا تتولوا وکالة الشیطان ورسالته، وذلک إشارة إلى نحو قوله عزّ وجل : فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء/ 76] ، وقال عزّ وجل : إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران/ 175] . ( ج ر ی ) جریٰ ( ض) جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] اور تاکہ کشتیاں چلیں فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے اور آیت کریمہ ؛ إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة/ 11] جب پانی طغیانی پر آیا تو ہم نے تم لو گوں کو کشتی میں سوار کرلیا ۔ میں جاریۃ سے مراد کشتی ہے اس کی جمع جوار آتی ہے جیسے فرمایا ؛۔ وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن/ 24] اور جہاز جو اونچے کھڑے ہوتے ہیں ۔ وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] اور اسی کی نشانیوں میں سے سمندر کے جہاز ہیں ( جو ) گویا یا پہاڑ ہیں ۔ اور پرند کے سنکدانہ کو جریۃ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ کھانا چل کر وہاں پہنچتا ہے اور یا اس لئے کہ وہ طعام کا مجریٰ بنتا ہے ۔ الاجریات عاوت جس پر انسان چلتا ہے ۔ الجری وکیل ۔ یہ لفظ رسول اور وکیل سے اخص ہی ۔ اور جرمت جریا کے معنی وکیل بنا کر بھینے کے ہیں اور حدیث میں ہے :۔ یہاں یہ لفظ اپنے اصل معنی پر بھی محمول ہوسکتا ہے یعنی شیطان اپنے حکم کی بجا آوری اور اطاعت میں بہ جانے پر تمہیں بر انگیختہ نہ کرے اور یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کہ جری بمعنی رسول یا وکیل سے مشتق ہو اور معنی یہ ہونگے کہ شیطان کی وکالت اور رسالت کے سرپر ست مت بنو گویا یہ آیت کریمہ ؛ فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء/ 76] شیطان کے مددگاروں سے لڑو ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اور فرمایا :إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران/ 175] یہ ( خوف دلانے والا ) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈرتا ہے ۔ يسير واليَسِيرُ والمَيْسُورُ : السّهلُ ، قال تعالی: فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء/ 28] واليَسِيرُ يقال في الشیء القلیل، فعلی الأوّل يحمل قوله : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب/ 30] ، وقوله : إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج/ 70] . وعلی الثاني يحمل قوله : وَما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب/ 14] الیسیر والمیسور سہل اور آسان قرآن میں ہے : ۔ فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء/ 28] تو ان سے نر می سے بات کہدیا کرو ۔ اور کبھی یسیر کے معنی حقیر چیز بھی آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب/ 30] اس کو دونی سزا دی جائیگی اور یہ بات خدا کو آسان ہے میں لفظ یسیرا کے معنی آسان اور سہل کے ہیں اور آیت وما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب/ 14] اور اس کے لئے بہت کم توقف کریں میں اس کے معنی بہت کم عرصہ کے ہیں  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣{ فَالْجٰرِیٰتِ یُسْرًا ۔ } ” پھر نرمی سے چلنے والی ہیں۔ “ کبھی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اس طرح چلتی ہے کہ اس کے ہلکے ہلکے جھونکے نباتات و حیوانات سب کے لیے بہت فرحت بخش ہوتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(51:3) فالجریت یسرا۔ اس کا عطف بھی الذریت پر ہے الجریت چلنے والیاں جزی باب ضرب مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مؤنث۔ چلنے والیاں۔ پانی کی طرح آرام سے چلنے والیاں۔ اکثر اہل علم نے اس سے مراد کشتیاں ہی لیا ہے ۔ یسرا منصوب بوجہ مصدر محذوف کی صفت کے ہے تقدیر یوں ہے جزیا ذا یسر۔ آرام سے سہل سہل چلتا ۔ الجر... یت یسرا ای السفن تجری فی الماء جریا سھلا۔ کشتیاں جو پانی میں سہل سہل چلتی ہیں۔ الجریت یسرا ۔ اور قسم ہے کشتیوں کی جو ۔۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ان آیات کی یہ تفسیر حضرت عمر، حضرت علی اور بعض دوسرے صحابہ سے مروی ہے۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) پھر ان کشتیوں کی قسم جو نرم رفتار سے چلنے والی ہیں۔