Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 38

سورة الذاريات

وَ فِیۡ مُوۡسٰۤی اِذۡ اَرۡسَلۡنٰہُ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ بِسُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۳۸﴾

And in Moses [was a sign], when We sent him to Pharaoh with clear authority.

موسٰی ( علیہ السلام کے قصے ) میں ( بھی ہماری طرف سے تنبیہ ہے ) کہ ہم نے اسےفرعون کی طرف کھلی دلیل دے کر بھیجا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Lessons from the Destruction of Fir`awn, `Ad, Thamud, and the People of Nuh Allah the Exalted said, وَفِي مُوسَى إِذْ أَرْسَلْنَاهُ إِلَى فِرْعَوْنَ بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ And in Musa, when We sent him to Fir`awn with a manifest authority. meaning, with clear proof and plain evidence,

انجام تکبر ارشاد ہوتا ہے کہ جس طرح قوم لوط کے انجام کو دیکھ کر لوگ عبرت حاصل کر سکتے ہیں اسی قسم کا فرعونیوں کا واقعہ ہے ہم نے ان کی طرف اپنے کلیم پیغمبر حضرت موسیٰ کو روشن دلیلیں اور واضح برہان دے کر بھیجا لیکن ان کے سردار فرعون نے جو تکبر کا مجسمہ تھا حق کے ماننے سے عناد کیا اور ہمارے فرمان کو بےپرواہی سے ٹال دیا اس دشمن الہٰی نے اپنی طاقت و قوت کے گھمنڈ پر اپنے راج لشکر کے بل بوتے پر رب کے فرمان کی عزت نہ کی اور اپنے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر حضرت موسیٰ کی ایذاء رسانی پر اتر آیا اور کہنے لگا کہ موسیٰ یا تو جادوگر ہے یا دیوانہ ہے پس اس ملامتی کافر ، فاجر ، معاند متکبر شخص کو ہم نے اس کے لاؤ لشکر سمیت دریا برد کر دیا ۔ اسی طرح عادیوں کے سراسر عبرتناک واقعات بھی تمہارے گوش گذار ہو چکے ہیں جن کی سیہہ کاریوں کے وبال میں ان پر بےبرکت ہوائیں بھیجی گئیں جن ہواؤں نے سب کے حلیے بگاڑ دئیے ایک لپٹ جس چیز کو لگ گئی وہ گلی سڑی ہڈی کی طرح ہو گئی ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہوا دوسری زمین میں مسخر ہے جب اللہ تعالیٰ نے عادیوں کو ہلاک کرنا چاہا تو ہوا کے داروغہ کو حکم دیا کہ ان کی تباہی کے لئے ہوائیں چلا دو فرشتے نے کہا کیا ہواؤں کے خزانے میں اتنا وزن کر دوں جتنا بیل کا نتھنا ہوتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا نہیں اگر اتنا وزن کر دیا تو زمین کو اور اس کائنات کو الٹ دے گی بلکہ اتنا وزن کرو جتنا انگوٹھی کا حلقہ ہوتا ہے یہ تھیں وہ ہوائیں جو کہ جہاں جہاں سے گذر گئیں تمام چیزوں کو تہ وبالا کرتی گئیں اس حدیث کا فرمان رسول ہونا تو منکر ہے سمجھ سے زیادہ قریب بات یہی ہے کہ یہ حضرت عبداللہ بن عمرو کا قول ہے یرموک کی لڑائی میں انہیں دو بورے اہل کتاب کی کتابوں کے ملے تھے ممکن ہے انہی میں سے یہ بات آپ نے بیان فرمائی ہو واللہ اعلم ۔ یہ ہوائیں جنوبی تھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری مدد پر وہ ہواؤں سے کی گئی ہے اور عادی پچھوا ہواؤں سے ہلاک ہوئے ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح ثمودیوں کے حالات پر اور ان کے انجام پر غور کرو کہ ان سے کہدیا گیا کہ ایک وقت مقررہ تک تو تم فائدہ اٹھاؤ جیسے اور جگہ فرمایا ہے ثمودیوں کو ہم نے ہدایت دی لیکن انہوں نے ہدایت پر ضلالت کو پسند کیا جس کے باعث ذلت کے عذاب کی ہولناک چیخ نے ان کے پتے پانی کر دئیے اور کلیجے پھاڑ دئیے یہ صرف ان کی سرکشی سرتابی نافرمانی اور سیاہ کاری کا بدلہ تھا ۔ ان پر ان کے دیکھتے دیکھتے عذاب الہٰی آگیا تین دن تک تو یہ انتظار میں رہے عذاب کے آثار دیکھتے رہے آخر چوتھے دن صبح ہی صبح رب کا عذاب دفعۃً آپڑا حواس باختہ ہوگئے کوئی تدبیر نہ بن پڑی اتنی بھی مہلت نہ ملی کہ کھڑے ہو کر بھاگنے کی کوشش تو کرتے یا کسی اور طرح اپنے بچاؤ کی کچھ تو فکر کر سکتے اسی طرح ان سے پہلے قوم نوح بھی ہمارے عذاب چکھ چکی ہے اپنی بدکاری اور کھلی نافرمانی کا خمیازہ وہ بھی بھگت چکی ہے یہ تمام مفصل واقعات فرعونیوں ، عادیوں ، ثمودیوں اور قوم نوح کے اس سے پہلے کی سورتوں کی تفسیر میں کئی بار بیان ہو چکے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٢] یعنی ایسے معجزات جن سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) فی الواقع اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں۔ اور یہ معجزے عصائے موسیٰ اور یدبیضا تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(وفی موسیٰ اذا ارسلنہ الی فرعون بسلطن مبین : یعنی لوط (علیہ السلام) کی بستی کے علاوہ موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ میں بھی ان لوگوں کے لئے بڑی عبرت ہے جو عذاب الیم سے ڈرتے ہیں، جب ہم نے انہیں صریح معجزات دے کر بھیجا ، جو ان کے اللہ کا پیغمبر ہونے کی واضح دلیل تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After the mention of the people of Lut (علیہ السلام) ، the people of Musa (علیہ السلام) ، Fir&aun and others are taken up briefly. When Musa (علیہ السلام) delivered the message of truth to Fir&aun, the latter reacted thus: فَتَوَلَّىٰ بِرُ‌كْنِهِ (So he turned away along with his chiefs,...51:39) The original word used for &his chiefs& is rukn which means power. Here it is used to refer to his army and chiefs of his government. In the story of Lut (علیہ السلام) he has been mentioned saying, أَوْ آوِي إِلَىٰ رُ‌كْنٍ شَدِيدٍ (or that I had the backing of a strong group& The word rukn is used there in the same sense. (See Ma’ ariful Qur’ an, Vol. 4/p. 658, 661: &...or that I had the backing of some strong group...& ) After this, the stories of the people of ` Ad, Thamud and Nuh (علیہم السلام) are told. These stories were narrated many times before.

قوم لوط کے بعد قوم موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون وغیرہ کا ذکر فرمایا، اس میں فرعون کو موسیٰ (علیہ السلام) نے پیغام حق دیا تو فرعون کا عمل یہ ذکر فرمایا (آیت) فَتَوَلّٰى بِرُكْنِهٖ یعنی فرعون موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے رخ پھیر کر اپنی قوت یعنی اپنی فوج اور امرا دولت کی طرف متوجہ ہوگیا، رکن کے لفظی معنی قوت کے ہیں، حضرت لوط (علیہ السلام) کے کلام میں (آیت) (او اوی الیٰ رکن شدید) اسی معنی کے لئے آیا ہے۔ اس کے بعد قوم عاد وثمود اور آخر میں قوم نوح کا واقعہ بیان فرمایا، یہ واقعات اس سے پہلے کئی مرتبہ گزر چکے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَفِيْ مُوْسٰٓى اِذْ اَرْسَلْنٰہُ اِلٰى فِرْعَوْنَ بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ۝ ٣٨ موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . رسل ( ارسال) والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] ( ر س ل ) الرسل الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں فِرْعَوْنُ : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة . فرعون یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔ سلط السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] ، ( س ل ط ) السلاطۃ اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔ مبینبَيَان والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] . وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٨۔ ٣٩) اور موسیٰ کے قصہ میں بھی عبرت ہے جبکہ ہم نے ان کو فرعون کے پاس واضح دلیل یعنی عصا اور ید بیضا دے کر بھیجا تو فرعون نے مع اپنے تمام لشکر کے اس معجزہ اور موسیٰ پر ایمان لانے سے سرتابی کی اور کہنے لگا کہ جادوگر یا مجنوں ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٨{ وَفِیْ مُوْسٰٓی اِذْ اَرْسَلْنٰــہُ اِلٰی فِرْعَوْنَ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ ۔ } ” اور موسیٰ کے معاملے میں بھی (نشانی ہے) جب ہم نے اسے بھیجا فرعون کی طرف کھلی سند دے کر۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

36 "A clear authority': such miracles and clear evidences which made it absolutely manifest that he had been appointed as a Messenger by the Creator of the earth and heavens.

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :36 یعنی ایسے صریح معجزات اور ایسی کھلی کھلی علامات کے ساتھ بھیجا جن سے یہ امر مشتبہ نہ رہا تھا کہ آپ خالق ارض و سما کی طرف سے مامور ہو کر آئے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٨۔ ٤٦۔ اوپر قوم لوط کی ہلاکت اور اس قصہ سے عبرت پکڑنے کا ذکر تھا ان آیتوں میں فرمایا کہ فرعون عاد وثمود۔ اور قوم نوح کے قصے جو چند سورتوں میں تفصیل سے گزر چکے ہیں یہ سب قصے عبرت کے قابل ہیں۔ پھر اس نے منہ موڑا اپنے زور پر۔ کا مطلب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بڑے بڑے معجزے دیکھ کر بھی فرعون کو ہدایت نہیں ہوئی۔ اور اپنے لشکر اور اپنی بادشاہت کے ور پر اس نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصیحت پر کچھ توجہ نہ کی۔ فرعون پر اولاہنا یہ پڑا کہ وہ دین و دنیا میں ملعون ٹھہرا۔ پھر فرمایا فرعون نے اللہ کے رسول کو جادوگر اور دیوانہ بتایا۔ حالانکہ اس وقت کے بڑے بڑے جادوگروں نے حضرت موسیٰ علیہ اسلام کے معجزے دیکھ کر ان کو اللہ کا رسول کہا تو فرعون ان جادوگروں کو سزا دینے پر آمادہ ہوگیا۔ عقیم بانجھ عورت کو کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اس ہوا میں کسی چیز کی پیداوار کا اثر خدا تعالیٰ نے نہیں رکھا تھا بلکہ وہ خاص عذاب کی ہوا تھی جس پر وہ ہوا گزرتی اس کو خاک سیاہ کردیتی تھی۔ زمین کی پیداوار جب سوکھ جاتی ہے تو رمیہ کہتے ہیں جب کہا ان کو بر تو ایک وقت تک ‘ سورة ہود میں گزر چکا ہے کہ اونٹنی کے پائوں کاٹ ڈالنے کے بعد ثمود کو تین دن کی مہلت عذاب کے آنے میں دی گئی تھی اسی کو یہاں ان لفظوں میں فرمایا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(51:38) وفی موسیٰ : ای وجعلنا فی موسیٰ ایۃ : جملہ ہذا کا عطف جملہ وترکنا فیہا ایۃ پر ہے۔ اور ہم نے موسیٰ کے واقعہ میں بھی ایک نشانی یا عبرت رکھی ہے۔ اذ۔ اسم ظرف زمان ہے (گو اسم ظرف مکان بھی مستعمل ہے) بطور حرف مفاجات بھی مستعمل ہے بمعنی جب۔ سلطن مبین : موصوف وصفت، سلطان کے معنی حجت، دلیل، برہان کے ہیں جو یہاں مراد ہے۔ گو اس کا استعمال، رور، قوت اور سند کے معنی میں بھی ہوتا ہے۔ مبین : بمعنی ظاہر۔ کھلی، کھلی دلیل یا برہان بمعنی معجزہ بھی ہے۔ یہاں ارشاد ہے ان معجزات کی طرف جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو خدا وندتعالیٰ نے عطا کرکے فرعون کی طرف بھیجا تھا۔ مثلاً عصائ، یدبیضا، قحط، سمندر میں راستے بنادینا وغیرہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی عصا ید بیضا اور دوسرے معجزات جو اس بات کیصریح دلیل تھے کہ حضرت موسیٰ کو اللہ تعالیٰ ہی نے اپنا رسول بنا کر بھیجا تھا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کے بعد فرعون اور اس کے ساتھیوں کا انجام۔ ” ہم نے اپنی نشانیاں دے کر موسیٰ کو فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا۔ موسیٰ نے کہا اے فرعون ! بیشک میں جہانوں کے رب کی طرف سے رسول ہوں۔ اس بات پر پوری طرح قائم ہوں کہ اللہ کے ذمے حق کے سوا کچھ نہ کہوں بلاشبہ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل لے کر آیا ہوں۔ اس لیے میرے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے۔ اس نے کہا اگر تو کوئی نشانی لے کر آیا ہے تو وہ پیش کر۔ اگر تو سچ بولنے والوں میں سے ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاٹھی پھینکی تو اچانک وہ ایک اژدہا تھا اور اپنا ہاتھ باہرنکالا تو وہ دیکھنے والوں کے لیے چمک رہا تھا۔ “ (الاعراف : ١٠٣ تا ١٠٨) ” جب ہماری طرف سے ان کے پاس حق آیا تو کہنے لگے یقیناً یہ تو واضح طور پر جادو ہے۔ موسیٰ نے کہا کیا تم حق کے بارے میں یہ کہتے ہو، جب وہ تمہارے پاس آیا۔ کیا یہ جادو ہے ؟ جادوگر تو کامیاب نہیں ہوتے۔ انھوں نے کہا۔ کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہمیں اس راہ سے پھیر دے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور ملک میں تمہیں بڑائی حاصل ہوجائے۔ ہم تمہیں کسی صورت ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، فرعون نے اپنے ساتھیوں سے کہا میرے پاس ہر ماہر جادوگر لے کر آؤ۔ جب جادوگر آگئے تو موسیٰ نے ان سے کہا ڈالو جو کچھ تم ڈالنا چاہتے ہو۔ جب انھوں نے ڈالا، موسیٰ نے فرمایا تم جو کچھ لائے ہو یہ تو جادو ہے، یقیناً اللہ اسے جلدہی جھوٹا ثابت کردے گا۔ بیشک اللہ مفسدوں کے کام کو کامیاب نہیں کرتا۔ اللہ حق کو اپنے فرمان کے ساتھ حق ثابت کردیتا ہے، خواہ مجرم اسے ناپسند کریں۔ “ (یونس : ٧٦ تا ٨٢) ” فرعون نے اپنے درباریوں سے کہا مجھے چھوڑو کہ میں موسیٰ کو قتل کرنا چاہتا ہوں بیشک یہ میرے مقابلے میں اپنے رب کو لے آئے۔ مجھے خطرہ ہے کہ یہ تمہارا دین بدل ڈالے گا یا ملک میں فساد برپا کردے گا۔ موسیٰ نے کہا میں نے ہر متکبر کے مقابلے میں جو یوم الحساب پر ایمان نہیں رکھتا اپنے رب اور تمہارے رب کی پناہ لی ہے۔” اس موقع پر آل فرعون میں سے ایک مومن جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا بول اٹھا کیا تم ایک شخص کو اس بناء پر قتل کرو گے کہ وہ کہتا ہے میرا رب ” اللہ “ ہے، اور وہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس واضح دلائل لے کر آیا ہے، اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ خود اسی پر پلٹ جائے گا۔ اگر وہ سچا ہے تو جن ہولناک نتائج سے تمہیں ڈراتا ہے۔ وہ تمہیں بھگتنے پڑیں گے، اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گزر جانے والا اور جھوٹا ہو۔ “ (المومن : ٢٦ تا ٢٨) ” ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پار کیا تو فرعون اور اس کے لشکروں نے سر کشی اور زیادتی کرتے ہوئے ان کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ جب وہ غرق ہونے لگا تو کہا کہ میں ایمان لایا یقیناً حقیقت یہ ہے کہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں فرمانبرداروں سے ہوں۔ کیا اب ؟ حالانکہ تو نافرمان تھا اور تو فساد کرنیوالوں میں سے تھا۔ پس آج ہم تیرے وجود کو بچا لیں گے، تاکہ تو ان کے لیے عبرت بنے جو تیرے بعد آنے والے ہیں اور یقیناً بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غفلت برتنے والے ہیں۔ “ (یونس : ٩٠ تا ٩٢) تفسیر بالقرآن فرعون اور اس کے حواریوں کا انجام : ١۔ آل فرعون کو غرق کردیا۔ (الاعراف : ٦٤) ٢۔ ہم نے فرعونیوں سے انتقام لیا اور انہیں دریا برد کردیا۔ (الزخرف : ٥٥) ٣۔ ہم نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کردیا۔ (بنی اسرائیل : ١٠٣) ٤۔ ہم نے موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (الشعراء : ٦٦) ٥۔ ہم نے انہیں اور ان کے لشکروں کو پکڑ کر دریا میں پھینک دیا۔ (الذاریات : ٤٠) ٦۔ آج ہم تیرے جسم کو بچائیں گے تاکہ بعد میں آنے والوں کے لیے نشان عبرت بنائیں۔ (یونس : ٩٢) ٧۔ قیامت کے دن فرعون اپنی قوم کے آگے آگے چلے گا اور وہ انہیں دوزخ میں لے جائے گا۔ (ہود : ٩٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وہ صریح دلیل اور سند جس کے ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجا گیا تھا ، وہ صریح اور قاطع دلیل تھی اور وہ عظیم الشان رعب تھا جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شخصیت میں تھا اور موسیٰ اور ہارون کے ساتھ ذات باری تھی جو سنتی تھی اور دیکھتی تھی لیکن فرعون غرور کرکے منہ پھیر گیا اور اس نے واضح سچائی دیکھتے ہوئے بھی اور قاطع دلیل دیکھتے ہوئے بھی پہلو تہی سے کام لیا۔ اس نے حضرت موسیٰ خدا کے نبی کو کہا کہ وہ ساحر اور مجنون ہے حالانکہ انہوں نے اس کو ایسے معجزات دکھا دیئے تھے جن کے سامنے وہ لوگ لاجواب ہوگئے تھے۔ اس طرز عمل سے معلوم ہوگیا کہ جب کوئی ہدایت کے لئے تیار نہ ہو تو اسے بڑے سے بڑا معجزہ ہدایت پر لانے کے لئے کارگر نہیں ہوسکتا اور نہ کسی ایسی زبان کو خاموش کرایا جاسکتا ہے جو باطل پر مصر ہو۔ یہاں سیاق کلام میں اس قصے کی تفصیلات نہیں دی جاتیں بلکہ یہاں اس کا فقط انجام دے دیا جاتا ہے جو اس قصے سے بطور نشانی اور تاریخی سبق ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باقی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فرعون اور قوم عاد وثمود کی بربادی کا تذکرہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی ہلاکت اور بربادی کا تذکرہ فرمانے کے بعدفرعون اور عاد اور ثمود کی سرکشی اور ہلاکت کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ میں بھی عبرت ہے ہم نے انہیں کھلی ہوئی دلیل دے کر بھیجا یعنی انہیں متعدد معجزات دیئے انہیں دیکھ کر ہر صاحب عقل فیصلہ کرسکتا تھا کہ یہ شخص واقعی اپنے دعوائے نبوت میں سچا ہے اور اس کا حق کی دعوت دینا اور خالق اور مالک جل مجدہ کی توحید اور عبادت کی طرف بلانا حق ہے لیکن فرعون نے حق سے اعراض کیا موسیٰ (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور انہیں جادوگر اور دیوانہ بتادیا اس نے جو یہ حرکت کی یہ اس بنیاد پر تھی کہ اس کے ساتھ اس کی جماعت کے لوگ اور درباری سردار تھے غرور اور تکبر اسے لے ڈوبا وہ بھی ڈوبا اس کے ساتھ اس کے لشکر بھی ڈوبے اس نے ایسی حرکتیں کی تھیں جن کی وجہ سے اس پر ملامت آگئی، اپنے نفس کی طرف سے بھی مستحق ملامت ہوا اور اپنے عوام کی طرف سے بھی۔ فرعون کی ہلاکت اور بربادی اور ڈوبنے کا قصہ کئی سورتوں میں گزر چکا ہے اور سورة ٴ نازعات میں بھی آ رہا ہے۔ انشاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد قوم عاد کی ہلاکت کا تذکرہ فرمایا سورة ٴ انعام، سورة ٴ ہود، سورة الشعراء اور سورة ٴ حم سجدہ میں ان کی ہلاکت کا تذکرہ گزر چکا ہے اور سورة ٴ القمر اور سورة ٴ الحاقہ میں بھی آ رہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ ان لوگوں کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت ھود (علیہ السلام) کو بھیجا تھا ان لوگوں نے بڑی سرکشی کی اور کبر اور طاقت کے گھمنڈ میں یہاں تک کہہ گئے ﴿مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً﴾ (ہم سے بڑھ کر طاقت کون ہے) اللہ تعالیٰ نے ان پر سخت تیز ہوا بھیج دی جو سات رات اور آٹھ دن چلتی رہی ہوا میں خیر ہوتی ہے جو بارش لے کر آتی ہے لیکن جو ہوا ان میں بھی بھیجی گئی تھی وہ بالکل ہی ہر خیر سے خالی تھی۔ اسی لیے اسے یہاں سورة الذاریات میں ﴿الرِّيْحَ الْعَقِيْمَ﴾ فرمایا، عربی میں عقیم بانجھ کو کہتے ہیں جیسے بانجھ عورت سے کوئی بھی اولاد پیدا نہیں ہوتی اسی طرح عاد کو برباد کرنے والی ہوا میں کچھ بھی خیر نہ تھی۔ سورة الحاقہ میں فرمایا کہ جب ہوا چلی تو وہ لوگ ایسے گرے ہوئے پڑے تھے جیسے کھجور کے درخت کے وہ تنے پڑے ہوئے ہوں جو اندر سے خالی ہوں، یہاں سورة الذاریات میں اس ہوا کی سختی بتاتے ہوئے فرمایا کہ وہ جس چیز پر بھی گزرتی اسے رمیم یعنی چورا چورا بنا کر رکھ دیتی تھی، جو ہڈیاں گل کر ریزہ ریزہ ہوجائیں یا گھاس پھونس دبدبا کر گھس پٹ کر بھوسہ بن جائے اس کو رمیم کہا جاتا ہے : قال صاحب الروح ناقلاً عن الراغب : یختص الرم بالفتات من الخشب والتین والرمة بالکسر تختص بالعظم البالی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے افراد تو کھجوروں کے تنوں کی طرح گرگئے تھے اور باقی چیزیں (جانور وغیرہ) ریزہ ریزہ ہوگئی تھیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے جثے بھی بعد میں ریزہ ریزہ ہوگئے ہوں یہ ہوا پچھم کی طرف سے آنے والی تھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : ( نصرت بالصبا واھلکت عاد بالدبور ) ۔ (مشکوٰۃ المصابیح : صفحہ ١٣٢ عن البخاری) باد صبا کے ذریعہ میری مدد کی گئی (جو خندق کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے بھیج دی تھی) اور دبور کے ذریعہ قوم عاد ہلاک کی گئی، صبا وہ ہوا جو مشرق کی طرف سے چل کر آئے اور دبور وہ ہوا جو مغرب کی طرف سے چل کر آئے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ ” وفی موسیٰ “۔ یہ تخویف دنیوی کا دوسرا نمونہ اور فیھا پر معطوف ہے ای وترکنا فی موسیٰ ایۃ (روح، مدارک) ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے کو ہم نے عبرت و نصیحت کا سامان بنا دیا۔ جب ہم نے ان کو فرعون کے پاس دلائل واضحہ اور معجزات قاہرہ دے کر بھیجا تو اس نے اپنے اراکین سلطنت اور لاؤ لشکر سمیت انکار و اعراض کیا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر اور مجنون کہنے لگا۔ معجزات و خوارق دیکھ کر کہنے لگا یہ تو جاوگر ہے اور جب توحید اور حشر و نشر کی باتیں سنیں جو اس کی عقل ناقص سے بالا تر تھیں تو انہیں مجنون قرار دے دیا۔ (مظہری) ۔ ” فاخذناہ۔ الایۃ “ چنانچہم نے اس کو، اس کے ارکانِ دولت کو اور اس کے لاؤ لشکر کو پکڑ کر دریا میں ڈال کر غرق کردیا۔ فرعون اپنے کفر وعناد اور غرور و استکبار کی وجہ سے تھا ہی قابل ملامت اور لائق مذمت چناچہ اس کو دنیا میں بھی اس کی سزا مل گئی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(38) اور موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ میں بھی عبرت آموز نشانی ہے جب کہ ہم نے فرعون کی طرف واضح اور کھلی دلیل دے کر بھیجا یعنی معجزہ دے کر بھیجا۔