Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 47

سورة الذاريات

وَ السَّمَآءَ بَنَیۡنٰہَا بِاَیۡىدٍ وَّ اِنَّا لَمُوۡسِعُوۡنَ ﴿۴۷﴾

And the heaven We constructed with strength, and indeed, We are [its] expander.

آسمان کو ہم نے ( اپنے ) ہاتھوں سے بنایا ہے اور یقیناً ہم کشادگی کرنے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Proofs of Allah's Oneness abound in the Creation of the Heavens and the Earth Allah reminds us of the creating of the higher and lower worlds, وَالسَّمَاء بَنَيْنَاهَا ... We constructed the heaven. meaning, `We made it as a high roof, protected from falling,' ... بِأَيْدٍ ... with Hands, meaning, with strength, according to Abdullah bin Abbas, Mujahid, Qatadah, Ath-Thawri and several others, ... وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ Verily, We are able to extend the vastness of space thereof. means, `We made it vast and We brought its roof higher without pillars to support it, and thus it is hanging independently.'

تخلیق کائنات زمین و آسمان کی پیدائش کا ذکر فرما رہا ہے کہ ہم نے آسمان کو اپنی قوت سے پیدا کیا ہے اسے محفوظ اور بلند چھت بنا دیا ہے حضرت ابن عباس ، مجاہد ، قتادہ ثوری اور بہت سے مفسرین نے یہی کہا ہے کہ ہم نے آسمانوں کو اپنی قوت سے بنایا ہے اور ہم کشادگی والے ہیں اس کے کنارے ہم نے کشادہ کئے ہیں اور بےستون اسے کھڑا کر دیا ہے اور قائم رکھا ہے زمین کو ہم نے اپنی مخلوقات کے لئے بچھونا بنا دیا ہے اور بہت ہی اچھا بچھونا ہے تمام مخلوق کو ہم نے جوڑ جوڑ پیدا کیا ہے جیسے آسمان زمین ، دن رات ، خشکی تری ، اجالا اندھیرا ، ایمان کفر ، موت حیات ، بدی نیکی ، جنت دوزخ ، یہاں تک کہ حیوانات اور نباتات کے بھی جوڑے ہیں یہ اس لئے کہ تمہیں نصیحت حاصل ہو تم جان لو کہ ان کا سب کا خالق اللہ ہی ہے اور وہ لاشریک اور یکتا ہے پس تم اس کی طرف دوڑو اپنی توجہ کا مرکز صرف اسی کو بناؤ اپنے تمام تر کاموں میں اسی کی ذات پر اعتماد کرو تو تم سب کو صاف صاف آگاہ کر دینے والا ہوں خبردار اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا میرے کھلم کھلا خوف دلانے کا لحاظ رکھنا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

47۔ 1 السماء منصوب ہے بنینا محذوف کی وجہ سے بنینا السماء بنیناھا 47۔ 2 یعنی پہلے ہی بہت وسیع ہے لیکن ہم نے اس کو اور بھی زیادہ وسیع کرنے کی طاقت رکھتے ہین۔ یا آسمان سے بارش برسا کر روزی کشادہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں وُسْع (طاقت وقدرت رکھنے والے) تو مطلب ہوگا ہمارے اندر اس جیسے اور آسمان بنانے کی بھی طاقت وقدرت موجود ہے۔ ہم آسمان و زمین بنا کر تھک نہیں گئے ہیں بلکہ ہماری قدرت طاقت کی کوئی انتہا ہی نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤١] کائنات کی وسعت :۔ کائنات میں بیشمار چیزیں ایسی ہیں جن میں آج تک تخلیق اور توسیع کا عمل جاری ہے۔ اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔ سب سے پہلے انسان ہی کو لیجئے۔ اس کی نسل بڑھ رہی ہے۔ تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہی کائنات کا شاہکار ہے۔ پھر زمین کی پیداوار بھی اللہ تعالیٰ اسی نسبت سے بڑھاتے جا رہے ہیں۔ اس آیت میں بالخصوص آسمان کا ذکر ہے۔ آسمان کی پیدائش کا بھی یہی حال ہے یہاں آسمان سے مراد پہلا آسمان یا کوئی خاص آسمان نہیں بلکہ یہاں سماء سے مراد فضائے بسیط ہے جب کہ اس آیت (ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ فَسَوّٰىھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ 29؀ ) 2 ۔ البقرة :29) میں بھی سماء سے مراد فضائے بسیط ہے۔ جس میں لاتعداد مجمع النجوم اور کہکشائیں ہیئت دانوں کو ورطہ حیرت میں ڈال کر ان کے علم کو ہر آن چیلنج کر رہی ہیں۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ ہیئت دان جوں جوں پہلے سے زیادہ طاقتور اور جدید قسم کی دوربینیں ایجاد کر رہے ہیں توں توں اس بات کا بھی انکشاف ہو رہا ہے کہ کائنات میں ہر آن مزید وسعت پیدا ہو رہی ہے۔ سیاروں کے درمیانی فاصلے بھی بڑھ رہے ہیں اور نئے نئے اجرام بھی مشاہدہ میں آرہے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) والسمآء بنینھا باید : سورت کی ابتدا سے قیامت اور جزا و سزا کے حق ہونے کا بیان چلا آرہا ہے، اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے کئی قسمیں کھائیں اور دوبارہ زندہ کرنے پر اپنے قادر ہونے کے بہت سے دلائل پیش فرمائے، جن میں آسمان و زمین کا خصوصاً ذکر فرمایا۔ درمیان میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی اور کفار کو تنبیہ کیلئے قیامت اور پیغمبروں کو جھٹلانے والی اقوام کے انجام بدکا ذکر فرمایا۔ منکرین قیامت کا سب سے بڑا شبہ یہ ہے کہ مرنے اور بوسیدہ ہوجانے کے بعد دوبارہ زندگی کیسے ممکن ہے ؟ اس لئے اللہ تعالیٰ اس شبہے کے رد کے لئے آسمان و زمین کا خاص طور پر ذکر فرماتے ہیں، کیونکہ انس ان کو نظر آنے والی مخلوقات میں یہ سب سے بڑے ہیں، جیسا کہ فرمایا :(لخلق السموت والارض اکبر من خلق الناس و لکن اکثر الناس لایعلمون) (المومن : ٥٨) ” یقینا آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنا لوگوں کو پیدا کرنے سے بہت بڑا ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ “ یہاں آخرت کے حق میں تاریخی دلائل ذکر کرنے کے بعد دوبارہ پھر اس کے ثبوت میں آفاقی دلائل پیش کئے جا رہے ہیں۔ قرآن مجید اسی طرح بات کو مختلف انداز سے پھیر پھیر کر بیان کرتا ہے، تاکہ وہ اچھی طرح ذہن نشین ہوجائے۔ (٢) ” اید “ ” ید “ کی جمع کے طور پر بھی آتا ہے جس کا معنی ہاتھ ہے اور اگر یہ معنی کیا جائے کہ ” ہم نے آسمان کو ہاتھوں کے ساتھ بنایا “ تو اس سے کوئی خرابی لازم نہیں آتی، کیونکہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہیں اور اس طرح ہیں جس طرح اس کی شان کے لائق ہے، ہم نہیں جانتے نہ جان سکتے ہیں کہ کیسے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے فرمایا :(ما منعک ان تسجد لما خلقت بیدی) (ص : ٨٥)” تجھے کس چیز نے روکا کہ تو اس کے لئے سجدہ کرے جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ؟ “ مگر یہاں ” باید “ (ادیشید “ (قوی ہونا) کا مصدر ہے اور معنی اس کا ” قوت “ ہے، تنوین اس میں تعظیم کی ہے اور (وایدنہ بروح القدس) (البقرہ : ٢٥٣) (اور ہم نے اسے روح القدس کے ساتھ قوت بخشی) بھی اسی سے مشتق ہے۔ اس مقام پر ” بائید “ کا یہ معنی طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ترجمان القرآن ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(واذاکر عبدنا داؤد ذا الاید) (ص :18)” اور ہمارے بندے داؤد کو یاد کر جو قوت والا تھا۔ “ یعنی اتنا عظیم آسمان بنانا نفاق کام نہیں، یہ ہماری ہی قوت ہے جس کیساتھ ہم نے اسے اس وقت بنایا جب کچھ بھی نہیں تھا، تو ہم تمہیں دوبارہ کیوں نہیں بنا سکتے ؟ آسمان کے لئے ” خلقنا ھا “ کے بجائے ” بنینھا “ کا لفظ استعمال فرمایا، کیونکہ دیکھنے میں وہ ایک خیمے کی مانند نظر آتا ہے، جس کے لئے لفظ ” بنائ “ استعمال کیا جاتا ہے۔ پھر لفظ ” بنائ “ میں بناوٹ پر غور کرنے کی دعوت بھی ہے کہ اتنے عظیم آسمان کو ستونوں کے بغیر بنانے والے کے متعلق تم نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ وہ انسان ضعیف البنیان کو دوبارہ نہیں بنا سکے گا۔ پھر یہ کہنے کے بجائے کہ ” وبنینا السمائ “ (اور ہم نے آسمان کو بنایا) یہ فرمایا :(والسممآء بنینھا) (اور آسمان ہم نے اسے بنایا) اتنے سے لفظوں میں آسمان کا ذکر دو دفعہ فرما دیا۔ ایک لفظ ” السمآئ “ کے ساتھ اور دوسرا اس کی ضمیر ” ھا “ کے ساتھ، مقصد آسمان اور اس کی بناوٹ کی طرف اچھی طرح متوجہ کرنا ہے۔ (٣) وانا لموسعون :” موسع “” اوسع یوسع “ (افعال) سے اسم فاعل ہے، جب کوئی وسعت والا ہو، جیسا کہ فرمایا :(علی الموسع قدرہ و علی المقتر قدرہ) (البقرہ : ٢٣٦)” وسعت والے پر اس کی طاقت کے مطابق اور تنگی والے پر اس کی طاقت کے مطاق ہے۔ “ وسعت کا لفظ قدرت اور فراخی دونوں معنوں کیلئے آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ” واسع “ بھی ہے، فرمایا :(ان اللہ واسع علیم) (البقر ١: ١١٥)” بیشک اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی وسعت کی کوئی حد نہیں، اس کا وجود، حیات، علم ، قدرت ، حکمت وغیرہ سب لامحدود ہیں۔ ” انا لموسعون “” ان “ اور ” لام “ (تاکید کے دو حرفوں) کے ساتھ اس لئے فرمایا کہ قیامت کا منکر دراصل اللہ تعالیٰ کی قدرت و وسعت کا منکر ہے اور بلاغت کا قاعدہ ہے کہ مخاطب جس قدر کسی بات کا منکر ہو اتنی ہی زیادہ تاکید کے ساتھ بات کی جاتی ہے۔ (٤) ” اوسع یوسع “ کا ایک معنی وسیع کرنا بھی ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ ” آسمان، ہم نے اسے بنایا اور یقینا ہم وسیع کرنے والے ہیں۔ “ مفسر کیلاین لکھتے ہیں :” کائنات میں بیشمار چیزیں ایسیہیں جن میں آج تک تخلیق اور توسیع کا عمل جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔ (بلکہ ہر چیز کا یہی حال ہے) سب سے پہلے انسان ہی کو لیجیے، اس کی نسل بڑھ ریہ ہے، تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہی کائنات کا شاہکار ہے۔ پھر زمین کی پیداوار بیھ اللہ تعالیٰ اسی نسبت سے بڑھات جا رہے ہیں۔ اس آیت میں بالخصوص آسمان کا ذکر ہے، تو آسمان کی پیدائش کا بھی یہی حال ہے، آسمان میں لاتعداد مجمع الجوم اور کہکشائیں ہئیت دانوں کو ورطہ حیرت میں ڈال کر ان کے علم کو ہر آن چیلنج کر رہی ہیں۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ ہئیت دان جو جوں پہلے سے زیادہ طاقت ور اور جدیدق سم کی دور بینیں ایجاد کر رہے ہیں تو توں اس بات کا بھی انکشاف ہو رہا ہے کہ کائنات میں ہر آن مزید وسعت پیدا ہو رہی ہے۔ سیاروں کے درمیانی فاصلے بھی بڑھ رہے ہیں اور نئے نئے اجرام بھی مشاہدہ میں آرہے ہیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Proofs of Allah&s Oneness abound in the Creation of the Heavens and Earth The preceding verses mentioned the reality of the Hereafter and the Judgment Day, and the punishment of those who denied the reality. The present set of verses reaffirm the perfect power of Allah, reminding us about the reality of the Day of Resurrection and allaying the doubt and suspicion of those who deny the reality. It proves the oneness of Allah and reiterates emphatically to believe in the Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ (And the sky was built by Us with might, and indeed, We are the One who expands.... 51:47). The word aidin, according to Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) ، means strength or power in this context.

خلاصہ تفسیر اور ہم نے آسمان کو (اپنی) قدرت سے بنایا اور ہم وسیع القدرت ہیں اور ہم نے زمین کو فرش ( کے طور پر) بنایا سو ہم (کیسے) اچھے بچھانے والے ہیں (یعنی اس میں کیسے کیسے منافع رکھے ہیں) اور ہم نے ہر چیز کو دو دو قسم کا بنایا ( اس قسم سے مراد مقابل ہے، سو ظاہر ہے کہ ہر شے میں کوئی نہ کوئی صفت ذاتیہ یا عرضیہ ایسی معتبر ہوتی ہے جس سے دوسری چیز جس میں اس صفت کی نقیض یا ضد ملحوظ ہو، اس کے مقابل شمار کی جاتی ہے، جیسے آسمان و زمین، جوہر و عرض، گرمی و سردی، شیریں و تلخ، چھوٹی و بڑی، خوش نما و بدنما، سفیدی و سیاہی، روشنی و تاریکی، وعلیٰ ہذا) تاکہ تم ( ان مصنوعات سے توحید کو) سمجھو ( اور اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے فرما دیجئے کہ جب یہ مصنوعات وحدت صانع پر دلالت کر رہی ہیں) تو تم ( کو چاہئے کہ ان سے استدلال کر کے) اللہ ہی کی (توحید کی) طرف دوڑو ( اور اول تو بوجہ دلائل مذکورہ کے خود عقل ہی اعتقاد توحید کو ضروری بتلا رہی ہے، پھر اوپر سے) میں (بھی) تمہارے (سمجھانے کے) واسطے اللہ کی طرف سے صاف طور پر ڈرانے والا ( ہو کر آیا) ہوں (کہ منکر توحید کو عذاب ہوگا، پس خوف عذاب کے اعتبار سے اعتقاد توحید اور بھی ضروری ہوگیا) اور ( پھر اور زیادہ توضیح سے کہتا ہوں کہ) خدا کے ساتھ کوئی اور معبود قرار نہ دو ( پھر تغیر عنوان کے ساتھ مضمون توحید کی وجہ سے انذار کی پھر تاکید ہے کہ) میں تمہارے (سمجھانے کے) واسطے اللہ کی طرف سے کھلا ڈرانے والا (ہو کر آیا) ہوں (آگے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ آپ واقع میں بلاشبہ نذیر مبین ہیں جیسا ابھی مذکور ہوا، لیکن یہ آپ کے مخالفین ایسے جاہل ہیں کہ نعوذ باللہ آپ کو کبھی ساحر کبھی مجنون بتلاتے ہیں، سو آپ صبر کیجئے کیونکہ جس طرح یہ آپ کو کہہ رہے ہیں) اس طرح جو (کافر) لوگ ان سے پہلے ہو گزرے ہیں ان کے پاس کوئی پیغمبر ایسا نہیں آیا جس کو انہوں نے (یعنی کل نے یا بعض نے) ساحر یا مجنون نہ کہا ہو ( آگے کفار کے اس قول (ساحر او مجنون) پر متفق ہونے سے تعجب دلاتے ہیں کہ) کیا اس بات کی ایک دوسرے کی وصیت کرتے چلے آئے تھے (یعنی یہ اجماع تو ایسا ہوگیا جیسے ایک دوسرے کو کہتے چلے آئے ہوں کہ دیکھو جو رسول آوے تم بھی ہماری طرح کہنا، آگے .... حقیقت واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ تواصی واقع نہ ہوئی تھی کیونکہ بعض قوموں سے ملی بھی نہیں) بلکہ ( وجہ اس اجماع و اتفاق کی یہ ہوئی کہ) یہ سب کے سب سرکش لوگ ہیں (یعنی سبب اس قول کا سرکشی ہے چونکہ وہ ان سب میں مشترک ہے اس لئے قول بھی مشترک ہوگیا) سو ( جب پہلے لوگ ایسے گزرے ہیں اور سبب اس کا معلوم ہوگیا کہ انہی کا طغیان ہے تو) آپ ان کی طرف التفات نہ کیجئے (یعنی ان کی تکذیب کی پروا اور غم نہ کیجئے) کیونکہ آپ پر کسی طرح کا الزام نہیں (کقولہ تعالیٰ ولا تسئل عن اصحب الجیحم) اور (اطمینان کے ساتھ اپنے منصبی کام میں لگے رہئے فقط) سمجھاتے رہئے کیونکہ سمجھانا ( جن کی قسمت میں ایمان نہیں ان پر تو اتمام حجت ہوگا اور جن کی قسمت میں ایمان ہے ان) ایمان ( لانے) والوں کو (بھی جو پہلے مومن ہیں ان کو بھی) نفع دے گا (بہرحال تذکیر میں عام فوائد اور حکمتیں سب کے اعتبار سے ہیں، آپ اس کو کئے جایئے اور کسی کے ایمان نہ لانے کا غم نہ کیجئے ) معارف و مسائل سابقہ آیات میں قیامت و آخرت کا بیان اور اس کو نہ ماننے والوں پر عذاب کا ذکر تھا، ان آیات میں بھی حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا بیان ہے جس سے قیامت اور اس میں مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے پر جو تعجب منکرین کی طرف سے کیا جاتا ہے اس کا ازالہ ہے، نیز توحید کا اثبات اور رسالت پر ایمان کی تاکید ہے۔ بَنَيْنٰهَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ ، لفظ اید، قوت وقدرت کے معنی میں آتا ہے، اس جگہ حضرت ابن عباس نے اید کی یہی تفسیر فرمائی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالسَّمَاۗءَ بَنَيْنٰہَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ۝ ٤٧ بنی يقال : بَنَيْتُ أَبْنِي بِنَاءً وبِنْيَةً وبِنًى. قال عزّ وجلّ : وَبَنَيْنا فَوْقَكُمْ سَبْعاً شِداداً [ النبأ/ 12] . والبِنَاء : اسم لما يبنی بناء، قال تعالی: لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر/ 20] ، والبَنِيَّة يعبر بها عن بيت اللہ تعالیٰ «2» . قال تعالی: وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات/ 47] ، وَالسَّماءِ وَما بَناها [ الشمس/ 5] ، والبُنيان واحد لا جمع، لقوله تعالی: لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ التوبة/ 110] ، وقال : كَأَنَّهُمْ بُنْيانٌ مَرْصُوصٌ [ الصف/ 4] ، قالُوا : ابْنُوا لَهُ بُنْياناً [ الصافات/ 97] ، وقال بعضهم : بُنْيَان جمع بُنْيَانَة، فهو مثل : شعیر وشعیرة، وتمر وتمرة، ونخل ونخلة، وهذا النحو من الجمع يصح تذكيره وتأنيثه . و ( ب ن ی ) بنیت ابنی بناء وبنیتہ وبنیا کے معنی تعمیر کرنے کے ہیں قرآن میں ہے ۔ { وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا } ( سورة النبأ 12) اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے { وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ } ( سورة الذاریات 47) اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا ۔ { وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا } ( سورة الشمس 5) اور آسمان اور اس ذات کی ( قسم ) جس نے اسے بنایا ۔ البنیان یہ واحد ہے جمع نہیں ہے جیسا کہ آیات ۔ { لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ } ( سورة التوبة 110) یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں ( موجب ) خلجان رہے گی ۔ { كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ } ( سورة الصف 4) کہ گویا سیساپلائی ہوئی دیوار ہیں :{ قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ } ( سورة الصافات 97) وہ کہنے لگے کہ اس کے لئے ایک عمارت بناؤ ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ بنیانۃ کی جمع ہے اور یہ : شعیر شعیر وتمر وتمر ونخل ونخلتہ کی طرح ہے یعنی جمع اور مفرد میں تا کے ساتھ فرق کرتے ہیں اور جمع کی اس قسم میں تذکر وتانیث دونوں جائز ہوتے ہیں لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر/ 20] ان کے لئے اونچے اونچے محل ہیں جن کے اوپر بالا خانے بنے ہوئے ہیں ۔ بناء ( مصدر بمعنی مفعول ) عمارت جمع ابنیتہ البنیتہ سے بیت اللہ مراد لیا جاتا ہے يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ وسع السَّعَةُ تقال في الأمكنة، وفي الحال، وفي الفعل کالقدرة والجود ونحو ذلك . ففي المکان نحو قوله : إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت/ 56] ، أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً [ النساء/ 97] ، وَأَرْضُ اللَّهِ واسِعَةٌ [ الزمر/ 10] وفي الحال قوله تعالی: لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ [ الطلاق/ 7] وقوله : وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] والوُسْعُ من القدرة : ما يفضل عن قدر المکلّف . قال تعالی: لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة/ 286] تنبيها أنه يكلّف عبده دوین ما ينوء به قدرته، وقیل : معناه يكلّفه ما يثمر له السَّعَة . أي : جنّة عرضها السّموات والأرض کما قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] وقوله : وَسِعَ رَبُّنا كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأعراف/ 89] فوصف له نحو : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] وقوله : وَاللَّهُ واسِعٌ عَلِيمٌ [ البقرة/ 268] ، وَكانَ اللَّهُ واسِعاً حَكِيماً [ النساء/ 130] فعبارة عن سَعَةِ قدرته وعلمه ورحمته وإفضاله کقوله : وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأنعام/ 80] وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ [ الأعراف/ 156] ، وقوله : وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ [ الذاریات/ 47] فإشارة إلى نحو قوله : الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] ووَسِعَ الشّيءُ : اتَّسَعَ. والوُسْعُ : الجدةُ والطّاقةُ ، ويقال : ينفق علی قدر وُسْعِهِ. وأَوْسَعَ فلانٌ: إذا کان له الغنی، وصار ذا سَعَةٍ ، وفرس وَسَاعُ الخطوِ : شدید العدو . ( و س ع ) اسعۃ کے معنی کشادگی کے ہیں اور یہ امکنہ حالت اور فعل جیسے قدرت جو وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ وسعت مکانی کے متعلق فرمایا : ۔ إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت/ 56] میری زمین فراح ہے ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً [ النساء/ 97] کیا خدا کا ملک فراخ نہیں تھا ۔ اور وسعت حالت کے متعلق فرمایا : ۔ لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ [ الطلاق/ 7] صاحب وسعت کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہئے وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236]( یعنی مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق ۔۔۔۔۔ الواسع اس طاقت کو کہتے ہیں جو اس کام سے وزازیادہ ہو جو اس کے ذمہ لگایا گیا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة/ 286] خدا کسی شخص کو اس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ میں تنبیہ فر مائی ہے کہ خدا بندے کے ذمہ اتنا ہی کام لگاتا ہے جو اس کی طاقت سے ذرا کم ہوتا ہے ۔ اور بعض نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جن احکام کا انسان کو مکلف بناتا ہے ان کا ثمرہ وسعت یعنی وہ جنت ہے جس کی پہنائی ارض وسما ہے جیسا کہ اس کی تائید میں دوسری جگہ فرمایا : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارا حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ اور آیت : ۔ وَسِعَ رَبُّنا كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأعراف/ 89] اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کے احاطہ علمی کا بیان ہے جیسے دوسری جگہ اس مفہوم کو : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] خدا اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے سے تعبیر فرمایا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ واسِعٌ عَلِيمٌ [ البقرة/ 268] اور خدا کشائش والا اور علم والا ہے ۔ اور نیز آیت کریمہ : ۔ وَكانَ اللَّهُ واسِعاً حَكِيماً [ النساء/ 130] اور خدا بڑی کشائش اور حکمت والا ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کا بلحاظ علم وقدرت ورحمت وفضل کے وسیع ہونا مراد ہے جیس ا کہ آیت : ۔ وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأنعام/ 80] میرا پروردگار اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ [ الأعراف/ 156] اور جو میری رحمت ہے وہ ہر چیز کو شامل ہے ۔ سے معلوم ہوتا ہے اور آیت : ۔ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ [ الذاریات/ 47] اور ہم کو سب مقددر ہے میں اللہ تعالیٰ کی اس وسعت کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ آیت : ۔ الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی شکل اصورت بخشی اور پھر راہ دکھائی ۔ میں بیان کیا جاتا ہے یعنی وہدایت کے فیضان سے وہ ہر چیز کو اپنے اندر سمائے ہوئے ہے ) وسع الشئی اتسع کے معنی کسی چیز کے فراخ ہونا کے ہیں اور لواسع کے معنی تو نگر ی اور طاقت کے بھی آتے ہیں چناچہ محاورہ مشہور ہے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرتا ہے ۔ اوسع فلان وہ غنی اور صاحب اسعت ہوگیا فرس وساع الخطو وہ گھوڑا کو لمبی لمبی ڈگ بھرتا ہو نہایت تیزی سے دوڑے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٧۔ ٤٩) اور ہم نے آسمان کو اپنی قدرت و طاقت سے بنایا اور ہم جو چاہیں اس کی قدرت رکھتے ہیں یا یہ کہ زمین کو رزق کے ساتھ وسیع کرنے والے ہیں اور ہم نے زمین کو پانی پر فرش کے طور پر بنایا سو ہم کیا خوب بچھانے والے ہیں اور ہم نے زمین میں ہر ایک چیز کو دو قسم کا بنایا تاکہ تم ان مصنوعات خداوندی سے توحید کو سمجھو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٧{ وَالسَّمَآئَ بَنَیْنٰہَا بِاَیْدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ ۔ } ” اور آسمان کو ہم نے بنایا اپنے ہاتھوں سے اور ہم (اس کو) توسیع دینے والے ہیں۔ “ اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ کا ترجمہ عام طور پر ” ہم بڑی ہی وسعت رکھنے والے ہیں “ یا ” ہم بڑی قدرت والے ہیں “ کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن لغوی اعتبار سے اس کا یہ ترجمہ زیادہ مناسب اور زیادہ جامع ہے جو اوپر متن میں اختیار کیا گیا ہے ۔ اَوْسَع یُوسِعُ باب افعال ہے ‘ جس کا مطلب ہے کشادہ کرنا ‘ وسعت دینا۔ وَسِعَ ثلاثی مجرد ہے ‘ جس سے اسم الفاعل وَاسِعٌ آتا ہے۔ چناچہ { وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ} کا مطلب ہے : اللہ بڑی وسعت سمائی والا ہے ‘ اس کے خزانے لامحدود ہیں۔ جبکہ مَوْسِع باب افعال سے اسم الفاعل ہے اور اس کے معنی ہوں گے : وسعت دینے والا۔ اس لحاظ سے یہاں { اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ } کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم اس کائنات کو مسلسل وسعت بخش رہے ہیں ‘ اسے وسیع سے وسیع تر کیے جا رہے ہیں۔ اور یہ وہی بات ہے جو آج ہمیں سائنس کی مدد سے معلوم ہوئی ہے۔ آج سے نصف صدی پہلے تک انسان کو یہ سب کچھ معلوم نہیں تھا مگر آج ہم جانتے ہیں کہ کائنات میں ہر گھڑی نئے نئے ستارے پیدا ہو رہے ہیں ‘ ہر آن نئی نئی کہکشائیں وجود میں آرہی ہیں اور یہ کائنات مسلسل پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ ” Expanding Universe “ کے اس تصور کو اقبالؔ نے اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کیا ہے : ؎ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دمادم صدائے کُنْ فَـیَکُوْن تو اللہ تعالیٰ کی شان کُنْ فَیَکُوْنکا ظہور مسلسل جاری ہے۔ اسی مفہوم کو سورة فاطر کی پہلی آیت میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : { یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآئُط } ” وہ اپنی تخلیق میں جو چاہتا ہے اضافہ کرتا رہتا ہے “۔ چناچہ وہ آسمانوں کو یعنی کائنات کو مسلسل وسعت دیے جا رہا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

43 After presenting historical arguments 'for the Hereafter, now arguments from the universe arc being presented in proof of the same. 44 The word must' (pl. musi'un) may mean the one who possesses power and means, and also the one who can extend and expand something. According to the first meaning, the verse would mean: "We have built this heaven by Our own might and not with somebody else's help, and its erection was in no way beyond Us. Then how can you ever conceive that We shall not be able to recreate it ?" According to the second meaning, it would mean: "This huge universe that We have created, is not a finished work, but We are expanding it continuously, and new and ever new manifestations of Our creation are appearing in it every moment. How do you then think that such a marvelous Creator would not be able to repeat His creation.

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :43 آخرت کے حق میں تاریخی دلائل پیش کرنے کے بعد اب پھر اسی کے ثبوت میں آفاقی دلائل پیش کیے جا رہے ہیں ۔ سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :44 اصل الفاظ ہیں وَاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ ۔ موسع کے معنی طاقت و مقدرت رکھنے والے کے بھی ہو سکتے ہیں اور وسیع کرنے والے کے بھی ۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہ آسمان ہم نے کسی کی مدد سے نہیں بلکہ اپنے زور سے بنایا ہے اور اس کی تخلیق ہماری مقدرت سے باہر نہ تھی ۔ پھر یہ تصور تم لوگوں کے دماغ میں آخر کیسے آ گیا کہ ہم تمہیں دو بارہ پیدا نہ کر سیکیں گے؟ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ اس عظیم کائنات کو ہم بس ایک دفعہ بنا کر نہیں رہ گئے ہیں بلکہ مسلسل اس میں توسیع کر رہے ہیں اور ہر آن اس میں ہماری تخلیق کے نئے نئے کرشمے رونما ہو رہے ہیں ۔ ایسی زبردست خلاق ہستی کو آخر تم نے اعادہ خلق سے عاجز کیوں سمجھ رکھا ہے؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

16: اس کا مطلب کچھ مفسرین نے یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برسا کر لوگوں کے رزق میں وسعت پیدا فرماتے ہیں۔ کچھ مفسرین نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ : ہماری قدرت بہت وسیع ہے۔ لیکن اس کے یہ معنی بھی ممکن ہیں کہ ہم خود آسمان میں وسعت پیدا کرنے والے ہیں۔ واللہ سبحانہ اعلم۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٧۔ ٥١۔ اور پچھلی قوموں کے ہلاک ہوجانے کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں فرمایا کہ وہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی سے ہلاک ہوئے ورنہ آسمان زمین دنیا کی تمام موجودات اس بات کے سمجھنے کے لئے سمجھ دار کو کافی ہے کہ جس نے انسان کو اور انسان کی تمام ضرورت کی چیزوں کو پیدا کیا۔ پوری تعظیم اور عبادت اسی وحدہ لاشریک کا حق ہے۔ اس حق میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ صحیح ١ ؎ بخاری و مسلم کی معاذ بن جبل کی حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کریں۔ اگر یہ حق بندوں نے ادا کردیا تو بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے کہ وہ ان کو اپنے عذاب سے بچائے۔ اس نصیحت کے بعد فرمایا۔ اے رسول اللہ کے تم اہل مکہ کو جتلا دو کہ اگر وہ اپنی نجات چاہتے ہیں تو اللہ کی نافرمانی اور بت پرستی چھوڑ کر خالص اللہ کی عبادت میں مصروف ہوجائیں۔ ورنہ گھڑی گھڑی ان کو یہ بات سنا دو کہ میں کھلم کھلا اللہ کے عذاب سے تم لوگوں کو ڈرانے آیا ہوں صحیح ٢ ؎ بخاری و مسلم میں ابوہریرہ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری اور میری امت کے نافرمان لوگوں کی مثال ایسی ہے جس طرح ایک شخص آگ جلائے اور آگ کی روشنی سے جنگل کے کیڑے پتنگے اس آگ کے گرد جمع ہو کر اسی میں گرنا شروع کردیں اور ہرچند وہ شخص ان کیڑوں پتنگوں کو اس آگ میں گرنے سے روکے مگر وہ باز نہ آئیں اسی طرح میں نافرمان لوگوں کو کمر سے پکڑ پکڑ کر دوزخ کی آگ سے بچانا چاہتا ہوں مگر یہ لوگ باز نہیں آتے اس آیت یا اس قسم کی اور آیتوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو حکم ہے کہ آپ اللہ کے عذاب سے لوگوں کو ڈرائیں۔ اس حکم کی تعمیل میں جو کچھ کوشش اور تندہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمائی۔ یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے۔ (١ ؎ صحیح بخاری کتاب التوحید ص ١٠٩٦ ج ٢ و صحیح مسلم باب الدلیل علی ان من مات علی التوحید دخل الجنۃ ص ٤٤ ج ١۔ ) (٢ ؎ صحیح مسلم باب شفقۃ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) علیٰ امتہ الخ ص ٢٤٨ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(51:47) والسماء بنینھا۔ ای بنینا السماء مفعول کو فعل سے پہلے لایا گیا ہے ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب السامء کی طرف راجع ہے۔ بنینا ماضٰ جمع متکلم ۔ بنی یبنی بناء (باب ضرب) مصدر۔ ہم نے بنایا۔ باید : قوت سے، طاقت سے، یہاں باید ید کی جمع نہیں ہے بلکہ اویئید (باب ضرب) کا مصدر ہے اس بھی اس کا مصدر ہے بمعنی مضبوط ہونا ۔ سخت ہونا۔ اسی مادہ ای و سے باب تفعیل اید یؤید تایید بمعنی قوت دینا ہے۔ قرآن مجید میں ہے :۔ ایدتک بروح القدس (5:110) میں نے تمہیں روح القدس سے تقویت دی۔ اور فرمایا :۔ واللہ یؤید بنصرہ من یشاء (3:23) اللہ جسے چاہتا ہے اپنی نصرت سے بہت زیادہ تقویت بخشتا ہے۔ صاحب اضواء البیان لکھتے ہیں کہ :۔ فمن ظن انھا جمع ید فی ھذہ الایۃ فقد ظلا فاحشا والمعنی : المسماء بنینھا بقوۃ : ترجمہ ہوگا۔ اور آسمان کو ہم نے اپنی قوت سے بنایا۔ موسعون : اسم فاعل مذکر ایساع (افعال) مصدر۔ وسع مادہ، طاقت و مقدرت رکھنے والے، وسعت والے۔ مقدور والے۔ فائدہ : صاحب تفہیم القرآن رقمطراز ہیں کہ :۔ اصل لفظ ہیں انا لموسعون : موسع کے معنی طاقت و مقدرت رکھنے والے کے بھی ہوسکتے ہیں۔ اور وسیع کرنے والے کے بھی۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہ آسمان ہم نے کسی کی مدد سے نہیں بلکہ اپنی طاقت اور زور سے بنایا ہے ۔ اور اس کی تخلیق ہماری مقدرت سے باہر نہ تھی۔ پھر یہ تصور تم لوگوں کے دماغ میں آخر کیسے آگیا کہ ہم تمہیں دوبارہ پیدا نہ کرسکیں گے۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے :۔ کہ اس عظیم کائنات کو بس ہم ایک دفعہ بنا کر نہیں رہ گئے بلکہ مسلسل اس میں توسیع کر رہے ہیں اور ہر آن اس میں ہماری تخلیق کے نئے نئے کرشمے رونما ہو رہے ہیں۔ ایسی زبردست خلاق ہستی کو آخر تم نے اعادہ خلق سے عاجز کیوں سمجھ رکھا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی اگر چاہیں تو ایسے بیشمار اور آسمان بھی بنا سکتے ہیں۔ یہ مفہوم اس صورت میں ہے جب موسع کا ترجمہ وسع یعنی طاقت والا کئے جائیں اور اگر اس کا ترجمہ وسیع کرنے والا کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ ہم آسمان سے بارش برسا کر روزی کشادہ کرنے والے ہیں۔ (کذافی قرطبی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 47 تا 55 الماھدون بچھانے والے۔ فروآ دوڑو۔ بھاگو۔ اتواصوا کیا انہوں نے آپس میں وصیت کی ہے۔ طاغون سرکش اور ضدی لوگ۔ تشریح : آیت نمبر 47 تا 55 انبیاء کرام کی عظمت اور ان کی دعوت توحید کو مان کر ایمان لانے والوں کی نجات اور کفر و شرک، ظلم و زیادتی کرنے والوں کی تباہی و بربادی کے بعد زیر مطالعہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم قدرت و طاقت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے ہی آسمان کو اپنے دست قدرت سے بنایا ہے اور ہم ہی اس سکڑی ہوئی زمین کو آہستہ آہستہ پھیلاتے چلا جا رہے ہیں۔ یعنی یہ ایک ایسا خاکہ ہے جس میں ہم ہر آن نئے سے نیارنگ بھرتے چلے جا رہے ہیں۔ زمین میں بھی ہماری قدرت کے بیشمار نمونے موجود ہیں اس میں انسانوں کے لئے راحت و آرام کے ہر طرح کے اسباب پیدا کئے گئے ہیں۔ نر اور مادہ، مرد اور عورت، مثبت اور منفی ہر طرح کے جوڑے بنا کر اس تخلیق کی تکمیل کر رہے ہیں تاکہ قیامت تک اس کائنات کا پھیلائو بڑھتا ہی چلا جائے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہے تاکہ ایک آدمی کائنات کی سچائیوں پر غور و فکر کر کے اس کائنات کے مالک پر ایمان لے آئے۔ فرمایا اے لوگو ! ایسے خالق ومالک اللہ ہی کی طرف دوڑو یعنی تمہاری زندگی کی دوڑ صرف دنیا ہی تک نہ ہو بلکہ توبہ کر کے اللہ کی طرف آ جائو۔ حضرت ابن عباس نے اس جملے کا مطلب یہی بتایا ہے کہ اپنے گناہوں سے بھاگ کر اسی ایک خالق ومالک اللہ کی طرف دوڑو۔ حضرت ابوبکر و راق اور حضرت جنید بغدادی نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ نفس و شیطان گناہوں کی طرف دعوت دے کر آدمی کو بہکاتے ہیں۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ شیطان سے بچ کر اللہ کی پناہ حاصل کرلے تاکہ اللہ اس کو ہر ایک شر سے بچا لے۔ (قرطبی) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کہہ دیجیے کہ میں نے تمہیں اللہ کے عذاب سے اگٓاہ کردیا ہے اور کھول کھول کر یہ بتا دیا ہے کہ تمہاری نجات اسی میں ہے کہ تم اللہ کے ساتھ دوسرے معبود نہ گھڑو۔ یہ بھی فرما دیا گیا ہے کہ برسوں سے اپنے غلط عقیدوں پر چمٹے ہوئے لوگوں سے آپ یہ فرما دیں کہ ایک اللہ کے سوا کسی کی عبادت و بندگی نہ کریں۔ اس کے ساتھ اس کی ذات اور صفات میں کسی کو کسی طرح شریک نہ کریں اس پر وہ آپ کو ستائیں گے اور جس طرح آپ سے پہلے آنے والے پیغمبروں کو جادوگر اور دیوانہ کہتے تھے آپ کو بھی اسی طرح کہیں گے۔ کیونکہ ایسا لگتا ہے جس طرح آپ سے پہلے آنے والے پیغمبروں کو جادوگر اور دیوانہ کہتے تھے آپ کو بھی اسی طرح کہیں گے۔ کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ کفار اور گذرے ہوئے نافرمان لوگوں کی ذہنیت ایک جیسی ہے گویا وہ ایک دوسرے کو وصیت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ سب کھچ اس لئے ہے کہ وہ اللہ کے نافرمان ہیں آپ ایسے لوگوں کی پرواہ نہ کیجیے۔ ان نادانوں سے اپنے آپ کو الگ رکھئے اور آپ ان کی باتوں پر کسی طرح کا رنج و غم نہ کیجیے آپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ آپ اللہ کا دین ہر شخص تک پہنچانے کی کوشش اور جدوجہد کرتے رہیے۔ اس سے فائدہ تو وہی اٹھائیں گے جو اہل ایمان ہیں۔ کفار و مشرکین کی یہ بدنصیبی ہے کہ وہ ہر سچائی کو جان بوجھ کر ٹھکراتے ہی رہیں گے۔ اصل میں اللہ تعالیٰ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ فرما رہے ہیں کہ اگر آپ نے ان کی باتوں پر دھیان دیا اور مایوس ہو گئیت و اس سے ان کفار کا تو کچھ نہیں بگڑے گا البتہ اہل ایمان جو فرماں برداری میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں وہ مایوس ہوجائیں گے لہٰذا آپ اپنے مقصد اور مشن کو اسی طرح جاری رکھئے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس ” اللہ “ نے قوم نوح کو تباہ کیا اس کے جلال اور قدرت کا عالم یہ ہے کہ اس نے اپنے ہاتھوں سے آسمان کو بنایا اور زمین کو فرش کے طور پر بچھایا جس کی قدرت اور جلال کا تقاضا ہے کہ اس کی نافرمانی اور سرکشی کرنے کی بجائے اس کے سامنے جھکا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد عالی ہے کہ ہم نے آسمانوں کو اپنے ہاتھوں سے بنایا اور ہم ہی اسے وسعت دینے والے ہیں اور ہم نے زمین کو فرش بنایا اور ہم بہت اچھا بچھانے والے ہیں۔” اَیْدِیَ “ ” ید “ کی جمع ہے جس کے بارے میں اہل علم کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنے بارے میں ید کا لفظ بولتا ہے تو اس کا مطلب اس کا ہاتھ ہوتا ہے جس کے بارے میں ہمیں قیاس آرائی اور کوئی تاویل کرنے کی اجازت نہیں۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے لیے ” ایدی “ کا لفظ استعمال فرماتا ہے تو اس کا معنٰی قوت اور طاقت ہوتا ہے۔ یہاں ” ایدی “ کا معنٰی یہ ہوگا کہ ہم نے آسمانوں کو بنایا اور ہمیں اس پر پوری قوت حاصل تھی اور ہے اور ہم اسے وسعت دینے والے ہیں۔ لغت کے لحاظ سے ” لَمُوْسِعُوْنَ “ کا معنٰی وسعت دینا ہے اس لیے اکثر مفسرین کا خیال اور سائنسدانوں کا مشاہدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی کائنات کو وسعت دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فضا میں ستارے اور سیارے بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ سائنسدانوں کا یہ بھی مشاہدہ ہے کہ مختلف سیاروں اور ستاروں کے درمیان دن بدن فاصلہ بڑھ رہا ہے۔ آسمان اور فضا کی کیفیت صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ لیکن جہاں تک عام آدمی کی سمجھ میں آنے والی بات ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دن بدن نہ صرف انسانوں کی تعداد میں اضافہ کررہا ہے بلکہ ان کے وسائل میں بھی اضافہ کیا جارہا ہے۔ غور فرمائیں ! کہ آج سے سو سال پہلے کا انسان موجودہ وسائل بالخصوص ذرائع مواصلات کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ نہ معلوم آنے والے وقت میں انسان کو کیا کیا نعمتیں میسر ہوں گی۔ خوردونوش کی اشیاء کا تجزیہ فرمائیں کہ آج سے پچاس سال پہلے گندم کی فی ایکڑ پیداوار پندرہ بیس من سے زیادہ نہیں تھی اور آج درمیانے درجے کے کھیت سے پچاس ساٹھ مَن گندم حاصل کی جارہی ہے۔ اسی طرح دوسری اشیائے خوردنی کا حال ہے کہ ان کی پیدوار میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے، گویا کہ جس طرح کھانے والے بڑھ رہے ہیں اسی قدر ان کے دسترخوان کو وسعت دی جا رہی ہے۔ قرآن مجید میں زمین و آسمانوں کی پیدائش کے بارے میں کئی مراحل کا تذ کرہ ہوا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے۔ ” پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت دھواں تھا، اس نے آسمان اور زمین سے فرمایا چاہو یا نہ چاہو ہر حال میں وجود میں آجاؤ، دونوں نے کہا ہم فرمانبردار ہو کر حاضر ہوگئے۔ “ (حٰمٗ السجدۃ : ١١) ” جس نے اوپر نیچے سات آسمان بنائے، تم رحمٰن کی تخلیق میں کسی قسم کی بےربطی نہیں پاؤ گے۔ پھر پلٹ کر دیکھو کیا تمہیں کہیں خلل نظر آتا ہے ؟ (الملک : ٣) ” یقیناً ہم نے آسمان میں برج بنائے اور اسے دیکھنے والوں کے لیے خوبصورت بنایا ہے۔ “ (الحجر : ١٦) ” جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے تمہارے لیے پھل پیدا کیے جو تمہارا رزق ہے۔ لہٰذا حقیقت جاننے کے باوجود اللہ کے ساتھ شریک نہ بناؤ۔ “ (البقرۃ : ٢٢) ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو تخلیق فرمایا تو وہ ہلنا شروع ہوگئی تو اللہ نے پہاڑوں کو پیدا کر کے اس پر گاڑ دیا تو وہ ٹھہر گئی فرشتوں نے پہاڑ کی تخلیق پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا اے پروردگار کیا تو نے پہاڑوں سے بڑھ کے کوئی سخت چیز پیدا کی ہے ؟ اللہ نے فرمایا ہاں ! لوہا، فرشتوں نے عرض کی کیا لوہے سے بڑھ کر کوئی سخت چیز تخلیق کی گئی ہے ؟ اللہ نے فرمایا آگ۔ فرشتوں نے دریافت کیا، کیا آگ سے بھی سخت چیز آپ نے تخلیق فرمائی ہے ؟ اللہ نے فرمایا پانی اس سے بھی سخت تر ہے۔ انہوں نے عرض کی کیا پانی سے بڑھ کر بھی اے اللہ تو نے کسی چیز کو تخلیق کیا ہے ؟ اللہ نے فرمایا ہوا، فرشتوں نے سوال کیا اے پروردگار کیا تو نے ہوا سے بھی بڑھ کر کوئی سخت چیز پیدا کی ہے ؟ اللہ نے فرمایا ابن آدم کا اپنے دائیں ہاتھ سے صدقہ کرنا ہے جس کا بائیں ہاتھ کو پتہ نہ چلے۔ “ (رواہ احمد : مسند انس بن مالک، وقال الترمذی ھذا حدیث غریب) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو اپنی قوت کے ساتھ بنایا اور فضا میں ٹھہرایا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو فرش بنایا اور اسے نہایت ہی اچھے انداز میں بچھایا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ آفاق اور اپنی مخلوق میں اضافہ کررہا ہے۔ تفسیر بالقرآن زمین و آسمان کا تذکرہ : ١۔ اللہ نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا ہے اللہ شرک سے بالا تر ہے۔ (النحل : ٣) (البقرۃ : ٢٢) (البقرۃ : ١١٦) ٢۔ زمین و آسمان پہلے باہم جڑے ہوئے تھے۔ پھر اللہ نے ان کو ایک دوسرے سے الگ کیا۔ (الانبیاء : ٣٠) ٣۔ اللہ نے دو دن میں آسمانوں کو پیدا کیا۔ (حٰم السجدۃ : ١٢) ٤۔ اللہ نے آسمان و زمین چھ دن میں بنائے۔ (الاعراف : ٥٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب روئے سخن پر اس کائنات کی نمائش گاہ کی طرف لوٹ جاتا ہے جس کے ساتھ اس سورة کا افتتاح ہوا تھا۔ اس کائنات میں قلب ونظر کے جلا کے لئے کئی تصاویر ہیں تو اب اس کائنات کے البم سے ایک نئی تصویر آپ کے سامنے لائی جاتی ہے اور اس کے ذریعے اس نمائش گاہ کائنات میں اللہ کی نشانیوں کو تلاش کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ یوں حضرت نوح کے قصے کی نشانی اب زمین و آسمان کی تصویری کہانیوں کے ساتھ مل جاتی ہے اور اس کے بعد پھر انسانوں کو بلند آواز سے پکارا جاتا ہے کہ دوڑو اللہ کی طرف ! خالص نظریہ توحید کے ساتھ۔ والسمائ ........ لموسعون (١٥ : ٧٤) ” آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا اور ہم بہت ہی وسعت رکھتے ہیں۔ “ الاید سے مراد قوت ہے۔ ہولناک وسیع اور عریض آسمانوں کی تخلیق اور ان کو ضبط میں رکھنے ہی سے اللہ کی عظیم قوت ظاہر ہے۔ آپ آسمان کے لفظ سے جو بھی مراد لیں خواہ آپ اس سے سیاروں کے مدارات لیں یا اس سے آپ مراد ستاروں کے مجموعے کہکشاں کو لیں جس میں کئی ملین ستارے ہوتے ہیں یا آپ اس سے مراد بلند فضاؤں کے وہ طبقات لیں جن کے اندر یہ ستارے اور سیارے بکھرے ہوئے ہیں یا اس کے علاوہ اس لفظ کا کوئی بھی مفہوم لیں بہرحال یہ کرشمہ قدرت الیہ ہے۔ اسی طرح وسعت سے مراد بھی یہی سیارے ہیں جو بڑے بڑے حجم والے ہیں اور ملین کی تعداد ہیں اور یہ اس ہولناک اور سرچکرانے والی وسیع فضائے کائنات میں بکھرے پڑے ہیں جس طرح ذرات بکھرے ہوئے ہیں بس یہی وسعت ہے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وسعت سے مراد وہ خزانے ہوں جو اللہ نے انسانوں کے رزق اور خوراک کے لئے رکھے ہوئے ہیں اور یہ خزانے آسمانوں میں ہیں۔ اس سورة میں یہاں آسمان سے مراد صرف وہ ہوگا جو اللہ کے ہاں ہے لیکن قرآن کا انداز تعبیر ایسا ہوتا ہے کہ اس کے اندر کسی لفظ کے مفہوم کی طرف ایک اشارہ ہوتا ہے۔ تعبیر پر اس مفہوم کا سایہ ڈالا جاتا ہے اور یہ بالاارادہ ہوتا ہے تاکہ انسانی شعور اس سے تاثر لے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آسمان و زمین کی تخلیق کا ذكر، اور اللہ کی طرف دوڑنے کا حكم ان آیات میں آسمان و زمین اور دوسری مخلوقات کی تخلیق کا تذکرہ فرمایا پھر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہونے اور موحد بننے اور توحید پر قائم رہنے کا حکم فرمایا، اولًا آسمان کی تخلیق کا ذکر فرمایا ﴿ وَ السَّمَآءَ بَنَيْنٰهَا بِاَيْىدٍ ﴾ (اور ہم نے آسمان کو قوت کے ساتھ پیدا فرمایا) یعنی ہماری قوت اور قدرت بہت زیادہ ہے اپنے ارادہ کے مطابق جو چاہیں کرسکتے ہیں اتنے بڑے آسمان کا پیدا فرمانا ہمارے لیے کوئی مشکل نہیں ہے یہ وہی بات ہے جو سورة ٴ ق ٓ کی آیت ﴿ وَّ مَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ ٠٠٣٨﴾ میں مذکور ہے۔ حضرت حسن (رح) سے لَمُوْسِعُوْنَ کا ترجمہ یہ منقول ہے کہ ہم رزق میں وسعت دینے والے ہیں۔ ثانیاً : زمین کا تذکرہ فرمایا کہ زمین کو ہم نے بچھا دیا سو ہم بہترین بچھانے والے ہیں۔ زمین کے بچھونے پر انسان لیٹتے ہیں سوتے ہیں اسی کو سورة الغاشیہ میں فرمایا ﴿وَ اِلَى الْاَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْٙ٠٠٢٠﴾ (اور کیا زمین کو نہیں دیکھتے کیسے بچھادی گئی ) ۔ ثالثاً : یہ فرمایا کہ ہم نے ہر قسم سے دو دو چیزیں بنائی ہیں۔ حضرت مجاہد (رح) نے فرمایا کہ اس سے متقابلات مراد ہیں یعنی رات دن اور شقاوت سعادت اور ہدایت اور ضلالت اور آسمان و زمین اور سیاہی و سفیدی اور صحت اور مرض۔ وغیرذلک ﴿لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ٠٠٤٩﴾ (تاکہ تم نصیحت حاصل کرو) یعنی ہماری ان نعمتوں کو دیکھ کر رب ذوالجلال قادر مطلق کی طرف متوجہ ہو اور اس کی عبادت میں لگو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16:۔ ” والسماء۔ تا تذکرون “ تخویف دنیوی کے پانچ نمونے ذکر کرنے کے بعد دعوی سورت پر دوسری عقلی دلیل ہے۔ ” اید “ طاقت و قوت۔ موسعون، قادرون۔ (مدارک) ۔ ہم نے آسمان کو اپنی قدرت وقوت سے پیدا کیا ہے اور ہماری قدرت ہر چیز پر حاوی ہے۔ زمین کو ہم نے بچھونے کی طرح ہموار بنایا۔ کون ہے جو اس کام کو ہم سے بہتر سر انجام دے سکے ؟ ہم نے ہر چیز کا جوڑا پیدا کیا۔ حیوانات میں نر و مادہ اور باقی اشیاء میں مختلف انواع و اقسام مثلاً رنگ، ذائقہ اور بو کی قسمیں، میووں، پھلوں اور غلوں، ترکاریوں کی مختلف اجناس۔ لیس المراد تعین تعدد التثنیۃ بل المراد اصناف المخلوقات یعنی خلقنا من کل شیء اصناف ذات عدد فوق الواحد (مظہری ج 9 ص 89) ۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا تاکہ تم عبرت حاصل کرو، عجائب المخلوقات میں غور کر کے اپنے خالق اور معبود حقیقی کو پہچانو اور اس کی قدرت کاملہ اور حکمت غامضہ پر ایمان لاؤ کہ جس قادر مطلق نے یہ سب کچھ پیدا کیا ہے وہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(47) اور ہم نے آسمان کو اپنی طاقت اور اپنی قدرت اور ہاتھ کے بل سے بنایا اور بلاشبہ ہم بڑی قدرت اور بڑی قوت والے ہیں موسع روزی کے فراغ کرنے والے غنی اور بھی کئی معنی ہیں مگر ہم نے تیسیر میں راجح معنی اختیار کرلئے ہیں۔