Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 50

سورة الذاريات

فَفِرُّوۡۤا اِلَی اللّٰہِ ؕ اِنِّیۡ لَکُمۡ مِّنۡہُ نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ۚ۵۰﴾

So flee to Allah . Indeed, I am to you from Him a clear warner.

پس تم اللہ کی طرف دوڑ بھاگ ( یعنی رجوع ) کرو یقیناً میں تمہیں اس کی طرف سے صاف صاف تنبیہ کرنے والا ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ ... So, flee to Allah. meaning, seek shelter with Him and trust in Him in all of your affairs, ... إِنِّي لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌ مُّبِينٌ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

50۔ 1 یعنی کفر و معصیت سے توبہ کرکے فوراً بارگاہ الٰہی میں جھک جاؤ، اس میں تاخیر مت کرو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) فقروا الی اللہ : یعنی جب آسمان و زمین اور کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے پر اور تمہیں دوبارہ پیدا کرنے کی قدرت پر دلالت کر رہی ہے تو تم پر لازم ہے کہ اللہ کی طرف دوڑو، کفر کو ترک کر کے توحید کی طرف آؤ اور گناہوں سے توبہ کر کے اس کی رحمت کی پناہ میں آجاؤ۔ (٢) انی لکم منہ نذیر مبین : ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(مثلی و مثل ما یعثنی اللہ کمثل رجل اتی قوما فقال رایت الجیش بعینی وانی انا النذیر العریان فالنجاء النجاء فاطعتہ طائفۃ فاذ لجوا علی مھلھم فنجوا، وکذبتہ طائفۃ فصبحھم الجیش فاجناجھم) (بخاری، الرقاق، باب الانتھاء عن المعاصی : ٦٣٨٢)” میری مثال اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ دے ر مجھے بھیجا ہے اس کی مثال اس آدمی ک سی ہے جو ایک قوم کے پاس آیا اور کہنے لگا، میں نے لشکر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور میں ننگا ڈرانے والا ہوں، (عرب کا قدیم دستور تھا کہ دشمن کے حملے سے خبردار کرنے والا شخص کپڑے اتار دیتا اور ننگا ہو کر چیخ چیخ کر حملے سے ڈراتا) اس لئے دوڑو، دوڑو۔ تو ایک گروہ نے اس کی بات مان لی اور آرام کے ساتھ اندھیرے میں چل پڑے اور بچ کر نکل گئے اور ایک گروہ نے اسے جھٹلا دیا تو لشکر نے صبح صبح ان پر حملہ کیا اور انہیں تباہ و برباد کردیا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَفِرُّ‌وا إِلَى اللَّـهِ (So flee to Allah....51:50). Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) said: |"It means: Flee from your sins and take shelter in Allah for repentance.|" Abu Bakr Warraq and Junaid Baghdadi رحمۃ اللہ علیہما said that the base self of man and the devil invite him to commit sins, and they deceive him. He needs to take refuge in Allah who will protect him against their evil. (Qurtubi)

فَفِرُّوْٓا اِلَى اللّٰهِ ، یعنی |" دوڑو اللہ کی طرف |" حضرت ابن عباس نے فرمایا مراد یہ ہے کہ اپنے گناہوں سے بھاگو اللہ کی طرف توبہ کے ذریعہ، ابوبکر دراق او جنید بغدادی نے فرمایا کہ نفس و شیطان معاصی کی طرف دعوت دینے والے ہیں اور بہکانے والے ہیں، تم ان سے بھاگ کر اللہ کی طرف پناہ لو تو وہ تمہیں ان کے شر سے بچا لیں گے (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَفِرُّوْٓا اِلَى اللہِ۝ ٠ ۭ اِنِّىْ لَكُمْ مِّنْہُ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ۝ ٥٠ ۚ فر أصل الفَرِّ : الکشف عن سنّ الدّابّة . يقال : فَرَرْتُ فِرَاراً ، ومنه : فَرَّ الدّهرُ جذعا «1» ، ومنه : الِافْتِرَارُ ، وهو ظهور السّنّ من الضّحك، وفَرَّ عن الحرب فِرَاراً. قال تعالی: فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ [ الشعراء/ 21] ، وقال : فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ [ المدثر/ 51] ، فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعائِي إِلَّا فِراراً [ نوح/ 6] ، لَنْ يَنْفَعَكُمُ الْفِرارُ إِنْ فَرَرْتُمْ [ الأحزاب/ 16] ، فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ [ الذاریات/ 50] ، وأَفْرَرْتُهُ : جعلته فَارّاً ، ورجل ( ف ر ر ) الفروالفرار ۔ اس کے اصل معنی ہیں جانور کی عمر معلوم کرنے کے لئے اس کے دانتوں کو کھولنا اسی سے فرالدھر جذعا کا محاورہ ہے یعنی زمانہ اپنی پہلی حالت پر لوٹ آیا ۔ اور اسی سے افترار ہے جس کے معنی ہنسنے میں دانتوں کا کھل جانا کے ہیں ۔ فر من الحرب فرار میدان کا راز چھوڑ دینا ۔ لڑائی سے فرار ہوجانا قرآن میں ہے ۔ فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ [ الشعراء/ 21] تو میں تم سے بھاگ گیا ۔ فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ [ المدثر/ 51] یعنی شیر سے ڈر کر بھاگ جاتے ہیں ۔ فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعائِي إِلَّا فِراراً [ نوح/ 6] لیکن میرے بلانے سے اور زیادہ گریز کرتے رہے ۔ لَنْ يَنْفَعَكُمُ الْفِرارُ إِنْ فَرَرْتُمْ [ الأحزاب/ 16] کہ اگر تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھاگتے ہو تو بھاگنا تم کو فائدہ نہ دے گا ۔ فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ [ الذاریات/ 50] تو تم خدا کی طرف بھاگ چلو ۔ افررتہ کسی کو بھگا دینا ۔ رجل فر وفار ۔ بھاگنے والا ۔ المفر ( مصدر ) کے معنی بھاگنا ( ظرف مکان ) جائے ۔ فرار ( ظرف زمان ) بھاگنے کا وقت چناچہ آیت ؛ أَيْنَ الْمَفَرُّ [ القیامة/ 10] کہ ( اب ) کہاں بھاگ جاؤں کے معنی تینوں طرح ہوسکتے ہیں ۔ النذیر والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذیر النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ مبینبَيَان والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] . وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٠۔ ٥١) سو اللہ کے حکم سے اللہ ہی کی طرف دوڑو یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے اس کی اطاعت و فرمانبرداری کی طرف دوڑو یا یہ کہ شیطان کی اطاعت سے اللہ کی اطاعت کی طرف دوڑو میں اللہ کی طرف سے تمہارے لیے ڈرانے والا رسول ہو کر آیا ہوں، یا یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو مت شریک ٹھہراؤ اور نہ اس کے لیے اولاد تجویز کرو میں تمہارے لیے اللہ کی طرف سے صاف طور پر ڈرانے والا ہو کر آیا ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠{ فَفِرُّوْٓا اِلَی اللّٰہِ ط اِنِّیْ لَـکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ ۔ } ” تو دوڑو اللہ کی طرف ‘ یقینا میں تم لوگوں کے لیے اس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں۔ “ اگر اللہ تعالیٰ کا پیغام تم تک پہنچ گیا ہے اور میری باتیں تمہاری سمجھ میں آگئی ہیں تو پھر اللہ کی طرف رجوع کرنے میں دیر نہ کرو۔ ممکن ہے فرشتے کو تمہاری جان قبض کرنے کا حکم بھی مل چکا ہو اور تمہاری مہلت عمل ختم ہونے کا وقت بالکل قریب آ لگا ہو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

18: یعنی اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے دین پر ایمان لانے اور اس کے تقاضوں پر عمل کرنے میں جلدی کرو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(51:50) ففروا الی اللہ۔ اس سے قبل عبارت مقدرہ ہے۔ ای قل یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں سے کہو ففروا ۔۔ الخ۔ ففروا میں ف سببیت کی ہے یعنی ممکنات کے احوال اور واجب کی خصوصیت کو سمجھنے اور جاننے کا تقاضا ہے کہ تم ہر چیز سے منہ موڑ لو اور بھاگو اور اللہ ہی کی طرف اپنا رخ کرلو۔ فروا فعل امر۔ جمع مذکر حاضر۔ فرار (باب ضرب) مصدر ہم بھاگو علامہ پانی پتی (رح) لکھتے ہیں :۔ ففروا من کل شی الی اللہ بالتوحیہ والمحیۃ والاستغراق وامتثال الاوامر ہر چیز سے منہ موڑ لو اور اللہ کی طرف اپنا رخ کرلو۔ اسی کی محبت میں ذوب جاؤ اور اسی کے احکام کی تعمیل میں غرق ہوجاؤ۔ مدارک التنزیل میں ہے :۔ ففروا من الشرک الی الایمان باللہ اومن طاعۃ الشیطن الی طاعۃ الرحمن اومما سواء الیہ۔ پس بھاگو شرک سے ایمان باللہ کی طرف اور شیطان کی پیروی سے رحمن کی اطاعت کی طرف اور اس کے سوا سب کو چھوڑ کر اللہ کی طرف۔ منہ : میں ضمیر ہ واحد مذکر غائب کا مرجع اللہ ہے۔ بعض نے منہ کی ضمیر کا مرجع عذاب اور غضب بتایا ہے لیکن پہلا زیادہ صحیح ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 مطلب یہ ہے کہ کفر و شرک اور نافرمانی کے کاموں سے توبہ کرو اور اس کے فرمانبردار بندے بن جائو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ آگے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ آپ واقع میں بلا شبہ نذیر مبین ہیں، جیسا ابھی مذکور ہوا، لیکن یہ آپ کے مخالفین ایسے جاہل ہیں کہ نعوذ باللہ آپ کو کبھی ساحر کبھی مجنون بتاتے ہیں سو آپ صبر کیجئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس رب نے زمین و آسمان بنائے اور ہر چیز کو جوڑا، جوڑا پیدا کیا ہے اس کا کوئی جوڑا نہیں یعنی اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس لیے انسان کا فرض ہے کہ وہ ادھر ادھر ٹکریں مارنے کی بجائے ہر حال میں اس کی طرف رجوع کرے۔ اللہ تعالیٰ نے جبر کی بجائے دلائل کے ذریعے واضح فرمایا ہے کہ اے انسان ! تجھے اور ہر چیز کو صرف میں نے پیدا کیا ہے۔ تیری تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ تو اس کی بندگی اختیار کرے۔ اس نے اس سبق کی یاددہانی کے لیے انبیائے کرام (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ جن میں آخری پیغمبر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ آپ کی دعوت تھی اور ہے کہ لوگو ! معبودان باطل کو چھوڑ کر صرف ایک ” اللہ “ کی طرف آجاؤ اور اس کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بناؤ۔ بیشک میں تمہارے لیے کھلے الفاظ میں انتباہ کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ لیکن اہل مکہ نے آپ کی دعوت قبول کرنے کی بجائے آپ کو ساحر اور مجنون کہا۔ اس پر آپ کو تسلّی دی جارہی ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کو حد سے زیادہ غم زدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ آپ سے پہلے بھی انبیائے کرام (علیہ السلام) کو ساحر اور مجنون کہا گیا ہے۔ یہ لوگ اس طرح ہی الزام لگائے جارہے ہیں جیسے انہیں ان کے پہلوں نے وصیّت کی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ باغی ہیں۔ نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ” اللہ “ کی طرف سے ہی مبعوث کیے گئے تھے۔ اس لیے آپ نے لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں جس اللہ کی طرف تمہیں بلارہا ہوں اسی کی طرف سے مبعوث کیا گیا ہوں۔ اس کا فرمان ہے کہ لوگو ! ایرے غیرے کو چھوڑ کر صرف اور صرف اپنے اللہ کی طرف رجوع کرو۔ اس کی طرف رجوع کرنے کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ اس کی ذات اور صفات میں کسی اور کو شریک نہ بناؤ۔ میں اسی کی طرف سے تمہیں یہ دعوت دیتا ہوں۔ جو لوگ اس دعوت کو قبول نہیں کریں گے انہیں کھلے الفاظ میں ڈرانے والا ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخاطبین نے آپ کی دعوت قبول کرنے کی بجائے آپ کو جادوگر اور مجنون قرار دیا۔ یہ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے کہ وہ آپ کو جادوگر اس لیے کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی زبان اور دعوت میں غضب کی تاثیر رکھی تھی۔ جو شخص آپ سے ہم کلام ہوتا اور آپ کی دعوت کو توجہ سے سنتا وہ متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اہل مکہ کو یہ بات کسی صورت گورانہ نہ تھی جس وجہ سے وہ آپ کے بارے میں منفی پروپیگنڈا کرتے اور آپ کو جادوگر کہتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجنون کہنے کی چند وجوہات۔ ١۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معاشرے میں بڑی عزت کی جاتی تھی۔ لیکن اس نے اپنی دعوت کی خاطر اپنی عزت کو پامال کرلیا ہے۔ ٢۔ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر قسم کی پیشکش کی لیکن آپ نے انہیں ٹھکرادیا۔ اس بنا پر وہ آپ کو مجنون کہتے تھے۔ ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باربار توحید کی دعوت دیتے تھے اس بنا پر کفار سمجھتے تھے کہ یہ مجنون آدمی کی طرح ایک ہی بات باربار دوہرائے جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کے ردعمل میں پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) کی طرف اشارہ فرما کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ یہ لوگ اپنے سے پہلے لوگوں کی باتوں کو اس طرح دوہرائے جا رہے ہیں۔ جیسے یہ ایک دوسرے کو اس کی وصیت کرتے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے رب کے باغی اور نافرمان ہیں۔ بیشک پہلوں اور ان کے درمیان صدیوں کا فاصلہ ہے لیکن افکار اور کردار کے لحا ظ سے ایک ہیں۔ جس طرح ان سے پہلے مجرموں کا انجام ہوا اسی طرح ان کا انجام ہوگا۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَقُوْلُ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی لأَہْوَنِ أَہْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ کَانَتْ لَکَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا أَکُنْتَ مُفْتَدِیًا بِہَا فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیَقُوْلُ قَدْ أَرَدْتُ مِنْکَ أَہْوَنَ مِنْ ہَذَا وَأَنْتَ فِیْ صُلْبِ اٰدَمَ أَنْ لاَ تُشْرِکَ أَحْسَبُہُ قَالَ وَلاَ أُدْخِلَکَ النَّارَ فَأَبَیْتَ إِلاَّ الشِّرْکَ ) (رواہ مسلم : باب طَلَبِ الْکَافِرِ الْفِدَاءَ بِمِلْءِ الأَرْضِ ذَہَبًا) ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ جہنمیوں میں سے کم ترین عذاب پانے والے سے فرمائے گا کہ اگر دنیا اور جو کچھ اس میں ہے تیرے پاس ہو۔ کیا تو اسے فدیہ کے طور پر دینے کے لیے تیار ہے ؟ وہ کہے گا جی ہاں ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تجھ سے اس سے بہت چھوٹی بات کا مطالبہ کیا تھا جب تو آدم کی پشت میں تھا وہ یہ کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا۔ راوی بیان کرتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تجھے جہنم میں داخل نہ کرتا مگر تو شرک سے باز نہ آیا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور الٰہ نہیں اس لیے ہر حال میں اسی کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے برے لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانے کے لیے نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا۔ ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفین نے آپ پر وہی الزام لگائے جو پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) پر لگائے گئے تھے۔ ٤۔ ہر دور کے مشرک کا ایک ہی عقیدہ اور کردار رہا ہے۔ ٥۔ مشرک اور کافر حقیقت میں اپنے رب کے باغی اور نافرمان ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) پر لگائے گئے الزامات کا خلاصہ : ١۔ حضرت نوح کو ان کی قوم نے کہا کہ ہم تمہیں جھوٹا تصور کرتے ہیں۔ (ہود : ٢٧) ٢۔ کفار نے تمام انبیاء کو جادوگر اور دیوانہ قرار دیا۔ (الذاریات : ٥٢) ٣۔ قوم فرعون نے موسیٰ کو جادوگر ہونے کا الزام لگایا۔ (القصص : ٣٦) ٤۔ یہودیوں کا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ پر الزام۔ (النساء : ١٥٦) ٥۔ فرعون کے سرداروں نے کہا یہ تو جادو ہے۔ (الاعراف : ١٠٩) ٦۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اہل مکہ نے جادوگر کہا۔ (الصف : ٦) ٧۔ کفار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعر قرار دیتے تھے۔ (الطور : ٣٠) ٨۔ اگر ہم ان کے لیے آسمان سے کوئی دروازہ کھول دیں اور یہ اس میں سے چڑھ جائیں تو کہیں گے ہماری آنکھیں بند کردی گئی ہیں۔ بلکہ ہم پر جادو کردیا گیا ہے۔ (الحجر : ١٤۔ ١٥) ٩۔ کفار کے سامنے جب حق آیا تو انھوں نے کہا یہ تو جادو ہے۔ (سباء : ٤٣) ١٠۔ کفار نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سحر زدہ قرار دیا۔ (الفرقان : ٨) ١١۔ جب کفار کے پاس حق بات آئی تو انھوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو گر ہونے کا الزام لگایا۔ (یونس : ٧٦) ١٢۔ کفار نے کہا یہ نبی تو جادوگر ہے۔ (یونس : ٢) ١٣۔ کفار نے کہا یہ نبی جھوٹا اور جادوگر ہے۔ (ص : ٤) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنانا چاہیے : ١۔ ” اللہ “ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ (الرعد : ٣٦) ٢۔ ” اللہ “ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ (النساء : ٣٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رابعاً : فرمایا ﴿فَفِرُّوْۤا اِلَى اللّٰهِ ١ؕ﴾ (سو تم اللہ کی طرف دوڑو) اس کی عبادت کرو اور نافرمانی سے بھی باز رہو۔ خامساً : فرمایا ﴿اِنِّيْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌۚ٠٠٥٠﴾ (کہ اے رسول آپ ان سے فرما دیں کہ میں اللہ کی طرف سے تمہیں کھلا ڈرانے والا ہوں) اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کام پر مامور ہوں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

17:۔ ” ففروا الی اللہ “ یہ بیان توحید ہے علی سبیل الترقی۔ دلائل بالا میں غور و فکر کرو اور اللہ کی طرف دوڑو یعنی شرک کو چھوڑ کر اللہ کی توحید کو مانو، کفر و انکار سے باز آؤ۔ شیطان کی اطاعت ترک کرو اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے احکام کی تعمیل کرو۔ ای من الشرک الی الایمان باللہ او من طاعۃ الشیطان الی طاعۃ الرحمن (مدارک ج 4 ص 143) ۔ میں اللہ کی طرف سے کھول کر بیان کرنے والا اور اس کے عذاب سے ڈرانے والا ہوں۔ ” ولا تجعلوا مع اللہ۔ الایۃ “ اللہ کے ساتھ ساتھ خود ساختہ معبودوں کو شریک نہ بناؤ اور حاجات میں اللہ کے سوا کسی کو مت پکارو میں اللہ کی طرف کھلا ڈرانے والا ہوں اور ہر بات کو واضح اور روشن کر کے بیان کرتا ہوں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(50) پس بھاگو اللہ تعالیٰ کی طرف بیشک میں اس کی جانب تم سب کے لئے صاف اور آشکارا طور پر ڈرانے والا ہوں۔ یعنی شرک سے توحید کی طرف بھاگو۔ یا عذاب سے ثواب کی طرف بھاگو یا ماسوی اللہ سے اللہ کی طرف بھاگو، باطل سے حق کی طرف اور اللہ کے غضب سے اللہ کی رحمت کی طرف بھاگو عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے اللہ تعالیٰ کی طرف بھاگو۔ اللھم انی اعوذبک منک۔