Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 53

سورة الذاريات

اَتَوَاصَوۡا بِہٖ ۚ بَلۡ ہُمۡ قَوۡمٌ طَاغُوۡنَ ﴿ۚ۵۳﴾

Did they suggest it to them? Rather, they [themselves] are a transgressing people.

کیا یہ اس بات کی ایک دوسرے کو وصیت کرتے گئے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَتَوَاصَوْا بِهِ ... Have they transmitted this saying to these, meaning, have those of the past taught these words to the people of the present? ... بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ Nay, they are themselves a people transgressing beyond bounds! They are tyrannical people whose hearts are the same. Therefore, the latter said the same as those before them have said. Allah the Exalted said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

53۔ 1 یعنی ہر بعد میں آنے والی قوم نے اس طرح رسولوں کو جھٹلایا اور انہیں جادوگر اور دیوانہ قرار دیا، جیسے پچھلی قومیں بعد میں آنے والی قوم کیلئے وصیت کر کے جاتی رہی ہیں۔ یکے بعد دیگرے ہر قوم نے یہی تکذیب کا راستہ اختیار کیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٦] سب کافروں میں قدر مشترک :۔ ان کے اس کردار کے تسلسل سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر قوم اپنے بعد میں آنے والی قوم کو یہ وصیت کرکے مرتی رہی کہ اگر تمہارے پاس کوئی رسول آئے تو تم بھی اسے ساحر اور مجنون ہی کہنا۔ بات یوں نہیں کہ ان قوموں کے درمیان کافی بعد زمانی یا مکانی پایا جاتا ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ایسے سب کافروں میں چند باتیں قدر مشترک کے طور پر پائی جاتی ہیں اور وہ ہیں آبائی دین سے محبت & عصبیت & ہٹ دھرمی، اکڑ اور شریعت کی پابندیوں سے آزادی کی خواہش۔ جو انہیں اس بات پر مجبور کردیتی ہیں کہ پیغمبروں کو ان القاب یا ان جیسے ملتے جلتے القابات سے پکار کر ان کا مذاق اڑائیں۔ اس سے ایک اور اہم بات کا پتہ چلتا ہے کہ نیکی اور بدی، عدل اور ظلم سے متعلق جو محرکات نفس انسان میں بالطبع پائے جاتے ہیں وہ ہر دور میں ایک جیسے رہے ہیں، تبدیلی صرف واقعات میں ہوئی ہے۔ مثلاً جو رقابت سیدنا یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کو سیدنا یوسف سے تھی وہ آج بھی بھائیوں میں ویسے ہی پائی جاتی ہے اگرچہ حالات اور واقعات مختلف ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہر دور کے کافروں کا اپنے انبیاء سے مذاق و تمسخر اور القابات ایک ہی جیسے رہے ہیں۔ اگرچہ ان کے حالات و واقعات مختلف قسم کے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) اتواصوابہ :” تواصی یتواصی تواصیاً “ باپ تفاعل میں تشارک پایا جاتا ہے، ایک دور سے کو وصیت کرنا۔ یعنی جب سب نے ایک ہی بات کہی تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ سب ایک دوسرے کو اس بات کی وصیت کر گئے ہیں ؟ (٢) بل ھم قوم طاغون : ینی یہ تو ممکن نہیں کہ انہوں نے ایک دور سے کو اس بات کی وصیت کی ہو، کیونکہ ان کے درمیان مدتوں کا فاصلہ ہے، علاقے بھی ایک نہیں، تو اصل بات یہ ہے کہ یہ سرکش لوگ ہیں، پہلے لوگ بھی سرکش تھے اور اپنی خواہش نفس پر کوئی پابندی قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ دونوں کی سرکشی ان کے لئے رسول کی اطاعت اور حق بات تسلیم کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنی، اسی لئے پچھلوں نے بھی وہی بات کہی جو ان کے پہلوں نے کہی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَتَوَاصَوْا بِہٖ۝ ٠ ۚ بَلْ ہُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ۝ ٥٣ ۚ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) وصی الوَصِيَّةُ : التّقدّمُ إلى الغیر بما يعمل به مقترنا بوعظ من قولهم : أرض وَاصِيَةٌ: متّصلة النّبات، ويقال : أَوْصَاهُ ووَصَّاهُ. قال تعالی: وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة/ 132] وقرئ : وأَوْصَى «2» قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ [ النساء/ 131] ، وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ [ العنکبوت/ 8] ، يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ [ النساء/ 11] ، مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِها[ النساء/ 12] حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنانِ ( و ص ی ) الوصیۃ : واقعہ پیش آنے سے قبل کسی کو ناصحانہ انداز میں ہدایت کرنے کے ہیں اور یہ ارض واصیۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی پیوستہ گیا ہ یعنی باہم گھتی ہوئی گھاس والی زمین کے ہیں اور اوصاہ ووصا کے معنی کسی کو وصیت کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة/ 132] اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اس بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی ۔ ایک قرات میں اوصی ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ [ العنکبوت/ 8] اور ہم نے انسان کو حکم دیا ۔ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِها[ النساء/ 12] وصیت کی تعمیل کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض کے ۔ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنانِ [ المائدة/ 106] کہ وصیت کے وقت تم دو مر د ۔ وصی ( ایضاء) کسی کی فضیلت بیان کرنا ۔ تواصی القوم : ایک دوسرے کو وصیت کرنا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَتَواصَوْا بِالْحَقِّ وَتَواصَوْا بِالصَّبْرِ [ العصر/ 3] اور آپس میں حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے ۔ أَتَواصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طاغُونَ [ الذاریات/ 53] کیا یہ لوگ ایک دوسرے کو اس بات کی وصیت کرتے آئے ہیں بلکہ یہ شریر لوگ ہیں ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] طغی طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٣{ اَتَوَاصَوْا بِہٖ ج } ” کیا وہ ایک دوسرے کو وصیت کر گئے تھے اس کی ؟ “ یعنی جو باتیں آج سے صدیوں پہلے کے لوگ اپنے پیغمبروں سے کہتے تھے ‘ عین وہی باتیں قریش مکہ آج ہمارے آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہہ رہے ہیں۔ کیا ان کی ہر نسل دوسری نسل کو یہ باتیں وصیت میں بتا کر جاتی رہی ہے ؟ { بَلْ ہُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ ۔ } ” بلکہ یہ ہیں ہی سرکش لوگ ! “ ان کے رویے کی یکسانی اور ایک ہی طرز جواب کی مسلسل تکرار کی وجہ یہ ہے کہ طغیان و سرکشی ان سب کا مشترک وصف ہے۔ چناچہ اپنے اپنے پیغمبروں کے خلاف ان کے اعتراضات بھی ایک جیسے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

50 That is, °The fact that the people of different countries and nations adopted the same attitude as against the invitation of the Prophets and opposed them in the same manner in different ages for thousands of years could not be due to the reason that all the former and the latter generations had settled in a conference that whenever a prophet came with his message, he should be given such and such an answer. Then, what could be the reason for the uniformity of their attitude and behavior? There could be no other reason for this than that rebellion and transgression was their common characteristic. As all the ignorant people of every age have been desirous of living a life free of Allah's service and fearless of His accountability, whoever called them to the service of Allah and to lead a God-conscious life, they gave him one and the same fixed answer. " This also throws light on an important truth and it is this: The motives that man has been naturally endowed with for adopting error and guidance, goodness and evil, justice and injustice, and similar other conducts, have been appearing in every age and in every corner of the world in the like manner no matter how different might have been their forms due to advancement of means and resources. Whether the man of today fights by means of the tanks and aircraft and hydrogen bombs and the man of the ancient time fought with stones and sticks, the basic motives for fighting between men have always been the same. Likewise, the atheist of today might heap up his arguments for atheism as he likes, his motives for following that creed are precisely the same as had been of an atheist six thousand years ago and in his reasoning also he is not basically any different from his predecessor

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :50 یعنی یہ بات تو ظاہر ہے کہ ہزارہا برس تک ہر زمانے میں مختلف ملکوں اور قوموں کے لوگوں کا دعوت انبیاء کے مقابلے میں ایک ہی رویہ اختیار کرنا ، اور ایک ہی طرح کی باتیں ان کے خلاف بنانا کچھ اس بنا پر تو نہ ہو سکتا تھا کہ ایک کانفرنس کر کے ان سب اگلی اور پچھلی نسلوں نے آپس میں یہ طے کر لیا ہو کہ جب کوئی نبی آ کر یہ دعوت پیش کرے تو اس کا یہ جواب دیا جائے ۔ پھر ان کے رویے کی یہ یکسانی اور ایک ہی طرز جواب کی یہ مسلسل تکرار کیوں ہے؟ اس کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں ہے کہ طغیان و سرکشی ان سب کا مشترک وصف ہے ۔ چونکہ ہر زمانے کے جاہل لوگ خدا کی بندگی سے آزاد اور اس کے محاسبہ سے بے خوف ہو کر دنیا میں شتر بے مہار کی طرح جینے کے خواہاں رہے ہیں ، اس لیے اور صرف اسی لیے جس نے بھی ان کو خدا کی بندگی اور خدا ترسانہ زندگی کی طرف بلایا اس کو وہ ایک ہی لگا بندھا جواب دیتے رہے ۔ اس ارشاد سے ایک اور اہم حقیقت پر بھی روشنی پڑتی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ ضلالت اور ہدایت ، نیکی اور بدی ظلم اور عدل اور ایسے ہی دوسرے اعمال کے جو محرکات نفس انسانی میں بالطبع موجود ہیں ان کا ظہور ہمیشہ ہر زمانے میں اور زمین کے ہر گوشے میں ایک ہی طرح ہوتا ہے ، خواہ ذرائع و وسائل کی ترقی سے اس کی شکلیں بظاہر کتنی ہی مختلف نظر آتی ہوں ۔ آج کا انسان خواہ ٹینکوں اور ہوائی جہازوں اور ہائیڈروجن بموں کے ذریعہ سے لڑے اور قدیم زمانے کا انسان چاہے پتھروں اور لاٹھیوں سے لڑتا ہو ، مگر انسانوں کے درمیان جنگ کے بنیادی محرکات میں سرمو فرق نہیں آیا ہے ۔ اسی طرح آج کا ملحد اپنے الحاد کے لیے دلائل کے خواہ کتنے ہی انبار لگاتا رہے ، اس کے اس راہ پر جانے کے محرکات بعینہ وہی ہیں جو آج سے 6 ہزار برس پہلے کے کسی ملحد کو اس طرف لے گئے تھے ، اور بنیادی طور پر وہ اپنے استدلال میں بھی اپنے سابق پیشواؤں سے کچھ مختلف نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(51:53) اتواصوابہ۔ ہمزہ استفہامیہ انکار اور تنبیہ کے لئے آتا ہے۔ تواصوا مضارع جمع مذکر غائب۔ تواصی (تفاعل) مصدر بمعنی ایک دوسرے کو نصیحت کرنا۔ وصیت کرنا۔ کہہ مرنا۔ بہ میں ضمیر ہ کا مرجع ان کا وہ قول کہ رسول یا تو ساحر ہے یا مجنون ۔ ترجمہ ہوگا :۔ کیا ان کے اگلے اور پچھلوں کو یہی وصیت کرتے چلے آئے تھے ؟ بل ہم قوم طاغون : بل حرف اضراب ہے۔ ما قبل کے ابطال اور مابعد کی تصدیق کے لئے آیا ہے۔ نہیں یہ بات نہیں بلکہ یہ لوگ فطرتاً سرکش و نافرمان تھے۔ طاغون : اسم فاعل جمع مذکر طغیان (باب فرح) مصدر بمعنی سرکش ، نافرمان، معصیت میں حد سے بڑھ جانا، سمندر کا جوش مارنا ۔ طاغی کی جمع بحالت رفع ہے۔ مطلب :۔ نہیں یہ نہیں کہ ان کے اگلے پچھلوں کو وصیت کرتے چلے آئے تھے بلکہ دراصل یہ لوگ فطرتا ہی سرکش و نافرمان و باغی تھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 جو ہر زمانہ میں پیغمبروں کی ایک ہی طرح سے مخالفت کرتے رہے ہیں۔ 7 یعنی ان کی ایک جیسی مخالفت کی وجہ ایک دوسرے کو وصیت نہیں ہے بلکہ سرکشی ہے جو ان سب کی طبیعت میں یکساں پائی گی ہے اور پائی جاتی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی یہ اجماع تو ایسا ہوگیا جیسے ایک دوسرے کو کہتے چلے آتے ہوں کہ دیکھو جو رسول آئے تم بھی ہماری طرح کہنا۔ 7۔ یعنی سبب اس قول کا طغیان ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

تاسعًا : فرمایا ﴿اَتَوَاصَوْا بِهٖ ١ۚ﴾ (کیا آپس میں ایک قوم نے دوسری قوم کو وصیت کی تھی کہ ہماری طرح تم بھی ایسی ایسی باتیں کرنا) یہ استفہام انکاری ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کو وصیت تو نہیں کی لیکن چونکہ سرکشی میں سب ہی مشترک ہیں اس لیے دور حاضر کے مکذبین اور ان سے پہلے معاندین سب ہی کو ان کی طغیانی اور سرکشی نے رسولوں کی تکذیب پر ابھارا اور آمادہ کیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(53) کیا ایک دوسرے کو اسی بات کی وصیت کرتے چلے آئے ہیں نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ سب کے سب ہی سرکش لوگ ہیں۔ یعنی کچھ اس طرح تمام منکر اور کافر رسولوں کے ساتھ ایک سا سلوک کرتے رہے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرتے وقت ایک دوسرے کو کہہ کر مرتا ہے کہ اگر تمہارے زمانے میں کوئی رسول آئے تو اس کو جادوگر اور مجنون کہنا۔ پھر فرمایا بل ھم قوم طاغون نہیں بلکہ یہ سب کے سب ہی سرکش ہیں اور تمام کافروں کی ذہنیت ایک سی ہے۔