51 In this verse a method of the preaching of religion has been taught, which should be well understood. When a preacher of the truth has presented his message clearly before a person with rational arguments, and has also removed his doubts and objections and answered his arguments, he becomes relieved of his duty of making the truth plain. Even after this if the other person persists in his belief and creed, the responsibility for it does not lie on the preacher of the truth. It is no more necessary that he should pursue the same person, should go on spending his time in discussing things with him, and should make it a point that he has somehow to convince the same one man of the truth. The preacher, in fact, has done his duty; if the other man is not convinced, let hire alone. If the preacher does not any more attend to him, he cannot be blamed for letting a person remain involved in error, because now the other person himself is responsible for his deviation and error.
سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :51
اس آیت میں دین کی تبلیغ کا ایک قاعدہ بیان فرمایا گیا ہے جس کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ ایک داعی حق جب کسی شخص کے سامنے معقول دلائل کے ساتھ اپنی دعوت صاف صاف پیش کر دے اور اس کے شبہات و اعتراضات اور دلائل کا جواب بھی دے دے تو حق واضح کرنے کا جو فرض اس کے ذمے تھا اس سے وہ سبکدوش ہو جاتا ہے ۔ اس کے بعد بھی اگر وہ شخص اپنے عقیدہ و خیال پر جما رہے تو اس کی کوئی ذمہ داری داعی حق پر عائد نہیں ہوتی ۔ اب کچھ ضرور نہیں کہ وہ اسی شخص کے پیچھے پڑا رہے ، اسی سے بحث میں اپنی عمر کھپائے چلا جائے ، اور اس کا کام بس یہ رہ جائے کہ اس ایک آدمی کو کسی نہ کسی طرح اپنا ہم خیال بنانا ہے ۔ داعی اپنا فرض ادا کر چکا ۔ وہ نہیں مانتا تو نہ مانے ۔ اس کی طرف التفات نہ کرنے پر داعی کو یہ الزام نہیں دیا جا سکتا کہ تم نے ایک آدمی کو گمراہی میں مبتلا رہنے دیا ، کیونکہ اب اپنی گمراہی کا وہ شخص خود ذمہ دار ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے یہ قاعدہ اس لیے بیان نہیں کیا گیا ہے کہ معاذ اللہ آپ اپنی تبلیغ میں بیجا طریقے سے لوگوں کے پیچھے پڑ جاتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے روکنا چاہتا تھا ۔ دراصل اس کے بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ایک داعی حق جب کچھ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ معقول طریقے سے سمجھانے کا حق ادا کر چکتا ہے اور ان کے اندر ضد اور جھگڑالو پن کے آثار دیکھ کر ان سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے تو وہ اس کے پیچھے پڑ جاتے اور اس پر الزام رکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ واہ صاحب ، آپ اچھے دعوت حق کے علمبردار ہیں ، ہم آپ سے بات سمجھنے کے لیے بحث کرنا چاہتے ہیں ، اور آپ ہماری طرف التفات نہیں کرتے ۔ حالانکہ ان کا مقصد بات کو سمجھنا نہیں ہے بلکہ اپنی بحثا بحثی میں داعی کو الجھانا اور محض اس کی تضیع اوقات کرنا ہوتا ہے ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے خود اپنے کلام پاک میں بالفاظ صریح یہ فرما دیا کہ ایسے لوگوں کی طرف التفات نہ کرو ، ان سے بے التفاتی کرنے پر تمہیں کوئی ملامت نہیں کی جا سکتی ۔ اس کے بعد کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ الزام نہیں دے سکتا تھا کہ جو کتاب آپ لے کر آئے ہیں اس کی رو سے تو آپ ہم کو اپنا دین سمجھانے پر مامور ہیں ، پھر آپ ہماری باتوں کا جواب کیوں نہیں دیتے ۔