Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 54

سورة الذاريات

فَتَوَلَّ عَنۡہُمۡ فَمَاۤ اَنۡتَ بِمَلُوۡمٍ ﴿٭۫۵۴﴾

So leave them, [O Muhammad], for you are not to be blamed.

۔ ( نہیں ) بلکہ یہ سب کے سب سرکش ہیں تو آپ ان سے منہ پھیر لیں آپ پر کوئی ملامت نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَتَوَلَّ عَنْهُمْ ... So turn away from them, meaning, `O Muhammad, turn away from the Quraysh idolators,' ... فَمَا أَنتَ بِمَلُومٍ you are not blameworthy. meaning, `We blame you not if you turn away from them,' وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنفَعُ الْمُوْمِنِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

54۔ 1 یعنی ایک دوسرے کو وصیت تو نہیں کی بلکہ ہر قوم ہی اپنی اپنی جگہ سرکش ہے، اس لئے ان سب کے دل بھی متشابہ ہیں اور ان کے طور اطوار بھی ملتے جھلتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(فتول عنھم فما انت بملوم : یعنی جب وہ سرکشی پر اڑے ہوئے ہیں اور حق واضح ہونے کے باوجود اسے قبول کرنے پر تیار نہیں تو آپ کی ذمہ داری یہ نہیں کہ انہی کے پیچھے پڑے رہیں، بلکہ آپ ان سے کنارہ کشی اختیار کریں۔ آپ کا کام حق کا پیغام پہنچا دینا ہے، وہ آپ نے پہنچا دیا، اب اگر وہ اسے قبول نہیں کرتے تو آپ پر کوئی ملامت نہیں ۔ دیکھیے سورة شوریٰ (٤٨) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَتَوَلَّ عَنْہُمْ فَمَآ اَنْتَ بِمَلُوْمٍ۝ ٥٤ ۤ ۡ ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ لوم اللَّوْمُ : عذل الإنسان بنسبته إلى ما فيه لوم . يقال : لُمْتُهُ فهو مَلُومٌ. قال تعالی: فَلا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ [إبراهيم/ 22] ، فَذلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ [يوسف/ 32] ، وَلا يَخافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ [ المائدة/ 54] ، فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ [ المؤمنون/ 6] ، فإنه ذکر اللّوم تنبيها علی أنه إذا لم يُلَامُوا لم يفعل بهم ما فوق اللّوم . ( ل و م ) لمتہ ( ن ) لوما کے معنی کسی کو برے فعل کے ارتکاب پر برا بھلا کہنے اور ملامت کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَلا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ [إبراهيم/ 22] تو آج مجھے ملامت نہ کرو ا پنے آپ ہی کو ملامت کرو ۔ فَذلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ [يوسف/ 32] یہ وہی ہے جس گے بارے میں تم ۔ مجھے طعنے دیتی تھیں ۔ وَلا يَخافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ [ المائدة/ 54] اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں ۔ اور ملوم ( ملامت کیا ہوا ) صفت مفعولی ۔ ہے اور آیت کریمہ : فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ [ المؤمنون/ 6] ان سے مباشرت کرنے میں انہیں ملامت نہیں ہے ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ جب ان پر ملامت ہی نہیں ہے ۔ تو اس سے زیادہ سرزنش کے وہ بالاولےٰ مستحق نہیں ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٤۔ ٥٥) اے محمد آپ ان کی طرف التفات نہ کیجیے کیونکہ ہمارے یہاں آپ پر کسی طرح کا الزام نہیں اس لیے کہ آپ نے کامل طور پر احکام الہی کو پہنچا دیا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قتال کا حکم دیا۔ آپ ان کو بذریعہ قرآن کریم سمجھاتے رہیے اس لیے کہ اس طرح سمجھانا ایمان والوں کے لیے ایمان میں بھی مزید ترقی کا باعث ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٤{ فَتَوَلَّ عَنْہُمْ فَمَآ اَنْتَ بِمَلُوْمٍ ۔ } ” پس (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ ان سے رُخ پھیر لیں ‘ آپ پر کوئی ملامت نہیں ہے۔ “ یعنی اگر وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں یہاں تک آگئے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعر ‘ ساحر ‘ مجنون اور معُلَّم (سکھایا ہوا) تک کہہ رہے ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت سے مسلسل اعراض کر رہے ہیں تو اب آپ بھی اپنی توجہ ان کی طرف سے ہٹالیجیے۔ آپ محکم دلائل کے ساتھ ان پر اتمامِ حجت کرچکے ہیں۔ اگر یہ لوگ راہ راست پر نہ آئے تو اس کی جواب دہی آپ سے نہیں ہوگی۔ لہٰذا آپ انہیں چھوڑ کر ان لوگوں کی طرف اپنی توجہ مرکوز کریں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات کو سننا اور سمجھنا چاہتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

51 In this verse a method of the preaching of religion has been taught, which should be well understood. When a preacher of the truth has presented his message clearly before a person with rational arguments, and has also removed his doubts and objections and answered his arguments, he becomes relieved of his duty of making the truth plain. Even after this if the other person persists in his belief and creed, the responsibility for it does not lie on the preacher of the truth. It is no more necessary that he should pursue the same person, should go on spending his time in discussing things with him, and should make it a point that he has somehow to convince the same one man of the truth. The preacher, in fact, has done his duty; if the other man is not convinced, let hire alone. If the preacher does not any more attend to him, he cannot be blamed for letting a person remain involved in error, because now the other person himself is responsible for his deviation and error.

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :51 اس آیت میں دین کی تبلیغ کا ایک قاعدہ بیان فرمایا گیا ہے جس کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ ایک داعی حق جب کسی شخص کے سامنے معقول دلائل کے ساتھ اپنی دعوت صاف صاف پیش کر دے اور اس کے شبہات و اعتراضات اور دلائل کا جواب بھی دے دے تو حق واضح کرنے کا جو فرض اس کے ذمے تھا اس سے وہ سبکدوش ہو جاتا ہے ۔ اس کے بعد بھی اگر وہ شخص اپنے عقیدہ و خیال پر جما رہے تو اس کی کوئی ذمہ داری داعی حق پر عائد نہیں ہوتی ۔ اب کچھ ضرور نہیں کہ وہ اسی شخص کے پیچھے پڑا رہے ، اسی سے بحث میں اپنی عمر کھپائے چلا جائے ، اور اس کا کام بس یہ رہ جائے کہ اس ایک آدمی کو کسی نہ کسی طرح اپنا ہم خیال بنانا ہے ۔ داعی اپنا فرض ادا کر چکا ۔ وہ نہیں مانتا تو نہ مانے ۔ اس کی طرف التفات نہ کرنے پر داعی کو یہ الزام نہیں دیا جا سکتا کہ تم نے ایک آدمی کو گمراہی میں مبتلا رہنے دیا ، کیونکہ اب اپنی گمراہی کا وہ شخص خود ذمہ دار ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے یہ قاعدہ اس لیے بیان نہیں کیا گیا ہے کہ معاذ اللہ آپ اپنی تبلیغ میں بیجا طریقے سے لوگوں کے پیچھے پڑ جاتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے روکنا چاہتا تھا ۔ دراصل اس کے بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ایک داعی حق جب کچھ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ معقول طریقے سے سمجھانے کا حق ادا کر چکتا ہے اور ان کے اندر ضد اور جھگڑالو پن کے آثار دیکھ کر ان سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے تو وہ اس کے پیچھے پڑ جاتے اور اس پر الزام رکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ واہ صاحب ، آپ اچھے دعوت حق کے علمبردار ہیں ، ہم آپ سے بات سمجھنے کے لیے بحث کرنا چاہتے ہیں ، اور آپ ہماری طرف التفات نہیں کرتے ۔ حالانکہ ان کا مقصد بات کو سمجھنا نہیں ہے بلکہ اپنی بحثا بحثی میں داعی کو الجھانا اور محض اس کی تضیع اوقات کرنا ہوتا ہے ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے خود اپنے کلام پاک میں بالفاظ صریح یہ فرما دیا کہ ایسے لوگوں کی طرف التفات نہ کرو ، ان سے بے التفاتی کرنے پر تمہیں کوئی ملامت نہیں کی جا سکتی ۔ اس کے بعد کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ الزام نہیں دے سکتا تھا کہ جو کتاب آپ لے کر آئے ہیں اس کی رو سے تو آپ ہم کو اپنا دین سمجھانے پر مامور ہیں ، پھر آپ ہماری باتوں کا جواب کیوں نہیں دیتے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(51:54) تول : امر واحد مذکر حاضر۔ تولی (تفعل) مصدر۔ ولی مادہ۔ تو منہ پھیرلے۔ تو توجہ ہٹالے۔ تولی کا تعدیہ جب بلاواسطہ ہوتا ہے تو اس کے معنی کسی سے دوستی رکھنے۔ کسی کام کو ٹھانے۔ والیو حاکم ہونے کے ہیں۔ جیسے ومن یتولہم منکم فانہ منہم (5:51) جو کوئی تم میں سے ان ان سے دوستی کرے وہ ان ہی میں سے ہے اور والذی تولی کبرہ منہم (24:11) اور جس نے اٹھایا بڑی بات کو (ان میں سے) اور فہل عسیتم ان تولیتم (47:22) پھر تم سے یہ توقع ہے کہ اگر تم والی ہو۔ اور جب اس کا تعدیہ عن کے ساتھ ہوتا ہے خواہ عن لفظوں میں مذکور ہو یا پوشیدہ ہو تو منہ پھیر لینے اور نزدیکی چھوڑ دینے کے معنی آتے ہیں۔ جیسا کہ آیت ہذا میں ہے۔ عنہم میں ضمیر ہم جمع مذکر غائب کا مرجع وہ لوگ ہیں جن کا آیت سابقہ میں ذکر ہوا۔ ملوم۔ اسم مفعول واحد مذکر، مجرور، لوم مادہ۔ ملامت زدہ، ملامت کیا ہوا۔ ما انت بملوم۔ یعنی جب آپ ان کو بقدر امکان دعوت دے چکے اور اپنی طاقت کے مطابق کوشش کرچکے تو اب ان کی طرف سے روگردانی اور اعراض سے آپ قابل ملامت قرار نہیں دیئے جاسکتے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام کھلے الفاظ میں لوگوں کو سمجھانا اور ان کو برے انجام سے ڈرانا تھا۔ جس کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حق ادا کر رہے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” اللہ “ کی توحید سمجھانے اور لوگوں کی خیر خواہی کرنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے تھے۔ آپ لوگوں کو بار بار سمجھاتے کہ لوگو ! اللہ کے ساتھ شرک کرنا چھوڑ دو اور صرف اسی کی عبادت کرو۔ آپ کے مخاطبین اس دعوت کو قبول کرنے کی بجائے آپ پر مختلف قسم کے الزامات لگاتے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کو اذّیتیں دیتے تھے۔ اس صورت حال میں آپ کی طرف سے جن لوگوں پر حق کا ابلاغ ہوچکا تھا۔ ان کے بارے میں آپ کو ارشاد ہوا کہ آپ ان پر مزید وقت صرف کرنے کی بجائے ان سے اعراض کا رویہ اختیار فرمائیں۔ اس اعراض پر آپ پر کوئی ملامت نہیں ہوگی۔ ان کی بجائے آپ ایمانداروں اور ان لوگوں کو نصیحت فرماتے رہیں جو سلیم الفطرت ہیں اور حق بات کی طرف متوجہ ہونے والے ہیں۔ بلاشبہ آپ کی نصیحت ایمان لانے والوں کے لیے نہایت ہی فائدہ مند ہوتی ہے۔ انہیں پہلی نصیحت یہ فرمائیں کہ تمہارے رب نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ لہٰذا اس کا فرمان ہے صرف میری ہی عبادت کرنی چاہیے۔ یہی جنوں اور انسانوں کی تخلیق کا مقصد ہے اور یہی انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت کا پہلا اور مرکزی مقصد ہے۔ (وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآاِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ) (الانبیاء : ٢٥) ” ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجے ان کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری ہی بندگی کرو۔ “ اکثر اہل علم نے عبادت کا معنی تذلّل یعنی نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پرستش کرنا بیان کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عبادت میں عاجزی اور انتہا درجے کی انکساری ضروری ہے کہ آدمی اللہ کے حضور قیام کرے تو نا صرف زبان سے اقرار کرے بلکہ اس کا پورا جسم خاموش گواہی دے کہ میرے جسم کا ایک ایک ریشہ تیرے حضور عاجز اور بےبس ہے۔ جبین نیاز جھکائے تو اپنے آپ کو عجز و انکساری کی انتہا تک لے جائے گویا کہ وہ پستیوں کے سمندر میں ڈوب چکا ہے۔ زبان جنبش کرے تو اس کی حمد و ثنا کے گیت گائے، دست سوال دراز کرے تو سراپا التجا بن جائے۔ مال خرچ کرے تو اس عاجزی کے ساتھ کہ میں تو مالک کی ملکیت ہی واپس لوٹا رہا ہوں نہ میرا مال ہے اور نہ اس میں میرا کمال ہے۔ اس عہد کو نمازی پانچ وقت تشہد کی زبان میں دہراتا ہے۔ ” تمام قسم کی قولی، فعلی اور مالی عبادات اللہ کے لیے ہیں۔ “ (رواہ البخاری : باب التَّشَہُّدِ فِی الآخِرَۃِ ) (قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ ) (الانعام : ١٦٢، ١٦٣) ” کہہ دیجیے ! یقیناً میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اسی بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں پہلا اسلام لانے والا ہوں۔ “ اس تصور کے ساتھ قرآن مجید نے عبادت کا وسیع تر تخیل پیش کیا ہے کہ آدمی منڈی اور بازار میں ہو تو امانت و دیانت کا نمونہ بن جائے، کسی کے ہاں مزدور اور خدمت گزار ہو تو وفاداری کا پیکر ہوجائے، حکمران ہو یا کوئی ذمہ داری اٹھائے تو قوم کا خادم اور مالک حقیقی کا غلام بن کر رہے۔ غرض یہ کہ زندگی کا ایک ایک لمحہ اور شعبہ رب کی غلامی اور سرافگندگی کے لیے وقف کرنے کا نام ہی عبادت ہے۔ یہی انسان کی تخلیق کا مقصد اور اسی کے لیے انسان کا ہر عمل وقف ہونا چاہیے۔ انبیائے عظام اپنی دعوت کا آغاز اسی سے کیا کرتے تھے۔ مسائل ١۔ ” اللہ “ کے سوا کوئی معبود نہیں اس لیے حکم ہے کہ صرف ایک ” اللہ “ کی عبادت کی جائے۔ ٢۔ تمام لوگوں کو ادھر ادھر جانے کی بجائے اللہ کی طرف ہی رجوع کرنا چاہیے۔ ٣۔ نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا مقصد لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانا ہے۔ ٤۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرح ہی جادوگر اور مجنون کہا گیا جس طرح پہلے انبیائے کرام کو کہا گیا تھا۔ ٥۔ ضدی لوگوں پر زیادہ وقت صرف نہیں کرنا چاہیے۔ ان کے مقابلے میں ایمان لانے والوں کو باربار نصیحت کرنی چاہیے۔ ٦۔ ایمان لانے والوں کو نصیحت کرنے کا فائدہ ہوتا ہے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اس لیے سب کو اللہ کی خالص عبادت کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن انسان کی تخلیق کا مقصد اور انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت کا مرکزی نقطہ : (الانبیاء : ٢٥) (ھود : ٢٦) (الاعراف : ٦٥) (الاعراف : ٧٣) (الاعراف : ٨٥) (یوسف : ٤٠) (المائدۃ : ٧٢) (آل عمران : ٦٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

عاشراً : آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب فرمایا ﴿فَتَوَلَّ عَنْهُمْ ﴾ آپ ان کی طرف سے اعراض کریں، آپ کا کام پہنچا دینا ہے آپ نے پہنچا دیا محنت کرلی جو شخص ان میں سے ایمان نہ لائے وہ اس کی شقاوت کی بات ہے ﴿ فَمَاۤ اَنْتَ بِمَلُوْمٍٞ٠٠٥٤ ﴾ آپ پر کوئی الزام نہیں کہ ان کو مسلمان کیوں نہیں بنایا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(54) لہٰذا آپ ان سے بےرخی کا برتائو کیجئے اور ان کی جانب التفات نہ کیجئے کیونکہ اب آپ پر کوئی الزام اور اولاہنا نہیں۔ یعنی آپ ان کی جانب التفات نہ کیجئے آپ نے تبلیغ کا حق ادا کردیا اب آپ پر کوئی الزام نہیں اور کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ نے اپنے کام میں کوتاہی کی آپ اطمینان کے ساتھ اپنا فرض منصبی ادا کرتے رہیے اور ان سے کسی قسم کا تملق اور چاپلوسی نہ کیجئے یعنی کھینچ کر بات کیجئے اور ان سے منہ پھیر لیجئے یعنی ان سے کوئی اچھی امید نہ رکھیے اور ان کی تکذیب کی پروانہ کیجئے۔