Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 55

سورة الذاريات

وَّ ذَکِّرۡ فَاِنَّ الذِّکۡرٰی تَنۡفَعُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۵۵﴾

And remind, for indeed, the reminder benefits the believers.

اور نصیحت کرتے رہیں یقیناً یہ نصیحت ایمان والوں کو نفع دے گی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And remind, for verily, the reminding profits the believers. meaning, for only the believing hearts benefit from being reminded. Allah Only created Mankind and Jinns to worship Him Alone Allah the Exalted and Most Honored said, وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالاِْنسَ إِلاَّ لِيَعْبُدُونِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

55۔ 1 اس لیے کہ نصیحت سے فائدہ انہیں کو پہنچتا ہے۔ یا مطلب ہے کہ آپ نصیحت کرتے رہیں اس نصیحت سے وہ لوگ یقینا فائدہ اٹھائیں گے جن کی بابت اللہ کے علم میں ہے کہ وہ ایمان لائیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٧] سعید روحوں کا نصیحت کی انتظار :۔ یعنی پیغمبر یا داعی حق کے کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ وہ اللہ کا پیغام مسلسل پہنچاتے رہیں۔ خواہ ان کے سامنے مخالف یا ناقدر شناس ہی بیٹھے ہوں۔ اس لیے کہ انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انسانی معاشرے کے لاکھوں کروڑوں افراد میں وہ سعید روحیں کہاں ہیں جو اس دعوت کو ماننے کے لئے تیار بیٹھی ہیں اور فقط دعوت کے پہنچنے کا انتظار کر رہی ہیں۔ یہی لوگ اس کی اصل دولت اور سرمایہ ہیں۔ انہی کی تلاش اس کا اصل کام ہے۔ ایسے ہی لوگ اس کا دست راست بننے اور اس کے ساتھ مصائب جھیلنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وذکر فان الذکری تنفع المومنین :” ذکر یذکر تذکرۃ “ کا معنی نصیحت بھی ہے اور یاد دہانی بھی یعنی سرکشوں سے منہ پھیرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ انہیں یاد دہانی اور نصیحت کرنا بھی چھوڑ دیں، بلکہ آپ انہیں یاد دہانی اور نصیحت کرتے رہیں، کیونکہ نصیحت ایمان والوں کو نفع دیتی ہے اور چونکہ آپ کو معلوم نہیں کہ کون ہے جو ایمان لے آئے گا اور کون ہے جو اس سے محروم رہے گا، اسلئے آپ ایمان لانے والی سعید روحوں کی تلاش میں ہر نیک و بد، موافق و مخالف کو نصیحت جاری رکھیں، بالآخر وہ لوگ جن کی فطرت مسخ نہیں ہوئی، اس نصیحت سے فائدہ اٹھائیں گے، جیسا کہ فرمایا : (سیدکر من یخشی ، ویتجنبھا الاشقی) (الاعلی : ١٠، ١١)” عنقریب نصیحت حاصل کرے گا جو ڈرتا ہے۔ اور اس سے علیحدہ رہے گا جو سب سے بڑا بدنصیب ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ۝ ٥٥ ذكر ( نصیحت) وذَكَّرْتُهُ كذا، قال تعالی: وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] ، وقوله : فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة/ 282] ، قيل : معناه تعید ذكره، وقد قيل : تجعلها ذکرا في الحکم «1» . قال بعض العلماء «2» في الفرق بين قوله : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة/ 152] ، وبین قوله : اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة/ 40] : إنّ قوله : فَاذْكُرُونِي مخاطبة لأصحاب النبي صلّى اللہ عليه وسلم الذین حصل لهم فضل قوّة بمعرفته تعالی، فأمرهم بأن يذكروه بغیر واسطة، وقوله تعالی: اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ مخاطبة لبني إسرائيل الذین لم يعرفوا اللہ إلّا بآلائه، فأمرهم أن يتبصّروا نعمته، فيتوصّلوا بها إلى معرفته . الذکریٰ ۔ کثرت سے ذکر الہی کرنا اس میں ، الذکر ، ، سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذَكَّرْتُهُ كذا قرآن میں ہے :۔ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ ۔ اور آیت کریمہ ؛فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة/ 282] تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اسے دوبارہ یاد دلاوے ۔ اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں وہ حکم لگانے میں دوسری کو ذکر بنادے گی ۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ؛۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة/ 152] سو تم مجھے یاد کیا کر میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة/ 40] اور میری وہ احسان یاد کرو ۔ میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جنہیں معرفت الہی میں فوقیت حاصل تھی اس لئے انہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور دوسری آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اس نے انعامات کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں حکم ہوا کہ انعامات الہی میں غور فکر کرتے رہو حتی کہ اس ذریعہ سے تم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے ۔ نفع النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] ( ن ف ع ) النفع ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٥{ وَّذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔ } ” اور آپ تذکیر کرتے رہیے ‘ کیونکہ یہ تذکیر اہل ایمان کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ “ آپ تعلیم و تبلیغ کی صورت میں تذکیر و یاد دہانی کا سلسلہ جاری رکھیں ۔ یہ سرکش لوگ اگر اس تذکیر کو نظرانداز کر رہے ہیں تو کچھ مضائقہ نہیں ‘ اہل ایمان کے لیے تو یہ بہت مفید ہے۔ آپ سے قرآن سن سن کر اہل ِ ایمان کے ایمان میں برابر اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

52 The Holy Prophet has not been addressed here to be taught this method because, God forbid, in his preaching he unnecessarily pursued the people and Allah wanted to stop him from this fact, the actual reason for stating this method is that when a preacher of the truth has done his best to make the people understand his message in a rational way and then seeing the signs of stubbornness in them withdraws from them, the people inveigh against him and start accusing him of indifference and inattention whereas, they, as they say, want to discuss things in order to understand his message. The fact, however, is that they do not intend to understand anything but only to involve the preacher in disputation and waste his time. Therefore, Allah Himself said in clear words: "Turn away from them: you are not at all to blame for showing any indifference towards them." After this nobody could blame the Holy Prophet that according to the Book that he had brought he had been appointed to make them understand his religion: then why he did not answer their objections.

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :52 اس آیت میں تبلیغ کا دوسرا قاعدہ بیان کیا گیا ہے ۔ دعوت حق کا اصل مقصد ان سعید روحوں تک ایمان کی نعمت پہنچانا ہے جو اس نعمت کی قدر شناس ہوں اور اسے خود حاصل کرنا چاہیں ۔ مگر داعی کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انسانی معاشرے کے ہزاروں لاکھوں افراد میں وہ سعید روحیں کہاں ہیں ۔ اس لیے اس کا کام یہ ہے کہ اپنی دعوت عام کا سلسلہ برابر جاری رکھے تاکہ جہاں جہاں بھی ایمان قبول کرنے والے افراد موجود ہوں وہاں اس کی آواز پہنچ جائے ۔ یہی لوگ اس کی اصل دولت ہیں ۔ انہی کی تلاش اس کا اصل کام ہے ۔ اور انہی کو سمیٹ سمیٹ کر خدا کے راستے پر لا کھڑا کرنا اس کے پیش نظر ہونا چاہیے ۔ بیچ میں اولاد آدم کا جو فضول عنصر اس کو ملے اس کی طرف بس اسی وقت تک داعی کو توجہ کرنی چاہیے جب تک اسے تجربے سے یہ معلوم نہ ہو جائے کہ یہ جنس کا سد ہے ۔ اس کے کساد و فساد کا تجربہ ہو جانے کے بعد اسے پھر اپنا قیمتی وقت اس جنس کے لوگوں پر ضائع نہ کرنا چاہیے ، کیونکہ یہ اس کی تذکیر سے نفع اٹھانے والے لوگ نہیں ہیں ، اور ان پر اپنی قوت صرف کرنے سے نقصان ان لوگوں کا ہوتا ہے جو اس سے نفع اٹھانے والے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(51:55) وذکر۔ فعل امر واحد مذکر حاضر۔ تذکیر (تفعیل) مصدر۔ تو یاد دلا، تو سمجھا۔ تو نصیحت کر۔ واؤ یہاں بمعنی البتہ ہے۔ الذی۔ وذکر فعل امر واحد مذکر حاضر۔ تذکیر (تفعیل) مصد رہے۔ نصیحت کرنا۔ ذکر کرنا۔ پند موعظت (صیغہ مؤنث) فان میں ف تعلیل کا ہے بمعنی کیونکہ۔ تنفع مضارع واحد مؤنث غائب نفع (باب فتح) مصدر۔ وہ نفع دیتی ہے۔ وہ فائدہ دیتی ہے سود مند ہوتی ہے۔ وذکر فان الذکری تنفع المؤمنین : البتہ قطع نظران ۔۔ کے (اپنے مشن کی تکمیل میں) آپ نصیحت کرتے رہے کیونکہ نصیحت ایمان لانے والوں کے لئے سود مند ہوگی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی آپ نے ان تک ہمارا پیغام پہنچا دیا اور ان کے ایک ایک شبہ کا جواب دے دیا اب بھی اگر یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں تو آپ ان کے پیچھے نہ پڑیں اور نہ ان کے معاملہ میں اپنے آپ کو کسی قسم کے غم و فکر میں ڈالیں کیونکہ ان کے نہ ماننے کا کوئی الزام آپ پر نہیں ہے۔ البتہ عام انداز میں سمجھتاے رہیں کیونکہ جن کی قسمت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان لکھا ہے وہ آپ کی نصیحت سے فائدہ اٹھائینگے اور ایمان لائیں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وذکر ........ المومنین (١٥ : ٥٥) ” البتہ نصیحت کرتے رہو کیونکہ نصیحت ایمان لانے والوں کے لئے نافع ہے۔ “ اور دوسروں کے لئے نافع نہیں ہے کیونکہ انہوں نے انکار کا فیصلہ کرلیا ہے۔ تذکیر اور دعوت رسول کے فرائض میں سے ہے اور ایمان لانا نہ لانا رسول کے فرائض سے باہر ہے۔ یہ اللہ کا کام ہے جو آسمان اور زمین اور انسانوں کا خالق ہے۔ اب اس سورة میں عقل وخرد کے تاروں پر آخری ضرب لگائی جاتی ہے اور اس میں فرار الی اللہ کے معنی کی وضاحت کی جاتی ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ زمین کے بوجھوں اور گرادنوں سے نجات کس طرح مل سکتی ہے۔ وہ یوں کہ انسان اور جن جس مقصد کے لئے پیدا کئے گئے ہیں وہ فریضہ ادا کریں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں وعظ اور نصیحت کا حکم فرمایا اور ارشاد فرمایا ﴿ وَّ ذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ ٠٠٥٥﴾ (اور آپ نصیحت کرتے رہیں کیونکہ نصیحت کرنا ایمان والوں کو نفع دیتا ہے) یعنی جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایمان مقدر فرمایا ہے آپ کا نصیحت کرنا ان کے لیے نفع مند ہوگا اور جو لوگ ایمان لا چکے ہیں ان کو مزید بصیرت حاصل ہوگی اور یقین میں قوت حاصل ہوگی۔ (ذكرہ صاحب الروح)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(55) ہاں نصیحت کرتے اور سمجھاتے رہیے بیشک سمجھانا کام آتا ہے ایمان والوں کو۔ یعنی یہ مطلب نہیں کہ وحی منقطع ہوگئی اور کام بند ہوگیا نہیں۔ اپنا کام کرتے رہیے یعنی نصیحت اور سمجھانے کا کام جاری رکھیے نہ ماننے والوں پر اتمام حجت ہوگا جس کی قیمت میں ایمان لکھا ہے وہ ایمان لے آئے گا اور جو ایمان والے ہیں ان کو آپ کی نصیحت سے بہت نفع ہوگا۔