Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 58

سورة الذاريات

اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الۡقُوَّۃِ الۡمَتِیۡنُ ﴿۵۸﴾

Indeed, it is Allah who is the [continual] Provider, the firm possessor of strength.

اللہ تعالٰی تو خود ہی سب کا روزی رساں توانائی والا اور زور آور ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

I seek not any provision from them nor do I ask that they should feed Me. Verily, Allah is the All-Provider, Owner of power, the Most Strong. Imam Ahmad recorded that Abdullah bin Mas`ud said, "The Messenger of Allah taught the following: إِنِّى أَنَا الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ `Verily, I am the Provider, Owner of power, the Most Strong.' Abu Dawud, At-Tirmidhi and An-Nasa'i also collected this Hadith. At-Tirmidhi said, "Hasan Sahih." The meaning of this Ayah (51:56) is that, Allah the Exalted, the Blessed created the creatures so that they worship Him Alone without partners. Those who obey Him will be rewarded with the best rewards, while those who disobey Him will receive the worst punishment from Him. Allah stated that He does not need creatures, but rather, they are in need of Him in all conditions. He is alone their Creator and Provider. Imam Ahmad recorded that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, قَالَ اللهُ تَعَالَى يَاابْنَ ادَمَ تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِي أَمْلَْ صَدْرَكَ غِنًى وَأَسُدَّ فَقْرَكَ وَإِلاَّ تَفْعَلْ مَلَْتُ صَدْرَكَ شُغْلً وَلَمْ أَسُدَّ فَقْرَك Allah the Exalted said, "O Son of Adam! Busy yourself in worshipping Me, and I will fill your chest with riches and dissipate your meekness. Otherwise, I will fill your chest with distracting affairs and will not do away with your meekness." At-Tirmidhi and Ibn Majah collected this Hadith and At-Tirmidhi said, "Hasan Gharib." The statement of Allah the Exalted,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٠] متین کا لغوی مفہوم :۔ متین : متن کے معنی کسی چیز کا اپنی ذات میں مضبوط ہونا اور اس میں صلابت کا پھیل جانا اور حبل متین بمعنی مضبوط رسی، اور اللہ تعالیٰ کے متین ہونے کا یہ مطلب ہے کہ وہ مضبوط اور غیر متزلزل ہے جسے کوئی ہستی یا کوئی قوت اس کے مقام یا اس کے ارادہ سے ہلا نہیں سکتی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ان اللہ ھو الرزاق ذوالقواۃ المتین :” ھو “ ضمیر فصل لانے سے اور ” الرزاق “ خبر پر ” الف لام “ لانے سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا کہ رزاق صرف اللہ تعالیٰ ہے اور کوئی نہیں۔ ” الرزاق “ مبالغے کا صیغہ ہے۔ یعنی میں نہ جن و انس سے کسی طرح کا رزق چاہتا ہوں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں، کیونکہ رزق دینے والا تو صرف میں ہوں، میرے سوا کوئی رزق دینے والا ہے ہی نہیں اور میں کھانیپ ینے اور ہر ضرورت سے غنی ہوں، تو میں جن و انس سے رزق کا یا کھلانے کا ارادہ کیوں کروں گا ؟ دوسریج گہ فرمایا :(قل اغیر اللہ اتخذ و لیافاطر السموت والارض وھو یطعم ولایطعم) (الانعام : ١٣) ” کہ دے کیا میں اللہ کے سوا کوئی مالک بناؤں جو آسمانوں اور زمین پیدا کرنے والا ہے، حالانکہ وہ کھلاتا ہے اور اسے نہیں کھلایا جاتا۔ “ (٢) سیاق کا تقاضا یہ تھا کہ کہا جاتا :” انی انا الرزاق ذوالقوۃ المتین “ کہ (نہ میں ان سے کسی رزق کا ارادہ کرتا ہوں اور نہ یہ ارادہ رکھتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں) کیونکہ میں ہی تو بےحد رزق دینے والا، طاقت والا، نہایت مضبوط ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طرح پڑھنا بھی ثابت ہے، چناچہ عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح پڑھایا :(انی انا الرزاق ذوالقوۃ المتین) (ابو داؤد، الحروف و القراء ات ، باب : ٣٩٩٣۔ ترمذی : ٢٩٣٠، وصححہ فلالبانی) مصحف امام میں ” ان اللہ ھو الرزاق “ ہے اور متواتر قرأت یہی ہے۔ ” انی انا الرزاق “ کے بجائے ” ان اللہ ھو الرزاق، کہنے میں لفظ ” اللہ “ میں آنے والی تمام صفات، مثلاً اس کے جلال، اس کی کبریائی اور عظمت کا اظہار مقصود ہے۔ (٣) ذوالقوۃ المتین :” ذوالقوۃ “ ” ذو “ کا لفظ کسی اہم چیز کا مالک ہونے کے لئے آتا ہے، مثلاً ”’ و مال “ اور ” ذو شرف “ یعنی ساری قوت کا مالک ہے۔ “ ” المتین “ نہایت مضبوط۔ جسے کوئی نہ اس کے ارادے سے ہٹا سکتا ہے اور نہ اس کا مقابلہ کرسکتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ اللہَ ہُوَالرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِيْنُ۝ ٥٨ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔ قوی القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] ( ق وو ) القوۃ یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسرعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ متن المَتْنَانِ : مکتنفا الصّلب، وبه شبّه المَتْنُ من الأرض، ومَتَنْتُهُ : ضربت متنه، ومَتُنَ : قَوِيَ متنُهُ ، فصار متینا، ومنه قيل : حبل مَتِينٌ ، وقوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ [ الذاریات/ 58] . ( م ت ن ) المتان پیٹھ کے دونوں حصے جو ریڑھ کی ہڈی کے ارد گرد ہوتے ہیں ۔ اور تشبیہ کے طور پر سخت زمین کو المتن کہتے ہیں ۔ متنتہ کسی کی پیٹھ پا مارنا متن مضبوط پشت ولا ہونا اور مضبوط پشت والے آدمی کو متین کہا جاتا ہے ۔ اسی سے حبل متین کا محاورہ ہے ۔ جس کے معنی مضبوط رسی کے ہیں قرآن پاک میں ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ [ الذاریات/ 58] خدا ہی تو رزق دینے والا زور آور اور مضبوط ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

بلکہ اللہ تعالیٰ خود ہی اپنے بندوں کو رزق پہنچانے والا ہے اور وہ اپنے دشمنوں پر بھی بڑی قوت والا اور ان سے سخت ترین انتقام لینے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٨{ اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْـقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ ۔ } ” یقینا اللہ ہی سب کو رزق دینے والا ‘ قوت والا ‘ زبردست ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

55 The word matin as used in the original means strong and stable whom nobody can shake and move.

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :55 اصل میں لفظ متین استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں مضبوط اور غیر متزلزل ، جسے کوئی ہلا نہ سکتا ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(51:58) الرزاق۔ رزق دینے وال۔ روزی دینے والا۔ رزق سے بروزن فعال مبالغہ کا صیغہ ہے۔ امام خطابی کا بیان ہے کہ رزاق وہ ذات ہے جو رزق کا متکفل ہے اور ہر جان قیام کے لئے جس قدر قوت کی ضرورت ہے اس کی بہم پہنچانے والی ہے اس لفظ کا اطلاق بجز ذات باری تعالیٰ کے جائز نہیں ہے۔ ذوالقوۃ المتین : ذو بمعنی والا۔ صاحب۔ اسم ہے۔ اور اسماء ستہ مکبرہ میں سے ہے یعنی ان چھ اسموں میں سے ہے کہ جب ان کی تصغیر نہ ہو اور وہ غیر یائے متکلم کی طرف مضاف ہوں تو ان کو پیش کی حالت میں واؤ زیر کی حالت میں الف اور زبر کی حالت میں یاء آتی ہے جیسے ذواذا۔ ذی۔ یہ ہمیشہ مضاف ہوکر استعمال ہوتا ہے اور اسم ظاہر ہی کی طرف مضاف ہوتا ہے ۔ ضمیر کی طرف نہیں۔ اور اس کا تثنیہ بھی آتا ہے اور جمع بھی۔ ذوا القوہ۔ مضاف ، مضاف الیہ۔ قوت والا۔ المتین۔ متین صیغہ صفت مشبہ مفرد۔ مضبوط۔ محکم، ریڑھ کی ہڈی کے دائیں بائیں حصہ کو متن کہا جاتا ہے اسی سے متن فعل بنا لیا گیا جس کے معنی ہیں اس کی پشت قوی اور مضبوط ہوگئی۔ اس کے اعضاء سخت اور مضبوط ہوگئے۔ متین مضبوط پشت والا۔ توسیع استعمال کے بعد اس کا معنی ہوگیا قوی، مضبوط۔ المتین کی دو صورتیں ہیں :۔ (1) یہ القوۃ کی صفت ہے موصوف و صفت مل کر ذو کا مضاف الیہ، زبردست قوت والا۔ (2) یہ خبر ہے اس کا مبتداء ھو محذوف ہے ای ھو المتین۔ وہ نہایت قوی و محکم ہے۔ یہ آیت عدم ارادہ رزق و قوت کی علت ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 وہ کسی کا محتاج کیوں ہوگا اور اس سے روزی کیوں مانگے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ حاصل یہ کہ جب اس عبادت کے مشروع کرنے سے ہماری کوئی غرض نہیں بلکہ خود بندوں ہی کا نفع ہے تو ان کو اس میں پس و پیش نہ کرنا چاہئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا ﴿اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ ٠٠٥٨﴾ (بلاشبہ اللہ بہت زیادہ رزق دینے والا ہے وہ قوت والا ہے اور نہایت ہی قوت والا ہے) وہی سب کو رزق دیتا ہے اور خوب زیادہ رزق دیتا ہے وہ قوت والا ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی قوت والا نہیں پھر بھلا وہ بندوں سے رزق کا کیا امیدوار ہوسکتا ہے۔ اس کے بعد ظالموں کے عذاب کا تذکرہ فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ ظالموں کے لیے عذاب کا بڑا حصہ ہے جیسا کہ ان سے پہلے ان جیسے لوگوں کا حصہ تھا لہٰذا عذاب آنے کی جلدی نہ مچائیں کفر کے باعث ان پر عذاب آنا ہی آنا ہے۔ دیر لگنے کی وجہ سے عذاب سے چھٹکارہ نہ ہوجائے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

20:۔ ” ان اللہ۔ الایۃ “ اللہ تعالیٰ خود ہی ساری مخلوق کا رازق اور سب کی روزی کا کفیل ہے وہ بڑی قوت کا مالک اور صاحب اقتدار ہے۔ ساری مخلوقات کے رزق کی کفالت اس کے لیے معمولی بات ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(58) بیشک اللہ تعالیٰ سب کو روزی دینے والا زور آور اور مضبوط ہے۔ یعنی جب ہم خود ہی سب کو روزی دینے والے ہیں اور خود روزی کے محتاج نہیں تو عبادت میں ہمارے کسی نفع کا تصور نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس عبادت میں بندوں ہی کا نفع ہے۔ زور آور مضبوط شاید اس لئے فرمایا کہ جس کو وہ روزی دینا چاہے تو اس کو کوئی روک نہیں سکتا نہ اس کی دی ہوئی روزی کو کوئی چھین سکتا ہے۔ رزاق بھی اور ذوالقوۃ المتین بھی۔ رساند رزق بروج ہے کہ شاید بسازو کا رہا نوحے کہ باید بہ روزی بےنوایاں را نوازد بہ رحمت بےکساں را کارسازد