Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 59

سورة الذاريات

فَاِنَّ لِلَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ذَنُوۡبًا مِّثۡلَ ذَنُوۡبِ اَصۡحٰبِہِمۡ فَلَا یَسۡتَعۡجِلُوۡنِ ﴿۵۹﴾

And indeed, for those who have wronged is a portion [of punishment] like the portion of their predecessors, so let them not impatiently urge Me.

پس جن لوگوں نے ظلم کیا ہے انہیں بھی ان کے ساتھیوں کے حصہ کے مثل حصہ ملے گا لہذا وہ مجھ سے جلدی طلب نہ کریں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَإِنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا ذَنُوبًا ... And verily, for those who do wrong, there is a portion, indicates that they will receive their due share of the torment, ... مِّثْلَ ذَنُوبِ أَصْحَابِهِمْ فَلَ يَسْتَعْجِلُونِ like the evil portion (which came for) their likes (of old); so let them not ask Me to hasten on! let them not ask that the punishment is rushed to them, ... for it will surely come, فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا مِن يَوْمِهِمُ الَّذِي يُوعَدُونَ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

59۔ 1 ذنوب کے معنی بھرے ڈول کے ہیں۔ کنویں سے ڈول میں پانی نکال کر تقسیم کیا جاتا ہے اس اعتبار سے یہاں ڈول کو حصے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ مطلب ہے کہ ظالموں کو عذاب سے حصہ پہنچے گا، جس طرح اس سے پہلے کفر و شرک کا ارتکاب کرنے والوں کو ان کے عذاب کا حصہ ملا تھا۔ 59۔ 2 لیکن یہ حصہ عذاب انہیں کب پ... ہنچے گا، یہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، اس لئے طلب عذاب میں جلدی نہ کریں۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥١] کنوئیں وغیرہ سے پانی نکالنے والا ڈول یا بالٹی اگر خالی ہو تو اسے دلو کہتے ہیں اور اگر بھرا ہوا ہو تو اسے ذنوب کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ دعوت حق کی مخالفت کے لحاظ سے یہ مکہ کے ظالم لوگ بھی اسی پستی تک پہنچ چکے ہیں۔ اور ان کی بقا کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے جیسے ان جیسے اور ان سے پہلے کے ظالموں کا ہو... ا تھا۔ اور اب ان پر اللہ کا عذاب آنے والا ہے (اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورة مکی زندگی کے آخری دور میں نازل ہوئی تھی) لہذا انہیں جلدی مچانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اب ان کے گناہوں سے بھرا ہوا ڈول ڈوب کے ہی رہے گا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) فان للذین ظلموا ذنوباً …:” ذنوباً “ (ڈال کر فتحہ کے ساتھ) اصل میں بڑے ڈول کو کہتے ہیں اور ” ذنوب “ (ڈال کے ضمہ کے ساتھ)” ذنب “ کی جمع ہے، گناہ پہلے لوگ ایک ہی کنوئیں سے پانی لینے کے لئے آتے تو ہر ایک اپنا ڈول ساتھ لاتا تھا، پھر باری باری اپنا ڈول ڈلاتے اور پانی بھر کرلے جاتے، اس لئے ” ذنوب “ (ڈو... ل) کا لفظ باری کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ سورت کے آخر میں کفار قریش کے متعلق فرمایا ہ جس طرح ان سے پہلے ان کے ساتھیوں پر عذاب باری باری آیا اسی طرح ان مشرکین پر عذاب کی نوبت (باری) بھی آرہی ہے جنہوں نے ظلم کیا۔ ظلم سے مراد اللہ کے ساتھ شرک ہے۔ باری آنے میں کچھ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ (٢) فلا یستجلون : یہ اصل میں ” فلا یستعجلونی “ تھا،” یائ “ حذف ہوگئی، نون وقایہ پر کسرہ یہ بتانے کے لئے باقی رہا کہ یہاں سے ” یائ “ حذف ہوئی ہے۔ سو وہ مجھ سے عذاب جلدی لانے کا مطالبہ نہ کریں، باری آنے پر ان کا یہ مطالبہ بھی پورا ہوجائے گا۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The word ذُنُوب dhanub in verse 59 is with lath on the letter [ dh ] which means a large bucket that is kept at the common wells of a locality for the purpose of drawing and filling water. A turn is designated for each of the persons using the large common bucket to draw out water from the well, so that he is conveniently able to fill it in his own private bucket in his turn. Thus the word here is...  employed in the sense of turn, share or portion. Hence it is translated above as follows: |"So, those who did wrong deserve a share (in the punishment) like the share of their companions.|" The verse purports to warn the disbelievers that the past communities were given an opportunity to work. When each of these communities did not take advantage of the opportunity in their respective time and persisted in their evil course, they were punished and destroyed. Likewise, the present pagans of Makkah are designated a time and opportunity. If they do not take advantage of the allocated time and opportunity and persist in their paganism, they will be punished in this world; otherwise the punishment of the Hereafter is most certain. They will thus meet with a fate similar to that of the opponents of former Prophets. Like them they will come to a sad end. This verse, in which the word dhanuban occurs, indicates that they will receive their due share of the torment, and it will surely come in due time; so they should not ask for it to be hastened on or rushed to them. Al-hamdulillah The Commentary on Surah Adh-Dhariyat Ends here  Show more

ذَنُوْبًا، لفظ ذنوب بفتح الذال اصل میں بڑے ڈول کو کہا جاتا ہے اور بستی کے عام کنوؤں پر پانی بھرنے کے لئے بغرض سہولت بھرنے والوں کے نمبر اور باری مقرر کرلی جاتی ہے، ہر ایک پانی بھرنے والا اپنی باری میں پانی بھرتا ہے، اس لئے یہاں لفظ ذنوب کے معنی باری اور حصہ کے لئے گئے ہیں، مراد یہ ہے کہ جس طرح پچھل... ی امتوں کو اپنے اپنے وقت میں عمل کرنے کا موقع اور باری دی گئی جن لوگوں نے اپنی باری میں کام نہیں کیا وہ ہلاک و برباد اور گرفتار عذاب ہوئے، اسی طرح موجودہ مشرکین کی بھی باری اور وقت مقرر ہے، اگر اس وقت تک یہ اپنے کفر سے باز نہ آئے تو خدا کا عذاب ان کو کبھی تو اسی دنیا میں اور نہیں تو آخرت میں ضرور پکڑے گا، اس لئے ان کو فرما دیجئے کہ اپنی جلد بازی سے باز آجاؤ یعنی یہ کفار جو بطور تکذیب و انکار کے یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم واقعی مجرم ہیں اور مجرمین پر عذاب آنا آپ کے قول سے ثابت ہے تو پھر ہم پر عذاب کیوں نہیں آجاتا ؟ ان کا جواب یہ ہے کہ عذاب اپنے مقررہ وقت پر اور اپنی باری پر آتا ہے، تمہاری باری بھی آنے والی ہے جلد بازی نہ کرو۔ الحمد للہ سورة ذاریات آج دو شنبہ 21 ربیع الاول 1391 ھ کو پوری ہوگئی۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِنَّ لِلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ذَنُوْبًا مِّثْلَ ذَنُوْبِ اَصْحٰبِہِمْ فَلَا يَسْتَعْجِلُوْنِ۝ ٥٩ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان ... وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں ذنب والذَّنْبُ في الأصل : الأخذ بذنب الشیء، يقال : ذَنَبْتُهُ : أصبت ذنبه، ويستعمل في كلّ فعل يستوخم عقباه اعتبارا بذنب الشیء، ولهذا يسمّى الذَّنْبُ تبعة، اعتبارا لما يحصل من عاقبته، وجمع الذّنب ذُنُوب، قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 11] ، الذنب ( ض ) کے اصل معنی کسی چیز کی دم پکڑنا کے ہیں کہا جاتا ہے ذنبتہ میں نے اس کی دم پر مارا دم کے اعتبار ست ہر اس فعل کو جس کا انجام برا ہوا سے ذنب کہہ دیتے ہیں اسی بناء پر انجام کے اعتباڑ سے گناہ کو تبعتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ذنب کی جمع ذنوب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 11] تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ( عذاب میں ) پکڑلیا تھا۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ عجل العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] ، ( ع ج ل ) العجلۃ کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

سو یہ کفار مکہ سن لیں کہ ان کی سزا بھی باری باری ہے جیسا کہ ان سے پہلے ان کے ساتھیوں کی سزا کی باری مقرر تھی سو مجھ سے عذاب و ہلاکت جلدی طلب نہ کریں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٩{ فَاِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ذَنُوْبًا مِّثْلَ ذَنُوْبِ اَصْحٰبِہِمْ فَلَا یَسْتَعْجِلُوْنِ ۔ } ” پس ان ظالموں کا پیمانہ بھی لبریز ہوچکا ہے جس طرح ان کے ساتھیوں کا پیمانہ لبریز ہوا تھا ‘ سو یہ مجھ سے جلدی نہ مچائیں۔ “ ” ذَنُوب “ ایسے ڈول کو کہتے ہیں جو پانی وغیرہ سے لبالب بھرا ہوا ہو۔ مرا... د یہ کہ زمانہ ماضی میں عذاب کا شکار ہونے والی اقوام کی طرح ان کفار و مشرکین کی بداعمالیوں کا ڈول بھی لبریزہو چکا ہے اور یہ ڈول اب کسی وقت بھی کھینچا جاسکتا ہے۔ لہٰذا اگر فوری طور پر ان کی پکڑ نہیں بھی ہو رہی تو اس سے وہ یہ نہ سمجھیں کہ انہیں یونہی چھوڑ دیا جائے گا ۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

56 "Those, . . . . . . wrong" Those who have violated the reality and the truth and their own nature The context itself shows that `those who have done wrong", here implies the people who are serving others than the Lord of the Universe, who disbelieve in the Hereafter, who regard themselves as irresponsible in the world, and have denied those Prophets who have tried to make them understand the re... ality. 57 This is the answer to the disbelievers' demand: "Why doesn't the Day of Retribution Overtake us? Why is it being delayed?"  Show more

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :56 ظلم سے مراد یہاں حقیقت اور صداقت پر ظلم کرنا ، اور خود اپنی فطرت پر ظلم کرنا ہے ۔ سیاق و سباق خود بتا رہا ہے کہ یہاں ظلم کرنے والوں سے وہ لوگ مراد ہیں جو خداوند عالم کے سوا دوسروں کی بندگی کر رہے ہیں ، جو آخرت کے منکر ہیں اور اپنے آپ کو دنیا میں غیر ذمہ دار سمجھ رہ... ے ہیں ، اور ان انبیاء کو جھٹلا رہے ہیں جنہوں نے ان کو حقیقت سے خبردار کرنے کی کوشش کی ہے ۔ سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :57 یہ جواب ہے کفار کے اس مطالبہ کا کہ وہ یوم الجزا کہاں آتے آتے رہ گیا ہے ، آخر وہ آ کیوں نہیں جاتا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(51:59) فان : ف عاطفہ ان حرف تحقیق ہے۔ بےشک، یقینا، تحقیق۔ للذین ظلموا۔ لام اختصاص کا ہے۔ الذیناسم موصول جمع مذکر، صلہ۔ جنہوں نے ظلم کیا۔ جنہوں نے اپنے رسول کی تکذیب کی ذنوبا : ان کا اسم ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ذنوب اصل میں بڑے ڈول کو کہتے ہیں جس سے کنویں سے پانی نکالا جاتا ہے۔ عربوں کی عادت تھی ... کہ کنووں اور کھایوں کا پانی ڈول سے تقسیم کیا کرتے تھے۔ ڈول کے ذریعہ پانی تقسیم کرنے میں الراجز کا شعر ہے لنا ذنوب ولکم ذنوب فان ابیتم فلنا القلیب (ہمارے تمہارے درمیان پانی کی تقسیم ) ایک ڈول تمہارا اور ایک ڈول ہمارا ہے۔ اگر تم یہ نہیں مانتے تو ساری کی ساری کجایء (یا کنواں) ہماری ہے۔ اس سے ذنوب یعنی الدلو (ڈول) کا اطلاق نصیب یعنی حصہ پر ہونے لگا۔ اصحابھم : مضاف مضاف الیہ۔ ان کے ساتھی۔ ان کے ہم مشرب۔ یعنی وہ گذشتہ زمانہ کے لوگ جنہوں نے اپنے رسول کی نافرمانی کی اور ان کی تکذیب کی اور ان کی تکذیب کے مرتکب ہوئے۔ ہم کی ضمیر قریش مکہ کی طرف راجع ہے۔؎ اضواء القران میں ہے :۔ معنی الایۃ الکریمۃ۔ فان للذین ظلموا بکتذیب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذنوبا ای نصیبا من عذاب اللہ مثل ذنوب اصحابھم من الامم الماضیۃ من العذاب لما کذبوا رسلہم۔ تحقیق ان ظالموں کے لئے جنہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کی خدا کے عذاب سے ویسا ہی حصہ ہے جیسا کہ ان کے ساتھیوں یا ہم مشربوں کا تھا جو گذشتہ امتوں میں اپنے رسولوں کی تکذیب کے مرتکب ہوئے۔ لایستعجلون : مضارع منفی جمع مذکر غائب استعجال (استفعال) مصدر۔ جلدی مچنا۔ کسی چیز کے جلد واقع ہونے کی طلب کرنا۔ اصل لا یستعجلوننی وہ مجھ سے (اس عذاب کے آجانے کی) جلدی طلب نہ کریں۔ (یہ عذاب تو ان کے نصب میں ہوچکا ۔ اور اپنے وقت پر آکر رہے گا) کافر جو کہتے تھے۔ متی ھذا الوعد ان کنتم صدقین یہ ان کو اس کا جو اب ہے ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 ڈول سے مراد گناہوں کا ڈول ہے اور اس کے بھرنے کا مطلب شامت کی گھڑی کا آ پہنچنا ہے۔ 13 یعنی ان کی شامت کی گھڑی قریب آپہنچی ہے (چاہے دنیا میں اور چاہے مرنے کے بعد آخرت میں) وہ جلدی کیوں مچا رہے ہیں

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کو جو لوگ رزاق نہیں مانتے اور آخرت پر یقین نہیں رکھتے وہ دنیا اور آخرت میں اس طرح ہی نقصان پائیں گے جس طرح ان سے پہلے مجرم نقصان پاچکے ہیں۔ اہل مکہ کے جرائم : یہاں ظلم سے مراد ہر قسم کے گناہ ہیں۔ جن میں سرفہرست شرک ہے۔ ان آیات میں ایک طرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وس... لم) کو تسلی دی گئی ہے اور دوسری طرف کفار کی عادت اور ان کا انجام بتلایا گیا ہے اہل مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وہی الزام لگا رہے تھے جو ان سے پہلے ظالم لوگ انبیاء پر لگایا کرتے تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر الزام لگانے والوں کو انتباہ کیا گیا ہے کہ باز آجاؤ ورنہ تمہارا انجام بھی پہلے ظالموں جیسا ہوگا۔ دنیا کے برے انجام کے ساتھ جس دن کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے اس دن تمہارا انجام نہایت بدترین ہوگا۔ ( عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَیَأْتِیَنَّ عَلٰی أُمَّتِی مَا أَتَی عَلٰی بَنِی إِسْرَاءِیلَ حَذْوَ النَّعْلِ بالنَّعْلِ حَتّٰی إِنْ کَانَ مِنْہُمْ مَنْ أَتٰی أُمَّہُ عَلَانِیَۃً لَکَانَ فِی أُمَّتِی مَنْ یَصْنَعُ ذَلِکَ وَإِنَّ بَنِی إِسْرَاءِیلَ تَفَرَّقَتْ عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِی عَلٰی ثَلَاثٍ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً کُلُّہُمْ فِی النَّارِ إِلَّا مِلَّۃً وَاحِدَۃً قَالُوْا وَمَنْ ہِیَ یَا رَسُول اللَّہِ قَالَ مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِی) (رواہ الترمذی : باب ماجاء فی افتراق ہذ ہ لامۃ) ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری امت میں ایسا وقت ضرور آئے گا کہ وہ بنی اسرائیل کے ساتھ بالکل اس طرح مل جائے گی جس طرح ایک جو تا دوسرے جوتے کے ساتھ ملا ہوا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے اعلانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی ایسا ضرور ہوگا۔ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئی۔ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ ایک گروہ کے علاوہ سارے کے سارے جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ نے استفسار کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ کون سا گروہ ہے ؟ آپ نے فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر عمل کرنے والا ہوگا۔ (عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افْتَرَقَتِ الْیَہُودُ عَلَی إِحْدَی وَسَبْعِینَ فِرْقَۃً فَوَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَسَبْعُونَ فِی النَّارِ وَافْتَرَقَتِ النَّصَارَی عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ فِرْقَۃً فَإِحْدَی وَسَبْعُونَ فِی النَّارِ وَوَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَتَفْتَرِقَنَّ أُمَّتِی عَلَی ثَلاَثٍ وَسَبْعِینَ فِرْقَۃً فَوَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَثِنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِی النَّار قیلَ یَا رَسُول اللَّہِ مَنْ ہُمْ قَالَ الْجَمَاعَۃُ ) (رواہ ابن ماجۃ : باب افْتِرَاقِ الأُمَم) ” حضرت عوف بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہودی اکہتر فرقوں میں بٹے تھے ان کے ستر فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں اور عیسائی بہتر فرقوں میں بٹے تھے ان میں سے اکہتر جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے میری امت تہتر فرقوں میں بٹے گی ان میں سے بہتر جہنمی ہوں گے اور ایک جنتی، صحابہ نے عرض کی جنت میں جانے والے کون ہیں آپ نے فرمایا وہ جماعت (جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر چلنے والے) ہے۔ “ تفسیر بالقرآن ظالم لوگ : ١۔ اللہ پر جھوٹ بولنے والا بڑا ظالم ہے۔ (الانعام : ١٤٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا اور اس کی آیات کو جھٹلانے والا بڑا ظالم ہے۔ (الانعام : ٢١) ٣۔ جو اللہ کی آیات سن کر اعراض کرتا ہے وہ ظالم ہے۔ (الکہف : ٥٧) ٤۔ اللہ پر جھوٹ بولنے والا اور سچائی کو جھٹلانے والا ظالم ہے۔ (العنکبوت : ٦٨) ٥۔ اسلام کی دعوت پہنچ جانے کے باوجودجو اللہ پر جھوٹ باندھے وہ ظالم ہے۔ (الصف : ٧) ٦۔ گواہی کو چھپانے والا بڑا ظالم ہے۔ (البقرۃ : ١٤٠) ٧۔ مسجدوں سے روکنے والا بڑا ظالم ہے۔ (البقرۃ : ١١٤)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21:۔ ” فان للذین۔ الایۃ “ یہ تخویف دنیوی ہے۔ مکہ کے ان ظالموں اور مشرکوں کے لیے عذاب کا ایک حصہ مخصوص ہے جس طرح اقوام سابقہ کے ان جیسے ظالموں کو عذاب کا حصہ چکھایا گیا اس لیے وہ جلدی نہ کریں ان کے حصے کا عذاب ان کو مل کر رہے گا۔ عذاب کا معین وقت آنے کی دیر ہے۔ ” فویل للذین کفروا۔ الایۃ “ جس یوم عذاب...  کا ان کافروں سے وعدہ کیا گیا ہے وہ دن ان کے لیے نہایت ہی ہلاکت خیز اور ان کی تباہی و بربادی کا دن ہوگا۔ اس دن سے جنگ بدر کا دن مراد ہے۔ جس میں کفر و شرک کے سرغنوں نے مٹھی بھر اور بےہتھیار مسلمانوں کے ہاتھوں قتل اور قید و بند کے ذلت آمیز عذاب کا مزہ چکھایا۔ یا اس سے قیامت کا دن مراد ہے (بحر، خازن) ۔ اس صورت میں یہ تخویف اخروی ہوگی۔ یعنی آخرت میں موجودہ اور گذشتہ ظالموں اور سرکشوں کے لیے ایک ہی جیسا عذاب ہے، اس لیے وہ جلدی نہ کریں۔ قیامت کے دن سب اگلے پچھلے مشرکین و ظالمین عذاب کا مزہ چکھ لیں گے۔ وہ دن ان کی ہلاکت و تباہی کا دن ہوگا۔ سورة الذاریات میں آیات توحید :۔ 1 ۔ ” ولا تجعلوا مع اللہ الھا اخر۔ نفی شرک ہر قسم۔ سورة الذاریات ختم ہوئی  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(59) پس بلا شبہ ان ظالموں کے لئے بھی ایک باری مقرر ہے جس طرح ان کے ہم مشربوں کی باری مقرر تھی لہٰذا یہ مجھ سے عذاب طلب کرنے میں جلدی نہ کریں۔ یہ عبادت میں شریک کرنے والوں کو دھمکی فرمائی یعنی یہ کفار مکہ جو ظلم اور شرک فی العبادات کا ارتاکاب کررہے ہیں اور اپنی صفائی میں یہ کہتے ہیں کہ اگر غلط کار ہی... ں تو ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا۔ اس کو فرمایا کہ ان کا بھی عذاب میں ایک حصہ ہے جس طرح ان سے پہلے جو ان کے ہم خیال اور مشرک تھے ان کا بھی ایک حصہ اور باری مقرر تھی جب ان کی نائو اور ان کا ڈول بھر گیا تو ان کی باری پوری ہوگئی جب ان کا ڈول اور ان کے پاپ کی نائو بھر جائیگی تو ان کی بھی باری پوری ہوجائے گی عذاب الٰہی ایک پنگھٹ ہے جس کا وقت اور جس کی باری آجاتی ہے اسی کا ڈول بھر دیاجاتا ہے اور اسی پر عذاب خداوندی نازل ہوجاتا ہے ۔ لہٰذا عذاب میں جلدی کرنا بےسود ہے۔ حضرت شاہ صاحب کے ترجمے سے یہ بات خوب سمجھ میں آجائیگی حضرت شاہ صاحب (رح) اس آیت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں سو ان گناہگاروں کا بھی ڈول بھرا ہے جیسے ڈول بھران کے ساتھیوں کا اب مجھ سے شتابی نہ کریں مطلب یہ ہے کہ ہر ایک کے ڈول بھرنے کی باری مقرر ہے ان کے ہم خیالوں کی باری آئی تو ان کا ڈول بھر دیا گیا۔ جب ان کی باری آئے گی تو ان کو بھی حصہ مل جائے گا عذاب کی تاخیر کے لئے کیا بہترین تعبیر ہے عرب میں پانی سے بھر کر بڑا ڈول رکھ لیا کرتے تھے اور باری باری سے حصہ رسدی پانی سب کو ان کے وقت پر دیاجاتا تھا کئی طرح شارحین نے مطلب بیان کیا ہے۔ خلاصہ : یہ ہے کہ عذاب میں جلدی کرنا بےکار ہے کام اپنے نمبر پر ہوگا۔  Show more