Surat ut Toor

The Mount

Surah: 52

Verses: 49

Ruku: 2

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

حضرت جبیر بن مطعم فرماتے ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب کی نماز میں سورہ طور پڑھتے ہوئے سنا ہے آپ سے زیادہ خوش آواز اور آپ سے زیادہ اچھی قرأت والا میں نے تو کسی کو نہیں سنا ( موطا مالک ) حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں زمانہ حج میں میں بیمار تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے اپنا حال کہا ت... و آپ نے فرمایا تم سواری پر سوار ہو کر لوگوں کے پیچھے پیچھے طواف کر لو ، چنانچہ میں نے سواری پر بیٹھ کر طواف کیا اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے ایک کونے میں نماز پڑھ رہے تھے اور آیت ( وَالطُّوْر وَكِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ ِ ) 52- الطور:1 ) کی تلاوت فرما رہے تھے ( بخاری ) ۔  Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الطُّوْر نام : پہلے ہی لفظ وَالطُّوْرِ سے ماخوذ ہے ۔ زمانۂ نزول : مضامین کی اندرونی شہادت سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بھی مکہ معظمہ کے اسی دور میں نازل ہوئی ہے جس میں سورہ ذاریات نازل ہوئی تھی ۔ اس کو پڑھتے ہوئے یہ تو ضرور محسوس ہوتا ہے کہ اس کے نزول کے زمانے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے...  خلاف اعتراضات اور الزامات کی بوچھاڑ ہو رہی تھی ، مگر یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ظلم و ستم کی چکی زور شور سے چلنی شروع ہو گئی تھی ۔ موضوع اور مباحث : اس کے پہلے رکوع کا موضوع آخرت ہے ۔ سورہ ذاریات میں اس کے امکان اور وجوب اور وقوع کے دلائل دیے جا چکے تھے ، اس لیے یہاں ان کا اعادہ نہیں کیا گیا ہے ، البتہ آخرت کی شہادت دینے والے چند حقائق و آثار کی قسم کھا کر پورے زور کے ساتھ یہ فرمایا گیا ہے کہ وہ یقیناً واقع ہو کر رہے گی اور کسی میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اسے برپا ہونے سے روک دے ۔ پھر یہ بتایا گیا ہے کہ جب وہ پیش آئے گی تو اس کے جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوگا ، اور اسے مان کر تقویٰ کی روش اختیار کر لینے والے کس طرح اللہ کے انعامات سے سرفراز ہوں گے ۔ اس کے بعد دوسرے رکوع میں سرداران قریش کے اس رویے پر تنقید کی گئی ہے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مقابلے میں اختیار کیے ہوئے تھے ۔ وہ آپ کو کبھی کاہن ، کبھی مجنون اور کبھی شاعر قرار دے کر عوام الناس کو آپ کے خلاف بہکاتے تھے تاکہ لوگ آپ کے لائے ہوئے پیغام کی طرف سنجیدگی سے توجہ نہ کریں ۔ وہ آپ کی ذات کو اپنے حق میں ایک بلائے ناگہانی سمجھتے تھے اور علانیہ کہتے تھے کہ کوئی آفت ان پر نازل ہو جائے تو ہمارا ان سے پیچھا چھوٹے ۔ وہ آپ پر الزام لگاتے تھے کہ یہ قرآن آپ خود گھڑ گھڑ کر خدا کے نام سے پیش کر رہے ہیں اور یہ معاذاللہ ایک فریب ہے جو آپ نے بنا رکھا ہے ۔ وہ بار بار طنز کرتے تھے کہ خدا کو نبوت کے لیے ملے بھی تو بس یہ صاحب ملے ۔ وہ آپ کی دعوت و تبلیغ سے ایسی بیزاری کا اظہار کرتے تھے جیسے آپ کچھ مانگنے کے لیے ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور وہ اپنی جان چھڑانے کے لیے آپ سے منہ چھپاتے پھرتے ہیں ۔ وہ آپس میں بیٹھ بیٹھ کر سوچتے تھے کہ آپ کے خلاف کیا چال ایسی چلی جائے جس سے آپ کی اس دعوت کا خاتمہ ہو جائے ۔ اور یہ سب کچھ کرتے ہوئے انہیں اس امر کا کوئی احساس نہ تھا کہ وہ کیسے جاہلانہ عقائد میں مبتلا ہیں جن کی تاریکی سے لوگوں کو نکالنے کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم بالکل بے غرضانہ اپنی جان کھپا رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اسی رویے پر تنقید کرتے ہوئے پے در پے کچھ سوالات کیے ہیں جن میں سے ہر سوال یا تو ان کے کسی اعتراض کا جواب ہے یا ان کی کسی جہالت پر تبصرہ ۔ پھر فرمایا ہے کہ ان لوگوں کو آپ کی نبوت کا قائل کرنے کے لیے کوئی معجزہ دکھانا قطعی لا حاصل ہے ، کیونکہ یہ ایسے ہٹ دھرم لوگ ہیں انہیں خواہ کچھ بھی دکھا دیا جائے ، یہ اس کی کوئی تاویل کر کے ایمان لانے سے گریز کر جائیں گے ۔ اس رکوع کے آغاز میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت فرمائی گئی ہے کہ ان مخالفین و معاندین کے الزامات و اعتراضات کی پروا کیے بغیر اپنی دعوت و تذکیر کا کام مسلسل جاری رکھیں ، اور آخر میں بھی آپ کو تاکید فرمائی گئی ہے کہ صبر کے ساتھ ان مزاحمتوں کا مقابلہ کیے چلے جائیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آ جائے ۔ اس کے ساتھ آپ کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ آپ کے رب نے آپ کو دشمنان حق کے مقابلے میں اٹھا کر اپنے حال پر چھوڑ نہیں دیا ہے بلکہ وہ برابر آپ کی نگہبانی کر رہا ہے ۔ جب تک اس کے فیصلے کی گھڑی آئے ، آپ سب کچھ برداشت کرتے رہیں اور اپنے رب کی حمد و تسبیح سے وہ قوت حاصل کرتے رہیں جو ایسے حالات میں اللہ کا کام کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے ۔  Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ٭… اس سورة میں کوہ طور، کشادہ ورقوں میں لکھی گئی کتاب، بیت معمور، اونچی چھت (آسمان) اور موجیں مارتے سمندر کی قسم کھا کر فرمایا گیا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے پروردگار کا عذاب (ان کافروں پر ) واقع ہو کر رہے گا جسے کوئی ٹال نہ سکے گا۔ یہ وہ دن ہوگا جب آسمان ... تھرتھرا جائے گا، پہاڑا اڑے پھریں گے۔ یہ دن اللہ کے دین کو جھٹلانے والوں کے لئے بڑا سخت دن ہوگا جو اس سچے دین کو کھیل بنائے ہوئے ہیں۔ جب انہیں دھکے دے کر جہنم کی طرف لے جاتے ہوئے کہا جائے گا کہ یہی وہ آگ ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔ پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ یہ جادو ہے ؟ یا تمہیں دیکھ کر بھی نظر نہیں آ رہا ؟ ان کو اسی جہنم میں داخل کرتے ہوئے ان سے کہا جائے گا اس جہنم میں تم چلا ئو یا صبر کرو دونوں برابر ہیں کیونکہ یہ تمہارے ان اعمال کے بدلے میں دی گئی ہے جو تم دنیا میں کرتے تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا گیا کہ کفار کی طرف سے اسی طرح مذاق اڑایا جاتا رہے گا لیکن آپ ان کی پرواہ نہ کیجیے کیونکہ آپ براہ راست اللہ کی نگرانی میں ہیں۔ آپ کا یہ سب مل کر بھی کچھ بگاڑ نہ سکیں گے۔ آپ صبر و تحمل اور برداشت سے کام لے کر اپنے مشن اور مقصد کو آگے بڑھاتے رہیے اور دلی سکون حاصل کرنے کے لئے صبح و شام اور رات کے آخری حصے میں اللہ کی حمد و ثنا کیجیے۔ ٭… اس ہولناک دن میں سب ایک ہی حالت میں نہ ہوں گے بلکہ جن لوگوں نے دنیا میں تقویٰ ، پرہیز گاری اور نیکی کے ساتھ زندگی گزاری ہوگی ان کو جنت میں داخل کیا جائے گا جہاں وہ ان تمام نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے جو ان کا رب انہیں عطا فرمائے گا اور ان کو جہنم کی آگ سے محفوظ رکھے گا۔ ان سے کہا جائے گا کہ خوب کھائو اور پیو یہ تمہارے ان کاموں کا بدلہ ہے جو تم کرتے رہے تھے۔ وہ لوگ جنت میں بچھے ہوئے تخت اور مسہریوں پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ خوبصورت اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے ان کے نکاح کردیئے جائیں گے اور ان کی وہ اولادیں اور گھرو الے جو صاحبان ایمان ہوں گے ان کو جنت کے نچلے طبقے سے اعلیٰ ترین جنتوں میں لا کر آپس میں ملا دیا جائیگا اور وہ ان کے ساتھ ہی رہیں گے۔ ان کو ہر طرح کے پھل اور پرندوں کا بہترین گوشت اور دوسری نعمتیں عطا کی جائیں گی۔ وہ ایک دوسرے سے بےتکلفی کے انداز میں شراب کے جام پر چھینا جھپٹی کر رہے ہوں گے۔ وہاں وہ کسی قسم کے لغو اور فضول باتوں کو نہس نیں گے اور نہ کسی طرح کی بدکاریوں کو دیکھیں گے۔ ان کی خدمت کے لئے وہ لڑ کے بھاگ دوڑ کر رہے ہوں گے جو پوری جنت میں قیمتی موتیوں کی طرح بکھرے ہوئے ہوں گے۔ یہ لوگ آپس میں ایک دور سے سے دنیا میں گزرے ہوئے حالات کو پوچھیں گے اور کہیں گے کہ ہم تو اپنے گھروں میں ڈرتے ہوئے زندگی گزار رہے تھے لیکن یہ اللہ کا کتنا بڑا فضل و کرم ہے کہ اس نے ہمیں خوف سے نجات عطا فرما کر ہم پر اپنی رحمتیں نازل فرما دی ہیں اور ہمیں اس جہنم کی آگ سے بچا لیا جو جھلسا کر رکھ دینے والی ہے۔ یہ سب کا سب اللہ کا فضل و احسان ہے۔ فرمایا کہ یہ کفار نہایت بےعقل اور ناسمجھ ہیں جو کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قرآن کو خود سے گھڑ لیا ہے۔ حالانکہ اللہ نے ساری دنیا کو اس بات کا چیلنج دیا ہے کہ اگر کسی کو قرآن کریم کے کلام اللہ ہونے پر ذرا بھی شک و شبہ ہے تو وہ سب مل کر قرآن کریم کی ایک سورت ہی بنا کرلے آئیں۔ لیکن وہ ہزاروں مخالفتوں کے باوجود بھی قرآن کریم جیسا کلام بنا کر نہ لاسکے جو خود اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کریم اللہ کا کلام ہے اور یہ کوئی انسان کلام نہیں ہے۔ ٭… کفار قریش نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی کاہن ، کبھی شاعر اور کبھی مجنوں کہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ہمارے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے فضل و کرم سے نہ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کاہن ہیں نہ مجنون اور نہ شاعر بلکہ یہ لوگ آپ کے لئے برے دنوں کے منتظر ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجیے کہ تم انتظار کرو میں بھی تمہارے انجام کا انتظار کر رہا ہوں۔ فرمایا کہ یہ کفار کس قدر بےعقل لوگ ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دشمنی میں اس بات کو بھول گئے کہ قرآن کریم اللہ کا وہ کلام ہے جو ہر ایک کو چیلنج کرتا ہے کہ اگر کسی کو ذرا بھی شک ہے کہ یہ لوگ کا کلام نہیں ہے تو وہ اس جیسا کلام لے کر آجائے مگر ان سچائیوں کو جانتے ہوئے بھی وہ کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قرآن کو خود سے گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کردیا ہے۔ یہ درحقیقت ایمان لانے سے بھاگنے کے بہانے اور ان کی بےعقلی کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان جیسے لوگوں سے آٹھ سوالات کئے ہیں۔ (١) کیا یہ لوگ خود اپنے خلاق ہیں یا اپنی مرضی سے پیدا کئے گئے ہیں اور خود ہی اپنے آپ کو پیدا کرنے والے ہیں ؟ (٢) کیا زمین و آسمان کو انہوں نے پیدا کیا ہے ؟ (٣) کیا ان کے پاس خزانے ہیں جن پر ان کا حکم چلتا ہے ؟ (٤) کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر وہ غیب کی خبریں لے کر آتے ہیں ؟ کیا ان کیپ اس اس کی کوئی مضبوط دلیل ہے ؟ (٥) کیا یہ لوگ اللہ کے لئے تو (فرشتوں کو) بیٹیاں تجویز کرتے ہیں اور خود بیٹوں کو پسند کرتے ہیں ؟ (٦) اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ ان سے تبلیغ دین پر کوئی معاوضہ ، صہلہ یا بدلہ مانگ رہے ہیں کہ اس کے بوجھ تلے یہ لوگ دبے جا رہے ہیں ؟ (٧) کیا اللہ کے سوا دوسرا کوئی معبود ہے جس کی یہ عبادت و بندگی کرتے ہیں اور دوسروں کو اللہ کا شریک بناتے ہیں ؟ (٨) کیا ان کے پاس غیب سے لکھی لکھائی کوئی کتاب ہے جسے پڑھ کر یہ اس پر عمل کرتے ہیں ؟ یقینا نہ تو یہ خود اپنے خلاق ہیں نہ انہوں نے زمین و آسمان کو پیدا کیا نہ ان کے پاس خزانے ہیں نہ وہ سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر وہ عالم بالا کی خبریں لاتے ہیں۔ نہ فرشتے اللہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ نہ اللہ کے سوا دوسرا کوئی معبود ہے۔ نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کسی صلے یا بدلے کی خواہش کرتے ہیں نہ ان کے پاس کوئی لکھی لکھائی کتاب ہے۔ یہ سب باتیں دراصل ایمان سے بھاگنے کی کوششیں ہیں۔ فرمایا کہ ان لوگوں کا یہ حال ہے کہ اگر آسمان کے کسی ٹکڑے کو گرتے دیکھیں تو یہی کہیں گے کہ شاید کوئی گہرا بادل امڈا چلا آ رہا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجیے یہاں تک کہ یہ اس دن میں پہنچ جائیں گے جہاں نہ کوئی ان کے کسی کام آسکے گا اور نہ کسی طرح سے ان کی مدد کی جائے گی اور عذاب الٰہی ان پر چھا جائے گا۔ یہ فیصلہ کا دن ہوگا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبر و برداشت سے کام لیجیے اور اپنے مقصد کو جاری رکھیے۔ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہر طرح کی دشمین کرسکتے ہیں مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے کیونکہ آپ براہ راست ہماری نگرانی میں ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دلی سکون حاصل کرنے کے لئے صبح و شام اور رات کے آخری حصے میں اللہ کی حمد وثناء کیجیے اسی میں سکون قلب کی دولت نصیب ہوتی ہے۔   Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

سورة الطورکا تعارف یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی اس کے دو رکوع اور انچاس (٤٩) آیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتداء میں چھ قسمیں اٹھا کر اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ جس دن کا تم انکار کرتے ہو اس دن کا عذاب مجرموں پر ضرور واقع ہوگا جسے کوئی بھی ٹال نہیں سکے گا۔ اس دن کی ابتداء یوں ہوگی کہ آسمان پو... ری طرح ڈگمگا جائے گا اور پہاڑ ریت بن کر اڑنا شروع کردیں گے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے عذاب اور قیامت کے دن کو جھٹلاتے ہیں اس دن انہیں دھکے مار مار کر جہنم میں پھینکا جائے گا اور پھر انہیں کہا جائے گا کہ اب بتلاؤ یہ عذاب حقیقت ہے یا جادو ؟ حکم ہوگا کہ اب صبر کرو یا واویلا کرو تمہیں اسی کی سزا دی جائے گی جو تم کیا کرتے تھے۔ ان کے مقابلے میں متّقی لوگوں کو نعمتوں والی جنت میں داخل کیا جائے گا وہ تکیوں پر تشریف فرما ہوں گے اور انہیں کھانے کے لیے وہ کچھ ملے گا جس کی وہ چاہت کریں گے۔ بےانتہا خوبصورت حوریں ان کے نکاح میں دی جائیں گی یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوگا۔ جن جنتیوں کی اولادیں درجات میں کم درجہ ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرما کر انہیں انکے والدین کے ساتھ اعلی مقام عنایت فرمائے گا۔ جنت میں کسی قسم کی لغویات اور گناہ نہیں ہوں گے۔ اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ نصیحت فرمائی گئی کہ آپ لوگوں کو نصیحت کرتے جائیں اور یہ یقین رکھیں کہ آپ اپنے رب کے فضل سے کاہن اور مجنوں نہیں ہیں۔ ١۔ کیا کافر آپ کو شاعر کہتے ہیں اور آپ کے بارے میں برے حالات کا انتظار کرتے ہیں۔ انہیں فرمائیں تم میرے بارے میں انتظار کرو میں بھی تمہارے انجام کا انتظار کرتا ہوں۔ ٢۔ کیا ان کی عقلیں انہیں یہی کچھ سکھاتی ہیں۔ ٣۔ یا یہ لوگ سرکشی میں حد سے بڑھ چکے ہیں۔ ٤۔ کیا کافر کہتے ہیں کہ آپ نے قرآن خود بنالیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ ایمان لانے کے لیے تیار نہیں اگر وہ اپنے الزام میں سچے ہیں تو انہیں قرآن کے چیلنج کا جواب قبول کرنا چاہیے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کو یہ لوگ معبود برحق ماننے کے لیے تیار نہیں کیا انہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے ؟ یا اپنے آپ پیدا ہوگئے ہیں ؟ ٦۔ کیا انہوں نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ یقین کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ٧۔ کیا یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کے خزانوں کے مالک ہیں ؟ ٨۔ کیا وہ آپ کے رب کے خزانوں پر چوکیدار ہیں ؟ ٩۔ کیا ان کے پاس سیڑھی ہے کہ یہ آسمان کی باتیں سن لیتے ہیں اگر سن لیتے ہیں تو انہیں اپنے حق میں کوئی واضح دلیل پیش کرنی چاہیے۔ ١٠۔ کافر کہتے ہیں کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں کیا ” اللہ “ کے لیے بیٹیاں ہیں اور ان کے لیے بیٹے ہیں ؟ ١١۔ کیا آپ ان سے اجر مانگتے ہیں جس کے بوجھ تلے یہ دبے جارہے ہیں۔ ١٢۔ کیا ان کے پاس علم غیب ہے جسے یہ لکھ لیتے ہیں۔ ١٣۔ کیا یہ کوئی اور سازش کرنا چاہتے ہیں ؟ یاد رکھیں کہ یہ اپنی سازش میں خود ہی پھنس جائیں گے۔ ١٤۔ کیا اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا کوئی اور معبودِبرحق ہے ؟ انہیں بتلا دیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے بنائے ہوئے شریکوں سے مبرّاہے۔   Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورة طور ایک نظر میں یہ سورة انسانی قلب پر ایک پرتاثیر اور گہرا حملہ ہے اس میں ان شکوک و شبہات اور باطل خیالات کا پیچھا کیا گیا ہے جو دل پر ہمیشہ حملہ آور ہوتے ہیں۔ جو خفیہ طور پر گھس کر دل کے اندر چھپ جاتے ہیں۔ اس سورة میں ہر باطل دلیل کی سختی سے تردید ہے۔ ہر عذر کا معقول جواب ہے جس کے بہانے کو... ئی انسان جادہ حق سے ادھر ادھر بھٹک سکتا ہے اور راہ ایمان سے ٹیڑھا جاسکتا ہے۔ یہ ایک ایسا زبردست حملہ ہے کہ کوئی دل اس کے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکتا اگر وہ پتھر نہ ہوگیا ہو۔ یہ سورة اس تیزی سے دلوں کا تعاقب کرتی ہے کہ یقین آنے اور تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں رہتا۔ اس حملے میں الفاظ اور عبارات کے ہتھیار بھی استعمال ہوئے ہیں۔ معانی ومدلولات بھی استعمال ہوئے ہیں۔ تصاویر اور پرتو بھی شامل ہیں۔ آیات کے مسجع اور مقلی خاتمے اور ان کا زبردست ترنم سب کے سب شامل ہیں۔ سورة کے آغاز سے اختتام تک یوں نظر آتا ہے کہ مسلسل گولہ باری ہورہی ہے۔ اس قسم کے دھماکے ہورہے ہیں کہ گویا بجلی کی کڑک ہے۔ ایسی جھلکیاں اور ایسے رنگ ہیں کہ گویا پردہ احساس پر ارتعاش پیدا کرنے کے لئے مسلسل شدید کوڑے برسائے جارہے ہیں۔ آغاز سے انجام تک انسان کے دل و دماغ کو ذرا مہلت بھی نہیں دی جاتی۔ سورة کے آغاز میں زمین اور آسمان کے مقدسات کی قسم کھائی گئی ہے۔ بعض مقدس چیزیں کھلی ہیں اور بعض پردہ غیب میں ہیں۔ والطور ........ المسجور (٦) (٢٥ : ١ تا ٦) ” قسم ہے طور کی اور ایک کھلی کتاب کی جو رقیق جلد میں لکھی ہوئی ہے اور آباد گھر کی اور اونچی چھت کی اور موجزن سمندر کی۔ “ یہ قسم کس بات پر ہے۔ ایک نہایت ہی خوفناک امر پر جس کے تصور سے دل کانپ اٹھتا ہے۔ احساسات مرعوب ہوجاتے ہیں۔ اس کی لفظی اور معنوی دونوں قسم کی تعبیرات ہولناک ہیں۔ ایک ایسے منظر کی شکل میں جس کو دیکھ کر انسان کے قدم جم نہیں سکتے۔ ان عذاب ........ الجبال سیرا (٠١) (٢٥ : تا ٠١) ” کہ تیرے رب کا عذاب ضرور واقع ہونے والا ہے جسے کوئی دفع کرنے والا نہیں۔ وہ اس روز واقع ہوگا جب آسمان بری طرح ڈگمگائے گا اور پہاڑ اڑے اڑے پھریں گے۔ “ اور اس خوفناک منظر کے درمیان ہم ایک تنبیہ جھڑکی آتی ہے جو دونوں کو ڈرا دیتی ہے اور وہ مرعوب ہوجاتے ہیں۔ ہلاکت و بربادی اور خوف وہراس سے۔ فویل یومئذ ........ تعملون (٦١) (٢٥ : ١١ تا ٦١) ” تباہی ہے اس روز ان جھٹلانے والوں کے لئے جو آج کھیل کے طور پر اپنی حجت بازیوں میں لگے ہوئے ہیں جس دن انہیں دھکے مار مار کر جہنم کی طرف چلایا جائے گا۔ اس وقت ان سے کیا جائے گا کہ یہ وہی آگ ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔ اب بتاؤ، یہ جادو ہے یا تمہیں سوجھ نہیں رہا ہے ؟ جاؤ اب جھلسو اس کے اندر۔ تم خواہ صبر کرو یا نہ کرو۔ تمہارے لئے یکساں ہے تمہیں ویسا ہی بدلہ دیا جارہا ہے جیسے تم محمل کررہے تھے۔ “ یہ تو تھا حملہ اور تعاقب لیکن اس کے بالمقابل ایک دوسرا رنگ اور دوسرا منظر بھی ہے جن لوگوں نے پہلا خوفناک منظر دیکھا انہیں امید دلانے کے لئے امن اور نعمتوں سے بھرا ہوا ایک منظر دیکھ لیجئے۔ منقی لوگوں کے شب وروز اور ان کے اعز از کے لئے ہونے والے انتظامات نہایت وسیع پیمانے پر عیش و عشرت کے لئے بھی دیکھ لیجئے۔ یہ ایک طویل منظر ہے۔ اس کی تفصیلات فرعیات تک دی جارہی ہیں۔ کئی رنگ کی تیاریاں جس کے نتیجے میں احساس اور روح دونوں میں ایک جوش پیدا ہوتا ہے۔ اس سے قبل تو ہولناک منظر دیکھا تھا اب ایک ایسا منظر جسے دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتی ہیں۔ ان المتقین ........ الرحیم (٢٥ : ٨٢) (٢٥ : ٧١ تا ٨٢) ” متقی لوگ وہاں باغوں اور نعمتوں میں ہوں گے لطف کررہے ہوں گے ان چیزوں سے جو ان کا رب انہیں دے گا اور ان کا رب انہیں دوزخ کے عذاب سے بچالے گا۔ ان سے کہا جائے گا کھاؤ اور پیو مزے سے اپنے ان اعمال کے صلے میں جو تم کرتے رہے ہو۔ وہ آمنے سامنے بچھے ہوئے تختوں پر تکئے لگائے بیٹھے ہوں گے اور ہم خوبصورت آنکھوں والی حوریں ان سے بیاہ دیں گے۔ جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور ان کی اولاد بھی کسی درجہ ایمان میں ان کے نقش قدر پر چلی ہے ان کی اس اولاد کو بھی ہم ان کے ساتھ ملادیں گے اور ان کے عمل میں کوئی گھٹا ان کو نہ دیں گے۔ ہر شخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے۔ ہم ان کو ہر طرح کے پھل اور گوشت ، جس چیز کو بھی ان کا جی چاہے گا خوب دیئے چلے جائیں گے۔ وہ ایک دوسرے سے جام شراب لپک لپک کرلے رہے ہوں گے جس میں نہ یا وہ گوئی ہوگی ، نہ بدکرداری اور ان کی خدمت میں وہ لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو ان کی خدمت کے لئے مخصوص ہوں گے۔ ایسے خوبصورت جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی۔ یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے حالات پوچھیں گے۔ یہ کہیں گے کہ ہم پہلے اپنے گھروں میں ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے تھے آخرکار اللہ نے ہم پر فضل فرمایا اور ہمیں جھلسادینے والی ہوا کے عذاب سے بچا لیا۔ ہم پچھلی زندگی میں اس سے دعائیں مانگتے تھے۔ وہ واقعی بڑا ہی محسن اور رحیم ہے۔ “ اس سورة کے حصہ اول میں ہم نے عذاب کے لگتے ہوئے کوڑے بھی دیکھ لئے۔ دوسرے حصے میں نعمتوں اور رحمتوں کے مناظر بھی دیکھ لئے۔ اب تیسرا حصہ آتا ہے اس میں ان تخیلات اور سوالات کا پیچھا ہورہا ہے۔ شبہات اور مغالطہ انداز یوں کو لیا جاتا ہے۔ حجت بازیوں اور اور جھوٹے غذرات کو رد کیا جاتا ہے اور حقائق کو صاف ستھرا کرکے سادہ اور سخت انداز میں پیش کردیا جاتا ہے۔ ایسے منطقیانہ اور واضح انداز میں جس کے اندر کوئی تاویل ممکن نہیں ایسے سیدھے انداز میں جس میں کوئی پیچ ویچ نہیں۔ یوں اہل باطل کی گردنیں یقین اور تسلیم کرتے ہوئے جھک جاتی ہیں بلکہ یوں کہا جائے کہ یہ گردنیں مروڑ دی جاتی ہیں۔ اس حصے میں آغاز خطاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے کہ آپ یاد دہانی کراتے رہیں۔ اگرچہ ان لوگوں کا روبہ آپ کے ساتھ درست نہیں ہے اور ان کی سرزنش اس قسم کی سیدھی سیدھی باتوں سے کی جاتی ہے۔ فذکر فما ........ یشرکون (٣٤) (٢٥ : ٩١ تا ٣٤) ” پس اے نبی تم نصیحت کئے جاؤ اپنے رب کے فضل سے نہ تم کاہن ہو نہ مجنون۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے جس کے حق میں ہم گردش ایام کا انتظار کررہے ہیں ؟ ان سے کہو اچھا انتظار کرو ، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔ کیا ان کی عقلیں انہیں ایسی ہی باتیں کرنے کے لئے کہتی ہیں۔ یا در حقیقت یہ عناد میں حد سے گزرے ہوئے لوگ ہیں۔ کیا یہ کہتے ہیں کہ اس شخص نے یہ قرآن خود گھڑ لیا ہے ؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ ایمان نہیں لانے چاہتے۔ اگر یہ اپنے اس قول میں سچے ہیں تو اس شان کا ایک کلام بنالائیں۔ کیا یہ کسی خالق کے بغیر خود پیدا ہوگئے ہیں یا زمین و آسمان کو انہوں نے پیدا کیا ہے ؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ یقین نہیں رکھتے۔ کیا تیرے رب کے خزانے ان کے قبضے میں ہیں ؟ ان پر انہی کا حکم چلتا ہے ؟ کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر یہ عالم بالا کی سن گن لیتے ہیں۔ ان میں سے جس نے سن گن لی ہو وہ لائے کوئی کھلی دلیل۔ کیا اللہ کے لئے تو ہیں بیٹیاں اور تم لوگوں کے لئے ہیں بیٹے۔ کیا تم ان سے کوئی اجر مانگتے ہو کہ یہ زبردستی پڑی ہوئی چٹی کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں ؟ کیا ان کے پاس غیب کے حقائق کا کوئی علم ہے کہ اس کی بنا پر یہ لکھ رہے ہوں ؟ کیا یہ کوئی چال چلنا چاہتے ہیں ؟ اگر یہ بات ہے تو کفر والوں پر ان کی چال الٹی ہی پڑے گی۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور معبود رکھتے ہیں ؟ اللہ پاک ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کررہے ہیں۔ “ ان مسلسل سوالات اور اس آتش بار گولہ باری کے بعد جس نے باطل کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ، معاندین اور مکابرین اور ہٹ دھرمی کرنے والوں کو مشکل میں ڈال دیا اور ہراس زبان کو خاموس کردیا جو حق سے برگشتہ ہوگئی تھی۔ ان کار گزاریوں کے بعد ان کے عقاد ، ہٹ دھرمی اور ضد کی ایک محسوس تصویر پیش کی جاتی ہے۔ وان یروا ........ مرکوم (٢٥ : ٤٤) ” یہ لوگ آسمان کے ٹکڑے بھی گرتے دیکھ لیں تو کہیں گے یہ بادل ہیں جو امڈے چلے آرہے ہیں “ حالانکہ آسمان کے ٹکڑے میں (اگر وہ گرے) اور بادلوں کے تہ برتہ ڈھیر میں فرق بالکل واضح ہے لیکن یہ لوگ حق میں رخنہ اندازی کے لئے ہر شبہ تلاش کرلیتے ہیں۔ اب ان پر آخری گولہ پھینکا جاتا ہے۔ زبردست تہدید کہ تمہیں ایک ایسے عذاب کے سامنے پیش ہونا ہوگا جو خوفناک ہوگا۔ فذرھم ........ ینصرون (٢٥ : ٦٤) ” اے نبی ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو یہاں تک کہ یہ اپنے اس دن کو پہنچ جائیں جس میں یہ مار گرائے جائیں گے جس دن نہ ان کی کوئی اپنی چال ان کے کسی کام آئے گی نہ کوئی ان کی مدد کو آئے گا۔ “ نیز ان کو یہ دھمکی دی جاتی ہے کہ قیامت کے عذاب سے پہلے بھی ان پر عذاب الٰہی آسکتا ہے۔ وان للذین ........ یعلمون (٢٥ : ٧٤) ” اور اس وقت کے آنے سے پہلے بھی ظالموں کے لئے ایک عذاب ہے مگر ان میں سے اکثر جانتے نہیں۔ “ سورة کا خاتمہ ایک نہایت ہی نرم اور خوش آئند ضرب پر ہوتا ہے۔ رخ رسول اللہ کریم کی طرف ہے کہ یہ لوگ آپ کے بارے میں کہتے ہیں۔ شاعر ........ المنون (٢٥ : ٠٣) ” یہ شاعر ہے اور ہم اس کے بارے میں گردش ایام کا انتظار کررہے ہیں۔ “ اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ کاہن اور مجنون ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو تسلی دیتا ہے۔ واصبر ........ تقوم (٢٥ : ٨٤) ومن ........ الجوم (٢٥ : ٩٤) ” اے نبی اپنے رب کا فیصلہ آنے تک صبر کرو ، تم ہماری نگاہ میں ہو۔ تم جب اٹھو تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرو رات کو بھی اس کی تسبیح کیا کرو اور ستارے جب پلٹتے ہیں اس وقت بھی۔ “ یہ ایک آخری ضرب ہے بلکہ تھپکی ہے اور اس سے مقصود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان اذیتوں پر تسلی دینا ہے جو آپ کو معاندین کی طرف سے مل رہی ہیں جن پر اس سورة میں اس قدر زور دار حملے کئے گئے اور ان کو دور تک بلکہ جہنم کے دھانے تک بھگایا گیا۔   Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi