Surat ut Toor

Surah: 52

Verse: 16

سورة الطور

اِصۡلَوۡہَا فَاصۡبِرُوۡۤا اَوۡ لَا تَصۡبِرُوۡا ۚ سَوَآءٌ عَلَیۡکُمۡ ؕ اِنَّمَا تُجۡزَوۡنَ مَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۶﴾

[Enter to] burn therein; then be patient or impatient - it is all the same for you. You are only being recompensed [for] what you used to do."

جاؤ دوزخ میں اب تمہارا صبر کرنا اور نہ کرنا تمہارے لئے یکساں ہے ۔ تمہیں فقط تمہارے کئے کا بدلہ دیا جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

اصْلَوْهَا ... Is this magic or do you not see? Enter therein, meaning, enter the Fire, `which will encircle you from every direction,' ... فَاصْبِرُوا أَوْ لاَا تَصْبِرُوا سَوَاء عَلَيْكُمْ ... and whether you are patient of it or impatient of it, it is all the same. `whether you endure its torment and afflictions or not, you will never avert it or be saved from it,' ... إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ You are only being requited for what you used to do. and surely, Allah is never unjust with anyone. Most certainly, Allah recompenses each according to their deeds.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢] تم نے دنیا میں یہ طے کرلیا تھا کہ جو کچھ بھی ہو ہم کبھی اس دعوت حق کو قبول نہیں کریں گے اور پھر اپنی اس ہٹ دھرمی پر ڈٹ گئے تھے۔ اسی طرح تمہارے عذاب میں کمی نہیں کی جائے گی تم چیخو چلاؤ یا صبر کرکے عذاب برداشت کرتے جاؤ۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) اصلوھا : ظاہر ہے وہ یہی کہیں گے کہ پروردگار ! نہ یہ جادو ہے اور نہ اسے دیکھنے سے ہم اندھے ہیں بس ایک دفعہ ہمیں واپس جانے دے، ہم کبھی انکار نہیں کریں گے۔ (دیکھیے انعام : ٢٧ تا ٣٠) مگر حکم ہوگا اب اس میں داخلے کے بغیر چارہ نہیں، اسی میں جھلستے رہو۔ (٢) فاصبروا ولا تصبروا سوآء علیکم : یعنی تمہارے لئے صبر کرنا یا نہ کرنا دونوں برابر ہیں، کیونکہ نہ صبر سے تمہارے عذاب میں تخفیف ہوگی اور نہ جزع فزع اور واویلا کرنے سے، کیونکہ اب نہ عذاب میں کمی ہوگی، نہ اس میں وقف ہوگا اور نہ اس سے نکل کرسکو گے۔ مزید دیکھیے سورة بقرہ (١٦٢) ، زخرف (٧٥) اور سورة ابراہیم (٢١) ۔ (٣) انما تجزون ما کنتم تعملون : یعنی جس طرح تم نے طے کر رکھا تھا کہ کسی صورت ایمان نہیں لائیں گے، اب اس کی جزا یہی ہے کہ کسی صورت آگ سے نکل نہیں سکو گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِصْلَوْہَا فَاصْبِرُوْٓا اَوْ لَا تَصْبِرُوْا۝ ٠ ۚ سَوَاۗءٌ عَلَيْكُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝ ١٦ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں سواء ومکان سُوىً ، وسَوَاءٌ: وسط . ويقال : سَوَاءٌ ، وسِوىً ، وسُوىً أي : يستوي طرفاه، ويستعمل ذلک وصفا وظرفا، وأصل ذلک مصدر، وقال : فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات/ 55] ، وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص/ 22] ، فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] ، أي : عدل من الحکم، وکذا قوله : إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران/ 64] ، وقوله : سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة/ 6] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون/ 6] ، ( س و ی ) المسا واۃ مکان سوی وسواء کے معنی وسط کے ہیں اور سواء وسوی وسوی اسے کہا جاتا ہے جس کی نسبت دونوں طرف مساوی ہوں اور یہ یعنی سواء وصف بن کر بھی استعمال ہوتا ہے اور ظرف بھی لیکن اصل میں یہ مصدر ہے قرآن میں ہے ۔ فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات/ 55] تو اس کو ) وسط دوزخ میں ۔ وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص/ 22] تو وہ ) سیدھے راستے سے ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] تو ان کا عہد ) انہیں کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو ۔ تو یہاں علی سواء سے عاولا نہ حکم مراد ہے جیسے فرمایا : ۔ إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران/ 64] اے اہل کتاب ) جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں ( تسلیم کی گئی ) ہے اس کی طرف آؤ ۔ اور آیات : ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة/ 6] انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون/ 6] تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگوں ان کے حق میں برابر ہے ۔ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦{ اِصْلَوْہَا فَاصْبِرُوْٓا اَوْلَا تَصْبِرُوْاج سَوَآئٌ عَلَیْکُمْ ط } ” اب داخل ہو جائو اس میں ‘ تم خواہ صبر کرو یا نہ کرو ‘ اب تمہارے حق میں برابر ہے ۔ “ اب تمہارے جزع فزع کرنے اور چیخنے چلانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اب یہاں کوئی تمہاری مدد کو نہیں آئے گا۔ تمہارے پاس اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس میں خاموشی سے داخل ہو جائو اور اس کی سختیوں کو صبر سے برداشت کرو۔ { اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۔ } ” تمہیں بدلے میں وہی کچھ تو مل رہا ہے جو کچھ تم عمل کیا کرتے تھے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(52:16) اصلوھا : فعل امر، جمع مذکر حاضر صلی (باب سمع) مصدر۔ بمعنی آگ میں جلنا اور اس میں جا پڑنا۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب۔ النار کے لئے ہے۔ تم اس میں جا پڑو۔ تم اس کے اندر چلے جاؤ۔ اصبروا۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر صبر (باب ضرب) مصدر۔ تم صبر کرو۔ اولا تصبروا۔ او حرف عطف ہے۔ اکثر نخییر کے معنی میں آتا ہے یعنی دو چیزوں میں سے ایک کو انتخاب کرنے کا اختیار دینا (یا) ۔ لاتصبروا فعل نہی جمع مذکر حاضر، تم صبر نہ کرو، مطلب یہ کہ تم اب نار جہنم میں جلنے پر صبر سے کام لو یا بےصبری سے تمہارے لئے دونوں برابر ہیں۔ اب تو تمہیں تمہارے کرتوتوں کی سزا ہو صورت میں بھگتنا ہوگی۔ سوائ : مصدر بمعنی اسم فاعل یعنی دونوں چیزیں تمہارے لئے برابر ہیں سواء خبر ہے مبتداء ۔ مخذوف کی ای صبرکم وتر کہ سوائ۔ تجذون : مضارع جمہول جمع مذکر حاضر جزاء (باب ضرب) مصدر۔ بمعنی بدلہ دینا اور کافی ہونا۔ تم بدلہ دئیے جاؤ گے ، تم جزاء دئیے جاؤ گے۔ ما موصولہ۔ کنتم تعقلون اس کا صلہ۔ جو تم کیا کرتے تھے۔ انما تجزون ما کنتم تعملون۔ سواء کی تعلیل ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ نہ یہ ہوگا کہ تمہاری ہائے واویلا سے نجات ہوجائے، اور نہ یہ ہوگا کہ تمہاری تسلیم وانقیاد و سکوت پر ترحم کر کے نکال دیا جائے بلکہ ہمیشہ اسی میں رہنا ہوگا۔ 8۔ یعنی تم کفر کیا کرتے تھے جو کہ اشد عصیان اور عقوق و کمالات غیر متناہیہ الہیہ کا کفران ہے، پس بدلہ میں عذاب و دوزخ نصیب ہوگا جو کہ عذاب اشد و غیر متناہی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اصلوھا ........ تعملون (٢٥ : ٦١) ” جاؤ، اب جھلسو ، اس کے اندر تم خواہ صبر کرو یا نہ کرو ، تمہارے لئے یہ یکساں ہے تمہیں ویسا ہی بدلہ دیا جارہا ہے جیسے تم عمل کررہے تھے۔ “ اس سے بڑی بدبختی اور کیا ہوسکتی ہے کہ خواہ کوئی صبر کرے یا نہ کرے عذاب جاری رہے گا۔ کوئی اسے روکنے والا نہیں ہے۔ اگر صبر کرے تو درد وہی اگر نہ کرے تو درد وہی۔ جہنم میں رہنا اپنا مقدر ہے خواہ چیخے یا چپ ہوجائے۔ یہ اس لئے کہ یہاں تو جزاء وسزا اعمال پر ہے جو کچھ ہوچکا اس میں کوئی تغیر وتبدل نہیں ہوسکتا۔ ان الفاظ پر یہ منظر اب ختم ہوتا ہے اور یہاں یہ پہلا حصہ بھی ختم ہوتا ہے۔ اس سورة کا دوسرا حصہ بھی فکر انگیز ہے لیکن اس میں نرمی ، خوشحالی اور عیس و عشرت ہے خصوصاً پہلے منظر کے بعد جس میں سخت عذاب کا ذکر تھا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ان سے مزید کہا جائے گا ﴿ اِصْلَوْهَا فَاصْبِرُوْۤا اَوْ لَا تَصْبِرُوْا ١ۚ ﴾ (تم اس دوزخ میں داخل ہوجاؤ پھر چاہے صبر کرو یا نہ کرو) ﴿ سَوَآءٌ عَلَيْكُمْ ١ؕ﴾ (تمہارے لیے دونوں چیزیں برابر ہیں) نہ صبر سے عذاب دفع ہوگا اور نہ بےصبری سے، دنیا میں جو مصیبت پر صبر کرنے سے کبھی کبھی تکلیف دور ہو کر آرام مل جاتا تھا یہاں وہ بات نہیں ہے۔ ﴿اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ٠٠١٦﴾ (تمہیں انہی اعمال کا بدلہ دیا جائے گا جو تم دنیا میں کیا کرتے تھے کسی قسم کا کوئی ظلم نہ ہوگا) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖف 7:۔ ” اصلوھا۔ الایۃ “ اب صبر کرو یا بےصبری سے واویلا کرو اور چیخو چلا، تمہارے لیے برابر ہے اس سے تمہیں کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ اب تو تمہیں اس عذاب جہنم میں داخل ہونا ہی ہوگا۔ اس میں تم سے کوئی زیادتی اور بےانصافی نہیں کی گئی یہ تمہارے اپنے ہی اعمال یعنی کفر و شرک اور عناد و تکذیب کی سزا ہے جن میں تم عمر بھر لگے رہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(16) جائو اس دوزخ میں داخل ہوجائو پھر اب تم خواہ صبر کرو یا صبرنہ کرو تمہارے لئے دونوں باتیں برابر ہیں۔ بس تم کو ویسا ہی بدلا دیاجائے گا جیسے اعمال تم کیا کرتے تھے یہ قسمیں مجازاۃ عمل کی غرض سے ارشاد فرمائیں کیونکہ منکرین قیامت اور جزائے اعمال کے منکروں کا جس قدر ان کا بڑھتا جاتا ہے اسی قدر اس کے اثبات کو موکد فرماتے ہیں۔ طور سے مراد ہی پہاڑ ہے جس پر سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا تھا لکھی ہوئی کتاب جو کشادہ کاغذ میں لکھی ہوئی ہے اس سے مراد بظاہر صحائف اعمال ہیں جن کو نامہ اعمال کہتے ہیں یا مراد توریت ہے یا قرآن ہے یا تمام کتب سماویہ یا لوح محفوظ مراد ہیں اس بارے میں علماء کے کئی قول ہیں۔ آباد گھر سے مراد بظاہر خانہ کعبہ ہے یا بہت معمور جو اس کعبہ کے بالکل محاذ میں آسمان کے اوپر کوئی چیز ہے فرشتے جس کی زیارت اور طواف کرتے ہیں خواہ وہ ساتویں آسمان میں ہو یا پہلے آسمان پر یا کسی اور آسمان پر علی اختلاف الاقوال کہتے ہیں ہر روز ستر ہزار فرشتے اس کا طواف کرتے ہیں بلند اور اونچی چھت سے مراد آسمان ہے اور یا عرش الٰہی ہے جوش مارتا ہوا سمندر۔ یہ شاید اس لئے فرمایا کہ جس طرح سمندر میں پانی جوش مارتا ہے اسی طرح جہنم میں آگ جوش مارتی ہوگی اور ہوسکتا ہے کہ اوپر کوئی دریا ہو اس کی طرف اشارہ ہو۔ جواب قسم ہے کہ پروردگار کا عذاب ضرور واقع ہوگا اس کو کوئی ہٹانے والا اور دفع کرنے والا نہیں ہم نے تیسیر میں عذاب سے پہلے اس دن کا لفظ بڑھا دیا ہے تاکہ یوم تمورالسمآء سے ربط کی عبادت درست ہوجائے یعنی وہ دن عذاب کا ہے جس دن آسمان لرزنے لگے اور جھٹکے کھانے لگے یعنی پھٹنے سے پہلے ایسا ہوگا پہاڑ ابتداء میں اپنی جگہ سے ہٹ کر چلنے لگیں گے پھر اڑنے لگیں گے اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اس دن ان منکروں کو دھکے دے کر جہنم میں لے جایا جائے گا۔ بےہودہ نکتہ چینی یعنی قرآن کو ایک مشغلہ اور کھیل بنارکھا ہے قرآن کی باتیں کرکے ان کا مذاق اڑاتے ہیں اور قیامت کی اور دین حق کی تکذیب کرتے ہیں دوزخ کے کنارے پر پہنچا کر کہا جائے گا کیا یہ جادو ہے کیونکہ قرآن کے وعدے اور وعید کو جادو کہتے ہیں یا اب تم کو دکھائی نہیں دیتا جس طرح دنیا میں دوزخ دکھائی نہ دیتی تھی اور تم انکار کرتے تھے اب کہو کیا کہتے ہو اب تو یہ جہنم تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے جائو اس میں داخل ہوجائو اب تم صبر کرو اور عذاب کو سہارو یا چیخو چلائو دونوں باتیں برابر ہیں یہاں سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں جو کچھ تم نے کیا ہے اس کا بدلہ دیا جائے گا کچھ تم پر ظلم اور زیادتی نہیں ہوگی۔ آگے اہل تقویٰ اور پرہیزگار مومنین کا ذکر فرمایا تاکہ دونوں فریق اہل حق اور اہل باطل کا انجام معلوم ہوجائے اور ہر انسان کو اپنے متعلق فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔