Surat ut Toor

Surah: 52

Verse: 23

سورة الطور

یَتَنَازَعُوۡنَ فِیۡہَا کَاۡسًا لَّا لَغۡوٌ فِیۡہَا وَ لَا تَاۡثِیۡمٌ ﴿۲۳﴾

They will exchange with one another a cup [of wine] wherein [results] no ill speech or commission of sin.

۔ ( خوش طبعی کے ساتھ ) ایک دوسرے سے جام ( شراب ) کی چھینا جھپٹی کریں گے جس شراب کے سرور میں تو بیہودہ گوئی ہوگی نہ گناہ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يَتَنَازَعُونَ فِيهَا كَأْسًا ... There they shall pass from hand to hand a cup, meaning, of wine, according to Ad-Dahhak, ... لاَّا لَغْوٌ فِيهَا وَلاَ تَأْثِيمٌ free from any Laghw, and free from Ta'thim, meaning, when they drink, they do not say any idle, vain words or utter dirty, sinful speech like the drunken people in this life do. Ibn Abbas said that Laghw means `falsehood' while Ta'thim means `lying'. Mujahid said, "They do not curse each other nor sin." Qatadah said, "These were the consequences of drinking in this life, and Shaytan helped in this regard. Allah purified the wine of the Hereafter from the ills and harm caused by the wine of this life." Therefore, Allah has purified the wine of the Hereafter from causing headaches, stomachaches and intoxication like the wine of this life. Allah stated that wine of the Hereafter shall not cause those who drink it to utter false, vain words that carry no benefit, full of foolishness and evil. Allah also described the wine of the Hereafter as beautiful in appearance, tasty and fruitful, بَيْضَأءَ لَذَّةٍ لِّلشَّـرِبِينَ لااَ فِيهَا غَوْلٌ وَلااَ هُمْ عَنْهَا يُنزَفُونَ White, delicious to the drinkers. Neither will they have Ghawl from that nor will they suffer intoxication therefrom. (37:46-47) and, لااَّ يُصَدَّعُونَ عَنْهَا وَلااَ يُنزِفُونَ Wherefrom they will get neither nay aching of the head nor any intoxication. (56:19) Allah the Exalted said here, يَتَنَازَعُونَ فِيهَا كَأْسًا لاَّ لَغْوٌ فِيهَا وَلاَ تَأْثِيمٌ (There they shall pass from hand to hand a (wine) cup, free from any Laghw, and free from sin). Allah said, وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَأَنَّهُمْ لُوْلُوٌ مَّكْنُونٌ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

23۔ 1 یتنازعون یتعاطون ویتناولون ایک دوسرے سے لیں گے۔ یا پھر وہ معنی ہیں جو فاضل مترجم نے کیے ہیں، کس اس پیالے اور جام کو کہتے ہیں جو شراب یا کسی اور مشروب سے بھرا ہوا ہو خالی برتن کو کس نہیں کہتے۔ 23۔ 2 اس شراب میں دنیا کی شراب کی تاثیر نہیں ہوگی اسے پی کر نہ کوئی بہکے گا اور نہ اتنا مدہوش ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] اہل جنت جام شراب کے لیے ایک دوسرے سے چھینا جھپٹی اس لیے نہیں کریں گے کہ انہیں شراب کے ذخیرہ میں کمی واقع ہوجانے کا خطرہ ہوگا بلکہ محض خوش طبعی کے طور پر وہ یہ شغل لگائیں گے۔ [١٩] جنت میں شراب کے دور :۔ دنیا کی شراب میں کئی قباحتیں ہوتی ہیں۔ مثلاً اس کا مزہ تلخ ہوتا ہے اور بو ناخوشگوار، اس کا نشہ سر کو چڑھ جاتا ہے جس سے سر چکرانے لگتا ہے اور بعض دفعہ درد بھی کرنے لگتا ہے۔ اس کا نشہ عقل پر چھا کر اس میں فتور پیدا کردیتا ہے۔ پھر اسی نشہ کی حالت میں انسان بعض دفعہ بکواس بکنے لگتا ہے بعض دفعہ کسی کی بےعزتی کر بیٹھتا ہے یا کوئی اور گناہ کا کام کر بیٹھتا ہے اور اس کا فائدہ صرف یہ ہوتا ہے کہ عارضی طور پر کچھ سرور حاصل ہوتا ہے اور دوران اس کے غم غلط ہوجاتے ہیں حالانکہ یہ بھی دراصل فتور عقل کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔ جنت کی شراب میں اس کا فائدہ یعنی لذت وسرور تو ضرور حاصل ہوگا مگر وہ ہر طرح کے نقصانات سے پاک ہوگی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) یتنازعون فیھا کا سا :” کا سا “ کی وضاحت کے لئے دیکھیے سورة صافات (٤٥) کی تفسیر۔ اہل جنت ایک دوسرے سے شراب کے پیالے اس لئے نہیں چھینیں جھپٹیں گے کہ وہاں کسی کمی کا یا ختم ہونے کا اندیشہ ہوگا، بلکہ محض خوش طبعی کے طور پر ایسا کریں گے، کیونکہ چھیننے جھپٹنے کا الگ مزا ہے۔ (٢) لا لغو فیھا ولا تاثیم : دنیا کی شراب میں کئی قباحتیں ہیں، جن میں سے سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ آدمی کی عقل پر پردہ پڑجاتا ہے ، حالانکہ عقل ہی اسے جانوروں سے امتیاز اور ان پر برتری عطا کرتی ہے۔ پھر وہ نشے کی حالت میں بکواس کرنے لگتا ہے، گناہ کے کام کر بیٹھتا ہے، حتیٰ کہ بعض اوقات اپنی محرم عورتوں تک کی عزت برباد کر بیٹھتا ہے۔ جنت کی شراب میں دنیا کی شراب والی کوئی قباحت نہیں ہوگی، مگر اس میں وہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہوں گی جن کی وجہ سے یہ لوگ اس کی تلخی، بدبو اور بعد کے برے اثرات کے باوجود اسے پیتے ہیں۔ مزید دیکھیے سورة صافات (٤٧) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَتَنَازَعُوْنَ فِيْہَا كَاْسًا لَّا لَغْوٌ فِيْہَا وَلَا تَاْثِيْمٌ۝ ٢٣ نزع نَزَعَ الشیء : جَذَبَهُ من مقرِّه كنَزْعِ القَوْس عن کبده، ويُستعمَل ذلک في الأعراض، ومنه : نَزْعُ العَداوة والمَحبّة من القلب . قال تعالی: وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] . وَانْتَزَعْتُ آيةً من القرآن في كذا، ونَزَعَ فلان کذا، أي : سَلَبَ. قال تعالی: تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ [ آل عمران/ 26] ، وقوله : وَالنَّازِعاتِ غَرْقاً [ النازعات/ 1] قيل : هي الملائكة التي تَنْزِعُ الأرواح عن الأَشْباح، وقوله :إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر/ 19] وقوله : تَنْزِعُ النَّاسَ [ القمر/ 20] قيل : تقلع الناس من مقرّهم لشدَّة هبوبها . وقیل : تنزع أرواحهم من أبدانهم، والتَّنَازُعُ والمُنَازَعَةُ : المُجَاذَبَة، ويُعَبَّرُ بهما عن المخاصَمة والمُجادَلة، قال : فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ [ النساء/ 59] ، فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ [ طه/ 62] ، والنَّزْعُ عن الشیء : الكَفُّ عنه . والنُّزُوعُ : الاشتیاق الشّديد، وذلک هو المُعَبَّر عنه بإِمحَال النَّفْس مع الحبیب، ونَازَعَتْنِي نفسي إلى كذا، وأَنْزَعَ القومُ : نَزَعَتْ إِبِلُهم إلى مَوَاطِنِهِمْ. أي : حَنَّتْ ، ورجل أَنْزَعُ : زَالَ عنه شَعَرُ رَأْسِهِ كأنه نُزِعَ عنه ففارَقَ ، والنَّزْعَة : المَوْضِعُ من رأسِ الأَنْزَعِ ، ويقال : امرَأَةٌ زَعْرَاء، ولا يقال نَزْعَاء، وبئر نَزُوعٌ: قریبةُ القَعْرِ يُنْزَعُ منها بالید، وشرابٌ طَيِّبُ المَنْزَعَةِ. أي : المقطَع إذا شُرِبَ كما قال تعالی: خِتامُهُ مِسْكٌ [ المطففین/ 26] . ( ن زع ) نزع ( ن زع ) نزع اشئی کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں ۔ جیسا کہ کمانکو در میان سے کھینچا جاتا ہے اور کبھی یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور محبت یا عداوت کے دل سے کھینچ لینے کو بھی نزع کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ۔ ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ آیت کو کسی واقعہ میں بطور مثال کے پیش کرنا ۔ نزع فلان کذا کے معنی کسی چیز کو چھین لینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ [ آل عمران/ 26] اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور آیت کریمہ : ۔ وَالنَّازِعاتِ غَرْقاً [ النازعات/ 1] ان فرشتوں کی قسم جو ڈوب کر کھینچ لیتے ہیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نازعات سے مراد فرشتے ہیں جو روحوں کو جسموں سے کھینچتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر/ 19] ہم نے ان پر سخت منحوس دن میں آندھی چلائی وہ لوگوں کو اس طرح اکھیڑ ڈالتی تھی ۔ میں تنزع الناس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہو اپنی تیز کی وجہ سے لوگوں کو ان کے ٹھکانوں سے نکال باہر پھینک دیتی تھی بعض نے کہا ہے کہ لوگوں کی روحوں کو ان کے بد نوں سے کھینچ لینا مراد ہے ۔ التنازع والمنازعۃ : باہم ایک دوسرے کو کھینچا اس سے مخاصمت اور مجا دلہ یعنی باہم جھگڑا کرنا مراد ہوتا ہے ۔ چناچہ ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ [ النساء/ 59] اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو رجوع کرو ۔ فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ [ طه/ 62] تو وہ باہم اپنے معاملہ میں جھگڑنے لگے ۔ النزع عن الشئی کے معنی کسی چیز سے رک جانے کے ہیں اور النزوع سخت اشتیاق کو کہتے ہیں ۔ وناز عتنی نفسی الیٰ کذا : نفس کا کسی طرف کھینچ کرلے جانا کس کا اشتیاق غالب آجانا ۔ انزع القوم اونٹوں کا پانے وطن کا مشتاق ہونا رجل انزع کے معنی سر کے بال بھڑ جانا کے ہیں ۔ اور نزعۃ سر کے اس حصہ کو کہتے ہیں جہاں سے بال جھڑ جائیں ۔ اور تانیث کے لئے نزعاء کی بجائے زعراء کا لفظ استعمال ہوتا ہے بئر نزدع کم گہرا کنواں جس سے ہاتھ کے كأس قال تعالی: مِنْ كَأْسٍ كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان/ 5] ، كَأْساً كانَ مِزاجُها زَنْجَبِيلًا [ الإنسان/ 17] والْكَأْسُ : الإناء بما فيه من الشراب، وسمّي كلّ واحد منهما بانفراده كأسا . يقال : شربت كَأْساً ، وكَأْسٌ طيّبة يعني بها الشَّرَابَ. قال تعالی: وَكَأْسٍ مِنْ مَعِينٍ [ الواقعة/ 18] . وكَاسَتِ الناقة تَكُوسُ : إذا مشت علی ثلاثة قوائم، والکيس : جودة القریحة، وأَكْأَسَ الرّجلُ وأكيس : إذا ولد أولادا أكياسا، وسمّي الغدر كيسان تصوّرا أنه ضرب من استعمال الكيس، أو لأنّ كيسان کان رجلا عرف بالغدر، ثمّ سمّي كلّ غادر به كما أنّ الهالكيّ کان حدّادا عرف بالحدادة ثمّ سمّي كلّ حدّاد هالكيّا ( ک ء س ) الک اس ۔ پینے کا برتن جب کہ اس میں پینے کی چیز موجود ہو ۔ قرآن میں ہے : مِنْ كَأْسٍ كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان/ 5] اور ایسی شراب نوش جان کریں گے جس میں کافور کی آمیزش ہوگی ۔ اور کبھی کا اطلاق خالی پیالہ صرف سے پینے کی چیز پر ہوتا ہے ۔ مثلا ۔ شربت کا سا ۔ میں نے شراب کا پیالہ پیا ۔ کاس طیبہ عمدہ شراب ۔ قرآن میں ہے : وَكَأْسٍ مِنْ مَعِينٍ [ الواقعة/ 18] اور صاف شراب کے گلاس کاست الناقۃ تکوس ۔ اونٹنی کا تین پاؤں پر چلنا اور الکیس کے معنی دانائی اور زیر کی کے ہیں اور اکاس الرجل واکیس کے معنی عدر یعنی بد عہدی بھی آتے ہیں کیونکہ اس میں زیر کی سے کام لیا جاتا ہے ۔ اور یا اس لئے کہ کیسان نامی ایک شخص تھا جو بےوفائی میں ضرب المثل تھا پھر ہر غدار کو کیسان کہاجانے جیسا کہ ھال کی اصل میں ایک مشہور آہنگر کا نام تھا پھر ہر خدا د یعنی آہنگر پر ھال کی کا لفظ بولا جانے لگا ہے ۔ لغو اللَّغْوُ من الکلام : ما لا يعتدّ به، وهو الذي يورد لا عن رويّة وفكر، فيجري مجری اللَّغَا، وهو صوت العصافیر ونحوها من الطّيور، قال أبو عبیدة : لَغْوٌ ولَغًا، نحو : عيب وعاب وأنشدهم : 407- عن اللّغا ورفث التّكلّم «5» يقال : لَغِيتُ تَلْغَى. نحو : لقیت تلقی، وقد يسمّى كلّ کلام قبیح لغوا . قال : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا كِذَّاباً [ النبأ/ 35] ، وقال : وَإِذا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ [ القصص/ 55] ، لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً [ الواقعة/ 25] ، وقال : وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ [ المؤمنون/ 3] ، وقوله : وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان/ 72] ، أي : كنّوا عن القبیح لم يصرّحوا، وقیل : معناه : إذا صادفوا أهل اللّغو لم يخوضوا معهم . ويستعمل اللغو فيما لا يعتدّ به، ومنه اللَّغْوُ في الأيمان . أي : ما لا عقد عليه، وذلک ما يجري وصلا للکلام بضرب من العادة . قال : لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] ومن هذا أخذ الشاعر فقال : 408- ولست بمأخوذ بلغو تقوله ... إذا لم تعمّد عاقدات العزائم «1» وقوله : لا تَسْمَعُ فِيها لاغِيَةً [ الغاشية/ 11] أي : لغوا، فجعل اسم الفاعل وصفا للکلام نحو : کاذبة، وقیل لما لا يعتدّ به في الدّية من الإبل : لغو، وقال الشاعر : 409 ۔ كما أَلْغَيْتَ في الدّية الحوارا «2» ولَغِيَ بکذا . أي : لهج به لهج العصفور بِلَغَاه . أي : بصوته، ومنه قيل للکلام الذي يلهج به فرقة فرقة : لُغَةٌ. ( ل غ و ) اللغو ۔ ( ن ) کے معنی بےمعنی بات کے ہے جو کسی گنتی شمار میں نہ ہو یعنی جو سوچ سمجھ کر نہ کی جائے گویا وہ پرندوں کی آواز کی طرح منہ سے نکال دی جائے ابو عبیدہ کا قول ہے کہ اس میں ایک لغت لغا بھی ہے ۔ جیسے عیب وعاب شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 394) عن اللغ اور فث التکم جو بہیودہ اور فحش گفتگو سے خاموش ہیں ۔ اس کا فعل لغیث تلغیٰ یعنی سمع سے ہے ۔ اور کبھی ہر قبیح بات کو لغو کہہ دیا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا كِذَّاباً [ النبأ/ 35] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے نہ جھوٹ اور خرافات وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ [ المؤمنون/ 3] اور جو بہیودہ باتوں سے اعراض کرتے ہیں ۔ وَإِذا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ [ القصص/ 55] اور جب بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں ۔ لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً [ الواقعة/ 25] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے اور نہ الزام تراشی ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان/ 72] اور جب ان کو بیہودہ چیزوں کے باس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو شریفا نہ انداز سے گرزتے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ فحش بات کبھی صراحت سے نہیں کہتے ۔ بلکہ ہمیشہ کنایہ سے کام لیتے ہیں ۔ اور بعض نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ اگر کہیں اتفاق سے وہ ایسی مجلس میں چلے جاتے ہیں ۔ جہاں بیہودہ باتیں ہو رہی ہوتی ہیں تو اس سے دامن بچاکر نکل جاتے ہیں ۔ پس لغو ہر اس بات کا کہاجاتا ہے جو کسی شمار قطار میں نہ ہو ۔ اور اسی سے لغو فی الایمان ہے ۔ یعنی وہ قسم جو یونہی بلا ارادہ زبان سے نکل جائے چناچہ قرآن میں ہے : لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا اور شاعر نے کہا ہے ( البسیط) (395) ولست بماخود بلغو تقولہ اذالم تعمد عاقدات العزائم لغو قسم کھانے پر تم سے مواخذہ نہیں ہوگا بشرطیکہ قصدا غرم قلب کے ساتھ قسم نہ کھائی جائے ۔ اور آیت کریمہ لا تَسْمَعُ فِيها لاغِيَةً [ الغاشية/ 11] وہاں کسی طرح کی بکواس نہیں سنیں گے ۔ میں لاغیۃ بمعنی لغو کے ہے اور یہ ( اسم فاعل ) کلام کی صفت واقع ہوا ہے جیسا کہ کاذبۃ وغیرہ ۔ اور خونبہا میں لغو اونٹ کے ان بچوں کو کہا جاتا ہے جو گنتی میں شمار نہ کئے جائیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (396) کما الغیت فی الدابۃ الحوارجیسا کہ اونٹ کے چھوٹے بچے کو خونبہا میں ناقابل شمار سمجھا جاتا ہے لغی بکذا کے معنی چڑیا کے چہچہانے کی طرح کسی چیز کا بار بار تذکرہ کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور اسی سے ہر گز وہ کی زبان اور بولی جس کے ذریعے وہ بات کرتا ہ لغۃ کہلاتی ہے ۔ إثم الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب «5» ، وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير «6» وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة/ 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات . وقد أَثِمَ إثماً وأثاماً فهو آثِمٌ وأَثِمٌ وأَثِيمٌ. وتأثَّم : خرج من إثمه، کقولهم : تحوّب وتحرّج : خرج من حوبه وحرجه، أي : ضيقه . وتسمية الکذب إثماً لکون الکذب من جملة الإثم، وذلک کتسمية الإنسان حيواناً لکونه من جملته . وقوله تعالی: أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ [ البقرة/ 206] أي : حملته عزته علی فعل ما يؤثمه، وَمَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ يَلْقَ أَثاماً [ الفرقان/ 68] أي : عذاباً ، فسمّاه أثاماً لما کان منه، وذلک کتسمية النبات والشحم ندیً لما کانا منه في قول الشاعر : 7- تعلّى الندی في متنه وتحدّرا«7» وقیل : معنی: «يلق أثاماً» أي : يحمله ذلک علی ارتکاب آثام، وذلک لاستدعاء الأمور الصغیرة إلى الكبيرة، وعلی الوجهين حمل قوله تعالی: فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا [ مریم/ 59] . والآثم : المتحمّل الإثم، قال تعالی: آثِمٌ قَلْبُهُ [ البقرة/ 283] . وقوبل الإثم بالبرّ ، فقال صلّى اللہ عليه وسلم : «البرّ ما اطمأنّت إليه النفس، والإثم ما حاک في صدرک» «1» وهذا القول منه حکم البرّ والإثم لا تفسیر هما . وقوله تعالی: مُعْتَدٍ أَثِيمٍ [ القلم/ 12] أي : آثم، وقوله : يُسارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ المائدة/ 62] . قيل : أشار بالإثم إلى نحو قوله : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْكافِرُونَ [ المائدة/ 44] ، وبالعدوان إلى قوله : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ [ المائدة/ 45] ، فالإثم أعمّ من العدوان . ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ { فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ } ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔ اثم ( ص) اثما واثاما فھو آثم و اثم واثیم ( گناہ کا ارتکاب کرنا ) اور تاثم ( تفعل ) کے معنی گناہ سے نکلنا ( یعنی رک جانا اور توبہ کرنا ) کے ہیں جیسے تحوب کے معنی حوب ( گناہ ) اور تحرج کے معنی حرج یعنی تنگی سے نکلنا کے آجاتے ہیں اور الکذب ( جھوٹ ) کو اثم کہنا اس وجہ سے ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا گناہ ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ انسان کو حیوان کا ایک فرد ہونے کی وجہ سے حیوان کہہ دیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : { أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ } [ البقرة : 206] کے معنی یہ ہیں کہ اس کی عزت نفس ( اور ہٹ دھرمی ) اسے گناہ پر اکساتی ہے اور آیت : { وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا } [ الفرقان : 68] میں آثام سے ( مجازا ) عذاب مراد ہے اور عذاب کو اثام اس لئے کہا گیا ہے کہ ایسے گناہ ( یعنی قتل وزنا ) عذاب کا سبب بنتے ہیں جیسا کہ نبات اور شحم ( چربی ) کو ندی ( نمی ) کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ نمی سے نباتات اور ( اس سے ) چربی پیدا ہوتی ہے چناچہ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (7) |" تعلی الندی فی متنہ وتحدار ، اس کی پیٹھ پر تہ برتہ چربی چڑھی ہوئی ہے اور نیچے تک پھیلی ہوئی ہے ۔ بعض نے آیت کریمہ : میں یلق آثاما کے یہ معنی بھی کئے ہیں مذکورہ افعال اسے دوسری گناہوں پر برانگیختہ کرینگے کیونکہ ( عموما) صغائر گناہ کبائر کے ارتکاب کا موجب بن جاتے ہیں اور آیت کریمہ : { فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا } [ مریم : 59] کی تفسیر بھی ان دو وجہ سے بیان کی گئی ہے ۔ لآثم ۔ گناہ کا ارتکاب کرنے والا ۔ قرآں میں ہے : { آثِمٌ قَلْبُهُ } [ البقرة : 283] وہ دل کا گنہگار ہے ۔ اور اثم کا لفظ بر ( نیکی ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا : (6) (6) البرما اطمانت الیہ النفس والاثم ما حاک فی صدرک کہ نیکی وہ ہے جس پر طبیعت مطمئن ہو اور گناہ وہ ہے جس کے متعلق دل میں تردد ہو ۔ یاد رہے کہ اس حدیث میں آنحضرت نے البرو الاثم کی تفسیر نہیں بیان کی ہے بلکہ ان کے احکام بیان فرمائے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : { مُعْتَدٍ أَثِيمٍ } [ القلم : 12] میں اثیم بمعنی آثم ہے اور آیت : { يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ } [ المائدة : 62] ( کہ وہ گناہ اور ظلم میں جلدی کر رہے ہیں ) کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ آثم سے آیت : { وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ } [ المائدة : 44] کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ( یعنی عدم الحکم بما انزل اللہ کفرا اور عدوان سے آیت کریمہ : { وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ } [ المائدة : 45] کے مفہوم کی طرف اشارہ ( یعنی عدم الحکم بما انزل اللہ ظلم ) اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ لفظ اثم عدوان سے عام ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٣۔ ٢٥) یا یہ کہ جنت میں اس کے پینے سے نہ بک بک ہوگی اور نہ کوئی بےہودہ بات اور نہ جھوٹی قسمیں اور نہ آپس میں گالی گلوچ ہوگی اور ان کی خدمت کے لیے ایسے لڑکے آئیں گے جو صفائی اور خوبصورتی میں حفاظت کے ساتھ رکھے ہوئے موتیوں کی طرح ہوں گے جیسا کہ موتی کو گرمی سردی اور گرد و غبار سے چھپا کر رکھا جاتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣{ یَتَنَازَعُوْنَ فِیْہَا کَاْسًا لَّا لَغْوٌ فِیْہَا وَلَا تَاْثِیْمٌ ۔ } ” اس میں وہ ایک دوسرے سے چھین رہے ہوں گے وہ جام جن (کے مشروب) میں نہ تو کوئی بےہودگی ہوگی اور نہ ہی گناہ میں ڈالنے والی کوئی بات۔ “ یہ اہل جنت کی دوستانہ محفلوں کی رونق اور چہل پہل کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے کہ وہ خوش طبعی کے انداز میں ایک دوسرے سے جام چھین رہے ہوں گے۔ اہل جنت کو جو مشروب ملے گا اس میں کیف و سرور تو ہوگا لیکن دنیا کی شراب کی طرح بےہودگی کی کوئی کیفیت نہیں ہوگی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

18 That is, the wine of Paradise will not intoxicate that they should get drunk and talk nonsense, or use abusive language, or conduct and behave indecently as drunkards. (For further explanation, see E.N. 27 of As-Saaffat).

سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :18 یعنی وہ شراب نشہ پیدا کرنے والی نہ ہوگی کہ اسے پی کر وہ بد مست ہوں اور بیہودہ بکواس کرنے لگیں ، یا گالم گلوچ اور دَھول دھپے پر اتر آئیں ، یا اس طرح کی فحش حرکات کرنے لگیں جیسی دنیا کی شراب پینے والے کرتے ہیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، تفسیر سورہ صافات ، حاشیہ 27 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: چھینا جھپٹی سے مراد وہ چھینا جھپٹی ہے جو بے تکلف دوستوں میں کسی لذیذ چیز سے لطف لینے کے لئے ہوا کرتی ہے، اس سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی ؛ بلکہ مجلس کا لطف بڑھ جاتا ہے ؛ چنانچہ فرمایا گیا ہے اس جام شراب میں اس طرح کی بے ہودگی یا گناہ کی کوئی بات نہیں ہوگی جو دنیا کے شرابیوں میں پائی جاتی ہے، اس شراب میں وہ نشہ ہی نہیں ہوگا جو انسان کو بے ہودگیوں پر آمادہ کردے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(52:23) یتنازعون۔ مضارع جمع مذکر غائب ۔ تنازع (تفاعل) مصدر ۔ باہم (بطور تفریح) چھین جھپٹ کریں گے۔ ایک لے گا دوسرا دے گا (لغات القرآن) ۔ یتنازعون فیہا کا سا : ای یتعاطون ویتناول بعضھم من بعض کا سا (اضواء البیان) تعالیٰ کوئی چیز کسی کو پکڑا نا۔ تناول۔ ہاتھ بڑھا کر کسی چیز کو لے لینا۔ (الفرائد الدریہ) باہم ملاطفت و محبت کے جذبہ سے سرشار کسی کو شراب کا پیالہ پکڑانا اور اسے لے لینے پر اصرار کرنا ۔ اور دوسری طرف سے ازراہ تلطف و تعطف قبول کرتے ہوئے لے لینا۔ اپنی کثرت میں یہ چھینا جھپٹی کا منظر پیش کرنا ہے۔ لہٰذا یتنازعون کا استعمال لینے کی بناء پر بھی اور دینے کی بناء پر بھی ہوتا ہے۔ تنازع باہم نزاع کرنا جھگڑنا۔ ایک دوسرے سے جھیننا۔ اختلاف کرنا۔ چناچہ قرآن مجید میں ہے یتنازعون بینھم (18:21) اس وقت لوگ دن کے بارے میں باہم جھگڑنے لگیں گے ۔ کا سا منصوب بوجہ مفعول ہے۔ شراب سے بھرے ہوئے پیالے۔ برتن میں بھرے مشروب کو کاس کہا جاتا ہے اور برتن کو بھی۔ کاس مفرد، مؤنث سماعی ہے اس کی جمع کؤوس وکاسات ہے۔ فیہا میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع جنۃ ہے۔ لا لغو فیہا ولا تاثیم : لا نفی جنس کے لئے ہے قاعدہ ہے اگر لانفی جنس نکرہ مفرد دوسرے نکرہ کے ساتھ مکرر ہو تو پھر اختیار ہے کہ اسم کو خواہ نصب بلا تنوین دیں۔ جیسے فلا رفث ولا فسوق (2:197) حج کو دنوں میں نہ عورت سے رغبت کرے نہ گناہ۔ خواہ رفع تنوینی دیں۔ جیسے یوم لابیع فیہ ولاخلۃ (2:254) وہ دن جس میں نہ خریدو فروخت ہوگی اور نہ یاری۔ یہی دو سری صورت آیت زیر مطالعہ میں اختیار کی گئی ہے۔ معنی ہوں گے :۔ جس کے پینے سے نہ ہذیان رسائی ہوگی نہ کوئی گناہ کی بات۔ لغو (باب نصر) سمع، فتح مصدر ہے لغو کے معنی بےمعنی بات کے ہیں جو کسی شمار میں نہ ہو۔ جو سوچ سمجھ کر نہ کی جائے، بک بک کرنا۔ بکواس کرنا۔ قرآن مجید میں ہے۔ لاتسمعوا لھذا القرآن والغوافیہ (41:26) اس قرآن کو سنا ہی نہ کرو اور (جب پڑھنے لگیں تو) شور مچا دیا کرو۔ فیہا : ای فی شربھا۔ اس کے پینے میں۔ یعنی شراب کے پینے میں۔ تاثیم (تفعیل) مصدر، گنہگاری۔ گناہ میں ڈالنا۔ گناہ کی باتیں۔ لالغو فیہا ولا تاثیم : ای لا یتکلمون فی اثناء الشرب بلغو الحدیث ولا یفعلون ما یؤثم بہ فاعلہ۔ اس کے پینے کے دوران نہ تو زیادہ گوئی کی نوبت آئے گی اور نہ وہ ایسے فعل کا ارتکاب کریں گے جس کے کرنے والے پر گناہ لازم آئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی ان میں شراب کا دور چلے گا اور وہ خوش طبعی کے طور پر ایک دوسرے سے جام چھینیں گے لیکن وہ شراب ایسی ہوگی کہ اس میں نشاط اور لذت تو ہوگی، نشہ، بول اس اور فتور عقل وغیرہ کچھ نہ ہوگا اور نہ اسے پی کر وہ بری حرکات کا ارتکاب کریں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لا لغو فیھا ولا تاثیم (٢٥ : ٣٢) ” جس میں نہ یا وہ گوئی ہوگی اور نہ بدکرداری “ وہ یہ جام شراب ایک دوسرے سے چھین رہے ہوں گے اور ایک دوسرے کو پکڑا رہے ہوں گے تاکہ زیادہ محبت ولذت حاصل ہو اور جب یہ اس قسم کی لذتوں کے اندر ہوں گے تو ان پر خوبصورت چاند جیسے مکھڑے والے لڑکے پھر رہے ہوں گے۔ پاک اور صاف اور تروتازہ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جام کی چھینا جھپٹی : اس کے بعد اہل جنت کے جام پینے کا تذکرہ فرمایا ارشاد فرمایا ﴿ يَتَنَازَعُوْنَ فِيْهَا كَاْسًا لَّا لَغْوٌ فِيْهَا وَ لَا تَاْثِيْمٌ٠٠٢٣﴾ (کہ یہ لوگ جنت میں دل لگی کے طور پر آپس میں جام شراب کی چھینا جھپٹی کریں گے) وہاں کسی چیز کی کمی نہ ہوگی یہ چھینا جھپٹی بطور دل لگی کے ہوگی۔ ك اس بھرے ہوئے جام کو کہا جاتا ہے یہ جام خوب بھرے ہوئے ہوں گے جنہیں سورة نباء میں ﴿وَكَاْسًا دِهَاقًاؕ٠٠٣٤﴾ سے تعبیر فرمایا ہے اور ہر شخص کے لیے وقت کی خواہش کے مطابق بھرے ہوئے ہوں گے اس کو سورة دھر میں ﴿قَدَّرُوْهَا تَقْدِيْرًا ٠٠١٦﴾ میں بیان فرمایا ہے۔ ان جاموں میں تسنیم رنجبیل کافور کی آمیزش ہوگی۔ اس شراب کو پینے کی وجہ سے نشہ نہیں آئے گا اسی کو ﴿لَّا لَغْوٌ فِيْهَا ﴾ میں بیان فرمایا۔ دنیا میں شراب پی کر نشہ آجاتا ہے اور اول فول بکتے ہیں اور بیہودہ باتیں کرتے ہیں وہاں کی شراب میں یہ بات نہ ہوگی۔ یہ شراب چونکہ بطور انعام ملے گی اور اس میں نشہ بھی نہ ہوگا (جو دنیا میں اس کے حرام ہونے کا سبب ہے) اس لیے اس کے پینے میں کوئی گناہ بھی نہ ہوگا جسے ﴿ وَ لَا تَاْثِيْمٌ ﴾ فرما کر بیان فرما دیا۔ مذکورہ بالا شراب کے لانے والے اور پیش کرنے والے نو عمر لڑکے ہوں گے۔ ارشاد فرمایا ﴿ وَ يَطُوْفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ ﴾ (اور ان کے خدمت گار لڑکے ان کے پاس آتے جاتے رہیں گے) ۔ ﴿ كَاَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُوْنٌ٠٠٢٤﴾ (جو خوبصورتی اور رنگت کی صفائی ستھرائی میں ایسے ہونگے جیسے محفوظ رکھا ہوا چھپا ہوا موتی ہو) سورة الدھر میں فرمایا ﴿ وَ يَطُوْفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ ١ۚ اِذَا رَاَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا ٠٠١٩﴾ (اور ان کے پاس ایسے لڑکے آمدورفت کریں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے اے مخاطب ! اگر تو ان کو دیکھے تو یوں سمجھے جیسے بکھرے ہوئے موتی ہوں) ﴿ وَ اَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ يَّتَسَآءَلُوْنَ ٠٠٢٥﴾ (اور اہل جنت آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوال و جواب کریں گے) (آپس میں یہ پوچھیں گے کہ کہو بھئی یہاں آنے کا کیا سبب بنا اور ہم لوگ یہاں کیسے پہنچ گئے ؟ وجہ تو سبھی کو معلوم ہوگی لیکن پرانی باتیں یاد کرنے اور اللہ تعالیٰ کی توفیق اور انعام الٰہی یاد کرنے کی تجدید کے لیے سوال کریں گے اور جواب میں مشغول ہوں گے۔ جن سے سوال ہوگا ان کا جواب یوں نقل فرمایا ﴿ قَالُوْۤا اِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِيْۤ اَهْلِنَا مُشْفِقِيْنَ ٠٠٢٦﴾ وہ جواب دیں گے بیشک ہم اس سے پہلے جو اپنے گھر اور اہل و عیال میں رہتے تھے وہ ہمارا رہنا اور بسنا ڈرتے ڈرتے تھا۔ یعنی ہم ڈرتے رہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی نافرمانی نہ ہوجائے جو اس کی ناراضگی کا سبب بنے آخرت کی پیشی اور محاسبہ و مواخذہ کی فکر تھی اس مضمون کو سورة الحآقہ میں یوں بیان فرمایا ﴿ اِنِّيْ ظَنَنْتُ اَنِّيْ مُلٰقٍ حِسَابِيَهْۚ٠٠٢٠﴾ (مجھے یقین تھا کہ میرا حساب میرے سامنے آئے گا) آخرت کا یقین اور وہاں کے لیے فکر مند ہونا یہی مومن کی اصل پونجی ہے جسے یہ دولت مل گئی وہ وہاں پار ہوجائے گا۔ ﴿فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَيْنَا وَ وَقٰىنَا عَذَاب السَّمُوْمِ ٠٠٢٧﴾ (سو اللہ نے ہم پر احسان فرمایا اور دوزخ کے عذاب سے بچا لیا) مومن آدمی جتنا بھی عمل کرے اسے اپنے ہنر کا کمال نہیں سمجھتا ہے۔ دل کی گہرائی سے وہ یہی جانتا اور مانتا ہے کہ اعمال صالحہ ایمان اور تقویٰ پرہیزگاری اور آخرت کی فکر یہ سب اللہ تعالیٰ ہی کا انعام ہے اس نے جنت میں بھی داخل فرمایا اور دوزخ کے عذاب سے بھی بچایا۔ شكر خدا کن کہ موفق شدی بخیر زفضل و انعامشن معطل نہ گزاشتت ﴿اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلُ نَدْعُوْهُ ١ؕ﴾ (بےشک ہم دنیا میں اللہ کو پکارتے تھے اور اس سے دعائیں کیا کرتے تھے) اس لیے ہماری دعائیں قبول فرمائیں۔ ﴿اِنَّهٗ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيْمُ (رح) ٠٠٢٨﴾ (واقعی وہ بڑا محسن مہربان ہے) اسی کے احسان اور اسی کی مہربانی کی وجہ سے ہم یہاں پہنچے ہیں۔ فللّٰہ المنة ومنہ النعمة۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(23) وہ اس جنت میں جام شراب پر باہمی چھینا جھپٹی بھی کریں گے اس شراب سے لیس گے یا یہ کہ جیسا عام مجمع میں ہوتا ہے کہ دیا زید کو لے لیا محمود نے یا ایک دوسرے کے ہاتھ سے لیگا کہ پہلے میں پیوں گا غرض جو باتیں ایسے موقعہ پر لطف اٹھانے اور دل لگی کرنے کی ہوتی ہیں وہ بھی ہوں گی۔ البتہ اس شراب میں بیہودگی اور گناہ کا کوئی بات نہ ہوگی دنیا کی شراب پر وہاں کی شراب کو قیاس نہ کرنا چاہیے۔