Surat ut Toor

Surah: 52

Verse: 24

سورة الطور

وَ یَطُوۡفُ عَلَیۡہِمۡ غِلۡمَانٌ لَّہُمۡ کَاَنَّہُمۡ لُؤۡلُؤٌ مَّکۡنُوۡنٌ ﴿۲۴﴾

There will circulate among them [servant] boys [especially] for them, as if they were pearls well-protected.

اور ان کے ارد گرد ان کے نو عمر غلام پھر رہے ہونگے ، گویا کہ وہ موتی تھے جو ڈھکے رکھے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And there will go round boy-servants of theirs to serve them as if they were preserved pearls. This is a description of the servants and aids, the believers will have in Paradise. Their servants will be beautiful, graceful in appearance, clean and neat as well-preserved pearls, يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَنٌ مُّخَلَّدُونَ بِأَكْوَابٍ وَأَبَارِيقَ وَكَأْسٍ مِّن مَّعِينٍ Immortal boys will go around them with cups, and jugs, and a glass of flowing wine. (56:17-18) Allah the Exalted said, وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءلُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 یعنی جنتیوں کی خدمت کے لئے انہیں نو عمر خادم بھی دیئے جائیں گے جو ان کی خدمت کے لئے پھر رہے ہونگے اور حسن و جمال اور صفائی و رعنائی میں وہ ایسے ہونگے جیسے موتی، جسے ڈھک کر رکھا گیا ہو، تاکہ ہاتھ لگنے سے اس کی چمک دمک ماند نہ پڑے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٠] نوخیز لڑکے :۔ یہ نوخیز لڑکے بےریش ہوں گے اور ہمیشہ نوخیز ہی رہیں گے۔ ان کی خوبصورتی، صفائی اور پاکیزگی کا یہ عالم ہوگا جیسے موتی ابھی اپنی صدف میں ہی محفوظ ہوں یا کسی جواہرات والی ڈبیہ میں چھپا دیئے گئے ہوں تاکہ ان پر گردوغبار کا کوئی ذرہ نہ پڑجائے۔ بالفاظ دیگر وہ اتنے خوبصورت اور صاف ستھرے ہوں گے کہ ہاتھ لگنے سے بھی میلے معلوم ہوں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ویطوف علیھم غلمان لہم : اس کی وضاحت کیلئے دیکھیے سورة دہر ( ١٩) اور سورة واقعہ (١٧، ١٨) کی تفسیر۔ (٢) کانھم لو لو مکنون : یعنی ان کی خوبصورتی، سفیدی اور پاکیزگی کا یہ عالم ہوگا جیسے موتی ابھی اپنی سیپ ہی میں محفوظ ہوں، یا جواہرات والی ڈبیا میں اس طرح چھپا کر رکھے ہوئے ہوں کہ نہ ان پر گرد و غبار کا کوئی ذرہ پڑا ہوا اور نہ وہ ہاتھ لگنے سے میلے ہوئے ہوں۔ دوسرے لفظوں میں وہ اتنے خوبصورت اور صاف ستھرے ہوں گے کہ چھوٹے سے میلے ہوتے ہوں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَطُوْفُ عَلَيْہِمْ غِلْمَانٌ لَّہُمْ كَاَنَّہُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُوْنٌ۝ ٢٤ طوف الطَّوْفُ : المشيُ حولَ الشیءِ ، ومنه : الطَّائِفُ لمن يدور حول البیوت حافظا . يقال : طَافَ به يَطُوفُ. قال تعالی: يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدانٌ [ الواقعة/ 17] ، قال : فَلا جُناحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِما[ البقرة/ 158] ، ومنه استعیر الطَّائِفُ من الجنّ ، والخیال، والحادثة وغیرها . قال : إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ [ الأعراف/ 201] ، وهو الذي يدور علی الإنسان من الشّيطان يريد اقتناصه، وقد قرئ : طيف «4» وهو خَيالُ الشیء وصورته المترائي له في المنام أو الیقظة . ومنه قيل للخیال : طَيْفٌ. قال تعالی: فَطافَ عَلَيْها طائِفٌ [ القلم/ 19] ، تعریضا بما نالهم من النّائبة، وقوله : أَنْ طَهِّرا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ [ البقرة/ 125] ، أي : لقصّاده الذین يَطُوفُونَ به، والطَّوَّافُونَ في قوله : طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلى بَعْضٍ [ النور/ 58] عبارة عن الخدم، وعلی هذا الوجه قال عليه السلام في الهرّة : (إنّها من الطَّوَّافِينَ عليكم والطَّوَّافَاتِ ) «5» . وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی: فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا «1» ، وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك . والطُّوفَانُ : كلُّ حادثة تحیط بالإنسان، وعلی ذلک قوله : فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف/ 133] ، وصار متعارفا في الماء المتناهي في الکثرة لأجل أنّ الحادثة التي نالت قوم نوح کانت ماء . قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت/ 14] ، وطَائِفُ القوسِ : ما يلي أبهرها «2» ، والطَّوْفُ كُنِيَ به عن العَذْرَةِ. ( ط و ف ) الطوف ( ن ) کے معنی کسی چیز کے گرد چکر لگانے اور گھومنے کے ہیں ۔ الطائف چوکیدار جو رات کو حفاظت کے لئے چکر لگائے اور پہرہ دے طاف بہ یطوف کسی چیز کے گرد چکر لگانا گھومنا ۔ قرآن میں ہے : يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدانٌ [ الواقعة/ 17] نوجوان خدمت گزار جو ہمیشہ ایک ہی حالت میں رہیں گے ان کے آس پاس پھیریں گے ۔ فَلا جُناحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِما[ البقرة/ 158] اس پر کچھ گناہ نہیں کہ دونوں کا طواف کرے ۔ اور اسی سے بطور استعارہ جن خیال ، حادثہ وغیرہ کو بھی طائف کہاجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ [ الأعراف/ 201] جب ان کو شیطان کیطرف سے کوئی وسوسہ پیدا ہوتا ہے ۔ میں طائف سے وہ شیطان مراد ہے جو انسان کا شکار کرنے کے لئے اس کے گرد چکر کاٹتا رہتا ہے ایک قرآت میں طیف ہے ، جس کے معنی کسی چیز کا خیال اور اس صورت کے ہے جو خواب یابیداری میں نظر آتی ہے اسی سے خیال کو طیف کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ : فَطافَ عَلَيْها طائِفٌ [ القلم/ 19] کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے ( راتوں رات ) اس پر ایک آفت پھر گئی ۔ میں طائف سے وہ آفت یا حادثہ مراد ہے جو انہیں پہنچا تھا ۔ اور آیت کریمہ : أَنْ طَهِّرا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ [ البقرة/ 125] طواف کرنے والوں ۔۔۔ کے لئے میرے گھر کو صاف رکھا کرو۔ میں طائفین سے مراد وہ لوگ ہیں جو حج یا عمرہ کرنے کے لئے ) بیت اللہ کا قصد کرتے اور اس کا طواف کرتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلى بَعْضٍ [ النور/ 58] اور نہ ان پر جو کام کے لئے تمہارے اردگرد پھرتے پھراتے رہتے ہیں ۔ میں طوافون سے نوکر چاکر مراد ہیں ( جنہیں خدمت گزاری کے لئے اندروں خانہ آنا جا نا پڑتا ہے ) اسی بنا پر بلی کے متعلق حدیث میں آیا ہے (33) انما من الطوافین علیکم والطوافات ۔ کہ یہ بھی ان میں داخل ہے جو تمہارے گرد پھرتے پھراتے رہتے ہیں ۔ الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو ) الطوفان وہ مصیبت یا حادثہ جو انسان کو چاروں طرف سے گھیرے اس بنا پر آیت کریمہ ؛فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف/ 133] تو ہم ان پر طوفان ( وغیرہ کتنی کھلی ہوئی نشانیاں بھیجیں ۔ میں طوفان بمعنی سیلاب بھی ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ نوح (علیہ السلام) کی قوم پر جو عذاب آیا تھا ۔ وہ پانی کی صورت میں ہی تھا اور دوسری جگہ فرمایا : فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت/ 14] پھر ان کو طوفان کے عذاب ) نے آپکڑا ۔ طائف القوس خانہ کمان جو گوشہ اور ابہر کے درمیان ہوتا ہے ۔ الطوف ( کنایہ ) پلیدی ۔ غلم الْغُلَامُ الطّارّ «3» الشّارب . يقال : غُلَامٌ بيّن الغُلُومَةِ والغُلُومِيَّةِ. قال تعالی: أَنَّى يَكُونُ لِي غُلامٌ [ آل عمران/ 40] ، وَأَمَّا الْغُلامُ فَكانَ أَبَواهُ مُؤْمِنَيْنِ [ الكهف/ 80] ، وقال : وَأَمَّا الْجِدارُ فَكانَ لِغُلامَيْنِ [يوسف/ 19] ، وقال في قصة يوسف : هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] ، والجمع : غِلْمَةٌ وغِلْمَانٌ ، واغْتَلَمَ الْغُلَامُ :إذا بلغ حدّ الغلومة، ولمّا کان من بلغ هذا الحدّ كثيرا ما يغلب عليه الشّبق قيل للشّبق : غِلْمَةٌ ، واغْتَلَمَ الفحلُ. ( غ ل م ) الغلام اس لڑکے کو کہتے ہیں جس کی مسیں بھیگ چکی ہوں محاورہ ہے غلام بین الغلومۃ والغیو میۃ لڑکا جو بھر پور جوانی کی عمر میں ہو۔ کی عمر میں ہو قرآن پاک میں ہے : أَنَّى يَكُونُ لِي غُلامٌ [ آل عمران/ 40] میرے ہاں لڑکا کیونکہ ہوگا ۔ وَأَمَّا الْغُلامُ فَكانَ أَبَواهُ مُؤْمِنَيْنِ [ الكهف/ 80] اور وہ لڑکا تھا اس کے ماں باپ دونوں مومن تھے ۔ وَأَمَّا الْجِدارُ فَكانَ لِغُلامَيْنِ [يوسف/ 19] اور جو دیورار تھی سو وہ دو لڑکوں کی تھی ۔ اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قصہ میں فرمایا : هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] یہ تو نہایت حسین ) لڑکا ہے ۔ غلام کی جمع غلمۃ وغلمان آتی ہے ۔ اور اغتلم الغلام کے معنی ہیں لڑکا بالغ ہوگیا ۔ عام طور پر چونکہ اس عمر میں جنسی خواہش کا غلبہ ہوجاتا ہے اس لئے غلمۃ کا لفظ جنسی خواہش کی شدت پر بولا جاتا ہے ۔ اور اغتلم الفحل کے معنی ہیں سانڈ جنسی خواہش سے مغلوب ہوگیا ۔ لؤلؤ قال تعالی: يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ [ الرحمن/ 22] ، وقال : كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور/ 24] جمعه : لَآلِئٌ ، وتَلَأْلَأَ الشیء : لَمَعَ لَمَعان اللّؤلؤ، وقیل : لا أفعل ذلک ما لَأْلَأَتِ الظِّبَاءُ بأذنابها «1» . ( ل ء ل ء ) اللؤ لوء ۔ جمع لاتی ۔ قرآن میں ہے : يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ [ الرحمن/ 22] دونوں دریاؤں سے ہوتی ۔۔۔ نکلتے ہیں ۔ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور/ 24] جیسے چھپائے ہوئے ہوتی ۔ اور تلالالشئی کے معنی کسی چیز کے موتی کی طرح چمکنے کے ہیں مشہور محاورہ ہے ۔ لاافعل ذلک مالالات الظباء باذنابھا جب تک کہ آہو اپنے دم ہلاتے رہیں گے میں یہ کام نہیں کرونگا ۔ یعنی کبھی بھی یہ کام نہیں کروں گا ۔ لبس لَبِسَ الثّوب : استتر به، وأَلْبَسَهُ غيره، ومنه : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف/ 31] واللِّبَاسُ واللَّبُوسُ واللَّبْسُ ما يلبس . قال تعالی: قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] وجعل اللّباس لكلّ ما يغطّي من الإنسان عن قبیح، فجعل الزّوج لزوجه لباسا من حيث إنه يمنعها ويصدّها عن تعاطي قبیح . قال تعالی: هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة/ 187] فسمّاهنّ لباسا کما سمّاها الشاعر إزارا في قوله : 402- فدی لک من أخي ثقة إزاري«1» وجعل التّقوی لِبَاساً علی طریق التّمثیل والتّشبيه، قال تعالی: وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف/ 26] وقوله : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 80] يعني به : الدِّرْعَ ، وقوله : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل/ 112] ، وجعل الجوع والخوف لباسا علی التّجسیم والتشبيه تصویرا له، وذلک بحسب ما يقولون : تدرّع فلان الفقر، ولَبِسَ الجوعَ ، ( ل ب س ) لبس الثوب ۔ کے معنی کپڑا پہننے کے ہیں اور البسہ کے معنی دوسرے کو پہنانا کے ۔ قرآن میں ہے : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف/ 31] اور وہ سبز کپڑے پہنا کریں گے ۔ اللباس واللبوس واللبس وہ چیز جو پہنی جائے ۔ قرآن میں ہے : قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈاھانپے ۔ اور لباس کا لفظ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے ۔ جو انسان کے برے کاموں پر پردہ ڈال سکے ۔ چناچہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کو قبائح کے ارتکاب سے روکتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة/ 187] وہ تمہاری پوشاک اور تم ان کی پوشاک ہو ۔ چناچہ اسی معنی میں شاعرنے اپنی بیوی کو ازار کہا ہے ۔ اے میرے قابل اعتماد بھائی پر میری ازار یعنی بیوی قربان ہو ۔ اور تمثیل و تشبیہ کے طور پر تقوی کو بھی لباس قرار دیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف/ 26] اور جو پر ہیزگاری کا لباس ہے ۔ اور آیت کریمہ : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 80] اور ہم نے تمہارے لئے ان کو ایک طرح کا لباس بنانا ۔۔۔۔۔ میں لبوس سے زر ہیں مراد ہیں اور آیت کریمہ : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل/ 112] تو خدا نے ان کے اعمال کے سبب بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر ناشکری کا مزہ چکھا دیا ۔ میں جوں یعنی بھوک اور خوف کی تصویر کھینچے کے لئے اس لباس کے ساتھ تشبیہ دی ہے ۔ مكن المَكَان عند أهل اللّغة : الموضع الحاوي للشیء، قال : وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف/ 10] ( م ک ن ) المکان اہل لغت کے نزدیک مکان اس جگہ کو کہتے ہیں جو کسی جسم پر حاوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف/ 10] اور ہم نے زمین میں تمہارا ٹھکانا بنایا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤{ وَیَطُوْفُ عَلَیْہِمْ غِلْمَانٌ لَّہُمْ کَاَنَّـہُمْ لُـؤْلُــؤٌ مَّکْنُوْنٌ ۔ } ” اور ان پر گردش میں رہیں گے نوجوان لڑکے ان کی خدمت کے لیے ‘ وہ ایسے ہوں گے جیسے موتی ہوں غلافوں میں رکھے ہوئے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

19 Here, the word used is ghilman-ul lahum and not ghilman-u-hum. If ghilman-u-hum had been used, it would have meant that their servants in the world would be made their servants in Paradise too; whereas whoever from the world goes to Paradise, will go there on the basis of his own work and entitlement, and there is no reason that after his entry in Paradise he may be made a servant of the same master whom he had been serving in the world. But it can also be that a servant on account of his deeds may attain a higher rank than his master in Paradise. Therefore, by using ghilman-ul-lahum no room has been left for this suspicion This word provides the explanation that these will be the boys who will be exclusively appointed for their service in Paradise. (For further explanation, see E.N. 26 of Surah As-Saffat).

سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :19 یہ نکتہ قابل غور ہے کہ غِلْمَانُھُمْ نہیں فرمایا بلکہ غِلْمَانٌ لَّہُمْ فرمایا ہے ۔ اگر غِلْمَانُہُمْ فرمایا جاتا تو اس سے یہ گمان ہو سکتا تھا کہ دنیا میں ان کے جو خادم تھے وہی جنت میں بھی ان کے خادم بنا دیے جائیں گے ، حالانکہ دنیا کا جو شخص بھی جنت میں جائے گا اپنے استحقاق کی بنا پر جائے گا اور کوئی وجہ نہیں کہ جنت میں پہنچ کر وہ اپنے اسی آقا کا خادم بنا دیا جائے جس کی خدمت وہ دنیا میں کرتا رہا تھا ۔ بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی خادم اپنے عمل کی وجہ سے اپنے مخدوم کی بہ نسبت زیادہ بلند مرتبہ جنت میں پائے ۔ اس لیے غِلْمَانٌ لَّھُمْ فرما کر اس گمان کی گنجائش باقی نہیں رہنے دی گئی ۔ یہ لفظ اس بات کی وضاحت کر دیتا ہے کہ یہ وہ لڑکے ہوں گے جو جنت میں ان کی خدمت کے لیے مخصوص کر دیے جائیں گے ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، تفسیر سورہ صافات ، حاشیہ 26 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٤۔ ٢٨۔ جو موتی کام میں لایا جائے وہ ذرا میلا ہوجاتا ہے ان غلاموں کا رنگ ایسا آبدار ہوگا جس طرح بےکام میں لایا ڈبیا میں رکھا ہوا موتی آبدار ہوتا ہے۔ بعض مفسروں نے لکھا ہے کہ مشرکوں کے نابالغ بچے جو مرجاتے ہیں یہ وہی ہیں لیکن اوپر بیان ہوچکا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ جنت میں اگرچہ غلام اور خدمت گار کی کچھ ضرورت نہیں وہاں سب کام اللہ کے حکم سے خود ہوجایا کریں گے لیکن عزت اور احتشام بڑھانے کے لئے ادنیٰ اہل جنت کو اسی ہزار غلام دیئے جائیں گے چناچہ ترمذی میں ١ ؎ ابو سعید خدری کی حدیث میں اس کا ذکر ہے اگرچہ ترمذی نے اس سند میں رشدین بن سعد کو منفرد کہا ہے جو بعض علماء کے نزدیک ضعیف ہے لیکن صحیح ابن حبان کی سند میں رشدین نہیں ہے۔ اب آگے یہ ذکر ہے کہ یہ متقی لوگ دنیا میں عذاب سے ڈرا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے اس عذاب سے بچانے کی دعا کیا کرتے تھے اس حالت کو یاد کرکے جنت میں اس کا تذکرہ یوں آپس میں کریں گے کہ اللہ بڑا غفور الرحیم ہے کہ اس نے ہماری دنیا کی وہ التجا سن لی اور ہم کو عذاب آخرت سے بچا لیا۔ صحیح ٢ ؎ بخاری و مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بندوں کا ذکر الٰہی سننے کو جو فرشتے زمین پر آتے ہیں جب وہ آسمان پر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں یا اللہ تیرے بندے دوزخ کے عذاب سے خوفزدہ ہو کر اس عذاب سے تیری پناہ چاہ رہے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے ان کو عذاب آخرت سے اپنی پناہ دی۔ حدیث کا یہ ٹکڑا آیت کے اس ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے کیونکہ آیت کا اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص عذاب آخرت سے دنیا میں ڈرتا رہے گا اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کو عذاب سے بچائے گا۔ (١ ؎ جامع ترمذی باب ماجاء مالا دنی اھل الجنۃ من الکرامۃ ص ٩٣ ج ٢۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری باب فضل ذکر اللہ تعالیٰ ص ٩٤٨ ج ٢ و صحیح مسلم فضل مجالس الذکر ص ٣٤٤ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(52) 24) یطوفون : مضارع جمع مذکر غائب طوف و طواف (باب نصر) چکر لگاتے رہیں گے : خدمت کے لئے تیار رہیں گے۔ غلمان۔ غلام کی جمع ہے۔ الغلام اس لڑکے کو کہتے ہیں جس کی مسیں بھیگ چکی ہوں۔ لڑکا جو بھرپور جوانی میں ہو۔ قرآن مجید میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قصہ میں آیا ہے ھذا غلم یہ تو نہایت حسین لڑکا ہے۔ لہم میں لام تخصیص کا ہے یعنی جو ان کے ہی مملوک ہوں گے ۔ مشرک خادم نہیں ہوں گے۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب اہل بہشت کیلئے ہے۔ کانھم : کان حرف مشبہ بالفعل ہم ضمیر جمع مذکر غائب : کان کا اسم، گویا وہ سب۔ کان چار معانی کے لئے مستعمل ہے۔ (1) عموماً تشبیہ کے لئے بکثرت یہی استعمال ہوتا ہے۔ اور قرآن مجید میں بھی صرف اسی معنی کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ کان تشبیہ کے لئے ہو تو خبر کا جامد ہونا ضروری ہے جیسے کانہ ھو (27:42) یہ تو گویا ہوبہو وہی ہے۔ (2) شک اور ظن کو ظاہر کرنے کے لئے ۔ یعنی متکلم اپنا گمان ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ جیسے کانک بالشتاء مقیل : میرا گمان ہے کہ تم جاڑا ساتھ لے کر آؤ گے : یعنی سردی سے زمانے میں واپس آؤ گے۔ (3) تحقیق کے لئے جیسے کان الارض لیس بھا ہشام : یعنی ان الارض لیس بھا ہشام۔ (4) تقریب کے لئے جیسے کانک بالدنیا لم تکن : عنقریب تم دنیا سے چلے جاؤ گے گویا تم دنیا میں موجود نہیں ہو۔ لؤلؤ مکنون۔ موصوف وصفت۔ لؤلؤ موتی اس کی جمع لالی ہے۔ مکنون اسم مفعول واحد مذکر۔ کن اور کنون (باب نصر) مصدر۔ چھایا ہوا۔ صاف، محفوظ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی ایسے موتی جو غلاف یا سیپ کے اندر ہوں اور کسی نے انہیں چھواء تک نہ ہو۔ اس لئے نہایت صاف شفاف ہوں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ محفوظ موتی پر گردو غبار نہیں ہوتا اور آب و تاب اعلی درجہ کی ہوتی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

کانھم لؤ لؤ مکنون (٢٥ : ٤٢) ” ایسے خوبصورت جیسے چھپائے ہوئے موتی “ جن کی وجہ اس مجلس کا لطف روحانی اور جسمانی اعتبار سے دو چند ہوجائے گا۔ اس منظر اور مجلس کی تکمیل کے لئے ان کی باہم گفتگو بھی پیش کی جاتی ہے ۔ ان کے ماضی پر ان کا مذاکرہ بھی دیا جاتا ہے اور وہ جس مقام تک پہنچ چکے ہیں اس کے اسباب بھی گنوائیں گے کہ کس وجہ سے وہ اس امن ، رضامندی ، امن و محبت اور وسیع سامان زندگی تک پہنچے ہیں۔ یوں وہ اپنے دلوں میں وہاں بھی اپنی اس حالت کے اسباب گنوا رہے ہوں گے اور اس منظر میں اہل دنیا کو بتایا جاتا ہے کہ اس مقام تک پہنچنے کا یہ راستہ ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11:۔ ” ویطوف۔ الایۃ “ وہاں ان کی خدمت کیلئے ایسے نوجوان موجود ہوں گے جو حسن و جمال میں ایسے سچے اور آبدار موتیوں کی طرح ہوں گے جنہیں چھپا کر رکھا گیا ہو، اور انسانی ہاتھوں نے ان کو چھو تک نہ ہو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(24) اور ان کی خدمت کے لئے جو غلام اور خادم ان اہل جنت کے پاس آمدورفت کرتے ہوں گے اور ان پر پھرتے ہوں گے ایسے ہوں جیسے سیپی میں محفوظ ہوتی۔ خدام جنت کی صفائی اور سفیدی میں تشبیہہ بیان کی گئی جو موتی غلاف میں یا سیب میں رکھا ہو اس کی صفائی اور سفیدی بہت بڑھیا ہوتی ہے مکنون کا یہی مطلب ہے۔