Surat ut Toor

Surah: 52

Verse: 30

سورة الطور

اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہٖ رَیۡبَ الۡمَنُوۡنِ ﴿۳۰﴾

Or do they say [of you], "A poet for whom we await a misfortune of time?"

کیا کافر یوں کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے ہم اس پر زمانے کے حوادث ( یعنی موت ) کا انتظار کر رہے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Or do they say: "A poet! We await for him some calamity by time!" They said, `We await a disaster to strike him, for example, death. We will be patient with him until death comes to him and we, thus, get rid of his bother and from his Message.' Allah the Exalted said, قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُتَرَبِّصِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

30۔ 1 رَیْب کے معنی ہیں حوادث، موت کے ناموں سے ایک نام۔ مطلب ہے قریش مکہ اس انتظار میں ہیں کہ زمانے کے حوادث سے شاید اس (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو موت آجائے اور ہمیں چین نصیب ہوجائے، جو اس کی دعوت توحید نے ہم سے چھین لیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(ام یقولون شاعر نتربص بہ ریب المنون :” نربص یتربص “ (تفغل) ” آنے والے کسی شر یا خیر کا انتظار کرنا۔ “” المنون “” من یمن منا “ (ن) کا معنی ” قطع کرنا “ ہے۔ ” المنون “ بروزن ” فعول “ (کاٹنے والا) موت کو کہتے ہیں، کیونکہ وہ زندگی کی رسی کو کاٹ دیتی ہے اور زمانے کو بھی، کیونکہ وہ بھی زندگی کے ایام کو کاٹتا چلا جاتا ہے۔ ” ریب “ کا اصل معنی شک اور بےچینی ہے، لیکن جب اس کا استعمال زمانے کے ساتھ ہو تو مراد زمانے کے حوادث ہوتے ہیں، کیونکہ وہ آدمی کو بےچین رکھتے ہیں۔ یہاں سے اللہ تعالیٰ نے انکار اور تعجب کے انداز میں ان مشرکین کی جہالت کی باتوں کا پندرہ (١٥) دفعہ لفظ ” ام “ کے ساتھ ذکر فرمایا ہے اور ہر ” ام “ کے بعد سوال کرتے ہوئے ان پر الزام قائم کیا ہے، جس کا جواب ان میں سے کسی کے پاس نہیں۔ چناچہ اس آیت میں فرمایا :(ام یقولون شاعر)” یا وہ کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے۔ “ کفار یہ قول نقل فرما کر تردید کی ضرورت نہیں سمجھی، کیونکہ قرآن مجید کا وجود ہی اس کی تردید کے لئے کافی ہے۔ البتہ ان کی اس بات کا جواب دیا ہے ہے کہ ہم اس پر زمانے کے حوادث کا انتظار کرتے ہیں کہ اس پر کوئی آفت آجائے، یا اس کی موت کا وقت آجائے، جس کے ساتھ اس کی دعوت کا سلسلہ ختم ہوجائے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ يَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہٖ رَيْبَ الْمَنُوْنِ۝ ٣٠ أَمْ»حرف إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه : أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص/ 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ } ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔ شعر ( شاعر) الشَّعْرُ معروف، وجمعه أَشْعَارٌ قال اللہ تعالی: وَمِنْ أَصْوافِها وَأَوْبارِها وَأَشْعارِها [ النحل/ 80] ، وشَعَرْتُ : أصبت الشَّعْرَ ، ومنه استعیر : شَعَرْتُ كذا، أي علمت علما في الدّقّة كإصابة الشَّعر، وسمّي الشَّاعِرُ شاعرا لفطنته ودقّة معرفته، فَالشِّعْرُ في الأصل اسم للعلم الدّقيق في قولهم : ليت شعري، وصار في التّعارف اسما للموزون المقفّى من الکلام، والشَّاعِرُ للمختصّ بصناعته، وقوله تعالیٰ حكاية عن الکفّار : بَلِ افْتَراهُ بَلْ هُوَ شاعِرٌ [ الأنبیاء/ 5] ، وقوله : لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات/ 36] ، شاعِرٌ نَتَرَبَّصُ بِهِ [ الطور/ 30] ، وكثير من المفسّرين حملوه علی أنهم رموه بکونه آتیا بشعر منظوم مقفّى، حتی تأوّلوا ما جاء في القرآن من کلّ لفظ يشبه الموزون من نحو : وَجِفانٍ كَالْجَوابِ وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] ، وقوله : تَبَّتْ يَدا أَبِي لَهَبٍ [ المسد/ 1] . وقال بعض المحصّلين : لم يقصدوا هذا المقصد فيما رموه به، وذلک أنه ظاهر من الکلام أنّه ليس علی أسالیب الشّعر، ولا يخفی ذلک علی الأغتام من العجم فضلا عن بلغاء العرب، وإنما رموه بالکذب، فإنّ الشعر يعبّر به عن الکذب، والشَّاعِرُ : الکاذب حتی سمّى قوم الأدلة الکاذبة الشّعريّة، ولهذا قال تعالیٰ في وصف عامّة الشّعراء : وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء/ 224] ، إلى آخر السّورة، ولکون الشِّعْرِ مقرّ الکذب قيل : أحسن الشّعر أكذبه . وقال بعض الحکماء : لم ير متديّن صادق اللهجة مفلقا في شعره . ( ش ع ر ) الشعر بال اس کی جمع اشعار آتی ہے قرآن میں ہے ۔ وَمِنْ أَصْوافِها وَأَوْبارِها وَأَشْعارِها [ النحل/ 80] اون اور ریشم اور بالوں سے شعرت کے معنی بالوں پر مارنے کے ہیں ۔ اور اسی سے شعرت کذا مستعار ہے جس کے معنی بال کی طرح باریک علم حاصل کرلینے کے ہیں اور شاعر کو بھی اس کی فطانت اور لطافت نظر کی وجہ سے ہی شاعر کہا جاتا ہے تو لیت شعری کذا کے محاورہ میں شعر اصل میں علم لطیف کا نام ہے پھر عرف میں موزوں اور مقفیٰ کلام کو شعر کہا جانے لگا ہے اور شعر کہنے والے کو شاعر کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلِ افْتَراهُ بَلْ هُوَ شاعِرٌ [ الأنبیاء/ 5] بلکہ اس نے اس کو اپنی طرف سے بنا لیا ہے ۔ نہیں بلکہ ( یہ شعر ہے جو اس ) شاعر کا نتیجہ طبع ہے ۔ نیز آیت کریمہ : ۔ لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات/ 36] ایک دیوانے شاعر کے کہنے سے ۔ اور آیت شاعِرٌ نَتَرَبَّصُ بِهِ [ الطور/ 30] شاعر ہے اور ہم اس کے حق میں ۔۔۔ انتظار کر رہے ہیں ۔ بہت سے مفسرین نے یہ سمجھا ہے کہ انہوں نے آنحضرت پر شعر بمعنی منظوم اور مقفیٰ کلام بنانے کی تہمت لگائی تھی ۔ حتی کہ وہ قران میں ہر اس آیت کی تاویل کرنے لگے جس میں وزن پایا جاتا ہے جیسے وَجِفانٍ كَالْجَوابِ وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] لیکن بعض حقیقت شناس لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے ان کا مقصد منظوم اور مقفیٰ کلام بنانے تہمت لگانا نہیں تھا ۔ کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ قرآن اسلوب شعری سے مبرا ہے اور اس حقیقت کو عوام عجمی بھی سمجھ سکتے ہیں پھر فصحاء عرب کا کیا ذکر ہے ۔ بلکہ وہ آپ پر ( نعوذ باللہ ) جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے کیونکہ عربی زبان میں شعر بمعنی کذب اور شاعر بمعنی کاذب استعمال ہوتا ہے ۔ حتی کہ جھوٹے دلائل کو ادلۃ شعریۃ کہا جاتا ہے اسی لئے قرآن نے شعراء کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے :۔ وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء/ 224] اور شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کیا کرتے ہیں ۔ اور شعر چونکہ جھوٹ کا پلندہ ہوتا ہے ۔ اس لیے مقولہ مشہور ہے کہ احسن الشعر اکذبہ سب سے بہتر شعروہ ہے جو سب سے زیادہ جھوٹ پر مشتمل ہوا اور کسی حکیم نے کہا ہے کہ میں نے کوئی متدین اور راست گو انسان ایسا نہیں دیکھا جو شعر گوئی میں ماہر ہو ۔ المشاعر حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ربص التّربّص : الانتظار بالشیء، سلعة کانت يقصد بها غلاء، أو رخصا، أو أمرا ينتظر زواله أو حصوله، يقال : تربّصت لکذا، ولي رُبْصَةٌ بکذا، وتَرَبُّصٌ ، قال تعالی: وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ [ البقرة/ 228] ، قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُتَرَبِّصِينَ [ الطور/ 31] ، قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ [ التوبة/ 52] ، وَيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوائِرَ [ التوبة/ 98] . ( ر ب ص ) التربص کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ خواہ وہ انتظار سامان تجارت کی گرانی یا ارزانی کا ہو یا کسی امر وا قع ہونے یا زائل ہونیکا انتظار ہو ۔ کسی چیز کا انتظار کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ [ البقرة/ 228] عورتوں کو چاہئے کہ انتظار کریں ۔ قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُتَرَبِّصِينَ [ الطور/ 31] ان سے کہو کہ ( بہت اچھا ) تم ( بھی ) انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کر رہا ہوں قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ [ التوبة/ 52] اے پیغمبر ان لوگوں سے کہو کہ تم ہمارے حق میں دو بھلائیوں میں سے ( خواہ نخواہ ) ایک نہ ایک کا انتظار کرتے ہو اور ہم تمہارے حق میں انتظار کرتے ہیں ۔ ريب فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج/ 5] ، ( ر ی ب ) اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة/ 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔ مَنُون وقیل معناه : لا تعط مبتغیا به أكثر منه، وقوله : لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ [ الانشقاق/ 25] قيل : غير معدود کما قال : بِغَيْرِ حِسابٍ [ الزمر/ 10] وقیل : غير مقطوع ولا منقوص . ومنه قيل : المَنُون للمَنِيَّة، لأنها تنقص العدد وتقطع المدد . وقیل : إنّ المنّة التي بالقول هي من هذا، لأنها تقطع النّعمة وتقتضي قطع الشّكر، بعض نے اس کا معنی یہ بیان کیا ہے زیادہ کی طلب کے لئے احسان نہ کر اور آیت کریمہ : ۔ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ [ الانشقاق/ 25] ان کے لئے بےانتہا اجر ہے ۔ میں بعض نے غیر ممنون کے معنی غیر محدود یعنی ان گنت کئے ہیں ۔ جیسا کہ دوسری جگہ بغیر حساب فرمایا ہے : ۔ بعض نے اس معنی غیر مقطوع ولا منقوص کئے ہیں یعنی ان کا اجر نہ منقطع ہوگا اور نہ سہی کم کیا جائے گا ۔ اسی سے المنون بمعنی موت ہے کیونکہ وہ تعداد کو گھٹاتی اور عمر کو قطع کردیتی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

شان نزول : اَمْ يَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ (الخ) ابن جریر نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ قریش جب رسول اکرم کی ذات اقدس کے بارے میں دار الندوہ میں مشورہ کے لیے جمع ہوئے تو ان میں سے کسی نے کہا کہ ان کو نعوذب اللہ مضبوط زنجیروں میں باندھ دو پھر ان کی موت کا انتظار کرو تاکہ یہ بھی اسی طرح ہلاک ہوجائیں جیسا کہ پہلے شعراء میں سے زہیر اور نابغہ ہلاک ہوگئے کیونکہ یہ بھی ان ہی کی طرح ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠{ اَمْ یَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہٖ رَیْبَ الْمَنُوْنِ ۔ } ” کیا ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک شاعر ہے ‘ جس کے لیے ہم منتظر ہیں گردش زمانہ کے ؟ “ مشرکین مکہ آپس میں ایک دوسرے کو یہ کہہ کر تسلی دیتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محض ایک شاعر ہیں۔ ان کے شاعرانہ کلام سے متاثر ہونے میں جلدی مت کرو ‘ کچھ دیر انتظار کرو گے (wait and see ! ) ‘ تو ان کے دعو وں کی اصل حقیقت خود بخود کھل کر سامنے آجائے گی۔ ہمیں قوی امید ہے کہ بہت جلد یہ خود ہی گردش زمانہ کی لپیٹ میں آجائیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

23 That is, "We arc waiting for him to be afflicted with calamity so that we be rid of him. " Probably they thought that since Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) was opposing their deities and denying their supernatural powers, he would fall under the curse of some deity, or some bold devotee of a god would put an end to him.

سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :23 یعنی ہم منتظر ہیں کہ اس شخص پر کوئی آفت آئے اور کسی طرح اس سے ہمارا پیچھا چھوٹے ۔ غالباً ان کا خیال یہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ ہمارے معبودوں کی مخالفت اور ان کی کرامات کا انکار کرتے ہیں ، اس لیے یا تو معاذ اللہ ، ان پر ہمارے کسی معبود کی مار پڑے گی ، یا کوئی دل چلا ان کی یہ باتیں سن کر آپے سے باہر ہو جائے گا اور انہیں قتل کر دے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: عربی لغت کے اعتبار سے اس جملے کا یہ ترجمہ بھی ہوسکتا ہے کہ : یہ صاحب شاعر ہیں جن کے بارے میں ہم موت کے حادثے کا انتظار کر ہے ہیں۔ علامہ سیوطی نے ایک روایت نقل کی ہے کہ قریش کے کچھ لیڈروں نے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں یہ کہا تھا کہ یہ تو ایک شاعر ہیں۔ اور جس طرح دوسرے شاعر ہلاک ہوگئے، اور ان کی شاعری بھی انہی کے ساتھ دفن ہوگئی، اسی طرح یہ بھی انتقال کر جائیں گے تو پھر ان کی باتیں انہی کے ساتھ ختم ہوجائیں گی۔ اس کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(52:30) ام یقولون شاعر : ام حرف اضراب بل کے معنی میں ہے یعنی وہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کاہن اور مجنون کہتے تھے ۔ جس کی نفی خدا تعالیٰ نے ان الفاظ میں کردی۔ فما انت بنعمۃ ربک بکاھن ولا مجنون۔ بلکہ وہ مزید برآں آپ کو شاعر بھی کہتے ہیں (اور کہتے ہیں) ہم اس کے حق میں زمانے کے حوادث کا انتظار کر رہے ہیں۔ یعنی حادثہ موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ آپ شاعر ہیں جس طرح اور شاعر زہیر، نابغہ وغیرہ مرگئے اور ان کے ساتھ ان کا کلام بھی مرگیا۔ اور ان کے بہی خواہ اور ثنا خوانان بھی ختم ہوگئے۔ یہ بھی مرجائیں گے اور ان کے ساتھ ان کا کلام اور ان کے ساتھ ختم ہوجائیں گے : ضمیر جمع مذکر غائب کفار مکہ کی طرف راجع ہے۔ نتربص۔ مضارع جمع متکلم تربص (تفعیل) مصدر بمعنی انتظار کرنا۔ ہم انتظار کرتے ہیں۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ والمطلقت یتربصن (2:228) مطلقہ عورتوں کو چاہیے کہ انتظار کریں۔ ریب المنون : مضاف مضاف الیہ مل کر نتربص کا مفعول۔ ریب باب ضرب سے مصدر ہے۔ اس کے معنی شک اور گمان میں ڈالنے کے ہیں۔ ریب استعمال اس شک یا گمان کے متعلق ہوتا ہے جس کی حقیقت بعد میں اس کے برخلاف منکشف ہوجائے۔ اور چونکہ زمانہ کی گردشوں کی تعین اوقات میں بھی شک ہوتا ہے کہ خدا جانے کب گردش کا وقت آجائے۔ اس لئے جب زمانہ کے ساتھ ریب کا استعمال ہوگا تو گردش کے معنی ہوں گے۔ المنون : من یمن من ومنہ (باب نصر) سے ہے جس کے معنی رسی کاٹنا ہیں اسی کاٹنا کی نسبت سے موت کو بھی المنون کہتے ہیں کیونکہ یہ عمر کو قطع کرتی ہے۔ اسی لحاظ سے من بمعنی زمانہ بھی ہے کہ تعداد ایام کو کم اور زندگی کو قطع کرتا ہے۔ ریب کا استعمال جب زمانہ کے ساتھ ہوگا تو مراد گردش زمانہ یا حوادث زمانہ ہوں گے اور زندگی کا سب سے بڑا حادثہ یا گردش انسان کی موت ہے۔ حادثہ موت میں ریب یعنی شک سے مراد یہ نہیں کہ موت کے وقوع میں شک و شبہ ہے بلکہ اس لحاظ سے ریب کہا جاتا ہے کہ اس کے تعین اوقات میں انسان متردد رہتا ہے کہ خدا جانے کب اس کا وقت آجائے۔ لہٰذا ریب المنون کے معنی یہاں حادثہ موت کے ہیں۔ یعنی کافر کہتے ہیں کہ یہ (رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ایک شاعر ہیں ہم ان کی موت کا انتظار کر رہے ہیں جس کے بعد ان کا بھی وہی حشر ہوگا جو دوسرے شعراء کا ہوتا ہے یعنی موت کے بعد لوگ ان کو اور ان کے کلام کو بھول جائیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی جس طرح قدیم زمانہ کے بہت سے شعراء مر کر ختم ہوگئے یہ بھی ختم ہوجائے گا اور دنیا میں اس کا کوئی نام لیوا باقی نہ رہے گا۔ حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ دارالندوہ میں قریش کا اجتماع ہوا کہ آنحضرت کے معاملے پر غور کیا جائے ایک کہنے والے نے کہا اس شخص کو قید کردو اور اس کی موت کا انتظار کرتے رہو۔ جیسے نابغہ اور دوسرے شعرا مرگئے یہ بھی مرجائے گا۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ شوکانی

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ در منثور میں ہے کہ قریش دار الندوہ میں جمع ہوئے اور آپ کے بارے میں یہ مشورہ قرار پایا کہ جیسے اور شعراء اومرمرا گئے، آپ بھی ان ہی میں ایک ہیں، اسی طرح آپ بھی ہلاک ہوجائیں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ام یقولون ........ المنون (٢٥ : ٠٣) ” کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے جس کے حق میں ہم گردش ایام کا انتظار کررہے ہیں “ انہوں نے یہ بات کہی تھی۔ وہ ایک دوسرے کو یوں تسلی دیتے تھے یعنی اس تحریک کے مقابلے میں صبر کرو اور اپنے دین پر ثابت قدم رہو۔ اپنے وقت پر یہ شخص مر جائے گا۔ یوں ہماری جان چھوٹ جائے گی۔ ایک دوسرے کو کہتے کہ صبر کرو کہ یہ مرجائے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا جاتا ہے کہ آپ ان کو ذرا دھمکی آمیز انداز میں کہہ دیں اچھا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ ” ام یقولون “ یہ شکوی ہے۔ ” ریب المنون “ حوادث زمانہ یا حادثہ موت (خازن، مدارک) ۔ معاندین کبھی تو کہتے ہیں کہ وہ شاعر ہے جب تک زندہ ہے اس کے اشعار کو عروج ہے اور ہم اس کی موت کے منتظر ہیں جونہی اس نے آنکھیں بن دکیں یہ سارا کھیل ختم ہوجائیگا۔ ” قل تربصوا۔ الایۃ “ جواب شکوی ہے۔ آپ فرما دیجئے ہاں تم بھی انتظار کرو۔ میں بھی انتظار کرتا ہوں موت تو سب پر آئیگی، لیکن، تمہیں معلوم ہوجائیگا کہ عزت کی موت کس کی ہوگی اور ذلت ورسوائی کی موت کس کے حصے میں آئیگی چناچہ ان معاندین نے میدان بدر میں دیکھ لیا کہ آخر ذلت و رسوائی ان ہی کیلئے مقدر تھی (مظہری، خازن) ۔ ” ام تامرھم۔ الایۃ “۔ مشرکین عقل و فہم کے مدعی تھے اور اپنے کو حلماء (عقلاء) کہتے تھے۔ ” ام “ منقطعہ ہے بمعنی ” بل “ یعنی کیا ان کی عقلیں انہیں اس تضاد بیانی پر آمادہ کرتی ہیں کہ پیغمبر (علیہ السلام) کو کبھی کاہن و مجنون اور کبھی شاعر کہتے ہیں۔ نہیں ! بلکہ یہ لوگ سرکشی اور عناد میں حد سے گزر چکے ہیں اور یہ سب بےہودگیاں ان کے عناد و استکبار اور طغیان وعدوان سے ناشی ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(30) ہاں تو یہ کافر یوں کہتے کہ یہ شخص شاعر ہے ہم اس کے لئے زمانے کی گرشت یعنی موت کا انتظار کرتے ہیں۔ یعنی جس طرح اور شاعرعرب کے مرگئے اور حوادث زمانہ نے ان کو ختم کردیا اور ان کے رفقا بھی ھختم ہوگئے اسی طرح اس کی بھی موت کا انتظارکرو یہ مرجائے گا تو اس کی بھی پارٹی اور اس کی رفقا بھی منتشر ہوجائیں گے اور یہ روز روز کا قصہ ختم ہوجائے گا۔