Surat ut Toor

Surah: 52

Verse: 44

سورة الطور

وَ اِنۡ یَّرَوۡا کِسۡفًا مِّنَ السَّمَآءِ سَاقِطًا یَّقُوۡلُوۡا سَحَابٌ مَّرۡکُوۡمٌ ﴿۴۴﴾

And if they were to see a fragment from the sky falling, they would say, "[It is merely] clouds heaped up."

اگر یہ لوگ آسمان کے کسی ٹکڑے کو گرتا ہوا دیکھ لیں تب بھی کہہ دیں کہ تہ بہ تہ بادل ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Stubbornness of the Idolators; Their Punishment Allah the Exalted reaffirms the stubbornness of the idolators and their ignorance of what goes around them, وَإِن يَرَوْا كِسْفًا مِّنَ السَّمَاء سَاقِطًا يَقُولُوا سَحَابٌ مَّرْكُومٌ And if they were to see a piece of the heaven falling down, they would say: "Clouds gathered in heaps!" meaning, on them as punishment, they would not believe it is coming their way, saying that, these are layers of clouds on top of each other. Allah the Exalted said in other Ayat, وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِم بَاباً مِّنَ السَّمَاءِ فَظَلُّواْ فِيهِ يَعْرُجُونَ لَقَالُواْ إِنَّمَا سُكِّرَتْ أَبْصَـرُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُورُونَ And even if We opened to them a gate from the heaven and they were to keep on ascending thereto (all day long), they would surely say (in the evening): "Our eyes have been dazzled. Nay, we are a people bewitched." (15:14-15) Allah the Exalted said,

طے شدہ بدنصیب اور نشست وبرخواست کے آداب مشرکوں اور کافروں کے عناد کا بیان ہو رہا ہے کہ یہ اپنی سرکشی ضد اور ہٹ دھرمی میں اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ اللہ کے عذاب کو محسوس کر لینے کے بعد بھی انہیں ایمان کی توفیق نہ ہو گی یہ اگر دیکھ لیں گے کہ آسمان کا کوئی ٹکڑا اللہ کا عذاب بن کر ان کے سروں پر گر رہا ہے تو بھی انہیں تصدیق ویقین نہ ہو گا بلکہ صاف کہدیں گے کہ غلیظ ابر ہے جو پانی برسانے کو آرہا ہے ۔ جیسے اور جگہ فرمایا آیت ( وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَاۗءِ فَظَلُّوْا فِيْهِ يَعْرُجُوْنَ 14۝ۙ ) 15- الحجر:14 ) ، اگر ہم ان کے لئے آسمان کا کوئی دروازہ بھی کھول دیں اور یہ وہاں چڑھ جائیں تب بھی یہ تو یہی کہیں گے کہ ہماری آنکھیں باندھ دی گئی ہیں بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے یعنی معجزات جو یہ طلب کر رہے ہیں اگر ان کی چاہت کے مطابق ہی دکھا دئیے جائیں بلکہ خود انہیں آسمانوں پر چڑھا دیا جائے جب بھی یہ کوئی بات بنا کر ٹال دیں گے اور ایمان نہ لائیں گے ۔ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ انہیں چھوڑ دیجئے قیامت والے دن خود انہیں معلوم ہو جائے گا اس دن ان کی ساری فریب کاریاں دھری کی دھری رہ جائیں گی کوئی مکاری وہاں کام نہ دے گی چوکڑی بھول جائیں گے اور چالاکی بھول جائیں گے ۔ آج جن جن کو یہ پکارتے ہیں اور اپنا مددگار جانتے ہیں اس دن سب کے منہ تکیں گے اور کوئی نہ ہو گا جو ان کی ذرا سی بھی مدد کر سکے بلکہ ان کی طرف سے کچھ عذر بھی پیش کر سکے یہی نہیں کہ انہیں صرف قیامت کے دن ہی عذاب ہو اور یہاں اطمینان و آرام کے ساتھ زندگی گذار لیں بلکہ ان ناانصافوں کے لئے اس سے پہلے دنیا میں بھی عذاب تیار ہیں ۔ جیسے اور جگہ فرمان ہے آیت ( وَلَنُذِيْـقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ 21؀ ) 32- السجدة:21 ) یعنی ہم انہیں آخرت کے بڑے عذاب کے علاوہ دنیا میں بھی عذاب کا مزہ چکھائیں گے تاکہ یہ رجوع کریں لیکن ان میں سے اکثر بےعلم ہیں نہیں جانتے کہ یہ دنیوی مصیبتوں میں بھی مبتلا ہوں گے اور اللہ کی نافرمانیاں رنگ لائیں گی ۔ یہی بےعلمی ہے جو انہیں اس بات پر آمادہ کرتی ہے ۔ کہ گناہ پر گناہ ظلم پر ظلم کرتے جائیں پکڑے جاتے ہیں عبرت حاصل ہوتی ہے لیکن جہاں پکڑ ہٹی یہ پھر ویسے کے ویسے سخت دل بدکار بن گئے ۔ بعض احادیث میں ہے کہ منافق کی مثال اونٹ کی سی ہے جس طرح اونٹ نہیں جانتا کہ اسے کیوں باندھا اور کیوں کھولا ؟ اسی طرح منافق بھی نہیں جانتا کہ کیوں بیمار کیا گیا ؟ اور کیوں تندرست کر دیا گیا ؟ اثر الہٰی میں ہے کہ میں کتنی ایک تیری نافرمانیاں کروں گا اور تو مجھے سزا نہ دے گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے میرے بندے کتنی مرتبہ میں نے تجھے عافیت دی اور تجھے علم بھی نہ ہوا ۔ پھر فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ صبر کیجئے ان کی ایذاء دہی سے تنگ دل نہ ہو جائیے ان کی طرف سے کوئی خطرہ بھی دل میں نہ لائیے سنئے آپ ہماری حفاظت میں ہیں آپ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں آپ کی نگہبانی کے ذمہ دار ہم ہیں تمام دشمنوں سے آپ کو بچانا ہمارے سپرد ہے پھر حکم دیتا ہے کہ جب آپ کھڑے ہوں تو اللہ تعالیٰ کی پاکی اور تعریف بیان کیجئے اس کا ایک مطلب یہ کیا گیا ہے کہ جب رات کو جاگیں دونوں مطلب درست ہیں چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ نماز کو شروع کرتے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دعا ( سبحانک اللھم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالیٰ جدک ولا الہ غیرک ) صحیح مسلم ۔ یعنی اے اللہ تو پاک ہے تمام تعریفوں کا مستحق ہے تیرا نام برکتوں والا ہے تیری بزرگی بہت بلند و بالا ہے ۔ تیرے سوا معبود برحق کوئی اور نہیں مسند احمد اور سنن میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا مروی ہے مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص رات کو جاگے اور کہے دعا ( لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر سبحان اللہ والحمد اللہ ولا الہ الاللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ ) پھر خواہ اپنے لئے بخشش کی دعا کرے خواہ جو چاہے طلب کرے اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرماتا ہے پھر اگر اس نے پختہ ارادہ کیا اور وضو کر کے نماز بھی ادا کی تو وہ نماز قبول کی جاتی ہے ۔ یہ حدیث صحیح بخاری شریف میں اور سنن میں بھی ہے ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں اللہ کی تسبیح اور حمد کے بیان کرنے کا حکم ہر مجلس سے کھڑے ہونے کے وقت ہے حضرت ابو الاحوص کا قول بھی یہی ہے کہ جب مجلس سے اٹھنا چاہے یہ پڑھے دعا ( سبحانک اللھم وبحمدک ) حضرت عطا بن ابو رباح بھی یہی فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر اس مجلس میں نیکی ہوئی ہے تو وہ اور بڑھ جاتی ہے اور اگر کچھ اور ہوا ہے تو یہ کلمہ اس کا کفارہ ہو جاتا ہے جامع عبدالرزاق میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم دی کہ جب کبھی کسی مجلس سے کھڑے ہو تو دعا ( سبحانک اللھم وبحمدک اشھد ان لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک ) پڑھو ۔ اس کے راوی حضرت معمر فرماتے ہیں میں نے یہ بھی سنا ہے کہ یہ قول اس مجلس کا کفارہ ہو جاتا ہے ۔ یہ حدیث تو مرسل ہے لیکن مسند حدیثیں بھی اس بارے میں بہت سی مروی ہیں جن کی سندیں ایک دوسری کو تقویت پہنچاتی ہیں ایک حدیث میں ہے جو شخص کسی مجلس میں بیٹھے وہاں کچھ بک جھک ہو اور کھڑا ہونے سے پہلے ان کلمات کو کہہ لے تو اس مجلس میں جو کچھ ہوا ہے اس کا کفارہ ہو جاتا ہے ( ترمذی ) اس حدیث کو امام ترمذی حسن صحیح کہتے ہیں ۔ امام حاکم اسے مستدرک میں روایت کر کے فرماتے ہیں اس کی سند شرط مسلم پر ہے ہاں امام بخاری نے اس میں علت نکالی ہے میں کہتا ہوں امام احمد امام مسلم امام ابو حاتم امام ابو زرعہ امام دارقطنی وغیرہ نے بھی اسے معلول کہا ہے اور وہم کی نسبت ابن جریج ہیں ہی نہیں ، اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری عمر میں جس مجلس سے کھڑے ہوتے ان کلمات کو کہتے بلکہ ایک شخص نے پوچھا بھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ اس سے پہلے تو اسے نہیں کہتے تھے ؟ آپ نے فرمایا مجلس میں جو کچھ ہوا ہو یہ کلمات اس کا کفارہ ہو جاتے ہیں یہ روایت مرسل سند سے بھی حضرت ابو العالیہ سے مروی ہے واللہ اعلم نسائی وغیرہ ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں یہ کلمات ایسے ہیں کہ جو انہیں مجلس سے اٹھتے وقت تین مرتبہ کہہ لے اس کے لئے یہ کفارہ ہو جاتے ہیں مجلس خیر اور مجلس ذکر میں انہیں کہنے سے یہ مثل مہر کے ہو جاتے ہیں ( ابو داؤد وغیرہ ) الحمد اللہ میں نے ایک علیحدہ جزو میں ان تمام احادیث کو ان کے الفاظ کو اور ان کی سندوں کو جمع کر دیا ہے اور ان کی علتیں بھی بیان کر دی ہیں اور اس کے متعلق جو کچھ لکھنا تھا لکھ دیا ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ رات کے وقت اس کی یاد اور اس کی عبادت تلاوت اور نماز کے ساتھ کرتے رہو جیسے فرمان ہے آیت ( وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ڰ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا 79؀ ) 17- الإسراء:79 ) ، رات کے وقت تہجد پڑھا کرو یہ تیرے لئے نفل ہے ممکن ہے تیرا رب تجھے مقام محمود پر اٹھائے ستاروں کے ڈوبتے وقت سے مراد صبح کی فرض نماز سے پہلے کی دو رکعتیں ہیں کہ وہ دونوں ستاروں کے غروب ہونے کے لئے جھک جانے کے وقت پڑھی جاتی ہیں چنانچہ ایک مرفوع حدیث میں ہے ان سنتوں کو نہ چھوڑو گو تمہیں گھوڑے کچل ڈالیں ۔ اسی حدیث میں ہے دن رات میں پانچ نمازیں ہیں سننے والے نے کہا کیا مجھ پر اس کے سوا اور کچھ بھی ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں مگر یہ کہ تو نفل ادا کرے بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نوافل میں سے کسی نفل کی بہ نسبت صبح کی دو سنتوں کے زیادہ پابندی اور ساری دنیا سے اور جو کچھ اس میں ہے اس سے بہتر ہیں الحمد اللہ سورہ الطور کی تفسیر پوری ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

44۔ 1 مطلب ہے کہ اپنے کفر وعناد سے پھر بھی باز نہ آئیں گے، بلکہ ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہیں گے کہ یہ عذاب نہیں، بلکہ ایک پر ایک بادل چڑھا آرہا ہے، جیسا کہ بعض موقعوں پر ایسا ہوتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٧] کافروں کی ہٹ دھرمی کی انتہا :۔ بعض دفعہ مسلمانوں کو حتیٰ کہ خود رسول اللہ کو بھی یہ خیال آجاتا تھا کہ کافر جس حسی معجزہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کوئی ایسا معجزہ دکھا دے تو ممکن ہے یہ لوگ ایمان لے آئیں جس سے اسلام کی قوت میں اضافہ ہوجائے اور مسلمانوں پر مصائب کم ہوجائیں۔ اس آیت میں مسلمانوں کو بتایا جارہا ہے کہ یہ لوگ کبھی ایمان نہ لائیں گے کیونکہ یہ اس قدر ضدی اور ہٹ دھرم واقع ہوئے ہیں کہ اگر ان کے مطالبہ کے مطابق آسمان سے کوئی ٹکڑا گرا بھی دیا جائے تو پھر بھی یہ اس کی طبعی توجیہیں تلاش کرنے لگیں گے اور کہہ دیں گے کہ آسمان کا ٹکڑا کب ہے ؟ یہ تو بادل کا ٹکڑا ہے جو تہہ بہ تہہ ہو کر موٹا & غلیظ اور بوجھل ہونے کی وجہ سے زمین پر گرپڑا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(وان یروا کسفاً من السمآء ساقطاً…:” کسافاً “ سین کی جزم کے ساتھ واحد ہے، ٹکڑا۔ بعض کہتے ہیں جمع ہے، جیسا کہ ” سدرۃ “ کی جمع ” سدر “ ہے، ٹکڑے۔ (اعراب القرآن از درویش) یعنی ان لوگوں نے ہر قیمت پر انکار کیا ت ہیہ کر رکھا ہے اور ایمان لانے کی شرط کے طور پر جن معجزات کا مطالبہ کرتے ہیں وہ صرف لا جواب کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ اگر ان کے تمام طلب کردہ معجزات بھی دکھا دیئے جائیں پھر بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ (دیکھیے انعام : ١١- یونس ٩٦، ٩٧) پھر یا تو اسے آنکھوں پر جادو کہہ کر رد کردیں گے (دیکھیے حجر : ١٥) یا کوئی اور بہانہ بنا کر ایمان لانے سے انکار کردیں گے۔ مثلاً ان کا مطالبہ ہے کہ ہم پر آسمان کو ٹکڑے کر کے گرا دے (دیکھیے بنی اسرائیل : ٩٢) اگر ہم ان کا یہ مطالبہ بھی پورا کردیں اور آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دیں تو اسے تہ ہبہ تہ بادل کہہ کر ایمان لانے سے انکار کردیں گے، حالانکہ وہ دیکھ رہے ہوں گے اور انہیں یقین ہوگا کہ وہ تہ بہ تہ بادل نہیں ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

{ 1} It refers to the punishments faced by the disbelievers right in this world, like famines and the deterrent defeat in the battle of Badr. (Muhammad Taqi Usmani).

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ يَّرَوْا كِسْفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ سَاقِطًا يَّقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْكُوْمٌ۝ ٤٤ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ كسف كُسُوفُ الشمس والقمر : استتارهما بعارض مخصوص، وبه شبّه كُسُوفُ الوجه والحال، فقیل : كَاسِفُ الوجه وكَاسِفُ الحال، والکِسْفَةُ : قطعة من السّحاب والقطن، ونحو ذلک من الأجسام المتخلخلة الحائلة، وجمعها كِسَفٌ ، قال : وَيَجْعَلُهُ كِسَفاً [ الروم/ 48] ، فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء/ 187] ، أَوْ تُسْقِطَ السَّماءَ كَما زَعَمْتَ عَلَيْنا كِسَفاً [ الإسراء/ 92] وکسفا «1» بالسّكون . فَكِسَفٌ جمع كِسْفَةٍ ، نحو : سدرة وسِدَرٍ. وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ [ الطور/ 44] . قال أبو زيد : كَسَفْتُ الثّوب أَكْسِفُهُ كِسْفاً :إذا قطعته قطعا «2» ، وقیل : كَسَفْتُ عرقوب الإبل، قال بعضهم : هو كَسَحْتُ لا غيرُ. ( ک س ف ) کسوف الشمش والقمر کے معنی ہیں سورج یا چاند کا کیس خاص عارض سے مستور یعنی گہن میں آجانا کے ہیں ۔ اور تشبیہ کے طور پر چہرہ یا حالت کے خراب ہونے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے کا سف الوجھہ یا کا سف الحال ۔ الکسفۃ کے معنی بادل روئی یا اس قسم کے دوسرے متخلخل اجسام کے ٹکڑے کے ہیں اس کی جمع کسف آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَيَجْعَلُهُ كِسَفاً [ الروم/ 48] اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے ۔ فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء/ 187] تو ہم پر آسمان سے ایک ٹکڑا لاکر گراؤ أَوْ تُسْقِطَ السَّماءَ كَما زَعَمْتَ عَلَيْنا كِسَفاً [ الإسراء/ 92] یا جیسا تم کہا کرتے ہو ہم پر آسمان کے ٹکڑے لاکر گراؤ ۔ ایک قرات میں کسفا بسکون سین ہے اور کسف کا واحد کسفۃ ہے جیسے سدرۃ وسدرۃ اور فرمایا : ۔ وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ [ الطور/ 44] اور اگر یہ آسمان سے عذاب کا کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھیں ابو ذید نے کہا ہے کسفت الثوب ( ج ) کسفا کے معنی کپڑے کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے ہیں بعض نے کسفت عر قوب الابل بھی کہا ہے جس کے معنی اونٹ کی کونچ کاٹ دینے کے ہیں لیکن ) بعض ایک لغت کے نزدیک اس معنی میں صر ف کسحت ( ف ) ہی استعمال ہوتا ہے ۔ سقط السُّقُوطُ : طرح الشیء، إمّا من مکان عال إلى مکان منخفض کسقوط الإنسان من السّطح، قال تعالی: أَلا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا[ التوبة/ 49] ، وسقوط منتصب القامة، وهو إذا شاخ وکبر، قال تعالی: وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ ساقِطاً [ الطور/ 44] ، وقال : فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء/ 187] ، والسِّقَطُ والسُّقَاطُ : لما يقلّ الاعتداد به، ومنه قيل : رجل سَاقِطٌ لئيم في حَسَبِهِ ، وقد أَسْقَطَهُ كذا، وأسقطت المرأة اعتبر فيه الأمران : السّقوط من عال، والرّداءة جمیعا، فإنه لا يقال : أسقطت المرأة إلا في الولد الذي تلقيه قبل التمام، ومنه قيل لذلک الولد : سقط «1» ، وبه شبّه سقط الزّند بدلالة أنه قد يسمّى الولد، وقوله تعالی: وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 149] ، فإنه يعني النّدم، وقرئ : تُساقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا[ مریم/ 25] «2» ، أي : تسّاقط النّخلة، وقرئ : تُساقِطْ «3» بالتّخفیف، أي : تَتَسَاقَطُ فحذف إحدی التاء ین، وإذا قرئ ( تَسَاقَطْ ) فإنّ تفاعل مطاوع فاعل، وقد عدّاه كما عدّي تفعّل في نحو : تجرّعه، وقرئ : يَسَّاقَطْ عليك «4» أي : يسّاقط الجذع . ( س ق ط ) السقوط ( ن ) اس کے اصل معنی کسی چیز کے اوپر سے نیچے گرنے کے ہیں مثلا کسی انسان کا چھت سے گر پڑنا یا اس کا بوڑھا ہو کر نیچے جھک جانا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ ساقِطاً [ الطور/ 44] اور اگر یہ آسمان ( سے عذاب ) کا کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھیں ۔ فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء/ 187] تو ہم پر آسمان سے ایک ٹکڑا لا گراؤ اور اس کے معنی قدر و قیمت اور مرتبہ کے لحاظ سے گر جانا بھی آتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ أَلا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا[ التوبة/ 49] دیکھو یہ آفت میں پڑے گئے ۔ السقط والسقاطۃ ناکاری اور ردی چیز کو کہتے ہیں اور اسی سے رجل ساقط ہے جس کے معنے کمینے آدمی کے ہیں ۔ اسقطہ کذا : فلاں چیز نے اس کو ساقط کردیا ۔ اور اسقط المرءۃ ( عورت نے نا تمام حمل گرا دیا ) میں اوپر سے نیچے گرنا اور ردی ہونا دونوں معنی اکٹھے پائے جاتے ہیں ۔ کیونکہ اسقطت المرءۃ اس وقت بولتے ہیں جب عورت نا تمام بچہ گرا دے اور اسی سے نا تمام بچہ کو سقط یا سقط کہا جاتا ہے ۔ پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر چقماق کی ہلکی سی ( ناقص ) چنگاری کو سقط الزند کہا جاتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ کبھی اس کے ساتھ بچہ کو بھی موسوم کیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 149] اور جب وہ نادم ہوئے ۔ میں پشیمان ہونا مراد ہے ۔ اور آیت : ۔ تُساقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا[ مریم/ 25] تم پر تازہ کھجوریں جھڑ پڑیں گی ۔ میں ایک قراءت تساقط بھی ہے اور اس کا فاعل نخلۃ ہے اور ایک قراءت میں تساقط ہے جو اصل میں تتساقط فعل مضارع کا صیغہ ہے اس میں ایک تاۃ محذوف ہے اس صورت میں یہ باب تفاعل سے ہوگا اور یہ اگرچہ فاعل کا مطاوع آتا ہے لیکن کبھی متعدی بھی ہوجاتا ہے جیسا کہ تجرعہ میں باب تفعل متعدی ہے ۔ اور ایک دوسری قرات میں یساقط ( صیغہ مذکر ) ہے اس صورت میں اس کا فاعل جذع ہوگا ۔ سحب أصل السَّحْبِ : الجرّ کسحب الذّيل، والإنسان علی الوجه، ومنه : السَّحَابُ ، إمّا لجرّ الرّيح له، أو لجرّه الماء، أو لانجراره في مرّه، قال تعالی: يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] ، وقال تعالی: يُسْحَبُونَ فِي الْحَمِيمِ [ غافر/ 71] ، وقیل : فلان يَتَسَحَّبُ علی فلان، کقولک : ينجرّ ، وذلک إذا تجرّأ عليه، والسَّحَابُ : الغیم فيها ماء أو لم يكن، ولهذا يقال : سحاب جهام «4» ، قال تعالی: أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحاباً [ النور/ 43] ، حَتَّى إِذا أَقَلَّتْ سَحاباً [ الأعراف/ 57] ، وقال : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] ، وقد يذكر لفظه ويراد به الظّلّ والظّلمة، علی طریق التّشبيه، قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحابٌ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] . ( س ح ب ) السحب اس کے اصل معنی کھینچنے کے ہیں ۔ چناچہ دامن زمین پر گھسیٹ کر چلنے یا کسی انسان کو منہ کے بل گھسیٹنے پر سحب کا لفظ بولا جاتا ہے اسی سے بادل کو سحاب کہا جاتا ہے یا تو اس لئے کہ ہوا اسے کھینچ کرلے چلتی ہے اور یا اس بنا پر کہ وہ چلنے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گھسٹتا ہوا چل رہا ہے قرآن میں ہے :۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] جس دن ان کو انکے منہ کے بل ( دوزخ کی ) آگ میں گھسیٹا جائیگا ۔ اور فرمایا : يُسْحَبُونَ فِي الْحَمِيمِ [ غافر/ 71] انہیں دوزخ میں کھینچا جائے گا ۔ محاورہ ہے :۔ فلان یتسحب علی فلان : کہ فلاں اس پر جرات کرتا ہے ۔ جیسا کہ یتجرء علیہ کہا جاتا ہے ۔ السحاب ۔ ابر کو کہتے ہیں خواہ وہ پانی سے پر ہو یا خالی اس لئے خالی بادل کو سحاب جھام کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحاباً [ النور/ 43] کیا تو نے غور نہیں کیا کہ اللہ بادل کو چلاتا ہے ۔ حَتَّى إِذا أَقَلَّتْ سَحاباً [ الأعراف/ 57] حتی کہ جب وہ بھاری بادل کو اٹھا لاتی ہیں ۔ وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] اور وہ بھاری بادل اٹھاتا ہے ۔ اور کبھی لفظ سحاب بول کر بطور تشبیہ کے اس سے سایہ اور تاریکی مراد لی جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحابٌ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] یا ( ان کے اعمال کی مثال ) بڑے گہرے دریا کے اندورنی اندھیروں کی سی ہے کہ دریا کو لہر نے ڈھانپ رکھا ہے اور ( لہر بھی ایک نہیں بلکہ ) لہر کے اوپر لہر ان کے اوپر بادل ( کی تاریکی غرض اندھیرے ہیں ایک کے اوپر ایک ۔ ركم يقال : ( سحاب مَرْكُومٌ ) أي : متراکم، والرُّكَامُ : ما يلقی بعضه علی بعض، قال تعالی: ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُکاماً [ النور/ 43] ، والرُّكَامُ يوصف به الرّمل والجیش، ومُرْتَكَمُ الطّريق : جادّتُهُ التي فيها رُكْمَةٌ ، أي : أثر مُتَرَاكِمٌ. ( ر ک م ) رکم ( ن ) کے معنی ہیں کسی چیز کو اوپر تلے رکھنا قرآن میں ہے ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُکاماً [ النور/ 43] تہ بہ تہ بادل ۔ الرکام اوپر تلے رکھی ہوئی چیزیں جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُکاماً [ النور/ 43] پھر اسے تہ بہ تہ کردیتا ہے ۔ اسی سے ریت کے ٹیلے اور لشکر کو بھی رکام کہا جاتا ہے اور مرتکم الطریق شاہراہ کو کہتے ہیں ۔ جس میں آمد رفت کے نشانات بکثرت ہوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اگر یہ کفار مکہ اس آسمان کے ٹکڑے کو دیکھ بھی لیں کہ گرتا ہوا آرہا ہے تو اس کو بھی اپنے جھٹلانے کی وجہ سے یوں کہہ دیں گے کہ یہ تو تہ بتہ جما ہوا بادل ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٤{ وَاِنْ یَّرَوْا کِسْفًا مِّنَ السَّمَآئِ سَاقِطًا یَّقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْکُوْمٌ ۔ } ” اور اگر کبھی یہ دیکھیں آسمان کا کوئی ٹکڑا گرتا ہوا تو کہیں گے کہ یہ تو بادل ہیں تہ بر تہ۔ “ ان کی حالت تو یہ ہے کہ اگر آسمان کا کوئی ٹکڑا بھی عذاب الٰہی بن کر ان پر گر رہا ہو تو اسے بھی یہ لوگ بارش برسانے والا بادل ہی سمجھیں گے۔ جیسا کہ قوم عاد کے لوگوں نے اپنی طرف بڑھتے ہوئے عذاب کو دیکھ کر کہا تھا : { ھٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا } (الاحقاف : ٢٤) ” یہ تو بادل ہے جو ہم کو سیراب کرنے والا ہے “۔ یہ بادل برسیں گے تو ہمارے علاقے میں جل تھل کردیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

36 This is meant to expose the stubbornness of the Quraish chiefs, on the one hand, and to console the Holy Prophet (upon whom be peace) and his Companions, on the other. The Holy Prophet and his Companions wished that those people should be shown such a miracle by Allah as should convince them of the truth of his Prophet hood. At this, it has been said: Whatever miracle they might see with their eyes, they will in any case misinterpret it and invent an excuse for persisting in disbelief, for their hearts are not at all inclined to believe. At several other places also in the Qur'an their this stubbornness has been mentioned, e.g. in Surah Al-An`am: 111, it has been said: "Even if we had sent down the angels to them and made the dead speak with them and ranged all the things of the world before them (as a proof thereof), they would still have disbelieved," and in Surah AI-Hijr: 15: "Even if We had opened a gate for them in heaven, and they had begun w ascend through it during day time, they would have said: "Our eyes have been dazzled; nay, we have been bewitched."

سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :36 اس ارشاد سے مقصود ایک طرف سرداران قریش کی ہٹ دھرمی کو بے نقاب کرنا ، اور دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو تسلی دینا ہے ۔ حضور اور صحابہ کرام کے دل میں بار بار یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی معجزہ ایسا دکھا دیا جائے جس سے ان کو نبوت محمدیہ کی صداقت معلوم ہو جائے ۔ اس پر فرمایا گیا ہے کہ یہ خواہ کوئی معجزہ بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ، بہرحال یہ اس کی تاویل کر کے کسی نہ کسی طرح اپنے کفر پر جمے رہنے کا بہانہ ڈھونڈ نکالیں گے ، کیونکہ ان کے دل ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ قرآن مجید میں متعدد دوسرے مقامات پر بھی ان کی اس ہٹ دھرمی کا ذکر کیا گیا ہے ۔ مثلاً سورہ انعام میں فرمایا اگر ہم فرشتے بھی ان پر نازل کر دیتے اور مردے ان سے باتیں کرتے اور دنیا بھر کی چیزوں کو ہم ان کی آنکھوں کے سامنے جمع کر دیتے تب بھی یہ ماننے والے نہ تھے ۔ ( آیت 111 ) ۔ اور سورہ حجر میں فرمایا اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ بھی کھول دیتے اور یہ دن دہاڑے اس میں چڑھنے بھی لگتے ، پھر بھی یہ لوگ یہی کہتے کہ ہماری آنکھیں دھوکا کھا رہی ہیں ، بلکہ ہم پر جادو کیا گیا ہے ( آیت ۔ 15 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

13: مشرکین مکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نت نئے معجزات دکھانے کا مطالبہ کرتے رہتے تھے، مثلاً یہ کہ آسمان سے کوئی ٹکڑا ہمیں توڑ کر دکھائیے۔ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ان سارے مطالبات کا مقصد حق کی طلب نہیں ہے، بلکہ محض ضد اور عناد ہے، اور اگر ان کو ایسا کوئی معجزہ دکھا بھی دیا جائے تو یہ پھر بھی نہیں مانیں گے، اور یہ کہہ دیں گے کہ یہ آسمان کا ٹکڑا نہیں ہے، بلکہ کوئی گہرا بادل ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٤۔ ٤٧۔ سورة انفال میں گزر چکا ہے کہ ابوجہل نے کہا تھا کہ اگر قرآن اور یہ دین سچا ہے تو اللہ ہم پر آسمان سے پتھروں کا مینہ برسائے یا کوئی اور عذاب بھیج دے تاکہ اس دین کا سچا پن ہم کو معلوم ہوجائے اور سورة بنی اسرائیل میں گزر چکا ہے کہ قریش میں کے چند آدمیوں نے کہا تھا کہ عذاب کے طور پر آسمان کا کوئی ٹکڑا بھی ہم پر گر پڑے تو بھی اس قرآن پر ایمان نہ لائیں گے غرض قریش کی ایسی ایسی باتوں کا اللہ تعالیٰ نے یہ جواب دیا ہے کہ ان لوگوں کی ڈھٹائی اب یہاں تک بڑھ گئی ہے کہ قوم عاد یا قوم شعیب کی طرح آسمان پر کوئی عذاب کا بادل کا ٹکڑا بھی ان کو نظر آئے گا تو جب بھی انہیں عذاب کا یقین نہ آئے گا اور اس عذاب کے بادل کو جس طرح قوم عاد نے معمولی بادل بتایا تھا ویسا ہی یہ کہیں گے پھر فرمایا کہ جب ان لوگوں کی سرکشی اس درجے کو پہنچ گئی ہے تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے۔ سمجھانے اور نصیحت کرنے کا موقع اب باقی نہیں رہا وقت مقررہ آنے کی دیر ہے پھر ان کو ان کی سرکشی کی سزا مل جائے گی دنیا میں کچھ عذاب ان پر آئے گا اور پھر ہمیشہ ہمیشہ عذاب آخرت میں گرفتار رہیں گے اللہ کا وعدہ سچا ہے دنیا کا عذاب بدر کی لڑائی میں آیا کہ ستر آدمی بڑے بڑے سرکش قریش کی بڑی ذلت اور خواری سے اس لڑائی میں مارے گئے اور ستر قید ہوئے اور ہر ایک شخص کی آنکھیں تو اس قابل نہیں ہیں کہ وہ دنیا کی آنکھوں سے عذاب آخرت کو دنیا میں دیکھ سکے مگر اللہ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان سرکشوں کے عذاب آخرت کا حال بھی دنیا میں دکھلا دیا۔ اسی واسطے آپ نے ان سرکشوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ کا وعدہ سچا پا لیا۔ چناچہ مسند امام احمد صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم میں انس بن مالک کی روایت میں اس قصہ کا ذکر ہے پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی تسلی فرمائی کہ اگر ان لوگوں کی یہی سرکشی باقی رہی تو عذاب آخرت سے پہلے ان پر کوئی دنیا کا عذاب آجائے گا وقت مقررہ تک حکم الٰہی کا انتظار اور اس وقت تک صبر کرنا چاہئے بدر کی لڑائی کے وقت اس وعدہ کا ظہورہوا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہلے سے اللہ تعالیٰ نے جتلا دیا تھا کہ اس بدر کی لڑائی میں قریش پر آفت آئی گی۔ چناچہ صحیح ٢ ؎ مسلم میں انس بن مالک حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جگہ بتا دی تھی کہ یہاں ابوجہل کی لاش پڑی ہوگی اور یہاں فلاں شخص کی۔ تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اے رسول اللہ کے ان مخالفوں سے تمہاری جان کی حفاظت ہمارے ذمہ ہے۔ یہاں مکی سورة میں تو مختصر طور پر فرمایا پھر مدنی سورة سورة مائدہ میں صراحت سے فرمایا : واللہ یعصمک من الناس۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ نے فرما دیا تھا کہ میری جان کی حفاظت اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ حضرت عائشہ (رض) کی ترمذی ٣ ؎ اور مستدرک حاکم کی روایت میں اس کا ذکر ہے اگرچہ ترمذی نے اس کو غریب کہا ہے مگر حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے۔ ( (٢ ؎ صحیح مسلم۔ باب غزوہ بدر ص ١٠٢ ج ٢۔ ) ٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٢٤٥ ج ٤۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(52:44) وان یروا کسفا ۔۔ الایۃ۔ میں واؤ حالیہ ہے اور جملہ مابعد ماقبل سے حال ہے اور ہٹ دھرمی اور ایمان و ایقان کے فقدان کی وجہ سے ان کی حالت یہ ہے کہ اگر آسمان کے کسی ٹکڑے کو گرتا ہوا دیکھ لیں تو یہ کہیں گے یہ تو با دل کا تہ برتہ۔ ان یروا۔ ان شرطیہ ہے یروا مضارع مجزوم جمع مذکر غائب رؤیۃ (باب فتح) مصدر۔ اگر وہ دیکھ لیں۔ کسفا جمع کسفۃ مفرد۔ اکساف وکسوف جمع الجمع ٹکڑے۔ کسف (باب ضرب) متعدی بھی ہے اور لازمی بھی۔ کسف الثوب کپڑا کاٹ دیا۔ یا پھاڑ دیا۔ کسف الشمس سورج گرہن ہوگیا۔ تمام قرآن مجید میں کسفا یا کسفا جہاں بھی آیا ہے بمعنی جمع مفرد پڑھا گیا ہے ماسوائے اس آیت کے کہ یہاں بمعنی مفرد پڑھا جاتا ہے۔ ساقطا۔ اسم فاعل ۔ واحد مذکر۔ سقوط (باب نصر) مصدر سے گرنے والا۔ منصوب بوجہ حال ہونے کے۔ گرتا ہوا۔ تنوین تفخیم (عظمت) کے لئے ہے ای کسفا عظیما ایک بڑا ٹکڑا۔ یقولوا۔ مضارع مجزوم بوجہ جواب شرط۔ صیغہ جمع مذکر غائب ، وہ کہیں گے۔ سحاب مرکوم : ای ھذا سحاب مرکوم : سحاب بادل۔ موصوف مرکوم اسم مفعول واحد مذکر، رکم (باب نصر) مصدر۔ بمعنی کسی چیز کو ایک دوسرے کے اوپر لگا کر ڈھیر کردینے کے ہیں۔ جس طرح ریت کا ٹیلہ ہوتا ہے ۔ تہ بر تہ گاڑھا بادل۔ بادل جب سخت گھنا اور تاریک ہو تو اسے سحاب مرکوم کہتے ہیں۔ مرکوم صفت ہے سحاب کی۔ مشرکوں نے کہا تھا کہ : فاسقط علینا کسفا من السماء ان کنت من الصادقین (62: 187) ہم پر آسمان سے عذاب کا ایک ٹکڑا گرا دو ۔ اگر تم سچے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں یہ آیت نازل فرمائی کہ اگر ان پر اوپر سے عذاب کا کوئی ٹکڑا آبھی جائے تو یہ اس کو تہ برتہ بادل قرار دیں گے۔ جیسے قوم عاد نے جب سامنے سے بادل آتا دیکھا تھا تو کہا تھا کہ :۔ قالوا ھذا عارض ممطرنا (46:24) کہنے لگے یہ تو بادل ہے جو ہم پر برس کر رہے گا۔ بل ھو ما استعجلتم بہ ریح فیہا عذاب الیم (ایضا) (نہیں) بلکہ (یہ) وہ چیز ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے یعنی آندھی جس میں درد دینے والا عذاب بھرا ہوا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مشرکین کی ہٹ دھرمی کی انتہا۔ اللہ تعالیٰ نے واضح دلائل اور سخت ترین تنبیہات کے ذریعے اہل مکہ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں، آخرت پر یقین رکھیں اور صرف ایک اللہ کی عبادت کریں۔ لیکن مشرک اس قدر ہٹ دھرم ہوتا ہے کہ وہ ان باتوں کو کسی صورت بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہی حالت اہل مکہ کی تھی ان حالات میں یہ ارشاد ہوا کہ ان لوگوں پر اگر آسمان کا کوئی حصہ گرا دیا جائے تو اسے نیچے آتے دیکھ کر کہیں گے کہ یہ تو گھنے بادلوں کا ٹکڑا ہے۔ لہٰذا ان کو انہی کے حال پر چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ کہ وہ دن آپہنچے جس دن یہ بےہوش کردیئے جائیں گے۔ اس دن نہ ان کا مکرو فریب چلے گا اور نہ ہی ان کی کوئی مدد کرنے والا ہوگا۔ ظالموں کے لیے دنیا میں بھی عذاب ہے لیکن ان کی اکثریت اس حقیقت کو جاننے اور ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اس خطاب میں کفار کو تنبیہ کرنے کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان ساتھیوں کو بھی تسلی دی گئی ہے جن کا خیال تھا کہ اگر کفار کو ان کے منہ مانگے معجزات دکھادیئے جائیں تو شاید وہ ایمان لے آئیں۔ ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے بتلایا گیا ہے کہ معجزات تو درکنار ان پر آسمان کا ٹکڑا بھی گرا دیا جائے تو پھر بھی یہ لوگ اس کی تاویلات کریں گے مگر ایمان نہیں لائیں گے۔ ہاں یہ قیامت کے دن ہر بات تسلیم کریں گے لیکن اس وقت تسلیم کرنے کا انہیں کچھ فائدہ نہیں ہوگا اور نہ ہی یہ ایک دوسرے کی مدد کرسکیں گے۔ ان آیات کی تاثیر : جبیر بن مطعم (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بدر کے قیدیوں کی سفارش کرنے کے لیے مدینہ گئے۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے مسجد میں آپ کو مغرب کی نماز کے وقت سورة طور کی ان آیات کی تلاوت کرتے ہوئے سنا تو میرے دل کی حالت یہ ہوگئی۔ ” حضرت جبیر بن مطعم (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مغرب کی نماز میں سورة طور پڑھتے ہوئے سنا جب آپ ان آیات پر پہنچے ” کیا یہ کسی خالق کے بغیر پیدا ہوئے ہیں ؟ یا یہ خود اپنے آپ کے خالق ہیں ؟ یا زمین اور آسمانوں کو انہوں نے پیدا کیا ہے ؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ یقین نہیں رکھتے۔ کیا تیرے رب کے خزانے ان کے قبضے میں ہیں ؟ یا ان پر ان کا حکم چلتا ہے ؟ “” کَادَ قَلْبِی أَنْ یَطِیرَ “ قریب تھا کہ میرا دل پھٹ جاتا۔ “ ( رواہ البخاری : باب وسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل الغروب) مسائل ١۔ ہٹ دھرم لوگ بڑی سے بڑی سزا پاکر بھی ایمان نہیں لایا کرتے۔ ٢۔ قیامت کے دن ظالموں کا کوئی مکرو فریب نہیں چلے گا اور نہ ہی ان کی کوئی مدد کرنے والا ہوگا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی ظالموں کو کئی قسم کی سزائیں دیتا ہے اس کے باوجود وہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ تفسیر بالقرآن ہٹ دھرم لوگوں کاروّیہ اور کردار : ١۔ کفار کہتے تھے کہ تم ہمارے جیسے بشر ہو تم چاہتے ہو کہ ہم اپنے آباء و اجداد کے معبودوں کو چھوڑ دیں۔ (ابراہیم : ١٠) ٢۔ کفار نے انبیاء سے کہا کہ ہم تمہیں اپنی زمین سے نکال دیں گے۔ (ابراہیم : ١٣) ٣۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو قوم کے سرداروں نے کہا تو ہمارے جیسا ہی ایک آدمی ہے اور تیری پیروی کرنے والے بھی ادنیٰ لوگ ہیں۔ (ھود : ٢٧) ٤۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون نے کہا کیا تم اپنے جادو سے ہمیں ہماری زمین سے نکالنا چاہتے ہو۔ (طٰہٰ : ٥٧ ) ٥۔ موسیٰ (علیہ السلام) پر آل فرعون نے منحوس ہونے کا الزام لگایا۔ (الاعراف : ١٣١) مزید ملاحظہ فرمائیں۔ (الحجر : ١٤۔ ١٥) (سباء : ٤٣) (الفرقان : ٨) (النساء : ١٥٦) (الاعراف : ١٠٩) (یونس : ٧٦) (یونس : ٢) (ص : ٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وان یروا ........ مرکوم (٢٥ : ٤٤) ” یہ لوگ آسمان کے ٹکڑے بھی گرتے دیکھ لیں تو کہیں گے کہ یہ بادل ہیں جو امنڈے چلے آرہے ہیں “ مطلب یہ ہے کہ اگر ان پر عذاب بھیجا جائے اور یہ اسے دیکھ لیں کہ وہ ایک آسمان کے ٹکڑے کی شکل میں آرہا ہے اور ان پر گرنے ہی والا ہے اور اس سے وہ ہلاک ہونے والے ہیں تو پھر بھی یہ کہیں گے کہ سحاب مرکوم (کہ یہ بادل ہے جو امنڈتا چلا آرہا ہے) اور اس میں پانی ہے جو ان کے لئے سبب حیات ہوگا۔ یہ بطور ہٹ دھرمی ایسا کہیں گے۔ یہ کسی صورت میں بھی حق کو تسلیم کرنے والے نہیں ہیں۔ اگرچہ ان کے سروں پر تلوار لٹک رہی ہو۔ جیسا کہ وہ کہتے ہیں اس میں اشارہ قوم عاد کے واقعہ کی طرف ہے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ طوفان بادو باراں آرہا ہے تو کہا۔ عارض ممطرنا (یہ بادل ہے جو بارش برسائے گا) اور وہاں ان کو یہ جواب دیا گیا تھا۔ بل ھو ........ ربھا ” بلکہ یہ تو وہ چیز ہے جس کی تم جلدی مچا رہے تھے ایک ہوا جس کے اندر درد ناک عذاب ہے یہ اللہ کے حکم سے ہر چیز کو نیست ونابود کرنے والی ہے۔ “ ان کے عناد اور ہٹ دھرمی کی اس تصویر کشی کے بعد اگرچہ ان کے سروں پر لٹکتی ہوئی تلوار کی طرح عذاب بھی آجائے ، روئے سخن اب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف پھرجاتا ہے تاکہ ان کے معاملے سے ہاتھ جھاڑ کر اس انجام سے دو چار ہونے کے لئے چھوڑ دیں جس کا ذکر اس سورة کے آغاز میں آیا ہے۔ اور اللہ کی طرف سے ایک سے ایک سخت عذاب ان کے انتظار میں ہے اور اللہ کے احکام کا انتظار کریں جو زبردست ہے اور جو آپ کا نگہبان ہے اور ہر وقت آپ پر نظر رکھتا ہے اور اللہ کی تعریف کے ساتھ اس کی حمد کرو۔ صبح کے وقت جب اٹھو اور رات کے وقت جب اٹھو اور اس وقت جب ستارے غائب ہوجائیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کے دن منکرین کی بدحالی اور بدحواسی ان آیات میں معاندین کی بدحالی اور سرکشی بتائی ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کی تلقین فرمائی ہے اور آپ کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اور یہ بھی حکم دیا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید میں مشغول رہیں۔ ارشاد فرمایا کہ ان لوگوں کی سرکشی کا یہ حال ہے کہ اگر آسمان کا ٹکڑا اوپر سے گرتا ہوا دیکھیں جو ان کو عذاب دینے کے لیے گرتا چل آرہا ہو تب بھی متاثر نہ ہوں گے اور ایمان نہ لائیں گے۔ حالانکہ خود ہی ایمان لانے کی شرطوں میں آسمان کا ٹکڑا گرنے کی بھی شرط لگائی تھی۔ حیث قالوا (اوتسقط السمآء کما زعمت علینا کسفا) اور یوں کہیں گے کہ اجی یہ نہ تو آسمان کا کوئی ٹکڑا ہے اور نہ ہی ان کے کہنے سے اتر رہا ہے بلکہ یہ تو بادل ہے۔ بادل پر بادل جم کر موٹا ہوجاتا ہے اور اوپر نیچے ہوجاتا ہے نہ یہ کوئی عذاب کی بات ہے اور نہ آپ کی نبوت کا معجزہ ہے۔ (العیاذباللہ) سورة الحجر میں ان کے اسی عناد کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ﴿وَ لَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَآءِ فَظَلُّوْا فِيْهِ يَعْرُجُوْنَۙ٠٠١٤ لَقَالُوْۤا اِنَّمَا سُكِّرَتْ اَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُوْرُوْنَ (رح) ٠٠١٥﴾ ” اور اگر ہم ان کے لیے آسمان میں کوئی دروازہ کھول دیں پھر یہ دن کے وقت اس میں چڑھ جائیں، تب بھی یوں کہہ دیں گے ہماری نظر بندی کردی گئی تھی بلکہ ہم لوگوں پر تو جادو کر رکھا ہے۔ “

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(44) اور اگر یہ آسمان سے کوئی ٹکڑا بھی گرتا ہوا دیکھیں تو یوں کہنے لگیں کہ یہ ایک ابر ہے دل دار تہ بہ تہہ اور یہ بدلی ہے گاڑھی۔ یعنی آی سے ڈھیٹ ہیں کہ اگر آسمان سے کوئی ٹکڑا ان کو گرتا ہوا نظر آئے تو کہیں گے یہ تو کوئی غلیظ بادل ہے جو ہماری طرف آرہا ہے اور اگر معجزے کے طور پر بھی ان کو کوئی آسمان کا ٹکڑا گرتا ہوا دکھائی دے تب بھی یہی کہیں گے سحاب مرکوم دونوں ہی باتیں کہی گئی ہیں اس لئے ہم نے دونوں باتوں کا ذکر کردیا ہے ورنہ بظاہر یہ مذاق اور انکار عذاب کے ساتھ معلوم ہوتا ہے۔