Surat un Najam
Surah: 53
Verse: 37
سورة النجم
وَ اِبۡرٰہِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰۤی ﴿ۙ۳۷﴾
And [of] Abraham, who fulfilled [his obligations] -
اور وفادار ابراہیم ( علیہ السلام ) کے صحیفوں میں تھا ۔
وَ اِبۡرٰہِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰۤی ﴿ۙ۳۷﴾
And [of] Abraham, who fulfilled [his obligations] -
اور وفادار ابراہیم ( علیہ السلام ) کے صحیفوں میں تھا ۔
Or is he not informed with what is in the Suhuf of Musa. And of Ibrahim who fulfilled, Sa`id bin Jubayr and Ath-Thawri said it means: "Conveyed all that he was ordered to convey." Ibn `Abbas said about: وَفَّى (fulfilled) , "He delivered all that Allah ordered him to deliver." Sa`id bin Jubayr said about: وَفَّى (fulfilled), "What he was ordered." Qatadah said about: وَفَّى (fulfilled), "He obeyed Allah and delivered His Message to His creatures." This is the view preferred by Ibn Jarir because it includes the statement before it and supports it. Allah said, وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَـتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّى جَـعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا And (remember) when the Lord of Ibrahim tried him with (certain) commands, which he fulfilled. He said: "Verily, I am going to make you an Imam (a leader) for mankind." (2:124) Therefore, Ibrahim fulfilled all the commands of his Lord, stayed away from all the prohibitions, and conveyed Allah's Message in its entirety. Therefore, he is worthy of being made a leader for mankind in all of his affairs, statements and actions. Allah the Exalted said, ثُمَّ أَوْحَيْنَأ إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ Then, We have sent the revelation to you (saying): "Follow the religion of Ibrahim, a Hanif, and he was not of the idolators." (16:123) None shall carry the Burden of Any Other on the Day of Resurrection Allah the Exalted explained what He has revealed in the Scripture of Ibrahim and Musa, أَلاَّ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى
[٢٧] سیدنا ابراہیم اور موسیٰ (علیہما السلام) کے صحائف کی تعلیم :۔ یعنی اگر آخرت اور اس کی جزا و سزا کے متعلق یقین نہیں یا صحیح علم نہیں اور وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر بھی ایمان لانے کو تیار نہیں۔ تو اہل کتاب سے تو ملتے ہی رہتے ہیں اور انہیں پڑھے لکھے اور عالم بھی سمجھتے ہیں۔ ان سے کیا انہیں اتنا بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم اور سیدنا موسیٰ کے صحیفوں میں آخرت کی جزا و سزا کے مطابق کیا ضابطہ نازل فرمایا تھا۔ واضح رہے کہ تورات کے نزول سے پیشتر سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) پر بھی صحائف ہی نازل ہوتے رہے۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) پر بھی کوئی جامع کتاب نہیں بلکہ صحیفے ہی نازل ہوئے تھے۔ سیدنا ابراہیم اور سیدنا موسیٰ (علیہما السلام) پر نازل ہونے والے صحائف کا ذکر سورة اعلیٰ کے آخر میں بھی آیا ہے تاہم یہ صحیفے آج کسی زبان میں بھی متداول نہیں ہیں۔ ان کے متعلق قرآن سے ہی کچھ تھوڑی سی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ البتہ ان کے مضامین قرآن میں آگئے ہیں۔
وَاِبْرٰہِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰٓي ٣٧ ۙ اسْتِيفَاؤُهُ : تناوله وَافِياً. قال تعالی: وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران/ 25] ، وقال : وَإِنَّما تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ [ آل عمران/ 185] ، ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ [ البقرة/ 281] ، إِنَّما يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ الزمر/ 10] ، مَنْ كانَ يُرِيدُ الْحَياةَ الدُّنْيا وَزِينَتَها نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمالَهُمْ فِيها[هود/ 15] ، وَما تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ [ الأنفال/ 60] ، فَوَفَّاهُ حِسابَهُ [ النور/ 39] اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور استیفاء کے معنی اپنا حق پورا لے لینے کے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران/ 25] اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ وَإِنَّما تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ [ آل عمران/ 185] اور تم کو تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ۔ اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ إِنَّما يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ الزمر/ 10] جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بیشمار ثواب ملے گا ۔ مَنْ كانَ يُرِيدُ الْحَياةَ الدُّنْيا وَزِينَتَها نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمالَهُمْ فِيها[هود/ 15] جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب وزینت کے طالب ہوں ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں پورا پورا دے دتیے ہیں ۔ وَما تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ [ الأنفال/ 60] اور تم جو کچھ راہ خدا میں خرچ کرو گے اس کا ثواب تم کو پورا پورا دیاجائے گا : ۔ فَوَفَّاهُ حِسابَهُ [ النور/ 39] تو اس سے اس کا حساب پورا پورا چکا دے ۔
آیت ٣٧{ وَاِبْرٰہِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰیٓ ۔ } ” اور ابراہیم کے (صحیفوں میں تھا) جس نے وفا کی انتہا کردی ! “ صحف ِابراہیم (علیہ السلام) اور صحف ِموسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر سورة الاعلیٰ میں بھی آیا ہے : { اِنَّ ہٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰی ۔ صُحُفِ اِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی ۔ } ” یہی بات پہلے صحیفوں میں (مرقوم) ہے ‘ (یعنی) ابراہیم (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) کے صحیفوں میں “۔ صحف موسیٰ تو عہدنامہ قدیم (Old Testament) کی پہلی پانچ کتابوں کی شکل میں آج بھی موجود ہیں ‘ البتہ صحف ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں کسی کو کچھ خبر نہیں۔ اس حوالے سے میرا گمان ہے (واللہ اعلم) کہ ہندوئوں کے اپنشد صحف ابراہیم (علیہ السلام) کی بگڑی ہوئی شکل ہے ۔ (اس موضوع پر مزید تفصیل سورة طٰہ کی آیت ٨ ٩ کے تحت ملاحظہ ہو۔ ) حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم کے صحیفوں میں سے جس بات کا یہاں حوالہ دیا جا رہا ہے وہ یہ ہے :
36 In the following verses a resume is being given of the teachings sent down in the Books of the Prophets Abraham and Moses. The Books of Moses signify the Torah. As for the Books of the Prophet Abraham they have become extinct and no mention of them is found even in the holy scriptures of the Jews and Christians. Only in the Qur'an at two places have some parts of the teachings contained in the Books of the Prophet Abraham been cited, here and in the concluding verses of Surah AI-A`la.
سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :36 آ گے ان تعلیمات کا خلاصہ بیان کیا جا رہا ہے جو حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم کے صحیفوں میں نازل ہوئی تھیں ۔ حضرت موسیٰ کے صحیفوں سے مراد توراۃ ہے ۔ رہے حضرت ابراہیم کے صحیفے تو وہ آج دنیا میں کہیں موجود نہیں ہیں ، اور یہود و نصاریٰ کی کتب مقدسہ میں بھی ان کا کوئی ذکر نہیں پایا جاتا ۔ صرف قرآن ہی وہ کتاب ہے جس میں دو مقامات پر صُحُفِ ابراہیم کی تعلیمات کے بعض اجزاء نقل کیے گئے ہیں ، ایک یہ مقام ، دوسرے سورہ الاعلیٰ کی آخری آیات ۔
19: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مکمل وفا داری کے تذکرے کے لیے دیکھئے سورۃ بقرہ : 123
(53:37) و ابراہیم الذی وفی۔ اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ ای وبما فی صحف ابراہیم الذی وفی اور جو باتیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے صحیفوں میں ۃیں جس نے احکام کی پوری پوری بجا آوری کی تھی۔ وفی، ماضی واحد مذکر غائب توفیۃ (تفعیل) مصدر بمعنی کسی کام کو پورا پورا کرنا و، ف، ی، مادہ۔ الوافی، مکمل اور پوری چیز کو کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے :۔ واوفوا الکیل اذا کلم (17:35) اور جب تم (کوئی چیز) ماپ کردینے لگو تو پیمانہ مکمل اور پورا پورا بھرا کرو۔ الذی وفی اسم موصول وصلہ مل کر صفت ہے ابراہیم کی۔ کہ انہوں نے خداوندتعالیٰ کے احکام کی پوری پوری تعمیل کی تھی۔ بیٹے کو ذبح کرنے کے بلاچوں وچرا تیا ہوگئے۔ آتش نمرود میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ اپنے پروردگار کے احکام مخلوق تک پہنچائے اور اس سلسلے میں طرح طرح کی تکالیف لوگوں کے ہاتھوں سے اٹھائیں وغیرہ وغیرہ۔
﴿وَ اِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰۤىۙ٠٠٣٧ ﴾ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی توصیف میں الذی وفی فرمایا انہوں نے مامورات الٰہیہ کو پورا کردیا اللہ تعالیٰ نے جو انہیں رسالت کا کام سپرد کیا اور دعوت و ارشاد کے لیے انہیں مامور فرمایا اور جن اعمال کے کرنے کا حکم فرمایا ان سب کو پورا کیا سورة بقرہ میں جو ﴿ وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّ ﴾ فرمایا ہے اس کی تفسیر دیکھ لی جائے۔ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ شانہ، نے انہیں حکم دیا ﴿ اَسْلِمْ ﴾ کہ (فرمانبردار ہوجاؤ) انہوں نے عرض کیا ﴿اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ٠٠١٣١﴾ کہ (میں رب العٰلمین کا فرمانبردار ہوگیا) اس کے بعد اللہ تعالیٰ شانہ، نے انہیں امتحان میں ڈالا جان مال اور اولاد میں ایسے احوال سامنے آئے جن پر صبر کرنا اور احکام ربانیہ پر قائم رہنا بڑا اہم کام ہے۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں : وفی قصة الذبح مافیہ کفاة۔ یعنی انہوں نے جو اپنے بیٹے کو اپنے رب کے حکم سے ذبح کرنے کے لیے لٹا دیا اور اپنی طرف سے ذبح کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی رب جل شانہ، کے فرمان پر عمل کرنے کے لیے مثال قائم کرنے کے لیے یہی قصہ کافی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ ان کے زمانہ کے لوگ ایک شخص کو دوسرے شخص کے عوض پکڑ لیتے تھے جس شخص نے قتل نہ کیا ہو اسے اس کے باپ اور بیٹے اور بھائی اور چچا اور ماموں اور چچا کے بیٹے اور بیوی اور شوہر اور غلام کے قتل کردینے کے عوض قتل کردیتے تھے یعنی قصاص لینے کے لیے کسی بھی رشتہ دار کو قتل کردیتے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو سمجھایا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغام پہنچایا ﴿ اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰىۙ٠٠٣٨ ﴾ (کہ ایک جان دوسری جان کا بوجھ نہ اٹھائے گی) ۔ بعض مفسرین نے یہاں دو حدیثیں بھی نقل کی ہیں ان میں سے ایک یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) روزانہ علی الصباح چار رکعت پڑھا کرتے تھے اور انہیں اخیرتک پڑھتے رہے۔ یہ حضرت ابوامامہ (رض) سے مروی ہے ایک حدیث یوں نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم جانتے ہو اللہ تعالیٰ نے اپنے دوست ابراہیم کے بارے میں ﴿ الَّذِيْ وَفّٰۤى﴾ کیوں فرمایا ؟ پھر آپ نے خود ہی ارشاد فرمایا کہ وہ صبح شام ﴿ فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَ حِيْنَ تُصْبِحُوْنَ ٠٠١٧﴾ (الایۃ) پڑھا کرتے تھے۔ (تفسیر قرطبی صفحہ ١١٣: ج ٩)
(37) اور نیز اس ابراہیم (علیہ السلام) کے صحیفوں میں ہیں جس نے ہر حکم کو پورا کیا۔ توریت کے علاوہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اور چند صحیفے دیئے گئے تھے ان صحف میں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے صحاف میں مذکور ہیں کیا ان مضامین کی خبر اس ولید کو نہیں پہنچی یعنی ان مضامین پر مطلع نہیں ہوا وہ مضامین تو قرآن سے بہت پہلے کے ہیں آگے ان مضامین کا ذکر ہے۔ جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ (علیہم السلام) کے صحائف میں مذکور ہیں علاو ہ اس کے کہ کفار مکہ کو ان مضامین سے آگاہ کرنا ہے اور ان کو تنبیہ کرنی ہے اس مضامین سے یہ بات بھی معلوم ہوگی کہ انبیاء کی تعلیمات میں کس قدر باہم آہنگی اور یکسانیت ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔