Surat un Najam
Surah: 53
Verse: 44
سورة النجم
وَ اَنَّہٗ ہُوَ اَمَاتَ وَ اَحۡیَا ﴿ۙ۴۴﴾
And that it is He who causes death and gives life
اور یہ کہ وہی مارتا ہے اور جلاتا ہے ۔
وَ اَنَّہٗ ہُوَ اَمَاتَ وَ اَحۡیَا ﴿ۙ۴۴﴾
And that it is He who causes death and gives life
اور یہ کہ وہی مارتا ہے اور جلاتا ہے ۔
And that it is He Who causes death and gives life. In a similar statement, Allah said, الَّذِى خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَوةَ Who has created death and life. (67:2) Allah said, وَأَنَّهُ خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالاْأُنثَى
وَاَنَّہٗ ہُوَاَمَاتَ وَاَحْيَا ٤٤ ۙ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔
آیت ٤٤{ وَاَنَّہٗٗ ہُوَ اَمَاتَ وَاَحْیَا ۔ } ” اور یہ کہ وہی ہے جو مارتا بھی ہے اور زندہ بھی رکھتا ہے۔ “
(53:44) (6) وانہ امات داحیا۔ اور بیشک وہی مارتا ہے اور وہی زندہ کرتا ہے۔ امات ماضی (بمعنی مستقبل) واحد مذکر غائب اماتۃ (افعال) مصدر اس نے مار ڈالا۔ اس نے مارا ۔ وہ مارتا ہے یا مرے گا۔ احیا : ماضی (بمعنی مستقبل) واحد مذکر غائب۔ احیاء (افعال) مصدر۔ اس نے زندہ کیا۔ اس نے جلایا۔ وہ زندہ کرتا ہے ۔ وہ چلاتا ہے۔
وانہ ............ واحیا (٣٥ : ٤٤) ” اور یہ کہ اس نے موت دی اور زندگی بخشی “ اسی طرح اس آیت سے بھی موت وحیات کی لاتعداد صورتیں نکلتی ہیں اور انسان اپنے احساس کو تیز کرکے گنوا سکتا ہے۔ اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اللہ نے موت وحیات کو پیدا کیا جیسا کہ دوسری سورت میں کہا ہے۔ خلق الموت والحیاة ” جس نے موت وحیات کو پیدا کیا “ موت وحیات دونوں کا تکرار انسانی سوسائٹی میں ہوتا رہتا ہے لہٰذا ہر کوئی موت وحیات کو جانتا ہے لیکن اگر انسان موت وحیات کا راز معلوم کرنا چاہے تو یہ بہت ہی سر بستہ راز ہوجاتے ہیں۔ موت کی حقیقت کیا ہے اور حیات کا راز کیا ہے ؟ تو انسان ان کی حقیقت کی تعبیر اپنے الفاظ میں نہیں کرسکتا نہ ان کی کوئی شکل و صورت متعین کرسکتا ہے۔ ایک زندہ انسان کے ڈھانچے میں حیات کس طرح داخل ہوگئی۔ یہ ہے کیا اور کہاں سے آتی ہے اور اس انسانی ڈھانچے کے روئیں روئیں میں کس طرح آگئی۔ یہ کس طرح اس زندہ انسان یا زندہ کائنات میں سرایت کرگئی ؟ اور موت کیا ہے ؟ کس طرح یہ زندگی نکلی اور موت آگئی۔ یہ ایک راز ہے اور پس پردہ ہے اور اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس نے زندہ کیا اور مارا ، اس سے موت وحیات کی کئی ملین صورتیں سامنے آتی ہیں۔ اس زمین میں زندہ چیزوں کے کئی جہاں ہیں۔ ایک لمحے میں کئی کئی ملین چیزیں مرتی ہیں اور کئی کئی ملین زندہ ہوتی ہیں ان میں زندگی داخل ہوتی ہے اور اس راز کو آج تک صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ کئی ایسی اموات ہیں جو دوبارہ زندگیوں کا باعث اور سبب بنتی ہیں۔ صدیوں سے یہ صورتیں ظاہر ہوتی چلی آئی ہیں۔ جب انسان صدیوں کا تصور کرتا ہے۔ انسان کی پیدائش سے بھی پہلے کے زمانے سے تو یہاں موت وحیات کی کئی قسمیں جاری ہیں۔ یہ تصاویر کی لاانتہا تعداد ہے جو نمودار ہوتی ہے۔ ان مختصر کلمات سے یہ تصاویر ظاہر ہوتی ہیں اور انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ انسان اپنے اوپر کنٹرول اور ضبط نہیں کرسکتا اور اس پر عجیب اثر ہوتا ہے۔