Surat un Najam
Surah: 53
Verse: 48
سورة النجم
وَ اَنَّہٗ ہُوَ اَغۡنٰی وَ اَقۡنٰی ﴿ۙ۴۸﴾
And that it is He who enriches and suffices
اور یہ کہ وہی مالدار بناتا ہے اور سرمایہ دیتا ہے ۔
وَ اَنَّہٗ ہُوَ اَغۡنٰی وَ اَقۡنٰی ﴿ۙ۴۸﴾
And that it is He who enriches and suffices
اور یہ کہ وہی مالدار بناتا ہے اور سرمایہ دیتا ہے ۔
And that it is He Who Aghna (gives much) and Aqna (a little). It is Allah Who gives wealth to His servants and this wealth remains with them. This means they are able to use it to their benefit, is this out of the completeness of His favor. Most of the statements of the scholars of Tafsir revolve around this meaning, such as those from Abu Salih, Ibn Jarir and others. Mujahid said that, أَغْنَى (Aghna) meaning: He gives wealth. وَأَقْنَى (Aqna) meaning: He gives servants. Similar was said by Qatadah. Ibn Abbas and Mujahid said; أَغْنَى (Aghna) means: He granted; while, وَأَقْنَى (Aqna) means: He gave contentment. وَأَنَّهُ هُوَ رَبُّ الشِّعْرَى
48۔ 1 یعنی کسی کو اتنی تونگری دیتا ہے کہ وہ کسی کا محتاج نہیں ہوتا اور اسکی تمام حاجتیں پوری ہوجاتی ہیں اور کسی کو اتنا سرمایا دے دیتا ہے کہ اس کے پاس ضرورت سے زائد بچ رہتا ہے اور وہ اس کو جمع کرکے رکھتا ہے۔
[٣٣] اقنٰی کا لغوی مفہوم :۔ اقنی بمعنی غنی کرنا اور راضی کرنا (مفردات) یعنی اتنا مال و دولت دینا کہ اس کی احتیاج پوری کرنے کے علاوہ وہ خوش بھی ہوجائے اور بعض اہل لغت کے نزدیک اقنٰی اغنیٰ کی ضد ہے بمعنی مفلس بنادینا۔ گویا اقنی لغت اضداد سے ہے۔ ان آیات میں چونکہ متقابل چیز کا ذکر ہو رہا ہے۔ لہذا یہاں دوسرا معنی ہی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ فلہٰذا ترجمہ میں یہی دوسرا معنی اختیار کیا گیا ہے۔
وَأَنَّهُ هُوَ أَغْنَىٰ وَأَقْنَىٰ (and that He is the One who gives wealth and preserves [ it ]...53:48) The word ghina means affluence, and ighna& means to give wealth to somebody else, and enrich him. The word aqna is derived from qinyatun which means preserving and reserve wealth. The meaning of the verse is that it is Allah Who enriches His servants and grants wealth to them to their satisfaction, so that they are able to use some and keep some in their reserve fund for future use.
وَاَنَّهٗ هُوَ اَغْنٰى وَاَقْنٰى، غنا کے معنی مالداری کے معروف ہیں، اغناء کے معنی دوسرے کو مالدار بنادینا، اور اقنیٰ ، قنیہ سے مشتق ہے، جس کے معنی محفوظ اور ریزرو سرمایہ کے ہیں، مراد آیت کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی لوگوں کو مالدار اور غنی بناتا ہے وہی جس کو چاہے اتنا سرمایہ دیتا ہے کہ اس کو محفوظ رکھ سکے۔
وَاَنَّہٗ ہُوَاَغْنٰى وَاَقْنٰى ٤٨ ۙ غنی الغِنَى يقال علی ضروب : أحدها : عدم الحاجات، ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] ، الثاني : قلّة الحاجات، وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس» والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ 2 قدرے محتاج ہونا اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ قنی قوله تعالی: أَغْنى وَأَقْنى[ النجم/ 48] أي : أعطی ما فيه الغنی وما فيه الْقِنْيَةُ ، أي : المال المدّخر، وقیل : «أَقْنَى» : أرضی. وتحقیق ذلک أنه جعل له قِنْيَةً من الرّضا والطّاعة، وذلک أعظم الغناء ین، وجمع القِنْيَةِ : قِنْيَاتٌ ، وقَنَيْتُ كذا واقْتَنَيْتُهُ ومنه : قَنِيتُ حيائي عفّة وتكرّما ( ق ن ی ) الاقناء ( افعال ) کے معنی غنی کردینے کے ہیں قرآن پاک میں ہے ۔ أَغْنى وَأَقْنى[ النجم/ 48] اور یہ کہ دہی دولت مند بناتا اور مفلس کرتا ہے ۔ یہ قناء ( افعال ) سے ہے جس کے معنی اتنا مال دینے کے ہیں کہ احتیاج باقی نہ رہے یا یہ قنیتہ سے ہے اور اس کے معنی ذخیرہ کیا ہوا مال بخشنے کے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اقنی کے معنی ارضی یعنی راضی کرنا کے ہیں ۔ اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی رجا و اطاعت کا خزانہ بخش دیا اور غنامادی ( مالداری ) سے بڑھ کر ہے ۔ اور قنیتہ کی جمع قنیات آتی ہے اور قنبت خدا واقتنیتہ کے معنی کسی چیز کو لازم پکڑنے کے ہیں اسی سے شاعر نے کہا ہے ۔ ( 3 26 ) قنیت حیانی عفتہ وتکرما تو میں بوجہ عفت وکرم کی وجہ سے حیا کی چادر اوڑھ لیتا ہوں ۔
آیت ٤٨{ وَاَنَّہٗ ہُوَ اَغْنٰی وَاَقْنٰی ۔ } ” اور یہ کہ اسی نے دولت دی اور اسی نے خزانہ دیا۔ “ اَقْنٰی چونکہ باب افعال سے ہے ‘ جس کی خصوصیات میں ” سلب ماخذ “ بھی ہے ‘ چناچہ اس کا ترجمہ اَفْقَرَ بھی کیا گیا ہے۔ یعنی اس نے کسی کو غنی اور کسی کو فقیر بنا دیا۔
43 Different meanings have been given by the lexicographers and commentators of the word aqna as used in the original. According to Qatadah, Ibn 'Abbas took it in the meaning of arda (pleased), and according to `Ikrimah in the meaning of qanna'a (satisfied). According to Imam Razi, whatever is given to a person over and above his need and requirement is iqna `. Abu `Ubaidah and several other lexicographers have expressed the view that aqua is derived from qunya-tun, which means lasting and secured property, e.g, the house, lands, gardens, cattle, etc. Ibn Zaid, however, has given quite a different meaning of it. He says that aqua here has been used in the sense of afqara (made penniless), and the verse means: He made whomever He pleased rich and whomever He pleased penniless.
سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :43 اصل میں لفظ اَقْنیٰ استعمال ہوا ہے جس کے مختلف معنی اہل لغت اور مفسرین نے بیان کیے ہیں ۔ قتادہ کہتے ہیں کہ ابن عباس نے اس کے معنی اَرْضیٰ ( راضی کر دیا ) بتائے ہیں ۔ عکرمہ نے ابن عباس سے اس کے معنی قَنَّعَ ( مطمئن کر دیا ) نقل کیے ہیں ۔ امام رازی کہتے ہیں کہ آدمی کی حاجت سے زیادہ جو کچھ بھی اس کو دیا جائے وہ اِقناء ہے ۔ ابو عبیدہ اور دوسرے متعدد اہل لغت کا قول ہے کہ اَقْنیٰ قُنْیَۃٌ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں باقی اور محفوظ رہنے والا مال ، جیسے مکان ، اراضی ، باغات ، مواشی وغیرہ ۔ ان سب سے الگ مفہوم ابن زید بیان کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اَقْنیٰ یہاں اَفْقَرَ ( فقیر کر دیا ) کے معنی میں ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس نے جس کو چاہا غنی کیا اور جسے چاہا فقیر کر دیا ۔
(53:48) (9) وانہ ھو اغنی واقنی۔ اور یہ کہ بیشک وہی غنی کرتا ہے اور مفلس بناتا ہے۔ اغنی ماضی (بمعنی حال) واحد مذکر غائب اغناء (افعال) مصدر۔ وہ غنی کرتا ہے وہ دولت مند بناتا ہے۔ اقنی : ماضی (بمعنی حال) واحد مذکر غائب اقناء (افعال) مصدر سے۔ اقناء کے معنی ذخیرہ کیا ہوا مال جو باقی رہ سکے دینے کے ہیں۔ اس اعتبار سے اقناء کے معنی ذخیرہ کیا ہوا مال دینا۔ لیکن باب افعال کے خواص میں سے ایک خاصیت سلب ماخذ بھی ہے۔ اس اعتبار سے اقنی کا مطلب قنیہ ہے یعنی فقیر بنادینا ہوگا۔ سیاق آیات کے لحاظ سے یہی معنی مناسب معلوم ہوتے ہیں۔ اقنی ای افقر۔
ف 3 ” اقنی “ کے دوسرے معنی ” صاحب جائیداد بناتا ہے “ اور تیسرے معنی ” خوش کرتا ہے “ بھی ہوسکتے ہیں۔
فہم القرآن ربط کلام : جو ” رب “ انسان کو نر اور مادہ کی صورت میں پیدا کرتا ہے وہی انسان کو تونگربناتا اور تنگ دست کرتا ہے۔ قرآن مجید کی تعلیمات میں یہ بات بھی بنیادی حیثیت رکھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی انسان کا رزق فراخ کرتا ہے اور وہی رزق تنگ کرنے والا ہے۔ بیشک انسان کو رزق کمانے کا حکم دیا گیا ہے مگر رزق کی کشادگی کا دارومدار انسان کی محنت پر نہیں رکھا گیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنی حکمت اور مشیّت ہے کہ جس کا چاہے رزق فراخ کرے اور جس کا چاہے کم کردے۔ رزق کی فرادانی اور اسباب کی وسعت اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے رزق کی کشادگی سے نوازتا ہے اور جس کا چاہتا ہے رزق تنگ کردیتا ہے۔ انسان کو تلاش رزق کا حکم ہے مگر رزق کا انحصارصرف انسان کی محنت پر نہیں۔ اگر رزق کا دار و مدار انسان کی محنت پر ہوتا تو دنیا میں کوئی ہنرمند غریب نہ ہوتا، کوئی لینڈلارڈ مقروض نہ ہوتا، اور نہ ہی کار خانے دار دیوالیہ ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ رزق دینے والا صرف ایک ” اللہ “ ہے۔ اس نے لوگوں کے تعلقات کو مربوط رکھنے کے لیے رزق کی تقسیم اس طرح کی ہے کہ ایک شخص اپنی روزی کے لیے کئی انسانوں کے تعاون کا ضرورت مند ہوتا ہے۔ جس بنا پر لوگ ایک دوسرے کی روزی میں معاون بنتے ہیں۔ کار خانے دار کو دیکھیں کہ وہ کتنے لوگوں کے رزق کا وسیلہ بنتا ہے۔ یہی صورت حال زمیندار کی ہے کہ بظاہر وہ اپنی روزی کے لیے محنت کرتا ہے۔ لیکن اپنے ساتھ درجنوں گھرانوں، سینکڑوں جانوروں اور ہزاروں کیڑے مکوڑوں کی روزی کا وسیلہ بنتا ہے۔ ہر دور میں ایسے مشرک ضرور ہوتے ہیں جن کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ انسان کی قسمت اور رزق کا تعلق ستاروں کی گردش کے ساتھ منسلک ہے۔ اس وجہ سے کچھ لوگ علم نجوم پر یقین رکھتے ہیں اور کچھ یہ سمجھتے ہیں کہ فلاں ستارہ اگر فلاں مدار میں پہنچ جائے تو بارش کا برسنا لازم ہوجاتا ہے۔ ستاروں میں سب سے بڑا ستارہ الشِّعْریٰ ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ تمام ستاروں کا رب ہے لیکن الشِّعریٰ کے ” رب “ ہونے کا اس لیے بطور خاص ذکر کیا ہے کہ عرب کے کچھ قبائل اس کی عبادت کرتے تھے جو اس کی عبادت نہیں کرتے تھے وہ بھی اس کی تکریم کے قائل تھے۔ شعریٰ ستارے کے انگریزی میں کئی نام ہیں۔ اسے SIRIUS ، STAR، DOG اور CANIS MAJORIS بھی کہا جاتا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا یا بریٹانیکا میں (SIRIUS) کے عنوان کے ضمن میں جو معلومات فراہم کی گئی ہیں ان کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔ ” یہ ستارہ مجموعۂ نجوم میں روشن ترین ستارہ ہے۔ سورج سے بھی اس کی روشنی اکیس گنا زیادہ ہے اور حجم میں بھی یہ سورج سے بڑا ہے۔ اس کی سطح کا درجہ حرارت بھی کافی زیادہ ہے۔ زمین سے اس کا فاصلہ آٹھ عشاریہ چھ (8.6) نوری سال ہے۔ قدیم مصری اس کو بہت مقدس مانتے تھے کیونکہ جس موسم میں یہ طلوع ہوتا اس وقت دریائے نیل میں سیلاب کی آمد آمد ہوتی۔ تمام علاقہ سیراب ہو کر سبزوشاداب ہوجاتا۔ مصریوں کا عرصۂ دراز تک یہی عقیدہ رہا کہ شعریٰ ستارہ کے طلوع کے نمودار ہونے پر مصر کی خوشحالی کا دور دورہ ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اسے ہر قسم کی شادابیوں کا خالق یقین کرتے اور اس کی عبادت کیا کرتے تھے۔ (انسائیکلو پیڈیا، جلد : ٢٠) ” حضرت خالد جہنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (رض) نے ہمیں صبح کی نماز حدیبیہ کے مقام پر پڑھائی۔ رات کو ہونے والی بارش کے اثرات فضا میں نمایاں تھے۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور صحابہ سے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا ارشاد فرمایا ہے ؟ صحابہ (رض) نے جواب دیا اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کچھ بندوں نے ایمان کی حالت میں صبح کی اور کچھ نے کفر کی حالت میں صبح کی۔ جس نے کہا اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی ہے وہ مجھ پر ایمان لایا اور اس نے ستاروں کا انکار کیا اور جس نے کہا کہ فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی اس نے میرا انکار کیا اور وہ ستاروں پر ایمان لایا۔ “ (رواہ البخاری : باب یَسْتَقْبِلُ الإِمَام النَّاسَ إِذَا سَلَّمَ ) مسائل ١۔ اللہ ہی رزق فراخ کرنے والا اور وہی رزق تنگ کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن رزق کی فراخی اور تنگی کا اختیار صرف ” اللہ “ ہی کے پاس ہے : ١۔ اللہ کے ہاتھ کھلے ہیں جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ (المائدۃ : ٦٤) ٢۔ زمین و آسمان کے خزانوں کا مالک صرف ” اللہ “ ہے۔ (المنافقون : ٧) ٣۔ زمین و آسمان کی کنجیوں کا مالک ” اللہ “ ہے۔ (الزمر : ٦٣) ٤۔ ” اللہ “ نے ہر جاندار کے رزق کا ذمہ لیا ہوا ہے۔ (ہود : ٦٧) ٥۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ہی رزق کو فراخ اور تنگ کرتا ہے۔ (الزمر : ٥٢) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمانبردار بندوں کے لیے دوہرا اجر اور رزق کریم تیار کر رکھا ہے۔ (الاحزاب : ٣١) ٧۔ ” اللہ “ ہی رازق ہے اور بڑی قوت والا ہے۔ (الذاریات : ٥٨) ٨۔ اللہ تعالیٰ رزق بڑھاتا اور کم کرتا ہے۔ (العنکبوت : ٦٢)
وانہ ........ واقنی (٣٥ : ٨٤) ” اور یہ کہ اس نے غنی کیا اور جائیداد بخشی “ دنیا میں جس کو چاہا مختلف پہلوؤں سے غنی بنا دیا۔ مال کے لحاظ سے غنی ، صحت کے لحاظ سے غنی ، اولاد کے لحاظ سے غنی ، فکر کے لحاظ سے غنی اور اللہ کے تعلق کے لحاظ سے غنی اور یہ سب سے بڑا غنی ہوتا ہے اور جسے وہ چاہے گا آخرت میں غنی کردے گا۔ اسی طرح جو جائیداد وہ چاہے دیدے ، یہاں دیدے یا آخرت میں دیدے۔ لوگ تو فقر اور محتاج ہیں۔ یہ غنی اور مالدار اللہ ہی کے خزانوں سے ہوسکتے ہیں۔ وہ دولت دیتا ہے اور وہی جائیداد دیتا ہے۔ یہ تو وہ بات ہے جسے وہ عملاً پاتے ہیں اور ان کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جن کو اللہ نے دیا اس لئے انہیں جگایا جاتا ہے کہ اللہ ہی کے خزانہ عامرہ کی طرف نظریں اٹھاؤ۔ اللہ کے سوا دوسرے خزانے ہیچ اور خالی ہیں۔
(48) اور یہ کہ وہی مال دار بناتا ہے اور وہی سرمایہ کو محفوظ بناتا ہے۔ اقنی کے معنی کئی طرح کئے گئے ہیں چونکہ دولت مندی بھی کئی طرح ہوتی ہے یا تو نقدروپیہ کو اغنا فرمایا اور اقنازمین اور مویشی کو فرمایا یا بڑے سرمایہ دار، اور کم سرمایہ دار ، یا ضرورت کے لئے جو کافی ہو وہ اغنا اور جو ضرورت سے زائد ہو وہ اتنا بہرحال سرمایہ داری میں جو تفاوت نظر آتا ہے اس کی جانب اقنی کہہ کر اشارہ فرمایا۔