Surat un Najam

Surah: 53

Verse: 49

سورة النجم

وَ اَنَّہٗ ہُوَ رَبُّ الشِّعۡرٰی ﴿ۙ۴۹﴾

And that it is He who is the Lord of Sirius

اور یہ کہ وہی شعریٰ ( ستارے ) کا رب ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And that He is the Lord of Ash-Shi`ra. Ibn Abbas, Mujahid, Qatadah and Ibn Zayd said about Ash-Shi`ra that it is the bright star, named Mirzam Al-Jawza' (Sirius), which a group of Arabs used to worship. وَأَنَّهُ أَهْلَكَ عَادًا الاْأُولَى

سب کی آخری منزل اللہ تعالیٰ ادراک سے بلند ہے فرمان ہے کہ بازگشت آخر اللہ کی طرف ہے ۔ قیامت کے دن سب کو لوٹ کر اسی کے سامنے پیش ہونا ہے حضرت معاذ نے قبیلہ بنی اود میں خطبہ پڑھتے ہوئے فرمایا اے بنی اود میں اللہ کا پیغمبر کا قاصد بن کر تمہاری طرف آیا ہوں تم یقین کرو کہ تمہارا سب کا لوٹنا اللہ کی طرف ہے پھر یا تو جنت میں پہنچائے جاؤ یا جہنم میں دھکیلے جاؤ بغوی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا اللہ تعالیٰ کی ذات میں فکر کرنا جائز نہیں ، جیسے اور حدیث میں ہے مخلوق پر غور بھری نظریں ڈالو لیکن ذات خالق میں گہرے نہ اترو ۔ اسے عقل و ادراک فکر و ذہن نہیں پا سکتا ، گو ان لفظوں سے یہ حدیث محفوظ نہیں مگر صحیح حدیث میں یہ بھی مضمون موجود ہے اس میں ہے کہ شیطان کسی کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے اسے کس نے پیدا کیا ؟ پھر اسے کس نے پیدا کیا ؟ یہاں تک کہ کہتا ہے اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا ؟ جب تم میں سے کسی کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا تو اعوذ پڑھ لے اور اس خیال کو دل سے دور کر دے ، سنن کی ایک حدیث میں ہے مخلوقات اللہ میں غور و فکر کرو لیکن ذات اللہ میں غور و فکر نہ کرو سنو اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ پیدا کیا ہے جس کے کان کی لو سے لے کر مونڈھے تک تین سو سال کا راستہ ہے او کما قال پھر فرماتا ہے کہ بندوں میں ہنسنے رونے کا مادہ اور ان کے اسباب بھی اسی نے پیدا کئے ہیں جو بالکل مختلف ہیں وہی موت و حیات کا خالق ہے جیسے فرمایا آیت ( الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ۭوَهُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ Ą۝ۙ ) 67- الملك:2 ) اس نے موت و حیات کو پیدا کیا اسی نے نطفہ سے ہر جاندار کو جوڑ جوڑ بنایا ، جیسے اور جگہ فرمان ہے آیت ( اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُّتْرَكَ سُدًى 36؀ۭ ) 75- القيامة:36 ) ، کیا انسان سمجھتا ہے کہ وہ بیکار چھوڑ دیا جائے گا ؟ کیا وہ منی کا قطرہ نہ تھا جو ( رحم میں ) ٹپکایا جاتا ہے ؟ پھر کیا وہ بستہ خون نہ تھا ؟ پھر اللہ نے اسے پیدا کیا اور درست کیا اور اس سے جوڑے یعنی نرو مادہ بنائے کیا ( ایسی قدرتوں والا ) اللہ اس بات پر قادر نہیں ؟ کہ مردوں کو زندہ کر دے ۔ پھر فرماتا ہے اسی پر دوبارہ زندہ کرنا یعنی جیسے اس نے ابتداء پیدا کیا اسی طرح مار ڈالنے کے بعد دوبارہ کی پیدائش بھی اسی کے ذمہ ہے اسی نے اپنے بندوں کو غنی بنا دیا اور مال ان کے قبضہ میں دے دیا ہے جو ان کے پاس ہی بطور پونجی کے رہتا ہے اکثر مفسرین کے کلام کا خلاصہ اس مقام پر یہی ہے گو بعض سے مروی ہے کہ اس نے مال دیا اور غلام دئیے اس نے دیا اور خوش ہوا اسے غنی بنا کر اور مخلوق کو اس کا دست نگر بنا دیا جسے چاہا غنی کیا جسے چاہا فقیر لیکن یہ پچھلے دونوں قول لفظ سے کچھ زیادہ مطابقت نہیں رکھتے ۔ شعری اس روشن ستارے کا نام ہے جسے مرزم الجوزاء بھی کہتے ہیں بعض عرب اس کی پرستش کرتے تھے ، عاد و اولیٰ یعنی قوم ہود کو جسے عاد بن ارم بن سام بن نوح بھی کہا جاتا ہے اسی نے ان کی نافرمانی کی بنا پر تباہ کر دیا جیسے فرمایا آیت ( اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ Č۝۽ ) 89- الفجر:6 ) ، یعنی کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے عاد کے ساتھ کیا کیا ؟ یعنی ارم کے ساتھ جو بڑے قدآور تھے جن کا مثل شہروں میں پیدا نہیں کیا گیا تھا یہ قوم بڑی قوی اور زورآور تھی ساتھ ہی اللہ کی بڑی نافرمان اور رسول سے بڑی سرتاب تھی ان پر ہوا کا عذاب آیا جو سات راتیں اور آٹھ دن برابر رہا اسی طرح ثمودیوں کو بھی اس نے ہلاک کر دیا جس میں سے ایک بھی باقی نہ بچا اور ان سے پہلے قوم نوح تباہ ہو چکی ہے جو بڑے ناانصاف اور شریر تھے اور لوط کی بستیاں جنہیں رحمن و قہار نے زیر و زبر کر دیا اور آسمانی پتھروں سے سب بدکاروں کا ہلاک کر دیا انہیں ایک چیز نے ڈھانپ لیا یعنی ( پتھروں نے ) جن کا مینہ ان پر برسا اور برے حالوں تباہ ہوئے ۔ ان بستیوں میں چار لاکھ آدمی آباد تھے آبادی کی کل زمین کی آگ اور گندھک اور تیل بن کر ان پر بھڑک اٹھی حضرت قتادہ کا یہی قول ہے جو بہت غریب سند سے ابن ابی حاتم میں مروی ہے ۔ پھر فرمایا پھر تو اے انسان اپنے رب کی کس کس نعمت پر جھگڑے گا ؟ بعض کہتے ہیں خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے لیکن خطاب کو عام رکھنا بہت اولیٰ ہے ابن جریر بھی عام رکھنے کو ہی پسند فرماتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

49۔ 1 رب تو وہ ہر چیز کا ہے، یہاں ستارے کا نام اس لئے لیا ہے کہ بعض عرب قبائل اس کی پوجا کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٤] شعری ستارہ اور اس کے پجاری :۔ مشرکین عرب تین مشہور دیویوں لات، منات اور عزیٰ کے علاوہ آسمان کے دیوتاؤں میں سے شعریٰ سیارہ کی بھی پرستش کرتے تھے۔ یہ سیارہ سورج سے ٢٣ گنا زیادہ روشن ہے اور اس کا زمین سے فاصلہ ٨ نوری سال سے بھی زیادہ ہے۔ (واضح رہے کہ سورج ہم سے ٩ کروڑ ٣٠ لاکھ میل دور ہے اور اس کی روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے ٨ منٹ میں ہم تک پہنچتی ہے۔ گویا ہماری زمین اور سورج کا فاصلہ ٨ نوری منٹ ہے۔ اسی سے ٨ نوری سال کا حساب لگا لیجئے) لہذا یہ سورج سے بہت چھوٹا اور کم روشن نظر آتا ہے۔ اہل مصر اس کی پرستش کرتے تھے کہ اسی سیارہ کے طلوع کے زمانہ میں نیل کا فیضان شروع ہوتا تھا۔ اور اہل مصر یہ سمجھتے تھے کہ اسی سیارہ کے طلوع ہونے کا فیضان ہے۔ اہل عرب میں سے خصوصاً قریش اور خزاعہ اس کی پرستش کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس عقیدہ باطلہ کی تردید کی اور فرمایا تمہاری قسمتوں کا مالک شعریٰ نہیں بلکہ وہ اللہ ہے جو شعریٰ کا بھی مالک ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَأَنَّهُ هُوَ رَ‌بُّ الشِّعْرَ‌ىٰ (and that He is the One who is the Lord of Sirius ...53:49) The word shi` ra with the diacritical symbol kasrah under the letter shin is the name of a star, called Sirius which is behind Jauza&. Some of the Arab tribes worshipped the mighty star, Sirius, because they regarded it as a source of good or bad luck for them. Allah mentions this star in particular in order to refute their false notion and to affirm that He is the Lord and Master of this star as well, although He is the Creator, Master and Lord of all the stars, heavens and the earth.

وَاَنَّهٗ هُوَ رَبُّ الشِّعْرٰى، شعریٰ بکسر شین، ایک ستارے کا نام ہے جو جوزا کے پیچھے ہے، عرب کی بعض اقوام اس ستارے کی پرستش کرتی تھیں، اس لئے خصوصیت سے اس کا نام لے کر بتلایا کہ اس ستارے کا مالک اور پروردگار بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے، اگرچہ وہ سارے ہی ستاروں، آسمانوں، زمینوں کا خالق ومالک اور پروردگار ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَنَّہٗ ہُوَرَبُّ الشِّعْرٰى۝ ٤٩ ۙ شِّعْرَى: نجم، وتخصیصه في قوله : وَأَنَّهُ هُوَ رَبُّ الشِّعْرى [ النجم/ 49] ، لکونها معبودة لقوم منهم . الشعری ٰ ایک ستارے کا نام ہے ( جو سخت گرمی کے زمانہ میں طلو ع ہوتا ہے ) اور آیت کریمہ : وَأَنَّهُ هُوَ رَبُّ الشِّعْرى [ النجم/ 49] وہی شعری ٰ کا مالک ہے میں شعریٰ کی تخصیص اس لئے کی گئی ہے کہ وہ ایک قوم کا معبود تھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٩{ وَاَنَّہٗ ہُوَ رَبُّ الشِّعْرٰی ۔ } ” اور یہ کہ وہی شعریٰ کا بھی ربّ ہے۔ “ الشِّعریٰ وہ ستارہ تھا جس کی مختلف اقوام میں پوجا کی جاتی تھی ۔ یہ ستارہ اس حیثیت سے اہل عرب کے ہاں بھی معروف تھا ۔ اس لیے انہیں بتایا گیا کہ جسے تم لوگ الٰہ مانتے ہو اس کا رب بھی اللہ ہی ہے ۔ تمہاری قسمت کے فیصلے یہ ستارہ نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ کرتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

44 Shi ra is the brightest star in the heavens, which is also known by the names of Mirzam al- Jawza `, al-Kalb al-Akbar, al-Kalb al-Jabbar, Ash-Shi 'ra al-'Abur, etc. In English it is called Sirius, Dog Star and Canis Majoris. It is 23 tunes as luminous as the Sun, but as it shines over eight light-years away from the earth, it appears to be smaller and less luminous than the Sun. The Egyptians worshipped it, for it made its appearance at about the time of the season when the annual floods were beginning in the Nile; the Egyptians believed that Sirius caused the Nile floods. The pagan Arabs also held the belief that this star influenced human destinies. That is why they worshipped it as a deity, and the Bani Khuza`ah, the neighbouring tribe of the Quraish, were particularly well-known for being its devotees. What Allah says means: 'Your destinies are not made and controlled by Shi is but by the Lord of Shi'ra.

سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :44 شِعْرٰی آسمان کا روشن ترین تارا ہے جسے مِرْزم الجوزاء ، الکلب الاکبر ، الکلب الجبار ، الشعری العبور وغیرہ ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ انگریزی میں اس کو Sirius اور Dog Star اورCanis Majoris کہتے ہیں ۔ یہ سورج سے 23 گنا زیادہ روشن ہے ، مگر زمین سے اس کا فاصلہ آٹھ سال نوری سے بھی زیادہ ہے اس لیے یہ سورج سے چھوٹا اور کم روشن نظر آتا ہے ۔ اہل مصر اس کی پرستش کرتے تھے ، کیونکہ اس کے طلوع کے زمانے میں نیل کا فَیضان شروع ہوتا تھا ، اس لیے وہ سمجھتے تھے کہ یہ اسی کے طلوع کا فیضان ہے ۔ جاہلیت میں اہل عرب کا بھی یہ عقیدہ تھا کہ یہ ستارہ لوگوں کی قسمتوں پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ اسی بنا پر یہ عرب کے معبودوں میں شامل تھا ، اور خاص طور پر قریش کا ہمسایہ قبیلہ خُزَاعَہ اس کی پرستش کے لیے مشہور تھا ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشا کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری قسمتیں شعریٰ نہیں بناتا بلکہ اس کا رب بناتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

23: شعریٰ ایک ستارے کا نام ہے، جاہلیت میں عرب لوگ اس کی عبادت کرتے تھے، کیونکہ سمجھتے تھے کہ وہ ہمیں کچھ دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ وہ ستارہ تو ایک مخلوق ہے، اور اللہ تعالیٰ ہی اس کے پروردگار ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(53:49) (10) وانہ اہلک عاد ن الاولی۔ اور یہ کہ بیشک اس نے عاد اول کو ہلاک کیا۔ عاد اولی سے مراد قدیم قوم عاد ہے جس کی طرف حضرت ھود (علیہ السلام) بھیجے گئے تھے۔ یہ قوم جب حضرت ھود کی تکذیب اور نافرمانی کی پاداش میں عذاب میں مبتلا کی گئی تھی تو صرف وہ لوگ بچے تھے جو ان پر ایمان لائے تھے ان کی نسل کو تاریخ میں عاد ثانیہ یا عاد اخری کہتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ” شعریٰ “ برج جوزا کے پیچھے ایک چمکدار ستارہ کا نام ہے۔ زمانہ جاہلیت میں قبیلہ خزاء کے لوگ اس کی پرستش کرتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہاری قسمتیں یہ ستارہ نہیں بلکہ وہ خدا بناتا ہے جو اس کا رب ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وانہ ........ الشعری (٣٥ : ٩٤) ” اور وہی شعری کا بھی رب ہے “ شعری وہ ستارہ ہے جو سورج سے بیس گناہ بڑا ہے اور ورہ سورج سے بھی دور کئی ملین دور ہے۔ عربوں میں بعض لوگ اس ستارے کو پوجتے تھے۔ بعض لوگ اسے ایک ذی شان ستارے کے طور پر دیکھتے تھے۔ لہٰذا یہاں یہ تاکید کرنا کہ اللہ شعری کا بھی رب ہے اس کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہے خصوصاً ایسی سورت میں جس میں ستارے کی قسم اٹھائی گئی ہے اور جس میں عالم بالا کے سفر کا ذکر ہو اور جس میں عقیدہ توحید اور شرک موضوع ہو۔ یہاں آکر انفس اور آفاق کا یہ طویل مطالعاتی سفر ختم ہوتا ہے اور اس کے بعد اب انسانی تاریخ کی وادی میں ہم داخل ہوتے ہیں۔ انسانی تاریخ اور اس کے عبرت آموز آثار کو تو قرآن بہت اہمیت دیتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

26:۔ ” وانہ ھو رب الشعری “ الشعری ایک روشن ستارہ ہے جس کی بعض قبائل عرب پرستش کرتے تھے۔ یعنی شعری ستارے کا خالق ومالک بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اس لیے اس عاجز مخلوق کے بجائے اس کے خالق کی عبادت کرنی چاہیے اور لات و منات کی طرح شعری بھی عبادت اور پکار کا مستحق نہیں۔ ھو کو کب یطلع بعد الجوزاء فی شدۃ الحر وکانت خزاعۃ تعبدھا (مدارک ج 4 ص 151) ۔ وتخصیصھا فی الذکر ھھنا للاشعار بانھا مخلوقۃ للہ تعالیٰ لا یستحق العبادۃ مثل اللات والعزی ولعل قوما عبدوھا فی زمن ابراہیم (علیہ السلام) ایضا ولذلک ورد التخصیص بذکرھا فی صحف ابراہیم وموسی (مظہری ج 9 ص 132) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(49) اور یہ کہ وہی پروردگار ہے شعری نامی ستارے کا مالک اور پروردگار ہے۔ عرب میں شعریٰ ستارے کی پوجا ہوتی تھی زمانہ جاہلیت میں اس کی پرستش خوب ہوا کرتی تھی اس کو فرمایا کہ اس کا مالک اور پروردگار اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں شعریٰ ایک تارا ہے بہت بڑا اس کو بعضے عرب پوجتے تھے۔