Surat un Najam

Surah: 53

Verse: 52

سورة النجم

وَ قَوۡمَ نُوۡحٍ مِّنۡ قَبۡلُ ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا ہُمۡ اَظۡلَمَ وَ اَطۡغٰی ﴿ؕ۵۲﴾

And the people of Noah before. Indeed, it was they who were [even] more unjust and oppressing.

اور اس سے پہلے قوم نوح کو ، یقیناً وہ بڑے ظالم اور سرکش تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقَوْمَ نُوحٍ مِّن قَبْلُ ... And the people of Nuh aforetime. before `Ad and Thamud, ... إِنَّهُمْ كَانُوا هُمْ أَظْلَمَ وَأَطْغَى Verily, they were more unjust and more rebellious and transgressing. more unjust in disobeying Allah than those who came after them, وَالْمُوْتَفِكَةَ أَهْوَى

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٥] عاد اولیٰ جن کی طرف سیدنا ہود مبعوث ہوئے اور عاد ثانیہ یا قوم ثمود جن کی طرف سیدنا صالح (علیہ السلام) مبعوث ہوئے۔ اور قوم فرعون یہ سب لوگ آخرت کے منکر، اکڑ باز اپنے رسولوں کو ایذائیں اور دکھ پہنچانے والے اللہ کے باغی اور شرارتیں کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو تباہ کر ڈالا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ وقوم نوح من قبل : یہاں عاد وثمود کا ذکر قوم نوح سے پہلے اس لیے فرمایا کہ یہ لوگ عرب کے رہنے والے تھے اور قریش انہیں اچھی طرح جانتے تھے۔ ٢۔ انھم گانو ھم اظلم واطغی : ضمیر ” ھم “ حصر کا فائدہ دے رہی ہے۔ ظلم اور سرکشی میں قوم نوح ہی کو سب سے بڑھ کر اس لیے قرار دیا کہ اور کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس کے پیغمبر نے انہیں ساڑھے نو سو سال نصیحت کی ہو اور اس کے باوجود وہ سرکشی پر اڑی رہی ہو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ۝ ٠ ۭ اِنَّہُمْ كَانُوْا ہُمْ اَظْلَمَ وَاَطْغٰى۝ ٥٢ ۭ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] نوح نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس . ( ن و ح ) نوح ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں طغی طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٢{ وَقَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُط } ” اور قوم نوح (علیہ السلام) کو بھی (ہلاک کیا) ان سے پہلے۔ “ { اِنَّہُمْ کَانُوْا ہُمْ اَظْلَمَ وَاَطْغٰی ۔ } ” یقینا وہ تو ان سے بڑھ کر ظالم اور ان سے بڑھ کر سرکش تھے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(53:52) (13) وقوم نوح من قبل۔ اس آیت کا عطف آیت مذکورہ بالا وانہ اہلک عاد ان لاولی۔ پر ہے ای وانہ من قبل اہلک قوم نوح : اور یہ کہ بیشک اس نے اس سے قبل قوم نوح کو ہلاک کیا۔ اس آیت میں قوم نوح کی ہلاکت کی کیفیت نہیں دی گئی۔ لیکن اور جگہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے وقوم نوح لما کذبوا لارسل اغرقناہم (25:37) اور ہم نے قوم نوح (علیہ السلام) کو (بھی ہلاک کیا) جب انہوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔ من قبل : ای من قبل ذلک اس سے پیشتر، قوم عاد وثمود کی ہلاکت سے قبل۔ کانوا ہم : کانوا میں ضمیر افعل التفضیل کے صیغے ہیں۔ بمعنی زیادہ ظالم، زیادہ سرکش، زیادہ حد سے بڑھ جانے والے۔ زیادہ نافرمان۔ یعنی وہ (قوم نوح) عاد اور ثمود سے بھی زیادہ ظالم اور نافرمان تھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(52) اور عادثمود سے پہلے نوح (علیہ السلام) کی قوم کو بھی ہلاک کیا اس میں شک نہیں کہ وہ بڑے ہی ظالم اور بہت زیادہ سرکش تھے۔