Surat ul Qamar

Surah: 54

Verse: 2

سورة القمر

وَ اِنۡ یَّرَوۡا اٰیَۃً یُّعۡرِضُوۡا وَ یَقُوۡلُوۡا سِحۡرٌ مُّسۡتَمِرٌّ ﴿۲﴾

And if they see a miracle, they turn away and say, "Passing magic."

یہ اگر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ یہ پہلے سے چلا آتا ہوا جادو ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Hour has drawn near, and the moon has been cleft asunder. And if they see a sign, they turn away and say: "This is magic, Mustamir." This occurred before the Hijrah; the moon was split and they saw it in two parts." The Narration of `Abdullah bin `Umar Al-Hafiz Abu Bakr Al-Bayhaqi recorded that Abdullah bin Umar commented on Allah's statement: اقْتَرَب... َتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ The Hour has drawn near, and the moon has been cleft asunder. "This occurred during the time of Allah's Messenger; the moon was split in two parts. A part of it was before the mount and a part on the other side. The Prophet said, اللْهُمَّ اشْهَد O Allah! Be witness." This is the narration that Muslim and At-Tirmidhi collected. At-Tirmidhi said, "Hasan Sahih." The Narration of `Abdullah bin Mas`ud Imam Ahmad recorded that Ibn Mas`ud said, "The moon was split in two parts during the time of Allah's Messenger, and they saw its two parts. Allah's Messenger said, اشْهَدُوا (Be witnesses." Al-Bukhari and Muslim collected this Hadith. Ibn Jarir recorded that Abdullah (Ibn Mas`ud) said, "I saw the mountain between the two parts of the moon when it was split." Imam Ahmad recorded that Abdullah said, "The moon was split during the time of Allah's Messenger and I saw the mount between its two parts." The Stubbornness of the idolators Allah said, وَإِن يَرَوْا ايَةً ... And if they see an Ayah, if they see proof, evidence and a sign, ... يُعْرِضُوا ... they turn away, they do not believe in it. Rather, they turn away from it, abandoning it behind their backs, ... وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ and say: "This is magic, Mustamir." They say, `the sign that we saw was magic, which was cast on us.' Mustamir, means, `will soon go away', according to Mujahid, Qatadah and several others. The Quraysh said that the cleaving of the moon was false and will soon diminish and fade away,   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 یعنی قریش نے، ایمان لانے کی بجائے، اسے جادو قرار دے کر اپنے اعراض کی روش جاری رکھی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢] یعنی پہلے انبیاء بھی ایسے جادو کے کرشمے دکھاتے رہے ان کا جادو بھی چل بسا اور وہ خود بھی چل بسے۔ اسی طرح یہ نبی اور اس کے کرشمے بھی عنقریب ختم ہوجائیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَ اِنْ یَّرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا ۔۔۔” مر “ اور ” استمر “ گزرنا ۔ ” مستمر “ گزر جانے والا ۔ یعنی کفار کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو ایمان لانے کے بجائے منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک جادو ہے ، جس طرح اور جادوگر گزر گئے ہیں یہ بھی گزر جانے والا ہے ، یہ چاند بھی ہمیشہ پھٹا ہوا نہیں رہے گا ، چن... اچہ انہوں نے چاند پھٹنے کے عظیم الشان واقعہ کو بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جادو قرا ر دے کر ایمان لانے سے اعراض اختیار کیا۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَإِن يَرَ‌وْا آيَةً يُعْرِ‌ضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ‌ مُّسْتَمِرٌّ‌ (And when these people see a sign, they turn away and say, |"[ This is ] a transient magic.... 54:2). The word mustamirr, in the popular sense of the word, as used in Persian and Urdu, means something lasting or enduring. However, in the Arabic language it is sometimes used in the sense of passing away or coming to an end, being d... erived from marra and istamarra. Leading authorities on Tafsir, like Mujahid and Qatadah رحمۃ اللہ علیہما have applied this sense of the word in the present context. Thus the verse means that the Quraish alleged that the sign of moon-splitting they saw was an illusion and false; its effect will soon diminish and fade away. Another meaning of the word mustamirr is strong and firm. Abul-` Aliyah and Dahhak رحمۃ اللہ علیہما interpret the word in this sense, meaning that this is a very potent sorcery.  Show more

وَاِنْ يَّرَوْا اٰيَةً يُّعْرِضُوْا وَيَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ، مستمر کے مشہور معنی جو فارسی اردو میں بھی معروف ہیں، وہ دیر تک اور دائم رہنے کے ہیں، مگر عربی زبان میں یہ لفظ مَرَّ اور استَمَرَّ کبھی گزر جانے اور ختم ہوجانے کے معنی میں بھی آتا ہے، ائمہ تفسیر میں سے مجاہد اور قتادہ نے اس جگہ ی... ہی معنی بیان کئے ہیں، اس پر مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ یہ جادو کا اثر ہے جو دیر تک نہیں چلا کرتا خود ہی گزر جائے گا اور ختم ہوجائے گا اور ایک معنی مستمر کے قوی و شدید کے بھی آتے ہیں، ابوالعالیہ اور ضحاک نے اس آیت میں مستمر کی یہی تفسیر کی ہے اور مراد یہ ہوگی کہ یہ بڑا قوی جادو ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ يَّرَوْا اٰيَۃً يُّعْرِضُوْا وَيَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ۝ ٢ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَ... رَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ اعرض وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ع ر ض ) العرض اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء/ 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ سحر والسِّحْرُ يقال علی معان : الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی: سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] والثاني : استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی: هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ، والثالث : ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15] ، ( س ح ر) السحر اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔ اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174) ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔ مستمر اسم فاعل واحد مذکر۔ استمرار ( استفعال) مصدر سے۔ اس کے متعدد معانی لئے جاسکتے ہیں :۔ (1) یہ مرۃ سے ماخوذ ہے جس کا معنی قوت ہے۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ ان کا جادو بڑا زور والا ہے۔ زمین پر ہی نہیں آسمانی چیزوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ (2) یہ بمعنی ذاھب ہے جب کوئی خبر آئے اور گزر جائے تو اہل عرب کہتے ہیں مر الشی واستمر چیز آئی اور کئی۔ یعنی بےبنیاد۔ بےحقیقت اور آنی جانی۔ (3) یہ استمرار سے ہے بمعنی مستقل، پیہم۔ (4) بعض کے نزدیک مستمر کا لفظ مرارت ( تلخی) سے مشتق ہے۔ یعنی تلخ جادو۔ بدمزہ جادو۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

مگر یہ لوگ جب انشقاق قمر وغیرہ کا کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو اس کو جھٹلانے لگتے ہیں اور کہتے ہیں یہ ایک قسم کا جادو ہے جو ابھی ختم ہوجاتا ہے۔ شان نزول : وَاِنْ يَّرَوْا اٰيَةً يُّعْرِضُوْا (الخ) اور امام ترمذی نے حضرت انس سے روایت کیا ہے کہ مکہ والوں نے رسول اکرم سے معجزہ دکھانے کی درخواست کی تو دو ... مرتبہ مکہ مکرمہ میں چاند شق ہوا اسی کے بارے میں سحر مستمر تک یہ آیت نازل ہوئی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢ { وَاِنْ یَّرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا وَیَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ} ” اور اگر وہ دیکھیں گے کوئی نشانی تب بھی وہ اعراض ہی کریں گے اور کہیں گے یہ تو جادو ہے جو پہلے سے چلا آ رہا ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

2 The words sihr-um mustamirr of the Text can have several meanings: (1) That, God forbid, this magical illusion also is one of those magical performances that Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) has been performing day and night; (2) that this certainly is a work of magic which has been performed with great expertise; and (3) that just as other works of magic have passed, so will ... this also pass without leaving any lasting effect behind.  Show more

سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :2 اصل الفاظ ہیں سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ ۔ اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ معاذاللہ ، شب و روز کی جادوگری کا جو سلسلہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے چلا رکھا ہے ، یہ جادو بھی اسی میں سے ہے ۔ دوسرے یہ کہ یہ پکا جادو ہے ، بڑی مہارت سے دکھا یا گیا ہے ۔ تیسرے یہ کہ...  جس طرح اور جادو گزر گئے ہیں ، یہ بھی گزر جائے گا ، اس کا کوئی دیر پا اثر رہنے والا نہیں ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اسی قسم کے جادو مدت سے چلے آ رہے ہیں، اور یہ بھی کہ یہ ایسا جادو ہے جس کا اثر جلدی ہی ختم ہوجائے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(54:2) وان یروا ایۃ یعرضوا۔ واؤ حالیہ ہے اس کے بعد لکن جالہم مقدر ہے ! کلام یوں ہوگی ! ولکن حالہم ان یروا ایۃ یعرضوا۔ لیکن ان کا حال یہ ہے کہ اگر وہ کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ قیامت کی گھڑی آلگی اور چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا۔ (قریب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے) اور ا... نہوں نے ایسا ہوتے دیکھ بھی لیا۔ لیکن ان پر کوئی اثر نہ ہوا ان کی حالت تو یہ ہے کہ اگر وہ کوئی نشانی دیکھتے بھی ہیں تو (اپنی ہٹ دھرمی کے باعث جو کہ ان کی سرشت میں ہے) منہ موڑ لیتے ہیں۔ ان شرطیہ ہے یروا مضارع مجزوم (بوجہ جواب شرط) جمع مذکر غائب) یعرضوا مضارع مجزوم جمع مذکر غائب (بوجہ جواب شرط) اعراض (افعال) مصدر۔ ویقولوا سحر مستمر : اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے یقولوا مضارع جمع مذکر غائب : سحر مستمر۔ اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ یقولوا کا مقولہ ہے ھذا (مبتدا محذوف) کی خبر ہے۔ مستمر اسم فاعل واحد مذکر۔ استمرار (استفعال) مصدر سے۔ اس کے متعدد معانی لئے جاسکتے ہیں :۔ (1) یہ مرۃ سے ماخوذ ہے جس کا معنی قوت ہے۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ ان کا جادو بڑا زور والا ہے۔ زمین پر ہی نہیں آسمانی چیزوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ (2) یہ بمعنی ذاھب ہے جب کوئی خبر آئے اور گزر جائے تو اہل عرب کہتے ہیں مر الشی واستمر چیز آئی اور کئی۔ یعنی بےبنیاد۔ بےحقیقت اور آنی جانی۔ (3) یہ استمرار سے ہے بمعنی مستقل، پیہم۔ (4) بعض کے نزدیک مستمر کا لفظ مرارت (تلخی) سے مشتق ہے۔ یعنی تلخ جادو۔ بدمزہ جادو۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 احادیث میں مذکور ہے کہ یہ بات کفار مکہ نے شق قمر کا معجزہ دیکھ کر کہی تھی۔ اس سے صاف معلوم ہوا کہ یہ معجزہ آنحضرت کے زمانہ میں ہوچکا ہے اور قرب قیامت میں چاند کے پھٹنے کی تاویل سیاق وسباق کے بھی خلاف ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وان یروا ............ تغن النذر (54:2) ” مگر ان کا حال یہ ہے کہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں ، منہ موڑ جاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو چلتا ہوا جادو ہے۔ انہوں نے جھٹلادیا اور اپنی خواہشات نفس کی پیروی کی۔ ہر معاملے کو آخر کار ایک انجام پر پہنچ کر رہنا ہے۔ ان لوگوں کے سامنے وہ حالات آچکے ہیں جن میں سرکشی سے ... باز رکھنے کے لئے کافی سامان عبرت ہے اور ایسی حکمت جو نصیحت کے مقصد کو بدرجہ اتم پورا کرتی ہے مگر تنبیہات ان پر کارگر نہیں ہوتیں “ شق قمر کو بھی دیکھ کر انہوں نے اعراض کرلیا اور انہوں نے شق قمر کے بارے میں بھی وہی بات کہی جو قرآن کی آیات کے سارے میں کہتے تھے کہ یہ نہایت ہی موثر جادو ہے۔ ایک نشانی تو وہ کہتے ہیں جادو ہے اور مسلسل نشانیوں کو کہتے ہیں کہ یہ مسلسل جادو ہے جس کا سلسلہ ختم ہی نہیں ہوتا۔ یہ لوگ نشانات الٰہیہ پر غور کرنے سے منہ موڑ رہے ہیں۔ وہ نشانیوں کی دلالت اور شہادت سے بھی منہ موڑتے ہیں۔ یہ انکار وہ محض خواہش نفس سے مجبور ہوکر کرتے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ ان کے پاس کوئی حجت ہے یا اسلام کے حق میں حجت نہیں کہ انہوں نے اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات پر غور کرلیا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿وَ اِنْ يَّرَوْا اٰيَةً يُّعْرِضُوْا وَ يَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ٠٠٢﴾ منکرین کا یہ طریقہ ہے کہ جب کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو اعراض کرتے ہیں۔ حق کو قبول نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ یہ تو ایک جادو ہے۔ جس کا اثر دیرپا نہیں ہے عنقریب ہی ختم ہوجائے گا۔ ﴿ وَ كَذَّبُوْا وَ اتَّبَعُوْۤا اَهْوَآءَهُمْ ﴾ (... اور انہوں نے جھٹلایا اور اپنی خواہشوں کا اتباع کیا) اتنا بڑا معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے اور ان کے نفسوں میں جو باطل نے جگہ پکڑ رکھی تھی اسی کو امام بنایا اور اسی کے پیچھے چلتے رہے اور انکار نبوت پر اصرار کرتے رہے۔ ﴿ وَ كُلُّ اَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ٠٠٣﴾ (اور ہر بات قرار پانے والی ہے) یعنی حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا متعین ہوجاتا ہے، اگر عناد یا کم فہمی کی وجہ سے اب نہیں سمجھے تو کچھ عرصہ بعد سمجھ میں آہی جائے گا کہ یہ سحر نہیں ہے۔ ﴿ وَ كُلُّ اَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ٠٠٣﴾ کی یہ ایک تفسیر ہے اور صاحب معالم التنزیل نے حضرت قتادہ سے اس کی تفسیریوں نقل کی ہے کہ خیراہل خیر کے ساتھ اور شر اہل شر کے ساتھ ٹھہر جاتا ہے، خیر اہل خیر کو لے کر جنت میں اور شراہل شر کو لے کر دوزخ میں ٹھہر جائے گا۔ اہل مکہ جو توحید اور رسالت کے منکر تھے ان کی مزید بدحالی بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ﴿ وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ مِّنَ الْاَنْۢبَآءِ﴾ (الایۃ) یعنی ان کے پاس پرانی امتوں کی ہلاکت اور بربادی کی خبریں آچکی ہیں جو قرآن کریم نے بیان کی ہیں ان خبروں میں عبرت ہے موعظت اور نصیحت ہے، یہ چیزیں غافل کو جھڑکنے والی اور چوکنا رکھنے والی ہیں جو سراپا حکمت کی باتیں ہیں اور زجرو توبیخ میں کامل ہیں لیکن یہ لوگ متاثر نہیں ہوتے، کفر و شرک سے باز نہیں آتے جو سنتے ہیں سب ان سنی کردیتے ہیں ڈرانے والی چیزیں انہیں کچھ نفع نہیں دیتی ہیں۔ كما قال تعالیٰ فی سورة یونس ﴿ وَ مَا تُغْنِي الْاٰيٰتُ وَ النُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُوْنَ ٠٠١٠١﴾ اور آیت اور ڈرانے والی چیزیں ان لوگوں کو فائدہ نہیں دیتی ہیں جو ایمان لانے والے نہیں ہیں) ۔ معجزہ شق القمر کا واقعہ صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث میں صحیح اسانید کے ساتھ ماثور اور مروی ہے، دشمنان اسلام کو محض دشمنی کی وجہ سے اسلامی روایات کے جھٹلانے اور تردید کرنے کی عادت رہی ہے، انہوں نے معجزہ شق القمر کے واقع ہونے پر بھی اعتراض کردیا ان لوگوں کا کہنا ہے کہ چاند پورے عالم پر طلوع ہونے والی چیز ہے اگر ایسا ہوا ہوتا تو دنیا کی تاریخوں میں اس کا تذکرہ ہونا ضروری تھا۔ یہ ان لوگوں کی جہالت کی بات ہے۔ اول تو اس زمانہ میں کتابیں لکھنے والے ہی کہاں تھے۔ تصنیف اور تالیف کا دور نہیں تھا پھر اگر کسی نے کوئی چیز لکھی ہو تو قرنوں گزر جانے تک اس کا محفوظ رہنا ضروری نہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ وہ پریس اور کمپیوٹر بلکہ کاغذ کی کثرت کا زمانہ بھی نہ تھا۔ اس سے بڑھ کر دوسری بات یہ ہے کہ چاند ہر وقت پورے عالم پر طلوع نہیں ہوتا کہیں دن رہتا ہے کہیں رات ہوتی ہے، چاند شق ہونے کے وقت جہاں کہیں دن تھا وہاں تو اس کے نظر آنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ دیکھو عرب میں رات ہوتی ہے تو امریکہ میں دن ہوتا ہے اور امریکہ کا ظہور توشق القمر کے صدیوں کے بعد ہوا اسی طرح رات کے اوقات مختلف ہوتے ہیں کہیں اول رات ہوتی ہے کہیں درمیانی رات ہوتی ہے اور کہیں آخری شب ہوتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ چاند مکہ معظمہ کے قریب منیٰ میں شق ہوا تھا یعنی وہاں کے لوگ دیکھ سکتے تھے لیکن بہت سے لوگ اپنے کاموں میں تھے بہت سے سو رہے تھے، بہت سے گھروں میں تھے، بہت سے دکانوں میں بیٹھے ہوئے تھے اور پہلے سے کوئی اطلاع نہیں دی گئی تھی کہ دیکھو آج رات چاند پھٹے گا، ان حالات میں لوگوں کو باہر آنے او چاند پر نظر جمانے کی کوئی حاجت اور ضرورت نہ تھی، چاند پھٹا تھوڑی دیر میں دونوں ٹکڑے ایک جگہ ہوگئے جن لوگوں کو اس کا پھٹا ہوا دکھانا مقصود تھا ان لوگوں نے دیکھ لیا، اگر سارا عالم دیکھ لیتا یا کم از کم سارا عرب ہی دیکھ لیتا اور پھر تاریخ لکھنے والوں تک خبر پہنچ جاتی جس پر وہ یقین کرلیتے اور ان کی کتاب محفوظ رہ جاتی تو تاریخوں میں اس کا کوئی تذکرہ مل جاتا جنہوں نے پھٹا ہوا دیکھا تھا انہیں تو اس کا یقین نہیں آیا کہ چاند پھٹا ہے اس کو انہوں نے جادو بتایا اور مسافروں کے کہنے سے کسی نے مانا بھی تو اسے پی گیا، اگر تسلیم کرلیتے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان لانا پڑتا یہ انہیں گوارا نہ تھا، پھر کیوں وہ کتابیں لکھتے اور کیوں شہرت دیتے ؟ یہ ایک صاحب بصیرت کے سمجھنے کی بات ہے اگر کسی بھی تاریخ میں اس کا تذکرہ نہ ہو تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں پھر بھی معجزہ شق القمر کا تذکرہ تاریخ فرشتہ میں موجود ہے صاحب فیض الباری صفحہ ٦٠: ج ٤ میں فرماتے ہیں : (وقد شاھد ملک بھوپال من الھنداسمہ بھوج پال ذکرہ الفرشتة فی تاریخہ ) دیكھئے سورج تو چاند سے بہت بڑا ہے لیکن ہر وقت پورے عالم میں وہ طلوع نہیں ہوتا کہیں رات ہوتی ہے کہیں دن ہوتا ہے اس کے گرہن ہونے کی خبریں بھی چھپتی رہتی ہیں کہ فلاں تاریخ کو فلاں وقت فلاں ملک میں گرہن ہوگا بیک وقت پورے عالم میں گرہن نہیں ہوتا اور جہاں کہیں گرہن ہوتا ہے وہاں بھی ہزاروں آدمیوں کو خبر نہیں ہوتی کہ گرہن ہوا تھا پہلے سے اخبارات میں اطلاع دیدی جاتی ہے اس پر بھی سب کو علم نہیں ہوتا، اگر کسی سے پوچھو کہ تمہارے علاقہ میں کب گرہن ہوا اور کتنی بار ہوا تو پڑھے لکھے لوگ بھی نہیں بتاسکتے اور وہ کون سی تاریخ کی کتاب ہے جن میں تاریخ اور سورج گرہن ہونے کے واقعات لکھے ہوں، جب آفتاب کے گرہن کے بارے میں زمین پر بسنے والوں کا یہ حال ہے جو بار ہا ہوتا رہتا ہے تو چاند کا پھٹنا جو ایک ہی بار ہوا اور عرب میں ہوا اور عشاء کے وقت ہوا اور ذرا سی دیر کو ہوا اور اسی وقت پھٹ کر دونوں ٹکڑے مل گئے اور یہ دنیا کی تاریخوں میں نہیں آیا تو یہ کونسی ایسی بات ہے جو سمجھ سے بالاتر ہو۔ بعض لوگوں نے خواہ مخواہ دشمنوں سے مرعوب ہوکر معجزہ شق القمر کا انکار کیا ہے اور یوں کہتے ہیں کہ اس سے قیامت کے دن واقع ہونے والا شق القمر مراد ہے آیت کریمہ میں جو لفظ ﴿ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ ﴾ فرمایا ہے۔ یہ ماضی کا صیغہ ہے تاویل کرکے اس کو خواہ مخواہ مستقبل کے معنی میں لینا بےجا تاویل ہے اور اتباع ھویٰ ہے پھر اگر آیت قرآنیہ میں تاویل کرلی جائے تو احادیث شریفہ جو صحیح اسانید سے مروی ہیں ان میں تو تاویل کی کوئی گنجائش ہے ہی نہیں۔ جس ذات پاک جلّت قدرتہ کی مشیت اور ارادہ سے نفخ صورسبب شق القمر ہوسکتا ہے۔ اسی کی قدرت اور اذن سے قیامت سے پہلے بھی شق ہوسکتا ہے۔ اس میں کیا بعد ہے جو خواہ مخواہ تاویل کی جائے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ ” وان یروا۔ الایۃ “ مستمر، مضبوط اور پختہ یا چلتا ہوا۔ مستمر، قوی شدید یعلو کل سحر (مظہری ج 9 ص 135) ۔ ای مار ذاھب یزول ولایبقی (مدارک ج 4 ص 152) ۔ مشرکین کا عناد و تعنت اور ضد و حسد اس حد کو پہنچ چکا تھا کہ ایسا حیرت انگیز معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے اور اسے بہت مضبوط اور لاجواب جادو قرار د... یا۔ ان کی تو عادت ہی یہی تھی کہ جب کوئی معجزہ دیکھتے اسے چلتا ہوا جادو قرار دیتے اور کہتے کہ یہ کوئی پائیدار چیز نہیں ابھی اس کا اثر زائل ہونے والا ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(2) اور اگر یہ کفار کوئی معجزہ اور نشانی دیکھتے ہیں تو یوں کہتے ہیں کہ یہ ایک چلتا ہوا جادو ہے۔ مستھر کے کئی معنی کئے گئے ہیں قوی، دائم ، مستحکم، زائل ہوجانے والا باقی نہ رہنے والا۔