Surat ul Qamar

Surah: 54

Verse: 28

سورة القمر

وَ نَبِّئۡہُمۡ اَنَّ الۡمَآءَ قِسۡمَۃٌۢ بَیۡنَہُمۡ ۚ کُلُّ شِرۡبٍ مُّحۡتَضَرٌ ﴿۲۸﴾

And inform them that the water is shared between them, each [day of] drink attended [by turn].

ہاں انہیں خبردار کر دے کہ پانی ان میں تقسیم شدہ ہے ۔ ہر ایک اپنی باری پر حاضر ہوگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَنَبِّيْهُمْ أَنَّ الْمَاء قِسْمَةٌ بَيْنَهُمْ ... And inform them that the water is to be shared between them, one day for her to drink and one day for them to drink, قَالَ هَـذِهِ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُومٍ He said: "Here is a she-camel: it has a right to drink, and you have a right to drink (water) on a day, known." (26:155) Allah's statement, ... كُلُّ شِرْبٍ مُّحْتَضَرٌ each one's right to drink being established. Mujahid said, "When she did not drink, they would drink the water, and when she drank, they would drink her milk." Allah the Exalted said; فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطَى فَعَقَرَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 یعنی ایک دن اونٹنی کے پانی پینے کے لئے اور ایک دن قوم کے پانی پینے کے لئے۔ 28۔ 2 مطلب ہے ہر ایک کا حصہ اس کے ساتھ ہی خاص ہے جو اپنی اپنی باری پر حاضر ہو کر وصول کرے دوسرا اس روز نہ آئے شُرَب حصہ آب۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢] ناقۃ اللہ کی صفات اور قوم کی آزمائش :۔ یہ دیو ہیکل اونٹنی قوم ثمود کے مطالبہ پر انہیں بطور معجزہ دی گئی تھی۔ اسی لیے اسے ناقۃ اللہ یا اللہ کی اونٹنی کے نام سے موسوم کیا گیا۔ یہ جہاں بھی جاتی تھی دوسرے جانور ڈر کے مارے بھاگ جاتے تھے۔ لہذا اس اونٹنی کا احترام اس قوم کے لیے ایک آزمائش بن گیا تھا۔ با لآخر وحی الٰہی کے مطابق یہ طے ہوا کہ ایک دن بستی کے کنوئیں سے یہ اونٹنی پانی پئے گی اور دوسرے دن قوم کے دوسرے جانور، ساتھ ہی قوم کو آگاہ کردیا گیا اگر تم اس فیصلہ میں رد و بدل کرو گے یا اس اونٹنی کو کوئی دکھ پہنچاؤ گے تو پھر تمہاری خیر نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَ نَـبِّـئْھُمْ اَنَّ الْمَآئَ قِسْمَۃٌم بَیْنَہُمْ ۔۔۔۔ اس کی وضاحت کے لیے دیکھئے سورة ٔ شعرائ (١٥٥) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَنَبِّئْہُمْ اَنَّ الْمَاۗءَ قِسْمَۃٌۢ بَيْنَہُمْ۝ ٠ ۚ كُلُّ شِرْبٍ مُّحْتَضَرٌ۝ ٢٨ نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے قسم تقسیم کرنا الْقَسْمُ : إفراز النّصيب، يقال : قَسَمْتُ كذا قَسْماً وقِسْمَةً ، وقِسْمَةُ المیراث، وقِسْمَةُ الغنیمة : تفریقهما علی أربابهما، قال : لِكُلِّ بابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ [ الحجر/ 44] ، وَنَبِّئْهُمْ أَنَّ الْماءَ قِسْمَةٌ بَيْنَهُمْ [ القمر/ 28] ( ق س م ) القسم والقسمہ ( ض ) کے معنی کسی چیز کے حصے کرنے اور بانٹ دینے کے ہیں مثلا قسمۃ المیراث تر کہ کو دا وارثوں کے در میان تقسیم کرنا قسمۃ الغنیمۃ مال غنیمت تقسیم کرنا قسمہ الغنیمۃ مال غنیمت تقسیم کرنا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لِكُلِّ بابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ [ الحجر/ 44] ہر ایک دروازے کے لئے ان میں سے جماعتیں تقسیم کردی گئیں ہیں ۔ وَنَبِّئْهُمْ أَنَّ الْماءَ قِسْمَةٌ بَيْنَهُمْ [ القمر/ 28] جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔ شرب الشُّرْبُ : تناول کلّ مائع، ماء کان أو غيره . قال تعالیٰ في صفة أهل الجنّة : وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] ، وقال في صفة أهل النّار : لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس/ 4] ، وجمع الشَّرَابُ أَشْرِبَةٌ ، يقال : شَرِبْتُهُ شَرْباً وشُرْباً. قال عزّ وجلّ : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي - إلى قوله۔ فَشَرِبُوا مِنْهُ«4» ، وقال : فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة/ 55] ، والشِّرْبُ : النّصيب منه «5» قال تعالی: هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء/ 155] ، وقال : كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] . والْمَشْرَبُ المصدر، واسم زمان الشّرب، ومکانه . قال تعالی: قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة/ 60] . والشَّرِيبُ : الْمُشَارِبُ والشَّرَابُ ، وسمّي الشّعر الذي علی الشّفة العلیا، والعرق الذي في باطن الحلق شاربا، وجمعه : شَوَارِبُ ، لتصوّرهما بصورة الشّاربین، قال الهذليّ في صفة عير : صخب الشّوارب لا يزال كأنه«1» وقوله تعالی: وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ [ البقرة/ 93] ، قيل : هو من قولهم : أَشْرَبْتُ البعیر أي : شددت حبلا في عنقه، قال الشاعر : فأشربتها الأقران حتی وقصتها ... بقرح وقد ألقین کلّ جنین «2» فكأنّما شدّ في قلوبهم العجل لشغفهم، وقال بعضهم «3» : معناه : أُشْرِبَ في قلوبهم حبّ العجل، وذلک أنّ من عادتهم إذا أرادوا العبارة عن مخامرة حبّ ، أو بغض، استعاروا له اسم الشّراب، إذ هو أبلغ إنجاع في البدن «4» ، ولذلک قال الشاعر : تغلغل حيث لم يبلغ شَرَابٌ ... ولا حزن ولم يبلغ سرور «5» ولو قيل : حبّ العجل لم يكن له المبالغة، [ فإنّ في ذکر العجل تنبيها أنّ لفرط شغفهم به صارت صورة العجل في قلوبهم لا تنمحي ] «6» وفي مثل : أَشْرَبْتَنِي ما لم أشرب «7» ، أي : ادّعيت عليّ ما لم أفعل . ( ش ر ب ) الشراب کے معنی پانی یا کسی اور مائع چیز کو نوش کرنے کے ہیں ۔ قرآن نے ہی جنت کے متعلق فرمایا : ۔ وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] اور ان کا پروردگار انہیں نہایت پاکیزہ شراب پلائیگا ۔ اور اہل دوزخ کے متعلق فرمایا : ۔ لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس/ 4] ان کے لئے پینے کو کھولتا ہوا پانی ۔ شراب کی جمع اشربۃ ہے اور شربتہ شربا وشربا کے معنی پینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي۔ إلى قوله۔ فَشَرِبُوا مِنْهُ«4» جو شخص اس میں سے پانی پے لے گا وہ مجھ سے نہیں ہے ۔ چناچہ انہوں نے اس سے پی لیا ۔ نیز فرمایا : ۔ فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة/ 55] اور پیو گے بھی تو ایسے جیسے پیاسے اونٹ پیتے ہیں ۔ الشراب پانی کا حصہ پینے کی باری ۔ قرآن میں ہے هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء/ 155] یہ اونٹنی ہے ( ایک دن ) اس کی پانی پینے کی باری ہے اور ایک معین تمہاری باری كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہیئے ۔ المشرب مصدر ) پانی پینا ( ظرف زمان یا مکان ) پانی پینے کی جگہ یا زمانہ قرآن میں ہے : ۔ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة/ 60] . تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کرکے پانی پی لیا ۔ الشراب تم پیالہ یا شراب کو کہتے ہیں اور مونچھ کے بالوں اور حلق کی اندرونی رگ کو شارب کہا جاتا ہے گویا ان کو پینے والا تصور کیا گیا ہے اس کی جمع شوارب آتی ہے ۔ ھزلی نے گورخر کے متعلق کہا ہے ( الکامل ) ( 257 ) صخب الشوارب لا یزال کانہ اس کی مونچھیں سخت گویا وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ [ البقرة/ 93] اور ان ( کے کفر کے سبب ) بچھڑا ( گویا ) ان کے دلوں میں رچ گیا تھا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ اشربت البعیر کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی اونٹ کے گلے میں رسی باندھنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( 258 ) واشرب تھا الاقران حتیٰ وقص تھا بقرح وقد القین کل جنین میں نے انہیں باہم باندھ لیا حتیٰ کہ قرح ( منڈی ) میں لا ڈالا اس حال میں کہ انہوں نے حمل گرا دیئے تھے ۔ تو آیت کے معنی یہ ہیں کہ گویا بچھڑا ان کے دلوں پر باندھ دیا گیا ہے ۔ اور بعض نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں پلادی گئی ہے کیونکہ عربی محاورہ میں جب کسی کی محبت یا بغض دل کے اندر سرایت کر جائے تو اس کے لئے لفظ شراب کو بطور استعارہ بیان کرتے ہیں کیونکہ یہ بدن میں نہایت تیزی سے سرایت کرتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الوافر ) ( 259 ) تغلغل حیث لم یبلغ شرابہ ولا حزن ولم یبلغ سرور اس کی محبت وہاں تک پہنچ گئی جہاں کہ نہ شراب اور نہ ہی حزن و سرور پہنچ سکتا ہے ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں اس قدر زیادہ نہیں تھی تو ہم کہیں گے کیوں نہیں ؟ عجل کا لفظ بول کر ان کی فرط محبت پر تنبیہ کی ہے کہ بچھڑے کی صورت ان کے دلوں میں اس طرح نقش ہوگئی تھی کہ محو نہیں ہوسکتی تھی مثل مشہور ہے ۔ اشربتنی ما لم اشرب یعنی تونے مجھ پر جھوٹا الزام لگایا ۔ حضر الحَضَر : خلاف البدو، والحَضَارة والحِضَارَة : السکون بالحضر، کالبداوة والبداوة، ثمّ جعل ذلک اسما لشهادة مکان أو إنسان أو غيره، فقال تعالی: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] ، نحو : حَتَّى إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ الأنعام/ 61] ، وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء/ 8] ، وقال تعالی: وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] ، عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير/ 14] ، وقال : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون/ 98] ، وذلک من باب الکناية، أي : أن يحضرني الجن، وكني عن المجنون بالمحتضر وعمّن حضره الموت بذلک، وذلک لما نبّه عليه قوله عزّ وجل : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] ، وقوله تعالی: يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آياتِ رَبِّكَ [ الأنعام/ 158] ، وقال تعالی: ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران/ 30] ، أي : مشاهدا معاینا في حکم الحاضر عنده، وقوله عزّ وجلّ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف/ 163] ، أي : قربه، وقوله : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة/ 282] ، أي : نقدا، وقوله تعالی: وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس/ 32] ، وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ/ 38] ، شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ، أي : يحضره أصحابه، والحُضْر : خصّ بما يحضر به الفرس إذا طلب جريه، يقال : أَحْضَرَ الفرس، واستحضرته : طلبت ما عنده من الحضر، وحاضرته مُحَاضَرَة وحِضَارا : إذا حاججته، من الحضور، كأنه يحضر کلّ واحد حجّته، أو من الحضر کقولک : جاریته، والحضیرة : جماعة من الناس يحضر بهم الغزو، وعبّر به عن حضور الماء، والمَحْضَر يكون مصدر حضرت، وموضع الحضور . ( ح ض ر ) الحضر یہ البدو کی ضد ہے اور الحضارۃ حاد کو فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ آتا ہے جیسا کہ بداوۃ وبداوۃ اس کے اصل شہر میں اقامت کے ہیں ۔ پھر کسی جگہ پر یا انسان وگیرہ کے پاس موجود ہونے پر حضارۃ کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے ۔ وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء/ 8] اور جب تم میراث کی تقسیم کے وقت ۔۔۔ آمو جود ہوں ۔ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] اور طبائع میں بخل ودیعت کردیا گیا ہے ۔ عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير/ 14] تب ہر شخص معلوم کرلے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے اور آیت کریمہ : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون/ 98] میں کنایہ کہ اے پروردگار میں پناہ مانگتا ہوں کہ جن و شیاطین میرے پاس آھاضر ہوں ۔ اور بطور کنایہ مجنون اور قریب المرگ شخص کو محتضر کہا جاتا ہے جیسا کہ آیت : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] اور آیت کریمہ : یوم یاتی بعض ایات ربک میں اس معنی پر متنبہ کیا گیا ہے اور آیت کریمہ ۔ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران/ 30] کے معنی یہ ہیں کہ انسان جو نیکی بھی کرے گا ۔ قیامت کے دن اس کا اس طرح مشاہدہ اور معاینہ کرلے گا جیسا کہ کوئی شخص سامنے آموجود ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف/ 163] اور ان سے اس گاؤں کا حال پوچھ جواب دریا پر واقع تھا ۔ میں حاضرۃ البحر کے معنی دریا کے قریب یعنی ساحل کے ہیں اور آیت کریمہ : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة/ 282] میں حاضرۃ کے معنی نقد کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس/ 32] اور سب کے سب ہمارے روبرو حاضر کئے جائیں گے ۔ وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ/ 38] وی عذاب میں ڈالے جائیں گے ۔ اور آیت کریمہ : شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ، ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہئے میں بانی کی باری کے محتضر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ باڑی والے اس گھاٹ پر موجود ہوں ۔ الحضر ۔ خاص کر گھوڑے کی تیز دوڑے کو کہتے ہیں کہا جاتا ہے : احضر الفرس گھوڑا دوڑا استحضرتُ الفرس میں نے گھوڑے کو سرپٹ دوڑایا ۔ حاضرتہ محاضرۃ وحضارا باہم جھگڑنا ۔ مباحثہ کرنا ۔ یہ یا تو حضور سے ہے گویا ہر فریق اپنی دلیل حاضر کرتا ہے اور یا حضر سے ہے جس کے معنی تیز دوڑ کے ہوتے ہیں جیسا کہ ۔۔۔۔۔۔ جاریتہ کہا جاتا ہے ۔ الحضیرۃ ُ لوگوں کی جماعت جو جنگ میں حاضر کی جائے اور کبھی اس سے پانی پر حاضر ہونے والے لوگ بھی مراہ لئے جاتے ہیں ۔ المحضرُ ( اسم مکان ) حاضر ہونے کی جگہ اور حضرت ُ ( فعل ) کا مصدر بھی بن سکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

پانی کی تقسیم اور باری مقرر کرنا قول باری ہے (ونبئھم ان الماء قسمۃ بینھم اور انہیں خبر دے دینا کہ پانی ان کے درمیان بانٹ دیا گیا ہے) تاآخر آیت۔ یہ قول باری پانی پر باری مقرر کرنے کے جواز پر دلالت کرتا ہے کیونکہ قوم ثمود نے ایک دن اونٹنی کے لئے پانی کی باری مقرر کی تھی اور ایک دن اپنے لئے۔ یہ اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ باری مقرر کرنا جسے مہا یاۃ کہا جاتا ہے دراصل ایک چیز سے حاصل ہونے والے منافع کو بانٹ دینا ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے تقسیم کا نام دیا ہے اور یہ چیز صرف پانی کی باریوں کی تقسیم تھی اصل پانی کی تقسیم نہیں تھی۔ امام محمد بن الحسن نے اس سے پانی کی باریوں کو اس طرح تقسیم کردینے کے جواز پر استدلال کیا ہے۔ ان کے اس قول سے اس امر پر دلالت ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک انبیائے سابقین کی شرائع اس وقت تک باقی رہتی ہیں جب تک ان کا نسخ ثابت نہیں ہوجاتا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٨۔ ٢٩) اور ان کو یہ بتا دینا کہ کنوئیں کا پانی ان کے اور اونٹنی کے درمیان تقسیم کردیا گیا ہے کہ ایک دن تمہارے مویشی کا ہے اور ایک دن اونٹنی کا ہر کوئی اپنی باری پر حاضر ہوا کرے، چناچہ صالح نے ان کو اس چیز کی اطلاع کردی اور وہ اس پر راضی ہوگئے۔ کچھ عرصہ تک اس پر کار بند رہے پھر ان پر بدبختی کا غلبہ ہوا اور انہوں نے اس کے قتل کا ارادہ کیا اور مصدق بن دہر نے اونٹنی کے تیر مار دیا مصدع نے قدار بن سالف کو پکارا سو قدار نے اونٹنی کے دوہرا تیر مارا اور اس کو قتل کردیا اور اس کا گوشت آپس میں تقسیم کرلیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ { وَنَــبِّئْہُمْ اَنَّ الْمَآئَ قِسْمَۃٌم بَیْنَہُمْ ج کُلُّ شِرْبٍ مُّحْتَضَرٌ ۔ } ” اور انہیں بتا دیجیے کہ اب پانی ان کے مابین تقسیم ہوگا ‘ ہر پینے کی باری پر حاضری ہوگی۔ “ اللہ تعالیٰ نے ان کے مطالبے پر ایک چٹان سے حاملہ اونٹنی پیدا کردی اور اس کا نام ناقۃُ اللّٰہ (اللہ کی اونٹنی) ] الاعراف : ٧٣ اور ہود : ٦٤ [ رکھا۔ وہ اونٹنی جب چشمے پر پانی پینے کے لیے آتی تو اس کی ہیبت سے ان کے تمام مویشی بدک کر بھاگ جاتے تھے۔ بالآخر باہمی مشورے سے طے ہوا کہ ایک دن اونٹنی پانی پئے گی اور دوسرے دن ان کے مال مویشی پانی پینے کے لیے آئیں گے۔ چناچہ جب وہ دوسرے دن چشمے پر آتی تو چشمے کا سارا پانی پی جاتی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

19 This explains the verse: "We are sending the she-camel as a trial for them." The trial was that suddenly a she-camel was produced before them and they were told that one day she would drink the water aII by herself and the next. day they would be allowed to have water for themselves and their cattle. On the day of her turn neither would any of them himself come to any of the springs and wells to take water nor bring his cattle for watering. This challenge was given on behalf of the person about whom they themselves admitted that he had no army and no hosts to support him.

سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :19 یہ تشریح ہے اس ارشاد کی کہ ہم اونٹنی کو ان کے لیے فتنہ بنا کر بھیج رہے ہیں ۔ وہ فتنہ یہ تھا کہ یکایک ایک اونٹنی لا کر ان کے سامنے کھڑی کر دی گئی اور ان سے کہہ دیا گیا کہ ایک دن یہ اکیلی پانی پیے گی اور دوسرے دن تم سب لوگ اپنے لیے اور اپنے جانوروں کے لیے پانی لے سکو گے ۔ اس کی باری کے دن تم میں سے کوئی شخص کسی چشمے اور کنوئیں پر نہ خود پانی لینے کے لیے آئے ، نہ اپنے جانوروں کو پلانے کے لیے لائے ۔ یہ چیلنج اس شخص کی طرف سے دیا گیا تھا جس کے متعلق وہ خود کہتے تھے کہ یہ کوئی لاؤ لشکر نہیں رکھتا ، نہ کوئی بڑا جتھا اس کی پشت پر ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: یہ اونٹنی انہی کے مطالبے پر پیدا کی گئی تھی اور ان سے کہا گیا تھا کہ بستی کے کنویں سے ایک دن وہ پانی پیے گی، اور ایک دن بستی والے، تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ اعراف : 73 اور اس کے حواشی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی ایک دن یہ سارا پانی یہ اونٹنی پئے گی اور ایک دن وہ اور ان کے تمام جانور

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿وَ نَبِّئْهُمْ اَنَّ الْمَآءَ قِسْمَةٌۢ بَيْنَهُمْ ١ۚ كُلُّ شِرْبٍ مُّحْتَضَرٌ٠٠٢٨ ﴾ (اور انہیں بتا دیجئے کہ بیشک پانی ان کے درمیان بانٹ دیا گیا ہے ہر ایک اپنی باری پر حاضر ہوا کرے) ۔ یہ لوگ اس اونٹنی سے تنگ آگئے اس کا اپنے نمبر پر پانی پیناناگوار ہوا لہٰذا آپس میں مشورہ کیا کہ اس کو قتل کردیا جائے ان میں سے ایک آدمی قتل کرنے کے لیے تیار ہوگیا۔ لوگوں نے اسے پکارا اس نے ہاتھ میں تلوار لی اور اونٹنی کو مار ڈالا پہلے سے ان کو بتادیا گیا تھا کہ اس کو برائی کے ساتھ ہاتھ لگاؤ تو تمہیں دردناک عذاب پکڑ لے گا، جب اسے قتل کردیا تو حضرت صالح (علیہ السلام) نے انہیں بتادیا۔ ﴿تَمَتَّعُوْا فِيْ دَارِكُمْ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ﴾ (اپنے گھروں میں تم تین دن بسر کرلو (اس کے بعد عذاب آجائے گا) ﴿ذٰلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ مَكْذُوْبٍ ٠٠٦٥﴾ (یہ وعدہ سچا ہے جھوٹا نہیں) پورا ہو کر رہے گا۔ چناچہ تین دن بعد عذاب آیا اور تمام کافر ہلاک کردیئے گئے اور مومنین عذاب سے محفوظ رہے۔ ارشاد فرمایا ﴿اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ صَيْحَةً وَّاحِدَةً فَكَانُوْا كَهَشِيْمِ الْمُحْتَظِرِ ٠٠٣١﴾ (بلاشبہ ہم نے ان پر ایک چیخ بھیج دی سو وہ سب اس طرح ہلاک ہو کر رہ گئے جیسے کھیتی کی حفاظت کے لیے باڑ لگانے والے کی باڑ کا چورا چورا ہوجاتا ہے) یعنی ان کی جانیں تو گئیں جسم بھی باقی نہ رہے، چورا چورا ہو کر رہ گئے۔ یہ بات تقریباً وہی ہے جیسے اصحاب فیل کے بارے میں ﴿ فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍ (رح) ٠٠٥﴾ فرمایا ہے۔ انہیں ایسا بنا دیا جیسے کھایا ہوا بھوسہ ہو) ۔ سورة ہود اور سورة قمر میں فرمایا ہے کہ ان کے ہلاک کرنے کے لیے ایک چیخ بھیجی گئی اور سورة الاعراف میں فرمایا ﴿ فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ ﴾ کہ انہیں زلزلہ نے پکڑ لیا، چونکہ دونوں ہی طرح کا عذاب آیا تھا اس لیے کہیں چیخ کا تذکرہ فرمایا اور کہیں زلزلہ کا، عذاب کا تذکرہ فرمانے کے بعد یہاں بھی ﴿ فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِيْ وَ نُذُرِ ٠٠١٦﴾ فرمایا (سوکیسا تھا میرا عذاب اور میرا ڈرانا) اور آخر میں آیت کریمہ ﴿ وَ لَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ للذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ ٠٠٣٢﴾ کا اعادہ فرما دیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(28) اور ان کو آگاہ کردے کہ پانی کو ان میں تقسیم کردیا گیا ہے ہر باری والے کو اپنی باری پر حاضر ہونا ہے یعنی حضرت صالح (علیہ السلام) جو ان کی پیغمبر تھے ان کو ہم نے حکم بھیجا کہ ہم ان کی آزمائش اور ان کے امتحان کے لئے ایک اونٹنی بھیجنے والے ہیں جیسا کہ سورة اعراف میں مفصل گزر چکا ہے۔ صالح (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ تو ان کو دیکھتا رہ کہ یہ کیا کرتے ہیں اور ان کی ایذارسانی پر صبر کئے جا اور ان کو خبردار کردے کہ پانی قوم کے اور اونٹنی کے درمیان تقسیم کردیا گیا ہے یعنی نوبت بہ نوبت پانی استعمال کرنا ہوگا ایک دن قوم کے مویشی پئیں گے اور ایک دن اونٹنی پئے گی یا تو اس وجہ سے کہ پانی کم ہے یا اس وجہ سے کہ مویشی اس اونٹنی کو دیکھ کر ڈرتے ہیں، بہرحال ہر نوبت والے کو اپنی اپنی باری پر حاضر ہونا ہے۔