Surat ul Qamar

Surah: 54

Verse: 3

سورة القمر

وَ کَذَّبُوۡا وَ اتَّبَعُوۡۤا اَہۡوَآءَہُمۡ وَ کُلُّ اَمۡرٍ مُّسۡتَقِرٌّ ﴿۳﴾

And they denied and followed their inclinations. But for every matter is a [time of] settlement.

انہوں نے جھٹلایا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی اور ہر کام ٹھہرے ہوئے وقت پر مقرر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَكَذَّبُوا وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءهُمْ ... They denied and followed their own lusts., they rejected the truth when it came to them, following the ignorance and foolishness that their lusts and desires called them to. Allah's statement, ... وَكُلُّ أَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ And every matter will be settled. means, the good deeds will take their doers to all that is good and r... ighteous, and similarly evil deeds will take their doers to all that is evil, according to Qatadah, while Ibn Jurayj said, "will settle according to its people." Mujahid commented on the meaning of, وَكُلُّ أَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ (And every matter will be settled). by saying, "On the Day of Resurrection." Allah's statement,   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 یہ کفار مکہ کی تکذیب اور اتباع کی تردید کے لئے فرمایا کہ ہر کام کی ایک انتہا ہوتی ہے، وہ کام اچھا ہو یا برا۔ یعنی بالآخر اس کا نتیجہ نکلے گا، اچھے کام کا نتیجہ اچھا اور برے کام کا نتیجہ برا۔ اس نتیجے کا ظہور دنیا میں بھی ہوسکتا ہے اگر اللہ کی مشیت مقتضی ہو، ورنہ آخرت میں تو یقینی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣] یعنی نبیوں اور ان کے معجزات سے انکار کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ نبی کی لائی ہوئی شریعت کی پابندیوں سے آزاد رہنا چاہتے ہیں۔ [٤] یعنی ہر عمل کا کوئی نہ کوئی انجام یا نتیجہ ضرور نکلتا ہے اور اس وقت تمہارے اور اللہ کے رسول کے درمیان جو کشمکش جاری ہے۔ اس کا بھی نتیجہ نکل کے رہے گا اور ایسا وقت لازم... اً آنے والا ہے جب تم پر واضح ہوجائے گا کہ یہ نبی حق پر تھا اور جس بات پر تم اڑے ہوئے تھے وہ غلط تھی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَکَذَّبُوْا وَاتَّبَعُوْٓا اَھْوَآئَ ھُمْ :” اھوائ “” ھویٰ “ کی جمع ہے، خواہشات ۔ یعنی کفار کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ کے معجزات کو جھٹلانے کا باعث کوئی معقول بات نہ تھی ، بلکہ صرف اپنی خواہشا ت کی پیروی تھی ۔ لفظ ” ھوی “ ( خواہش) اسم جنس ہے جو واحد پر صادق آتا ہے اور جمع پر ب... ھی ، مگر یہاں ” اھوا “ (جمع) اس لیے ذکر فرمایا ہے کہ کفار کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلانے کا باعث ان کی ایک خواہش نہ تھی بلکہ بہت سی خواہشیں تھیں جو انہیں آپ کے تابع فرمان ہونے سے روکتی تھیں ، مثلاً سرداری کی خواہش ، حسد ، آباء کی پیروی کی خواہش ، اپنے داتاؤں پر جمے رہنے کی خواہش ، شتر بےمہار رہنے اور کسی کے تابع فرمان نہ ہونے کی خواہش وغیرہ۔ ٢۔ وَکُلُّ اَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ :” قریقر “ (ض) قرار پکڑنا ۔ ” استقر “ میں مبالغہ ہے ، یعنی جس طرح ہر چلنے والا آخر کار کہیں نہ کہیں جا کر ٹھہر جاتا ہے اور ہر کام کا ، خواہ وہ اچھا ہو یا برا ، کوئی نہ کوئی انجام ہوتا ہے ، اسی طرح یہ مت سمجھو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں حق کی طرف بلاتے رہیں گے اور تم انہیں جھٹلاتے رہو گے اور آپ کا حق پر ہونا اور تمہارا باطل پر ہونا کبھی ثابت نہیں ہوگا ، بلکہ ایک وقت آئے گا جب ہر چیز کی حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی اور ثابت ہوجائے گا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے رسول تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلانا اور جادوگر قرار دینا غلط تھا ۔ مزید دیکھئے سورة ٔ انعام کی آیت (٦٧) (لکل نبا مستقر و سوف تعلمون) کی تفسیر۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَكُلُّ أَمْرٍ‌ مُّسْتَقِرٌّ‌ (...while every matter has to be settled....54:3). The literal meaning of the word istiqrar is to settle. The verse means that everything must ultimately reach its end and the matter must become clear. If a veil is fabricated and cast over the truth or reality, eventually [ in its designated time ] the false veil will be removed and the truth and falsehood will be cl... early distinguished.  Show more

اہل مکہ جب اس مشاہدہ کی تکذیب نہ کرسکے تو اس کو جادو یا سخت جادو کہہ کر اپنے دلوں کو تسلی دینے لگے، وَكُلُّ اَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ، استقر کے لغوی معنی قرار پکڑنے کے ہیں، مفہوم آیت کا یہ ہے کہ ہر کام اور ہر چیز اپنی غایت پر پہنچ کر آخر کار صاف ہوجاتی ہے، کسی جعل سازی سے جو پردہ حقیقت پر ڈالا جاتا ہے وہ...  انجام کار کھل کر رہتا ہے اور حق کا حق اور باطل کا باطل ہونا واضح ہوجاتا ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَكَذَّبُوْا وَاتَّبَعُوْٓا اَہْوَاۗءَہُمْ وَكُلُّ اَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ۝ ٣ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذ... ِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔ هوى الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى. ( ھ و ی ) الھوی ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ الھوی ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة/ 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام/ 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری/ 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ الھوی ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے اسْتَقَرَّ فلان : إذا تحرّى الْقَرَارَ ، وقد يستعمل في معنی قرّ ، کاستجاب وأجاب . قال في الجنّة : خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا [ الفرقان/ 24] ، وفي النار : ساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وقوله : فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ [ الأنعام/ 98] ، قال ابن مسعود : مُسْتَقَرٌّ في الأرض ومستودع في القبور «5» . وقال ابن عبّاس : مستقرّ في الأرض ومستودع في الأصلاب . وقال الحسن : مستقرّ في الآخرة ومستودع في الدّنيا . وجملة الأمر أنّ كلّ حال ينقل عنها الإنسان فلیس بالمستقرّ التّامّ. استقر فلان قرار پکڑنے کا فصد کرنا اور کبھی یہ بمعنی قرر ( قرار پکڑنا ) بھی آجاتا ہے جیسے استجاب بمعنی اجاب چناچہ جنت کے متعلق فرمایا : خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا [ الفرقان/ 24] ٹھکانا بھی بہترہوگا اور مقام استراحت بھی عمدہ ہوگا اور جن ہم کے متعلق فرمایا : ساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] اور درزخ ٹھہرنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ [ الأنعام/ 98] تمہاری لئے ایک ٹھہرنے کی جگہ ہے اور ایک سپر د ہونے کی ۔ میں ابن مسعود کے نزدیک مستقر سے مراد زمین میں ٹھہرنا ہے اور مستودع سے مراد قبر میں ہیں ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ مستقر سے مراد تو زمین ہی ہے لیکن مستودع سے مراد دنیا ہے ۔ الحاصل ہر وہ حالت جس سے انسان منتقل ہوجائے وہ مستقر تام نہیں ہوسکتا ہے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور خود ان لوگوں نے معجزوں اور قیامت کے قائم ہونے کو جھٹلایا اور معجزوں اور قیامت کی تکذیب اور بتوں کی پوجا میں اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کی اور ہر ایک بات جو کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ہو حقیقت ہے اور وہ واقع ہوجاتی ہے۔ خواہ جنت و رحمت یا دوزخ و عذاب کے بیان میں ہو جو ان باتوں میں سے دنیا ... میں ہونے والی ہیں ظاہر ہوجاتی ہیں اور جو اخروی ہیں وہ واضح ہوجاتی ہیں۔ یا یہ کہ بندوں سے جو بھی کوئی قول و فعل صادر ہوتا ہے اس کی ایک حقیقت ہے اور وہ حقیقت ان کے دل میں ہوتی ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣ { وَکَذَّبُوْا وَاتَّبَعُوْٓا اَہْوَآئَ ہُمْ } ” اور انہوں نے تکذیب کی اور اپنی خواہشات کی پیروی کی “ { وَکُلُّ اَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ ۔ } ” اور (اللہ کا) ہر امر ایک وقت ِمعین کے لیے قرار پا چکا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ کی منصوبہ بندی میں ہر کام کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ کوئی کام اللہ کے طے شدہ وقت سے ... نہ تو پہلے انجام پاسکتا ہے اور نہ ہی اس سے موخر ہوسکتا ہے۔ انسان کا کام ہے کہ وہ کوشش کرتا رہے اور نتائج اللہ پر چھوڑ دے۔ جیسے یہ طے شدہ امر ہے کہ اللہ کے دین کا غلبہ دنیا میں ہو کر رہے گا ‘ مگر اللہ کی مشیت میں اس کے لیے کون سا وقت مقرر ہے ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ۔ چناچہ ہمیں چاہیے کہ ہم اقامت دین کی جدوجہد کو فرضِ عین اور اپنی اخروی نجات کا ذریعہ سمجھتے ہوئے اس میں اپنا تن من دھن لگانے کے لیے ہر وقت کمربستہ رہیں۔ سیرت ِنبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس جدوجہد کے منہج کو سمجھیں ‘ اس کے آداب سیکھیں ‘ اس کی شرائط معلوم کریں اور پورے خلوص نیت کے ساتھ اس کے لیے محنت کریں۔ اس محنت اور جدوجہد کے دوران ہمیں نتائج کی فکر نہیں کرنی چاہیے۔ ہمیں تو یہ محنت اللہ کی رضا کے لیے کرنی ہے۔ اگر ہماری اس محنت کے نتائج ہماری زندگیوں میں ظاہر نہیں ہوتے تو کوئی پروا نہیں ‘ ہم دین کو غالب کرنے کے مکلف نہیں ‘ ہم تو صرف اس کے لیے جدوجہد کرنے کے مکلف ہیں۔ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا اللہ کے ذمے ہے۔ اگر ہم نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق خلوص نیت سے اس راستے میں محنت کی تو اللہ تعالیٰ کے ہاں ہم ضرور سرخرو ہوں گے۔ اس فلسفے کو اچھی طرح سے نہ سمجھنے کی وجہ سے اقامت دین کی جدوجہد میں لوگ غلطیاں کرتے ہیں۔ جب ان کی جدوجہد کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آتے تو وہ عجلت اور بےصبری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے الٹے سیدھے طریقے اپناتے ہیں۔ ایسی ہی غلطیوں سے تحریکیں غلط راستوں پر چل پڑتی ہیں اور اس وجہ سے دین الٹا بدنام ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ایک بہت اہم نکتہ یہ بھی لائق توجہ ہے کہ اقامت ِ دین کی جدوجہد کے دوران غور و فکر کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اب نہ تو کوئی شخصیت معصوم عن الخطا ہے اور نہ ہی کسی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہ راست راہنمائی مل سکتی ہے۔ ظاہر ہے اب یہ کام اجتہاد اور غور و فکر سے ہی چلنا ہے اور اجتہاد میں غلطی کا ہر وقت امکان رہتا ہے۔ چناچہ انفرادی و اجتماعی سطح پر انسانوں سے غلطیاں سرزد ہونے کے امکان کے پیش نظر فیصلوں پر نظر ثانی کی گنجائش بھی رکھنی چاہیے اور اس کے لیے ذہنی طور پر ہر وقت تیار بھی رہنا چاہیے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

3 That is, "They still persisted in the same decision that they had made of denying the Hereafter and have not changed their mind even after having witnessed this manifest Sign, mainly because it clashed with their desires of the flesh. " 4 That is, "It cannot be so endlessly that Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) should go on inviting you to the Truth while you persist in your ... falsehood stubbornly and his Truth and your falsehood should never be established. AII affairs ultimately have to reach an appointed end. Likewise, inevitably this conflict between you and Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) has also to reach an end. A time will certainly come when it will be clearly established that he had been in the right and you in the wrong throughout. Likewise, the worshippers of the T ruth shall one day see the result of their worshipping the Truth and the worshippers of falsehood of their worshipping the falsehood."  Show more

سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :3 یعنی جو فیصلہ انہوں نے قیامت کو نہ ماننے کا کر رکھا ہے ، اس نشانی کو دیکھ کر بھی یہ اسی پر جمے رہے ۔ قیامت کو مان لینا چونکہ ان کی خواہشات نفس کے خلاف تھا اس لیے صریح مشاہدے کے بعد بھی یہ اسے تسلیم کرنے پر راضی نہ ہوئے ۔ سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :4 مطلب یہ ہے کہ...  یہ سلسلہ بلا نہایت نہیں چل سکتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حق کی طرف بلاتے رہیں ، اور تم ہٹ دھرمی کے ساتھ اپنے باطل پر جمے رہو ، اور ان کا حق پر ہونا اور تمہارا باطل پر ہونا کبھی ثابت نہ ہو ۔ تمام معاملات آخر کار ایک انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں ، اسی طرح تمہاری اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس کشمکش کا بھی لا محالہ ایک انجام ہے جس پر یہ پہنچ کر رہے گی ۔ ایک وقت لازماً ایسا آنا ہے جب علی الاعلان یہ ثابت ہو جائے گا کہ وہ حق پر تھے اور تم سراسر باطل کی پیروی کر رہے تھے ۔ اسی طرح حق پرست اپنی حق پرستی کا ، اور باطل پرست اپنی باطل پرستی کا نتیجہ بھی ایک دن ضرور دیکھ کر رہیں گے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر کام کا ایک انجام ہوتا ہے لہذا جو کچھ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے ہیں، اور جو کچھ یہ کافر کر رہے ہیں، اس کا انجام عنقریب معلوم ہوجائے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(54:3) کذبوا واتبعوا اھواء ہم : ان لوگوں نے جھٹلایا اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کی۔ کذبوا : اتبعوا۔ بالفاظ ماضی ذکر کرنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ یہ کافروں کی پرانی عادت ہے (کہ وحی کو چھوڑ کر اتباع شہوات کرتے ہیں) ۔ کذبوا : ای کذبوا النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ یعنی انہوں نے مع... جزہ دیکھ کر بھی نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تکذیب کی۔ واتبعوا اھواء ھمجملہ معطوف اھواء ہممضاف مضاف الیہ مل کر مفعول اتبعوا کا۔ احوی جمع ھوی کی خواہشات، خیالات کل امر مضاف مضاف الیہ مل کر مبتدائ۔ مستقر : اسم فاعل واحد مذکر، استقرار (استفعال) مصدر۔ قرار پکڑنے والا۔ ٹھیرنے والا۔ کل امر کی خبر، ہر معاملہ قرار پکڑنے والا۔ یعنی یہ سلسلہ متناہی نہیں آخر کار ایک انجام پر پہنچ کر ٹھہر جائے گا۔ قرار پکڑے گا۔ انسان کے اعمال بد اس کو آخر کار جہنم میں لے جائیں گے اور اعمال حسنہ اپنے کرنے والوں کو بہشت میں لے جائیں گے۔ ای وکل من الخیرا والشر مستقر باہلہ فی الجنۃ او فی النار۔ (ایسر التفاسیر) تفہیم القرآن میں یوں لکھا ہے :۔ یہ سلسلہ بےنہایت نہیں چل سکتا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں حق کی طرف بلاتے رہیں اور تم ہٹ دھرمی کے ساتھ اپنے باطل پر جمے رہو اور ان کا حق پر ہونا اور تمہارا باطل پر ہونا کبھی ثابت نہ ہو۔ تمام معاملات آخر کار ایک انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں ۔ اسی طرح تمہاری حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کشمکش کا بھی لامحالہ ایک انجام ہے جس پر یہ پہنچ کر رہے گی ایک وقت لازماً ایسا آنا ہے کہ جب علی الاعلان یہ ثابت ہوجائے گا کہ وہ حق پر تھے اور تم سراسر باطل کی پیروی کر رہے تھے۔ اسی طرح حق پرست اپنی حق پرستی کا اور باطل پرست اپنی باطل پرستی کا نتیجہ بھی ایک دن ضرور دیکھ لیں گے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ ایک وقت آئے گا جب ہر چیز کی حقیقت کھل کر سامنے آجائیگی چناچہ ان کافروں کو بھی پتہ چل جائے گا کہ آنحضرت اللہ کے سچے رسول تھے اور ان کی تکذیب غلط تھی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی ان کا اعراض بوجہ کسی دلیل صحیح سے تمسک کرنے کے نہیں ہے بلکہ عنادا تکذیب حق ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وکل امر مستقر (54: ٣) ” ہر معاملہ کو آخر کار ایک انجام پر پہنچ کر رہنا ہے “ اس عظیم کائنات میں ہر چیز اپنے مقام پر رکھی ہوتی ہے اور وہ اپنی جگہ پر پختہ ہے۔ نہ ہلتی ہے اور نہ اس کے اندر اضطراب ہے۔ اس کائنات کا ہر معاملہ ثبات وقرار پر مبنی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بدلتی ہوئی خواہشات کے مطابق اصول بھی بدلتے...  ہیں اور بادشاہوں کی ھنازک مزاجیوں کی طرح اصول اور قوانین بھی بدل جاتے ہیں۔ یوں بھی نہیں ہے کہ یہاں معاملات بخت واتفاق کے مطابق طے ہوتے ہیں۔ ہر چیز اپنی جگہ اور اپنے زمان اور وقت پر رونما ہوتی ہے۔ انسان کو دیکھنا چاہئے کہ اس کے ماحول میں زمان ومکان میں ، واقعات وحادثات میں ایک ترتیب ہے اور یہ ترتیب اور اصول ہر چیز میں نظر آتا ہے۔ آسمانوں کی گردش میں ، زندگی کے طریقوں میں ، حیوانات اور نباتات کے بڑھنے میں ، تمام اشیاء اور مواد میں بلکہ خود ان کے جسم کے وظائف وفرائض میں ان کے اعضا کی کارکردگی میں ایک ترتیب ہے اور ان کو ان چیزوں پر کوئی کنٹرول حاصل نہیں ہے۔ یہ قیامت وقرار ان کو گھیرے ہوئے ہے اور ان کے گرد تمام اشیاء کو بھی اپنے لپیٹ میں لئے ہوئے ہے اور ان کے آگے اور پیچھے ہر طرف نظر آتا ہے ، صرف یہ انسان ہیں کہ یہ مضطرب ہیں اور اپنی خواہشات کے مطابق کبھی ادھر جاتے ہیں اور کبھی ادھر۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖف 4:۔ ” وکذبوا۔ الایۃ “ ان سرکشوں نے ایسے عظیم معجزے کو بھی جھٹلا دیا اور اپنی خواہشات کے پیچھے ہی دوڑے، لیکن ان کی تکذیب سے اللہ کے فیصلے پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ اللہ تعالیٰ فیصلہ فرما چکا ہے کہ دین حق کو غالب اور اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشن کو کامیاب فرمائے اور دشمنان اسلام کو ذلیل...  و رسوا کرے اسی لیے اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ اپنے منتہا کو پہنچ کر رہے گا۔ ای وکل امر من الامور منتہ الی غایۃ لیستقر علیہا لا محالۃ ومن جمل تھا امر النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فسیصیر الی غایۃ یتبین عدنھا حقیقۃ وعلو شانہ (روح ج 27 ص 78) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) اور انہوں نے تکذیب کی اور اپنی خواہشات کی پیروی کی اور اپنی نفسانی خواہشات پر چلے اور ہر کام کی ایک حد ہے جہاں وہ ٹھہرنے والا ہے۔ یعنی دین حق اور پیغمبر اسلام کی تکذیب کرتے ہیں اور باطل اور شیطان کی پیروی کرتے ہیں اور یہ جو فرمایا وکل امر مستقر یہ ایک ایسا جملہ ہے جیسے ہم بولا کرتے ہیں کہ ہر کام...  کا ایک وقت ہوا کرتا ہے یعنی کب تک کوئی یہ کام کرتا رہے گا آخر ہر کام کی ایک حد اور اس کا ٹھہرائو ہے۔ یہاں شاید نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور تکذیب کی انتہا کی طرف اشارہ ہے کہ کب تک حق کی مخالفت کرتے رہیں گے آخر کسی دن تو اس کی انتہا ہوگی یا شاید دین حق کی مقبولیت کی طرف اشارہ ہو کہ ایک دن تو یہ دن مقبول عام وخاص ہوگا اور لوگ سمجھتے سمجھتے حق و باطل میں امتیاز کرنے لگیں گے اور ہوسکتا ہے کہ قیامت کی جانب اشارہ ہو کہ ان کا انکار کب تک چلے گا آخر تو ایک دن ان کو ماننا ہی پڑے گا کہ قیامت حق ہے اور یہ بھی ہوسکتا کہ ہر امر خیر وشر کا ایک مستقر ہے یعنی دوزخ میں یا جنت میں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی ان کا عذاب بھی ایک وقت آئے گا۔  Show more