Surat ul Qamar
Surah: 54
Verse: 33
سورة القمر
کَذَّبَتۡ قَوۡمُ لُوۡطٍۭ بِالنُّذُرِ ﴿۳۳﴾
The people of Lot denied the warning.
قوم لوط نے بھی ڈرانے والوں کی تکذیب ۔
کَذَّبَتۡ قَوۡمُ لُوۡطٍۭ بِالنُّذُرِ ﴿۳۳﴾
The people of Lot denied the warning.
قوم لوط نے بھی ڈرانے والوں کی تکذیب ۔
The Story of the People of the Prophet Lut Allah the Exalted states, كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ بِالنُّذُرِ The people of Lut denied the warnings. Allah the Exalted states that the people of Lut defied and denied their Messenger and committed sodomy, the awful immoral sin that no people in the history of mankind had committed before. This is why Allah destroyed them with a type of torment that He never inflicted upon any nation before them. Allah the Exalted commanded Jibril, peace be upon him, to raise their cities to the sky and then turn them upside down over them, followed by stones made of marked Sijjil. So He said here: إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ حَاصِبًا إِلاَّ الَ لُوطٍ نَّجَّيْنَاهُم بِسَحَرٍ
خلاف وضع فطری کے مرتکب لوطیوں کا واقعہ بیان ہو رہا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنے رسولوں کا انکار کیا اور ان کی مخالفت کر کے کس مکروہ کام کو کیا جسے ان سے پہلے کسی نے نہ کیا تھا یعنی اغلام بازی ، اسی لئے ان کی ہلاکت کی صورت بھی ایسی ہی انوکھی ہوئی ، اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبرائیل نے کی بستیوں کو اٹھا کر آسمان کے قریب پہنچا کر اوندھی مار دیں اور ان پر آسمان سے ان کے نام کے پتھر برسائے مگر لوط کے ماننے والوں کو سحر کے وقت یعنی رات کی آخری گھڑی میں بچا لیا انہیں حکم دیا گیا کہ تم اس بستی سے چلے جاؤ ، حضرت لوط پر ان کی قوم میں سے کوئی بھی ایمان نہ لایا تھا یہاں تک کہ خود حضرت لوط کی بیوی بھی کافرہ ہی تھی قوم میں سے ایک بھی شخص کو ایمان نصیب نہ ہوا ۔ پس عذاب الٰہی سے بھی کوئی نہ بچا آپ کی بیوی بھی قوم کے ساتھ ہی ساتھ ہلاک ہوئی صرف آپ اور آپ کی لڑکیاں اس نحوست سے بچا لئیے گئے شاکروں کو اللہ اسی برے اور آڑے وقت میں کام آتا ہے اور انہیں ان کی شکر گذاری کا پھل دیتا ہے ۔ عذاب کے آنے سے پہلے حضرت لوط انہیں آگاہ کر چکے تھے لیکن انہوں نے توجہ تک نہ کی بلکہ شک و شبہ اور جھگڑا کیا ، اور ان کے مہمانوں کے بارے میں انہیں چکمہ دینا چاہا ۔ حضرت جبرائیل ، حضرت میکائیل ، حضرت اسرافیل ، وغیرہ فرشتے انسانی صورتوں میں حضرت لوط کے گھر مہمان بن کر آئے تھے ، نہایت خوبصورت چہرے پیاری پیاری شکلیں اور عنفوان شباب کی عمر ۔ ادھر یہ رات کے وقت حضرت لوط کے گھر اترے ان کی بیوی کافرہ تھی قوم کو اطلاع دی کہ آج لوط کے ہاں مہمان آئے ہیں ان لوگوں کو اغلام کی بدعادت تو تھی ہی دوڑ بھاگ کر حضرت لوط کے مکان کو گھیر لیا حضرت لوط نے دروازے بند کر لئے انہوں نے ترکیبیں شروع کیں کہ کسی طرح مہمان ہاتھ لگیں جس وقت یہ سب کچھ ہو رہا تھا شام کا وقت تھا حضرت لوط انہیں سمجھا رہے تھے ان سے کہہ رہے تھے کہ یہ میری بیٹیاں یعنی جو تمہاری جوروئیں موجود ہیں تم اس بدفعلی کو چھوڑو اور حلال چیز سے فائدہ اٹھاؤ لیکن ان سرکشوں کا جواب تھا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہمیں عورتوں کی چاہت نہیں ہمارا جو ارادہ ہے وہ آپ سے مخفی نہیں تم ہمیں اپنے مہمان سونپ دو ۔ جب اسی بحث و مباحثہ میں بہت وقت گذر چکا اور وہ لوگ مقابلہ پر تل گئے اور حضرت لوط بیحد زچ آگئے اور بہت ہی تنگ ہوئے ، تب حضرت جبرائیل باہر نکلے اور اپنا پر ان کی آنکھوں پر پھیرا سب اندھے بن گئے آنکھیں بالکل جاتی رہیں اب تو حضرت لوط کو برا کہتے ہوئے دیواریں ٹٹولتے ہوئے صبح کا وعدہ دے کر پچھلے پاؤں واپس ہوئے ، لیکن صبح کے وقت ہی ان پر عذاب الٰہی آگیا جس میں سے نہ بھاگ سکے نہ اس سے پیچھا چھڑا سکے عذاب کے مزے اور ڈراوے کی طرف دھیان نہ دینے کا وبال انہوں نے چکھ لیا یہ قرآن تو بہت ہی آسان ہے جو چاہے نصیحت حاصل کر سکتا ہے کوئی ہے جو بھی اس سے پند و وعظ حاصل کر لے ؟
(٣٣۔ ٣٥) قوم لوط نے بھی لوط اور پیغمبروں کو جھٹلایا تو ہم نے ان پر پتھر برسائے سوائے لوط کی دونوں صاحبزادیوں زاعورا اور زنتا اور مومنین کے اور ہم نے ان کو رات کے پچھلے پہر میں اپنی جانب سے فضل کر کے بچا لیا جو توحید خداوندی کا قائل ہو اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر کرتا ہے ہم ظالموں سے نجات دے کر اس کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں۔
آیت ٣٣{ کَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطٍ م بِالنُّذُرِ ۔ } ” لوط (علیہ السلام) کی قوم نے بھی خبردار کرنے والوں کو جھٹلایا۔ “
(54:33) کذبت بالنذر۔ پیغمبروں کی تکذیب کی۔ نذر جمع نذیر کی بمعنی ڈرانے والے۔ (یعنی پیغمبر) منذر کے معنی میں۔
فہم القرآن ربط کلام : قوم ثمود کے بعد قوم لوط کا کردار اور انجام۔ حضرت لوط، حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔ جنھوں نے عراق کی سرزمین سے ہجرت کرکے سدوم شہر میں رہائش اختیار کی۔ یہ شہر علاقے کا مرکزی مقام تھا۔ جہاں کے رہنے والے پر لے درجے کے مشرک، کافر، ڈاکو، چور اور انتہائی بد کردارلوگ تھے۔ جنھوں نے دنیا میں بےحیائی کا ایسا عمل اختیار کیا جو اس سے پہلے کسی قوم نے اختیار نہیں کیا تھا۔ قوم لوط کا کردار : انھوں نے اپنی نفسانی خواہش اپنی بیویوں سے پوری کرنے کی بجائے لڑکوں سے شروع کر رکھی تھی۔ گویا کہ وہ ہم جنسی کے بدترین گناہ میں مبتلا تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے بار بار سمجھانے کے باوجود باز آنے پر تیار نہ ہوئے۔ قوم نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو ملک بدر کرنے کی دھمکی دی۔ (الشعراء : ١٦٧) اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ بھی کیا۔ (العنکبوت : ٢٩) حضرت لوط (علیہ السلام) کا وعظ و نصیحت کرنا : قوم لوط نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا جب ان سے ان کے بھائی لوط نے کہا کہ تم کیوں نہیں ڈرتے ؟ میں تمہارے لیے امانت دار رسول ہوں، اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو اور میں تم سے اس کا اجر نہیں مانگتا، میرا اجر رب العالمین کے ذمے ہے۔ کیا تم لڑکوں پر مائل ہوتے ہو۔ تمہارے پروردگار نے تمہارے لیے جو بیویاں پیدا کی ہیں انہیں چھوڑ دیتے ہو ؟ حقیقت یہ ہے کہ تم حد سے نکل جانے والے ہو۔ (الشعراء : ١٦٠ تا ١٦٦) قوم کا جواب : کہنے لگے کہ اے لوط اگر تم باز نہ آئے تو شہر بدر کردیے جاؤ گے۔ لوط (علیہ السلام) نے کہا میں تمہارے کام کا سخت مخالف ہوں۔ (الشعراء : ١٦٧ تا ١٦٨) لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم یہ بےحیائی کیوں کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کی۔ (الاعراف : ٨٠) ” ان کی قوم سے اس کے سوا کوئی جواب نہ بن پڑا کہ وہ کہنے لگے ان لوگوں کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ بڑے پاک بنتے ہیں۔ “ (الاعراف : ٨٠ تا ٨٢) ” حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم ایسی بےحیائی کا ارتکاب کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کی، تم لڑکوں سے بدکاری کرتے ہو مسافروں پر ڈاکہ ڈالتے ہو اور ہر قسم کی برائی میں ملوث ہو۔ “ (العنکبوت : ٢٩) قوم کا جواب : ” اے لوط اگر تم واقعی ہی سچے ہو تو ہم پر اللہ کا عذاب لے آؤ۔ “ (العنکبوت : ٢٩) حضرت لوط (علیہ السلام) کی ” اللہ “ کے حضور فریاد : ” اے میرے رب اس مفسد قوم کے مقابلے میں میری مدد فرما۔ “ (العنکبوت : ٣٠) قوم لوط کے ہاں عذاب کے فرشتوں کی آمد : قرآن مجید تفصیل سے ذکر کرتا ہے کہ قوم لوط پر عذاب نازل کرنے والے فرشتے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئے۔ انھوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بیٹے اور پوتے کی خوشخبری دی۔ جس پر ان کی بیوی نے تعجب کا اظہار کیا۔ لیکن ملائکہ نے ان کو تسلی دی کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر یہ رحمت فرما دی ہے، اس لیے اس میں کسی قسم کا تعجب نہیں کرنا چاہیے۔ خوشخبری کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ملائکہ سے پوچھا کہ تمہارا کیا پروگرام ہے ملائکہ نے ابراہیم (علیہ السلام) سے عرض کی کہ ہم قوم لوط پر عذاب نازل کرنے والے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) ملائکہ سے اصرار کرنے لگے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) نہایت ہی حوصلہ مند اور نرم خو تھے۔ ملائکہ نے ان سے کہا کہ اب اس بات کو جانے دیں کیونکہ ” اللہ “ کا حکم آچکا ہے لہٰذا اس عذاب کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ (ہود : ٦٩ تا ٧٦) عذاب لانے والے فرشتے حضرت لوط (علیہ السلام) کی خدمت میں : جب یہ فرشتے لڑکوں کی شکل میں لوط (علیہ السلام) کے ہاں تشریف لائے تو بدمعاش قوم ان سے بےحیائی کرنے کی نیت سے ان کے ہاں دوڑتے ہوئے آئی۔ لوط (علیہ السلام) نے نہایت عاجزی کے ساتھ انھیں سمجھایا کہ اے میری قوم یہ میری بیٹیاں ہیں جو تمہارے لیے حلال ہیں۔ (یعنی تم ان کے ساتھ نکاح کرسکتے ہو) اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور مہمانوں میں مجھے بےآبرو نہ کرو۔ لیکن وہ ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تم میں کوئی بھی شریف آدمی نہیں ہے ؟ (ہود : ٧٨) ” بےحیا کہنے لگے کہ ہمیں تمہاری بیٹیوں سے کیا سروکار، تو جانتا ہے کہ ہم کس ارادہ سے آئے ہیں لوط (علیہ السلام) کہنے لگے کہ آج کا دن میرے لیے بڑا بھاری دن ہے۔ کاش تمہارے مقابلے میں میرا کوئی حمایتی ہوتا یا کوئی پناہ گاہ جہاں میں تم سے بچ نکلتا۔ “ (ہود : ٧٩، ٨٠) ملائکہ حضرت لوط (علیہ السلام) کو تسلی دیتے ہیں : عذاب کے فرشتوں نے لوط (علیہ السلام) کو تسلی دی کہ اے اللہ کے نبی دل چھوٹا نہ کریں۔ یہ بےحیا آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ بس آپ اہل ایمان کو لے کر رات کے پچھلے پہر ہجرت کر جائیں۔ ہاں یاد رہے کہ آپ اپنی بیوی کو ساتھ نہیں لے جاسکیں گے کیونکہ اسے بھی وہی عذاب ہوگا۔ جس میں دوسرے لوگ مبتلا ہوں گے۔ یہ عذاب ٹھیک صبح کے وقت نازل ہوگا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) گھبراہٹ کے عالم میں پوچھتے ہیں کہ صبح کب ہوگی ؟ ملائکہ نے مزید تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے رسول صبح تو ہونے ہی والی ہے چناچہ صبح کے وقت رب ذوالجلال کا حکم صادر ہوا تو اس دھرتی کو اٹھا کر نیچے پٹخ دیا گیا۔ پھر ان پر مسلسل نامزد پتھروں کی بارش کی گئی۔ (ھود : ٦٩ تا ٨٣) (فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَأَمْطَرْنَا عَلَیْہَا حِجَارَۃً مِنْ سِجِّیلٍ مَنْضُود مُسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ وَمَا ہِیَ مِنَ الظَّالِمِینَ بِبَعِیدٍ ) (ھود : ٨٢، ٨٣) ” پھر جب ہم نے حکم نافذ کیا تو ہم نے اس بستی کو اوپر نیچے کردیا اور تابڑ توڑ پکی مٹی کے پتھر برسائے۔ تیرے رب کی طرف سے ہر پتھر نشان زدہ تھا اور ظالموں سے یہ سزا دور نہیں ہے۔ “ بحرمردار (میت): دنیا کے موجو دہ جغرافیے میں یہ بحر مردار اردن کی سر زمین میں واقع ہے۔ پچاس میل لمبا، گیارہ میل چوڑا ہے اس کا کل رقبہ ٣٥١ مربع میل ہے۔ اسکی زیادہ سے زیادہ گہرائی تیرہ سو فٹ ہے یہ اسرائیل اور اردن کی سرحد پر واقع ہے۔ اس کا کسی بڑے سمندر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ گویا کہ یہ ایک بہت بڑی جھیل ہے۔ اس کی نمکیات اور کیمیائی اجزاء عام سمندروں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے قریب ترین سمندر بحر روم ہے۔ جدید محققین نے اسی جگہ پر لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیوں کی نشاندہی کی ہے۔ جو کسی زمانے میں یہاں صدوم عمود کے نام سے بڑے شہر آباد تھے۔ مصر کے محقق عبدالوہاب البخار نے بھرپور دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ عذاب لوط (علیہ السلام) سے پہلے اس جگہ کوئی سمندر نہیں تھا۔ جب اللہ کے عذاب کی وجہ سے اس علاقے کو الٹ دیا گیا تو یہ ایک چھوٹے سے سمندر کی شکل اختیار کر گیا۔ “ ١۔ اس کے پانی کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں نمکیات کا تناسب پچیس فیصد لگا یا گیا ہے۔ جب کہ دنیا کے تمام سمندروں میں نمکیات کا تناسب چار سے چھ فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ٢۔ اسکے کنارے نہ کوئی درخت ہے اور نہ ہی اس میں کوئی جانور زندہ رہ سکتا ہے حتی کہ سیلاب کے موقع پر دریائے اردن سے آنیوالی مچھلیاں اس میں داخل ہوتے ہی تڑپ تڑپ کر مرجاتی ہیں۔ اہل عرب اسکو بحیرہ لوط بھی کہتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن لوط (علیہ السلام) کی قوم کا بد ترین کردار اور انجام : ١۔ دنیا میں ہم جنسی کی ابتدا قوم لوط نے کی۔ (الاعراف : ٨٠) ٢۔ قوم لوط کی تباہی کا سبب اغلام بازی کرنا تھا۔ (الاعراف : ٨١) ٣۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس ان کی قوم کے لوگ دوڑتے ہوئے آئے اور وہ پہلے ہی بدکاریاں کیا کرتے تھے۔ (ھود : ٧٨) ٤۔ لوط (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کاش میرے پاس طاقت ہوتی یا میں کوئی مضبوط پناہ گاہ پاتا۔ (ھود : ٨٠) ٥۔ ہم نے اس بستی کو الٹ کر اس پر پتھروں کی بارش برسائی۔ (الحجر : ٧٤) ٦۔ ہم نے اوپر والی سطح کو نیچے کردیا اور ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسا دی جو تہہ بہ تہہ تھے نشان لگے ہوئے۔ (ھود : ٨٢)
قوم لوط کا قصہ دوسرے مقامات پر مفصل مذکور ہے۔ یہاں اس قصے کی تفصیلات دینا مطلوب نہیں ہے بلکہ یہ عبرت دلانا مقصود ہے کہ تکذیب کا نتیجہ کیا ہوا کرتا ہے۔ یہ کہ اللہ کا سخت عذاب آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آغاز ہی تنبیہات الٰہیہ کی تکذب کے ذکر سے ہوتا ہے۔ کذبت ............ بالنذر (45: ٣٣) ” قوم لوط نے تنبیہات کو جھٹلایا “ اور اس کے بعد متصلا عذاب الٰہی کا ذکر ہوتا ہے۔
سیّدنا لوط (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو تبلیغ کرنا، اور قوم کا کفر پر اصررا کرنا، معاصی پرجما رہنا اور آخر میں ہلاک ہونا ان آیات میں حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی نافرمانی اور ہلاکت کا ذکر ہے، حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ان کے وطن سے ہجرت کرکے آئے تھے دونوں نے ملک شام میں قیام فرمایا حضرت لوط (علیہ السلام) چند بستیوں کی طرف معبوث ہوئے ان میں بڑی بستی کا نام سدوم تھا ان بستیوں کے رہنے والے برے لوگ تھے۔ برے اخلاق اور برے اعمال میں مشغول رہتے تھے مرد مردوں سے شہوت پوری کرتے تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کو سمجھایا توحید کی دعوت دی برے افعال سے روکا لیکن ان لوگوں نے ایک نہ سنی اور اپنی بدمستی میں مشغول رہے، بالآخر ان پر عذاب آہی گیا۔ اللہ تعالیٰ نے عذاب کے جو فرشتے بھیجے وہ اولاً حضرت ابراہیم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور ان سے کہا ﴿ اِنَّا مُهْلِكُوْۤا اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ ﴾ (کہ ہم اس بستی کو ہلاک کرنے کے لیے آئے ہیں) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اس میں تو لوط (علیہ السلام) ہیں پوری بستی کیسے ہلاک ہوگی ؟ فرشتوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ اس میں کون کون ہے، ہم لوط کو اور اس کے گھر والوں کو بچا لیں گے ہاں ان کی بیوی ہلاک ہوجائے گی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو فرشتوں نے بیٹا پیدا ہونے کی خوشخبری سنائی پھر وہاں سے چل کر حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچے چونکہ یہ فرشتے انسانی صورت میں تھے اور خوبصورت شکل میں آئے تھے اس لیے ان کو دیکھ کر حضرت لوط (علیہ السلام) رنجیدہ ہوئے اور انہیں خیال آیا کہ یہ میرے مہمان ہیں۔ خوبصورت ہیں اندیشہ ہے کہ گاؤں والے ان کے ساتھ بری حرکت کا ارادہ نہ کرلیں۔ چناچہ ایسا ہی ہوا وہ لوگ جلدی جلدی دوڑتے ہوئے آئے اور اپنا مطلب پورا کرنا چاہا جسے ﴿ وَ لَقَدْ رَاوَدُوْهُ عَنْ ضَيْفِهٖ﴾ میں بیان فرمایا ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ یہ لوگ میرے مہمان ہیں تم مجھے رسوا نہ کرو۔ یہ میری بیٹیاں ہیں یعنی امت کی لڑکیاں جو گھروں میں موجود ہیں ان سے کام چلاؤ یعنی نکاح کرو۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے انہیں بہت سمجھایا اور یہ بھی بتایا کہ اپنی حرکتوں سے باز آجاؤ، ورنہ سخت عذاب میں مبتلا ہوجاؤ گے لیکن وہ لوگ نہ مانے، حضرت لوط (علیہ السلام) کی تکذیب کرتے رہے اور عذاب آنے میں بھی شک اور تردد کرتے رہے جب انہوں نے بات نہ مانی تو اولاً یہ عذاب آیا کہ ان کی آنکھوں کو مطموس کردیا گیا یعنی ان کے چہرے بالکل سپاٹ ہوگئے آنکھیں بالکل ہی نہ رہیں۔ اللہ پاک کی طرف سے اعلان ہوگیا ﴿فَذُوْقُوْا عَذَابِيْ وَ نُذُرِ ٠٠٣٩﴾ (سو تم میرا عذاب اور میرے ڈرانے کا نتیجہ چکھ لو) ۔ جب ہلاکت والا عذاب آنے کا وقت قریب ہوا تو فرشتوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) سے کہا کہ آپ اپنی بیوی کے علاوہ رات کے ایک حصہ میں اپنے گھر والوں کو لے کر نکل جایئے اور برابر چلتے جائیے تم میں سے کوئی شخص پیچھے مڑ کر نہ دیکھے صبح کے وقت ان لوگوں پر عذاب نازل ہوجائے گا۔ جب صبح ہوئی تو اللہ کا حکم آگیا جو فرشتے عذاب کے لیے بھیجے گئے تھے انہوں نے ان بستیوں کا تختہ اٹھاکر پلٹ دیا نیچے کی زمین اوپر اور اوپر کی زمین نیچے ہوگئی وہ سب لوگ اس میں دب کر مرگئے اور اللہ تعالیٰ نے اوپر سے پتھر بھی برسادیئے جو کنکھر کے پتھر تھے وہ لگاتار برس رہے تھے۔ ان پتھروں پر نشان بھی لگے ہوئے تھے، بعض علمائے تفسیر نے فرمایا ہے ہر پتھر جس شخص پر پڑتا تھا اس پر اس کا نام لکھا ہوا تھا اس کو سورة ہود میں مسوّمۃ یعنی نشان زدہ فرمایا ہے۔ (کماذ کرہ فی معالم التنزیل وفیہ اقوال اخر) ۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ جو لوگ اس علاقہ میں موجود تھے ان پر زمین الٹنے کا عذاب آیا اور جو لوگ ادھر ادھر نکلے ہوئے تھے ان پر پتھر برسائے گئے اور پتھروں کی بارش سے ہلاک ہوگئے۔ حضرت مجاہد تابعی (رض) سے کسی نے پوچھا کیا قوم لوط میں سے کوئی رہ گیا تھا۔ انہوں نے جواب دیا کوئی باقی نہ رہا تھا ہاں ایک شخص زندہ بچ گیا تھا جو مکہ معظمہ میں تجارت کے لیے گیا ہوا تھا وہ چالیس دن کے بعد حرم سے نکلا تو اس کو بھی پتھر لگ گیا جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہوگیا۔ سورة ھود میں ان لوگوں کی زمین کا تختہ الٹنے کا اور پتھروں کی بارش کا ذکر ہے اور یہاں سورة القمر میں ﴿اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ حَاصِبًا ﴾ فرمایا ہے علامہ قرطبی نے اولاً ابوعبیدہ سے نقل کیا کہ اس سے پتھر مراد ہیں پھر صحاح سے نقل کیا ہے کہ : الحاصب الریح الشدیدہ التی تطیر الحصبا کہ حاصب اس ہوا کو کہا جاتا ہے جو کنکریاں اڑاتی ہوئی چلے اس آیت سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں پر جو پتھر برسائے گئے تھے۔ ان پتھروں کو تیز ہوا لے کر آئی تھی۔
16:۔ ” کذبت قوم لوط “ یہ تخویف دنیوی کا چوتھا نمونہ ہے۔ ” حاصب “ پتھر جو قوم لوط کی بستیوں پر برسائے گئے۔ قوم لوط (علیہ السلام) نے بھی انبیاء (علیہم السلام) کی تکذیب کی تو ہم نے ان کی بستیوں کو الٹ کر ان پر پتھروں کی بارش کی اور اس سے پہلے صبح صبح ہی لوط (علیہ السلام) اور مؤمنوں کو بستی سے نکل جانے کا حکم دے کر ان کو اس عذاب سے محفوظ رکھا۔ یہ ان پر ہمارا انعام و احسان تھا، کیونکہ وہ ہمارے شکر گزار بندے تھے اور شکر کرنے والوں کو ہم ایسی جزاء دیا کرتے ہیں۔ ” ولقد انذرھم۔ الایۃ “ حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کو ہماری پکڑ سے خبردار کیا۔ لیکن انہوں نے ان کے انذار کو جھٹلایا اور اس میں شک کیا اور اس پر یقین نہ لائے۔ ای شکوا فیما انذرھم بہ الرسول ولم یصدقوہ (قرطبی ج 17 ص 144) ۔