Surat ul Qamar

Surah: 54

Verse: 37

سورة القمر

وَ لَقَدۡ رَاوَدُوۡہُ عَنۡ ضَیۡفِہٖ فَطَمَسۡنَاۤ اَعۡیُنَہُمۡ فَذُوۡقُوۡا عَذَابِیۡ وَ نُذُرِ ﴿۳۷﴾

And they had demanded from him his guests, but We obliterated their eyes, [saying], "Taste My punishment and warning."

اور ان ( لوط علیہ السلام ) کو ان کے مہمانوں کے بارے میں پھسلایا پس ہم نے ان کی آنکھیں اندھی کر دیں ( اور کہہ دیا ) میرا عذاب اورمیرا ڈرانا چکھو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَقَدْ رَاوَدُوهُ عَن ضَيْفِهِ ... And they indeed sought to shame his guests, that is the night the angels Jibril, Mika'il and Israfil came to him in the shape of handsome young men, as a test from Allah for Lut's people. Lut hosted his guests, while his wife, the evil old one, sent a message to her people informing them of Lut's guests. They came to him in haste from every direction, and Lut had to close the door in their faces. They came during the night and tried to break the door; Lut tried to fend them off, while shielding his guests from them, saying, هَـوُلاءِ بَنَاتِى إِن كُنْتُمْ فَـعِلِينَ These are my daughters, if you must act (so). (15:71), in reference to their women, قَالُواْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِى بَنَاتِكَ مِنْ حَقٍّ They said: "Surely, you know that we have neither any desire nor need of your daughters!" (11:79), meaning, `we do not have any desire for women,' وَإِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِيدُ and indeed you know well what we want! (11:79) ... فَطَمَسْنَا أَعْيُنَهُمْ فَذُوقُوا عَذَابِي وَنُذُرِ So, We blinded their eyes (saying), "Then taste you My torment and My warnings." When the situation became serious and they insisted on coming in, Jibril went out to them and struck their eyes with the tip of his wing, causing them to lose their sight. They went back feeling for the walls to guide them, threatening Lut with what would befall him in the morning. Allah the Exalted said, وَلَقَدْ صَبَّحَهُم بُكْرَةً عَذَابٌ مُّسْتَقِرٌّ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 یا بہلایا یا مانگا لوط (علیہ السلام) سے ان کے مہمانوں کو۔ مطلب یہ ہے کہ جب لوط (علیہ السلام) کی قوم کو معلوم ہوا کہ چند خوبرو نوجوان لوط (علیہ السلام) کے ہاں آئے ہیں۔ (جو دراصل فرشتے تھے اور انکو عذاب دینے کے لیے آئے تھے) تو انہوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) سے مطالبہ کیا کہ ان مہمانوں کو ہمارے سپرد کردیں تاکہ ہم اپنے بگڑے ہوئے ذوق کی ان سے تسکین کریں۔ (2) کہتے ہیں کہ یہ فرشتے جبرائیل میکائیل اور اسرافیل (علیہم السلام) تھے۔ جب انہوں نے بدفعلی کی نیت سے فرشتوں (مہمانو) کو لینے پر زیادہ اصرار کیا تو جبرائیل (علیہ السلام) نے اپنے پر کا ایک حصہ انہیں مارا، جس سے ان کی آنکھوں کے ڈھیلے ہی باہر نکل آئے، بعض کہتے ہیں، صرف آنکھوں کی بصارت زائل ہوئی، بہرحال عذاب عام سے پہلے یہ عذاب خاص ان لوگوں کو پہنچا جو حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس بدنیتی سے آئے تھے۔ اور آنکھوں سے یا بینائی سے محروم ہو کر گھر پہنچے۔ اور صبح اس عذاب عام میں تباہ ہوگئے جو پوری قوم کے لئے آیا۔ (تفسیر ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٧] عذاب کی نوعیت :۔ ان پر عذاب ڈھانے کے لیے تین فرشتے نہایت خوبصورت نوجوان بےریش لڑکوں کی شکل میں آئے تھے۔ انہیں دیکھ کر سیدنا لوط (علیہ السلام) سخت پریشان ہوگئے اور ڈر گئے کہ اس بدکار قوم سے ان مہمانوں کی آبرو کو کیسے بچا سکیں۔ اتنے میں بیوی صاحبہ نے آس پاس کے مشٹنڈوں کو مخبری کردی کہ بہت اچھا مال گھر میں آیا ہے۔ وہ لوگ اوپر سے ہی آپ کے گھر میں گھس آئے۔ سیدنا لوط (علیہ السلام) نے ان بدبختوں کی بہت منت سماجت کی کہ وہ اپنے برے ارادہ سے باز آجائیں کہ مجھے مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کریں۔ جب فرشتوں نے یہ صورت حال دیکھی تو سیدنا لوط (علیہ السلام) کو علیحدہ لے جا کر صورت حال بتادی کہ تمہیں ڈرنے اور منت سماجت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہم انسان نہیں بلکہ فرشتے ہیں جو اس قوم پر عذاب نازل کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ پھر جب یہ اوباش اپنی خواہش جنسی پوری کرنے کے لیے ان لڑکوں کی طرف بڑھے تو ان میں سے ایک فرشتے نے ان کی آنکھوں پر ہاتھ پھیر دیا۔ جس سے ان کی بینائی جاتی رہی اور وہ چیخیں مار کر واپس دوڑنے لگے اور نظر نہ آنے کی وجہ سے دروازہ کی طرف بڑھتے ہوئے ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ یہ ان پر پہلا اور ہلکا عذاب تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ رَاوَدُوْہُ عَنْ ضَیْفِـہٖ ۔۔۔۔” راودوہ “ باب مفاعلہ سے ہے ۔ ” مراودۃ “ نرمی اور ملائمت سے بار بار مطالبہ کرنا ، پھسلانا ، بہکانا ، فریب سے غلط کام پر آمادہ کرنا ۔ یہاں باب مفاعلہ مشارکت کے لیے نہیں مبالغہ کے لیے ہے ۔ ” صیفہ “ سے مراد فرماتے ہیں جو خوبصورت لڑکوں کی شکل میں مہمان بن کر آئے تھے۔ قوم کو ان کے آنے کا علم ہوا تو انہوں نے لوط (علیہ السلام) سے مطالبہ کیا کہ انہیں ان کے حوالے کردی۔ ” راودہ “ کے لفظ سے ظاہر ہے کہ انہوں نے لوط (علیہ السلام) پر دھوکے ، فریب ، بہکانے ، پھسلانے ، دھونس اور دھاندلی کا ہر طریقہ آزمایا کہ کسی طرح ہی وہ دھوکے میں آکر انہیں ان کے حوالے کردیں ۔ وہ لوگ جو اس مقصد کے لیے آئے تھے جب حد سے بڑھ گئے اور ان لڑکوں کو زبردستی چھیننے کے لئے گھر میں داخل ہونے لگے اور لوط (علیہ السلام) سخت گھبرا گئے تو فرشتوں نے بتایا کہ ہم آپ کے رب کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں ، یہ لوگ آپ تک کسی صورت نہیں پہنچ سکیں گے۔ ( دیکھئے ہود : ٨٠، ٨١) اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھیں مٹا دیں ، انہیں اندھا کردیا کہ بڑا عذاب آنے سے پہلے میرے اس عذاب اور میری تنبیہ کا مزا چکھو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ رَاوَدُوْہُ عَنْ ضَيْفِہٖ فَطَمَسْـنَآ اَعْيُنَہُمْ فَذُوْقُوْا عَذَابِيْ وَنُذُرِ۝ ٣٧ راود والمُرَاوَدَةُ : أن تنازع غيرک في الإرادة، فترید غير ما يريد، أو ترود غير ما يرود، ورَاوَدْتُ فلانا عن کذا . قال : هِيَ راوَدَتْنِي عَنْ نَفْسِي[يوسف/ 26] ، وقال : تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف/ 30] ، أي : تصرفه عن رأيه، ( ر و د ) الرود المراودۃ ( مفاعلہ ) یہ راود یراود سے ہے اور اس کے معنی ارادوں میں باہم اختلاف اور کشیدگی کے ہیں ۔ یعنی ایک کا ارداہ کچھ ہو اور دوسرے کا کچھ اور راودت فلان عن کزا کے معنی کسی کو اس کے ارداہ سے پھسلانے کی کوشش کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ هِيَ راوَدَتْنِي عَنْ نَفْسِي[يوسف/ 26] اس نے مجھے میرے ارداہ سے پھیرنا چاہا ۔ تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف/ 30] وہ اپنے غلام سے ( ناجائز ) مطلب حاصل کرنے کے درپے ہے ۔ یعنی اسے اس کے ارادہ سے پھسلانا چاہتی ہے ۔ ضيف والضَّيْفُ : من مال إليك نازلا بك، وصارت الضِّيَافَةُ متعارفة في القری، وأصل الضَّيْفِ مصدرٌ ، ولذلک استوی فيه الواحد والجمع في عامّة کلامهم، وقد يجمع فيقال : أَضْيَافٌ ، وضُيُوفٌ ، وضِيفَانٌ. قال تعالی: ضَيْفِ إِبْراهِيمَ [ الحجر/ 51] ( ض ی ف ) الضیف الضیف ۔ اصل میں اسے کہتے ہیں کو تمہارے پاس ٹھہرنے کے لئے تمہاری طرف مائل ہو مگر عرف مین ضیافت مہمان نوازی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اصل میں چونکہ یہ مصدر ہے اس لئے عام طور پر واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر کبھی اس کی جمع اضیاف وضیوف وضیفاف بھی آجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ [ الحجر/ 51] بھلا تمہارے اس ابراھیم کے مہمانوں کی خبر پہنچتی ہے ۔ طمس الطَّمْسُ : إزالةُ الأثرِ بالمحو . قال تعالی: فَإِذَا النُّجُومُ طُمِسَتْ [ المرسلات/ 8] ، رَبَّنَا اطْمِسْ عَلى أَمْوالِهِمْ [يونس/ 88] ، أي : أزل صورتها، وَلَوْ نَشاءُ لَطَمَسْنا عَلى أَعْيُنِهِمْ [يس/ 66] ، أي : أزلنا ضوأها وصورتها كما يُطْمَسُ الأثرُ ، وقوله : مِنْ قَبْلِ أَنْ نَطْمِسَ وُجُوهاً [ النساء/ 47] ، منهم من قال : عنی ذلک في الدّنيا، وهو أن يصير علی وجوههم الشّعر فتصیر صورهم کصورة القردة والکلاب «3» ، ومنهم من قال : ذلك هو في الآخرة إشارة إلى ما قال : وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق/ 10] ، وهو أن تصیر عيونهم في قفاهم، وقیل : معناه يردّهم عن الهداية إلى الضّلالة کقوله : وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ [ الجاثية/ 23] ، وقیل : عنی بالوجوه الأعيان والرّؤساء، ومعناه : نجعل رؤساء هم أذنابا، وذلک أعظم سبب البوار . ( ط م س ) الطمس کے معنی کسی چیز کا نام ونشان مٹادینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَإِذَا النُّجُومُ طُمِسَتْ [ المرسلات/ 8] جب ستاروں کی روشنی جاتی رہے گی ۔ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلى أَمْوالِهِمْ [يونس/ 88] اے پروردگار ان کے مال و دولت کو تباہ وبرباد کردے یعنی ان کا نامونشان مٹادے ۔ وَلَوْ نَشاءُ لَطَمَسْنا عَلى أَعْيُنِهِمْ [يس/ 66] اور اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھوں کو مٹا کر اندھا کردیں ۔ یعنی آنکھوں کی روشنی سلب کرلیں اور انکار نشان مٹادیں جس طرح کہ کسی کو مٹادیا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَطْمِسَ وُجُوهاً [ النساء/ 47] قبل اس کے کہ ہم ان کے چہروں کو بگاڑ کر ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ دنیا ان کے چہروں کو بگاڑنا مراد ہے مثلا ان کے چہروں پر بال اگادیں ۔ ان کی صورتیں بندروں اور کتوں جیسی کردی جائیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ آخرت میں ہوگا جس کی طرف کہ آیت : ۔ وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق/ 10] اور جس کا نامہ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائیگا میں اشارہ پایا جاتا ہے اور چہروں کو مٹانے کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان کی آنکھیں گدی پر پر لگادی جائیں اور یاہدایت سے گمراہی کی طرف لوٹا دینا مراد ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ [ الجاثية/ 23] اور باوجود جاننے بوجھنے کے ( گمراہ ہورہا ہے نہ تو خدا نے بھی اس کو گمراہ کردیا اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگادی ۔ بعض نے کہا ہے کہ وجوہ سے قوم کے اعیان اکابر مراد اور معنی یہ ہیں کہ ہم بڑے بڑے سر داروں کو رعیت اور محکوم بنادیں اس سے بڑھ کر اور کونسی ہلاکت ہوسکتی ہے ۔ عين ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ «3» ، وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا [ القمر/ 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود/ 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] . ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة، واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان/ 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] . ( ع ی ن ) العین اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔ ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٧۔ ٣٩) اور ان لوگوں نے لوط کے مہمانوں کو یعنی جبریل امین اور جو دیگر ان کے ساتھ فرشتے تھے لوط سے ناپاک ارادے سے لینا چاہا۔ سو ہم نے ان کی آنکھوں کو چوپٹ کردیا یعنی جبریل امین نے اپنے پر سے ان کی آنکھیں اندھی کردیں اور ان سے کہا گیا کہ میرے عذاب اور ڈرانے کا مزہ چکھو اور پھر صبح سویرے ان پر ہمیشہ رہنے والا عذاب آپہنچا جو عذاب آخرت کے ساتھ متصل ہے۔ اور ان سے ارشاد ہوا کہ میرے عذاب اور میرے ڈرانے کا مزہ چکھو۔ کہ لوط نے ان کو ڈرایا مگر وہ پھر بھی ایمان نہ لائے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧ ٣{ وَلَقَدْ رَاوَدُوْہُ عَنْ ضَیْفِہٖ فَطَمَسْنَـآ اَعْیُنَہُمْ } ” اور انہوں نے اس سے اس کے مہمانوں کو لے جانا چاہا تو ہم نے ان کی آنکھوں کو مٹا دیا “ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کے بدکردار لوگ ان خوبصورت مہمان لڑکوں کو حاصل کرنا چاہتے تھے جو اصل میں فرشتے تھے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان سب کو اندھا کردیا۔ بائبل میں اس کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے کہ ان میں سے ایک فرشتے نے ان لوگوں کی طرف اپنا ہاتھ پھیلایا تو وہ سب کے سب اندھے ہوگئے۔ { فَذُوْقُوْا عَذَابِیْ وَنُذُرِ ۔ } ” تو مزا چکھو اب میرے عذاب کا اور میرے خبردار کرنے کا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

22 The details of this story have been given in Surah Hud: 77-83 and Surah AI-Hijr: 61-74 above, a resume of which is as follows: When AIIah decided to punish those people with a torment, He sent a few angels in the guise of handsome boys as guests in the house of the Prophet Lot. When the people saw such handsome guests in Lot's house they rushed to it and demanded that they be handed over to them for tile gratification of their lust. The Prophet Lot implored them to desist from their evil intention, but they did not listen and tried to enter his house to take hold of the guests forcibly. At this stage suddenly their eyes were blinded. Then the angels told Lot that he and his Household should leave the city before dawn; then as soon as they had Ieft a dreadful torment descended on the people. In the Bible also this event has been described. The words are: 'And they pressed sore upon the man, even Lot, and came near to break the door. But the men (i.e. the angels) put forth their Hand and pulled Lot into the house to them, and shut to the door. And they smote the nun that were at the door of the house with blindness, both small and great: so that they wearied themselves to find the door." (Gen., 19: 9-11),

سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :22 اس قصے کی تفصیلات سورہ ہود ( آیات 77 تا 83 ) اور سورہ حجر ( آیات 61 تا 74 ) میں گزر چکی ہیں ۔ خلاصہ ان کا یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر عذاب بھیجنے کا فیصلہ فرمایا تو چند فرشتوں کو نہایت خوبصورت لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط کے ہاں مہمان کے طور پر بھیج دیا ۔ ان کی قوم کے لوگوں نے جب دیکھا کہ ان کے ہاں ایسے خوبصورت مہمان آئے ہیں تو وہ ان کے گھر پر چڑھ دوڑے اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے ان مہمانوں کو بدکاری کے لیے ان کے حوالہ کر دیں ۔ حضرت لوط نے ان کی بے انتہا منت سماجت کی کہ وہ اس ذلیل حرکت سے باز رہیں ۔ مگر وہ نہ مانے اور گھر میں گھس کر زبردستی مہمانوں کو نکال لینے کی کوشش کی ۔ اس آخری مرحلے پر یکایک ان کی آنکھیں اندھی ہو گئیں ۔ پھر فرشتوں نے حضرت لوط سے کہا کہ وہ اور ان کے گھر والے صبح ہونے سے پہلے اس بستی سے نکل جائیں ، اور ان کے نکلتے ہی اس قوم پر ایک ہولناک عذاب نازل ہو گیا ۔ بائیبل میں بھی یہ واقعہ اسی طرح بیان کیا گیا ہے ۔ اس کے الفاظ یہ ہیں : تب وہ اس مرد یعنی لوط پر پل پڑے اور نزدیک آئے تاکہ کواڑ توڑ ڈالیں ۔ لیکن ان مردوں ( یعنی فرشتوں ) نے اپنے ہاتھ بڑھا کر لوط کو اپنے پاس گھر میں کھینچ لیا اور دروازہ بند کر دیا اور ان مردوں کو جو گھر کے دروازے پر تھے ، کیا چھوٹے کیا بڑے ، اندھا کردیا ، سو وہ دروازہ ڈھونڈھتے ڈھونڈتے تھک گئے ( پیدائش ، 19:9 ۔ 11 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: سورۃ ہود (۱۱:۷۸) میں اس کی تفصیل گذر چکی ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کے پاس فرشتے خوبصورت نوجوانوں کی شکل میں آئے تھے۔ اُن کی قوم ہم جنسی کی بیماری میں مبتلا تھی، اس لئے انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام سے مطالبہ کیا کہ ان مہمانوں کو اُن کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا، اور اس طرح وہ مہمانوں تک نہ پہنچ سکے (تفسیر الدر المنثور عن قتاد)

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٧۔ ٤٨۔ سورة اعراف ‘ سورة ہود ‘ سورة شعراء ‘ سورة نمل ‘ سورة والصافات وغیرہ میں حضرت لوط اور ان کی امت کے لوگوں کا قصہ گزر چکا ہے کہ حضرت لوط کی امت کے لوگوں میں لڑکوں سے بدفعلی کرنے کی عادت تھی ‘ جس کو اغلام کہتے ہیں۔ اس عادت کے چھڑا دینے کے لئے مدتوں حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو سمجھایا۔ مگر ان میں سے ایک شخص بھی راہ راست پر نہ آیا یہاں اس سورة میں ان لوگوں کے اندھے ہونے کا جو ذکر ہے اس کی تفسیر یہ ہے کہ حضرت جبرئیل اور حضرت میکائیل اور حضرت اسرافیل نو عمر خوبصورت لڑکوں کی صورت میں حضرت لوط کے پاس مہمان بن کر آئے۔ حضرت لوط نے ان فرشتوں کو نہیں پہچانا اور امت کے لوگوں کی عادت سے خوفزدہ ہو کر ان مہمانوں کی خبر کو ان لوگوں سے چھپایا۔ مگر لوط کی بی بی نے قوم کے لوگوں کو ان مہمانوں کی خبر کردی۔ وہ لوگ حضرت لوط کے گھر پر چڑھ آئے حضرت لوط نے اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیا ان لوگوں نے دروازہ توڑ کر گھر کے اندر گھسنے کا ارادہ کیا اس وقت حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے ایک پر مار کر جتنے لوگ آئے تھے سب کو اندھا کردیا یہ رات کا وقت تھا یہ لوگ حضرت لوط (علیہ السلام) کو یہ دھمکی دے کر چلے گئے کہ صبح کو ہم تم سے سمجھ لیں گے آخر صبح کو وقت مقررہ آتے ہی وہ تمام بستی جبرئیل (علیہ السلام) نے الٹ دی اور پھر پتھروں کا مینہ برسا اور سب ہلاک ہوگئے۔ اب انکی بستی کی جگہ ایک بدبودار پانی کا چشمہ ہے۔ ذوقوا عذابی و نذر کو گھڑی گھری تاکید کے لئے فرمایا تاکہ قریش اس بات کو خوب سمجھ لیں کہ اللہ کے رسولوں کو جھٹلانے اور ان کی نصیحت کے نہ ماننے کا کیا نتیجہ ہے۔ آیت سیھزم الجمع ویولون الدبر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور قرآن کے کلام الٰہی ہونے کی بڑی دلیل ہے کیونکہ بدر کی لڑائی سیبات برس پہلے مکہ میں یہ آیت نازل ہوئی اور بدر کی لڑائی میں بالکل اس کے موافق ظہور ہوا۔ چناچہ صحیح بخاری ١ ؎ میں حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ بدر کی لڑائی کے میدان جنگ میں لڑائی کے شروع ہونے سے پہلے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کی فتح کی دعا کی اور پھر آپ یہ آیت پڑھتے ہوئے اس جھونپڑی میں سے نکلے جو میدان جنگ میں صحابہ نے آپ کے لئے ڈال دی تھی۔ حاصل یہ ہے کہ لشکر اسلام کی فتح کا عام وعدہ تو اللہ نے اپنے رسول سے کیا تھا مگر یہ بات معلوم نہ تھی کہ کون سی لڑائی میں اس وعدہ کا ظہورہو گا۔ بدر کی لڑائی کے وقت مسلمانوں کے لشکر کی تعداد کم اور دشمنوں کے لشکر کی تعداد اور زیادہ دیکھ کر جب آپ نے فتح کی دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اس لڑائی کے وقت اس آیت کا وعدہ کا ظہورہو گا اس لئے آپ نے یہ آیت پڑھی اور آپ کے اس آیت کے پڑھنے سے حضرت عمر اور صحابہ کو آیت کا مطلب خاص طور پر معلوم ہوگیا مسلم کی سند ٢ ؎ میں اس بات کی صراحت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) تو بدر کے قصے کے وقت موجود نہیں تھے پھر انہوں نے یہ حدیث آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیونکر سنی۔ اب آگے فرمایا کہ دنیا میں جو قریش کی شکست کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اس کا ظہور تو ہوگا لیکن اصل وعدہ تو ان سے آخرت کے عذاب کا ہے جس کے ظہور کا وقت قیامت ہے جو بڑی آفت کا دن ہے اور نہایت کڑوی گھڑی ہے جس میں اس طرح کے نافرمان لوگ آگ میں اوندھے منہ گھسیٹے جائیں گے اور ان کے ذلیل کرنے کو اللہ کے فرشتے یہ کہیں گے لو آج اس آگ مزہ چھکو جس کو دنیا میں تم لوگ جھٹلاتے تھے۔ طبرانی میں معتبر سند سے انس ٣ ؎ بن مالک کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر دوزخ کی آگ کی ایک چنگاری دنیا میں لا کر مشرق میں رکھی جائے تو ملک مغرب کے شہروں میں اس کی حرارت پائی جائے گی اس مضمون کی حدیثیں ١ ؎ اوپر گزر چکی ہیں کہ دوزخ کی آگ تین برس تک دہکائی گئی ہے اور اس کی حرارت دنیا کی آگ سے اونہتر حصے زیادہ ہے غرض جن آیتوں میں دوزخ کی آگ کا مبہم طور پر ذکر آیا ہے یہ حدیثیں اور اس قسم کی اور حدیثیں ان آیتوں کی تفسیر ہیں۔ اور یہ بھی اوپر سے گزر چکا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ٢ ؎ کہ میں لوگوں کی کو لپ بھربھر کر دوزخ کی آگ سے ان کو بچانے کی کوشش کرتا ہوں لیکن لوگ اپنی خواہش نفسانی میں پھنس کر اس آگ میں گرجانے کی ایسی جرأت کر رہے ہیں جس طرح کیڑے پتنگے روشنی پر گرتے ہیں اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس آگ سے بچنے کی توفیق دے اور ہر شخص کے دل میں اپنے رسول کی کوشش کا اثر پیدا کرے۔ (٢ ؎ صحیح مسلم باب شفقتہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) علی امتہ الخ ص ٢٤٨ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب قول اللہ تعالیٰ اذ تستغیثون ربکم فاستجاب لکم الایۃ ص ٥٦٤ ج ٢۔ ) (٢ ؎ صحیح مسلم باب الامدا ذافی غزوۃ بدر الخ ص ٩٣ ج ٢۔ ) (١ ؎ جامع ترمذی باب ماجاء ان نارکم ھذا جزء من سبعین الخ و باب منہ ص ٩٦ ج ٢۔ ) (٣ ؎ الترغیب والترہیب فصل فی شدۃ حرھا وغیرہ ذلک ص ٨٧٠ ج ٤۔ ) (١ ؎ جامع ترمذی باب ماجاء ان نارکم ھذا جزء من سبعین الخ و باب منہ ص ٩٦ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(54:37) ولقد : ملاحظہ ہو آیت 22 متذکرہ الصدر۔ راودوہ : ماضی جمع مذکر غائب مراودۃ (مفاعلۃ) مصدر، پھسلانا ۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب۔ انہوں نے اس کو پھسلایا۔ رود حروف مادہ ہیں۔ الرود کے اصل معنی نرمی کے ساتھ کسی چیز کی طلب میں بار بار آمدورفت کے ہیں۔ اسی معنی میں فعل راود وارتاد آتا ہے۔ اسی سے رائد ہے جس کے معنی ہیں وہ شخص جسے پانی اور چارہ کی تلاش کے لئے قافلہ سے آگے بھیجا جائے۔ اسی سے یعنی راد ہر ود سے الارادۃ ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں ۔ اور ارادہ اصل میں اس قوت کا نام ہے جس میں خواہش ، ضرورت، اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں۔ پھر اس سے مراد دل کا کسی چیز کی طرف کھچنے کے لئے بولا جاتا ہے جو کہ ارادہ کا مبدأ ہے اور کبھی صرف منتہی کے معنی مراد ہوتے ہیں یعنی محض فیصلہ کے لئے۔ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے استعمال ہو تو منتہیٰ کے معنی مراد ہوتے ہیں یعنی کسی کام کا فیصلہ۔ تزوج نفس کا معنی مراد نہیں ہوتا کیونکہ ذات باری تعالیٰ خواہشات نفسانی سے منزہ ومبرا ہے۔ لہٰذا اراد اللہ کذا کے معنی ہوں گے اللہ تعالیٰ نے فلاں کام کا فیصلہ کیا۔ چناچہ فرمایا : قل من ذا الذی یعصمکم من اللہ ان ارادیکم سوء (33:17) کہہ دیجئے کہ اگر خدا تمہارے ساتھ برائی کا فیصلہ کرے تو کون تم کو اس سے بچا سکتا ہے۔ اور کبھی ارادہ بمعنی امر کے آتا ہے۔ مثلاً :۔ یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر (2:185) اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی کرنا چاہتا ہے (یعنی آسان کاموں کا حکم دیتا ہے اور ایسے امور کا حکم نہیں دیتا کہ جس سے تم سختی میں مبتلا ہوجاؤ۔ المراودۃ (مفاعلۃ) یہ بھی رادیرود سے ہے اور اس کے معنی ارادوں میں باہم اختلاف اور کشیدگی کے ہیں۔ یعنی ایک کا رادہ کچھ ہو اور دوسرے کا کچھ ہو۔ روادت فلانا عن کذا : کے معنی کسی کو اس کے ارادہ سے پھسلانے کے ہیں پھسلانے کی کوشش کرنا کے ہیں۔ چناچہ قرآن مجید میں ہے :۔ ہی راودتنی عن نفسی (12:26) اس نے مجھے میرے ارادہ سے پھیرنا چاہا۔ نراود فتھا عن نفسہ (12:30) وہ اپنے غلام سے (ناجائز) مطلب حاصل کرنے کے درپے ہے یعنی اسے اس کے ارادہ سے پھسلانا چاہتی ہے۔ سنراود عنہ اباہ (12:61) ہم اس کے باپ کو اس سے پھیرنے کی کوشش کریں گے۔ یعنی اسے آمادہ کریں گے وہ برادر یوسف کو ہمارے ساتھ بھیج دے۔ (راغب اصفہانی، فی المفردات) ولقد راودوہ عن ضیفۃ : اور انہوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو اپنے مہمانوں کو برے مطلب کے لئے ان کے سپرد کرنے کے ارادہ سے پھسلانا چاہا۔ فطمسا اعینھم : ف تعلیل کا ہے۔ ثمسنا ماضی جمع متکلم۔ طمس (باب ضرب) مصدر۔ جس کے معنی مٹا دینا یا بےنور کردینا ہے۔ جب طمس کا استعمال نجم، قمر، بصر، کے ساتھ ہو تو بےنور اور روشنی زائل ہوجانے کے معنی ہوں گے۔ مثلاً قرآن مجید میں اور جگہ ہے : فاذا النجوم طمست (77:8) جب ستارے بےنور کر دئیے جائیں گے یعنی ان کی روشنی زائل کردی جائے گی۔ مٹانے یا بگاڑنے کے معنی میں ہے :۔ من قبل ان نطمس وجوھا فنردھا علی ادبارھا (4:47) پیشتر اس کے کہ ہم ان کے چہروں کو بگاڑ دیں اور ان کو ان کی پیٹھوں کی طرف پھیر دیں۔ امام راغب اصفہانی (رح) نے آیت شریفہ ولو نشاء لطمسنا علی اعینھم (36:66) میں دونوں معنی جسمع کر دئیے ہیں۔ فرماتے ہیں :۔ یعنی ہم آنکھوں کی روشنی کو اور ان کی صورت و شکل کو مٹا دیں جس طرح سے نشان مٹایا جاتا ہے۔ آیت ہذا میں بےنور کردینے کے معنی ہوں گے۔ ان کے اس فعل کی وجہ سے ہم نے ان کو آنکھوں کو بےنور کردیا۔ اعینھم مضاف مضاف الیہ مل کر ثمسا کا مفعول۔ ان کی آنکھوں کو (بےنور کردیا) ۔ فذوقوا : ای قلنالہم ۔۔ (اور ہم نے ان سے کہا) لو میرے عذاب اور ڈرانے کا مزہ چکھو۔ نذر بطور مستعمل ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 مہمانوں سے مراد فرشتے ہیں جو حضرت لوط کے ہاں مہمان بن کر آئے تھے۔ سو رہ ہود اور سورة قبر میں مفصل قصہ گزر چکا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

17:۔ ” ولقد راودوہ۔ الایۃ “ جب حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس خوبصورت نوجوانوں کی شکلوں میں فرشتے آئے تو قوم لوط کے بدکردار لوگوں نے ان مہمانوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کی خاطر حضرت لوط (علیہ السلام) سے مطالبہ کیا وہ ان کے کام میں حائل نہ ہوں اور اپنے مہمانوں کی ان سے حفاظت نہ کریں جب وہ بری نیت سے ان کے گھر میں گھس آئے تو جبرائیل (علیہ السلام) نے ان پر اپنا بازو مارا جس سے وہ سب اندھے ہوگئے اور ہم نے فرمایا ابھی وہ عذاب تمہیں چکھنا ہے جس سے لوط (علیہ السلام) تمہیں ڈراتے تھے۔ ” ولقد صبحہم۔ الایۃ “ چناچہ علی الصباح ان پر وہ عذاب آپہنچا اور ان کو ختم کر کے چھوڑا۔ ” فذوقوا عذابی ونذر “ اب اس عذاب کا مزہ چکھو جس سے لوط (علیہ السلام) تمہیں ڈرایا کرتے تھے۔ ای ما انذرتکم بہ علی لسان لوط من العذاب (مظہری ج 9 ص 141) ۔ ” ولقد یسرنا “۔ الایۃ۔ ہم نے قرآن کو پند و نصیحت کے لیے آسان کردیا ہے کیا کوئی ہے جو اس سے نصیحت سیکھے ؟

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(37) اور انہوں نے بری نیت اور نیت بد سے لوط (علیہ السلام) کے مہمانوں کو لوط (علیہ السلام) سے حاصل کرنا چاہا پھر ہم نے ان کی آنکھیں بےنور کردیں اور ان کی آنکھیں مٹا دیں اور کہا گیا کہ لو اب میرے عذاب اور میرے ڈرانے کا مزہ چکھو۔ یعنی حضرت لوط (علیہ السلام) کے ہاں جو فرشتے مہمان بن کر آئے تھے ان مہمانوں پر حملہ آور ہوئے اور چاہا کہ ان مہمانوں کو لوط سے چھین کرلے جائیں اور یہیورش ان کی بدنیتی اور برے ارادے سے تھی تو ہم نے ان کو اندھا کردیا، آنکھیں پٹ ہوگئیں اور ارشاد ہوا اب میری سزا اور میرے ڈرانے کا مزہ چکھو کہتے ہیں حضرت جبرئیل نے اپنا پر ان کی آنکھوں پر مارا جس سے وہ اندھے ہوگئے۔