Surat ul Qamar

Surah: 54

Verse: 41

سورة القمر

وَ لَقَدۡ جَآءَ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ النُّذُرُ ﴿ۚ۴۱﴾

And there certainly came to the people of Pharaoh warning.

اور فرعونیوں کے پاس بھی ڈرانے والے آئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Story of Fir`awn and His People Allah the Exalted narrates to us the story of Fir`awn and his people. وَلَقَدْ جَاء الَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ كَذَّبُوا بِأيَاتِنَا كُلِّهَا فَأَخَذْنَاهُمْ أَخْذَ عَزِيزٍ مُّقْتَدِرٍ

سچائی کے دلائل سے اعراض کرنے والی اقوام فرعون اور اس کی قوم کا قصہ بیان ہو رہا ہے کہ ان کے پاس اللہ کے رسول حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام بشارت اور ڈراوے لے کر آتے ہیں بڑے بڑے معجزے اور زبردست نشانیاں اللہ کی طرف سے انہیں دی جاتی ہیں جو ان کی نبوت کی حقانیت پر پوری پوری دلیل ہوتی ہیں ۔ لیکن یہ فرعونی ان سب کو جھٹلاتے ہیں جس کی بدبختی میں ان پر عذاب الہٰی نازل ہوتے ہیں اور انہیں بالکل ہی سوکھے تنکوں کی طرح اڑا دیا جاتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے اے مشرکین قریش اب بتلاؤ تم ان سے کچھ بہتر ہو ؟ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہارے لئے اللہ نے اپنی کتابوں میں چھوٹ دے رکھی ہے؟ کہ ان کے کفر پر تو انہیں عذاب کیا جائے لیکن تم کفر کئے جاؤ اور تمہیں کوئی سزا نہ جائے ؟ پھر فرماتا ہے کیا ان کا یہ خیال ہے کہ ہم ایک جماعت کی جماعت ہیں آپ میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہیں گے اور ہمیں کوئی برائی ہماری کثرت اور جماعت کی جماعت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے گا انہیں ہزیمت دی جائے گی اور یہ پیٹھ دکھا کر بھاگتے پھریں گے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ بدر والے دن اپنی قیام گاہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا فرما رہے تھے اے اللہ تجھے تیرا عہد و پیمان یاد دلاتا ہوں اے اللہ اگر تیری چاہت یہی ہے کہ آج کے دن کے بعد سے تیری عبادت و وحدانیت کے ساتھ زمین پر کی ہی نہ جائے بس اتنا ہی کہا تھا کہ حضرت ابو بکر صدیق نے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بس کیجئے آپ نے بہت فریاد کر لی ۔ اب آپ اپنے خیمے سے باہر آئے اور زبان پر دونوں آیتیں آیت ( سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ 45؀ ) 54- القمر:45 ) ، جاری تھیں ، حضرت عمر فرماتے ہیں اس آیت کے اترنے کے وقت میں سوچ رہا تھا کہ اس سے مراد کونسی جماعت ہو گی ؟ جب بدر والے دن میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ زرہ پہنے ہوئے اپنے کیمپ سے باہر تشریف لائے اور یہ آیت پڑھ رہے تھے ، اس دن میری سمجھ میں اس کی تفسیر آگئی ۔ بخاری میں ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں میری چھوٹی سی عمر تھی ۔ اپنی ہمجولیوں میں کھیلتی پھرتی تھی اس وقت یہ آیت ( بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ اَدْهٰى وَاَمَرُّ 46؀ ) 54- القمر:46 ) ، اتری ہے ۔ یہ روایت بخاری میں فضائل القرآن کے موقعہ پر مطول مروی ہے مسلم میں یہ حدیث نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ : آل فرعون کو ڈرانے اور خبر دار کرنے والوں سے مراد ان کے پاس آنے والے پیغمبر موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) بھی ہیں اور ان کو دیئے جانے والے نو (٩) معجزات بھی ، جنہیں اللہ تعالیٰ نے ” تسع ایت بینت “ قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے سورة ٔ بنی اسرائیل (١٠١) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ جَاۗءَ اٰلَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ۝ ٤١ ۚ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ فِرْعَوْنُ : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة . فرعون یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔ النذر : جمع نذیر کی ڈرانے والے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤١۔ ٤٢) اور فرعون اور اس کی قوم کے پاس موسیٰ اور ہارون آئے سو ان لوگوں نے ہماری تمام نشانیوں کو جھٹلایا سو ہم نے ان کو زبردست صاحب قدرت کا پکڑنا پکڑا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤١ { وَلَقَدْ جَآئَ اٰلَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ ۔ } ” اسی طرح قوم فرعون کے پاس بھی آئے تھے خبردار کرنے والے ۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(54:41) ای فرعون : مضاف مضاف الیہ۔ آل عمران کا ذکر کیا ہے فرعون کا ذکر نہیں کیا۔ کیونکہ یہ تو معلوم ہی ہے کہ اصل فرعون ہی تھا اس لئے کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ النذر : جمع نذیر کی ڈرانے والے۔ مراد یہاں حضرت موسیٰ ، حضرت ہارون اور ان کے ساتھ ہیں ۔ بعض علماء کے نزدیک وہ معجزات مراد ہیں جو فرعون اور فرعونیوں کو ڈرانے کے لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پیش کئے۔ النذر فاعل ہے جاء کا ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٤١ تا ٥٥۔ اسرار ومعارف۔ اسی طرح آل فرعون کو دیکھ لیجئے۔ آل : قرآن حکیم نے آل میں سب متبعین کو شمار کیا ہے جو بہت طاقتور اور شان و شوکت کے مالک تھے ان کے پاس بھی اللہ کا نبی اعمال بد کے نتائج سے خبردار کرنے کو آیا مگر انہوں نے تمام دلائل معجزات کو ٹھکرادیا اور اس کے نتیجے میں انہیں اللہ کے عذاب نے بہت ہی سختی سے پکڑ اور تباہ کردیاتوکیایہ آج کے کفار ان سے کچھ بہتر ہیں کہ یہ نہ پکڑے جائیں گے یا ان کے لیے عذاب سے برات آسمانی کتابوں میں کہیں لکھ دی گئی ہے یعنی کسی آسمانی کتاب میں کوئی ایسی خبر نہیں کہ ان کے کفر اور برائی پر عذاب نہ ہوگایا انہیں یہ خیال ہے کہ ہم بڑی زبردست اور طاقتور قوم ہیں ہم مقابلہ کریں گے ، سو عذاب الٰہی کا مقابلہ توکیاکریں گے جبکہ یہ عنقریب شکست سے دوچار ہوں گے اور پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ شکست کفار کی پیش گوئی۔ چنانچہ بدر اور احد اور خندق میں ہر بار اہل مکہ بھاگ نکلے اور اس کے بعد اگلی دنیا کے عذاب ان کا انتظار کر رہے ہیں قیامت کا دن وعدہ کا روز ہے بہت مصیبت کی گھڑی ہے اور بہت تکلیف دہ اور کڑوی ہے کہ جو لوگ آپ کی نافرمانی میں پڑکر گناہ کی راہ چل رہے ہیں لگتا ہے انہیں پاگل پن یاسوداء ہوگیا ہے کہ اس وقتی اور لمحاتی خواہش میں پڑ کر ایسادردناک عذاب مول لے رہے ہیں کہ انہیں آگ میں اوندھے منہ گھسیٹا جائے گ اور ارشاد ہوگا اب دوزخ کا مزہ چکھو ، یادرکھو ہم نے ہر شے کو درست اور ٹھیک انداز سے پیدا فرمایا ہے اور جس شے یا کام کا جو نتیجہ مقرر فرمادیا ہے وہ ہر حال مرتب ہوتا ہے دنیا کے ہر کام میں اس کی مثال موجود ہے لہذا تمہارا کفر وگناہ بھی اپنا نتیجہ ضرور بھگتے گا اور اللہ کا حکم تو پلک جھپکنے میں یعنی بلاتاخیر نافذ ہوجاتا ہے کہ کہیں تمہیں یہ خیال ہو بھلا یہ سب کچھ کیسے ہوگایامشکل ہے بلکہ تم سے پہلے جو گمراہ گروہ تھے ۔ شیعہ۔ اور قرآن کریم نے یہاں بھی شیعہ کا اطلاق گمراہ گروہ پر کیا ہے ایسا گمراہ گروہ جو باطل پر ہونے کے باوجود اپنے حق پر ہونے کا دعوی رکھتا ہے ان سے پہلے گروہوں کو بھی ہم نے ہلاک کردیا اور ان کی بداعمالی رنگ لائی لہذا ان کے حال سے نصیحت حاصل کی جانی چاہے کہ سب لوگ اور یہ کفار بھی عمل کرتے ہیں وہ اعمال ناموں میں لکھاجارہا ہے اور علم الٰہی میں توہرشے موجود ہے یہ اعمال نامے بھی ایسے ہیں کہ ان میں ہر بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی بات لکھی جاتی ہے لہذا ہر ہرکام کا حساب ہوگا اور ہر بات کی جواب طلبی تو کفر و برائی پہ یقینا عذاب ہوگا جبکہ اللہ سے ڈرنے والے اور خلوص دل سے اس کی اطاعت کرنے والے باغوں اور نہروں میں یعنی جنت کے سداباغوں میں جن میں نہریں جاری ہیں اللہ کے پاس ہوں گے جو حقیقی بادشاہ وسلطان ہے جسکے قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے یعنی جنت کی نعمتوں کے ساتھ انہیں قرب الٰہی نصیب ہوگا۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ مراد موسیٰ (علیہ السلام) کے ارشادات اور معجزات ہیں کہ اول منذر تشریعی اور ثانی منذرات تکوینی ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قوم لوط کے بعد قوم فرعون کا ذکر۔ مصر کا بادشاہ سرکاری منصب کے حوالے سے فرعون کہلواتا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا جس فرعون سے واسطہ پڑا اس کا نام قابوس یا رعمیس تھا۔ یہ فرعون اپنے آپ کو خدا کا اوتار سمجھتے ہوئے لوگوں کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوا۔ کہ اگر میں خدا کا اوتار نہ ہوتا تو دنیا کی سب سے بڑی مملکت کا فرمانروا کیونکر ہوسکتا تھا۔ پھر اس نے لوگوں کے مزاج اور مشرکانہ عقائد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے آپ کو اعلانیہ طور پر رب اعلیٰ قرار دیا۔ اپنی قوم اور موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے دعویٰ کیا کہ زمین و آسمان میں مجھ سے بڑھ کر کوئی رب نہیں ہے۔ میں ہی سب دیوتاؤں سے بڑا دیوتا اور سب سے اعلیٰ کائنات کا رب ہوں۔ اس کی جھوٹی خدائی کے پرخچے اڑانے اور اس کی کذب بیانی کا پول کھولنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسی کے گھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کو پالا اور رسول منتخب فرمایا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا پہلا خطاب : آل فرعون انتہائی ظالم لوگ تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا مجھے رب العالمین کی طرف سے رسول بنایا گیا ہے اور میں وہی بات کہوں گا جس کے کہنے کا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے۔ میں تمہارے پاس اپنے رب کی ربوبیّت اور اس کی وحدت کے ٹھوس اور واضح دلائل لایا ہوں۔ تمہیں اپنی خدائی چھوڑ کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو اپنا رب ماننا چاہیے اس کے ساتھ میرا یہ مطالبہ ہے کہ بنی اسرائیل کو آزاد کردیا جائے۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کا جواب دیتے ہوئے کہا اگر تو اپنے دعویٰ میں سچا ہے تو کوئی معجزہ پیش کرو۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فی الفور اپنا عصا زمین پر پھینکا جو بہت بڑا اژدہا بن کر لہرانے لگا۔ جس کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ اتنا بڑا اژدھا بن کر سامنے آیا کہ یوں لگتا تھا جیسے وہ اپنے جبڑوں میں سب کو نگل لے گا۔ یہ دیکھتے ہی فرعون اور اس کے درباری اپنی جان بچانے کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) سے فریادیں کرنے لگے کہ ہمیں اس سے بچائیں۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو پکڑ لیا جو پہلے کی طرح عصا بن گیا۔ پھر اپنی بغل میں ہاتھ دبا کر باہر نکالا تو اس کے سامنے تمام روشنائیاں ماند پڑگئیں۔ ہاتھ دیکھنے والے حیران اور ششد ررہ گئے کہ یہ تو سورج اور چاند سے بھی زیادہ روشن دکھائی دیتا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ کے سامنے سورج کی روشنی ماند پڑتی دکھائی دیتی تھی۔ (روح المعانی و جامع البیان) فرعون نے اقتدار کے نشہ میں آکر موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے پیش کیے ہوئے تمام دلائل اور بڑے بڑے معجزات ٹھکرا دئیے۔ اقتدار بچانے، عوام اور لیڈروں کو ساتھ رکھنے کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) پر الزام لگایا کہ یہ رسول نہیں بلکہ جادوگر ہیں اور جادو کے زور پر ہمارے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا مقصد ہے کہ ہمیں ملک سے باہر نکال کر بنی اسرائیل کو مصر میں برسراقتدار لائیں۔ فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو چیلنج کیا ہم اس طرح اقتدار چھوڑنے والے نہیں بلکہ ہم تمہارے جادو کا مقابلہ جادو کے ساتھ کریں گے۔ بس ہمارے اور تمہارے درمیان ایک معاہدہ طے پانا چاہیے جس کی نہ ہم مخالفت کریں گے اور نہ تمہیں مخالفت کرنی چاہیے۔ گویا کہ دونوں فریقوں کو اس کی پوری پوری پاسداری کرنا ہوگی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بالکل ایسا ہی ہونا چاہیے۔ لیکن قومی تہوار کا دن مقرر کیا جائے اور وقت بھی سورج نکلنے کے بعد کا ہو۔ تاکہ لوگ کثیر تعداد میں جمع ہو کر دن کی روشنی میں کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھ سکیں کہ حقیقت کیا ہے۔ یہ موسیٰ (علیہ السلام) کے دل کی مراد تھی کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) اتنا بڑا اجتماع کرنے کے وسائل اور اثر رسوخ کہاں رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کے ہاتھوں ہی یہ کام کر دکھایا تاکہ موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا چرچا اور ان کا پیغام پوری قوم تک پہنچ جائے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے معاہدہ طے پانے کے بعد فرعون نے لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے اپنی حکومت کے تمام وسائل جھونک دیے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ قومی دن کے موقع پر ملک کے دارالحکومت مصر میں بہت بڑا اجتماع ہوا کرتا تھا۔ جس میں مختلف قسم کے پروگرام پیش کیے جاتے اور پورے ملک میں جشن کا عالم ہوتا تھا۔ لیکن اس مرتبہ حکومت نے بہت بڑے اجتماع کو اپنے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بنالیا اور ایسا اجتماع منعقد کیا جس کی مثال مصر کی تاریخ میں پہلے سے موجود نہ تھی جب کثیر تعداد میں لوگ جمع ہوگئے۔ تو فرعون پورے شان و شکوہ اور دبدبہ سے انتظامیہ اور ملک کے جادوگروں کے ساتھ اجتماع میں نمودار ہوا۔ لوگوں کے جذبات انتہا پر تھے۔ ایک طرف جادوگروں کے گروہ اور دوسری طرف صرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) تھے۔ مگر تنہائی اور کسمپرسی کے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) بڑے اعتماد کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ جونہی ماحول قدرے پر سکون ہوا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جادوگروں اور حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم پر افسوس کہ تم اللہ تعالیٰ پر کذب بیانی کرتے ہو۔ اگر تم اپنی ضد پر قائم رہے تو وہ تمہیں تباہ و برباد کر دے گا۔ یاد رکھو جس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولا وہ ناکام ہوا۔ ملک بھر کے جادوگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کے خلاف صف آراء ہوئے تو انھوں نے بڑے غرور میں آکر موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ تم لاٹھی پھینکتے ہو یا ہم اپنی چیزیں پھینکیں ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بڑے اعتماد اور پُر وقار لہجے میں فرمایا کہ تمہیں ہی پہل کرنا چاہیے۔ جب انھوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں میدان میں پھینکیں تو موسیٰ (علیہ السلام) کو یوں لگا کہ جیسے رسیاں اور لاٹھیاں چھوٹے بڑے سانپ بن کر ادھر ادھر دوڑ رہے ہیں۔ رسیاں اور لاٹھیاں میدان میں پھینکتے ہی جادوگروں نے چلّا چلّاکر فرعون زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے کہا کہ آج ہم ہی کامیاب ٹھہرئیں گے۔ (الشعراء : ٤٤) جادوگروں کا مظاہرہ اس قدر زبردست تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) بھی خوف زدہ ہوگئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ کے رسول ڈرا نہیں کرتے۔ ( القصص : ٣١) جادوگروں کے مقابلے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا زمین پر پھینکا تو وہ رسیوں، بڑے بڑے بانسوں اور لاٹھیوں کو کھا گیا۔ جونہی رسیاں اور لاٹھیاں ختم ہوئیں تو جادوگر یہ کہتے ہوئے سجدہ میں گرگئے کہ ہم موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) کے رب پر ایمان لاتے ہیں۔ اگر وہ اس موقعہ پر اپنے رب یا رب العالمین کا لفظ استعمال کرتے تو فرعون لوگوں کو یہ کہہ کر دھوکہ دے سکتا تھا کہ جادوگر مجھے ہی رب العالمین سمجھ کر سجدہ کر رہے ہیں۔ لیکن جادوگروں نے بڑی بصیرت سے کام لیتے ہوئے یہ کہہ کر اپنے ایمان کا اعلان کیا کہ ہم حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کے رب پر ایمان لاتے ہیں تاکہ کسی قسم کا شبہ باقی نہ رہے۔ یہی سچے اور خالص ایمان کی نشانی ہے کہ اس میں کسی قسم کی کھوٹ اور شرک کی آمیزش نہیں ہوتی۔ جادوگر اس لیے بھی اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوئے تاکہ دیکھنے والوں کو معلوم ہو کہ جادوگروں نے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ اور اپنی ناکامی دیکھ کر جادوگر سجدہ میں گِر گئے۔ جس کے لئے گرا دینے کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ گویا کہ جادوگر اس قدر مغلوب ہوئے کہ بےساختہ سجدہ میں گِر پڑے۔ (الاعراف : ١٢٠) جونہی فرعون نے دیکھا کہ جادوگر حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کے رب پر ایمان لا چکے ہیں تو اس نے اپنی خفت مٹانے اور عوام پر کنٹرول قائم رکھنے کے لیے یہ اعلان کیا کہ تم میری اجازت کے بغیر ایمان لائے ہو جو میرے خلاف بہت بڑی سازش ہے۔ یقیناً موسیٰ تمہارا بڑا استاد ہے جس نے تمہیں جادو سکھلایا ہے۔ میں اس جرم کے بدلے تمہارے مخالف سمت پر ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالوں گا اور کھجور کے تنوں پر تمہیں پھانسی دی جائے گی۔ تمہیں پوری طرح معلوم ہوجائے گا کس کا عذاب سخت اور دیر پا ہے۔ (طٰہٰ : ٧١) تفسیر بالقرآن فرعون اور اس کے حواریوں کا انجام : ١۔ ہم نے ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کردیا اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (الاعراف : ٦٤) ٢۔ ہم نے فرعونیوں سے انتقام لیا اور انہیں دریا برد کردیا۔ (الزخرف : ٥٥) ٣۔ ہم نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کردیا۔ (بنی اسرائیل : ١٠٣) ٤۔ ہم نے موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (الشعراء : ٦٦) ٥۔ ہم نے انہیں اور ان کے لشکروں کو پکڑ کر دریا میں پھینک دیا۔ (الذاریات : ٤٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آل فرعون کی تکذیب اور ہلاکت وتعذیب ان آیات میں اولاً آل فرعون کا تذکرہ ہے یہ لوگ بھی اللہ تعالیٰ شانہ، کے باغی تھے۔ فرعون کی بڑی طاقت تھی اس کی جمعیت بھی تھی اسے اپنی طاقت پر بڑا گھمنڈ تھا وہ کہتا تھا کہ میں تمہارا سب سے بڑا پروردگار ہوں۔ اللہ تعالیٰ شانہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس کی طرف بھیجا انہوں نے اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دی اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلایا فرعون کا دبدبہ تو تھا ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات دیکھنے کے باوجود فرعون اور اس کی قوم کے بڑے لوگ دربار کے حاضر باش اور قوم کے سردار (جنہیں کئی جگہ ملاہٴ سے تعبیر فرمایا) لوگ ایمان نہیں لاتے تھے اور عوام الناس بھی ان کا اتباع کرتے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں ڈرایا دنیا کی بربادی اور آخرت کے عذاب میں مبتلا ہونے کی باتیں بتائیں ان کے ہاتھ پر متعدد معجزات بھی ظاہر ہوئے جن کا سورة الاعراف کی آیات ﴿وَ لَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ بالسِّنِيْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ ﴾ (الایات الثلث) میں تذکرہ فرمایا ہے ان لوگوں نے تمام آیات کو جھٹلا دیا، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے فرعون اور آل فرعون اور عسا کر فرعون یعنی اس کے لشکروں کو ڈبو دیا اس سے پہلے فرعون اور اس کے ساتھیوں کے غرق ہونے کا تذکرہ کئی جگہ قرآن مجید میں گزرچکا ہے۔ یہاں ان کی تکذیب اور تعذیب کا اجمالی تذکرہ فرمایا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖف 18:۔ ” ولقد جاء ال فرعون النذر “ یہ تخویف دنیوی کا پانچواں نمونہ ہے۔ فرعون اور اس کی قوم کے پاس بھی ہم نے ڈرنے والے بھیجے اور دلائل و معجزات سے اس کو سمجھایا۔ لیکن اس نے ہمارے تمام معجزات کا انکار کیا تو ہم نے ان کو دریا میں غرق کر کے جہنم میں ڈالا اور ان کو اس طرح پکڑا جس طرح ایک بڑا ہی طاقتور اور صاحب اقتدار بادشاہ مجرموں کو پکڑتا ہے جسے نہ کوئی مغلوب کرسکے اور نہ کوئی اسے انتقام سے روک سکے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(41) اور فرعون والوں کے پاس بھی بہت سے ڈرنے والی چیزیں پہنچیں۔ ڈرانے والی چیزیں یا تو پیغمبر جیسے موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) یا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نو نشانیاں فرعون بھی فرعونوالوں میں شریک ہے یعنی فرعون اور اس کے متعلقین کے پاس ڈرانے والی باتیں آئیں ڈرانے والی باتوں کا مطلب یہ ہے کہ ان نشانیوں کو دیکھ کر اور پیغمبروں کی باتیں سن کر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے اور ایمان لے آتے لیکن ہوا یہ