Surat ul Qamar

Surah: 54

Verse: 43

سورة القمر

اَکُفَّارُکُمۡ خَیۡرٌ مِّنۡ اُولٰٓئِکُمۡ اَمۡ لَکُمۡ بَرَآءَۃٌ فِی الزُّبُرِ ﴿ۚ۴۳﴾

Are your disbelievers better than those [former ones], or have you immunity in the scripture?

۔ ( اے قریشیو! ) کیا تمہارے کافر ان کافروں سے کچھ بہتر ہیں؟ یا تمہارے لئے اگلی کتابوں میں چھٹکارا لکھا ہوا ہے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَكُفَّارُكُمْ ... Are your disbelievers, meaning, `O idolators of the Quraysh,' ... خَيْرٌ مِّنْ أُوْلَيِكُمْ ... better than these, meaning better than the nations that were mentioned here, who were destroyed on account of their disbelief in the Messengers and rejecting the Scriptures. `Are you better than these?' ... أَمْ لَكُم بَرَاءةٌ فِي الزُّبُرِ Or have you immunity in the Divine Scriptures, `do you have immunity from Allah that the torment and punishment will not touch you?' Allah said about the Quraysh, أَمْ يَقُولُونَ نَحْنُ جَمِيعٌ مُّنتَصِرٌ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

43۔ 1 یہ استفہام انکار یعنی نفی کے لئے ہے، یعنی اے اہل عرب ! تمہارے کافر، گذشتہ کافروں سے بہتر نہیں ہیں، جب وہ اپنے کفر کی وجہ سے ہلاک کردیئے گئے، تو تم جب کہ تم ان سے بدتر ہو، عذاب سے سلامتی کی امید کیوں رکھتے ہو

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٠] اے مکہ کے کافرو ! اب تم بتاؤ کیا تم ان لوگوں سے زیادہ طاقتور ہو یا شان و شوکت رکھتے ہو ؟ پھر اگر وہ لوگ ہمارے عذاب سے نہیں بچ سکے تو تم کیسے بچ جاؤ گے ؟ یا ہم نے کسی آسمانی کتاب میں یا صحیفہ میں تمہارے حق میں یہ لکھ دیا ہے کہ تم دنیا میں جو چاہو کرتے پھرو ہم تم سے تعرض نہیں کریں گے۔ نہ ہی تمہیں کوئی سزا دیں گے اگر کوئی ایسی بات ہے تو دکھا دو ۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ اَکُفَّارُکُمْ خَیْرٌ مِّنْ اُولٰٓئِکُمْ : یہ خطاب قریش کے لوگوں سے ہے کہ ان اقوام پر کفر و تکذیب کے نتیجے میں یہ عذاب آئے ، اگر تم کفر اختیار کرو گے تو کیا تم میں سے کفر کرنے والے کسی بھی لحاظ سے ان سے بہتر ہیں کہ ان پر عذاب نہیں آئے گا ؟ استفہام انکاری ہے ، یعنی ایسا نہیں ہے۔ قریش کے علاوہ قیامت تک کے تمام لوگ بھی اس کے مخاطب ہیں ، کیونکہ وہ سب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت ِ دعوت ہیں۔ ٢۔ اَمْ لَکُمْ بَرَآئَ ۃٌ فِی الزُّبُرِ : یا پہلی آسمانی کتابوں میں تمہارے متعلق لکھا ہوا ہے کہ تم جو چاہو کرو ، تم پر پہلی قوموں کی طرح عذاب نہیں آئیں گے ؟ ظاہر ہے ایسا بھی نہیں ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Lexicological analysis The word زُبُر zubur (in verse 43) is the plural of zabur, which stands for any written book. It specifically refers to the Scripture that was revealed to Prophet Dawud (علیہ السلام) . أَدْهَىٰ وَأَمَرُّ‌ (...more calamitous and more bitter...54:46). The word adha means more or most calamitous. The word amarr is derived from murr which originally means &bitter&. By extension anything &difficult& or &painful& is also referred to as amarr and murr. In the phrase فِي ضَلَالٍ وَسُعُرٍ‌ fi dalalin wa su&ur, dalal, as is known, means &error& or &deviation& and the word su&ur in the present context means the &Hell-Fire1.& In the phrase ashya&akum, (verse 51) ashya` is the plural of shi&ah, and it means a &follower&, that is, those who follow their pattern of life. (1). This is according to one interpretation. The other meaning of the word is &madness& and the translation in the text is based on this meaning. (Muhammad Taqi Usmani In the phrase مَقْعَدِ صِدْقٍ maq` adi-sidqin, the word maq&ad means &seat& and the word sidq means &truth& and implies the &seat of truth& where there will be no idle and obscene talks.

خلاصہ تفسیر یہ کفار کے قصے اور کفر کی وجہ سے ان پر عذاب ہونے کے واقعات تو تم نے سن لئے اب جبکہ تم بھی اسی جرم کفر کے مرتکب ہو تو تمہارے عذاب سے بچنے کی کوئی وجہ نہیں کیا تم میں جو کافر ہیں ان میں ان (مذکورہ پچھلے لوگوں سے کچھ فضیلت ہے (جس کی وجہ سے تم باوجود ارتکاب جرم کے سزا یاب نہ ہو) تمہارے لئے (آسمانی) کتابوں میں کوئی معافی (نامہ لکھ دیا) ہے (گو کوئی خاص فضیلت نہ ہو) یا (ان میں کوئی ایسی قوت ہے جو ان کو عذاب سے بچالے جیسا) یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری ایسی جماعت ہے جو غالب ہی رہیں گے (اور جب کہ ان کے مغلوب ہونے کے دلائل واضح موجود ہیں اور خود بھی اپنی مغلوبیت کا ان کو یقین ہے تو پھر ایسی بات کہنا اس کو مستلزم ہے کہ ان میں کوئی ایسی قوت ہے جو عذاب کو روک سکتی ہے، یہ تین احتمال ہیں عذاب سے بچنے کے بتاؤ کہ ان میں سے کون سی صورت واقع میں ہے، پہلے دو احتمالوں کو بطلان تو ظاہر و باہر ہے، رہا تیسرا احتمال سو اسباب عادیہ کے اعتبار سے گو فی نفسہ ممکن ہے مگر بدلالت دلائل وقوع اس کا نہ ہوگا، بلکہ اس کے عکس کا وقوع ہوگا، جس سے ان کا کذب ظاہر ہوجاوے گا اور وہ عکس کا وقوع اس طرح ہوگا کہ) عنقریب (ان کی) یہ جماعت شکست کھاوے گی اور پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے (اور یہ پیشین گوئی بدر و احزاب وغیرہ میں واقع ہوئی اور یہی نہیں کہ اس دنیوی عذاب پر بس ہو کر رہ جاوے گا) بلکہ (عذاب اکبر) قیامت (میں ہوگا کہ) ان کا (اصل) وعدہ (وہی) ہے اور قیامت (کو کوئی ہلکی چیز نہ سمجھو بلکہ وہ) بڑی سخت اور ناگوار چیز ہے (اور یہ موعود ادھیٰ وَ اَمر ضرور واقع ہونے والا ہے اور اس کے وقوع کے انکار میں) یہ مجرمین (یعنی کفار) بڑی غلطی اور بےعقلی میں (پڑے) ہیں (اور وہ غلطی ان کو عنقریب جب علم الیقین مبدل بہ عین الیقین ہوگا ظاہر ہوجاوے گی اور وہ اس طرح ہوگا کہ) جس روز یہ لوگ اپنے مونہوں کے بل جہنم میں گھسیٹے جاویں گے تو ان سے کہا جاوے گا کہ دوزخ (کی آگ) کے لگنے کا مزہ چکھو (اور اگر ان کو اس سے شبہ ہو کہ قیامت ابھی کیوں نہیں واقع ہوتی تو وجہ اس کی یہ ہے کہ) ہم نے ہر چیز کو (باعتبار زمان وغیرہ کے ایک خاص) انداز سے پیدا کیا ہے (جو ہمارے علم میں ہے، یعنی زمانہ وغیرہ اس کا اپنے علم میں معین و مقدر کیا ہے، اسی طرح قیامت کے وقوع کے لئے بھی ایک وقت معین ہے، پس اس کا عدم وقوع فی الحال بوجہ اس کے وقت نہ آنے کے ہے، یہ دھوکہ نہ کھانا چاہئے کہ قیامت کا وقوع ہی نہ ہوگا) اور (جب اس کا وقت آجائے گا تو اس وقت) ہمارا حکم (اس وقوع کے متعلق) بس ایسا یکبارگی ہوجائے گا جیسے آنکھ کا جھپکانا (غرض وقوع کی نفی تو باطل ٹھہری) اور (اگر تم کو یہ شبہ ہو کہ ہمارا طریقہ اللہ کے نزدیک ناپسند اور مبغوض نہیں ہے تو اگر قیامت کا وقوع بھی ہو تب بھی ہم کو کوئی فکر نہیں، تو اس باب میں سن رکھو کہ) ہم تمہارے ہم طریقہ لوگوں کو ( اپنے عذاب سے) ہلاک کرچکے ہیں (جو دلیل ہے اس طریقہ کی مبغوض ہونے کی اور وہی تمہارا طریقہ ہے اس لئے مبغوض ہے اور یہ دلیل نہایت واضح ہے) سو کیا (اس دلیل سے) کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے اور (یہ بھی نہیں ہے کہ ان کے اعمال علم الٰہی سے غائب رہ جاویں، جس کی وجہ سے اللہ کے نزدیک ان کے طریقہ کے مبغوض ہونے کے باوجود سزا سے بچ جانے کا احتمال ہو بلکہ) جو کچھ بھی یہ لوگ کرتے ہیں سب (حق تعالیٰ کو معلوم ہے) اعمال ناموں میں (بھی مندرج) ہے اور (یہ نہیں کہ کچھ لکھ لیا گیا ہو کچھ رہ گیا ہو بلکہ) ہر چھوٹی اور بڑی بات (اس میں) لکھی ہوئی ہے (پس وقوع عذاب میں کوئی شبہ نہ رہا یہ تو کفار کا حال ہوا اور جو) پرہیزگار لوگ (ہیں وہ بہشت کے) باغوں میں اور نہروں میں ہوں گے، ایک عمدہ مقام میں قدرت والے بادشاہ کے پاس (یعنی جنت کے ساتھ قرب حق تعالیٰ بھی ہوگا) معارف ومسائل بعض لغات کی تشریح : زُبُر زبور کی جمع ہے، لغت میں ہر لکھی ہوئی کتاب کو زبور کہتے ہیں اور اس خاص کتاب کا نام بھی زبور ہے جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی۔ اَدْهٰى وَاَمَرُّ ، ادھی کے معنی زیادہ ہیبت ناک اور اَمَر مُرُّ سے ماخوذ ہے، جس کے اصلی معنی کڑوے کے ہیں اور ہر سخت اور تکلیف دہ چیز کو بھی مر اور امر کہہ دیا جاتا ہے، فِيْ ضَلٰلٍ وَّسُعُرٍ ، ضلال کے معنی معروف ہیں گمراہی اور سعر کے معنی اس جگہ جہنم کی آگ کے ہیں، اَشْيَاعَكُمْ ، اشیاع، شیعہ کی جمع ہے، جس کی معنی متبع اور پیروکار کے ہیں، مراد وہ لوگ ہیں جو عمل میں ان کے متبع یا مثل ہیں، مَقْعَدِ صِدْقٍ ، مقعد کے معنی مجلس اور مقام کے ہیں اور صدق بمعنی حق ہے، مراد یہ ہے کہ یہ مجلس حق ہوگی جس میں کوئی لغو و بیہودہ بات نہ ہوگی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِّنْ اُولٰۗىِٕكُمْ اَمْ لَكُمْ بَرَاۗءَۃٌ فِي الزُّبُرِ۝ ٤٣ ۚ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ أَمْ»حرف إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه : أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص/ 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ } ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔ برأ أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون . قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة/ 1] ، ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ { بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ } ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ زبر الزُّبْرَةُ : قطعة عظیمة من الحدید، جمعه زُبَرٌ ، قال : آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] ، وقد يقال : الزُّبْرَةُ من الشّعر، جمعه زُبُرٌ ، واستعیر للمجزّإ، قال : فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُراً [ المؤمنون/ 53] ، أي : صاروا فيه أحزابا . وزَبَرْتُ الکتاب : کتبته کتابة غلیظة، وكلّ کتاب غلیظ الکتابة يقال له : زَبُورٌ ، وخصّ الزَّبُورُ بالکتاب المنزّل علی داود عليه السلام، قال : وَآتَيْنا داوُدَ زَبُوراً [ النساء/ 163] ، وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] ، وقرئ زبورا «1» بضم الزاي، وذلک جمع زَبُورٍ ، کقولهم في جمع ظریف : ظروف، أو يكون جمع زِبْرٍ «2» ، وزِبْرٌ مصدر سمّي به کالکتاب، ثم جمع علی زُبُرٍ ، كما جمع کتاب علی كتب، وقیل : بل الزَّبُورُ كلّ کتاب يصعب الوقوف عليه من الکتب الإلهيّة، قال : وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء/ 196] ، وقال : وَالزُّبُرِ وَالْكِتابِ الْمُنِيرِ [ آل عمران/ 184] ، أَمْ لَكُمْ بَراءَةٌ فِي الزُّبُرِ [ القمر/ 43] ، وقال بعضهم : الزَّبُورُ : اسم للکتاب المقصور علی الحکم العقليّة دون الأحكام الشّرعيّة، والکتاب : لما يتضمّن الأحكام والحکم، ويدلّ علی ذلك أنّ زبور داود عليه السلام لا يتضمّن شيئا من الأحكام . وزِئْبُرُ الثّوب معروف «1» ، والْأَزْبَرُ : ما ضخم زُبْرَةُ كاهله، ومنه قيل : هاج زَبْرَؤُهُ ، لمن يغضب «2» . ( زب ر) الزبرۃ لوہے کی کڑی کو کہتے ہیں اور اس کی جمع زبر آتی ہے قرآن میں ہے :۔ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96]( اچھا ) لوہے کی سلیں ہم کو لادو ۔ اور کبھی زبرۃ کا لفظ بالوں کے گچھا پر بولا جاتا ہے اس کی جمع ، ، زبر ، ، آتی ہے اور استعارہ کے طور پر پارہ پارہ کی ہوئی چیز کو زبر کہاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُراً [ المؤمنون/ 53] پھر لوگوں نے آپس میں پھوٹ کرکے اپنا ( اپنا ) دین جدا جدا کرلیا ۔ زبرت الکتاب میں نے کتاب کو موٹے خط میں لکھا اور ہر وہ کتاب جو جلی اور گاڑھے خط میں لکھی ہوئی ہو اسے زبور کہاجاتا ہے لیکن عرف میں زبور کا لفظ اس آسمانی کتاب کے لئے مخصوص ہوچکا ہے ۔ جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَآتَيْنا داوُدَ زَبُوراً [ النساء/ 163] اور ہم نے داود (علیہ السلام) کو زبور عطا کی ۔ وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی توراۃ ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ اس میں ایک قرات زبور ( بضمہ زاء ) بھی ہے ۔ جو یا تو زبور بفتحہ زا کی جمع ہے جیسے طریف جمع ظرورف آجاتی ہے اور یا زبر ( بکسر ہ زا) کی جمع ہے ۔ اور زبد گو اصل میں مصدر ہے لیکن بطور استعارہ اس کا اطاق کتاب پر ہوتا ہے جیسا کہ خود کتاب کا لفظ ہے کہ اصل میں مصدر ہے ۔ لیکن بطور اسم کے استعمال ہوتا ہے پھر جس طرح کتاب کی جمع کتب آتی ہے اسطرح زبر کی جمع زبد آجاتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ زبور کتب الہیہ میں سے ہر اس کتاب کو کہتے ہیں جس پر واقفیت دشوار ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء/ 196] اس میں شک نہیں کہ یہ ( یعنی اس کی پیشین گوئی ) اگلے پیغمبروں کی کتابوں میں موجود ہے ۔ وَالزُّبُرِ وَالْكِتابِ الْمُنِيرِ [ آل عمران/ 184] اور صحیفے اور روشن کتاب لائے تھے ۔ أَمْ لَكُمْ بَراءَةٌ فِي الزُّبُرِ [ القمر/ 43] یا تمہارے لئے صحیفوں میں معافی ( لکھی ہوئی ) ہے ۔ اور بعض کا قول ہے کہ زبور اس کتاب کا نام ہے جو صرف حکم عقلیہ پر مشتمل ہو اور اس میں احکام شرعیہ نہ ہوں ۔ اور الکتاب ہر اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو احکام حکم دونوں پر مشتمل ہو ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی زبور میں کوئی حکم شرعی نہیں ہے ۔ زئبرالثوب کپڑے کارواں ۔ اسی سے کہاجاتا ہے ھاج زئبرہ وہ غصہ سے بھڑک اٹھا ۔ اور بڑے کندھوں والے شخص کو ازبر کہاجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٣۔ ٤٥) اے مکہ والو کیا تم میں جو کافر ہیں ان میں ان مذکورہ لوگوں سے کچھ فوقیت ہے یا تمہارے لیے آسمانی کتابوں میں عذاب سے کچھ معافی لکھی ہوئی ہے ( یا ایسی حالت ہے) جیسا کہ یہ کفار مکہ کہتے ہیں کہ ہماری ایسی جماعت ہے جو عذاب کو دور کرنے والی ہے تو سن لو کہ بدر کے دن کفار کی یہ جماعت شکست کھا جائے گی اور یہ ابوجہل وغیرہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ ان میں سے بعض تو بدر کے دن مارے گئے اور بعض شکست کھا کر بھاگ گئے۔ شان نزول : سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ (الخ) اور بن جریر نے ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ بدر کے دن کفار نے کہا کہ ہماری ایسی جماعت ہے جو غالب ہی رہے گی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٣ { اَکُفَّارُکُمْ خَیْرٌ مِّنْ اُولٰٓئِکُمْ } ” (تو اے قریش ! ) کیا تمہارے کفار اُن (کفار) سے کچھ بہتر ہیں ؟ “ زمانہ سابق میں جن قوموں نے کفر کی روش اختیار کی ان کے انجام سے متعلق تمام تفصیلات تم لوگ جان چکے ہو۔ اب ذرا سوچو کہ تم میں سے جو لوگ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کر کے کفر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ کیا وہ کسی خاص خوبی کے حامل ہیں کہ گزشتہ کافر اقوام کی طرح ان پر عذاب نہیں آئے گا ؟ { اَمْ لَـکُمْ بَرَآئَ ۃٌ فِی الزُّبُرِ ۔ } ” یا تمہارے لیے سابقہ الہامی کتب میں کوئی فارغ خطی آچکی ہے ؟ “ تم میں آخر کیا خوبی ہے کہ جس تکذیب اور ہٹ دھرمی کی روش پر پچھلی قوموں کو سزا دی گئی ہے وہی روش تم اختیار کرو تو تمہیں سزا نہ دی جائے ؟ کیا تمہارے لیے آسمانی صحیفوں میں کوئی براءت نامہ لکھا ہوا ہے کہ تم پر عذاب نہیں آئے گا ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

23 The address here is directed to the Quraish, as if to say; "When the other nation have been punished for adopting disbelief and showing stubbornness and denying the Truth, why would you not be punished if you adopted the same attitude and conduct ? For you arc not a special people in any way."

سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :23 خطاب ہے قریش کے لوگوں سے ۔ مطلب یہ ہے کہ تم میں آخر کیا خوبی ہے ، کون سے لعل تمہارے لٹکے ہوئے ہیں کہ جس کفر اور تکذیب اور ہٹ دھرمی کی روش پر دوسری قوموں کو سزا دی جا چکی ہے وہی روش تم اختیار کرو تو تمہیں سزا نہ دی جائے ؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

11: پچھلی امتوں کے واقعات بیان فرمانے کے بعد مکہ مکرمہ کے کافروں سے کہا جا رہا ہے کہ جن قوموں کو ہلاک کیا گیا ہے، تم میں ان کے مقابلے میں کونسی اچھائی ہے جس کی بنا پر تمہیں عذاب سے محفوظ رکھا جائے؟ اور کیا تمہارے بارے میں کسی آسمانی کتاب میں کوئی معافی یا بے گناہی کا وعدہ کرلیا گیا ہے؟

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(54:43) اکفارکم : استفہام انکاری ہے کم ضمیر جمع مذکر حاضر، مسلمانوں کے لئے ہے۔ یعنی اے مسلمانو ! اور کفار سے مراد قبیلہ قریش ہے۔ یعنی اے مسلمانو ! کیا یہ قبیلہ قریش کے تمہارے یہ کافر۔ اولئکم : اولاء اسم اشارہ جمع قریب ، مذکر ومؤنث دونوں کے لئے آتا ہے۔ کم خطاب لاحق کرکے اولئکم بولا جاتا ہے۔ مشار الیہم قوم نوح، عاد وثمود، قوم لوط اور آل عمران ہے۔ خیر۔ بمعنی قوت۔ تعداد۔ رتبے میں بہتر۔ ام ۔ حرف عطف ہے۔ یا کیا۔ استفہام کے معنی دیتا ہے۔ لکم میں خطاب اہل مکہ سے ہے۔ (یعنی اے کفار اہل مکہ، کیا تمہارے لئے) ۔ براء ۃ۔ (ب ر ء مادہ) بری یبرا (باب سمع) سے مصدر ۔ بمعنی خلاصی پانا۔ (قرض وغیرہ سے) بری ہونا۔ (بیماری سے) صحت پانا۔ چھٹکارا پانا۔ بیزاری ۔ بےزار ہونا۔ اصل میں اس کے معنی ہر اس چیز سے جس کا پاس رہنا برا لگتا ہو چھٹکارا پانے کے ہیں۔ جیسے براء ۃ من اللہ ورسولہ (9:1) اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے۔ یا۔ ان اللہ بری من المشرکین (9:3) اللہ مشرکوں سے بیزار ہے۔ چھٹکارا پانے کے معنی میں جیسے برأت من المرض۔ مجھے مرض سے چھٹکارا حاصل ہوگیا۔ یعنی میں تندرست ہوگیا۔ الزبر جمع ہے زبور کی بمعنی کتابیں ۔ آسمانی کتابیں۔ فی الزبر صفت ہے براء ۃ کی (ای براء ۃ مکتوبۃ فی ال اوراق او الکتب السماویۃ المنزلۃ علی الانبیاء السابقین (تفسیر حقانی) یعنی ایسی معانی جو کتب مساویہ میں مکتوب ہے جو کتب پچھلے پیغمبروں پر آسمان سے نازل ہوئیں) ۔ آیت کا مطلب ہوگا : یا کیا تمہارے لئے آسمانی کتابوں میں (اللہ کی طرف سے) معانی لکھی ہوئی ہے کہ تم میں سے کوئی اگر پیغمبروں کی تکذیب بھی کرے گا یا کفر کا ارتکاب کریگا تب بھی اس کو عذاب نہیں دیا جائے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی کیا بل بوتے میں ان سے بڑھ کر ہیں کہ ان کی کوئی گرفت نہ کی جاسکے۔ 5 یعنی اجازت دے دی گئی ہے کہ جو چاہو کرتے ہو تمہاری کوئی گرفت نہ ہوگی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 43 تا 55 برآءۃ معافی ہے۔ الزبر کتابیں، صحیفے۔ منتصر غالب رہنے والا۔ سیھزم بہت جلد وہ شکست کھائے گا۔ ادھی زیادہ مصیبت والا۔ سعر پاگل پن۔ یسبحون وہ گھسیٹیں گے۔ سقر جہنم کی آگ کلمح بالبصر جیسے آنکھ کی آگ کلمح بالبصر جیسے آنکھ کا جھپکنا اشیاع ساتھی۔ مستطر لکھا گیا۔ مقعد بیٹھنے کی جگہ، ٹھکانا تشریح : آیت نمبر 43 تا 55 اللہ تعالیٰ نے دنیا کی چار ایسی طاقت ور اور دنیاوی وسائل سے بھرپور قوموں قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط اور قوم فرعون کا ذکر کرنے کے بعد مکہ کے رہنے والے کفار و مشرکین سے فرمایا ہے کہ اتنی طاقت ور قوموں کا بدترین انجام اور ان کے کھنڈرات پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اللہ کے نظام قدرت کے سامنے دنیا کی کسی طاقت کی ماجال نہیں ہے کہ اس کا فیصلہ آنے کے بعد ایک لمحے بھی اپنا وجود برقرار کھ سکے۔ فرمایا کہ ان طاقت ور قوموں کے سامنے تمہاری معمولی سرداریوں اور مال و دولت کی کیا حیثیت ہے ؟ بتائو طاقت و قوت کے لحاظ سے وہ بہتر تھے یا تم ہو ؟ تم اپنی شرارتوں اور کفر و شرک کے باوجود اتنے مطمئن بیٹھے ہو اور اللہ کے رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت کا انکار کر رہے ہو کیا تمہارے پاس تمہاری کتابوں میں کوئی ایسا معافی نامہ لکھا ہوا موجود ہے کہ ہر ایک پر عذاب آئے گا اور تمہاری نافرمانیوں کے باوجود تم پر اللہ کا وہ عذاب نہیں آئے گا جو گذری ہوئی قوموں پر آیا تھا۔ فرمایا کہ شاید تمہاری یہ غلط فہمی ہے کہ تمہاری جماعت ، جتھا اور گروہ بہت مضبوط ہے اور تمہیں کوئی شکست نہیں دے سکتا تو یاد رکھو بہت جلد تمہارا یہ جتھا زبردست شکست سے دوچار ہوگا اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگتے نظر آئو گے۔ جب اللہ کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں کہ میں حیران تھا کہ آخر یہ کون سی جماعت اور جتھا ہوگا جو شکست کھائے گا۔ مگر غزوہ بدر کے موقع پر جب کفار مکہ شکست کھا کر بھاگ رہے تھے اس وقت میں نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زرہ پہنے ہوئے اگٓے کی طرف جھپٹ رہے ہیں اور آپ کی زبان مبارک پر یہ الفاظ تھے ” سیھزم الجمع و یولون الدبر “ حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں کہ تب میں سمجھا کہ یہ تھی کفار کی وہ شکست جس کی پہلے سے خبر دیدی گئی تھی۔ فرمایا کہ یہ تو کفار مکہ کے کفر و شرک کی وہ سزا ہے جو غزوہ بدر اور غزوہ احزاب میں دی گئی اصل سزا تو قیامت کے دن دی جائے گی جب ان کافروں کو اوندھے منہ جہنم کی طرف گھسیٹتے ہوئے کہا جائے گا کہ لو اب اس عذاب کا مزہ چکھو جس کا تم انکار کیا کرتے تھے۔ قیامت کے دن کا انکار کرنے والوں نے سے فرمایا ہے کہ اس دنیا میں ہم نے ایک قانون اور ضابطہ بنا رکھا ہے جو ” تقدیر الٰہی “ ہے۔ اس دنیا میں ہر چیز پیدا ہوتی ہے بڑھتی، گھٹتی اور آخر کار ختم ہوجاتی ہے۔ یہی تقدیر الٰہی اس دنیا کے ساتھ بھی مقرر ہے کہ یہ دنیا چلتی رہے گی لیکن وہ وقت دور نہیں ہے جب اس دنیا کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا تو یہ دنیا ختم ہوجائے گی کیوں کہ جب وہ کسی بات کا فیصلہ کرلیتا ہے تو اس کے ہونے کا حکم دیتا ہے اور جتنی دیر میں پلک جھپکتی ہے اس سے بھی پہلے وہ چیز واقع ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جب قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط اور قوم فرعون اور دوسری نافرمان قوموں کو تباہ و برباد کردینے کا فیصلہ کیا گیا تو اللہ کے ایک حکم سے پلک جھپکتے ان قوموں اور ان کی طاقتوں کو تباہ برباد کردیا گیا۔ فرمایا کہ ان تاریخی واقعات سے اور قرآن کریم کی آیات سے اگر کوئی نصیحت حاصل کر کے اپنی اصلاح کرلیتا ہے تو یہ اس کی خوش نصیبی ہے ورنہ ہر وہ کام جو انہوں نے دنیا میں کئے ہیں جن کا پورا پورا ریکارڈ اللہ کے پاس محفوظ ہے خواہ وہ بات چھٹوی تھی یا بڑی ہر چیز لکھی لکھائی محفوظ ہے اس کے مطابق اس قیامت کے دن سزا یا جزا دی جائے گی۔ آخر میں فرمایا کہ وہ لوگ جنہوں نے تقویٰ اور پرہیز گاری کی زندگی گذاری ہوگی وہ قیامت کے دن جنت کے خوبصورت باغوں اور بہتے ہئوے حسین چشموں کے درمیان عیش و آرام سے ہوں گے۔ انہیں عزت کا مقام عطا کیا جائے گا اور ان کو ایک ایسے بادشاہ (یعنی اللہ) کا قرب نصیب ہوگا جو بڑی قدرت و طاقت والا ہے۔ واخر دعانا ان الحمد للہ رب العالمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط اور آل فرعون کا انجام ذکر کرنے کے بعد اہل مکہ کو زبردست انتباہ اور ایک سوال۔ آل فرعون کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ جب انہوں نے ہماری تمام نشانیوں اور ارشادات کو جھٹلادیا تو ہم نے انہیں اس طرح پکڑا جس طرح ایک طاقت ور اور غالب قوت والا پکڑا کرتا ہے۔ اے مسلمانو ! کیا تمہارا مقابلہ کرنے والے کفار قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط اور آل فرعون سے بہتر اور زیادہ طاقت ور ہیں ؟ یا پھر پہلی کتابوں میں ان کے لیے کوئی معافی نامہ لکھ دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم بڑی مضبوط جماعت ہیں۔ انہیں کان کھول کر سن لینا چاہیے کہ وہ وقت دور نہیں کہ جب انہیں شکست فاش ہوگی اور یہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔ قرآن مجید نے اہل مکہ کو یہ وارننگ اس وقت دی جب کوئی شخص یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اہل مکہ کا اس قدر برا انجام ہوگا کیونکہ یہ سورت نبوت کے ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی اور اس وقت مسلمانوں کی کسم پرسی کا حال یہ تھا کہ انہیں سر عام پیٹا جاتا تھا یہاں تک کہ کفار کے مظالم سے تنگ آکر کچھ لوگ حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) اور حضرت سعد (رض) اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں کہ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو ہماری سجھ میں یہ بات نہ آئی کہ ان آیات میں کون سی جماعت مراد ہے کہ جس کا برا انجام ہوگا۔ لیکن ان آیات کے نزول کے سات سال بعد بدر کے میدان میں یہ حقیقت کھل گئی کہ ان آیات کے مخاطب یہی لوگ تھے جن کا انجام ہمارے سامنے آچکا ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے میدان میں انہی آیات کی تلاوت کی تھی۔ (تفسیرقرطبی، سورة القمر : ٤٣ تا ٤٦) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کافر کو اپنی پکڑ سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے بڑی بڑی اقوام اور اہل مکہ کو ذلیل کردیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے سامنے بڑی سے بڑی جماعت اور قوت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فرعون کے قصے کا آغاز و انجام اس قدر احتصار کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس ڈرانے والے آتے ہیں۔ وہ نشانیاں پیش کرتے ہیں۔ وہ ان تمام نشانیوں کو جھٹلاتے ہیں اور اللہ نے ان کو اس طرح پکڑا جس طرح ایک حقیقی اقتدار رکھنے والا پکڑتا ہے۔ عزت اور اقتدار کی طرف اشارہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کو نہایت ہی سختی سے پکڑا گیا اور اشارہ اسی طرف ہے کہ فرعون بڑی عزت ، قوت اور اقتدار اعلیٰ کی باتیں کرتا تھا جبکہ یہ سب امور اللہ کو حاصل ہیں۔ اللہ کے سامنے اس کی باطل عزت نہ رہی ، اس کا جھوٹا اقتدار اعلیٰ گر گیا اور حقیقی مقتدر اعلیٰ نے اسے خوب پکڑا اور بڑی شدت اور عبرت اموزی سے پکڑا جس طرح انہوں نے مصر میں سختی ، ظلم اور قہاری وجباری سے غریبوں پر ظلم شروع کررکھا تھا۔ اسی طرح اللہ نے ان کو بھی نابود کردیا۔ اب اس آخری منظر پر پردہ گرتا ہے۔ یہ فرعون جبار کا منظر اور اس کی ایک جھلک ہے۔ انسانی تاریخ میں منکرین کے عذاب کے مناظر میں سے یہ آخری منظر تھا۔ تمام منکرین کی یاد قارئین کے ذہنوں میں تازہ ہے اور سننے والوں اور دیکھنے والوں کا احساس ابھی ان نقوش سے منقش ہے کہ اہل مکہ کو خطاب شروع ہوجاتا ہے۔ ان کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ تم بھی اسی طرح نیست ونابود ہوسکتے ہو اگر تم باز نہ آئے بلکہ تمہاری جو حرکتیں ہیں ان کا تقاضا تو یہ ہے کہ تم پر اس سے بھی بھیانک عذاب آئے :۔ اکفارکم ................ مستطر (٣ 5) 45: ٣ 4 تا 55) ” کیا تمہارے کفار کچھ ان لوگوں سے بہتر ہیں ؟ یا آسمانی کتابوں میں تمہارے لئے کوئی معافی لکھی ہوئی ہے ؟ یا ان لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ ہم ایک مضبوط جتھا ہیں ، اقنا بچاؤ کرلیں گے ؟ عنقریب یہ جتھا شکست کھا جائے گا اور یہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگتے نظر آئیں گے بلکہ ان سے نمٹنے کے لئے اصل وعدے کا وقت تو قیامت ہے اور وہ بڑی آفت اور زیادہ تلخ ساعت ہے۔ یہ مجرم لوگ درحقیقت غلط فہمی میں مبتلا ہیں اور ان کی عقل ماری گئی ہے۔ جس روز یہ منہ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے ، اس روز ان سے کہا جائے گا کہ اب چکھو جہنم کی لپٹ کا مزا “۔ ہم نے ہر چیز ایک تقدیر کے ساتھ پیدا کی ہے اور ہمارا حکم بس ایک ہی حکم ہوتا ہے اور پلک جھپکاتے وہ عمل میں آجاتا ہے۔ تم جیسے بہت سوں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں پھر ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا ؟ جو کچھ انہوں نے کیا ہے وہ سب دفتروں میں درج ہے اور ہر چھوٹی بڑی بات لکھی ہوئی موجود ہے۔ یہ دنیا اور آخرت دونوں کے عذابوں سے ڈراوا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس سے نکل بھاگنے کا کوئی راستہ اور سوراخ نہیں ہے اور نہ بھاگنے یا بچ جانے کی کوئی امید ہوسکتی ہے۔ نہ حساب و کتاب میں کوئی چابکدستی دکھائی جاسکتی ہے اور اس طرح سزا سے بچا جاسکتا ہے۔ تم نے دیکھ لیا امم سابقہ کے جھٹلانے والوں پر کیا گزری۔ آخر تمہارے پاس کیا گارنٹی ہے کہ تم اسی انجام سے دوچار نہ ہوگے۔ اکفار ............ اولئکم (45: ٣ 4) ” تمہارے کفار کچھ ان لوگوں سے بہتر ہیں “ امم سابقہ کے جو کفار اسی طرح نیست ونابود ہوئے تم ان سے کس پہلو میں اچھے ہو۔ ام لکم ............ الدبر (45: ٣ 4) ” یا آسمانی کتابوں میں تمہارے لئے کوئی معافی لکھی ہوئی ہے ’“ اور جس پر یہ منزل صحیفے گواہ ہیں کہ تم کفر اور تکذیب کے انجام سے بری الذمہ ہوجاؤ گے۔ نہ یہ بات ہے اور نہ وہ ہے۔ نہ تم ان سے اچھے ہو اور نہ ان صحیفوں میں تمہاری برات لکھی ہوئی ہے۔ بس یہی صورت ہے کہ تم بھی اسی انجام سے دو چار ہوجاؤ جس سے وہ دو چار ہوئے جس طرح اللہ نے مقدر فرمایا ہے۔ اب یہ خطاب عام کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور اس میں ان کے معاملے پر سخت تعجب کا اظہار کیا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل مکہ سے خطاب تم بہتر ہو یا ہلاک شدہ قومیں بہتر تھیں : اس کے بعد اہل مکہ سے خطاب فرمایا ﴿اَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِّنْ اُولٰٓىِٕكُمْ ﴾ کہ اے اہل مکہ حضرت نوح اور حضرت ہود اور حضرت صالح کی قومیں اور فرعون اور آل فرعون یہ سب لوگ جو ہلاک کیے گئے ان کے اور اپنے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ تمہارے کافر بہتر ہیں یا وہ لوگ بہتر تھے، یعنی ان کی قوت اور سامان اور تعداد زیادہ نہ تھی ؟ یا تم ان سے قوت میں بڑھ کر ہو ؟ یہ استفہام انکاری ہے مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ قوت و طاقت اور مال واسباب میں تم سے کہیں زیادہ تھے، انہوں نے حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی تکذیب کی، تکذیب اور انکار کی وجہ سے ہلاک کردیئے گئے، تم نے اپنے بارے میں جو یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم پر کفر کا وبال نازل نہ ہوگا غور کرلو اور سوچ لو کیا تمہارا یہ سمجھنا صحیح ہے ؟ خوب سمجھ لو یہ صحیح نہیں ہے۔ گھمنڈ میں مت رہو۔ ﴿اَمْ لَكُمْ بَرَآءَةٌ فِي الزُّبُرِۚ٠٠٤٣﴾ (کیا تمہارے پاس معافی کی ایسی کوئی دلیل ہے جو پرانی کتابوں سے منقول ہو) جس پر بھروسہ کرکے تم یہ کہتے ہو کہ پرانی قوموں پر جو عذاب آیا وہ تم پر نہیں آئے گا اور کفر کے باوجود تم محفوظ رہو گے، یہ بھی استفہام انکاری ہے اور مطلب یہ ہے کہ تمہارے پاس ایسی کوئی بات بھی محفوظ نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی سابقہ کتب سے منقول ہو جس میں یہ لکھا ہو کہ تم لوگ عذاب میں مبتلا نہ ہو گے، نہ قوت میں ان لوگوں سے بڑھ کر ہو نہ تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو سابقہ کتب سے منقول ہو جو کفر کے باوجود تمہاری حفاظت کی ذمہ دار اور ضمانت لے رہی ہو، جب دونوں باتیں نہیں ہیں تو کفر پر اصرار کرنا حماقت نہیں تو کیا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

19:۔ ” اکفارکم۔ الایۃ “ یہ التفات اہل مکہ کی طرف ہے اور زجر ہے اے عرب کے لوگو ! کیا تمہاری قوم کے کفار قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط اور قوم فرعون کے کفار سے اچھے ہیں اور ان سے زیادہ زور آور اور طاقتور ہیں کہ اپنی قوت و طاقت اور دنیوی شان و شوکت کے بل بوتے پر وہ ہمارے عذاب سے بچ جائیں گے۔ یا کسی آسمانی کتاب میں ان کے لیے عذاب سے بچ جائیں گے۔ یا کسی آسمانی کتاب میں ان کے لیے عذاب سے معافی کا کوئی پروانہ نازل ہوچکا ہے ؟ استفہام انکاری ہے یعنی دونوں میں سے کوئی بات بھی نہیں اس لیے اے کفار عرب تم اللہ کے عذاب سے ہرگز نہیں بچ سکو گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(43) کیا تمہارے کافران سب کافروں سے بہتر ہیں یا تمہارے لئے کتب سماویہ اور گزشتہ کتابوں میں کوئی معافی اور خلاصی کا اور فار غخطیکا کوئی پروانہ درج ہے۔ یعنی تم نے گزشتہ کفار کی عقوبت اور ان کے عذاب کے قصے اور واقعات سن لئے اب بتائو وہ بہتر تھے یا تم ان سے بہتر ہو اور تم کو ان پر کچھ فضیلت حاصل ہے جو تم کو عذاب سے بچالے گی یا یہ کہ تمہارے لئے کتب سابقہ میں کوئی پروانہ درج ہے اور کوئی خلاصی لکھ دی گئی ہے کہ عرب کے کافروں اور منکروں پر کوئی عذاب نہیں آئے گا اور یہ کبھی نہیں پکڑے جائیں گے اور ان کی کبھی گرفت نہ ہوگی حالانکہ یہ دونوں باتیں نہیں ہیں نہ تم ان گزشتہ مجرموں سے بہتر ہو اور نہ تمہاری خلاصی اور معافی کا آسمانی کتابوں میں کوئی پروانہ اور نوشتہ موجود ہے پھر تم اس قدر نڈر اور بےباک کیوں ہوا اور یوں کیوں کہتے ہو جیسا کہ آگے ان کا قول مذکور ہے۔