Surat ur Rehman

Surah: 55

Verse: 33

سورة الرحمن

یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ اِنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ اَنۡ تَنۡفُذُوۡا مِنۡ اَقۡطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ فَانۡفُذُوۡا ؕ لَا تَنۡفُذُوۡنَ اِلَّا بِسُلۡطٰنٍ ﴿ۚ۳۳﴾

O company of jinn and mankind, if you are able to pass beyond the regions of the heavens and the earth, then pass. You will not pass except by authority [from Allah ].

اے گروہ جنات و انسان! اگر تم میں آسمانوں اور زمین میں کے کناروں سے باہر نکل جانے کی طاقت ہے تو نکل بھاگو! بغیر غلبہ اور طاقت کے تم نہیں نکل سکتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

O assembly of Jinn and men! If you are able to pass beyond the zones of the heavens and the earth, then pass beyond (them)! But you will never be able to pass them, except with authority (from Allah)! meaning, `you will never be able to escape Allah's orders and decrees, because it encompasses you. You will never be able to avoid or avert His rule and judgement over you, you are surr... ounded by it wherever you may be.' This is also about the Gathering when the angels, comprising seven lines in every direction, will surround the creatures. None of the creatures will be able to escape on that Day, إِلاَّ بِسُلْطَانٍ (except with authority), meaning, except with the commandment from Allah, يَقُولُ الاِنسَـنُ يَوْمَيِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّ كَلَّ لاَ وَزَرَ إِلَى رَبِّكَ يَوْمَيِذٍ الْمُسْتَقَرُّ On that Day man will say: "Where (is the refuge) to flee" No! There is no refuge! Unto your Lord will be the place of rest that Day. (75:10-12), وَالَّذِينَ كَسَبُواْ السَّيِّيَاتِ جَزَاءُ سَيِّيَةٍ بِمِثْلِهَا وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ مَّا لَهُمْ مِّنَ اللَّهِ مِنْ عَاصِمٍ كَأَنَّمَا أُغْشِيَتْ وُجُوهُهُمْ قِطَعًا مِّنَ الَّيْلِ مُظْلِماً أُوْلَـيِكَ أَصْحَـبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَـلِدُونَ And those who earned evil deeds, the recompense of an evil deed is the like thereof, and humiliating disgrace will cover them. No defender will they have from Allah. Their faces will be covered as it were with pieces from the darkness of night. They are the dwellers of Fire, they will abide therein forever. (10:27) فَبِأَيِّ الاَء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 یہ تہدید بھی نعمت ہے کہ اس سے بدکار، بدیوں کے ارتکاب سے باز آجائے اور محسن زیادہ نیکیاں کمائے۔ (2) یعنی اگر اللہ کی تقدیر اور قضا سے تم بھاگ کر کہیں جاسکتے ہو تو چلے جاؤ لیکن یہ طاقت کس میں ہے ؟ اور بھاگ کر آخر کہاں جائے گا کون سی جگہ ایسی ہے، جو اللہ کے اختیار سے باہر ہو، بعض نے کہا کہ یہ مید... ان محشر میں کہا جائے گا، جبکہ فرشتے ہر طرف سے لوگوں کو گھیر رکھے ہونگے۔ دونوں ہی مفہوم اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢] نفذ کا لغوی مفہوم :۔ نفذ بمعنی آر پار نکل جانا۔ جیسے لوہے کی سلاخ کے ایک سرے کو آگ پر گرم کیا جائے تو تھوڑی دیر بعد حرارت دوسرے سرے تک از خود جا پہنچتی ہے۔ اور نفاذ بمعنی قوت سے کسی چیز کا اجراء ہونا، جیسے کہتے ہیں کہ اس ملک میں کل سے فلاں فلاں قانون نافذ ہوچکا ہے اور بمعنی چیز کا بسرعت داخل ہ... ونا اور آر پار ہوجانا۔ جیسے برقی رو آر پار نکل جاتی ہے۔ [٢٣] سُلْطٰنٍ بمعنی غلبہ اور شدید قوت بھی اور اتھارٹی لیٹر یا پروانہ ئراہداری بھی۔ اب اگر اس آیت کا اطلاق اس مادی دنیا پر کیا جائے، تو مطلب یہ ہوگا کہ زمین و آسمان کے کناروں تک پہنچنے کے لیے انتہائی قوت کی ضرورت ہے، جیسے انسان چاند پر، جو زمین کا سب سے قریبی سیارچہ ہے، پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے اور اس کے لیے انتہائی قوت اور بل بوتے کی ضرورت ہے۔ اور اتنا بل بوتا تم میں کبھی نہیں آسکتا کہ تم (مِنْ اَقْـطَار السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ 33۝ۚ ) 55 ۔ الرحمن :33) کو پھاند سکو۔ اور اگر تم چاہو تو زور لگا کے دیکھ سکتے ہو۔ اور اگر اس آیت کا ربط سابقہ آیت یعنی حساب کتاب سے ملایا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ حساب کتاب اور اللہ کی گرفت سے تم میں سے کوئی شخص بھی ادھر ادھر بھاگ کر بچ نہیں سکتا الا یہ کہ کسی کو جنت کا پروانہ مل جائے۔ اس صورت میں اسے بھاگنے کی ضرورت ہی نہ رہے گی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یٰـمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ ۔۔۔۔۔:” معشر “” عشر “ سے ’ ’ مفعل “ کے وزن پر ہے ، کثیر التعداد جماعت کو کہتے ہیں ، کیونکہ اس میں بہت سے عشرات پائے جاتے ہیں ، جن کا شمار یکے بعد دیگرے دہائیوں میں ہوتا ہے۔ ’ ’ افطار “ ” فطر “ کی جمع ہے، کنارا ۔ ” سلطان “ قدرت اور غلبہ ۔ یعنی اے جن... وں اور انسانوں کی جماعت ! دنیا میں اگر تم موت سے بچنے کے لیے آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل کر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ جاؤ ، مگر تم اللہ تعالیٰ پر غالب آکر ہی نکل سکو گے : جس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، جیسا کہ فرمایا (اَیْنَ مَا تَکُوْنُوْا یُدْرِکْکُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍ ط ) النسائ : ٧٨)” تم جہاں کہیں بھی ہوگے موت تمہیں پالے گی ، خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہو۔ “ اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے محاسبے اور اس کی گرفت سے بچنے کے لیے اگر تم آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل کر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ جاؤ۔۔۔۔۔ اس سے ملتا جلتا مفہوم اس آیت کا ہے ، فرمایا :(فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ وَ خَسَفَ الْقَمَرُ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ یَوْمَئِذٍ اَیْنَ الْمَفَرُّ کَلَّا لَا وَزَرَ اِلٰی رَبِّکَ یَوْمَئِذِنِ الْمُسْتَقَرُّ ) (القیامہ : ٧ تا ١٢) ” پھر جب آنکھ پتھرا جائے گی ۔ اور چاند گہنا جائے گا ، اور سورج چاند اکٹھے کردیئے جائیں گے ۔ انسان اس دن کہے گا کہ بھاگنے کی جگہ کہاں ہے ؟ ہرگز نہیں ، پناہ کی جگہ کوئی نہیں ۔ اس دن تیرے رب ہی کی طرف جا ٹھہرنا ہے۔ “ آج کل راکٹ یا خلائی گاڑی کے ذریعے سے چاند پر یا کسی اور کرے پر جانے کے تجربات ہو رہے ہیں ، بعض لوگ اس کے متعلق کہتے ہیں کہ ” لا تنفذو ن الا بسلطن “ ( تم غلبے کے بغیر نہیں نکل سکو گے) سے مراد یہ ہے کہ ان مشینوں کے ذریعے سے ” افطار السموات والارض “ سے نکلنا ممکن ہے ، حالانکہ ان کوششوں کی آیت کے مفہوم کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔ یہ بےچارے تو زمین و آسمان کے درمیان خلاء میں پھر رہے ہیں ، آسمان و زمین کے کناروں تک رسائی تو بہت دور ہے ، پھر وہ ذرۂ بےمقدار ، جس کا ایک سانس بھی اس کے اپنے اختیار میں نہیں ، وہ اپنی قوت کے ساتھ ” اقطار السموات والارض “ سے نکلنے کی بات کرے تو یہی کہا جاسکتا ہے ؎ بت کریں آرزو خدائی کی شان ہے تیری کبریائی کی  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

يَا مَعْشَرَ‌ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَن تَنفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ‌ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ فَانفُذُوا ۚ لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ ﴿٣٣﴾ (0 genera of Jinns and mankind, If you are able to penetrate beyond the realms of the heavens and the earth, then penetrate. You cannot penetrate except with an authority....55:33) In the preceding verse jinn and mankind were addressed ... as Ath-thaqalan and warned that their deeds will be reviewed and every single one of them will attract reward or punishment. The current verse purports to say that no one will be able to hide from death, nor will anyone be able to escape from attendance or giving account of actions on the Day of Judgment. This verse does not use the expression ثَّقَلَانِ Thaqalan as in the preceding verse but explicitly uses the expression يَا مَعْشَرَ‌ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ( O genera of Jinns and mankind) &Jinn& is mentioned first followed by &men& presumably because a high-power energy is required to pass through the confines of heaven and earth. Allah has given Jinns more power than human beings in such matters. The meaning of the verse is: &0 Company of Jinn and human beings, if you think that you will be able to find refuge and thus avert death by avoiding the angel of death or run away from the Plains of Gathering or the Plains of Reckoning, then try to cross the bounds of the heavens and the earth if you have the power and ability to do so.& This is no mean task. This requires high-powered energy. The combined forces of Jinns and mankind will not be able to harness the energy to go beyond the confines of the heavens and the earth. The purport of the verse is not to show the possibility or probability of passing beyond the zones of the heavens and the earth. The proposition is hypothetical. The purport of the verse is to demonstrate the utter powerlessness and inability of men and Jinns to achieve this feat. If the purpose of &penetrating through the heavens and the earth& mentioned in the verse is to escape death, then it refers to this world and means: It is not within the power of any man or Jinns to cross the bounds of the heavens and the earth and escape death. This is stated according to human thinking. Otherwise, no one is outside the power and the authority of Allah, even if he crosses the bounds of the heaven and the earth. And if the escape intended by &penetrating through the heavens and the earth& stands for &escaping accountability on the Day of Reckoning&, the purport of the verse is to demonstrate its absolute impossibility. For according to other Qur&anic verses and Traditional narratives the heaven will crack open, on the Day of Judgment, and all the angels will border on the sides of the earth and the people will be hemmed in from all sides. The Jinn and human beings will experience the horrors of the Day of Resurrection and run in different directions. In whichever direction they run the angels will lay siege to the areas that Allah has fortified for the purpose of recapturing the escapees. [ Ruh[ This Verse does not point to Space Exploration by Rockets and Sputniks In the present scientific age, experiments are being conducted in an effort to come out of the gravity of the earth and to explore the heavenly bodies by rockets, sputniks and other spacecrafts. Obviously, none of these experiments are conducted beyond the bounds of the heaven. In fact, they are far below the surface of the heaven, let alone crossing the heavenly confines. Thus this verse has no bearing on space travels and reported incidents of reaching some of the heavenly bodies. Some simple-minded people posit this verse as the basis of demonstrating the possibility of space travels, whereas these simpletons are merely displaying ignorance about the actual meaning of the Qur&an.  Show more

يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْـطَار السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ ، پچھلی آیت میں جن وانس کو بلفظ ثقلین مخاطب کر کے بتلایا گیا تھا کہ قیامت کے روز ایک ہی کام ہوگا کہ سب جن و انس کے اعمال کا جائزہ لیا جائے گا ... اور اس کے ذرہ ذرہ پر جزاء و سزا ہوگی، اس آیت میں یہ بتلانا منظور ہے کہ روز جزاء کی حاضری اور حساب اعمال سے کوئی شخص راہ فرار اختیار نہیں کرسکتا، کسی کی مجال نہیں جو موت سے یا روز قیامت کے حساب سے کہیں بھاگ کر بچ نکلے، اس آیت میں ثقلین کے بجائے يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ کے صریح نام ذکر فرمائے اور جن کو انس پر مقدم کیا، شاید اس میں اشارہ اس طرف ہو کہ آسمان و زمین کے اقطار سے پار نکل جانا بڑی قوت وقدرت چاہتا ہے، جنات کو حق تعالیٰ نے ایسے امور کی قوت انسان سے زیادہ بخشی ہے، اس لئے جن کے ذکر کو مقدم کیا گیا، مطلب آیت کا یہ ہے کہ اے جنات اور انسانو ! اگر تمہیں یہ گمان ہو کہ ہم کہیں بھاگ جائیں گے اور اس طرح ملک الموت کے تصرف سے بچ جائیں یا میدان حشر سے بھاگ کر نکل جائیں گے اور حساب کتاب سے بچ جائیں گے تو لو اپنی قوت آزما دیکھو، اگر تمہیں اس پر قدرت ہے کہ آسمان و زمین کے دائروں سے باہر نکل جاؤ تو نکل کر دکھلاؤ، یہ کوئی آسان کام نہیں، اس کے لئے تو بہت بڑی قوت وقدرت درکار ہے، جو جن و انس کی دونوں قوموں کو حاصل نہیں، اس کا حاصل ان کا اقطار سماء و ارض سے باہر نکلنے کا امکان و احتمال بتلانا نہیں، بلکہ بطور فرض محال ان کا عاجز ہونا دکھلانا ہے۔ آیت میں مراد اگر موت سے فرار ہے تو یہی دنیا اس کا مصداق ہے کہ کسی کے امکان میں نہیں کہ زمین سے آسمانوں تک کی حدود کو پھلانگ کر باہر نکل جائے اور موت سے بچ جائے، ان حدود کو پار کرنے کا ذکر بھی انسانی خیال کے مطابق کیا گیا ہے، ورنہ بالفرض کوئی آسمانوں کی حدود سے باہر نکل جائے تو اللہ تعالیٰ کے احاطہ قدرت سے بھی باہر نہیں اور اگر مراد محشر کے حساب و کتاب اور جواب دہی سے فرار کا ناممکن ہونا بتلانا ہے، تو اس کی عملی صورت قرآن کریم کی دوسری آیات اور روایات حدیث میں یہ ہے کہ قیامت کے روز آسمان شق ہو کر سب فرشتے زمین کے کناروں پر آجائیں گے اور ہر طرف سے محاصرہ ہوگا جن و انس قیامت کی ہولناک چیزوں کو دیکھ کر مختلف سمتوں میں بھاگیں گے، ہر سمت میں فرشتوں کا محاصرہ دیکھ کر پھر اپنی جگہ لوٹ آئیں گے (روح) فضائی سفر جو آج کل مصنوعی سیاروں اور راکٹوں سے ہو رہے ہیں ان کا اس آیت سے کوئی جوڑ نہیں : اس زمانہ جو زمین کی کشش سے باہر نکلنے اور خلا میں سیارات پر پہنچنے کے تجربات ہو رہے ہیں وہ سب ظاہر ہے کہ آسمان کے حدود سے باہر نہیں، بلکہ سطح آسمان سے بہت نیچے ہو رہے ہیں، اقطار السمٰوات سے باہر نکل جانے کا اس سے کوئی تعلق نہیں، یہ تو اقطار السمٰوات کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے باہر نکلنا تو کجا، اس لئے اس آیت کے مفہوم سے ان خلائی سفروں اور سیارات پر پہنچنے کے واقعات کا کوئی تعلق نہیں، بعض سادہ لوح لوگ اس آیت ہی کو خلائی سفروں کے امکان و جواز کے لئے پیش کرنے لگے، جو معانی قرآن سے بالکل ناواقفیت کی دلیل ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا۝ ٠ ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ۝ ٣٣ ۚ یمعشر الجن والانس : یا حرف نداء ہے معشر الجن والانس منادی۔ معشر الجن مضاف مضاف الیہ ۔ الانس کا عطف الجن پر ہے۔ ای و معشر الانس، مشعر ... اسم مفرد ہے۔ بڑا گروہ ۔ اس کی جمع معاشر ہے۔ اے گروہ جن و انس جِنّ ( شیطان) والجِنّ يقال علی وجهين : أحدهما للروحانيين المستترة عن الحواس کلها بإزاء الإنس، فعلی هذا تدخل فيه الملائكة والشیاطین، فكلّ ملائكة جنّ ، ولیس کلّ جنّ ملائكة، وعلی هذا قال أبو صالح «4» : الملائكة كلها جنّ ، وقیل : بل الجن بعض الروحانيين، وذلک أنّ الروحانيين ثلاثة : - أخيار : وهم الملائكة . - وأشرار : وهم الشیاطین . - وأوساط فيهم أخيار وأشرار : وهم الجن، ويدلّ علی ذلک قوله تعالی: قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن/ 1- 14] . والجِنَّة : جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] ، وقال تعالی: وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158] . الجن جن ( اس کی جمع جنتہ آتی ہے اور ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ۔ (1) انسان کے مقابلہ میں ان تمام روحانیوں کو جن کہا جاتا ہے جو حواس سے مستور ہیں ۔ اس صورت میں جن کا لفظ ملائکہ اور شیاطین دونوں کو شامل ہوتا ہے لھذا تمام فرشتے جن ہیں لیکن تمام جن فرشتے نہیں ہیں ۔ اسی بناء پر ابو صالح نے کہا ہے کہ سب فرشتے جن ہیں ۔ ( 2) بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ جن روحانیوں کی ایک قسم ہیں کیونکہ وحانیات تین قسم ہیں ۔ (1) اخیار ( نیک ) اور یہ فرشتے ہیں ( 2) اشرا ( بد ) اور یہ شیاطین ہیں ۔ ( 3) اوساط جن میں بعض نیک اور بعض بد ہیں اور یہ جن ہیں چناچہ صورت جن کی ابتدائی آیات ۔ قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن/ 1- 14] اور یہ کہ ہم بعض فرمانبردار ہیں بعض ( نافرماں ) گنہگار ہیں ۔ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جنوں میں بعض نیک اور بعض بد ہیں ۔ الجنۃ جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔ إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ الاستطاعۃ . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] ( ط و ع ) الطوع الاستطاعۃ ( استفعال ) یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ نفذ نَفَذَ السَّهْمُ في الرَّمِيَّة نُفُوذاً ونَفَاذاً ، والمِثْقَبُ في الخَشَبِ : إذا خَرِقَ إلى الجهة الأُخری، ونَفَذَ فلانٌ في الأمرِ نَفَاذاً وأَنْفَذْتُهُ. قال تعالی: إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطارِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ فَانْفُذُوا لا تَنْفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطانٍ [ الرحمن/ 33] ونَفَّذْتُ الأمرَ تَنْفِيذاً ، والجیش في غَزْوِهِ ، وفي الحدیث : «نَفِّذُوا جَيْشَ أُسَامَةَ» . والمَنْفَذُ المَمَرُّ النَّافِذُ. ( ن ف ذ) نفد السھم فی الرمیۃ نفوذا ونفاذا کے معنی تیر کے نشانہ سے پار ہوجانے کے ہیں اور نفد فلان فی لارض نفاذا کے معنی پار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطارِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ فَانْفُذُوا لا تَنْفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطانٍ [ الرحمن/ 33] اگر تمہیں قدرت ہو کہ آسمان و زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ اور زور کے سوا تو تم نکل سکتے ہی نہیں ۔ حکم نافذ کرنا ۔ غزوہ میں لشکر بھیجنا ۔۔۔ حدیث میں ہے نفذا جیش اسامۃ کہ جیش اسامہ کو روانہ کردینا ۔ المنفذ باہر نکلنے کا راستہ ۔ قطر القُطْرُ : الجانب، وجمعه : أَقْطَارٌ. قال تعالی: إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطارِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الرحمن/ 33] ، وقال : وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِمْ مِنْ أَقْطارِها [ الأحزاب/ 14] وقَطَرْتُهُ : ألقیته علی قُطْرِهِ ، وتَقَطَّرَ : وقع علی قُطْره، ومنه : قَطَرَ المطر، أي : سقط، وسمّي لذلک قَطْراً ، وتَقَاطَرَ القوم : جاؤوا أرسالا کالقطْر، ومنه قِطَارُ الإبل، وقیل : الإنفاض يُقَطِّرُ الجلب .. أي : إذا أنفض القوم فقلّ زادهم قطروا الإبل وجلبوها للبیع، والقَطِرَانُ : ما يَتَقَطَّرُ من الهناء . قال تعالی: سَرابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرانٍ [إبراهيم/ 50] ، وقرئ : ( من قِطْرٍ آنٍ ) أي : من نحاس مذاب قد أني حرّها، وقال : آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْراً [ الكهف/ 96] أي : نحاسا مذابا، وقال : وَمِنْ أَهْلِ الْكِتابِ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِقِنْطارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ [ آل عمران/ 75] وقوله : وَآتَيْتُمْ إِحْداهُنَّ قِنْطاراً [ النساء/ 20] والْقَنَاطِيرُ جمع القَنْطَرَةِ ، والقَنْطَرَةُ من المال : ما فيه عبور الحیاة تشبيها بالقنطرة، وذلک غير محدود القدر في نفسه، وإنما هو بحسب الإضافة کا لغنی، فربّ إنسان يستغني بالقلیل، وآخر لا يستغني بالکثير، ولما قلنا اختلفوا في حدّه فقیل : أربعون أوقيّة . وقال الحسن : ألف ومائتا دينار، وقیل : ملء مسک ثور ذهبا إلى غير ذلك، وذلک کا ختلافهم في حدّ الغنی، وقوله : وَالْقَناطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ [ آل عمران/ 14] أي : المجموعة قنطارا قنطارا، کقولک : دراهم مدرهمة، ودنانیر مدنّرة . ( ق ط ر ) القطر کے معنی جانب اور طرف کے ہیں اس کی جمع ا اقطار ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطارِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الرحمن/ 33] اگر تمہیں قدرت ہو کہ آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِمْ مِنْ أَقْطارِها [ الأحزاب/ 14] اور اگر فوجیں اطراف مدینہ سے ان پر آ دخل ہوں ۔ قطرتہ کسی کو پہلو پر گر ادینا ۔ اسی سے قطر المطر کا محاورہ ہے جس کے معنی بارشبر سنے کے ہیں اور اسی وجہ سے بارش کو قطر کہا جاتا ہے ۔ تقا طر القوم لوگ بارش کے قطروں کی طرح پیہم آئے اسی سے اونٹوں کی قطار کہا جاتا ہے مثل مشہور ہے ۔ النقاض یقطر الجلب یعنی توشہ ختم ہوجائے تو عمدہ اونٹ بھی فروخت کے لئے منڈی میں لے جاتے ہیں ۔ القطران کے معنی پگهلی ہوئی رال یا گیند ھک کے ہیں قرآن پاک میں ہے سَرابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرانٍ [إبراهيم/ 50] ان کے کرتے گند ھک کے ہوں گے ۔ ایک قراءت میں قطرآ ن ہے جس کے معنی پگھلے ہوئے گرم تانبے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْراً [ الكهف/ 96]( اب ) میرے پاس تانبا لاؤ کہ اس پر پگھلا کر ڈال دوں یہاں قطرا کے معنی پگھلا ہوا تا نبا کے ہیں ۔ سلط السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] ، ( س ل ط ) السلاطۃ اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٣۔ ٣٤) اے گروہ جن و انس کے اگر تمہیں یہ قدرت ہے کہ آسمانوں اور زمین کی حدود اور فرشتوں کی صفوں سے کہیں باہر نکل جاؤ تو نکلو بھاگو مگر بغیر طاقت اور زور کے نہیں نکل سکتے اور طاقت و زور ہے نہیں سو اے جن و انس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣{ یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْاط } ” اے گروہ جن و انس ! اگر تم طاقت رکھتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل بھاگوتو نکل بھاگو۔ “ { لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ ۔ } ” تم نکل نہیں سکو گے مگر (... اللہ کی) سند کے ساتھ۔ “ یہ آیت مشکلات القرآن میں سے ہے۔ جب تک کائنات (cosmos) کی وسعتوں کے بارے میں انسان کا علم مزید ترقی نہیں کرجاتا ‘ اس آیت کا مفہوم شاید ہم پوری طرح سمجھ نہ پائیں۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ اپنی تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود ابھی تک انسان زمین کی ” حدود “ سے نکل کر نظام شمسی کے کسی ایک سیارے تک بھی رسائی حاصل نہیں کرسکا۔ اس کی اس رفتار سے تو یہی لگتا ہے کہ نظام شمسی کی وسعتوں تک بھی اس کی رسائی کا خواب کبھی شرمندئہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ جہاں تک اس معاملے میں جنوں کی ” استطاعت “ کا تعلق ہے اس کے بارے میں قبل ازیں سورة الحجر کی آیت ١٧ کے ضمن میں وضاحت کی جا چکی ہے کہ وہ نظام شمسی کی حدود کے اندر آسانی سے گھوم پھر سکتے ہیں ‘ لیکن نظام شمسی کی حدود کو پھلانگنے کی استطاعت وہ بھی نہیں رکھتے۔ دوسری طرف اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کی وسعتوں کا عالم یہ ہے کہ ان وسعتوں کے اندر خو دنظامِ شمسی کی حیثیت ایک نقطے کی سی ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں گروہ جن و انس کی اس بےبسی اور بےبضاعتی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس کی طرف آیت زیر مطالعہ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ قرآن حکیم میں جب آسمانوں اور زمین کا ذکر آتا ہے تو اس سے پوری کائنات مراد ہوتی ہے۔ میرا گمان یہ ہے کہ یہاں پوری کائنات کے کناروں سے نکل بھاگنے کے معنی معدوم ہونے کے ہیں۔ جیسا کہ قیامت کے دن عذاب کے مستحق لوگ خواہش کریں گے : { یَوْمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰی بِہِمُ الْاَرْضُط وَلاَ یَکْتُمُوْنَ اللّٰہَ حَدِیْثًا ۔ } (النسائ) ” اس دن تمنا کریں گے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تھا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی تھی کہ کاش ان کے سمیت زمین برابرکردی جائے۔ اور وہ اللہ سے کوئی بات بھی چھپا نہیں سکیں گے “۔ لیکن ہمارا یہ وجود چونکہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر یہ معدوم بھی نہیں ہوسکتا ۔ چناچہ اس آیت کا مفہوم میرے خیال میں یہ ہے کہ تم لوگ اگر معدوم بھی ہونا چاہو تو اللہ کی مرضی اور اجازت کے بغیر ( اِلَّا بِسُلْطٰنٍ ) ایسا نہیں کرسکو گے۔ واللہ اعلم !   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

32 'The earth and the heavens": the Universe or the Kingdom of God. The verse means to impress this: `It is not in your power to escape Allah's grasp. When the time for the accountability of which you are being foretold comes, you will be seized and brought before God in any case wherever you may be. To go out of God's reach you will have to flee from the Universe of God for which you do trot have...  the required power. If you feel that you have the power, then you may use that power if you so will. "  Show more

سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :32 زمین اور آسمانوں سے مراد ہے کائنات ، یا بالفاظ دیگر خدا کی خدائی ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی گرفت سے بچ نکلنا تمہارے بس میں نہیں ہے ۔ جس باز پرس کی تمہیں خبر دی جا رہی ہے اس کا وقت آنے پر تم خواہ کسی جگہ بھی ہو ، بہرحال پکڑ لائے جاؤ گے ۔ اس سے بچنے کے لیے تمہیں...  خدا کی خدائی سے بھاگ نکلنا ہو گا اور اس کا بل بوتا تم میں نہیں ہے ۔ اگر ایسا گھمنڈ تم اپنے دل میں رکھتے ہو تو اپنا زور لگا کر دیکھ لو ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

8: مطلب یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ طاقت نہیں ہے جس کے ذریعے تم اللہ تعالیٰ کی باز پرس اور عذاب سے بھاگ کر کہیں اور چلے جاؤ۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(55:33) یمعشر الجن والانس : یا حرف نداء ہے معشر الجن والانس منادی۔ معشر الجن مضاف مضاف الیہ ۔ الانس کا عطف الجن پر ہے۔ ای و معشر الانس، مشعر اسم مفرد ہے۔ بڑا گروہ ۔ اس کی جمع معاشر ہے۔ اے گروہ جن و انس ان استطعتم : ان شرطیہ ہے استطعتم ماضی جمع مذکر حاضر۔ استطاعۃ (استفعال) مصدر (ماضٰ بمعنی حال ہے) ... تم کرسکتے ہو، تم سے ہوسکتا ہے۔ تم میں استطاعت ہے۔ ان تنفذوا : ان مصدریہ ہے ینفذوا مضارع منصوب (بوجہ عمل ان) جمع مذکر حاضر۔ نفوذ (باب نصر) مصدر۔ تم نکل بھاگو۔ تم باہر چلے جاؤ۔ من اقطار السموت والارض۔ مضاف مضاف الیہ۔ اقطار جمع قطر کی بمعنی جانب یا طرف۔ انفذوا۔ فعل امر جمع مذکر حاضر۔ نفوذ (باب نصر) مصدر۔ (تو) نکل بھاگو۔ لاتنفذون : لا نافیہ، تنفذون : مضارع جمع مذکر حاضر، تم نہیں بھاگ سکو گے، تم نہیں نکل سکو گے۔ الا بسلطان : الا حرف استثنائ۔ سلطان : زور، قوت، حجت، برہان، سند۔ ترجمہ آیت کا یوں ہے :۔ اے گروہ جن و انس اگر تمہیں قدرت ہو کہ آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ۔ تو نکل جاؤ۔ سلطان کے سوا تم نکل سکتے ہی نہیں۔ ارض و سماء کے اطراف و اکناف سے نکل بھاگنے کی کئی صورتیں ہیں :۔ مثلا :۔ (1) قیامت کے روز فرشتے آسمانوں سے اتریں گے اور تمام خلائق کو گھرے میں لے لیں گے۔ جب جن و انس ان کو دیکھیں گے تو وہ گھیرے سے باہر بھاگنے کی کوشش کریں گے لیکن جدھر بھی جائیں گے اپنے آپ کو بےبس اور گھرا ہوا پائیں گے۔ (2) قیام قیامت کے وقت لوگ بازاروں میں ہوں گے کہ فرشتوں کو آتا دیکھ کر بھاگنے لگیں گے لیکن فرشتے ان کو گھیرے میں لے کر ان کا فرار ناممکن بنادیں گے۔ (3) بعض کے نزدیک یہ موت سے فرار کے وقت کا منظر ہے لوگ موت سے بھاگیں گے لیکن فرشتے ان کو گھیر لیں گے۔ (4) یا یہ کہ لوگ زمین اور آسمانوں میں نہ جاننے کے لئے کہ ان میں کیا ہے ادھر ادھر نکلنے کی کوشش کریں گے لیکن وہ سیا نہیں کرسکیں گے جن و انس کی بیچارگی اور ناکامی کی وجہ طاقت و قوت اور سند من اللہ کا نہ ہونا ہے۔ ایسا وہ طاقت ہی سے کرسکتے ہیں جو ان کے پاس ہے ہی نہیں کیونکہ اس کا منبع ذات الٰہی ہے اور جب تک اس کی طرف سے توفیق نہ ہو جن و انس کی کامیابی ناممکن ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ سلطن سے مراد سند، اجازت، حجت وبرہان ہے۔ چناچہ تاج العروس میں ہے کہ : سلطن کے معنی حجت وبرہان کے ہیں اسی معنی میں ارشاد الٰہی ہے :۔ لاتنفذون الا بسلطن : (نہیں نکل سکتے بدون سند کے) البتہ اس کی قوت اور اس کی سند اگر کسی کو حاصل ہوجائے تو وہ ان حدبندیوں سے باہر نکل سکتا ہے کما ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نفذ ببدنہ لیلۃ المعراج من السموت لسبع الی سدرۃ المنتھی۔ یعنی جس طرح نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شب معراج میں اپنے جسم اطہر کے ساتھ ساتوں آسمانوں سے پار سدرۃ المنتہیٰ تشریف لے گئے۔ علامہ پانی پتی لکھتے ہیں :۔ بعض اہل علم کا قول ہے کہ تنبیہ، تخویف اور باوجود کامل ودرت رکھنے کے درگزر کرنا اور معاف کردینا یہ سب کچھ اللہ کی نعمت ہے اور عقلی معراج اور تمام ترقیات اور ایسے اسباب ترقیات کہ ان کے ذریعے سے لوگ آسمانوں سے بھی اوپر پہنچ جائیں۔ ان کا شمول بھی الاء اللہ میں سے ہے۔ (تفسیر مظہری)  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 اور تم میں زور کہاں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جو جن اور انسان اللہ تعالیٰ سے اس کے حکم کے مطابق نہیں مانگتے انہیں چیلنج کیا گیا ہے۔ رب ذوالجلال کا فرمان ہے۔ اے جن اور انسانو ! عنقریب ہم تمہارے لیے فارغ ہونے والے ہیں اور تم اپنے رب کی طاقت کا مقابلہ نہیں کرپاؤ گے اگر تمہیں اس کے مقابلے میں طاقت حاصل ہے تو کھلے الفاظ میں ت... مہیں چیلنج کیا جاتا ہے کہ تم زمین و آسمان کے کناروں سے باہر نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ۔ لیکن تم اس کی بادشاہت سے نکل نہیں سکتے سوائے قوت کے وہ قوت صرف تمہارے رب کے پاس ہے لہٰذا تم اپنے رب کی قوت کو جھٹلا نہیں سکتے۔ ہر دور کے سائنسدان اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ زمین و آسمان اپنی اپنی حیثیت اور مقام پر ایک کرّہ ہیں اور ہر کُرّہ اپنی فضا میں گردش کر رہا ہے۔ سائنسی اعتبار سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ ایک کرہّ دوسرے کرّے کے ساتھ نہیں مل سکتا، ہر کرّہ اپنے مدار میں گھوم رہا ہے۔ اس لیے انسان اور جن زمین و آسمان کے ایک کرّے کے اندر مقید ہیں۔ بیشک انسان اور جن جس قدر ترقی کرجائیں لیکن وہ زمین و آسمان کے کرّے سے باہر نہیں نکل سکتے۔ ” اِلاَّ بِسُلْطَانٍ “ کا یہ معنٰی نہیں کہ انسان یہ طاقت حاصل کرسکتا ہے کہ وہ زمین و آسمان کے کناروں سے باہر نکل سکتا ہے ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا لہٰذا اے جن اور انسانو ! تم اپنے رب کی کون کون سی قدرت کو جھٹلاؤگے۔ اس خطاب کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ عنقریب ہم تمہارے لیے فارغ ہوتے ہیں۔ اس کا یہ معنٰی نہیں کہ اللہ تعالیٰ بہت مصروف ہے اور اب اس کے پاس وقت نہیں کہ وہ باغی جن اور انسانوں سے نبٹ لے یہ تو چیلنج اور انتباہ کا ایک انداز ہے جس سے کسی باغی کو وارننگ دی جاتی ہے کہ موقعہ ہے سمجھ جاؤ ورنہ عنقریب پکڑے جاؤ گے اور مارے جاؤگے، گویا کہ باغی جن اور انسانوں کو ایک مہلت دی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ اے جن اور انسانو ! تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے باغی جن اور انسانوں کو ایک چیلنج دیا ہے کہ اگر تم میں طاقت ہے تو زمین و آسمانوں کے کناروں سے باہر نکل جاؤ۔ ٢۔ جن اور انسان زمین و آسمانوں سے کبھی باہر نہیں نکل سکتے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں جن کا تذکرہ : ١۔ جن اور انسان اللہ کی عبادت کے لیے پیدا کئے گئے ہیں۔ (الذاریات : ٥٦) ٢۔ جن غیب نہیں جانتے۔ (سبا : ١٤) ٣۔ جن اور انسان مل کر اس جیسا قرآن بنا لاؤ۔ (بنی اسرائیل : ٨٨) ٤۔ جن و انس مل کر قیامت تک ایک سورة بھی اس جیسی نہیں بناسکتے۔ (البقرۃ : ٢٣۔ ٢٤) ٥۔ اے انسانوں اور جن اگر تم خدا کی خدائی سے نکل سکتے ہو نکل جاؤ۔ ( الرحمن : ٣٣) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے جنات کو سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیا۔ ( سبا : ١٢)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یمعشر ............ بسلطن (55: ٣٣) (اے گروہ جن وانس ، اگر تم زمین اور آسمان کی سرحدوں سے نکل کر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ دیکھو ، نہیں بھاگ سکتے۔ اس لئے کہ اس کے لئے بڑا زور چاہئے) کس طرح تم نکل سکتے ہو ؟ کہاں سے تم بھاگ سکتے ہو ؟ اس کے لئے تو بڑی قوت چاہئے اور قوت اللہ کے پاس ہے اور پھر وہی سوال۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(33) اے گروہ جن وانس اگر تم کو آسمان و زمین کی حدود اور آسمان و زمین کے کناروں سے باہر نکل جانے کی قدرت اور استطاعت ہے تو نکل جائو تم بغیر کسی زور اور قوۃ کے نہیں نکل سکتے اور وہ زور ہے نہیں۔ یعنی اگر حدود ارضی اور سماوی سے کہیں نکل کر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ جائو لیکن بھاگ سکتے نہیں کیونکہ بھاگنا ہوسک... تا ہے زور اور سطوت و طاقت سے وہ ہے نہیں۔ لہٰذا حدود ارضی وسماوی سے نکلنا بھی نہیں ہوسکتا جس طرح آج تمہاری حالت کمزور ی اور بےبسی کی ہے اسی طرح عالم آخرت میں بھی تم عاجز اور بےبس ہوگے کہیں بچ کر بھاگ نہ سکوں گے۔  Show more