Surat ur Rehman

Surah: 55

Verse: 36

سورة الرحمن

فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ﴿۳۶﴾

So which of the favors of your Lord would you deny?

پھرتم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

and you will not be able to defend yourselves. Then which of the blessings of your Lord will you both deny!

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٦] یہاں آلاء کا لفظ نعمتوں کے معنوں میں بھی استعمال ہوسکتا ہے، یعنی مجرموں کو دنیا اور آخرت میں سزا دینا بھی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اس طرح جہاں عام لوگ ظالموں کے ظلم سے نجات پاتے ہیں وہاں نیک لوگوں کی حوصلہ افزائی اور قدر شناسی بھی ہوتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝ ٣٦ أيا أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء/ 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص/ 28] ( ا ی ی ) ای ۔ جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى } ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں { أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ } ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔ آلاء ( نعمت) فَاذْكُرُوا آلاءَ اللَّهِ [ الأعراف/ 69] أي : نعمه، الواحد : ألًا وإِلًى، نحو أناً وإنًى لواحد الآناء . وقال بعضهم في قوله تعالی: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ إِلى رَبِّها ناظِرَةٌ [ القیامة/ 22- 23] : إنّ معناه : إلى نعمة ربها منتظرة، وفي هذا تعسف من حيث البلاغة اور آیت کریمہ :۔ { فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللهِ } ( سورة الأَعراف 69 - 74) پس خدا کی نعمتوں کو یا دکر و ۔ میں الاء کا واحد الی والی ہے جس طرح کہ اناء کا واحد اناو انی آتا ہے بعض نے آیت کریمہ { وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ (22) إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (23) } ( سورة القیامة 22 - 23) کے معنی الی نعمۃ ربھا منتظرۃ کئے ہیں یعنی اپنے پروردگار کی نعمت کے منتظر ہونگے لیکن بلاغت قرآن کی رد سے یہ سراسرتعسف ہے آلائ جمع ہے اس کا واحد الی ہے اس کا معنی ہے النعم نعمتیں ( لسان العرب) ۔ امام راغب لکھتے ہیں :۔ الاء کا واحد الی والی ہے جس طرح اناء کا واحد انا وانی ؤتا ہے ( مفردات) نیز راغب نے بھی الاء کا ترجمہ نعمتیں کیا ہے۔ آیت واذکروا الاء اللہ (7:74) کا ترجمہ کیا ہے : پس خدا کی نعمتوں کو یاد کرو۔ المنجد میں الا لی الالی الالی ( جمع الائ) بمعنی نعمت، مہربانی، فضل لکھا ہے۔ اصل میں لفظ الاء استعمال ہوا ہے جسے آگے کی آیتوں میں بار بار دہرایا گیا ہے اور ہم نے مختلف مقامات پر اس کا مفہوم مختلف الفاظ سے ادا کیا ہے۔ اس لئے آغاز میں ہی یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس لفظ میں کتنی وسعت ہے اور اس میں کیا کیا مفہومات شامل ہیں۔ الاء کے معنی اہل لغت اور اہل تفسیر نے بالعموم نعمتوں کے بیان کئے ہیں تمام مترجمین نے بھی یہی اس کا ترجمہ کیا ہے اور یہی معنی حضرت ابن عباس (رض) حضرت قتادہ اور حضرت حسن بصری (رح) سے منقول ہیں۔ سب سے بڑی دلیل اس معنی کے صحیح ہونے کی یہ ہے کہ خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنوں کے اس قول کو نقل فرمایا ہے کہ وہ اس آیت کو سن کر بار بار لابشی من نعمک ربنا نکذب کہتے تھے۔ لہٰذا زمانہ حال کے محققین کی اس رائے سے ہمیں اتفاق نہیں ہے کہ الاء نعمتوں کے معنی میں سے ہوتا ہی نہیں۔ دوسرے معنی اس لفظ کے قدرت اور عجائب قدرت یا کمالات قدرت ہیں ابن جریر طبری نے ابن زید کا قول نقل کیا ہے کہ : فبای الاء ربکما کے معنی ہیں فبای قدرۃ اللہ۔ ابن جریر نے خود بھی آیات 37، 38 کی تفسیر میں الاء کو قدرت کے معنی میں لیا ہے امام رازی نے بھی آیات 14، 15، 16 کی تفسیر میں لکھا ہے : یہ آیات بیان نعمت کے لئے نہیں بلکہ بیان قدرت کے لئے ہیں۔ اور آیات 22 ۔ 23 کی تفسیر میں وہ فرماتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے عجائب قدرت کے بیان میں ہے نہ کہ نعمتوں کے بیان میں ۔ اس کے تیسرے معنی ہیں : خوبیاں۔ اوصاف حمیدہ اور کمالات و فضائل ۔ اس معنی کو اہل لغت اور اہل تفسیر نے بیان نہیں کیا ہے مگر اشعار عرب میں یہ لفظ کثرت سے اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ نابغہ کہتا ہے :۔ ہم الملوک وابناء الملوک لہم ۔ فضل علی الناس فی الا الاء النعم۔ ( وہ بادشاہ اور شہزادے ہیں۔ ان کو لوگوں پر اپنی خوبیوں اور نعمتوں میں فضیلت حاصل ہے) ۔ مہلہل اپنے بھائی کلیب کے مرثیہ میں کہتا ہے :۔ الحزم والعزم کان من طبائعہ : ما کل الائہ یاقوم احصیہا حزم اور عزم اس کے اوصاف میں سے تھے ۔ لوگو ! میں اس کی ساری خوبیاں بیان نہیں کر رہا ہوں۔ فضالہ بن زید العدوانی غریبی کی برائیاں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے :۔ غریب اچھا کام بھی کرے تو برا بنتا ہے اور وتحمد الاء البخیل المدرہم مالدار بخیل کے کمالات کی تعریف کی جاتی ہے۔ اجدع ھمدانی اپنے گھوڑے کمیت کی تعریف میں کہتا ہے کہ : ورضیت الاء الکمیت فمن یبع۔ فرسا فلیس جو ادنا بمباع ( مجھے کمیت کے عمدہ اوصاف پسند ہیں اگر کوئی شخص کسی گھوڑے کو بیچتا ہے تو بیچے ہمارا گھوڑا بکنے والا نہیں ہے۔ ( بحوالہ انوار البیان) رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٦{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ۔ } ” تو تم دونوں اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(55:36) فبای الاء ربکما تکذبان۔ اے جن و انس، تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟ علامہ پانی پتی رقمطراز ہیں :۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ موحبات عذاب سے ڈرانا بھی ایک نعمت خداوندی ہے اس لئے موجبات عذاب سے اجتناب لازمی ہے اور فرمانبرار اور نافرمان کے معاوضہ میں (ثواب و عذاب کا) امتیاز بھی اللہ کی نعمت ہی ہے اس لئے نافرمانی سے گریز ضروری ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فبای ................ تکذبن (55: ٦٣) ” پس اے جن وانس تم اپنے رب کے کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ “ یہ خوف وہراس کا وہ منظر ہے جس کا تصور انسان کر ہی نہیں سکتا۔ ہر مخلوق کے لئے یہ ناقابل برداشت ہے۔ خوف وہراس کی ایسی چند ہی مثالیں ہیں جو صرف قرآن نے دی ہیں۔ یہ انسانی تصور سے بالا ہیں۔ اے برتر از خیال و قیاس و گمان ووہم۔ قرآن نے ایک جگہ کہا۔ فذرنی ............ النعمة (چھوڑدو مجھے اور ان کھاتے پیتے جھٹلانے والوں کو) دوسری جگہ ذرنی ............ وحیدا ” چھوڑ دو مجھے اور جسے میں نے اکیلا پیدا کیا تھا “ اور یہ آیت۔ سنفرغ ............ الثقلن (55: ١٣) اے جن وانس ، تم زمین کا بوجھ بن چکے ہو ، ذرا مجھے فارغ ہو لینے دو “ اس قسم کی خوفناک دھمکیاں انسانی تصور سے بالا ہیں۔ اب یہاں سورة کے آخر تک قیامت کے مناظر ہیں کہ قیامت سے پہلے اس کائناتی نظام میں کیا کیا انقلاب آجائے گا۔ پھر حساب و کتاب کس طرح ہوگا اور پھر جزاء وسزا کیسی ہوگی۔ ان مناظر کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ اس سورة کے آغاز کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتی ہیں اور ان باتوں سے جو کائنات کے بارے میں اس سورة میں کہی گئی ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(36) سوائے جن وانس تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کی تکذیب کرو گے ۔