Surat ur Rehman
Surah: 55
Verse: 4
سورة الرحمن
عَلَّمَہُ الۡبَیَانَ ﴿۴﴾
[And] taught him eloquence.
اور اسے بولنا سکھایا ۔
عَلَّمَہُ الۡبَیَانَ ﴿۴﴾
[And] taught him eloquence.
اور اسے بولنا سکھایا ۔
Ar-Rahman! He has taught the Qur'an. He created man. He taught him Al-Bayan. Al-Hasan said: "Eloquent speech." This refers to Allah teaching the Qur'an, that is, teaching the servants how to recite it by making it easy for them to speak and pronounce letters with the various parts of the mouth, such as the alveolar bridge, the tongue and the lips Among Allah's Signs: the Sun, the Moon, the Sky and the Earth Allah said, الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ
4۔ 3 اس بیان سے مراد ہر شخص کی اپنی مادری بولی ہے جو بغیر سیکھے از خود ہر شخص بول لیتا اور اس میں اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرلیتا ہے، حتیٰ کے وہ چھوٹا بچہ بھی بول لیتا ہے، جس کو کسی بات کا علم اور شعور نہیں ہوتا۔ یہ تعلیم الٰہی کا نتیجہ ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے۔
[٣] اللہ تعالیٰ کا انسان پر مزید احسان یہ ہے کہ اسے قوت گویائی عطا کی جس سے وہ اپنے مافی الضمیر کا پوری طرح اظہار کرسکتا ہے۔ پھر اس قوت گویائی یا قوت بیان کا انحصار اور بہت سی قوتوں پر ہے مثلاً بینائی، سماعت، عقل و فہم، قوت تمیز اور ارادہ و اختیار۔ ان میں سے ہر ایک قوت ایک عظیم نعمت ہے اور اظہار بیان کے لیے یہ سب قوتیں یا ان میں سے اکثر ناگزیر ہیں۔
عَلَّمَہُ الْبَیَانَ : سکھانے میں بہت سی چیزیں شامل ہیں ، یعنی اس میں بیان کی صلاحیت رکھتی ، اسے اپنے مطلب کے اظہار کے لیے مختلف زبانوں کے الفاظ وضع کرنے اور ان کے استعمال کا سلیقہ بخشا ، جس سے ہزاروں زبانیں وجود میں آئیں اور اسے قدرت دی کہ اپنا ما فی الضمیر نہایت وضاحت اور حسن و خوبی کے ساتھ ادا کرسکے اور دوسروں کی بات سمجھ سکے۔ اپنی اس صفت کی بدولت وہ خیر و شر ، ہدایت و ضلالت ، ایمان و کفر اور دنیا و آخرت کی باتیں سمجھتا اور سمجھاتا اور اس کو کام میں لا کر فائدع اٹھاتا ہے۔ مزید دیکھئے سورة ٔ بقرہ کی آیت (٣١) (وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّھَا ) اور سورة ٔ روم کی آیت (٢٢) (وَاخْتِـلَافُ اَلْسِنَتِکُمْ وَاَلْوَانِکُمْ ط ) کی تفسیر ۔ یہ جملہ بھی لفظ ” الرحمن “ کی خبر ہے اور فعل کی صورت میں آنے سے اس میں بھی پچھلے جملوں کی طرح تخصیص پیدا ہو رہی ہے۔
عَلَّمَہُ الْبَيَانَ ٤ البیان البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] . ( ب ی ن ) البین البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔
(٤۔ ٥) اور پھر اس کے حکم سے اپنی منزلوں پر چاند و سورج حساب کے ساتھ چلتے ہیں یا یہ کہ آسمان و زمین کے درمیان معلق ہیں یا یہ کہ ان پر حساب ہے اور انسانوں کی مدتوں کی طرح ان کا بھی ایک وقت مقرر ہے۔
آیت ٤ { عَلَّمَہُ الْبَیَانَ ۔ } ” اس کو بیان سکھایا۔ “ یعنی اسے بولنا سکھایا ‘ اسے گویائی کی صلاحیت بخشی ۔ آیات زیر مطالعہ کے حوالے سے یہاں چوتھا اہم نکتہ یہ ہے کہ انسان کی صلاحیتوں میں سے جو چوٹی کی صلاحیت ہے وہ قوت بیان (گویائی) ہے۔ آج میڈیکل سائنس کی تحقیق سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ انسان کی قوت گویائی کا تعلق اس کے دماغ کی خصوصی بناوٹ سے ہے۔ سائنس کی زبان میں تو انسان بھی حیوان ہی ہے ‘ لیکن اس کے بولنے کی صلاحیت کی وجہ سے اسے حیوانِ ناطق (بولنے والا حیوان) کہا گیا ہے۔ دماغ تو ظاہر ہے انسان سمیت تمام جانوروں میں موجود ہے ‘ لیکن ہر جانور کے دماغ کی بناوٹ اور صلاحیت مختلف ہے۔ اس لحاظ سے انسان کا دماغ تمام حیوانات کے دماغوں میں سب سے اعلیٰ ہے اور اس میں ایسی صلاحیتیں بھی پائی جاتی ہیں جو کسی اور جانور کے دماغ میں نہیں ہیں ۔ بہرحال استعداد کے حوالے سے حیوانی دماغ کی بناوٹ نچلی سطح سے ترقی کر کے گوریلوں اور چیمپنزیز (champenzies) کے دماغ کی سطح تک پہنچتی ہے ‘ اور پھر اس ترقی کی معراج انسان کا دماغ ہے۔ انسانی دماغ کے مختلف حصے ہیں ‘ مثلاً سماعت سے متعلقہ حصہ ‘ بصارت سے متعلقہ حصہ وغیرہ۔ حواس (آنکھ ‘ کان وغیرہ) سے حاصل ہونے والی معلومات پہلے دماغ کے متعلقہ حصے میں جاتی ہیں اور پھر وہاں سے gray matter کے پچھلے حصے میں پہنچتی ہیں۔ لیکن انسانی دماغ کا سب سے اہم اور بڑا حصہ speech centre ہے ‘ اور پھر اس میں بھی کلام کے فہم اور ابلاغ سے متعلق دو الگ الگ حصے ہیں ‘ یعنی ایک حصے میں دوسروں کی بات سمجھنے کی صلاحیت ہے جبکہ دوسرا حصہ دوسروں تک بات پہنچانے سے متعلق ہے۔ ویسے تو اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے ‘ لیکن قوت گویائی کے علاوہ انسان کی باقی تقریباً تمام صلاحیتیں کسی نہ کسی سطح پر کسی نہ کسی درجے میں دوسرے حیوانات کو بھی ملی ہیں ‘ بلکہ بعض حیوانات کی بعض صلاحیتیں تو انسان کے مقابلے میں کہیں بہتر ہیں۔ بعض جانوروں کی بصارت ہمارے مقابلے میں بہت زیادہ تیز ہے ‘ کئی جانور اندھیرے میں بھی دیکھ سکتے ہیں جبکہ ہم دیکھنے کے لیے روشنی کے محتاج ہیں ۔ گھوڑے کی قوت سماعت انسان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ چناچہ ذرا سی آہٹ پر گھوڑے کے کان antenna) کی طرح) کھڑے ہوجاتے ہیں ‘ جبکہ ُ گھڑ سوار نے ابھی کچھ دیکھا ہوتا ہے نہ سنا ہوتا ہے ۔ اسی طرح ُ کتوں ّکے دماغ میں سونگھنے کا حصہ بہت بڑا ہوتا ہے ۔ اسی وجہ سے ان کے سونگھنے کی حس انسان کے مقابلے میں سو گنا سے بھی زیادہ تیز ہے۔ بہرحال باقی صلاحیتیں تو دوسرے جانوروں میں بھی پائی جاتی ہیں ‘ لیکن بیان اور گویائی کی صلاحیت صرف اور صرف انسان کا طرئہ امتیاز ہے ۔ اس تمہید کے بعد اب ان آیات کو دوبارہ پڑھئے۔ ان چار آیات سے تین جملے بنتے ہیں۔ پہلی آیت { اَلرَّحْمٰنُ ۔ } جملہ نہیں ہے ‘ یہ مبتدأ ہے اور { عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ ۔ } اس کی خبر ہے۔ چناچہ پہلی اور دوسری آیت کے ملنے سے مکمل جملہ بنتا ہے۔ یعنی ” رحمن نے قرآن سکھایا “۔ اس کے بعد آیت ٣ { خَلَقَ الْاِنْسَانَ ۔ } ” اس نے انسان کو پیدا کیا “ بھی مکمل جملہ ہے اور آیت ٤ { عَلَّمَہُ الْبَیَانَ ۔ } ” اسے بیان کی صلاحیت عطا کی “ بھی مکمل جملہ ہے۔___ اب ان آیات پر اس پہلو سے غور کیجیے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے اعلیٰ نام کے حوالے سے سب سے اعلیٰ علم (قرآن) کا ذکر کیا۔ پھر اپنی چوٹی کی مخلوق اور اس مخلوق کی چوٹی کی صلاحیت (بیان) کا ذکر کیا۔ اس زاویے سے غور کیا جائے تو یہ تین جملے ریاضی کے کسی سوال کی طرح ” جواب “ کا تقاضا کرتے نظر آتے ہیں۔ چناچہ جس طرح ریاضی کے ” نسبت و تناسب “ کے سوالات میں تین رقموں (values) کی مدد سے چوتھی رقم معلوم کی جاتی ہے ‘ اسی طرح ان تین جملوں پر غور کرنے سے اس عبارت کے اصل مدعا تک پہنچا جاسکتا ہے ۔ ” رحمن نے قرآن سکھایا۔ اس نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بیان کی صلاحیت عطا فرمائی “۔ کس لیے ؟ ۔ - ۔ جواب بالکل واضح ہے : ” قرآن کے بیان کے لیے ! “ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی اعلیٰ ترین مخلوق کو ” بیان “ کی انمول صلاحیت سے اس لیے تو نہیں نوازا کہ وہ اسے لہو و لعب میں ضائع کرتا پھرے ‘ یا دلائل کے انبار لگانے والا وکیل یا شعلہ بیان مقرر بن کر اسے حصول دولت و شہرت کا ذریعہ بنا لے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ توپ اس لیے تو نہیں بنائی جاتی کہ اس سے مکھیاں ماری جائیں۔ چناچہ انسان کی اس بہترین صلاحیت کا بہترین مصرف یہ ہوگا کہ وہ اسے بہترین علم کے سیکھنے سکھانے کا ذریعہ بنائے۔ یعنی اپنی قوت بیان کو قرآن کی تعلیم اور نشرواشاعت کے لیے وقف کر دے۔ ان آیات کے اس مفہوم کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فرمان کی روشنی میں بہتر انداز میں سمجھا جاسکتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ ) (١) یہاں خَیْرُکُمْ کا صیغہ تفضیل کل (superlative degree) کے مفہوم میں آیا ہے کہ تم سب میں بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے ۔ اس حدیث کے حوالے سے ضمنی طور پر یہاں یہ نکتہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ اس کے راوی حضرت عثمان بن عفان (رض) کے نام اور حدیث کے لفظ ” قرآن “ کے قافیے بھی زیر مطالعہ آیات کے قافیوں کے ساتھ مل رہے ہیں۔ یعنی ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے اس حدیث کی ان آیات کے ساتھ خصوصی نسبت ہے۔ سورة الرحمن کی ان ابتدائی آیات کا مطالعہ کرتے ہوئے اگر سورة القمر کی ترجیعی آیت { وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ …} کے مفہوم اور اس کے پرشکوہ اسلوب کو بھی مدنظر رکھا جائے اور ان آیات کی ترتیب پر بھی غور کیا جائے کہ سورة القمر کی مذکورہ آیت کو باربار دہرانے کے فوراً بعد سورة الرحمن کی یہ آیات آئی ہیں تو ان آیات کا مذکورہ مفہوم واضح تر ہوجاتا ہے۔ بہرحال ان آیات کے بین السطور یہ پیغام بھی مضمر ہے کہ انسانوں پر اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کا حق ادا کرنا لازم ہے۔
3 One meaning of the word bayan, as used in the original, is the expressing of one'e own mind, i e. speaking and expressing one's thoughts and intentions. Its other meaning is to make distinction between things, which here signifies the distinction between good and evil, virtue and vice. According to those two meanings this brief sentence completes the above reasoning. Speech is the distinctive quality which distinguishes man from the animals and other earthly creatures, It is not merely the power of speech, but there are working behind It the faculties of reasoning and intellect, understanding and discernment, will and Judgement, and other mental powers without which man's power of speech could not operate at all. Therefore, speech is in fact an express symbol of man's being an intelligent being who has been endowed with freedom and authority, and when AIIah has blessed man with this distinctive quality, evidently the nature of instruction for him also cannot be the same a: would be suitable for the guidance of other creatures. LIkewise, another distinctive quality of vital Importance in man is that AIlah has placed in him moral sense by virtue of which he can naturally distinguish between good and evil, truth and falsehood, Justice and injustice, right and wrong, and this intuition and sense does not leave hlm even when he degrades himself to the lowest state of error and ignorance. The Inevitable demand of these two distinctive qualities is that the method of instruction for man's conscious and voluntary life should be different from the innate, natural mode of instruction under which the fish has been taught to swim, the bird to fly, and the eye in the human body itself to wink and see, the ear to hear and the stomach to digest, Man in this sphere of his life himself recognizes the means like the teacher, the book, the school, the verbal and written instruction and reasoning and discussion as the modes of instrutction, and does not regard the innate knowledge and intelligence as enough. Why should It then appear arrange that for fulfilling the responsibility that falls upon the Creator of educating man, He has made the Messenger and the Book the means of his education and instruction ? The mode of education has to suit the nature of the creation, And very rationally so; The "Qur'An" alone cart be the means of educating the creation that has been taught 'bayan"(speech) and not my other means that might salt the creatures which have not been taught the speech
سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :3 اصل میں لفظ بیان استعمال ہو ا ہے ۔ اس کے ایک معنی تو اظہار ما فی الضمیر کے ہیں ، یعنی بولنا اور اپنا مطلب و مدعا بیان کرنا ۔ اور دوسرے معنی ہیں فرق و امتیاز کی وضاحت ، جس سے مراد اس مقام پر خیر و شر اور بھلائی اور برائی کا امتیاز ہے ۔ ان دونوں معنوں کے لحاظ سے یہ چھوٹا سا فقرہ اوپر کے استدلال کو مکمل کر دیتا ہے ۔ بولنا وہ امتیازی وصف ہے جو انسان کو حیوانات اور دوسرے ارضی مخلوقات سے ممیز کرتا ہے ۔ یہ محض قوت ناطقہ کام نہیں کر سکتی ۔ اس لیے بولنا دراصل انسان کے ذی شعور اور ذی اختیار مخلوق ہونے کی صریح علامت ہے ۔ اور یہ امتیازی وصف جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا فرمایا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کے لئے تعلیم کی نوعیت بھی وہ نہیں ہو سکتی جو بے شعور اور بے اختیار مخلوق کی رہنمائی کے لیے موزوں ہے ۔ اسی طرح انسان کا دوسرا اہم ترین امتیازی وصف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر ایک اخلاقی حِس ( Moral Sense ) رکھ دی ہے جس کی وجہ سے وہ فطری طور پر نیکی اور بدی ، حق اور ناحق ، ظلم اور انصاف ، بجا اور بے جا کے درمیان فرق کرتا ہے ، اور یہ وجدان اور احساس انتہائی گمراہی و جہالت کی حالت میں بھی اس کے اندر سے نہیں نکلتا ۔ ان دونوں امتیازی خصوصیات کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ انسان کی شعوری و اختیاری زندگی کے لیے تعلیم کا طریقہ اس پیدائشی طریق تعلیم سے مختلف ہو جس کے تحت مچھلی کو تیرنا اور پرندے کو اڑنا ، اور خود انسانی جسم کے اندر پلک کو جھپکنا ، آنکھ کو دیکھنا ، کان کو سننا ، اور معدے کو ہضم کرنا سکھایا گیا ہے ۔ انسان خود اپنی زندگی کے اس شعبے میں استاد اور کتاب اور مدرسے اور تبلیغ و تلقین اور تحریر و تقریر اور بحث و استدلال جیسے ذرائع ہی کو وسیلہ تعلیم مانتا ہے اور پیدائشی علم و شعور کو کافی نہیں سمجھتا ۔ پھر یہ بات آخر کیوں عجیب ہو کہ انسان کے خالق پر اسکی رہنمائی کی جو ذمی داری عائد ہوتی ہے اسے ادا کرنے کے لیے اس نے رسول اور کتاب کو تعلیم کا ذریعہ بنایا ہے؟ جیسی مخلوق ویسی ہی اس کی تعلیم ۔ یہ سراسر ایک معقول بات ہے بیان جس مخلوق کو سکھایا گیا ہو اس کے لیے قرآن ہی ذریعہ تعلیم ہو سکتا ہے نہ کہ کوئی ایسا ذریعہ جو ان مخلوقات کے لیے موزوں ہے جنہیں بیان نہیں سکھایا گیا ہے ۔
(55:4) علمہ۔ میں ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب کا مرجع الانسان ہے۔ البیان مفعول ثانی علم فعل کا بولنا۔ مصدر ہے ۔ کسی چیز کے متعلق کھولنے اور واضح کرنے کا نام ” بیان “ ہے۔ بیان ۔ نطق سے عام ہے اور نطق خاص ہے۔ اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے چناچہ کلام اول معنی ہی کے اعتبار سے بیان کہلاتا ہے ۔ چناچہ کلام اول معنی کے اعتبار سے ہی بیان کہلاتا ہے کیونکہ وہ معنی مقصود کو کھولتا اور ظاہر کردیتا ہے۔ اور مجمل و مبہم کلام کی شرح کو دوسرے معنوں کے اعتبار سے بیان کہتے ہیں ۔ ھذا بیان للناس (3:138) یہ لوگوں کے لئے بیان ہے۔ اول معنی کی مثال ہے اور ثم ان علینا بیانہ (75:19) ہمارے ذمہ اس کا بیان کرنا ہے۔ دوسرے معنی کی مثال ہے اور علمہ البیان (اس کو بیان سکھایا) دونوں معنی کی مثال بن سکتا ہے۔ (لغات القرآن)
ف 4 یعنی اس قدرت دی کہ اپنے ماضی الضمیر کو نہایت وضاحت اور حسن و خوبی کے ساتھ ادا کرسکے اور دوسروں کی بات سمجھ سکے اپنی اس صفت کی بدولت وہ خیر و شر ہدایت و ضلالت ایمان و کفر کی بدولت وہ خیر و شر ہدایت و ضلالت ایمان و کفر اور دنیا و آخرت کی باتیں سمجھتا اور سمجھاتا ہے اور اسی کو کام میں لا کر فائدہ اٹھاتا ہے۔
(4) اسی نے انسان کو بولنا اور کلام کرنا سکھایا جس طرح اوپر کی سورت میں مختلف قوموں کو عذاب کرنے کا ذکر تھا اسی طرح اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے اگرچہ قوموں کی ہلاکت اور عذاب کا ذکر بھی ہدایت کا سبب ہونے کی وجہ سے نعمت ہی ہے اس سورت میں بھی انعامات و احسانات کے ساتھ بعض جگہ جہنم کا ذکر فرمایا وہ ذکر بھی بعض اعتبار سے نعمت ہی ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت قرآن اور اس کی تعلیم ہے اس لئے اس کو مقدم فرمایا اور چونکہ مکہ عام طور سے رحمن کے نام پر الجھتے تھے اور کہا کرتے تھے رحمان کون ہے ہم رحمان کو نہیں جانتے۔ اس لئے اس سورت کو حضرت حق تعالیٰ کے نام رحمان سے شروع کیا چناچہ فرمایا کہ قرآن کی تعلیم رحمان ہی نے دی ہے اور رحمان ہی نے قرآن سکھایا ہے انسان کو اسی نے پیدا کیا اسی نے بات کرنا سکھایا۔ بعض نے بیان کے تجمے میں بات کرنا اور سمجھنا بھی شامل کیا ہے انسان یا تو عام ہے یا حضرت آدم (علیہ السلام) مراد ہیں اور بیان سے مراد تمام چیزوں کے وہ نام ہیں جو آدم (علیہ السلام) کو تعلیم کئے گئے تھے اور ہوسکتا ہے کہ انسان سے مراد محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں اور بیان سے مراد وہ واقعات ہیں جو حضور کو اللہ تعالیٰ نے بتائے خواہ وہ آئندہ کے ہوں یا گزشتہ کے آگے اور احسانات کا ذکر فرمایا۔