Surat ur Rehman
Surah: 55
Verse: 40
سورة الرحمن
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ﴿۴۰﴾
So which of the favors of your Lord would you deny?
پس تم اپنے رب کی کس کس سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ﴿۴۰﴾
So which of the favors of your Lord would you deny?
پس تم اپنے رب کی کس کس سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
Then which of the blessings of your Lord will you both deny! Allah the Exalted said,
فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ ٤٠ أيا أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء/ 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص/ 28] ( ا ی ی ) ای ۔ جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى } ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں { أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ } ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔ آلاء ( نعمت) فَاذْكُرُوا آلاءَ اللَّهِ [ الأعراف/ 69] أي : نعمه، الواحد : ألًا وإِلًى، نحو أناً وإنًى لواحد الآناء . وقال بعضهم في قوله تعالی: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ إِلى رَبِّها ناظِرَةٌ [ القیامة/ 22- 23] : إنّ معناه : إلى نعمة ربها منتظرة، وفي هذا تعسف من حيث البلاغة اور آیت کریمہ :۔ { فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللهِ } ( سورة الأَعراف 69 - 74) پس خدا کی نعمتوں کو یا دکر و ۔ میں الاء کا واحد الی والی ہے جس طرح کہ اناء کا واحد اناو انی آتا ہے بعض نے آیت کریمہ { وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ (22) إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (23) } ( سورة القیامة 22 - 23) کے معنی الی نعمۃ ربھا منتظرۃ کئے ہیں یعنی اپنے پروردگار کی نعمت کے منتظر ہونگے لیکن بلاغت قرآن کی رد سے یہ سراسرتعسف ہے آلائ جمع ہے اس کا واحد الی ہے اس کا معنی ہے النعم نعمتیں ( لسان العرب) ۔ امام راغب لکھتے ہیں :۔ الاء کا واحد الی والی ہے جس طرح اناء کا واحد انا وانی ؤتا ہے ( مفردات) نیز راغب نے بھی الاء کا ترجمہ نعمتیں کیا ہے۔ آیت واذکروا الاء اللہ (7:74) کا ترجمہ کیا ہے : پس خدا کی نعمتوں کو یاد کرو۔ المنجد میں الا لی الالی الالی ( جمع الائ) بمعنی نعمت، مہربانی، فضل لکھا ہے۔ اصل میں لفظ الاء استعمال ہوا ہے جسے آگے کی آیتوں میں بار بار دہرایا گیا ہے اور ہم نے مختلف مقامات پر اس کا مفہوم مختلف الفاظ سے ادا کیا ہے۔ اس لئے آغاز میں ہی یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس لفظ میں کتنی وسعت ہے اور اس میں کیا کیا مفہومات شامل ہیں۔ الاء کے معنی اہل لغت اور اہل تفسیر نے بالعموم نعمتوں کے بیان کئے ہیں تمام مترجمین نے بھی یہی اس کا ترجمہ کیا ہے اور یہی معنی حضرت ابن عباس (رض) حضرت قتادہ اور حضرت حسن بصری (رح) سے منقول ہیں۔ سب سے بڑی دلیل اس معنی کے صحیح ہونے کی یہ ہے کہ خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنوں کے اس قول کو نقل فرمایا ہے کہ وہ اس آیت کو سن کر بار بار لابشی من نعمک ربنا نکذب کہتے تھے۔ لہٰذا زمانہ حال کے محققین کی اس رائے سے ہمیں اتفاق نہیں ہے کہ الاء نعمتوں کے معنی میں سے ہوتا ہی نہیں۔ دوسرے معنی اس لفظ کے قدرت اور عجائب قدرت یا کمالات قدرت ہیں ابن جریر طبری نے ابن زید کا قول نقل کیا ہے کہ : فبای الاء ربکما کے معنی ہیں فبای قدرۃ اللہ۔ ابن جریر نے خود بھی آیات 37، 38 کی تفسیر میں الاء کو قدرت کے معنی میں لیا ہے امام رازی نے بھی آیات 14، 15، 16 کی تفسیر میں لکھا ہے : یہ آیات بیان نعمت کے لئے نہیں بلکہ بیان قدرت کے لئے ہیں۔ اور آیات 22 ۔ 23 کی تفسیر میں وہ فرماتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے عجائب قدرت کے بیان میں ہے نہ کہ نعمتوں کے بیان میں ۔ اس کے تیسرے معنی ہیں : خوبیاں۔ اوصاف حمیدہ اور کمالات و فضائل ۔ اس معنی کو اہل لغت اور اہل تفسیر نے بیان نہیں کیا ہے مگر اشعار عرب میں یہ لفظ کثرت سے اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ نابغہ کہتا ہے :۔ ہم الملوک وابناء الملوک لہم ۔ فضل علی الناس فی الا الاء النعم۔ ( وہ بادشاہ اور شہزادے ہیں۔ ان کو لوگوں پر اپنی خوبیوں اور نعمتوں میں فضیلت حاصل ہے) ۔ مہلہل اپنے بھائی کلیب کے مرثیہ میں کہتا ہے :۔ الحزم والعزم کان من طبائعہ : ما کل الائہ یاقوم احصیہا حزم اور عزم اس کے اوصاف میں سے تھے ۔ لوگو ! میں اس کی ساری خوبیاں بیان نہیں کر رہا ہوں۔ فضالہ بن زید العدوانی غریبی کی برائیاں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے :۔ غریب اچھا کام بھی کرے تو برا بنتا ہے اور وتحمد الاء البخیل المدرہم مالدار بخیل کے کمالات کی تعریف کی جاتی ہے۔ اجدع ھمدانی اپنے گھوڑے کمیت کی تعریف میں کہتا ہے کہ : ورضیت الاء الکمیت فمن یبع۔ فرسا فلیس جو ادنا بمباع ( مجھے کمیت کے عمدہ اوصاف پسند ہیں اگر کوئی شخص کسی گھوڑے کو بیچتا ہے تو بیچے ہمارا گھوڑا بکنے والا نہیں ہے۔ ( بحوالہ انوار البیان) رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے
آیت ٤٠{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ۔ } ” تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟ “
37 The real basis of the crime according to the Qur'an is that the servant who is benefiting by the Blessings of his Sustainer; should harbour the misunderstanding that the blessings have been bestowed by no one, but have reached him of their own accord, or that the blessings are not the gift of God but the fruit of his own ability or good fortune, or that they are the gift of God, but God has no right on His servants, or that God Himself has not done him those favours but some other being has got these done him. These are the wrong concepts on account of which man becomes independent of God and being free from His obedience and service performs acts which He has forbidden. and avoids acts which He has enjoined. Seen in this light every crime and every sin Is, in reality. o disavowal of the favours of AIIah whether a person denies them by the word of (mouth or not. But the person who, in fact, has no intention of the denial. but acknowledges the favours in the depths of his heart, commits an error occasionally because of human weakness, he shows repentance on it and tries to ovoid it. This saves him from being included among the deniers. Apart from this. aII other culprits are, in fact, beliers of Allah's blessings and deniers of His favours. That is why it has been said: "When you will have been seized as culprits, then We shall see as to which of Our favours you deny." In Surah Takathur: 8 the same thing has been put thus: "On that Day you will certainly be culled to account for the blessings you had been granted." That is, it will be asked: Had We granted you these blessings or not ? Then, what attitude did you adopt towards your Benefactor, and in what ways did you use His Blessings?"
سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :37 جرم کی حقیقی بنیاد قرآن کی نگاہ میں یہ ہے کہ بندہ جو اپنے رب کی نعمتوں سے متمتع ہو رہا ہے ، اپنے نزدیک یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ نعمتیں کسی کی دی ہوئی نہیں ہیں بلکہ آپ سے آپ اسے مل گئی ہیں ، یا یہ کہ یہ نعمتیں خدا کا عطیہ نہیں بلکہ اس کی اپنی قابلیت یا خوش نصیبی کا ثمرہ ہیں ، یا یہ کہ یہ ہیں تو خدا کا عطیہ مگر اس خدا کا اپنے بندے پر کوئی حق نہیں ہے ۔ یا یہ کہ خدا نے خود یہ مہربانیاں اس پر نہیں کی ہیں بلکہ یہ کسی دوسری ہستی نے اس سے کروا دی ہیں ۔ یہی وہ غلط تصورات ہیں جن کی بنا پر آدمی خدا سے بے نیاز اور اس کی اطاعت و بندگی سے آزاد ہو کر دنیا میں وہ افعال کرتا ہے جن سے خدا نے منع کیا ہے اور وہ افعال نہیں کرتا جن کا اس نے حکم دیا ہے ۔ اس لحاظ سے ہر جرم اور ہر گناہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے احسانات کی تکذیب ہے قطع نظر اس سے کہ کوئی شخص زبان سے ان کا انکار کرتا ہو یا اقرار ۔ مگر جو شخص فی الواقع تکذیب کا ارادہ نہیں رکھتا ، بلکہ اس کے ذہن کی گہرائیوں میں تصدیق موجود ہوتی ہے ، وہ احیاناً کسی بشری کمزوری سے کوئی قصور کر بیٹھے تو اس پر استغفار کرتا ہے اور اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے ۔ یہ چیز اسے مکذبین میں شامل ہونے سے بچا لیتی ہے ۔ اس کے سوا باقی تمام مجرم در حقیقت اللہ کی نعمتوں کے مکذب اور اس کے احسانات کے منکر ہیں ۔ اسی لیے فرمایا کہ جب تم لوگ مجرم کی حیثیت سے گرفتار ہو جاؤ گے اس وقت ہم دیکھیں گے کہ تم ہمارے کس کس احسان کا انکار کرتے ہو ۔ سورہ تکاثر میں یہی بات اس طرح فرمائی گئی ہے کہ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ ، اس روز ضرور تم سے ان نعمتوں کے بارے میں باز پرس کی جائے گی جو تمہیں دی گئی تھیں ۔ یعنی پوچھا جائے گا کہ یہ نعمتیں ہم نے تمہیں دی تھیں یا نہیں؟ اور انہیں پاکر تم نے اپنے محسن کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا ؟ اور اس کی نعمتوں کو کس طرح استعمال کیا ؟