Surat ur Rehman

Surah: 55

Verse: 54

سورة الرحمن

مُتَّکِئِیۡنَ عَلٰی فُرُشٍۭ بَطَآئِنُہَا مِنۡ اِسۡتَبۡرَقٍ ؕ وَ جَنَا الۡجَنَّتَیۡنِ دَانٍ ﴿ۚ۵۴﴾

[They are] reclining on beds whose linings are of silk brocade, and the fruit of the two gardens is hanging low.

جنتی ایسے فرشوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہونگے جن کے استر د بیز ریشم کے ہونگے اور ان دونوں جنتوں کے میوے بالکل قریب ہونگے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah said; مُتَّكِيِينَ ... Reclining, (in reference to the residents of Paradise, who will recline or sit cross-legged); ... عَلَى فُرُشٍ بَطَايِنُهَا مِنْ إِسْتَبْرَقٍ ... upon the couches lined with Istabraq, which is thick silk brocade, according to Ikrimah, Ad-Dahhak and Qatadah. Abu Imran Al-Jawni said, "It is thick silk embroidered with gold." In this way, the honor of the outside is alluded to by mentioning the honor of the inside. Abu Ishaq narrated that Hubayrah bin Yarim said that Abdullah bin Mas`ud said, "This is their interior, so what about it if you see their exterior" Allah said, ... وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ and the fruits of the two Gardens will be near at hand. close to the believers who will be able to take any of it they wish, whether they are reclining or otherwise, قُطُوفُهَا دَانِيَةٌ The fruits in bunches whereof will be low and near at hand. (69:23), وَدَانِيَةً عَلَيْهِمْ ظِلَـلُهَا وَذُلِّلَتْ قُطُوفُهَا تَذْلِيلً And the shade thereof is. close upon them, and the bunches of fruit thereof will hang low within their reach. (76:14), meaning, these fruits descend from their branches to those who wish to have them, because they are close at hand, فَبِأَيِّ الاَء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

جنت یافتہ لوگ جنتی لوگ بےفکری سے تکئے لگائے ہوئے ہوں گے خواہ لیٹے ہوئے ہوں خواہ باآرام بیٹھے ہوئے تکیہ سے لگے ہوئے ہوں ان کے بچھاؤنے بھی اتنے بڑھیا ہوں گے کہ ان کے اندر کا استر بھی دبیز اور خالص زرین ریشم کا ہو گا پھر اوپر کا ابرا کچھ ایسا ہو گا اسے تم آپ سوچ لو ۔ مالک بن دینار اور سفیان ثوری فرماتے ہیں استر کا یہ حال ہے اور ابرا تو محض نورانی ہو گا جو سراسر اظہار رحمت و نور ہو گا ۔ پھر اس پر بہترین گلکاریاں ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ان جنتوں کے پھل جنتیوں سے بالکل قریب ہیں ۔ جب چاہے جس حال میں چاہیں وہاں سے لے لیں لیٹے ہوں تو بیٹھا ہونے کی اور بیٹھے ہوں تو کھڑا ہونے کی ضرورت نہیں خودبخود شاخیں جھوم جھوم کر جھکتی رہتی ہیں ۔ جیسے فرمایا آیت ( قُطُوْفُهَا دَانِيَةٌ 23؀ ) 69- الحاقة:23 ) اور فرمایا آیت ( وَدَانِيَةً عَلَيْهِمْ ظِلٰلُهَا وَذُلِّـلَتْ قُـطُوْفُهَا تَذْلِيْلًا 14؀ ) 76- الإنسان:14 ) ، یعنی بیحد قریب میوے ہیں لینے والے کو کوئی تکلیف یا تکلف کی ضرورت نہیں خود شاخیں جھک جھک کر انہیں میوے دے رہی ہیں پس تم اپنے رب کی نعمتوں کے انکار سے باز رہو ۔ چونکہ فروش کا بیان ہوا تھا تو ساتھ ہی فرمایا کہ ان فروش پر ان کے ساتھ ان کی بیویاں ہوں گی ، جو عفیفہ ، پاکدامن ، شرمیلی نگاہوں والی ہوں گی اپنے خاوندوں کے سوا کسی پر نظریں نہ ڈالیں گے اور ان کے خاوند بھی ان پر سو جان سے مائل ہوں گے ۔ یہ بھی جنت کی کسی چیز کو اپنے ان مومن خاوندوں سے بہتر نہ پائیں گی ۔ یہ بھی وارد ہوا ہے کہ یہ حوریں اپنے خاوندوں سے کہیں گی اللہ کی قسم ساری جنت میں میرے لئے تم سے بہتر کوئی چیز نہیں اللہ خوب جانتا ہے کہ میرے دل میں جنت کی کسی چیز کی خواہش و محبت اتنی نہیں جتنی آپ کی ہے ، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے آپ کو میرے حصے میں کر دیا اور مجھے آپ کی خدمت کا شرف بخشا ۔ یہ حوریں کنواری اچھوتی نوجوان ہوں گی ان جنتیوں سے پہلے ان کے پاک جسم کو کسی انس و جن کا ہاتھ بھی نہ لگا ۔ یہ آیت بھی مومن جنوں کے جنت میں جانے کی دلیل ہے ۔ حضرت ضمرہ بن حبیب سے سوال ہوتا ہے کہ کیا مومن جن بھی جنت میں جائیں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں اور جنیہ عورتوں سے ان کے نکاح ہوں گے جیسے انسان کے انسان عورتوں سے ۔ پھر یہی آیتیں تلاوت کیں پھر ان حوروں کی تعریف بیان ہو رہی ہے کہ وہ اپنی صفائی خوبی اور حسن میں ایسی ہیں جیسے یاقوت و مرجان ، یاقوت سے صفائی میں تشبیہ دی اور مرجان سے بیاض میں پس مرجان سے مراد یہاں لؤلؤ ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اہل جنت کی بیویوں میں سے ہر ایک ایسی ہے کہ ان کی پنڈلی کی سفیدی ستر ستر حلوں کے پہننے کے بعد بھی نظر آتی ہے یہاں تک کہ اندر کا گودا بھی آپ نے آیت ( كَاَنَّهُنَّ الْيَاقُوْتُ وَالْمَرْجَانُ 58۝ۚ ) 55- الرحمن:58 ) پڑھی اور فرمایا دیکھو یاقوت ایک پتھر ہے لیکن قدرت نے اس کی صفائی اور جوت ایسی رکھی ہے کہ اس کے بیچ میں دھاگہ پرو دو تو باہر سے نظر آتا ہے ( ابن ابی حاتم ) یہ روایت ترمذی میں بھی موقوفاً حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے اور امام ترمذی اس کو زیادہ صحیح بتاتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے پیغمبر مدنی احمد مجتبیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہر اہل جنت کی دو بیویاں اس صفت کی ہوں گی کہ ستر ستر حلے پہن لینے کے بعد بھی ان کی پنڈلیوں کی جھلک نمودار رہے گی بلکہ اندر کا گودا بھی بوجہ صفائی کے دکھائی دے گا صحیح مسلم میں ہے کہ یا تو فخر کے طور پر یا مذاکراہ کے طور پر یہ بحث چھڑ گئی کہ جنت میں عورتیں زیادہ ہوں گی یا مرد ؟ تو حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا کیا ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا ؟ کہ پہلی جماعت جو جنت میں جائے گی وہ چاند جیسی صورتوں والی ہو گی ان کے پیچھے جو جماعت جائے گی وہ آسمان کے بہترین چمکیلے تاروں جیسے چہروں والی ہوگی ۔ ان میں سے ہر شخص کی دو بیویاں ایسی ہوں گی جن کی پنڈلی کا گودا گوشت کے پیچھے سے نظر آئے گا اور جنت میں کوئی بغیر بیوی کے نہ ہو گا ۔ اس حدیث کی اصل بخاری میں بھی ہے مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کی راہ کی صبح اور شام ساری دنیا سے اور جو اس میں ہے سب سے بہتر ہے ۔ جنت میں جو جگہ ملے گی اس میں ایک کمان یا ایک کوڑے کے برابر کی جگہ ساری دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے افضل ہے اگر جنت کی عورتوں میں سے ایک عورت دنیا میں جھانک لے تو زمین و آسمان کو جگمگا دے اور خوشبو سے تمام عالم مہک اٹھے ۔ ان کی ہلکی سی چھوٹی دو پٹیا بھی دنیا اور دنیا کی ہر چیز سے گراں ہے صحیح بخاری میں یہ حدیث بھی ہے پھر ارشاد ہے کہ جس نے دنیا میں نیکی کی اس کا بدلہ آخرت میں سلوک و احسان کے سوا اور کچھ نہیں جیسے ارشاد ہے ( لِلَّذِيْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِيَادَةٌ 26؀ ) 10- یونس:26 ) نیکی کرنے والے کے لئے نیکی ہے اور زیادتی یعنی جنت اور دیدار باری ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کر کے اپنے اصحاب سے پوچھا جانتے ہو تمہارے رب نے کیا کہا ؟ انہوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی علم ہے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں جس پر اپنی توحید کا انعام دنیا میں کروں اس کا بدلہ آخرت میں جنت ہے اور چونکہ یہ بھی ایک عظیم الشان نعمت ہے جو دراصل کسی عمل کے بدلے نہیں بلکہ صرف اسی کا احسان اور فضل و کرم ہے اس لئے اس کے بعد ہی فرمایا اب تم میری کس کس نعمت سے لاپرواہی برتو گے ؟ رب کے مقام سے ڈرنے والے کی بشارت کے متعلق ترمذی شریف کی یہ حدیث بھی خیال میں رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو ڈرے گا وہ رات کے وقت ہی کوچ کرے گا اور جو اندھیری رات میں چل پڑا وہ منزل مقصود تک پہنچ جائے گا خبردار ہو جاؤ اللہ کا سودا بہت گراں ہے یاد رکھو وہ سودا جنت ہے امام ترمذی اس حدیث کو غریب بتاتے ہیں حضرت ابو الدرداء فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے منبر پر وعظ بیان فرماتے ہوئے سنا کہا آپ نے آیت ( وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ 46۝ۚ ) 55- الرحمن:46 ) پڑھی تو میں نے کہا اگرچہ زنا کیا ہو اگرچہ چوری کی ہو ؟ باقی حدیث اوپر گذر چکی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

54۔ 1 ابری یعنی اوپر کا کپڑا ہمیشہ استر سے بہتر اور خوبصورت ہوتا ہے، یہاں صرف استر کا بیان ہے، جس کا مطلب ہے کہ اوپر (ابری) کا کپڑا اس سے کہیں زیادہ عمدہ ہوگا۔ 54۔ 2 اتنے قریب ہونگے کہ بیٹھے بیٹھے بلکہ لیٹے لیٹے بھی توڑ سکیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٥] ان آیات میں اہل جنت پر اللہ کے انعامات کا ذکر ہے یعنی جن بچھونوں پر وہ تکیہ لگا کر بیٹھا کریں گے ان کا استر تو موٹے ریشم کا ہوگا اور ابرہ تو بہرحال اس سے بھی بہتر ہی کوئی کپڑا ہوگا جس کا وجود غالباً اس دنیا میں نہیں پایا جاتا۔ یہ بچھونے انہیں باغوں میں ہوں گے جو ان کی اپنی ذاتی قیام گاہیں ہوں گی اور ان باغوں کے پھل اتنے جھکے ہوئے ہوں گے کہ جب چاہیں اور جونسا پھل چاہیں اسی وقت ہاتھ سے پکڑ کر توڑ کر کھا سکیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ مُتَّکِئِیْنَ عَلٰی فُرُشٍ م ۔۔۔۔۔” مُتَّکِئِیْنَ “” و کی “ سے ” اتکا یت کی اتکا “ ( افتعال) ہے اسم فاعل ” من کی “ کی جمع ہے ، پہلو پر کہنی کے سہارے لیٹے ہوئے یا ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے شخص کو کہتے ہیں۔” فرش “ ” فراش “ کی جمع ہے ، جیسے ” کتاب “ کی جمع ” کتب “ ہے ۔ ” بطائن “ ” بطانۃ “ کی جمع ہے ، گدے کے بیرونی حصے کو ” ظھارۃ “ اور اندرونی حصے کو ” بطانۃ “ کہتے ہیں ۔ اردو میں ” بطانۃ “ کو استر اور ” ظھارۃ “ کو ابرا کہتے ہیں ۔ ” استبرق “ موٹا ریشم جس میں سونے کی تاریں ہوں ۔ یعنی اپنے رب سے ڈرنے والے یہ جنتی بےفکری کے ساتھ ایسے بستروں پر ٹیک لگا کر بیٹھے یا لیٹے ہوں گے جن کے استر موٹے ریشم کے ہوں گے ۔ جب استر ایسے ہوں گے تو ابرے کس شان کے ہوں گے۔ ٢۔ وَجَنَا الْجَنَّتَیْنِ دَانٍ ” جنی یجنی “ (ض ( پھل چننا) سے مصدر بمعنی اسم مفعول ہے، پھل۔”’ ان “ ” دنا ، یدنو دنوا “ (ن) سے اسم فاعل ہے ، قریب ۔ یعنی دونوں باغوں کا پھل قریب ہوگا ، کھڑے ، بیٹھے اور لیٹے جب چاہیں گے چن سکیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مُتَّكِــــِٕيْنَ عَلٰي فُرُشٍؚبَطَاۗىِٕنُہَا مِنْ اِسْتَبْرَقٍ۝ ٠ ۭ وَجَنَا الْجَنَّـتَيْنِ دَانٍ۝ ٥٤ ۚ تكأ المُتَّكَأ : المکان الذي يتكأ عليه، والمخدّة : المتکأ عليها، وقوله تعالی: وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] ، أي : أترجا «1» . وقیل : طعاما متناولا، من قولک : اتكأ علی كذا فأكله، ( ت ک ء ) التکاء ( اسم مکان سہارہ لگانے کی جگہ ۔ تکیہ جس پر ٹیک لگائی جائے اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں متکاء کے معنی ترنج کے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ مراد کھانا ۔ فرش الفَرْشُ : بسط الثّياب، ويقال لِلْمَفْرُوشِ : فَرْشٌ وفِرَاشٌ. قال تعالی: الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِراشاً [ البقرة/ 22] ، أي : ذلّلها ولم يجعلها ناتئة لا يمكن الاستقرار عليها، والفِرَاشُ جمعه : فُرُشٌ. قال : وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ [ الواقعة/ 34] ، فُرُشٍ بَطائِنُها مِنْ إِسْتَبْرَقٍ [ الرحمن/ 54] . والفَرْشُ : ما يُفْرَشُ من الأنعام، أي : يركب، قال تعالی: حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام/ 142] ، وكنّي بِالْفِرَاشِ عن کلّ واحد من الزّوجین، فقال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «الولد للفراش» وفلان کريم المَفَارِشِ أي : النّساء . وأَفْرَشَ الرّجل صاحبه، أي : اغتابه وأساء القول فيه، وأَفْرَشَ عنه : أقلع، والفَرَاشُ : طير معروف، قال : كَالْفَراشِ الْمَبْثُوثِ [ القارعة/ 4] ، وبه شبّه فَرَاشَةُ القفل، والْفَرَاشَةُ : الماء القلیل في الإناء . ( ف ر ش ) الفرش ( ن ض ) کے اصل معنی کپڑے کو بچھانے کے ہیں لیکن بطور اسم کے ہر اس چیز کو جو بچھائی جائے فرش وفراش کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِراشاً [ البقرة/ 22] جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا ۔۔۔۔۔ بنایا یعنی قابل رہائش بنایا اور اسے ابھرا ہوا نہیں بنایا جس پر سکونت ناممکن ہو اور الفراش کی جمع فرس آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ [ الواقعة/ 34] اور اونچے اونچے فرشتوں میں ۔ فُرُشٍ بَطائِنُها مِنْ إِسْتَبْرَقٍ [ الرحمن/ 54] ایسے بچھو نوں پر جن کے استر طلس کے ہیں ۔۔۔۔ اور فرش سے مراد وہ جانور بھی ہوتے ہیں جو بار برداری کے قبال نہ ہوں جیسے فرمایا : ۔ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام/ 142] چوپایوں میں سے بڑی عمر کے جو بار برداری کے کام آتے ہیں اور چھوئی عمر جو بار برادری کا کام نہیں دیتے اور زمین میں لگے ہوئے ( یعنی چھوٹے چھوٹے ) بھی ۔ اور کنایہ کے طور پر فراش کا لفظ میاں بیوی میں سے ہر ایک پر بولا جاتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا الولد للفراش کہ بچہ خاوند کا ہے ۔ اور محاورہ ہے ۔ فلان کریمہ المفارش یعنی اس کی بیگمات اعلیٰ مرتبہ گی ہیں ۔ افرش الرجل صاحبہ اس نے اپنے ساتھی کی غیبت اور بد گوئی کی ۔ افرش عنہ کسی چیز سے رک جانا ( الفرشہ پروانہ تتلی وغیرہ اس کی جمع الفراش آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ كَالْفَراشِ الْمَبْثُوثِ [ القارعة/ 4] جیسے بکھرے ہوئے پتنگے ۔ اور تشبیہ کے طور پر تالے کے کنڈے کو بھی فراشۃ القفل کہا جاتا ہے نیز فراشۃ کے معنی بر تن میں تھوڑا سا پانی کے بھی آتے ہیں ۔ بطن أصل البَطْن الجارحة، وجمعه بُطُون، قال تعالی: وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ [ النجم/ 32] ، وقد بَطَنْتُهُ : أصبت بطنه، والبَطْن : خلاف الظّهر في كلّ شيء، ويقال للجهة السفلی: بَطْنٌ ، وللجهة العلیا : ظهر، وبه شبّه بطن الأمر وبطن الوادي، والبطن من العرب اعتبارا بأنّهم کشخص واحد، وأنّ كلّ قبیلة منهم کعضو بطن وفخذ وكاهل، وعلی هذا الاعتبار قال الشاعر : 58- النّاس جسم وإمام الهدى ... رأس وأنت العین في الرأس «1» ويقال لكلّ غامض : بطن، ولكلّ ظاهر : ظهر، ومنه : بُطْنَان القدر وظهرانها، ويقال لما تدرکه الحاسة : ظاهر، ولما يخفی عنها : باطن . قال عزّ وجلّ : وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام/ 120] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام/ 151] ، والبَطِين : العظیم البطن، والبَطِنُ : الكثير الأكل، والمِبْطَان : الذي يكثر الأكل حتی يعظم بطنه، والبِطْنَة : كثرة الأكل، وقیل : ( البطنة تذهب الفطنة) «2» . وقد بَطِنَ الرجل بَطَناً : إذا أشر من الشبع ومن کثرة الأكل، وقد بَطِنَ الرجل : عظم بطنه، ومُبَطَّن : خمیص البطن، وبَطَنَ الإنسان : أصيب بطنه، ومنه : رجل مَبْطُون : علیل البطن، والبِطانَة : خلاف الظهارة، وبَطَّنْتُ ثوبي بآخر : جعلته تحته . ( ب ط ن ) البطن اصل میں بطن کے معنی پیٹ کے ہیں اس کی جمع بطون آتی ہے قرآں میں ہے ؛{ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ } ( سورة النجم 32) اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے ۔ بطنتۃ میں نے اس کے پیٹ پر مارا ۔ البطن ہر چیز میں یہ ظھر کی ضد ہے اور ہر چیز کی نیچے کی جہت کو بطن اور اویر کی جہت کو ظہر کہا جاتا ہے اسی سے تشبیہ کہا جاتا ہے ؛۔ بطن الامر ( کسی معاملہ کا اندرون ) بطن الوادی ( وادی کا نشیبی حصہ ) اور بطن بمعنی قبیلہ بھی آتا ہے اس اعتبار سے کہ تمام عرب کو بمنزلہ ایک شخص کے فرض کیا جائے ہیں اور ہر قبیلہ بمنزلہ بطن مخذ اور کاہل ( کندھا) وغیرہ اعضاء کے تصور کیا جائے ۔ اسی بناء پر شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) (57) الناس جسم اومامھم الھدیٰ راس وانت العین فی الراس ( کہ لوگ بمنزلہ جسم ہیں اور امام ہدی بمنزلہ سر ہے مگر تم سر میں آنکھ ہو ۔ اور ہر پیچیدہ معاملہ کو بطن اور جلی اور یہاں کو ظہر کہا جاتا ہے ۔ اسی سے بطنان القدر وظھرانھا کا محاورہ ہے ۔ یعنی دیگ کی اندرونی اور بیرونی جانب ۔ ہر اس چیز کو جس کا حاسہ بصر سے ادراک ہو سکے اسے ظاہر اور جس کا حاسہ بصر سے ادراک نہ ہوسکے اسے باطن کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام/ 120] اور ظاہری اور پوشیدہ ( ہر طرح کا ) گناہ ترک کردو ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام/ 151] ظاہری ہوں یا پوشیدہ ۔ البطین کلاں شکم ۔ البطن بسیار خور المبطان جس کا بسیار خوری سے پیٹ بڑھ گیا ہو ۔ البطنۃ بسیارخوری ۔ مثل مشہور ہے ۔ البطنۃ نذھب الفطنۃ بسیار خوری ذہانت ختم کردیتی ہے ۔ بطن الرجل بطنا شکم پری اور بسیار خوری سے اتراجانا ۔ بطن ( ک ) الرجل بڑے پیٹ والا ہونا ۔ مبطن پچکے ہوئے پیٹ والا ۔ بطن الرجل مرض شکم میں مبتلا ہونا اس سے صیغہ صفت مفعولی مبطون مریض شکم آتا ہے ۔ البطانۃ کے معنی کپڑے کا استریا اس کے اندورنی حصہ کے ہیں اور اس کے ضد ظہارۃ ہے ۔ جس کے معنی کپڑے کا اوپر کا حصہ یا ابرہ کے ہیں اور بطنت ثوبی باٰ خر کے معنی ہیں میں نے ایک کپڑے کو دوسرے کے نیچے لگایا ۔ استبرق ۔ ریشم کا زریں موٹا کپڑا۔ دیبا۔ جنی جَنَيْتُ الثمرة واجْتَنَيْتُهَا، والجَنْيُ : المجتنی من الثمر والعسل، وأكثر ما يستعمل الجني فيما كان غضّا، قال تعالی: تُساقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا[ مریم/ 25] ، وقال تعالی: وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دانٍ [ الرحمن/ 54] ، وأَجْنَى الشجر : أدرک ثمره، والأرض : كثر جناها، واستعیر من ذلک جَنَى فلان جِنَاية كما استعیر اجترم . ( ج ن ی ) جنیت ( ض) ) جن یا میں نے درخت سے پھل توڑا ۔ الجنی والجنی چنے ہوئے پھل ، چھتہ سے نکالا ہوا شہد لیکن عام طور پر جنی تازہ پھل کو کہتے ہیں جو حال ہی میں تورا گیا ہو قرآن میں ہے تساقطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا[ مریم/ 25] تم پر تازہ کھجوریں جھڑ پڑیں گی ۔ وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دانٍ [ الرحمن/ 54] اور دونوں باغوں کے میوے قریب ( جھک رہے ) ہیں ۔ اجنی الشجدۃ درخت کے پھل پک گئے توڑنے کے قابل ہوگئے زمین زیادہ پھلوں والی ہوگئی ۔ اسی سے یعنی پھل توڑنے کے معنی سے بطور استعارہ گناہ کرنے کے معنی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ اجترم کا محاورہ بطور استعارہ اس معنی میں آتا ہے دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى [ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] ، وقوله : وَآتَيْناهُ فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ النحل/ 122] ، وتارة عن الأقرب، فيقابل بالأقصی نحو : إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى [ الأنفال/ 42] ، وجمع الدّنيا الدّني، نحو الکبری والکبر، والصّغری والصّغر . وقوله تعالی: ذلِكَ أَدْنى أَنْ يَأْتُوا بِالشَّهادَةِ [ المائدة/ 108] ، أي : أقرب لنفوسهم أن تتحرّى العدالة في إقامة الشهادة، وعلی ذلک قوله تعالی: ذلِكَ أَدْنى أَنْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ [ الأحزاب/ 51] ، وقوله تعالی: لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ [ البقرة/ 220] ، متناول للأحوال التي في النشأة الأولی، وما يكون في النشأة الآخرة، ويقال : دَانَيْتُ بين الأمرین، وأَدْنَيْتُ أحدهما من الآخر . قال تعالی: يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَ [ الأحزاب/ 59] ، وأَدْنَتِ الفرسُ : دنا نتاجها . وخصّ الدّنيء بالحقیر القدر، ويقابل به السّيّئ، يقال : دنیء بيّن الدّناءة . وما روي «إذا أکلتم فدنّوا» «2» من الدّون، أي : کلوا ممّا يليكم . دنا ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی ۔ اور آیت کریمہ ؛وَآتَيْناهُ فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ النحل/ 122] اور ہم نے ان کو دینا بھی خوبی دی تھی اور آخرت میں بھی نیک لوگوں میں ہوں گے ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی اقرب آنا ہے اوراقصی کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال/ 42] جس وقت تم ( مدینے کے ) قریب کے ناکے پر تھے اور کافر بعید کے ناکے پر ۔ الدنیا کی جمع الدنیٰ آتی ہے جیسے الکبریٰ کی جمع الکبر والصغریٰ کی جمع الصغر۔ اور آیت کریمہ ؛ذلِكَ أَدْنى أَنْ يَأْتُوا بِالشَّهادَةِ [ المائدة/ 108] اس طریق سے بہت قریب ہے کہ یہ لوگ صحیح صحیح شہادت ادا کریں ۔ میں ادنیٰ بمعنی اقرب ہے یعنی یہ اقرب ہے ۔ کہ شہادت ادا کرنے میں عدل و انصاف کو ملحوظ رکھیں ۔ اور آیت کریمہ : ذلِكَ أَدْنى أَنْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ [ الأحزاب/ 51] یہ ( اجازت ) اس لئے ہے کہ ان کی آنکھیں ضدی ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ [ البقرة/ 220] تا کہ تم سوچو ( یعنی ) دنای اور آخرت کی باتوں ) میں غور کرو ) دنیا اور آخرت کے تمام احوال کی شامل ہے کہا جاتا ہے ادنیت بین الامرین وادنیت احدھما من الاخر ۔ یعنی دوچیزوں کو باہم قریب کرنا ۔ یا ایک چیز کو دوسری کے قریب کرتا ۔ قرآن میں ہے : يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَ [ الأحزاب/ 59] کہ باہر نکلاکریں تو اپنی چادریں اپنے اوپر ڈٖال لیا کریں َ ادنت الفرس ۔ گھوڑی کے وضع حمل کا وقت قریب آپہنچا ۔ الدنی خاص ک حقیر اور ذیل آدمی کو کہا جاتا ہے اور یہ سیئ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے کہا کاتا ہے :۔ ھودنی یعنی نہایت رزیل ہے ۔ اور حومروی ہے تو یہ دون سے ہیے یعنی جب کھانا کھاؤ تو اپنے سامنے سے کھاؤ ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٤{ مُتَّکِئِیْنَ عَلٰی فُرُشٍم بَطَآئِنُہَا مِنْ اِسْتَبْرَقٍ ط } ” وہ وہاں تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے ایسے بچھونوں پر جن کے استر گاڑھے ریشم کے ہوں گے۔ “ یہاں پر جنت کے بچھونوں کے اندرونی کپڑے (اَستر) کا ذکر ہوا ہے کہ وہ گاڑھے یعنی موٹے ریشم کے بنے ہوں گے لیکن ان کے بیرونی غلافوں کا ذکر نہیں ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے بیرونی غلافوں کی کیفیت ہمارے احاطہ خیال میں آ ہی نہیں سکتی۔ { وَجَنَا الْجَنَّتَیْنِ دَانٍ ۔ } ” اور دونوں جنتوں کے پھل جھکے ہوئے ہوں گے۔ “ یعنی وہ اہل جنت میں سے ہر ایک کی پہنچ میں ہوں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

44 That is, "When their lining will be of such superior quality, you may magine what will be the quality of the outer layer of the carpets."

سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :44 یعنی جب ان کے استر اس شان کے ہونگے تو اندازہ کر لو کہ ابرے کس شان کے ہوں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٤۔ ٦١۔ معتبر سند سے بیہقی ٣ ؎ میں عبد اللہ بن مسعود (رض) کا قول ہے کہ جس بچھو نے کا استر ریشمی کپڑے بیش قیمت کا ہوگا اس بچھونے کے بارے کا حال اللہ ہی کو معلوم ہے کہ کیسا ہوگا استبرق دلدار ریشمی کپڑے کو کہتے ہیں ٤ ؎۔ مجاہد کے قول کے موافق جنت کی میوہ دار شاخیں ایسی حالت پر ہوں گی کہ کھڑے بیٹھے لیٹے سب طرح ان شاخوں میں کا میوہ جنتی لوگ کھا سکیں گے۔ صحیح بخاری ٥ ؎ و مسلم میں عبد اللہ بن اوفی سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت کی عورتوں میں سے کوئی عورت زمین کی طرف جھانک کر دیکھ لے لو مشرق سے مغرب تک ساری زمین پر اس کی خوبصورتی کی چمک پھیل جائے۔ بعض ١ ؎ روایتوں میں یوں بھی ہے کہ اس کے حسن کی چمک سے سورج اور چاند کی روشنی ماند ہوجائے۔ آیت کا نھن الیاقوت والمرجان کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے۔ طبرانی ٢ ؎ میں حضرت ام سلمہ کی بہت بڑی حدیث ہے اس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ حضرت ام سلمہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ دنیا کی ایماندار عورتوں کا درجہ جنت میں بڑھ کر ہوگا یا جنت کی عورتوں کا آپ نے فرمایا نیک عملوں کے اجر کے سبب سے دنیا کی عورتوں کا درجہ جنت میں بڑھ کر ہوگا۔ ان کے چہروں پر اللہ کے حکم سے عجب طرح کا نور آجائے گا۔ طبرانی کی اس حدیث کی سند میں ایک راوی سلیمان بن ابی کریمہ ہے جس کے ثقہ ہونے میں علماء کا اختلاف ہے۔ مسند ٣ ؎ ابی یعلی اور بیہقی میں بھی اس مضمون کی روایتیں ہیں جن سے ام سلمہ (رض) کی حدیث کی تقویت ہوجاتی ہے۔ بیہقی کی سند میں ایک راوی اسماعیل بن رافع کو اگرچہ بعض علماء نے ضعیف بتایا ہے لیکن امام بخاری نے اس کو ثقہ کہا ہے جو علماء اس بات کے قائل ہیں کہ دنیا کی عورتیں حسن اور درجہ میں حوروں سے جنت میں بڑھ کر ہوں گی ان کے قول کی بنیاد اس حدیث پر ہے اور جو علماء حوروں کے بڑھ کر ہونے کے قائل ہیں ان کے قول کی بنیاد عوف بن مالک کی صحیح ٤ ؎ مسلم کی اس حدیث پر ہے جس میں آپ نے ایک جنازہ کی نماز پڑھائی اور یہ دعا کی کہ یا اللہ تو اس میت کو بہ نسبت دنیا کے گھر کے اور دنیا کی بی بی کے عقبیٰ میں اچھا گھر اور اچھی بی بی دے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عقبیٰ کی بیبیاں دنیا کی بیبیوں سے اس طرح اچھی اور بہتر ہوں گی جس طرح وہاں کا گھر دنیا کے گھر سے اچھا اور بہتر ہوگا۔ ظاہرا یہی آخری قول قوی معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد ایک قوی حدیث پر ہے لیکن یہ حدیث عام ہے اس میں سے زیادہ نیک عمل والی دنیا کی عورتوں کو خاص ٹھہرانا چاہئے کیونکہ دوسرے قول کی بنیاد جن حدیثوں پر ہے ان کے باہمی تقویت کا حال بھی بیان کیا جا چکا ہے۔ نیچی نگاہ والیوں کا مطلب حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) ٥ ؎ کے قول کے موافق یہ ہے کہ سوائے اپنے شوہر کے دوسرے غیر مرد کی طرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھیں گی۔ نہیں ساتھ سلایا ان کو کسی آدمی نے ان سے پہلے نہ کسی جن نے ‘ اس کا مطلب حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی تفسیر کے موافق یہ ہے کہ وہ کو اری ہوں گی۔ آیت کے اس ٹکڑے کو علماء نے اس بات کی دلیل ٹھہرایا ہے کہ جنات بھی جنت میں جائیں گے۔ صحیح و مسلم ٦ ؎ کی معاذ بن جبل کی حدیث اوپر گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ خالص دل سے اللہ کی عبادت کریں اور اس حق کے ادا ہونے کے بعد بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو دوزخ کے عذاب سے بچا کر جنت میں داخل کرے آیت ھل جزاء الاحسان الاحسان کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے۔ (٣ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ١٤٧ ج ٦ و تفسیر ابن کثیر ص ٢٧٧ ج ٤۔ ) (٤ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ١٤٧ ج ٦۔ ) (٥ ؎ صحیح بخاری باب صفۃ الجنۃ والنار ص ٩٧٢ ج ٢۔ ) (١ ؎ الترغیب والترہیب فصل فی وصف نساء اھل الجنۃ ص ٩٨٨ ج ٤۔ ) (٢ ؎ الترغبب والترہیب فصل فی وصف نساء اھل الجنۃ ص ٩٩٣ ج ٤۔ ) (٣ ؎ الترغیب والترہیب۔ فصل فی وصف نساء اھل الجنۃ ص ٩٩١ ج ٤۔ ) (٤ ؎ صحیح مسلم۔ فضل الدعاء للمیت ص ٣١١ ج ١۔ ) (٥ ؎ تفسیر ابن کثرو ص ٢٧٨ ج ٤۔ ) (٦ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٢٧٨ ج ٤۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(55:54) متکئین : اسم فاعل جمع مذکر اتکاء (افتعال) مصدر۔ تکیہ لگانے والے۔ تکیہ لگائے ہوئے۔ منصوب بوجہ حال ہونے کے خائفین سے آیت (46) ۔ درآں حال یہ کہ وہ تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے (من خاف جمع کے معانی میں ہے) فرش۔ فراش کی جمع بمعنی بستر، بچھونا۔ فرش وفراش مصدر (باب نصر، ضرب) ۔ الفرش کے اصل معنی کپڑے کو بچھانے کے ہیں۔ لیکن بطور اسم کے ہر اس چیز کو جو بچھائی جائے فرش وفراش کہا جاتا ہے۔ چناچہ اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ الذی جعل لکم الارض فراشا (2:22) جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا بنایا۔ آیت زیر غور کا ترجمہ ہوگا۔ ایسے بچھونوں پر جن کے استر اطلس کے ہوں گے۔ بطائنھا : مضاف مضاف الیہ۔ بطائن بطانۃ کی جمع ہے بمعنی استر، کپڑے کا باطنی حصہ جو جسم سے ملاد ہے۔ یہ بطن سے مشتق ہے یہ ظھر کی ضد ہے اوپر کی جانب کو ظہر اور اندر کی جانب کو بطن بولتے ہیں۔ کپڑے کے اوپر کے حصے کو ظھارۃ کہتے ہیں اور اندرونی نیچے کے حصہ کو جو جسم سے ملا رہے۔ جیسے استر وغیرہ اسے بطانۃ کہتے ہیں البطن کے اصل معنی پیٹ کے ہیں اور اس کی جمع بطون ہے۔ ہر اس چیز کو جس کا حاسہ بصر سے ادراک ہو سکے اسے ظاہر اور جس کا حاسہ بصر سے ادراک نہ ہوسکے۔ اسے باطن کہا جاتا ہے۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب فرش کے لئے ہے ان بستروں کے استر۔ استبرق۔ ریشم کا زریں موٹا کپڑا۔ دیبا۔ بطائنھا من استبرق۔ یہ صفت ہے فرش کی، ان بستروں کے استر ریشم کے موٹے کپڑے کے ہوں گے۔ وجنا الجنتین دان۔ واؤ عاطفہ۔ جنا الجنتین مضاف مضاف الیہ مل کر مبتدا دان اس کی خبر۔ جناح : ن ی مادہ سے مشتق ہے۔ جنیت (باب ضرب) جن یا الثمرۃ واجتنی تھا۔ میں نے درخت سے پھل توڑا۔ جنا وجنی اسم ہے بمعنی اسم مفعول مجنی یعنی درختوں سے چنے جانے والے اور توڑے جانے والے پھل۔ یعنی جنت کے درختوں سے پھل توڑنا آسان ہوگا دشوار نہ ہوگا۔ دان : اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر۔ جھکنے والا ، نزدیک۔ دنو (باب نصر) مصدر۔ اسی سے دنیا ہے جو اسم تفضیل ہے بمعنی بہت قریب۔ اسی معنی میں اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ وذللت قطوفھا تذلیلا (72:14) اور میووں کے گچھے جھکے ہوئے لٹک رہے ہونگے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی جب انکے استر اس شان کے ہوں گے تو ابروں کا کیا کہنا۔ 6 یعنی قریب ہوں گے تاکہ توڑنے میں وقت نہ ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ قاعدہ ہے کہ ابرہ بہ نسبت استر کے زیادہ نفیس ہوتا ہے پس جب استر استبرق کا ہوگا تو ابرہ کیسا کچھ ہوگا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

متکئین ............ استبرق (55:45) ” جنتی لوگ ایسے فرشوں پر تکئے لگائے بیٹھے ہوں گے جن کے استردبیزریشم کے ہوں گے “ استبرق ریشمی مخمل جو دبیز ہوگا۔ اگر ان کے استرای سے ہوں گے تو ان کے ظاہری غلاف تو نہایت ہی خوبصورت ہوں گے۔ وجنا الجنتین دان (55:45) ” اور باغوں کی ڈالیں پھلوں سے جھکی پڑرہی ہوں گی “ یعنی اگر کوئی پھل توڑنا چاہے تو اسے کسی مشقت کا سامنا کرنا نہ ہوگا۔ لیکن انہی باتوں پر جنت کی نعمتیں ختم نہیں ہوتیں بلکہ اس سے بھی لطیف تر انعامات ہوں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

متقی حضرات کے بستر : متقی حضرات کی مزید نعمتیں بیان کرتے ہوئے ان کے بستروں اور بیویوں کا بھی تذکرہ فرمایا، بستروں کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ ایسے بستروں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے جس کا استر یعنی اندر کا کپڑا استبرق یعنی دبیز ریشم کا ہوگا، دنیا میں جو بستر بچھائے جاتے ہیں ان میں ایک استر اوپر کا اور ایک استر نیچے کا ہوتا ہے اوپر والا نقش و نگار والا خوبصورت ہوتا ہے اور نیچے والا نقش و نگار والا نہیں ہوتا قیمتاً بھی اوپر والے کی نسبت گھٹیا ہوتا ہے، آیت میں اہل جنت کے بستروں کے نیچے والے حصے کے بارے میں بتایا کہ وہ دبیز یعنی موٹے ریشم کے ہوں گے۔ حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ تمہیں جنت کے بستروں کے نیچے والے استروں کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ دبیز یعنی موٹے ریشم کے ہوں گے اسی سے سمجھ لو کہ اوپر والے استر کیسے خوش نما اور آرام دہ ہوں گے۔ (رواہ الحاکم وقال صحیح علی شرط الشیخین واقرالذھبی فی تلخیصہ) ۔ حضرت سعید بن جبیر (رض) سے سوال کیا گیا کہ اندرونی بستر استبرق کے ہوں گے اوپر کے بستروں کا کیا حال ہوگا تو اس کے جواب میں سورة الم سجدہ کی یہ آیت سنادی ﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ ﴾ (کسی نفس کو معلوم نہیں کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک میں سے کیا کچھ چھپایا گیا ہے) مطلب یہ تھا کہ اس کے بارے میں دیکھے بغیر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ جنت میں دیکھ کر ہی پتہ چلے گا کہ وہ کیسے ہیں ؟ دونوں جنتوں کے پھل قریب ہوں گے : ﴿وَ جَنَا الْجَنَّتَيْنِ دَانٍۚ٠٠٥٤﴾ (اور دونوں جنتوں کے پھل قریب ہوں گے) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا ہے کہ اولیاء اللہ جنت میں ہوں گے اگر چاہیں گے کھڑے ہو کر پھل توڑ لیں گے اور اگر چاہیں گے بیٹھے بیٹھے توڑ لیں گے اور اگر چاہیں تو لیٹے لیٹے لے لیں گے ہر حال میں درخت ان کے قریب آجائیں گے۔ (روح المعانی) قولہ جنی ھو ما یجتنی من الثمار بالالف المقصورة اصلہ یائٌ فی آخرہ، ودانٍ اسم فاعل من دنایدنو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(54) اہل جنت ایسے فرشوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے جن کے استرو بیزریشم کے ہوں گے اور ان دونوں باغوں کے پھل بہت ہی قریب ہوں گے۔ استر کے ریشمین ہونے سے ابرے کی خوبی خود بخود سمجھ میں آسکتی ہے کیونکہ استر سے ابرابڑھیا ہوا کرتا ہے پھلوں کے قریب اور جھکے ہوئے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان پھلوں کا حاصل کرنا بہت آسان ہوگا چاہے کھڑے ہو کر چاہے بیٹھ کرچا ہے لیٹے لیٹے وہ پھل حاصل کئے جاسکیں گے۔