Surat ur Rehman

Surah: 55

Verse: 62

سورة الرحمن

وَ مِنۡ دُوۡنِہِمَا جَنَّتٰنِ ﴿ۚ۶۲﴾

And below them both [in excellence] are two [other] gardens -

اور ان کے سوا دو جنتیں اور ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

These two gardens are lower, in virtue and in status than the two before them, as supported in the Qur'an. Allah said: وَمِن دُونِهِمَا جَنَّتَانِ And below these two, there are two other Gardens. We previously mentioned the Hadith stating that there are two gardens made of gold, their vessels and all they contain, and there are two gardens made of silver, their vessels and all they contain. The first two are for the near believers (Muqarribin) and the latter two are for those on the right (Ashab Al-Yamin). Abu Musa commented, "There are two gardens made of gold for the Muqarribin and two gardens made of silver for Ashab Al-Yamin." There are several proofs that the former two gardens in Paradise are better in grade than the latter. Allah mentioned the former two gardens before the latter two, thus indicating their significance, then He said, وَمِن دُونِهِمَا جَنَّتَانِ (And below these two, there are two other Gardens). And this is an obvious form of honoring the first two gardens over the latter two. فَبِأَيِّ الاَء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

اصحاب یمین اور مقربین یہ دونوں جنتیں ہیں جن کا ذکر ان آیتوں میں ہے ان جنتوں سے کم مرتبہ ہیں جن کا ذکر پہلے گذرا اور وہ حدیث بھی بیان ہو چکی جس میں ہے دو جنتیں سونے کی اور دو چاندی کی ۔ پہلی دو تو مقربین خاص کی جگہ ہیں اور یہ دوسری دو اصحاب یمین کی الغرض درجے اور فضیلت میں یہ دو ان دو سے کم ہیں جس کی دلیلیں بہت سی ہیں ایک یہ کہ ان کا ذکر اور صف ان سے پہلے بیان ہوئی اور یہ تقدیم بیان بھی دلیل ہے ان کی فضیلت کی ، پھر یہاں آیت ( وَمِنْ دُوْنِهِمَا جَنَّتٰنِ 62۝ۚ ) 55- الرحمن:62 ) فرمانا صاف ظاہر کرتا ہے کہ یہ ان سے کم مرتبہ ہیں وہاں ان کی تعریف میں آیت ( ذَوَاتَآ اَفْنَانٍ 48۝ۚ ) 55- الرحمن:48 ) یعنی بکثرت مختلف مزے کے میووں والی شاخ دار ۔ یہاں فرمایا آیت ( مُدْهَاۗمَّتٰنِ 64۝ۚ ) 55- الرحمن:64 ) یعنی پانی کی پوری تری سے سیاہ ابن عباس فرماتے ہیں سبز ، محمد بن کعب فرماتے ہیں سبزی سے پُر ، قتادہ فرماتے ہیں اس قدر پھل پکے ہوئے تیار ہیں کہ وہ ساری جنت سرسبز معلوم ہو رہی ہے الغرض وہاں شاخوں کی پھیلاوٹ بیان ہوئی یہاں درختوں کی کثرت بیان فرمائی گئی تو ظاہر ہے کہ اس میں اور اس میں بھی بہت فرق ہے ان کی نہروں کی بابت لفظ آیت ( تجریان ) ہے اور یہاں لفظ آیت ( فِيْهِمَا عَيْنٰنِ نَضَّاخَتٰنِ 66۝ۚ ) 55- الرحمن:66 ) ہے یعنی ابلنے والی اور یہ ظاہر ہے کہ نضخ سے جری یعنی ابلنے سے بہنا بہت برتری والا ہے حضرت ضحاک فرماتے ہیں یعنی پُر ہیں پانی رکتا نہیں اور لیجئے وہاں فرمایا تھا کہ ہر قسم کے میووں کے جوڑے ہیں اور یہاں فرمایا اس میں میوے اور کھجوریں اور انار ہیں تو ظاہر ہے کہ پہلے کے الفاظ عمومیت کے لئے ہوئے ہیں وہ قسم کے اعتبار سے اور کمیت کے اعتبار سے بھی اس سے افضلیت رکھتے ہیں کیونکہ یہاں لفظ فاکھہ گو نکرہ ہے لیکن سیاق میں اثبات کے ہے اس لئے عام نہ ہو گا اسی لئے بطور تفسیر کے بعد میں نخل و رمان کہہ دیا ۔ جیسے عطف خاص عام پر ہوتا ہے امام بخاری وغیرہ کی تحقیق بھی یہی ہے کھجور اور انار کو خاصۃ اس لئے ذکر کیا کہ اور میووں پر انہیں شرف ہے ۔ مسند عبد بن حمید میں ہے یہودیوں نے آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا جنت میں میوے ہیں ؟ آپ نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا ہاں ہیں انہوں نے پوچھا کیا جنتی دنیا کی طرح وہاں بھی کھائیں پئیں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں بلکہ بہت کچھ زیادہ اور بہت کچھ زیادہ انہوں نے کہا پھر وہاں فضلہ بھی نکلے گا ؟ آپ نے فرمایا نہیں نہیں بلکہ پسینہ آ کر سب ہضم ہو جائے گا ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع حدیث میں ہے جنتی کھجور کے درختوں کے ریش کا جنتیوں کا لباس بنائیں گے ۔ یہ سرخ رنگ سونے کے ہوں گے اس کے تنے سبز زمرد میں ہوں گے اس کے پھل شہد سے زیادہ میٹھے اور مکھن سے زیادہ نرم ہوں گے گھٹلی بالکل نہ ہو گی ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ میں نے جنت کے انار دیکھے اتنے بڑے تھے جیسے اونٹ مع ہودج ۔ خیرات کے معنی بہ کثرت اور بہت حسین نہایت نیک خلق اور بہتر خلق ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ معنی مروی ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ حور عین جو گانا گائیں گی ان میں یہ بھی ہو گا ہم خوش خلق خوبصورت ہیں جو بزرگ خاوندوں کے لئے پیدا کی گئی ہیں یہ پوری حدیث سورہ واقعہ کی تفسیر میں ابھی آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ ۔ یہ لفظ تشدید سے بھی پڑھا گیا ہے پھر سوال ہوتا ہے کہ اب تم اپنے رب کی کس کس نعمت کی تکذیب کرتے ہو ؟ حوریں ہیں جو خیموں میں رہتی سہتی ہیں یہاں بھی وہی فرق ملاحظہ ہو کہ وہاں تو فرمایا تھا کہ خود وہ حوریں اپنی نگاہ نیچی رکھتی ہیں اور یہاں فرمایا ان کی نگاہیں نیچی کی گئی ہیں ، پس اپنے آپ ایک کام کرنا اور دوسرے سے کرایا جانا ان دونوں میں کس قدر فرق ہے گو پردہ دونوں صورتوں میں حاصل ہے ، حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں ہر مسلمان کے لئے خیرہ یعنی نیک اور بہترین نورانی حور اور ہر خیرہ کے لئے خیمہ ہے اور خیمہ کے چار دروازے ہیں جن میں سے ہر روز تحفہ کرامت ہدیہ اور انعام آتا رہتا ہے ۔ نہ وہاں کوئی فساد ہے نہ سختی نہ گندگی نہ بدبو ۔ حوروں کی صحبت ہے جو اچھوتے صاف سفید چمکیلے موتیوں جیسی ہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنت میں ایک خیمہ ہے در مجوف ، جس کا عرض ساٹھ میل کا ہے اس کے ہر ہر کونے میں جنتی کی بیویاں ہیں جو دوسرے کونے والیوں کو نظر نہیں آتیں مومن ان سب کے پاس آتا جاتا رہے گا ۔ دوسری روایت میں چوڑائی کا تیس میل ہونا مروی ہے یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں بھی ہے حضرت ابو درداء فرماتے ہیں خیمہ ایک ہی لؤلؤ کا ہے جس میں ستر دروازے موتی کے ہیں ابن عباس فرماتے ہیں جنت میں ایک خیمہ ہو گا جو ایک موتی کا بنا ہوا ہو گا چار فرسخ چوڑا جس کے چار ہزار دروازے ہوں گے اور چوکھٹیں سب کی سونے کی ہوں گی ایک مرفوع حدیث میں ہے ادنیٰ درجے کے جنتی کے اسی ہزار خادم ہوں گے اور بہتر بیویاں ہوں گی اور لؤلؤ زبرجد کا محل ہو گا جو جابیہ سے صنعاء تک پہنچے پھر فرماتا ہے ان بےمثل حسینوں کے پنڈے اچھوتے ہیں کسی جن و انس کا گذر ان کے پاس سے نہیں ہوا ۔ پہلے بھی اس قسم کی آیت مع تفسیر گذر چکی ہے ہاں پہلی جنتوں کی حوروں کے اوصاف میں اتنا جملہ وہاں تھا کہ وہ یاقوت و مرجان جیسی ہیں یہاں ان کے لئے یہ نہیں فرمایا گیا پھر سوال ہوا کہ حوروں کے اوصاف میں اتنا جملہ وہاں تھا کہ وہ یاقوت و مرجان جیسی ہیں ، یہاں ان کے لئے یہ نہیں فرمایا گیا پھر سوال ہوا کہ تمہیں رب کی کس کس نعمت کا انکار ہے ؟ یعنی کسی نعمت کا انکار نہ کرنا چاہیے یہ جنتی سبز رنگ اعلیٰ قیمتی فرشوں غالیچوں اور تکیوں پر ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے ہوں گے تخت ہوں گے اور تختوں پر پاکیزہ اعلیٰ فرش ہوں گے اور بہترین منقش تکئے لگے ہوئے ہوں گے یہ تخت یہ فرش یہ تکئے جنت کے باغیچوں اور ان کی کیاریوں پر ہوں گے اور یہی ان کے فرش ہوں گے کوئی سرخ رنگ ہو گا کوئی زرد رنگ اور کوئی سبز رنگ جنتیوں کے کپڑے بھی ایسے ہی اعلیٰ اور بالا ہوں گے دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں جس سے انہیں تشبیہ دی جاسکے یہ بسترے مخملی ہوں گے جو بہت نرم اور بالکل خالص ہوں گے کئی کئی رنگ کے ملے جلے نقش ان میں بنے ہوئے ہوں گے ابو عبیدہ فرماتے ہیں عبقرہ ایک جگہ کا نام ہے جہاں منقش بہترین کپڑے بنے جاتے تھے ، خلیل بن احمد فرماتے ہیں ہر نفیس اور اعلیٰ چیز کو عرب عبقری کہتے ہیں چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر بن خطاب کی نسبت فرمایا میں نے کسی عبقری کو نہیں دیکھا جو عمر کی طرح پانی کے بڑے بڑے ڈول کھینچتا ہو یہاں یہ بھی خیال فرمائیے کہ پہلی دو جنتوں کے فرش و فروش اور وہاں کے تکیوں کی جو صفت بیان کی گئی ہے وہ ان سے اعلیٰ ہے وہاں بیان فرمایا گیا تھا کہ ان کے استر یعنی اندر کا کپڑا خالص دبیز ریشم ہو گا پھر اوپر کے کپڑے کا بیان نہیں ہوا تھا اس لئے کہ جس کا استر اتنا اعلیٰ ہے اس کے ابرے یعنی اوپر کے کپڑے کا تو کہنا ہی کیا ہے ؟ پھر اگلی دو جنتوں کے اوصاف میں احسان کو بیان فرمایا جو اعلیٰ مرتبہ اور غایت ہے جیسے کہ حضرت جبرائیل والی حدیث میں ہے کہ انہوں نے اسلام کے بارے میں سوال کیا پھر ایمان کے بارے پھر احسان کے بارے میں پس یہ کئی کئی وجوہ ہیں جن سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ پہلے کہ دو جنتوں کو ان دو جنتوں پر بہترین فضیلت حاصل ہے اللہ تعالیٰ کریم و وہاب سے ہمارا سوال ہے کہ وہ ہمیں بھی ان جنتیوں میں سے کرے جو ان دو جنتوں میں ہوں گے جن کے اوصاف پہلے بیان ہوئے ہیں ۔ آمین ۔ وہی مستحق احترام و اکرام ہے پھر فرماتا ہے تیرے رب ذوالجلال والاکرام کا نام بابرکت ہے وہ جلال والا ہے یعنی اس لائق ہے کہ اس کا جلال مانا جائے اور اس کی بزرگی کا پاس کر کے اس کی نافرمانی نہ کی جائے بلکہ کامل اطاعت گذاری کی جائے اور وہ اس قابل ہے کہ اس کا اکرام کیا جائے یعنی اس کی عبادت کی جائے اس کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کی جائے اس کا شکر کیا جائے ناشکری نہ کی جائے اس کا ذکر کیا جائے اور اسے بھلایا نہ جائے ۔ وہ عظمت اور کبریائی والا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا اجلال کرو اس کی عظمت کو مانو وہ تمہیں بخش دے گا ( احمد ) ایک اور حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ کی عظمت ماننے میں یہ بھی داخل ہے کہ بوڑھے مسلمان کی اور بادشاہ کی اور عامل قرآن جو قرآن میں کمی زیادتی نہ کرتا ہو یعنی نہ اس میں غلو کرتا ہو نہ کمی کرتا ہو عزت کی جائے ۔ ابو یعلیٰ میں ہے ( یا ذا الجلال والاکرام ) کے ساتھ چمٹ جاؤ ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے امام ترمذی اس کی سند کو غیر محفوظ اور غریب بتاتے ہیں مسند احمد میں دوسری سند کے ساتھ یہ حدیث مروی ہے اس میں یا کا لفظ نہیں جوہری فرماتے ہیں کہ جب کوئی کسی کو چمٹ جائے اسے تھام لو تو عرب کہتے ہیں ( اَلَظَّ ) یعنی لفظ اس حدیث میں آیا ہے تو مطلب یہ ہے کہ الحاح و خلوص عاجزی اور مسکینی کے ساتھ ہمیشگی اور لزوم سے دامن الہیہ میں لٹک جاؤ صحیح مسلم اور سنن اربعہ میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے سلام پھیرنے کے بعد صرف اتنی ہی دیر بیٹھتے تھے کہ یہ کلمات کہہ لیں دعا ( اللھم انت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذالجلال والاکرام ) الحمد اللہ اللہ کے فضل و کرم سے سورہ الرحمن کی تفسیر ختم ہوئی ۔ اللہ کا شکر ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

62۔ 1 دُوْنِھِمَا سے یہ ثابت بھی کیا گیا ہے کہ یہ دو باغ شان اور فضیلت میں پچھلے دو باغوں سے، جن کا ذکر آیت 26 میں گزرا، کم تر ہونگے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٩] اس کی بھی دو صورتیں بیان کی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ اہل جنت بھی دو طرح کے ہوں گے۔ ایک السابقون یا مقربین، دوسرے اصحاب الیمین یعنی عام اہل جنت جیسا کہ سورة واقعہ میں یہ تفصیل موجود ہے۔ مقربین کو جو دو باغ ملیں گے وہ ان باغوں سے اعلیٰ قسم کے ہوں گے جو عام اہل جنت کو ملیں گے اور دوسری صورت یہ کہ ہر جنتی کو دو باغ تو اعلیٰ قسم کے ملیں گے اور دو اس سے کم درجہ کے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمِنْ دُوْنِہِمَا جَنَّـتٰنِ : جیسا کہ ” ولمن خاف مقام ربہ جنتن “ کی تفسیر میں گزر چکا ہے کہ پہلی دو جنتیں جن کا ذکر اوپر گزرا ، اللہ سے ہمیشہ ڈرنے والے مقربین کے لیے ہیں اور یہاں سے عام اہل ایمان یعنی اصحاب الیمین کو ملنے والی جنتوں کا ذکر ہوتا ہے ، جو کئی باتوں میں پہلی دونوں جنتوں کے ساتھ مشرک اور کئی باتوں میں ان سے کم تر ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمِنْ دُوْنِہِمَا جَنَّتٰنِ۝ ٦٢ ۚ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٢۔ ٦٣) اور ان پہلے دو باغوں سے کم درجہ میں دو باغ اور ہیں۔ پہلے دونوں باغ ان سے افضل ہیں اور اور یہ دو ان سے کم درجہ کے ہیں، یعنی جنت النعیم اور جنت الماوی سو اے جن و انس تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٢{ وَمِنْ دُوْنِہِمَا جَنَّتٰنِ ۔ } ” اور ان سے پرے دو جنتیں اور بھی ہیں۔ “ مفسرین نے ان دو جنتوں کی مختلف توجیہات کی ہیں ‘ لیکن جیسا کہ قبل ازیں آیت ٤٦ کی تشریح میں ذکر ہوچکا ہے ‘ میرے نزدیک ان میں سے دو جنتیں جنوں اور انسانوں کے لیے الگ الگ نچلے درجے میں ہیں اور دو جنتیں ان دونوں گروہوں کے لیے الگ الگ اونچے درجے میں ہیں۔ اہل جنت کے ان درجات کی وضاحت اگلی سورت یعنی سورة الواقعہ میں ملے گی (یاد رہے کہ سورة الرحمن اور سورة الواقعہ کا آپس میں جوڑے کا تعلق ہے) ۔ سورة الواقعہ میں اہل جہنم (اَصْحٰبُ الشِّمَال) کے مقابلے میں اہل جنت کے دو گروہوں کا ذکر ہوا ہے۔ ان میں ایک گروہ تو اَصْحٰبُ الْیَمِیْن (دائیں جانب والوں) کا ہے۔ ان کے لیے الگ جنت کا ذکر ہے جو نسبتاً نچلے درجے کی جنت ہوگی ۔ جبکہ دوسرا گروہ مقربین بارگاہ کا ہے : { وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ ۔ اُولٰٓئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ ۔ } ” اور آگے نکل جانے والے تو ہیں ہی آگے نکل جانے والے۔ وہ تو بہت مقرب ہوں گے “۔ یہ وہی خوش نصیب لوگ ہیں جن کا ذکر سورة التوبہ میں بایں الفاظ آیا ہے : { وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ لا رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًاط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ۔ } ” اور پہلے پہل سبقت کرنے والے مہاجرین اور انصار میں سے ‘ اور وہ جنہوں نے ان کی پیروی کی نیکوکاری کے ساتھ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے ‘ اور اس نے ان کے لیے وہ باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے ندیاں بہتی ہوں گی ‘ ان میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ یہی ہے بہت بڑی کامیابی۔ “ سورة الواقعہ میں ان مقربین بارگاہ کے لیے بہت خصوصی انداز میں جنت کا ذکر ہوا ہے۔ ظاہر ہے ان لوگوں کے لیے بہت اونچے درجے کی جنت ہوگی۔ چناچہ میری رائے میں سورة الرحمن کی آیت ٤٦ میں جن دو جنتوں (جنوں اور انسانوں کے لیے الگ الگ) کا ذکر ہوا ہے وہ اصحاب الیمین کے لیے ہیں ‘ جبکہ زیر مطالعہ آیات میں جنوں اور انسانوں میں سے مقربین بارگاہ کی جنتوں کا ذکر ہونے جا رہا ہے ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

49 The word dun as used in min dun-i-hima Jannatan. is employed in three different meanings in Arabic (1) To be situated at a lower level than another thing; (2) to be inferior to something of better and nobler quality; and (3) to be over and above something else. On account of this difference in meaning, one probable meaning of these words is that every dweller of Paradise will be given two more gardens besides the two previously mentioned; another probable meaning is that these two gardens will be inferior in quality and rank to both the tirst mentioned gardens: that is, the tirst two gardens will either be situated at a higher Ievel than these two, or the tirst two gardens will be of a superior kind and these two of an inferior kind as compared to them. If the first probability is adopted, it would mean that these two additional gardens also will be for those dwellers of Paradise, who have been mentioned above, And in case the second probability is adopted, the meaning would be that the first two gardens will be for 'those nearest to Allah", and these two for "the people of the right hand." This second probability is strengthened by the two kinds of the righteous inert as mentioned in Surah AI-Waqi'ah. First, the foremost, who have also been called the "muqarrabun "; second, the people of the right hand, who havc also been entitled "ashab al-maimanah "; and for both these separate qualities of the two kinds of the gardens have been mentioned. Furthermore, this probability is also strengthened by the Hadith which Abu Bakr has related on the authority of his father, Hadrat Abu Musa al-Ash'ari, In this he says: The Holy Prophet said: 'Two jannats (gardens) will be for the foremost among the righteous (or the muqarrabin), in which the utensils and articles of decoration will be of gold, and two jannats for the followers (or the ashab al gamin), in which everything will be of silver," (Fath al-Bari, Kitab at-Tafsir: Surah Ar-Rahman).

سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :49 اصل الفاظ ہیں مِنْ دُوْنِھِمَا جَنَّتٰن ۔ دُوْن کا لفظ عربی زبان میں تین مختلف معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ ایک ، کسی اونچی چیز کے مقابلے میں نیچے ہونا ۔ دوسرے ، کسی افضل و اشرف چیز کے مقابلے میں کم تر ہونا ۔ تیسرے ، کسی چیز کے ماسوا یا اس کے علاوہ ہونا ۔ اس اختلاف معنی کی بنا پر ان الفاظ میں ایک احتمال یہ ہے کہ ہر جنَّتی کو پہلے کے دو باغوں کے علاوہ یہ دو باغ اور دیے جائیں گے ۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ دو باغ اوپر کے دونوں باغوں کی بہ نسبت مقام یا مرتبے میں فر و تر ہونگے یعنی پہلے دو باغ یا تو بلندی پر ہونگے اور یہ ان سے نیچے واقع ہونگے ، یا پہلے دو باغ بہت اعلیٰ درجہ کے ہونگے اور یہ ان کے مقابلے میں کم تر درجہ کے ہونگے ۔ اگر پہلے احتمال کو اختیار کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ دو مزید باغ بھی ان ہی جنتیوں کے لیے ہیں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے ۔ اور دوسرے احتمال کو اختیار کرنے کی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ پہلے دو باغ مقربین کے لیے ہیں ۔ اور یہ دو باغ اصحاب الیمین کے لیے ۔ اس دوسرے احتمال کو جو چیز تقویت پہنچاتی ہے وہ یہ ہے کہ سورہ واقعہ میں نیک انسانوں کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں ۔ ایک سابقین ، جن کو مقربین بھی کہا گیا ہے ، دوسرے اصحاب الیمین ، جن کو اصحاب المیمنہ کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے ۔ اور ان دونوں کے لیے دو جنتوں کے اوصاف الگ الگ ارشاد فرمائے گئے ہیں ۔ مزید براں اس احتمال کو وہ حدیث بھی تقویت پہنچاتی ہے جو حضرت ابو موسیٰ اشعری سے ان کے صاحبزادے ابوبکر نے روایت کی ہے ۔ اس میں وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، دو جنتیں سابقین ، یا مقربین کے لیے ہونگی جن کے برتن اور آرائش کی ہر چیز سونے کی ہو گی ، اور دو جنتیں تابعین ، یا اصحاب الیمین کے لیے ہونگی جن کی ہر چیز چاندی کی ہو گی ( فتح الباری ، کتاب التفسیر ، تفسیر سورہ رحمٰن ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

10: اکثر مفسرین کے مطابق پہلے ( آیت نمبر 46 میں) جن دو باغوں کا ذکر ہوا تھا۔ وہ اعلیٰ درجے کے مقرب بندوں کے لیے ہیں، جیسا کہ اگلی سورت (سورہ واقعہ) میں اس کی تفصیل آنے والی ہے، اور اب آیت نمبر 62 سے جن دو باغوں کا ذکر ہو رہا ہے، وہ عام مومنوں کے لیے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٢۔ ٧١۔ ١ ؎ ترمذی وغیرہ میں چند صحابہ سے جو روایتیں ہیں ان سے معلوم ہوتا کہ جنت کے سو درجے ہیں اور ہر درجہ کا فاصلہ دوسرے درجہ تک سو برس کے راستہ کا ہے ہر درجہ میں اس قدر گنجائش ہے کہ تمام دنیا کے لوگ ایک درجہ میں رہ سکتے ہیں جس جنت کا نام فردوس ہے وہ سب درجوں میں اعلیٰ درجہ کی جنت ہے۔ اسی واسطے آپ نے ان ہی روایتوں میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جنت الفردوس کی خواہش کرنی چاہئے۔ میٹھے پانی کی اور شہد اور دودھ اور شراب کی نہریں اس جنت الفردوس سے جاری ہو کر اور جنتوں میں گئی ہیں صاحب مشکوٰۃ نے یہ جو لکھا ٢ ؎ ہے کہ یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں نہیں ہے۔ شاید صاحب مشکوٰۃ کا مطلب یہ ہے کہ عبادہ بن صامت کی روایت سے یہ حدیث صحیح بخاری و مسلم نہیں ہے ورنہ صحیح بخاری کی کتاب الجہاد اور صحیح مسلم کے مجاہدین کے ثواب کے باب میں یہ حدیث موجود ہے۔ بخاری کی روایت ابوہریرہ (رض) کی ہے اور مسلم کی روایت ابو سعید خدری کی ہے اسی جنت الفردوس کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے۔ جنتیوں کے درجوں سے مقصود جنت کی منزلیں اور جنت کے مکانوں کے قطعات ہیں چناچہ صحیح بخاری ٣ ؎ اور صحیح مسلم کی ابو سعید خدری کی روایت میں ہے کہ جو جتنی لوگ جنت کی نیچی کی منزل میں ہوں گے ان کو جنت کی اوپر کے منزل کے لوگ تاروں کی طرح نظر آئیں گے غرض ان آیتوں میں پہلے تو یہ فرمایا کہ جن لوگوں کے دل میں خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف ہوگا ان کو جنت کی دو منزلیں ملیں گی ایک انکے نیک عمل کے بدلے میں اور ایک خوف الٰہی سے برے کاموں سے بچنے کے بدلہ میں پھر ان منزلوں کے ساز و سامان کا ذکر فرمایا کہ بعض منزلوں میں اعلیٰ درجہ کا ساز و سامان اور بعض میں ان سے کم درجہ کا مثلاً ایک جگہ فاکھۃ فرمایا اور دوسری جگہ کل لفظ نہیں فرمایا۔ ہر طرح کی منزلوں کے ساز و سامان کا ذکر اس لئے فرمایا تاکہ معلوم ہوجائے کہ جس قدر خوف الٰہی انسان کے دل میں ہوگا اسی قدر ساز و سامان والی جنت کی دو منزلیں اس کو ملیں گے۔ امت کے سب لوگوں سے بڑھ کر اللہ کا خوف تو اللہ کے رسول کے دل میں ہوتا ہے چناچہ انس ٤ ؎ بن مالک کی صحیح بخاری و مسلم کی حدیث جس میں بعض صحابہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کو کم ٹھہرا کر آپ سے بڑھ کر عبادت کرنے کا قصد کیا تھا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حدیث میں فرمایا ہے کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔ اب اللہ کے رسول کے بعد جس قدر خوف الٰہی امت کے علماء اور صلحاء کے دل میں ہوگا اسی قدر ساز و سامان کی جنت کی دو منزلیں ان کو ملیں گی۔ ا ابو سعید (رض) خدری ١ ؎ کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنت کے اعلیٰ منزلوں کا ذکر فرمایا تو بعض صحابہ نے آپ سے پوچھا کہ وہ منزلیں اللہ کے رسولوں کی ہوں گی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں۔ لیکن جن لوگوں کا یقین اللہ کے احکاموں پر پورا ہے ان کو بھی یہ منزلیں ملیں گی اس سے یہ بات صاف ہوگئی کہ امت کے علماء اور صلحاء میں سے ان کے ایمان اور عقبیٰ کے خوف کے موافق جنت کی منزلوں کی درجہ بندی ہوگی اس درجہ بندی کا ذکر سورة النساء کی آیت ومن یطع اللہ والرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبین والصدیقین والشھداء والصالحین میں گزر چکا ہے۔ مدھامتن کی تفسیر حضرت ٢ ؎ عبد اللہ بن عباس (رض) نے اس گہرے سبز رنگ کی فرمائی ہے جس کی سبزی میں سیرابی کی زیادتی سے سیاہی کی جھلک پیدا ہوجائے پہلے دو جنتوں کے پیڑوں میں ٹہنیوں کی زیادی کا ذکر تھا جو یہاں نہیں ہے۔ نضاختان کی تفسیر حضرت عبد اللہ بن عباس ٣ ؎ نے لبالب کی فرمائی ہے پہلے کے دونوں چشموں میں لباب ہونے کے بعد بہنے کا ذکر تھا جو یہاں نہیں ہے۔ خیرات حسان کے معنی خوبصورت خوش اخلاق عورتیں۔ پہلے کانھن الیاقوت والمرجان فرمایا تھا جو یہاں حور مقصور ات فی الخیام ہے۔ وہاں فیھن قاصرات الطرف فرمایا تھا جو عورتیں غیر مرد سے خود اپنی نگاہ کو روکیں اور جن عورتوں کی نگاہ کسی روکنے والے کے حکم سے روکی جائے ان دونوں میں جو فرق ہے وہ ظاہر ہے۔ منکئین علی رفدف خضر کے معنی سبز قالین وہاں ایسے بچھونے فرمائے تھے جن کے استر دلدار ریشمی کپڑے کے تھے اور ابرے کی تعریف بیان سے باہر تھی یہاں فقط سبز قالین فرمائے ہر نفیس چیز کو عرب عبقری کہتے ہیں۔ مفسرین نے اگرچہ اس میں بڑا اختلاف کیا ہے کہ اس رکوع میں جنت کی جن دو منزلوں کا پہلے ذکر فرمایا ہے وہ اعلیٰ ہیں یا پچھلی دو منزلیں اعلیٰ ہیں لیکن ساز و سامان کے مقابلہ سے تو اول کی دونوں منزلیں اعلیٰ معلوم ہوتی ہیں جس طرح امیر آدمی دنیا میں دو مکان بنا کر دل بہلانے کے لئے کبھی ایک میں رہتے ہیں کبھی دوسرے میں اسی طرح خدا کے خوف سے برا کام چھوڑنے والوں کو عقبیٰ میں دل بہلانے اور نقل مکان کرنے کے لئے جنت میں دو مکان دیئے جائیں گے۔ (١ ؎ صحیح بخاری باب درجات المومنین فی سبیل اللہ الخ ص ٣٩١ ج ١ و صحیح مسلم۔ باب ما اعداللہ تعالیٰ للمجاھدین الخ ص ١٣٥ ج ٢۔ ) (٢ ؎ مشکوٰۃ شریف باب فی صفۃ الجنۃ واھلھا فصل اول ص ٤٩٦۔ ) (٣ ؎ صحیح بخاری باب صفۃ الجنۃ والنار ٩٧٠ ج ٢ و ص ٤٦١ ج ١ و صحیح مسلم باب الجنۃ وصفۃ نعیمھا واھلھا ص ٣٧٨ ج ٢۔ ) (٤ ؎ صحیح بخاری کتاب النکاح ص ٧٥٧ ج ٢ و صحیح مسلم باب استحباب النکاح الخ ص ٤٤٩ ج ١۔ ) (١ ؎ حوالہ کے لئے دیکھئے صفحہ گزشتہ ) (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٢٧٩ ج ٤۔ ) (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٢٧٩ ج ٤۔ ) (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٢٧٩ ج ٤۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(55:62) من دونھا جنتن : دونھا مضاف مضاف الیہ مل کر مجرور من حرف جار۔ جنتن مبتدا۔ من دونھما خبر۔ دون بمعنی روئے۔ سوائے۔ غیر۔ ضو کسی سے نیچا ہو۔ جو کسی چیز سے قاصر ۔ یا کو تا ہ ہو۔ ھما ضمیر تثنیہ (مذکر ، مؤنث) غائب۔ ان دونوں جنتوں کے لئے ہے جن کا ذکر آیت 46 ولمن خاف مقام ربہ جنتن میں مذکور ہے۔ اور ان دونوں باغوں کے سوا یا ان دونوں باغوں سے کم تر درجہ میں دو اور باغ ہیں ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 عربی زبان میں دون کا لفظ اگرچہ ماسوا اور علاوہ کے معنی میں بھی اسعتمال ہوتا ہے لیکن اس کا زیادہ تر استعمال ایک چیز کے دوسری چیز کے مقابلہ میں نیچے یا بالحاظ مرتبہ کم ہونے کے معنی میں ہوتا ہے اس لئے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو باغ پہلے سے دو باغوں سے نیچے یا ان کے مقابلہ میں کم مرتبہ ہوں گے۔ ایک حدیث میں ہے کہ دو جلتیں سونے کی ہوں گی اور ان کے برتن اور دوسری ہر چیز سونے کی ہوگی اور دو جنتیں چاندی کی ہوں گی اور ان کے برتن اور دوسری ہر چیز چاندی کی ہوگی۔ شاید پہلی دو جنتیں مقربین اور دوسری دو اصحاب الیمین کے لئے ہوں گے۔ واللہ اعلم (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ اب عامہ مومنین کے باغوں کا ذکر ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب دوسرا فریق جس کو دو باغ ملیں گے۔ ومن دونھما جنتن (55: ٢٦) ” اور ان دو باغوں کے علاوہ وہ دو باغ اور ہوں گے “ اور ان کے اوصاف سابقہ باغوں سے ذرا کم ہوں گے۔ یہ دو باغ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوسرے درجہ کی جنتوں اور نعمتوں کا تذکرہ گزشتہ آیات میں دو جنتوں کا ذکر فرمایا، اب یہاں سے دوسری دو جنتوں کا ذکر شروع ہو رہا ہے، یہ دونوں جنتیں پہلی دو جنتوں سے مرتبہ اور فضیلت میں کم ہوں گی یہ جن بندوں کو دی جائیں گی وہ اپنے احوال اور اعمال کے اعتبار سے ان حضرات سے کم درجے کے ہوں گے جن کو پہلی دو جنتیں دی جائیں گی گو صفت ایمان سے سب متصف ہوں گے، آئندہ سورت واقعہ میں سابقین اولین اور اصحاب یمین جنت میں جانے والی دو جماعتوں کا تذکرہ فرمایا ہے۔ مفسرین نے فرمایا ہے کہ پہلی دو جنتیں سابقین اولین کے لیے اور بعد والی دو جنتیں (جن کا یہاں ذکر ہو رہا ہے) اصحاب یمین کے لیے ہوں گی جو درجہ کے اعتبار سے سابقین اولین سے کم ہوں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22:۔ ومن دونہما جنتٰن “ یہاں بھی تثنیہ تکرار کے لیے ہے جیسا کہ ثم اجرع البصر کرتین۔ الایۃ (ملک رکوع 1) ۔ یعنی مذکورہ بالا باغوں کے علاوہ ان کو اور باغات بھی ملیں گے۔ ” مدھا متٰن “ ان باغوں کے درخت نہایت ہی سبز ہوں گے اور شدت رنگ کی وجہ سے سیاہی مائل نظر آئیں گے یہ ان کی شادابی کی دلیل ہوگی ای سوداوان من شدۃ الخضرۃ من الری (قرطبی ج 17 ص 185) ۔ ” نضا ختٰن “ ابلنے والے یعنی ان باغوں میں فواروں کی طرح چشم ابلتے ہوں گے۔ فوارتان بالماء لاینقطعان (مدارک ج 4 ص 161) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(62) اور مذکورہو دو باغوں سے ذرا کم درجے کے دو باغ اور بھی ہیں۔ یعنی ان باغوں سے جن کا ذکر اوپر ہوا یہ دو باغ ذرا کم درجے کے ہوں گے شاید وہ مقربین کے لئے تھے یہ اصحاب یمین اور عام مسلمانوں کے لئے ہوں گے۔