Surat ur Rehman

Surah: 55

Verse: 75

سورة الرحمن

فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ﴿ۚ۷۵﴾

So which of the favors of your Lord would you deny? -

پس اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کے ساتھ تم تکذیب کرتے ہو؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Then which of the blessings of your Lord will you both deny! Allah said, مُتَّكِيِينَ عَلَى رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَعَبْقَرِيٍّ حِسَانٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝ ٧٥ أيا أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء/ 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص/ 28] ( ا ی ی ) ای ۔ جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى } ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں { أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ } ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔ آلاء ( نعمت) فَاذْكُرُوا آلاءَ اللَّهِ [ الأعراف/ 69] أي : نعمه، الواحد : ألًا وإِلًى، نحو أناً وإنًى لواحد الآناء . وقال بعضهم في قوله تعالی: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ إِلى رَبِّها ناظِرَةٌ [ القیامة/ 22- 23] : إنّ معناه : إلى نعمة ربها منتظرة، وفي هذا تعسف من حيث البلاغة اور آیت کریمہ :۔ { فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللهِ } ( سورة الأَعراف 69 - 74) پس خدا کی نعمتوں کو یا دکر و ۔ میں الاء کا واحد الی والی ہے جس طرح کہ اناء کا واحد اناو انی آتا ہے بعض نے آیت کریمہ { وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ (22) إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (23) } ( سورة القیامة 22 - 23) کے معنی الی نعمۃ ربھا منتظرۃ کئے ہیں یعنی اپنے پروردگار کی نعمت کے منتظر ہونگے لیکن بلاغت قرآن کی رد سے یہ سراسرتعسف ہے آلائ جمع ہے اس کا واحد الی ہے اس کا معنی ہے النعم نعمتیں ( لسان العرب) ۔ امام راغب لکھتے ہیں :۔ الاء کا واحد الی والی ہے جس طرح اناء کا واحد انا وانی ؤتا ہے ( مفردات) نیز راغب نے بھی الاء کا ترجمہ نعمتیں کیا ہے۔ آیت واذکروا الاء اللہ (7:74) کا ترجمہ کیا ہے : پس خدا کی نعمتوں کو یاد کرو۔ المنجد میں الا لی الالی الالی ( جمع الائ) بمعنی نعمت، مہربانی، فضل لکھا ہے۔ اصل میں لفظ الاء استعمال ہوا ہے جسے آگے کی آیتوں میں بار بار دہرایا گیا ہے اور ہم نے مختلف مقامات پر اس کا مفہوم مختلف الفاظ سے ادا کیا ہے۔ اس لئے آغاز میں ہی یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس لفظ میں کتنی وسعت ہے اور اس میں کیا کیا مفہومات شامل ہیں۔ الاء کے معنی اہل لغت اور اہل تفسیر نے بالعموم نعمتوں کے بیان کئے ہیں تمام مترجمین نے بھی یہی اس کا ترجمہ کیا ہے اور یہی معنی حضرت ابن عباس (رض) حضرت قتادہ اور حضرت حسن بصری (رح) سے منقول ہیں۔ سب سے بڑی دلیل اس معنی کے صحیح ہونے کی یہ ہے کہ خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنوں کے اس قول کو نقل فرمایا ہے کہ وہ اس آیت کو سن کر بار بار لابشی من نعمک ربنا نکذب کہتے تھے۔ لہٰذا زمانہ حال کے محققین کی اس رائے سے ہمیں اتفاق نہیں ہے کہ الاء نعمتوں کے معنی میں سے ہوتا ہی نہیں۔ دوسرے معنی اس لفظ کے قدرت اور عجائب قدرت یا کمالات قدرت ہیں ابن جریر طبری نے ابن زید کا قول نقل کیا ہے کہ : فبای الاء ربکما کے معنی ہیں فبای قدرۃ اللہ۔ ابن جریر نے خود بھی آیات 37، 38 کی تفسیر میں الاء کو قدرت کے معنی میں لیا ہے امام رازی نے بھی آیات 14، 15، 16 کی تفسیر میں لکھا ہے : یہ آیات بیان نعمت کے لئے نہیں بلکہ بیان قدرت کے لئے ہیں۔ اور آیات 22 ۔ 23 کی تفسیر میں وہ فرماتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے عجائب قدرت کے بیان میں ہے نہ کہ نعمتوں کے بیان میں ۔ اس کے تیسرے معنی ہیں : خوبیاں۔ اوصاف حمیدہ اور کمالات و فضائل ۔ اس معنی کو اہل لغت اور اہل تفسیر نے بیان نہیں کیا ہے مگر اشعار عرب میں یہ لفظ کثرت سے اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ نابغہ کہتا ہے :۔ ہم الملوک وابناء الملوک لہم ۔ فضل علی الناس فی الا الاء النعم۔ ( وہ بادشاہ اور شہزادے ہیں۔ ان کو لوگوں پر اپنی خوبیوں اور نعمتوں میں فضیلت حاصل ہے) ۔ مہلہل اپنے بھائی کلیب کے مرثیہ میں کہتا ہے :۔ الحزم والعزم کان من طبائعہ : ما کل الائہ یاقوم احصیہا حزم اور عزم اس کے اوصاف میں سے تھے ۔ لوگو ! میں اس کی ساری خوبیاں بیان نہیں کر رہا ہوں۔ فضالہ بن زید العدوانی غریبی کی برائیاں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے :۔ غریب اچھا کام بھی کرے تو برا بنتا ہے اور وتحمد الاء البخیل المدرہم مالدار بخیل کے کمالات کی تعریف کی جاتی ہے۔ اجدع ھمدانی اپنے گھوڑے کمیت کی تعریف میں کہتا ہے کہ : ورضیت الاء الکمیت فمن یبع۔ فرسا فلیس جو ادنا بمباع ( مجھے کمیت کے عمدہ اوصاف پسند ہیں اگر کوئی شخص کسی گھوڑے کو بیچتا ہے تو بیچے ہمارا گھوڑا بکنے والا نہیں ہے۔ ( بحوالہ انوار البیان) رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٥{ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ۔ } ” تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(55:75) فبای الاء ربکما تکذبن۔ ملاحظہ ہو آیت 47 متذکرۃ الصدر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فوائد ضروریہ متعلقہ سورة الرحمٰن ” فائدہ اولیٰ “ : سورة الرحمٰن میں اکتیس (٣١) جگہ ﴿فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ﴾ فرمایا ہے اس کے بار بار پڑھنے سے ایک کیف اور سرور محسوس ہوتا ہے ایمانی غذا بھی ملتی ہے اور تلاوت کرنیوالا اور تلاوت سننے والے پر ایک خاص کیفیت طاری ہوجاتی ہے اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو عروس القرآن یعنی قرآن کی دلہن فرمایا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ١٨٩) ” فائدہ ثانیہ “:﴿فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ﴾ میں جنات اور انسان دونوں جماعتوں کو خطاب فرمایا ہے اور بار بار یاددہانی کرائی ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے ان نعمتوں سے نوازا ہے سو تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف لائے آپ نے اپنے صحابہ کو سورة الرحمن اول سے آخر تک پڑھ کر سنائی یہ لوگ خاموشی سے سنتے رہے آپ نے فرمایا کہ میں نے اس سورت کو لیلتہ الجن میں جنات کو پڑھ کر سنایا وہ جواب دینے میں تم سے اچھے ثابت ہوئے۔ میں جب بھی ﴿فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ﴾ پڑھتا تھا تو وہ جواب میں یوں کہتے تھے : لابشیء من نعمک ربنا نکذب فلک الحمد اے ہمارے رب ! ہم آپ کی کسی بھی نعمت کو نہیں جھٹلاتے آپ ہی کے لیے سب تعریف ہے۔ (رواہ الترمذی) اللہ تعالیٰ شانہ نے سب کو ہر طرح چھوٹی بڑی نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان نعمتوں کا اقرار کرنا اور شکر گزاری کا مظاہرہ کرنا یعنی وہ اعمال اختیار کرنا جن سے نعمتیں دینے والا راضی ہو یہ نعمتوں کی قدر دانی ہے، نعمتوں کا انکار کردینا کہ مجھے نہیں ملی یا اللہ تعالیٰ نے مجھے نہیں دی میں نے اپنی کوشش سے حاصل کی ہیں یا ایسا طرز عمل اختیار کرنا جس سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ یہ شخص نعمتوں کا اقراری نہیں ہے یہ سب نعمتوں کی تکذیب ہے یعنی انکار جھٹلانا ہے۔ کفران نعمت بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ ” فائدہ ثالثہ “: یہ جو اشکال ہوتا ہے کہ سورة الرحمن کے دوسرے رکوع میں بعض عذابوں کا بھی ذکر فرمایا ہے اور ان کے بعد بھی آیت بالا ذکر فرمائی ہے عذاب تو نقمت ہے وہ نعمتوں میں کیسے شمار ہوگی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ پہلے تنبیہ کردی گئی ہے کہ گنہگاروں کے ساتھ ایسا ایسا ہوگا تاکہ کفر و شرک اور معصیتوں سے بچیں اس لیے پیشگی خبر دے دینا کہ ایسا کرو گے تو ایسا بھرو گے یہ بھی ایک نعمت ہے اور حقیقت میں یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ ” فائدہ رابعہ “: آیات کریمہ سے یہ تو واضح ہوگیا کہ جنات بھی مکلف ہیں اور مخاطب ہیں سورة الذاریات میں واضح طور پر فرمایا ہے ﴿وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ ﴾ اور میں نے جن اور انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا) اور جس طرح انسانوں پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں جنات پر بھی ہیں گو انسانوں کو فوقیت اور فضیلت حاصل ہے کیونکہ انسان خلیفۃ اللہ فی الارض ہے۔ دونوں فریق کے پاس اللہ تعالیٰ کی ہدایت آئیں اور اللہ تعالیٰ کے رسول آئے دونوں جماعتیں اللہ کے حکم کی مکلف ہیں گویہ مسئلہ اختلافی ہے کہ جنات میں بھی رسول آئے تھے یا نہیں، بنی آدمی کی طرف جو رسول بھیجے گئے تھے وہی جنات کی طرف مبعوث تھے یا ان میں سے بھی رسول مبعوث ہوتے تھے۔ البتہ اس بات کو سب تسلیم کرتے ہیں کہ خاتم النّبیین محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رسول الثقلین ہیں یعنی رہتی دنیا تک کے لیے آپ ہی اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور جس طرح آپ انسانوں کی طرف مبعوث ہوئے اسی طرح آپ جنات کی طرف بھی مبعوث کیے گئے۔ سورة الرحمٰن کی آیات سے ایسا ہی مفہوم ہوتا ہے اور سورة الاحقاف میں ہے کہ جنات آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور واپس ہو کر انہوں نے اپنی قوم سے جاکر کہا ﴿يٰقَوْمَنَاۤ اَجِيْبُوْا دَاعِيَ اللّٰهِ وَ اٰمِنُوْا بِهٖ يَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَ يُجِرْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ ٠٠٣١﴾ (اے ہماری قوم اللہ کے داعی کی بات مانو اور اس پر ایمان لاؤ وہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے پناہ دے گا) ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کئی بار جنات کے رہنے کی جگہ تشریف لے گئے جس کا کتب حدیث میں تذکرہ ملتا ہے۔ فائدہ خامسہ : یہ تو معلوم ہوگیا کہ جنات اللہ تعالیٰ کی طرف سے مکلف ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی عبادت کا حکم دیا ان کی طرف رسول بھی بھیجے ان میں مومن بھی ہیں اور کافر بھی، کافروں کے لیے جہنم ہے خواہ انسان ہوں خواہ جنات ہوں جیسا کہ سورة الم سجدہ میں فرمایا ہے ﴿وَ لَوْ شِئْنَا لَاٰتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدٰىهَا وَ لٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّيْ لَاَمْلَـَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِيْنَ ٠٠١٣﴾ (اور اگر ہم کو منظور ہوتا تو ہم ہر شخص کو اس کی ہدایت عطا فرماتے اور لیکن میری یہ بات محقق ہوچکی ہے کہ میں جہنم کو جنات اور انسان دونوں سے ضرور بھروں گا) ۔ حضرات محدثین اور مفسرین کرام نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ مومن جنات پر اتنی مہربانی ہوگی کہ صرف دوزخ سے بچالئے جائیں گے یا انہیں جنت میں بھی داخل کیا جائے گا، سورة الرحمن کی آیات جن میں اہل جنت کی نعمتیں بتائی ہیں ان میں بار بار جو ﴿فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ﴾ فرمایا ہے اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ جنات بھی جنت میں جائیں گے۔ آکام المرجان (تالیف شیخ بدر الدین شبلی حنفی (رض) نے چوبیسویں باب میں اس سوال کو اٹھایا ہے اور چار قول لکھے ہیں : پہلا قول یہ ہے کہ مومن جنات جنت میں داخل ہوں گے اور اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ وقال وعلیہ جمھور العلماء وحکاہ ابن حزم فی الملل عن ابن ابی لیلی وابی یوسف و جمھور الناس قال وبہ نقول۔ دوسرا قول یہ ہے کہ جنات جنت میں داخل نہ ہوں گے اس کے باہر ہی دروازوں کے قریب رہیں گے انسان انہیں دیکھ لیا کریں گے وہ انسانوں کو نہ دیکھیں گے۔ (علی عکس ذلک فی الدنیا) ۔ اس قول کے بارے میں لکھا ہے : وھذا القول ماثور عن مالک والشافعی واحمد وابی یوسف و محمد حکاہ ابن تیمیہ فی جواب ابن مری وھو خلاف ما حکاہ ابن حزم عن ابی یوسف۔ تیسرا قول یہ ہے کہ وہ اعراف میں رہیں گے اور اس بارے میں انہوں نے ایک حدیث بھی نقل کی ہے۔ چوتھا قول توقف کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی طرف سے اس کا کوئی فیصلہ نہیں کرتے۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب ” فائدہ سادسہ “: سورة الرحمن کے پہلے رکوع کے ختم پر اور تیسرے رکوع کے ختم پر اللہ تعالیٰ کی صفت ﴿ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ﴾ بیان فرمائی ہے اللہ تعالیٰ شانہ عظمت والا ہے اور اکرام والا ہے یعنی اپنے بندوں کے ساتھ احسان کا معاملہ فرماتا ہے اور انعام سے نوازتا ہے (اس کی تشریح گزر چکی ہے) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے الظّوابِیَا ذالجلال والاکرام یعنی یاذالجلال والا کرام میں لگے رہو اس کو پڑھتے رہو اس کے ذریعے دعا کرتے رہو۔ (رواہ الحاکم فی المستدرک وقال صحیح الاسناد صفحہ ٤٩٩: ج ١، واقرہ الذھبی) حضرت ثوبان (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز سے فارغ ہوتے تھے تو تین بار استغفار کرتے تھے اور یہ دعا کرتے تھے : اللھم انت السلام ومنک السلام تبارک یا ذا الجلال والاکرام (رواہ مسلم) ترجمہ : اے اللہ ! تو باسلامت ہے اور تیری ہی طرف سے سلامتی ملتی ہے اے جلال اور اکرام والے۔ حضرت معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا یاذا الجلال والا کرام (اے عظمت والے اور بخشش کرنے والے) آپ نے یہ سن کر فرمایا کہ تیری دعا قبول کرلی گئی لہٰذا تو سوال کرلے۔ (رواہ الترمذی) حضرت انس (رض) نے بیان فرمایا کہ میں حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص نماز پڑھ رہا تھا اس شخص نے بعد نماز یہ الفاظ ادا کیے : اللھم انی اسلک بان لک الحمد لا الا الہ الا انت المنان بدیع السموت والارض یا ذا الجلال والا کرام یا حیی یا قیوم۔ اے اللہ ! بیشک میں آپ سے اس بات کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ بلاشبہ آپ کے لیے سب تعریف ہے کوئی معبود آپ کے سوا نہیں ہے۔ آپ بہت زیادہ دینے والے ہیں۔ آسمانوں اور زمین کو بلامثال پیدا فرمانے والے ہیں اے عظمت والے اے عطا فرمانے والے، اے زندہ، اے قائم رکھنے والے ! یہ سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کہ اس شخص نے اللہ کے اس بڑے نام کے ذریعہ دعا کی ہے کہ جب اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے سوال کیا جاتا ہے تو عطا فرما دیتا ہے۔ (رواہ ابوداؤد صفحہ ٢١٠)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(75) سوتم دونوں اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کی تکذیب کرو گے ۔