Surat ul Waqiya
Surah: 56
Verse: 46
سورة الواقعة
وَ کَانُوۡا یُصِرُّوۡنَ عَلَی الۡحِنۡثِ الۡعَظِیۡمِ ﴿ۚ۴۶﴾
And they used to persist in the great violation,
اور بڑے بڑے گناہوں پر اصرار کرتے تھے ۔
وَ کَانُوۡا یُصِرُّوۡنَ عَلَی الۡحِنۡثِ الۡعَظِیۡمِ ﴿ۚ۴۶﴾
And they used to persist in the great violation,
اور بڑے بڑے گناہوں پر اصرار کرتے تھے ۔
وَكَانُوا يُصِرُّونَ ... And were persisting, means, they persisted and did not intend to repent, ... عَلَى الْحِنثِ الْعَظِيمِ in great sin. in disbelief in Allah and claiming that the idols and rivals were gods besides Allah. It means idolatry, according to Ibn Abbas. This is also the meaning reported from Mujahid, Ikrimah, Ad-Dahhak, Qatadah, As-Suddi and others. Allah said, وَكَانُوا يَقُولُونَ أَيِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَيِنَّا لَمَبْعُوثُونَ
[٢٤] حنث عظیم کا مفہوم :۔ حنث سے مراد ایسا گناہ ہے جس کا تعلق عہد و پیمان یا قسم توڑنے سے ہو۔ اور ایسے گناہ سب کے سب کبیرہ یا عظیم ہی ہوتے ہیں۔ ان میں سرفہرست کفر و شرک ہے اور یہ عہد (اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ١٧٢ۙ ) 7 ۔ الاعراف :172) کی خلاف ورزی ہے۔ دوسری عہد شکنی انبیاء کی تکذیب ہے کیونکہ سب انبیاء اپنی اولاد اور اپنی امت کو یہ وصیت کرتے رہے کہ اگر میرے بعد کوئی رسول آئے جو سابقہ کتب سماویہ اور انبیاء کی اور ان کی تعلیم کی تصدیق کرتا ہو تو تمہیں اس پر ایمان لانا ہوگا۔ تیسرا گناہ عظیم آخرت سے انکار ہے جس کے متعلق کفار مکہ پختہ قسمیں کھا کر کہا کرتے تھے کہ جو مرگیا اللہ اسے کبھی زندہ کرکے اٹھائے گا نہیں۔ (١٦: ٣٨)
وَ کَانُوْا یُصِرُّوْنَ عَلَی الْحِنْثِ الْعَظِیْمِ : بہت بڑے گناہ سے مراد شرک ہے ، جیسا کہ فرمایا :(ان الشرک لظلم عظیم) (لقمان : ١٣)” بیشک شرک یقینا بہت بڑا ظلم ہے “ ۔ یعنی ان کے عذاب کا باعث اللہ تعالیٰ کی عطاء کردہ خوش حالی کو نافرمانی کے لیے استعمال کرنا اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک پر اصرار کرنا تھا۔ اس کے علاوہ وہ قیامت اور پیغمبروں کو بھی جھٹلاتے تھے ، جیسا کہ آگے تفصیل آرہی ہے۔
وَكَانُوْا يُصِرُّوْنَ عَلَي الْحِنْثِ الْعَظِيْمِ ٤٦ ۚ صر الْإِصْرَارُ : التّعقّد في الذّنب والتّشدّد فيه، والامتناع من الإقلاع عنه . وأصله من الصَّرِّ أي : الشّدّ ، والصُّرَّةُ : ما تعقد فيه الدّراهم، والصِّرَارُ : خرقة تشدّ علی أطباء الناقة لئلا ترضع . قال اللہ تعالی: وَلَمْ يُصِرُّوا عَلى ما فَعَلُوا[ آل عمران/ 135] ، ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِراً [ الجاثية/ 8] ، وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْباراً [ نوح/ 7] ، وَكانُوا يُصِرُّونَ عَلَى الْحِنْثِ الْعَظِيمِ [ الواقعة/ 46] ، والْإِصْرَارُ : كلّ عزم شددت عليه، يقال : هذا منّي صِرِّي، وأَصِرِّي وصِرَّى وأَصِرَّى وصُرِّي وصُرَّى أي : جدّ وعزیمة، والصَّرُورَةُ من الرّجال والنساء : الذي لم يحجّ ، والّذي لا يريد التّزوّج، وقوله : رِيحاً صَرْصَراً [ فصلت/ 16] ، لفظه من الصَّرِّ ، وذلک يرجع إلى الشّدّ لما في البرودة من التّعقّد، والصَّرَّةُ : الجماعة المنضمّ بعضهم إلى بعض كأنّهم صُرُّوا، أي : جُمِعُوا في وعاء . قال تعالی: فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِي صَرَّةٍ [ الذاریات/ 29] ، وقیل : الصَّرَّةُ الصّيحةُ. ( ص ر ر ) الاصرار کسی گناہ پر سختی ہے جم جانا اور اس سے باز نہ آنا اصل میں یہ صر سے ہے جس کے معنی باندھنے کے ہیں اور صرۃ اس تھیلی کو کہتے ہیں جس میں نقدی باندھ کر رکھ دی جاتی ہے اور صرار ( پستان بند ) اس لتہ کو کہتے ہیں جس سے اونٹنی کے تھن باندھ دیئے جاتے ہیں تاکہ اس کا بچہ دودھ نہ پی سکے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلى ما فَعَلُوا[ آل عمران/ 135] اور وہ اپنی غلطی پر اصرار نہیں کرتے ۔ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلى ما فَعَلُوا[ آل عمران/ 135] مگر پھر غرور سے ضد کرتا ہے ۔ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْباراً [ نوح/ 7] اور اڑگئے اور اکڑبیٹھے ۔ وَكانُوا يُصِرُّونَ عَلَى الْحِنْثِ الْعَظِيمِ [ الواقعة/ 46] اور گناہ عظیم پر اڑے ہوئے تھے ۔ الاصرار : پختہ عزم کو کہتے ہیں محاورہ ہے ھذا منی صری واصری وصری وصری وصری وصریٰ ۔ وہ مرد یا عورت جو جج نہ کرے وہ شخص جسے نکاح کی کو اہش نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ رِيحاً صَرْصَراً [ فصلت/ 16] زور کی ہوا ( چلائی ) میں صر صر کا لفظ صر سے ہے گویا سخت سرد ہونے کی وجہ سے اس میں پستگی پائی جاتی ہے الصرۃ جماعت جس کے افراد باہم ملے جلے ہوں گویا وہ کسی تھیلی میں باندھ دیئے گئے ہیں قرآن میں ہے فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِي صَرَّةٍ [ الذاریات/ 29] ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی چلاتی آئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ صرۃ کے معنی چیخ کے ہیں ۔ حنث قال اللہ تعالی: وَكانُوا يُصِرُّونَ عَلَى الْحِنْثِ الْعَظِيمِ [ الواقعة/ 46] ، أي : الذّنب المؤثم، وسمّي الیمین الغموس حنثا لذلک، وقیل : حَنِثَ «1» في يمينه إذا لم يف بها، وعبّر بالحِنْثِ عن البلوغ، لمّا کان الإنسان عنده يؤخذ بما يرتكبه خلافا لما کان قبله، فقیل : بلغ فلان الحنث . والمُتَحَنِّث : النافض عن نفسه الحنث، نحو : المتحرّج والمتأثّم . ( ح ن ث ) الحنث ، گناہ ، نافرمانی ، قرآن میں ہے ۔ وَكانُوا يُصِرُّونَ عَلَى الْحِنْثِ الْعَظِيمِ [ الواقعة/ 46] اور گناہ عظیم پر اڑے ہوئے تھے ۔ اس لئے ( بمین غموص ) جھوٹی قسم کو حنث کہاجاتا ہے ۔ اور حنث فی یمینہ کے معنی قسم توڑنے کے ہیں اور جنث کا معنی سن بلوغت کے بھی آتے ہیں کیونکہ اس عمر میں انسان جو گناہ کریگا اس پر اسے مواخذہ ہوگا ۔ کہا جاتا ہے بلغ فلان الحنث فلاں بالغ ہوگیا ۔ المتنحث وہ شخص جو اپنے سے گناہ کو دور کرنے کے لئے عبادت کرے جیسے متحرج اور متائم کا صیغہ استعمال ہوتا ہے ۔ عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔
آیت ٤٦{ وَکَانُوْا یُصِرُّوْنَ عَلَی الْحِنْثِ الْعَظِیْمِ ۔ } ” اور یہ اصرار کرتے تھے بہت بڑے گناہ پر۔ “ بہت بڑے گناہ سے یہاں شرک مراد ہے ‘ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سورة النساء میں حتمی فیصلہ دیا جا چکا ہے : { اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُج } (آیت ٤٨) کہ اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ کیے گئے شرک کو کبھی نہیں بخشے گا ‘ اس کے علاوہ جس کو چاہے گا بخش دے گا۔
20 That is, "Their prosperity had an adverse effect on them. Instead of being grateful to Allah Almighty, they had become deniers of His blessings. Lost in pleasure-seeking they had forgotten God and persisted in heinous sinning. "Heinous sinning" includes disbelief, polytheism and atheism as well as every grave sin of morality and conduct."
سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :20 یعنی خوشحالی نے ان پر الٹا اثر کیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہونے کے بجائے وہ الٹے کافر نعمت ہو گئے تھے ۔ اپنی لذات نفس میں منہمک ہو کر خدا کو بھول گئے تھے ۔ اور گناہ عظیم پر مصر تھے ۔ گناہ عظیم کا لفظ جامع ہے ۔ اس سے مراد کفر و شرک اور دہریت بھی ہے اور اخلاق و اعمال کا ہر بڑا گناہ بھی ۔
(56:46) کانوا یصرون ماضی استمراری، صیغہ جمع مذکر غائب۔ اصرار افعال مصدر۔ وہ اصرار کیا کرتے تھے۔ وہ اڑے رہتے تھے الحنث العظیم : موصوف و صفت۔ حنث گناہ، جھوٹی قسم، گناہ عظیم یعنی شرک، جھوٹی قسمیں، یعنی چھوٹی قسمیں کھا کر کہتے تھے کہ ان کو دوبارہ زندہ کرکے نہ اٹھایا جائے گا۔ (آیات 47، 48 میں ان کی بعض قسمیں مذکور ہیں)
وکانو ................ العظیم (٦ 5: ٦ 4) ” اور یہ گناہ عظیم پر اصرار کرتے تھے۔ “ الحنث کے معنی الذنب یہاں مراد شرک ہے۔ اس میں اشارہ ہے اس حلف کی طرف جو اللہ نے انسانی فطرت سے لیا تھا کہ وہ اللہ وحدہ پر ایمان لائیں گے اب انہوں نے اس عہد کو توڑ لیا اور حانث ہوگئے۔
﴿ وَ كَانُوْا يُصِرُّوْنَ عَلَى الْحِنْثِ الْعَظِيْمِۚ٠٠٤٦﴾ (اور یہ لوگ بڑے بھاری گناہ پر اصرار کیا کرتے تھے) یعنی شرک اور کفر پر اصرار کرتے تھے اور یوں کہتے تھے کہ ہم ایمان قبول نہیں کریں گے اور ہمیشہ کفر پر جمے رہیں گے۔ ان لوگوں کو توحید قبول کرنے سے بھی سخت انکار تھا اور قیامت قائم ہونے کا بھی سختی سے انکار کرتے تھے اسی لیے اس کے بعد فرمایا ﴿ وَ كَانُوْا يَقُوْلُوْنَ ١ۙ۬ اَىِٕذَا مِتْنَا وَ كُنَّا تُرَابًا وَّ عِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۠ۙ٠٠٤٧﴾ (اور وہ کہتے تھے کہ کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے تو کیا ہم اٹھائے جائیں گے) یہ بات کہنے سے ان کا مطلب وقوع قیامت کا استبعاد بھی تھا اور انکار بھی۔ وہ یوں بھی کہتے تھے ﴿ اَوَ اٰبَآؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ ٠٠٤٨﴾ (کیا ہمارے پرانے باپ دادے بھی اٹھائے جائیں گے) ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا قیامت کی خبر دینے والے اگر یوں کہتے کہ تم مرو گے اور مرتے ہی زندہ کردیئے جاؤ گے تو ایک بات بھی تھی ممکن تھا کہ ہم اسے مان لیتے لیکن یہ تو یوں کہتے ہیں کہ تم اٹھائے جاؤ گے اور تمہارے باپ دادا بھی، یہ تو ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ قال فی الروح والمعنی ایبعث ایضا اٰبائنا علی زیادة الاثبات یعنون انھم اقدم فبعثھم ابعدوابطل۔