Surat ul Waqiya
Surah: 56
Verse: 7
سورة الواقعة
وَّ کُنۡتُمۡ اَزۡوَاجًا ثَلٰثَۃً ؕ﴿۷﴾
And you become [of] three kinds:
اور تم تین جماعتوں میں ہو جاؤ گے ۔
وَّ کُنۡتُمۡ اَزۡوَاجًا ثَلٰثَۃً ؕ﴿۷﴾
And you become [of] three kinds:
اور تم تین جماعتوں میں ہو جاؤ گے ۔
And you (all) will be in three groups. This means that people will be divided into three categories on the Day of Resurrection. - Some will on the right of Allah's Throne, and they are those who were brought forth from Adam's right side. This category will be given their Books of Records in their right hand and will be taken to the right side. As-Suddi explained that they will comprise the majority of the residents of Paradise. - Another category is those who will be placed to the left of Allah's Throne, and they are those who were brought forth from Adam's left side. This category will be given their Books of Records in their left hands and will be taken to the left side. They are the residents of the Fire, may Allah save us from their actions. - A third category is comprised of those who are the foremost and nearest before Allah. They are in a better grade and status and nearer to Allah than those on the right side. They are the chiefs of those on the right side, because they include the Messengers, Prophets, true believers and martyrs. They are fewer than those on the right side; so Allah said, فَأَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ
[٤] سابقہ آیات میں قیامت کے برپا ہونے یا نفخہ صور اول کا منظر پیش کیا گیا ہے اور اس آیت میں نفحہ صور ثانی یا مردوں کے قبروں سے زندہ ہو کر اٹھنے اور میدان محشر میں اکٹھا ہوجانے کے مابعد کا۔ اس وقت تمام لوگ تین گروہوں میں بٹ جائیں گے۔ ایک اہل دوزخ، دوسرے اہل جنت۔ اہل جنت کی پھر دو قسمیں ہوں گی۔ ایک مقربین کا گروہ، دوسرا عام صالحین کا۔ اس طرح کل تین قسم کے گروہ بن جائیں گے۔ جیسا کہ آگے ان کی تفصیل آرہی ہے۔
وَّ کُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰـثَۃً : یہ تمام لوگوں کو خطاب ہے ، کیونکہ قیامت کے دن سب لوگ ان تین قسموں میں تقسیم ہوں گے، سابقون ، اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال ۔ سورت کے آخر میں موت کے وقت بھی لوگوں کی یہی قسمیں بیان فرمائی ہیں ۔
Three Categories of People on the Day of Resurrection وَكُنتُمْ أَزْوَاجًا ثَلَاثَةً (and you will be [ divided into ] three categories...56:7). Ibn Kathir says that people will be divided into three different categories on the Day of Resurrection. One group will be on the right side of Allah&s Throne, and they are those who were brought forth from the right side of the loin of &Adam (علیہ السلام) . These people will be given their Ledgers of Deeds in their right hands and will be taken to the right side of the Divine Throne. They are the inmates of Paradise. The second category comprises those who will be placed to the left of Allah&s Throne. These are people who were brought forth from the left side of the loin of &Adam (علیہ السلام) . This category will be given their Ledgers of Deeds in their left hands and will be taken to the left side of the Divine Throne. They are the inhabitants of the Fire. [ We seek refuge in Allah from their behaviour pattern!] The third category consists of As-sabiqun [ the foremost ] who are described as Al-muqarrabun [ the fortunate believers who are granted special nearness to Allah ]. They will be placed in front of the Divine Throne. They include the Messengers, the Prophets, Siddiqin, martyrs and the friends of Allah. They are fewer than those on the right side. Towards the end of the Surah, the description of the three categories will be taken up again to mention that some signs start appearing, right from the time of death of a person, to indicate in which category he or she is going to fall.
میدان حشر میں حاضرین کی تین قسمیں : وَّكُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَةً ، ابن کثیر نے فرمایا کہ قیامت کے روز تمام لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہوجاویں گے، ایک قوم عرش کے داہنی جانب ہوگی، یہ وہ ہوں گے جو آدم (علیہ السلام) کی داہنی جانب سے پیدا ہوئے اور ان کے اعمال نامے ان کے داہنے ہاتھوں میں دیئے جائیں گے اور ان کو عرش کی داہنی جانب میں جمع کردیا جائے گا، یہ سب لوگ جنتی ہیں۔ دوسری قوم عرش کے بائیں جانب میں جمع ہوگی جو آدم (علیہ السلام) کے بائیں جانب سے پیدا ہوئی اور جن کے اعمال نامے ان کے بائیں ہاتھوں میں دیئے گئے، ان سب کو بائیں جانب میں جمع کردیا جائے گا اور یہ سب لوگ جہنمی ہیں (نعوذ باللہ من صنیعھم) اور تیسری قسم طائفہ سابقین کا ہوگا جو رب عرش کے سامنے خصوصی امتیاز اور قرب کے مقام میں ہوگا، جن میں انبیاء ورسل، صدیقین، شہداء اور اولیاء اللہ شامل ہوں گے، ان کی تعداد بہ نسبت اصحاب الیمین کے کم ہوگی۔ آخر سورة میں ان تینوں کا ذکر پھر اس سلسلے میں آئے گا کہ انسانوں کی موت کے وقت سے ہی آثار اس کے محسوس ہوجائیں گے کہ یہ ان تینوں گروہوں میں سے کس گروہ میں شامل ہونے والا ہے۔
وَّكُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَۃً ٧ ۭ زوج يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة . ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة/ 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔ ثلث الثَّلَاثَة والثَّلَاثُون، والثَّلَاث والثَّلَاثُمِائَة، وثَلَاثَة آلاف، والثُّلُثُ والثُّلُثَان . قال عزّ وجلّ : فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ [ النساء/ 11] ، أي : أحد أجزائه الثلاثة، والجمع أَثْلَاث، قال تعالی: وَواعَدْنا مُوسی ثَلاثِينَ لَيْلَةً [ الأعراف/ 142] ، وقال عزّ وجل : ما يَكُونُ مِنْ نَجْوى ثَلاثَةٍ إِلَّا هُوَ رابِعُهُمْ [ المجادلة/ 7] ، وقال تعالی: ثَلاثُ عَوْراتٍ لَكُمْ [ النور/ 58] ، أي : ثلاثة أوقات العورة، وقال عزّ وجلّ : وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلاثَ مِائَةٍ سِنِينَ [ الكهف/ 25] ، وقال تعالی: بِثَلاثَةِ آلافٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُنْزَلِينَ [ آل عمران/ 124] ث ل ث ) الثلاثۃ ۔ تین ) مؤنث ) ثلاثون تیس ( مذکر ومؤنث) الثلثمائۃ تین سو ( مذکر ومؤنث ) ثلاثۃ الاف تین ہزار ) مذکر و مؤنث ) الثلث تہائی ) تثغیہ ثلثان اور جمع اثلاث قرآن میں ہے ؛۔ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ [ النساء/ 11] توا یک تہائی مال کا حصہ وواعدْنا مُوسی ثَلاثِينَ لَيْلَةً [ الأعراف/ 142] اور ہم نے موسیٰ سے تیس رات کو میعاد مقرر کی ۔ ما يَكُونُ مِنْ نَجْوى ثَلاثَةٍ إِلَّا هُوَ رابِعُهُمْ [ المجادلة/ 7] کسی جگہ ) تین ( شخصوں ) کا مجمع ) سر گوشی نہیں کرتا مگر وہ ان میں چوتھا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثَلاثُ عَوْراتٍ لَكُمْ [ النور/ 58]( یہ ) تین ( وقت ) تمہارے پردے ( کے ) ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ یہ تین اوقات ستر کے ہیں ۔ وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلاثَ مِائَةٍ سِنِينَ [ الكهف/ 25] اور اصحاب کہف اپنے غار میں ( نواوپر ) تین سو سال رہے ۔ بِثَلاثَةِ آلافٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُنْزَلِينَ [ آل عمران/ 124] تین ہزار فرشتے نازل کرکے تمہیں مدد دے ۔ إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنى مِنْ ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ [ المزمل/ 20] تمہارا پروردگار
(٧۔ ٨) اور تم قیامت کے دن تین قسم کے ہوجاؤ گے سو ان میں جو داہنے والے ہیں وہ دائیں والے کیسے اچھے ہیں یعنی جن کے نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں دیے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کو جنت میں داخل کرے گا تو بطور تعجب کے اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ محمد آپ کو کیا معلوم کہ ان کے لیے کیا کیا نعمتیں اور خوشیاں ہوں گی۔
آیت ٧{ وَّکُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَۃً ۔ } ” اور تم تین گروہوں میں منقسم ہو جائو گے۔ “ ان تین گروہوں کا ذکر بالواسطہ طور پر سورة الرحمن میں دو جنتوں کے حوالے سے ہوا ہے۔ یعنی اہل جہنم ‘ نچلے درجے کی جنت کے مستحق اور اونچے درجے کی جنت کے باسی۔
4 Although the address apparently is directed to the people to whom this discourse was being recited, or who may read it or hear it read now, in fact the entire mankind is its addressee. AII human beings who have been born since the tirst day of creation and will be born till the Day of Resurrection, will ultimately he divided into three classes.
سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :4 خطاب اگرچہ بظاہر ان لوگوں سے ہے جنہیں یہ کلام سنایا جا رہا تھا ، یا جو اب اسے پڑھیں یا سنیں ، لیکن دراصل پوری نوع انسانی اس کی مخاطب ہے تمام انسان جو اول روز آفرینش سے قیامت تک پیدا ہوئے ہیں وہ سب آخر کار تین گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے ۔
(56:7) وکنتم ازواجا ثلثۃ۔ واؤ عاطفہ۔ ازواجا زوج کی جمع۔ جوڑا ۔ یہاں اس کے معنی گروہ۔ صنف، جماعت کے ہیں۔ اور تم تین اقسام میں یا گروہ میں ہوجاؤ گے۔ یہاں کان بمعنی صار مستعمل ہے۔ ایسے ہی آیت ولا تقربا ھذا الشجرۃ فتکونا من الظلمین (2:35) اور اس درخت کے پاس نہ جانا ورنہ ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے میں کان بمعنی صار استعمال ہوا ہے۔ ارواجا ثلثۃ موصوف و صفت مل کر کنتم کی خبر۔
2۔ یعنی خواص مومنین، عوام مومنین اور کفار اور آیات آئندہ میں خواص کو مقربین اور سابقین کہا ہے، اور عوام مومنین کو اصحاب الیمین اور کفار کو اصحاب الشمال۔
فہم القرآن ربط کلام : قیامت برپا ہونے کے بعد محشر کے میدان میں لوگوں کی حالت۔ اس سورت کی پہلی آیت سے لے کر چھٹی آیت تک اسرافیل کے پہلی مرتبہ صورپھونکنے کا منظر بیان ہوا ہے۔ اس کے بعد جوں ہی دوسرا صورپھونکا جائے گا تو لوگ قبروں سے اٹھ کر محشر کے میدان میں یوں اکٹھے ہوں جیسے تیر اپنے نشانے پر پہنچ جاتا ہے۔ (المعارج : ٤٣) لوگوں کو حساب و کتاب کے فوراً بعد تین حصوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔ جس کی ابتدا حساب و کتاب کے وقت ہی کردی جائے گی۔ آغاز میں مجموعی طور پر لوگ دواقسام پر مشتمل ہوں گے نیک اور بد۔ نیک لوگوں کو ان کے اعمال نامے دائیں ہاتھ میں دئیے جائیں گے اور برے لوگوں کو ان کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں تھمائے جائیں گے۔ دونوں کے اپنے اپنے اعمال ناموں کے بارے میں ابتدائی تاثرات یوں ہوں گے۔ (فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتَابَہٗ بِیَمِیْنِہِ فَیَقُوْلُ ہَاؤُمْ اقْرَءُ وا کِتَابِی اِِنِّی ظَنَنتُ اَنِّی مُلَاقٍ حِسَابِی۔ فَہُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ ) (الحاقۃ : ١٩ تا ٢١) ” سو جس کا نامۂ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا ” دیکھو، پڑھو میرا نامۂ اعمال۔ میں سمجھتا تھا کہ مجھے ضرور اپنا حساب ملنے والا ہے۔ وہ خوش وخرم ہوگا۔ “ (وَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتَابَہٗ بِشِمَالِہٖ فَیَقُوْلُ یَالَیْتَنِی لَمْ اُوْتَ کِتَابِی۔ وَلَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِی یَالَیْتَہَا کَانَتِ الْقَاضِیَۃَ مَا اَغْنٰی عَنِّی مَالِی ہَلَکَ عَنِّی سُلْطَانِی) (الحاقۃ : ٢٥ تا ٢٩) ” اور جس کا نامۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا۔” کاش ! میرا اعمال نامہ مجھے نہ دیا جاتا، اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔ کاش ! جو موت دنیا میں مجھے آئی تھی وہ آخری ہوتی آج میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا۔ میرا سارا اثر ورسوخ ختم ہوگیا۔ “ حساب و کتاب کے بعد لوگوں کو مجموعی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ 1 ۔ دائیں جانب والے۔ دائیں جانب والوں کا کیا کہنا ہے ؟ 2 ۔ سبقت لے جانے والے تو سب سے آگے ہوں گے اور اپنے رب کے مقرب ترین ہوں گے۔ 3 ۔ بائیں ہاتھ والے سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ دنیا کے ہر معاشرے میں دائیں اور بائیں کی اصطلاح پائی جاتی ہے۔ دائیں ہاتھ کو بائیں پر نیکی اور فیزیکلی (PHSYCALLY) طور پر برتری حاصل ہوتی ہے۔ دائیں بائیں کی اصطلاح درجہ بندی کے اعتبار سے بھی استعمال کی جاتی ہے۔ عربوں میں بھی یہ اصطلاح معروف تھی جس وجہ سے جنتی کو دائیں ہاتھ والے اور جہنمی کو بائیں ہاتھ والے کہا گیا ہے۔ عرب آنے والے مہمانوں میں معزز ترین آدمی کو مجلس میں دائیں ہاتھ بٹھایا کرتے تھے۔ دین اسلام میں بھی دائیں اور بائیں میں فرق رکھا گیا ہے۔ کھانے پینے کے لیے دایاں ہاتھ استعمال کرنے کا حکم ہے اور استنجا کرنے کے لیے بایاں ہاتھ استعمال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہاں دائیں ہاتھ والوں سے مراد جنتی لوگ ہیں جن کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ جو لوگ دنیا میں نیکی کے کاموں میں پیش پیش رہے وہ جنت میں جانے اور اس کا اعلیٰ مقام پانے کے لیے بھی دوسرے جنتیوں سے آگے ہوں گے اور وہی جنت الفردوس میں داخل کیے جائیں گے جو رب رحمن کے عرش کے قریب تر جنت ہوگی، انہیں جنت نعیم میں داخل کیا جائے گا۔ سبقت لینے جانے والوں میں پہلے لوگ زیادہ ہوں گے اور پیچھے آنے والوں میں کم ہوں گے۔ مفسرین نے پہلے لوگوں کے بارے میں تین قسم کے خیالات کا اظہار فرمایا ہے جن میں بہترین خیال یہ ہے کہ جو لوگ اپنی زندگی میں نیکی کے معاملات میں دوسروں سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے رہے وہ جنت میں سابقین اور مقربین میں ہوں۔ ان میں وہ لوگ زیادہ ہوں گے جنہیں اپنے دور کے نبی کا صحابی ہونے کا شرف حاصل ہوا اور وہ اپنے ساتھیوں سے نیک کاموں میں آگے بڑھنے والے تھے۔ اسی بنا پر نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ اور امت میں درجہ بندی فرمائی ہے۔ یہاں مقربین کے بعد جنت نعیم کا ذکر کیا ہے تاکہ لوگ نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ صحابہ کرام (رض) میں پہلا درجہ خلفائے راشدین کا ہے پھر عشرہ مبشرہ اور پھر بدری صحابہ کا اور اس کے بعد فتح مکہ سے پہلے ایمان لانے والے صحابہ ہیں۔ امت کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ (رض) قَال قال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَشْرَۃٌ فِی الْجَنَّۃ أَبُو بَکْرٍ فِی الْجَنَّۃِوَعُمَرُ فِی الْجَنَّۃِ وَعُثْمَانُ فِی الْجَنَّۃِ وَعَلِیٌّ فِی الْجَنَّۃِ وَالزُّبَیْرُ فِی الْجَنَّۃِ وَطَلْحَۃُ فِی الْجَنَّۃِ وَابْنُ عَوْفٍ فِی الْجَنَّۃِ وَسَعْدٌ فِی الْجَنَّۃِ وَسَعِیدُ بْنُ زَیْدٍ فِی الْجَنَّۃِوَأَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ فِی الْجَنَّۃِ ) (صحیح ابن حبان، باب ذِکْرُ إِثْبَاتِ الْجَنَّۃِ لِأَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ ) ” حضرت عبدالرحمان بن عوف (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دس لوگ جنت میں جائیں گے حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت زبیر، حضرت طلحہ، حضرت عبدالرحمان بن عوف، حضرت سعد، حضرت سعید بن زید اور حضرت ابوعبیدہ بن جراح (رض) ان کے لیے دنیا میں جنت کی بشارت ہے۔ “ (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ یَجِئُ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَہَادَۃُ اَحَدِھِمْ یَمِیْنَہٗ وَیَمِیْنُہٗ شَہَادَتَہٗ ) (رواہ البخاری : باب لاَ یَشْہَدُ عَلَی شَہَادَۃِ جَوْرٍ إِذَا أُشْہِدَ ) ” حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ سول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے زمانہ کے لوگ سب سے بہتر ہیں۔ پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے۔ پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے۔ اس کے بعد کچھ لوگ آئیں گے، جن کی گواہی ان کی قسم سے اور ان کی قسم ان کی گواہی سے سبقت لے جائے گی۔ “ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمًا فَقَالَ عُرِضَتْ عَلَیَّ الْاُمَمُ فَجَعَلَ یَمُرُّ النَّبِیُّ وَمَعَہٗ الرَّجُلُ وَالنَّبِیُّ وَمَعَہٗ الرَّجُلَانِ وَالنَّبِیُّ وَمَعَہٗ الرَّھْطُ وَالنَّبِیُّ وَلَیْسَ مَعَہٗ اَحَدٌ فَرَأَیْتُ سَوَادًا کَثِیْرًا سَدَّ الْاُفُقِ فَرَجَوْتُ اَن یَّکُوْنَ اُمَّتِیْ فَقِیْلَ ھٰذٰا مُوْسٰی فِیْ قَوْمِہٖ ثُمَّ قِیْلَ لِیَ أنْظُرْ فَرَأَیْتُ سَوَادًا کَثِیْرًا سَدَّ الْاُفُقِ فَقِیْلَ لِیَ انْظُرْ ھٰکَذَاوَھٰکَذَا فَرَأَیْتُ سَوَادًا کَثِیْرًا سَدَّ الْاُفُقُ فَقَالَ ھٰؤُلٰآءِ اُمَّتُکَ وَمَعَ ھٰؤُلَاءِ سَبْعُوْنَ اَلْفًا قُدَّامَھُمْ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ ھُمُ الَّذِیْنَ لَا یَتَطَیَّرُوْنَ وَلَا یَسْتَرْقُوْنَ وَلَا یَکْتَوُوْنَ وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ ) (رواہ البخاری : باب من لم یرق) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے باہر تشریف لائے اور ارشاد فرمایا : مجھ پر امتیں پیش کی گئیں۔ ایک پیغمبر گزرا، اس کے ساتھ اس کا ایک پیروکار تھا۔ کسی کے ساتھ دو آدمی تھے۔ کسی کے ساتھ ایک جماعت تھی۔ اور بعض ایسے پیغمبر بھی ہوئے، جن کا کوئی پیروکار نہیں تھا۔ میں نے اپنے سامنے ایک بہت بڑا اجتماع دیکھا، جو آسمان کے کناروں تک پھیلا ہوا تھا۔ میں نے خیال کیا، شاید میری امت ہے لیکن بتایا گیا کہ یہ تو موسیٰ (علیہ السلام) کی امت ہے۔ پھر مجھے کہا گیا، آپ پھر دیکھیں میں نے بہت بڑا اجتماع دیکھا۔ جس نے آسمان کے کناروں کو بھرا ہوا ہے۔ مجھ سے دائیں اور بائیں جانب بھی دیکھنے کے لیے کہا گیا۔ میں نے ہر طرف دیکھا بہت سے لوگ آسمان کے کناروں تک پھیلے ہوئے ہیں مجھے کہا گیا یہ سب آپ کے امتی ہیں۔ ان کے ساتھ ستر ہزار وہ بھی ہیں۔ جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ وہ ایسے لوگ ہیں، جو نہ بدفالی اور نہ دم کراتے ہیں اور نہ گرم لوہے سے داغتے ہیں۔ بلکہ صرف اپنے اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ “ خیال رہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو صرف نیکی کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ نیکیوں میں آگے بڑھنے اور جنت کی طرف سبقت لے جانے کا حکم دیا ہے۔ جس معاشرے میں نیکی اور اہم مقصد کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا جذبہ ختم ہوجائے وہ معاشرہ بالآخر مردگی کا شکار ہوجاتا ہے۔ زندہ اور بیدار قومیں اپنی منزل کے حصول کے لیے نئے جذبوں اور تازہ ولولوں کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے مسلسل منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ مسلمانوں کی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا اور اس کی جنت کا حصول ہے اس لیے قرآن مجید نے مختلف مقامات پر ترغیب دی ہے کہ اس کے لیے آگے بڑھو اور بڑھتے ہی چلے جاؤ۔ (سَابِقُوْا اِِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا کَعَرْضِ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا باللّٰہِ وَرُسُلِہٖ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ وَاللّٰہُ ذو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ) (الحدید : ٢١) ” اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے، جو ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں، یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ “ (وَ سَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ جَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ ) (آل عمران : ١٣٣) ” اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جلدی کرو جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ “ مسائل ١۔ قیامت کے دن لوگوں کی تین اقسام ہوں گی۔ ٢۔ دائیں ہاتھ والے ان کا کیا کہنا ؟ ٣۔ بائیں ہاتھ والے سخت مصیبت میں مبتلا ہوں گے۔ ٤۔ نیکیوں میں سبقت لے جانے والے مقربین میں شامل ہوں گے۔ ٥۔ ہر امت کے پہلے طبقہ کے لوگ تعداد کے لحاظ سے مقربین میں زیادہ ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن نیکی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا حکم : ١۔ اللہ کی مغفرت اور جنت کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے سبقت کرو۔ (الحدید : ٢١) ٢۔ نیکی کے حصول میں جلدی کرو۔ (البقرۃ : ١٤٨) ٣۔ نیکیوں میں سبقت کرنے والے سب سے ارفع ہوں گے۔ (فا طر : ٣٢) ٤۔ سبقت کرنے والے اللہ کے مقرب ہوں گے۔ (الواقعہ : ١٠، ١١) ٥۔ اللہ کی جنت اور بخشش کے لیے سبقت کرو۔ ( آل عمران : ١٣٣)
وکنتم ............ السبقون (٠١) (٦ 5: ٧ تا ٠١) ” تم لوگ اس وقت تین گروہوں میں تقسیم ہوجاؤ گے ، دائیں بازو والے ، سو دائیں بازو والوں (کی خوش نصیبی) کا کیا کہنا اور بائیں بازو والے ، تو بائیں بازو والوں (کی بدنصیبی) کا کیا ٹھکانا اور آگے والے تو پھر آگے والے ہی ہیں۔ “ قیامت میں لوگوں کے تین گروہ ہوں گے۔ قرآن مجید کے دوسرے مشاہد میں لوگوں کے دو ہی اقسام اور گروہ بتائے گئے ہیں لیکن یہاں تین درجے بتائے گئے ہیں۔ پہلے دائیں بازو والے ان کا اصحاب المیمنہ کہا گیا ہے اور ان کے بارے میں محض سوال کردیا گیا۔ یہ محض ان کی گرانقدری کے لئے۔
﴿ وَّ كُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَةًؕ٠٠٧﴾ (اور اے لوگو ! قیامت کے دن تم تین قسموں پر ہو گے۔ ) ان تینوں قسموں کا تفصیلی بیان آئندہ آیات میں آرہا ہے۔ ﴿اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَةِ ﴾ کی دو قسمیں بیان فرمائیں اول سابقین جنہیں مقربین فرمایا، دو عام مومنین جنہیں اصحاب الیمین سے تعبیر فرمایا سوم تمام کفار جو اصحاب الشمال ہوں گے۔
5:۔ ” وکنتم ازواجا ثلاثۃ “ اس وقت تم لوگ تین قسموں بٹ جاؤ گے۔ ” فاصحب المیمنۃ۔ تا۔ السابقون “ یہ تینوں قسموں کا اجمالی ذکر ہے۔ ” فاصحب المیمنۃ “ مرکب اضافی مبتدا ہے ما اصحب المیمنۃ “ جملہ خبر ہے اور استفہام تعجب کے لیے ہے، علی ہذا القیاس۔ ” واصحب المشئمۃ۔ الایۃ “ یہ اور ” والسابقون السابقون “ دونوں ” اصحب المیمنۃ “ پر معطوف ہیں اور معطوف علیہ مع معطوفین اذا وقعت کی جزاء ہے (روح) ۔ شرط اور جزا کا حاصل مفہوم یہ ہوگا جب قیامت قائم ہوجائیگی جس کے قیام میں کوئی شک و شبہ نہیں جو بعض کو اونچا کرنے والی اور بعض کو نیچا کرنے والی ہوگی۔ جب زمین کو نہایت شدت سے ہلا دیا جائیگا اور پہاڑوں ریزہ ریزہ کر کے غبار کی مانند بنا دیا جائیگا اور سب لوگ تین جماعتوں میں بٹ جائیں گے، اس وقت اصحب الیمین کا حال نہایت اعلی اور اکمل ہوگا اور اصحاب السمال نہایت ہی بد ترین حال میں ہوں گے اور سابقین کا کیا کہنا وہ تو ہیں ہی سابقین ان کا تو حساب کتاب بھی نہیں ہوگا۔ والمراد تعجیب السامع من شان الفریقین فی الفخامۃ والفظاعۃ کانہ قیل (فاصحب المیمنۃ) فی غایۃ حسن الحال (واصحب المشئمۃ) فی نہایۃ سوء الحال (روح ج 27 ص 131) ۔ اصحب المیمنۃ سے ہر امت کے عام مؤمنین مراد ہیں جن کو اعمالنامے دائیں ہاتھوں میں دئیے جائیں گے اور اصحاب المشئمہ سے کفار و مشرکین مراد ہیں جن کے اعمالنامے ان کے بائیں ہاتھوں میں ہوں گے۔ قال عطاء و محمد بن کعب اصحب المینۃ من اوتی کتابہ بیمینہ واصحب المشئمۃ من اوتی کتابہ بشمالہ (قرطبی ج 17 ص 198) ۔ السابقون وہ نیک لوگ جو ہر نیکی اور طاعت میں پیش پیش ہوں یہ انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے کامل متبعین ہیں۔ السابقون الی الاسلام والطاعۃ و مراتب القرب الی اللہ تعالیٰ وھم الانباء علیہم السلام۔ ومن لحقہم من الامم بکمال متابعتہم (مطہری ج 9 ص 166) ۔