Surat ul Waqiya

Surah: 56

Verse: 71

سورة الواقعة

اَفَرَءَیۡتُمُ النَّارَ الَّتِیۡ تُوۡرُوۡنَ ﴿ؕ۷۱﴾

And have you seen the fire that you ignite?

اچھا ذرا یہ بھی بتاؤ کہ جو آگ تم سلگاتے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Do you not see the fire which you kindle. `and the fire you start with the use of trees,' أَأَنتُمْ أَنشَأْتُمْ شَجَرَتَهَا أَمْ نَحْنُ الْمُنشِوُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٣] درختوں کا سب سے بڑا فائدہ آگ کا حصول :۔ تیسری نعمت اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی کہ تم آگ جلاتے ہو۔ آگ جلانا اور اس سے استفادہ کرنا صرف انسان کا کام ہے۔ دوسری کوئی جاندار مخلوق یہ کام نہیں کرسکتی۔ جانور نباتات وغیرہ اسی حال میں کھاتے ہیں جس حال میں یہ زمین سے نکلتی یا دستیاب ہوتی ہے جبکہ انسان تمام ... سبزیاں، غلے اور گوشت وغیرہ آگ پر پکا کر کھاتے ہیں۔ پھر آگ سے ہی انسان نے کئی قسم کی دھاتیں ڈھال کر اپنے استعمال میں لانا شروع کیں۔ پھر مشینریاں اور کلیں بنائیں۔ اگرچہ آج کل آگ تیل، پٹرول اور گیس وغیرہ سے بھی حاصل کی جارہی ہے۔ مگر آج سے صرف دو صدی پیشتر تک آگ حاصل کرنے کا ذریعہ صرف درخت اور ایندھن تھا۔ بعض درخت ایسے ہیں جن کو ایک دوسرے پر رگرنے سے آگ حاصل ہوجاتی ہے اور بعض درختوں کا تیل ایندھن کا کام دیتا ہے اور ہر قسم کے درخت اور پودے، گھاس وغیرہ خشک ہو کر آگ حاصل کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ درختوں سے ہی کوئلہ اور پھر معدنی یا پتھری کوئلہ بھی بنتا ہے۔ گویا آج کے دور میں بھی آگ کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ یہ درخت وغیرہ ہی ہیں۔ اور درختوں کو پیدا کرنے اور نشوونما دینے والی صرف اللہ کی ذات ہے۔ جس میں دوسرے کسی کام کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ اگر انسان سمجھے تو درختوں کی پیدائش بھی فی الحقیقت اس پر اللہ کا بہت بڑا احسان ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَفَرَئَ یْتُمُ النَّارَ الَّتِیْ تُوْرُوْنَ ۔۔۔۔۔۔:” اوری یوری “ ( افعال) ” النار “ آگ سلگانا۔ یہ چوتھی دلیل ہے جو یہاں اللہ تعالیٰ کی توحید اور قیامت کے حق ہونے کے ثبوت کے لیے لائی گئی ہے۔ ( دیکھئے یٰسین : ٨٠)” اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِئُوْنَ “ میں خبر پر الف لام سے حصر پیدا ہو رہا ہے ، اس لیے ترجمہ ک... یا گیا ہے ” یا ہم ہی پیدا کرنے والے ہیں “۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَرَءَيْتُمُ النَّارَ الَّتِيْ تُوْرُوْنَ۝ ٧١ ۭ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71... ] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

ذرا یہ تو بتاؤ کہ جس آگ کو سرخ درخت کے علاوہ ہر ایک درخت سے تم سلگاتے ہو اس کے درخت کو تم نے پیدا کیا ہے یا ہم اس کے پیدا کرنے والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧١{ اَفَرَئَ یْتُمُ النَّارَ الَّتِیْ تُوْرُوْنَ } ” کبھی تم نے سوچا کہ وہ آگ جو تم جلاتے ہو ؟ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(56:71) افرأیتم : ملاحظہ ہو آیت 58 متذکرۃ الصدر۔ التی تورون : التی اسم موصول واحد مؤنث، تورون صلہ۔ مضارع صیغہ جمع مذکر حاضر۔ ایراء (افعال) مصدر سے۔ تم سلگاتے ہو۔ تم روشن کرتے ہو۔ ابراء کے معنی چقماق سے آگ نکلانے کے ہیں۔ واریت کذا۔ کے معنی کسی شے کو چھپانے کے ہیں۔ جیسے کہ کلام پاک میں آیا ہے :۔...  قد انزلنا علیکم لباسا یواری سواتکم (7:26) ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈھانکے۔ بطور فعل لازم تواری بمعنی چھپ جانا ہے۔ جیسے کہ آیت حتی توارت بالحجاب (38:32) یہاں تک کہ (آفتاب) پردے میں چھپ گیا۔ اور وری یری وری۔ چقماق کا آگ دینا۔ گویا اس میں آگ کے پوشیدہ ہونے کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ وری حروف مادہ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : پانی کے بعد آگ کا تذکرہ۔ جس طرح پانی عظیم نعمت ہے اور اس پر انسان کی زندگی کا انحصار اسی پر ہے اس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا بلکہ دنیا میں پھلنے پھولنے والی کوئی چیز بھی نمو نہیں پاسکتی۔ ارشاد فرمایا کہ ہم نے ہر چیز کا انحصار پانی پر رکھا ہے لیکن پھر تم ایمان لانے کے لیے ... تیار نہیں ہوتے۔ (الانبیاء : ٣٠) جس طرح پانی کے بغیر زندگی باقی نہیں رہ سکتی اسی طرح انسان کی زندگی اور ترقی کے لیے آگ بھی ناگزیر ہے اگر آگ پیدا نہ کی جاتی تو انسان اور حیوان کی زندگی کے درمیان معمولی فرق ہوتا اور انسان کسی صورت بھی ترقی نہ کرسکتا۔ آپ زندگی کے کسی شعبے پر غور فرمائیں اس کی ترقی میں بنیادی کردار آگ کا دکھائی دے گا۔ سائیکل سے لے کر ہوائی جہاز اور تیر سے لے کر ایٹم بم بنانے کے لیے آگ کی ضرورت ہے، یہاں تک انسان کی خوردونوش کا تعلق ہے آگ کے بغیر انسان روٹی بھی نہیں پکا سکتا۔ پہلے زمانے کے لوگ پتھر رگڑ کر آگ پیدا کرتے تھے اور قدیم عرب دو درختوں کی ہری بھری ٹہنیوں کو ایک دوسرے پر مار کر آگ حاصل کرتے تھے۔ جس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اظہار ہوتا ہے مرخ اور عفار درختوں کی ٹہنیاں سبز ہیں اور ان میں آگ نہیں پانی ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ ان سے آگ پیدا کرتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ صلاحیت بخشی کہ اس نے بیشمار چیزوں سے آگ حاصل کرنا شروع کردی لیکن انسان کی بےعقلی کا اندازہ کریں کہ بیشمار لوگ آگ کی پرستش کرتے ہیں۔ صرف اَن پڑھ نہیں بڑے بڑے ترقی یافتہ اور علم وفنون کی ڈگریاں رکھنے والے حضرات آگ کے سامنے جھکتے ہیں اور اسے حاجت روا، مشکل کشا سمجھتے ہیں حالانکہ آگ پیدا کرنے والا صرف ” اللہ “ ہے۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ بس اپنے رب عظیم کی تسبیح پڑھاکریں جوہر کمزوری سے پاک اور ہر قسم کے شرک سے مبرا ہے۔ (عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍقَالَ فَکَانَ رَسُول اللَّہ إِذَا رَکَعَ قَال سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمِ وَبِحَمْدِہِ ثَلاَثًا وَإِذَا سَجَدَ قَال سُبْحَانَ رَبِّیَ الأَعْلَیوَبِحَمْدِہِ ثَلاَثًا) (رواہ البیہقی : باب الْقَوْلِ فِی الرُّکُوعِ ) ” عقبہ بن عامر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رکوع کرتے تو تین مرتبہ یہ کلمات (سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمِ وَبِحَمْدِہ) پڑھتے اور جب سجدہ کرتے تو تین دفعہ یہ کلمات (سُبْحَانَ رَبِّیَ الأَعْلَی وَبِحَمْدِہِ ) پڑھتے۔ ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتیں ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکوع و سجود میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ ( ُ سبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلاَءِکَۃِ وَالرُّوح) “ (رواہ ابوداؤد : بَابُ مَا یَقُول الرَّجُلُ فِی رُکُوعِہِ وَسُجُودِہِ ، قال البانی صحیحہٌ) (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ إِلَی الرَّحْمَنِ ، خَفِیْفَتَانِ عَلَیْ اللِّسَانِِ ، ثَقِیْلَتَانِ فِیْ الْمِیْزَانِ سُبْحَان اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ ، سُبْحَان اللَّہِ الْعَظِیمِ ) ( رواہ البخاری : کتاب التوحید) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو کلمے رحمٰن کو بڑے پسند ہیں زبان سے ادا کرنے میں آسان اور وزن کے لحاظ سے بھاری ہیں۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہی سرخ اور عفار درخت پیدا کیے جن سے پرانے زمانے کے لوگ آگ حاصل کرتے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ہی آگ بنائی ہے۔ ٣۔ آگ سے انسان قوت حاصل کرتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں میں آگ بھی اس کی قدرت کی نشانی ہے۔ ٥۔ انسان کو آگ سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کی ایک جھلک : ١۔ رات اور دن کو اللہ نے نشانیاں بنایا ہے۔ (بنی اسرائیل : ١٢) ٢۔ دن، رات، سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ ( حٰم السجدۃ : ٣٧) ٣۔ آسمان اور زمین کی پیدائش، دن اور رات کے آنے جانے میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (آل عمران : ١٩٠) ٤۔ بیشک دن اور رات کے مختلف ہونے میں اور جو کچھ اللہ نے زمین و آسمان میں پیدا کیا ہے، اس میں لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (یونس : ٦) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے وجود میں اپنی قدرت کی نشانیاں رکھی ہیں۔ (الذاریات : ٢١)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

افرءیتم ................ للمقوین (٣٧) (٦ 5: ١٧ تا ٣٧) ” کبھی تم نے خیال کیا یہ آگ جو تم سلگاتے ہو ، اس کا درخت تم نے پیدا کیا ہے یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں ؟ ہم نے اس کو یاددہانی کا ذریعہ اور حاجت مندوں کے لئے سامان زیست بنایا ہے “ انسان کی زندگی میں آگ کا وجود انسان کے لئے بہت بڑی نعمت ثابت ہو... ئی اور انسان نے اپنی تہذیبی زندگی کا آغاز ہی آگ سے کیا ہے لیکن صبح وشام آگ جلانا اس کے لئے تو ایک معمول کی بات ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس میں انسان کا کردار کتنا ہے۔ بس انسان آگ جلاتا ہے لیکن جلنے کا عمل کس نے پیدا کیا اور جلنے کے عمل میں استعمال ہونے والا ایندھن کس نے بنایا۔ درخت کس نے پیدا کئے۔ اس کے بارے میں اس سے قبل تفصیلی بات ہم کرچکے ہیں۔ یہاں ” اس کے درخت “ میں ایک اشارہ ہے کہ عرب ایک درخت کی شاخ کو دوسری سے رگڑ کر آگ پیدا کرتے تھے اور یہ وہ طریقہ ہے جو شاید آج بھی پسماندہ علاقوں میں رائج ہے۔ یہ انداز ان کے تجربات میں تھا اس لئے قرآن نے اس طرف اشارہ کردیا۔ رہا آگ کا معجزہ اور سائنس دانوں کے نزدیک اس کا راز تو یہ ایک دوسری اہم بحث ہے اور اس آگ کی مناسبت سے آخرت کی آگ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آگ بھی نعمت ہے : اس کے بعد آگ کا تذکرہ فرمایا، انسانوں کے کھانے پکانے اور بہت سے کاموں میں آگ استعمال ہوتی ہے جو اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ارشاد ہے۔ ﴿ اَفَرَءَيْتُمُ النَّارَ الَّتِيْ تُوْرُوْنَؕ٠٠٧١﴾ (سو پھر آگ کے بارے میں بتاؤ جس کو تم جلاتے ہو) ﴿ءَاَنْتُمْ اَنْشَاْتُمْ شَجَرَتَهَاۤ اَمْ نَحْنُ الْ... مُنْشِـُٔوْنَ۠٠٠٧٢﴾ (اس کے درخت کو تم نے پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرنے والے ہیں) ﴿نَحْنُ جَعَلْنٰهَا تَذْكِرَةً وَّ مَتَاعًا لِّلْمُقْوِيْنَۚ٠٠٧٣﴾ (ہم نے اس کو یاد دہانی کی چیز اور مسافروں کے فائدہ کی چیز بنایا ہے) ان آیات میں یہ بتا دیا کہ یہ آگ جسے تم جلاتے ہو یہ بھی تو ہماری پیدا کی ہوئی ہے۔ بتاؤ اس کا درخت کس نے پیدا کیا ہے تم نے پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرنے والے ہیں ؟ اہل عرب بعض درختوں سے آگ حاصل کیا کرتے تھے اس لیے اس کا تذکرہ فرمایا ( سورة یٰسین کے ختم پر ﴿ا۟لَّذِيْ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا فَاِذَاۤ اَنْتُمْ مِّنْهُ تُوْقِدُوْنَ ٠٠٨٠﴾ کے ذیل میں اس کا تذکرہ ہوچکا ہے درختوں کے علاوہ پتھروں سے بھی آگ پیدا ہوتی ہے (جنہیں پرانے زمانے میں چقماق کہتے تھے) بہرحال جس ذریعہ سے بھی پیدا ہو، آگ انسانوں کے لیے نعمت ہے (اگرچہ بعض مواقع میں زحمت بھی بن جاتی ہے) آگ کے درخت کے تذکرہ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی طرف بھی اشارہ ہے کہ درخت ہر ابھرا ہوتا ہے اس کے اندر پانی ہوتا ہے آگ اور پانی دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں پھر بھی اللہ تعالیٰ اس میں سے آگ نکال دیتا ہے، آگ بڑی عبرت اور نصیحت کی چیز ہے اور بڑی نعمت ہے اس سے نفع حاصل ہوتا ہے اگر آگ نہ ہوتی تو کچا آٹا لیے بیٹھے رہتے اور کچا سالن ہی کھاتے، بتاؤ یہ مٹھائیاں، كیك، بسکٹ اور طرح طرح کی چیزیں کیسے بناتے ہو، اس نعمت کو یاد کرو اور نصیحت حاصل کرو اور اس آگ سے آخرت کی آگ کی طرف بھی ذہن لے جاؤ وہ تو اس سے بہت زیادہ گرم ہے کفر و شرک اور گناہوں سے بچو۔ قال فی معالم التنزیل تذکرة للنار الکبری اذ راھا الرادی ذکر جھنم قالہ عکرمة و مجاھد، وقال عطاء موعظة یتعظ بھا المومن ـ  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

24:۔ ” افرایتم النار الخ “ یہ توحید پر چوتھی عقلی دلیل ہے بعض درخت ایسے ہیں کہ اگر ان کی لکڑیوں کو ایک دوسری پر رگڑا جائے تو ان سے آگ نمودار ہوجاتی ہے۔ قدیم زمانے میں آگ حاصل کرنے کا یہی طریقہ تھا۔ عرب میں مرخ اور عفار نامی دو درخت مشہور تھے۔ جن میں آگ پیدا کرنے کی صلاحیت دوسرے درختوں کی نسبت زیادہ ... تھی۔ اب آخر میں یہ بتاؤ کہ یہ جو لکڑیوں کو باہم رگڑ کر تم روشن کرلیتے ہو کیا یہ درخت تم نے پیدا کیے ہیں یا ہمنے ؟ ظاہر ہے کہ ہر نبات اور ہر نجم و شجر کا خالق وہی ہے۔ ” نحن جعلناھا۔ الایۃ “ ہم نے اس دنیا کی آگ کو عبرت بنا دیا ہے کہ اس سے آخرت میں دوزخ کی آگ کا اندازہ لگا لیا جائے جو اس سے کئی گنا زیادہ سخت ہوگی۔ اور مسافروں کیلئے جو جنگلوں اور بیابانوں میں پڑاؤ ڈالیں آگ کو ایک نہایت ہی مفید اور ضرورت کی چیز بنا دیا ہے۔ آگ کی ضرورت تو ہر جگہ ہے لیکن مسافروں کو اس کی زیادہ ضرورت رہتی ہے کیونکہ دوران سفر جنگلوں میں پکا پکایا کھانا انہیں میسر نہیں آسکتا۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(71) بھلا دیکھو تو جس آگ کو تم سلگایا کرتے ہو۔