Surat ul Waqiya
Surah: 56
Verse: 80
سورة الواقعة
تَنۡزِیۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۸۰﴾
[It is] a revelation from the Lord of the worlds.
یہ رب العالمین کی طرف سے اترا ہوا ہے ۔
تَنۡزِیۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۸۰﴾
[It is] a revelation from the Lord of the worlds.
یہ رب العالمین کی طرف سے اترا ہوا ہے ۔
A revelation from the Lord of all that exists. meaning this Qur'an is a revelation from the Lord of all that exists, not as they say that it is magic, sorcery or poetry. Rather it is the truth, no doubt about it; there is none beyond it of useful truth. Allah's statement, أَفَبِهَذَا الْحَدِيثِ أَنتُم مُّدْهِنُونَ
تَنْزِيْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ ٨٠ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ عالَمُ والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس «2» . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما «3» ، وقال «4» : العَالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة/ 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل/ 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر/ 70] . العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر/ 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة/ 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل/ 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔
آیت ٨٠{ تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ } ” اس کا اتارا جانا ہے ربّ العالمین کی جانب سے۔ “ اور اس کے بعد اب یہ چبھتا ہوا سوال (piercing question) پوچھا جا رہا ہے :
(56:80) تنزیل : بروزن تفعیل مصدر ہے : اتارنا۔ تنزیل اور انزال میں یہ فرق ہے کہ تنزل میں ترتیب وار اور یکے بعد دیگرے تفریق کے ساتھ اتارنا ملحوظ ہوتا ہے ۔ اور انزال عام ہے ایک دم کسی شے کے اتارنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور یکے بعد دیگرے ترتیب سے اتارنے کے لئے بھی۔ تنزیل من رب العلمین : رب العالمین کی طرف سے ترتیب وار نازل ہوا ہے۔ یہ قرآن مجید کی چوتھی صفت ہے۔ جملہ انہ لقران کریم معہ اگلی تین صفات کے جواب قسم ہے۔
﴿تَنْزِيْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ ٠٠٨٠﴾ (قرآن کریم رب العالمین کی طرف سے نازل کیا گیا ہے) بندوں کا فریضہ ہے کہ قرآن پر ایمان لائیں اس کی عظمت کا حق ادا کریں، اس کو یاد کریں پڑھیں اور پڑھائیں لیکن بہت سے لوگ (جن میں اولین مخاطب اہل مکہ تھے) قرآن کی طرف سے بےرخی اور بےتوجہی اختیار کرتے ہیں اور اسے یوں ہی سرسری بات سمجھتے ہیں اور بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائیں کہ اس نے اپنا کلام نازل فرمایا اس کی تکذیب کرتے ہیں یعنی جھٹلاتے ہیں اور کفر اختیار کرتے ہیں۔
28:۔ ” تنزیل “ یہ بھی ” قران “ کی صفت ہے یہ قرآن اس شہنشاہ کی طرف سے نازل ہوا ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے اور ساری کائنات کا مالک ہے۔ ” افبھذا الحدیث انتم مدھننون “ تو کیا تم ایسی خوبیوں والی کتاب اور مالک کائنات کے ایسے عظیم الشان حکمانے سے بےاعتنائی برت رہے ؟ اور بجائے اس کے کہ تم اس نعمت عظمی کی قدر کرتے۔ اس کا شکر بجا لاتے اور اس پر ایمان لا کر اس پر عمل کرتے، تم نے اسے جھٹلا دیا ہے اور اس کا انکار کردیا ہے۔ یہ انتہائی نادانی اور بدبختی ہے۔ رزقکم ای شکرکم قال ابن عباس تجعلون شکرکم التکذیب (قرطبی ج 17 ص 228) ۔ حضرت شیخ (رح) فرماتے ہیں کہ ” تم تکذیب قرآن کو اپنا نصیب (حصہ) بناتے ہو “۔
(80) یہ قرآن تمام عالموں کے پروردگار کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور بھیجا گیا ہے قرآن کو کریم فرمایا اس لئے کہ اس میں دونوں عالم کی زندگی اور مکرم ہونے کا سامان موجود ہے یعنی اس کی تعلیم پر عمل کرنے سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک بندہ مکرم ہوجاتا ہے اور اس میں خیر کثیر ہے اس لئے اس کو قرآن کریم فرمایا۔ کتاب مکنون چھپی کتاب سے مراد لو ح محفوظ ہے جس کو سوائے فرشتوں کے اور کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا ہے۔ پاکیزہ فرمایا فرشتوں کو وہ روحانی مخلوق ہر قسم کی مادی آلائشوں سے پاک اور منزہ ہے ، پروردگار عالموں کی جانب سے نازل ہوا ہے چونکہ یہ کتاب جملہ اقوام عالم کے لئے نازل ہوئی ہے اسی لئے فرمایا کہ جملہ اقوام عالم کے مالک کی نازل کردہ ہے۔ بعض حضرات نے لا یحسہ سے قرآن مراد لیا ہے اور نفی سے نہی مراد لی ہے یعنی اس قرآن کو حدیث اور جنابت سے پاک لوگ ہاتھ لگائیں یعنی اگر وضو نہ ہو تو وضو کرکے اور اگر کوئی ناپک ہو تو غسل کرکے ہاتھ لگائے یہ مسائل کتب فقہ میں دیکھے جائیں۔