Surat ul Waqiya
Surah: 56
Verse: 95
سورة الواقعة
اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ حَقُّ الۡیَقِیۡنِ ﴿ۚ۹۵﴾
Indeed, this is the true certainty,
یہ خبر سراسر حق اور قطعاً یقینی ہے ۔
اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ حَقُّ الۡیَقِیۡنِ ﴿ۚ۹۵﴾
Indeed, this is the true certainty,
یہ خبر سراسر حق اور قطعاً یقینی ہے ۔
Verily, this! This is an absolute truth with certainty. meaning, this news is the truth; there is no doubt about it, nor escape from it for anyone, فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ
[٤٣] یعنی جس طرح موت ایک اٹل حقیقت ہے اور تم اس حقیقت کو غیر حقیقت بنانے پر قادر نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح مُقَّرَبِیْنَ ، أصْحَابُ الْیَمِیْنِ اور أصْحَاب الشِّمَالِ ۔ کا بتایا ہوا انجام بھی ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ اگر تم اسے جھٹلاتے بھی ہو تو اس طرح نہ وہ ٹل سکتی ہے نہ بدل سکتی ہے۔ لہذا خواہ مخواہ شبہات پیدا کرکے اپنے آپ کو دھوکا نہ دو ۔ بلکہ آنے والے وقت کی تیاری کرو۔
اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ حَقُّ الْیَقِیْنِ ۔۔۔۔۔:” حق “ موصوف ہے جو اپنی صفت ” الیقین “ کی طرف مضاف ہے۔ یعنی یہ ایسی ثابت شدہ بات اور ایسا سچ ہے جو یقینی ہے۔ ان دونوں آیات کے لیے دیکھئے سورة ٔ حاقہ کی آخری دو آیات کی تفسیر ۔
At the end of this subject the Qur&an says: إِنَّ هَـٰذَا لَهُوَ حَقُّ الْيَقِينِ (Indeed this is certainty in its true sense...56:95). None of the reward or punishment mentioned in the preceding verses is refutable because they are a dead certainty that has no room for any doubt or suspicion.
آخر میں فرمایا اِنَّ ھٰذَا لَهُوَ حَقُّ الْيَقِيْنِ ، یعنی یہ جزا و سزا جس کا ذکر اوپر ہوا ہے حق اور بالکل یقینی امر ہے، اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔
اِنَّ ھٰذَا لَہُوَحَقُّ الْيَقِيْنِ ٩٥ ۚ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ يقن اليَقِينُ من صفة العلم فوق المعرفة والدّراية وأخواتها، يقال : علم يَقِينٍ ، ولا يقال : معرفة يَقِينٍ ، وهو سکون الفهم مع ثبات الحکم، وقال : عِلْمَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 5] «2» ، وعَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 7] «3» وحَقُّ الْيَقِينِ [ الواقعة/ 95] وبینها فروق مذکورة في غير هذا الکتاب، يقال : اسْتَيْقَنَ وأَيْقَنَ ، قال تعالی: إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ، وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] ، لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] وقوله عزّ وجلّ : وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] أي : ما قتلوه قتلا تَيَقَّنُوهُ ، بل إنما حکموا تخمینا ووهما . ( ی ق ن ) الیقین کے معنی کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ اس کے پایہ ثبوت تک پہنچ جانے کے ہیں اسی لئے یہ صفات علم سے ہے اور معرفت اور وغیرہ سے اس کا در جہ اوپر ہے یہی وجہ ہے کہ کا محاورہ تو استعمال ہوات ہے لیکن معرفۃ الیقین نہیں بولتے اور قدر معنوی فرق پایا جاتا ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد بیان کریں گے استیتن والقن یقین کرنا قرآن میں ہے : ۔ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ہم اس کو محض ظن ہی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا ۔ وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] یقین کرنے والوں کیلئے اور آیت کریمہ : ۔ وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا نہیں کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ انہیں ان کے قتل ہوجانے کا یقین نہیں ہے بلکہ ظن وتخمین سے ان کے قتل ہوجانے کا حکم لگاتے ہیں ۔
(٩٥۔ ٩٦) بیشک جو کچھ ذکر ہوا یہ یقینی بات ہے سو اپنے اس عظیم الشان پروردگار کے نام کی نماز پڑھیے جو کہ ہر ایک دیز سے بڑا ہے یا یہ کہ اس کی توحید بیان کیجیے۔
آیت ٩٥{ اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ حَقُّ الْیَقِیْنِ ۔ } ” یقینا یہ سب کچھ قطعی حق ہے۔ “ بیشک یہ ساری باتیں سچی اور یقینی ہیں۔ یہ سب تفصیلات جو اس سورت میں بیان ہوئی ہیں ان کے بارے میں تمہیں یقین ہونا چاہیے کہ یہ سب کچھ ہو کر رہنا ہے۔ قیامت کے دن تمام نوع انسانی کو مذکورہ بالا تین گروہوں میں تقسیم کر کے ہر گروہ کے افراد کو ان کے اعمال و اعتقادات کے مطابق بدلہ دیا جانا ہے۔
(56:95) ان ۔ ھذا۔ بیشک یہ۔ (1) یعنی جو کچھ اس سورت میں جو کچھ ذکر ہوا ہے (روح المعانی) (2) قریب المرگ لوگوں کی یہ مذکور حالت (تفسیر مظہری) حق الیقین : الحق ھو الیقین۔ (1) حق اور یقین مترادف (ہم معنی) الفاظ ہیں ایسے مترادف الفاظ کی اضافت کو اضافۃ المترادفین کہتے ہیں ۔ (دو ہم معنی الفاظ کی اضافت) اور یہ مبالغہ کے لئے آتی ہے۔ جیسے کہتے ہیں کہ ھذا یقین الیقین وصواب الصواب بمعنی نہایت ہی یقینی۔ نہایت ہی نیک کام نہایت ہی درست اور درست بات۔ (روح المعانی) (2) کسی شے کی اضافت اپنی ہی طرف (دونوں الفاظ کے اختلاف کے باوجود) عربی کا اسلوب ہے قرآن مجید اور عربی کلام میں اکثر مستعمل ہے۔ مثلاً قرآن مجید میں ہے من حبل الورید۔ کہ حبل اور الورید ہم معنی ہیں۔ یا مکر السیء (35:43) کہ مکر اور السیء دونوں ہم معنی ہیں (اضواء البیان) آیت کا مطلب ہے کہ : تحقیق یہ (مذکورہ بالا بیان) یقینا صحیح یعنی حق الیقین ہے۔
ان ھذا ............ العظیم (٦٩) (٦ 5:5 ٩ تا ٦٩) ” یہ سب کچھ قطعی حق ہے ، پس اے نبی اپنے رب عظیم کے نام کی تسبیح کرو۔ “ یہ آخری پر سوز تلقین ہے۔ سچائی کے پلڑے میں وزن ڈالا جاتا ہے۔ قلب مومن نے حق الیقین کرلیا ہے کہ واقعہ سچ ہے اور ہونے والا ہے۔ سورة ختم ہوتی ہے اور حکم دیا جاتا ہے۔” رب عظیم کے نام کی تسبیح کرو “ اور اسی سے نماز میں سبحان ربی العظیم جاری ہوا۔
(95) بلا شبہ یہ حالات جو باین ہوئے یہ سراسر حق اور یقینی ہیں بیشک یہ بات یہی ہے لائق یقین کے۔ یعنی تینوں فرقوں کے جو حالات مذکور ہو ہے یہ بالکل یقینی بات ہے سابقین اصحاب یمین یعنی عامہ مومنین جس میں اہل کبائر بھی داخل ہیں کیونکہ وہ مکذبین نہیں ہیں اگرچہ گنہگار ہوں۔ اور تیسرے گمراہ اور تکذیب کرنے والے سو ان کے لئے گونا گوں عذاب بیان ہوا۔ غرض یہ جو کچھ مذکور ہوا ۔ یہ حق الیقین ہے اور ایسا ہی ہوگا پس جو پروردگار اس قسم کے تصرفات پر قادر ہے اور اس قدر عظیم الشان اس کا اقتدار اور اختیار ہے تو اس کی پاکی بیان کرنی چاہیے جیسا کہ آگے ذکر ہے۔