Surat ul Hadeed

Surah: 57

Verse: 16

سورة الحديد

اَلَمۡ یَاۡنِ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ تَخۡشَعَ قُلُوۡبُہُمۡ لِذِکۡرِ اللّٰہِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الۡحَقِّ ۙ وَ لَا یَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلُ فَطَالَ عَلَیۡہِمُ الۡاَمَدُ فَقَسَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ ؕ وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ ﴿۱۶﴾

Has the time not come for those who have believed that their hearts should become humbly submissive at the remembrance of Allah and what has come down of the truth? And let them not be like those who were given the Scripture before, and a long period passed over them, so their hearts hardened; and many of them are defiantly disobedient.

کیا اب تک ایمان والوں کے لئے وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر الٰہی سے اور جو حق اتر چکا ہے اس سے نرم ہوجائیں اور ان کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر جب ان پر ایک زمانہ دراز گزر گیا تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں بہت سے فاسق ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Encouraging Khushu` and the Prohibition of imitating the People of the Scriptures Allah asks, أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ امَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ ... Has not the time yet come for the believers that their hearts should be humble for the remembrance of Allah? And that which has been revealed of the truth, Allah asks, `Has not the time come for the believers to feel humility in their hearts by the remembrance of Allah and hearing subtle advice and the recitation of the Qur'an, so that they may comprehend the Qur'an, abide by it, and hear and obey. Muslim recorded that Abdullah bin Mas`ud said, "Only four years separated our acceptance of Islam and the revelation of this Ayah, in which Allah subtly admonished us, أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ امَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ Has not the time yet come for the believers that their hearts should be humble for the remembrance of Allah" This is the narration Muslim collected, just before the end of his book. An-Nasa'i also collected this Hadith in the Tafsir of this Ayah. Allah's statement, ... وَلاَ يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الاَْمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ ... Lest they become as those who received the Scripture before, and the term was prolonged for them and so their hearts were hardened, Allah is prohibiting the believers from imitating those who were given the Scriptures before them, the Jews and Christians. As time passed, they changed the Book of Allah that they had, and sold it for a small, miserable price. They also abandoned Allah's Book behind their back and were impressed and consumed by various opinions and false creeds. They imitated the way others behaved with the religion of Allah, making their rabbis and priests into gods beside Allah. Consequently, their hearts became hard and they would not accept advice; their hearts did not feel humbled by Allah's promises or threats, ... وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ And many of them were rebellious. meaning, in action; therefore, their hearts are corrupt and their actions are invalid, just as Allah the Exalted said, فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَـقَهُمْ لَعنَّـهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَضِعِهِ وَنَسُواْ حَظَّا مِّمَّا ذُكِرُواْ بِهِ So, because of their breach of their covenant, We cursed them and made their hearts grow hard. They changed the words from their (right) places and have abandoned a good part of the Message that was sent to them. (5:13) meaning, their hearts became corrupt and they hardened, and they acquired the behavior of changing Allah's Speech from their appropriate places and meanings. They abandoned acts of worship that they were commanded to perform and committed what they were prohibited to do. This is why Allah forbade the believers from imitating them in any way, be it basic or detailed matters. Allah the Exalted said, اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِي الاَْرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الاْيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ

ایمان والوں سے سوال پروردگار عالم فرماتا ہے کیا مومنوں کے لئے اب تک وہ وقت نہیں آیا کہ ذکر اللہ وعظ نصیحت آیات قرآنی اور احادیث نبوی سن کر ان کے دل موم ہو جائیں؟ سنیں اور مانیں احکام بجا لائیں ممنوعات سے پرہیز کریں ۔ اب عباس فرماتے ہیں قرآن نازل ہوتے ہی تیرہ سال کا عرصہ نہ گذرا تھا کہ مسلمانوں کے دلوں کو اس طرف نہ جھکنے کی دیر کی شکایت کی گئی ، ابن مسعود فرماتے ہیں چار ہی سال گذرے تھے جو ہمیں یہ عتاب ہوا ( مسلم ) اصحاب رسول پر ملال ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے ہیں حضرت کچھ بات تو بیان فرمائے پس یہ آیت اترتی ہے ۔ ( نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ ڰ وَاِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الْغٰفِلِيْنَ Ǽ۝ ) 12- یوسف:3 ) ایک مرتبہ کچھ دنوں بعد یہی عرض کرتے ہیں تو آیت اترتی ہے ۔ ( اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ ڰ تَــقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ۚ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِاللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ يَهْدِيْ بِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ 23؀ ) 39- الزمر:23 ) پھر ایک عرصہ بعد یہی کہتے ہیں تو یہ آیت ( الم یان ) اترتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے پہلے خیر جو میری امت سے اٹھ جائے گی وہ خشوع ہو گا ۔ پھر فرمایا تم یہود و نصاریٰ کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے کتاب اللہ کو بدل دیا تھوڑے تھوڑے مول پر اسے فروخت کر دیا ۔ پس کتاب اللہ کو پس پشت ڈال کر رائے و قیاس کے پیچھے پڑھ گئے اور از خود ایجاد کردہ اقوال کو ماننے لگ گئے اور اللہ کے دین میں دوسروں کی تقلید کرنے لگے ، اپنے علماء اور درویشوں کی بےسند باتیں دین میں داخل کر لیں ، ان بداعمالیوں کی سزا میں اللہ نے ان کے دل سخت کر دیئے کتنی ہی اللہ کی باتیں کیوں نہ سناؤ ان کے دل نرم نہیں ہوتے کوئی وعظ و نصیحت ان پر اثر نہیں کرتا کوئی وعدہ وعید ان کے دل اللہ کی طرف موڑ نہیں سکتا ، بلکہ ان میں کے اکثر و بیشتر فاسق اور کھلے بدکار بن گئے ، دل کے کھوٹے اور اعمال کے بھی کچے ، جیسے اور آیت میں ہے ۔ ( فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَهُمْ قٰسِـيَةً 13؀ ) 5- المآئدہ:13 ) ان کی بدعہدی کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت نازل کی اور ان کے دل سخت کر دیئے یہ کلمات کو اپنی جگہ سے تحریف کر دیتے ہیں اور ہماری نصیحت کو بھلا دیتے ہیں ، یعنی ان کے دل فاسد ہو گئے اللہ کی باتیں بدلنے لگ گئے نیکیاں چھوڑ دیں برائیوں میں منہمک ہوگئے ۔ اسی لئے رب العالمین اس امت کو متنبہ کر رہا ہے ۔ ہے کہ جان رکھو مردہ زمین کو اللہ زندہ کر دیتا ہے اس میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ سخت دلوں کے بعد بھی اللہ انہیں نرم کرنے پر قادر ہے ۔ گمراہیوں کی تہہ میں اتر جانے کے بعد بھی اللہ راہ راست پر لاتا ہے جس طرح بارش خشک زمین کو تر کر دیتی ہے اسی طرح کتاب اللہ مردہ دلوں کو زندہ کر دیتی ہے ۔ دلوں میں جبکہ گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا ہو کتاب اللہ کی روشنی اسے دفعتاً منور کر دیتی ہے ، اللہ کی وحی کے قفل کی کنجی ہے ۔ سچا ہادی وہی ہے ، گمراہی کے بعد راہ پر لانے والا ، جو چاہے کرنے والا ، حکمت و عدل والا ، لطیف و خیر والا ، کبر و جلال والا ، بلندی و علو والا وہی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔1خطاب اہل ایمان کو ہے اور مطلب ان کو اللہ کی یاد کی طرف مذید متوجہ اور قرآن کریم سے کسب ہدایت کی تلقین کرنا ہے خشوع کے معنی ہیں دلوں کا نرم ہو کر اللہ کی طرف جھک جانا حق سے مراد قرآن کریم ہے۔ 162جیسے یہود و نصاریٰ ہیں، یعنی تم ان کی طرح نہ ہوجانا۔ 16۔3چناچہ انہوں نے اللہ کی کتاب میں تحریف اور تبدیلی کردی اس کے عوض دنیا کا ثمن قلیل حاصل کرنے کو انہوں نے شعار بنا لیا، اس کے احکام کو پس پشت ڈال دیا اللہ کے دین میں لوگوں کی تقلید اختیار کرلی۔ 16۔4یعنی ان کے دل فاسد اور اعمال باطل ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٨] پہلے بتایا جاچکا ہے کہ اس سورة کا زمانہ نزول غالباً جنگ احزاب سے بعد اور صلح حدیبیہ سے پہلے کا ہے۔ اس وقت تک اسلام کے غلبہ کے کئی آثار لوگوں کے سامنے آچکے تھے۔ جنگ بدر میں کافر شکست فاش سے دو چار ہوچکے تھے۔ جنگ احد میں بھی بالآخر میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا تھا اور جنگ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے غیبی اسباب سے مسلمانوں کی مدد فرماکر کافروں کو فرار کی راہ اختیار کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ ان واقعات سے عام لوگ اور غیر جانبدار قبائل یہ تاثر لے رہے تھے کہ اسلام اور کفر دونوں برابر کی چوٹ ہیں اور سب اس بات کے منتظر تھے کہ دیکھیے اب اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ ایسے حالات میں منافقوں کو اس آیت سے یہ تنبیہ کی جارہی ہے کہ اسلام کی نصرت و تائید میں اتنی واضح نشانیاں دیکھنے کے بعد تمہیں یہ یقین نہیں آرہا کہ جو وحی اور دعوت اللہ کی طرف سے نازل ہورہی ہے وہ برحق اور درست ہے۔ نیز یہ کہ کافروں کا اور ان کے ساتھ ہی منافقوں کا جو انجام عنقریب سامنے آنے والا ہے کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اس سے مسلمانوں کے دل دہل جائیں اور اللہ کے ذکر اور اس کے ڈر سے ان کے دل نرم پڑجائیں۔ [٢٩] قرآن کی وہ آیت جس نے فضیل بن عیاض کی زندگی کا رخ بدل دیا :۔ ہوتا یہ ہے کہ جب تک نبی اپنی امت میں موجود رہتا ہے۔ ایمانداروں کے دل نبی کی صحبت اور اللہ کے ذکر اور اس سے تقویٰ کی وجہ سے نرم پڑجاتے ہیں اور ان لوگوں کے دل اور طبیعتیں نیکی میں سبقت کی طرف مائل رہتی ہیں لیکن جب نبی اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے تو آہستہ آہستہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی طبیعتیں اللہ کی یاد سے غافل رہنے لگتی ہیں۔ ان میں تقویٰ کی بجائے فسق اور اللہ کی نافرمانی اور اس سے بغاوت کے جراثیم جنم لینے لگتے ہیں۔ یہود اور نصاریٰ دونوں پر یہ کیفیت گزر چکی تھی۔ اس آیت میں بالعموم مسلمانوں کو اور بالخصوص منافقوں کو یہ تنبیہ کی جارہی ہے کہ اللہ کی یاد سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہوجاتے ہیں اور ان میں فسق و فجور داخل ہونے لگتے ہیں لہذا تم پر لازم ہے کہ اللہ کو ہر دم یاد رکھو اسی سے تم میں تقویٰ پیدا ہوگا اور تمہارے دل نرم رہ سکتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ دور تابعین میں فضیل بن عیاض ایک ڈاکو تھے۔ ایک دفعہ وہ اپنے اسی شغل یعنی ڈاکہ زنی اور لوٹ مار میں مشغول تھے کہ کسی نے بلند آواز سے یہی آیت ( اَلَمْ يَاْنِ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ 16؀) 57 ۔ الحدید :16) پڑھ دی۔ اس آیت اور اس کے شیریں انداز بیان کا ان پر ایسا اثر ہوا کہ لرز گئے اسی وقت توبہ کی اور اپنا ڈاکہ زنی کا پیشہ ترک کرکے اللہ کے ذکر میں مشغول ہوگئے۔ پھر تقویٰ اختیار کرکے وہ مقام حاصل کیا کہ اس دور کے صالحین میں ان کا نام سرفہرست آتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ الم یان للذین آمنوا۔۔۔۔۔” لم یان “” انی یانی ان یا و انی “ (ض ( ناقص یائی سے جحد معلوم ہے ، کسی چیز کا وقت کا آجانا ، جیسا کہ فرمایا :( غیر نظرین انہ) (الاحزاب : ٥٣)” اس ( کھانے) کے ( پکنے کے) وقت کا انتظار نہ کرنے والے “۔ پچھلی آیت میں قیامت کے دن مومن مردوں اور عورتوں اور منافق مردوں اور عورتوں کا حال ذکر فرمایا ، جسے سن کر لرز اٹھتے ہیں اور خوف زدہ ہو کر عاجزی سے اپنے رب کے سامنے جھک جاتے ہیں ۔ اس کے باوجود ان سے کما حقہ اثر قبول نہ کرنے پر ایمان والوں کو متنبہ فرمایا کہ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی نصیحت کی وجہ سے اور اس کی طرف سے نازل ہونے والے حق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجز ہو کر جھک جائیں ؟ ایمان والوں سے مراد وہ تمام ایمان والے ہیں جنہیں اس سے پہلے ایمان لانے ، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور لڑنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس میں سستی اور کوتاہی پر عتاب کیا گیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات میں اتنا عتاب سن کر اور قیامت کے دن منافقین کا انجام بد سن کر بھی کیا ایمان والوں کے لیے اللہ کے سامنے جھکنے اور اس کے احکام پر تن دہی سے عمل کرنے کا وقت نہیں آیا ؟ جب کہ ایمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ اللہ کی آیات سن کر دل نرم ہوجائے اور اللہ کو یاد کرتے ہوئے فوراً نصیحت کا اثر قبول کرے ، کیونکہ ایمان والوں کی یہی شان ہوتی ہے ، جیسا کہ فرمایا :(اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللہ ُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰـتُہٗ زَادَتْہُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ ) ( الانفال : ٢)”( اصل) مومن تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات پڑھی جائیں تو انہیں ایمان میں بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔ “ اور فرمایا :(اَﷲُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتَابًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَق تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْج ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُہُمْ وَقُلُوْبُہُمْ اِلٰی ذِکْرِ اللہ ِ ط ) ( الزمر : ٢٣)” اللہ نے سب سے اچھی بات نازل فرمائی ، ایسی کتاب جو آپس میں ملتی جلتی ہے، ( ایسی آیات) جو بار بار دہرائی جانے والی ہیں ، اس سے ان لوگوں کی کھالوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ، پھر ان کی کھالیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر کی طرف نرم ہوجاتے ہیں “۔ ٢۔ ولا یکونوا گا لذین اوتو الکتب۔۔۔:” قست “ اصل میں ” قسوت “ ہے ، باب اس کا ” قسا یقسو قسوۃ و قساوۃ “ آتا ہے ، سخت ہوجانا ۔ یعنی کیا ایمان والوں کے لیے وقت نہیں آیا کہ ۔۔۔۔۔ اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں اس سے پہلے کتاب یعنی تورات اور اس کے بعد انجیل دی گئی کہ شروع میں ان کا یہ حال تھا کہ اللہ کی آیات سن کر ان کے دل نرم ہوجاتے اور وہ ڈر جاتے تھے اور اپنی خواہشات کے پیچھے چلنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتے تھے ، پھر جیسے جیسے انبیاء کے زمانے سے دوری ہوتی گئی وہ خواہشات اور دنیا کی لذتوں کے پیچھے پڑتے گئے اور اللہ کے احکام جاننے کے باوجود ان پر عمل چھوڑ بیٹھے ، جس سے ان کے دل سخت ہوگئے اور انہوں نے دانستہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرلیا ۔ شرک ، زنا ، قتل ناحق ، چوری ، سود خوری اور دوسرے گناہ عام ہوگئے۔ اللہ کی آیات سن کر دل نرم ہونے اور ان کے سامنے جھک جانے کے بجائے انہوں نے ان میں تحریف شروع کردی ، جس کے نتیجے میں وہ راہ راست سے بہت دور چلے گئے اور باہمی ضد اور عناد میں بہت سے فوقوں میں بٹ گئے۔ ٣۔ وکثیر منھم فسقون : یعنی اب بھی ان کا یہی حال ہے کہ ان میں سے بہت زیادہ لوگ فاسق ہیں۔” فقست قلوبھم “ میں ان کی قلبی حالت کا بیان ہے اور ” فسقون “ میں ان کا عملی حالت کا بیان ہے ۔ دوسری جگہ اس قسوت ِ قلب کا سبب اور اس کا نتیجہ کچھ تفصیل سے بیان فرمایا ہے، وہاں ان کے دوسرے عہد توڑنے کے ساتھ قرض ِ حسن دینے کا عہد توڑنے کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ مائدہ کی آیت (١٢، ١٣) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ‌ اللَّـهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ (Has the time not yet come for those who believe that their hearts should be humble for the remembrance of Allah and for the truth that has descended [ through revelation ]?...57:16) The phrase khushu&-ul-qalb means &for the heart to soften; to be receptive to advice; to be obedient; to submit&. [ Ibn Kathir ] In the Qur&anic context, it implies &a complete willingness to yield to the Divine injunctions, or the Divine imperatives and prohibitions without allowing any laxity in following them. [ Ruh-ul-Ma’ ani ] This verse admonishes the believers. Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Abbas (رض) reports that some of the believers were found to be lacking in firmness, and somewhat laziness was felt in their practices. So this verse was revealed. Imam A&mash (رح) said: After settling down in Madinah, the blessed Companions (رض) experienced socio-economic comfort and prosperity; as a result some of them relaxed in exerting their efforts to do good works as they used to do previously. Thus this verse was revealed. [ Ruh-ul-Ma’ ani ] Sayyidna ` Abdullah Ibn &Abbas (رض) is narration also carries the additional information that this admonitory verse was revealed thirteen years after the revelation had started. [ Recorded by Ibn Abi Hatim (رح) ] Sayyidna ` Abdullah Ibn Masud (رض) narrates that this admonitory verse was revealed four years after they had embraced Islam to administer this mild reproof. Allah knows best! In any case, the Muslims are cautioned in this verse that they should prepare themselves to turn to Allah totally and completely, and act upon the teachings of their religion. All actions revolve around khushu`-ul-qalb Sayyidna Shaddad Ibn Aws (رض) narrates that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: |"The first thing that will be taken away from the people will be their humility or humbleness [ khushu&].|" [ Ibn Kathir ]

(آیت) اَلَمْ يَاْنِ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ ، یعنی کیا اب بھی وقت نہیں آیا ایمان والوں کے لئے کہ ان کے قلوب اللہ کے ذکر کے لئے جھک جائیں اور نرم ہوجائیں اور اس قرآن کے لئے جو ان پر نازل کیا گیا۔ خشوع قلب سے مراد دل کا نرم ہونا اور وعظ و نصیحت کو قبول کرنا اور اس کی اطاعت کرنا ہے (ابن کثیر) قرآن کے لئے خشوع یہ ہے کہ اس کے احکام اور امر ونواہی کی مکمل اطاعت کے لئے تیار ہوجائے اور اس پر عمل کرنے میں کسی سستی اور کمزوری کو راہ نہ دے (روح المعانی) یہ عتاب و تنبیہ مومنین کو ہے، حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض مومنین کے قلوب میں عمل کے اعتبار سے کچھ سستی معلوم کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر) امام اعمش نے فرمایا کہ مدینہ طیبہ پہنچنے کے بعد صحابہ کرام کو کچھ معاشی سہولتیں اور آرام ملا تو بعض حضرات میں عمل کی جدوجہد جو ان کی عادت تھی اس میں کچھ کمی اور سستی پائی گئی اس پر یہ آیت نازل ہوئی (روح المعانی) حضرت ابن عباس کی مذکورہ روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ آیت عتاب نزول قرآن سے تیرہ سال بعد نازل ہوئی (رواہ عنہ ابن ابی حاتم) اور صحیح مسلم میں حضرت ابن مسعود کی روایت ہے کہ ہمارے اسلام لانے کے چار سال بعد اس آیت کے ذریعہ ہم پر عتاب و تنبیہ نازل کی گئی۔ واللہ اعلم بہرحال حاصل اس عتاب و تنبیہ کا مومنین کو مکمل خشوع اور عمل صالح کے لئے مستعد رہنے کی تعلیم ہے اور خشوع قلب ہی پر تمام اعمال کا مدار ہے۔ حضرت شداد بن اوس کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سب سے پہلے جو چیز لوگوں سے اٹھا لی جائے گی وہ خشوع ہے (ابن کثیر)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ يَاْنِ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُہُمْ لِذِكْرِ اللہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ۝ ٠ ۙ وَلَا يَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْہِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُہُمْ۝ ٠ ۭ وَكَثِيْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ۝ ١٦ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) آنا ( ساعت) وآناء اللیل : ساعاته، الواحد : إِنْيٌ وإنىً وأَناً «1» ، قال عزّ وجلّ : يَتْلُونَ آياتِ اللَّهِ آناءَ اللَّيْلِ [ آل عمران/ 113] وقال تعالی: وَمِنْ آناءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ [ طه/ 130] ، وقوله تعالی: غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : وقته، والإنا إذا کسر أوّله قصر، وإذا فتح مدّ ، نحو قول الحطيئةوآنیت العشاء إلى سهيل ... أو الشّعری فطال بي الأناء أَنَى وآن الشیء : قرب إناه، وحَمِيمٍ آنٍ [ الرحمن/ 44] بلغ إناه من شدة الحر، ومنه قوله تعالی: مِنْ عَيْنٍ آنِيَةٍ [ الغاشية/ 5] وقوله تعالی: أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا[ الحدید/ 16] أي : ألم يقرب إناه . ويقال : آنَيْتُ الشیء أُنِيّاً ، أي : أخّرته عن أوانه، وتَأَنَّيْتُ : تأخّرت، والأَنَاة : التؤدة . وتَأَنَّى فلان تَأَنِّياً ، وأَنَى يَأْنِي فهو آنٍ ، أي : وقور . واستأنيته : انتظرت أوانه، ويجوز في معنی استبطأته، واستأنيت الطعام کذلک، والإِنَاء : ما يوضع فيه الشیء، وجمعه آنِيَة، نحو : کساء وأكسية، والأَوَانِي جمع الجمع . ( ا ن ی ) انی ( ض) الشئ اس کا وقت قریب آگیا ۔ وہ اپنی انہتا اور پختگی کے وقت کو پہنچ گئی ۔ قرآن میں ہے :۔ { أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا } ( سورة الحدید 16) کیا ابھی تک مومنوں کے لئے وقت نہیں آیا (57 ۔ 16) { غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ } ( سورة الأحزاب 53) تم کھانے وقت کا انتظار کر رہے ہو ( انی الحمیم ۔ پانی حرارت میں انتہا کو پہنچ گیا ) قرآن میں ہے { حَمِيمٍ آنٍ } ( سورة الرحمن 44) مین عین انیۃ انی ( بتثلیث الہمزہ ) وقت کا کچھ حصہ اس کی جمع اناء ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { يَتْلُونَ آيَاتِ اللهِ آنَاءَ اللَّيْلِ } ( سورة آل عمران 113) جور ات کے وقت خدا کی ائتیں پڑھتے ہیں { وَمِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ } ( سورة طه 130) اور رات کے اوقات میں ( بھی ) اس کی تسبیح کیا کرو۔ انی ۔ ہمزہ مکسور رہونے کی صورت میں اسم مقصور ہوگا اور ہمزہ مفتوح ہونے کی صورت میں اسم ممدود حطیہ نے کہا ہے ( الوافر ) (31) آنیت العشاء الی سھیل اوشعریٰ فطال بی الاناء میں نے سہیل یا شعری ستارہ کے طلوع ہونے تک کھانے کو مؤخر کردیا اور میرا انتظار طویل ہوگیا ۔ آنیت الشئی ایناء ۔ کسی کام کوا کے مقررہ وقت سے موخر کرنا ۔ تانیث ۔ میں نے دیر کی لاناۃ ۔ علم ۔ وقار ۔ طمانیست تانٰی فلان تانیا ۔ وانی یاتیٰ ان یا ( س) تحمل اور حلم سے کام لینا ۔ استانیت الشئ میں نے اس کے وقت کا انتظار کیا نیز اس کے معنی دیر کرنا بھی آتے ہیں جیسے استانیت الطعام ۔ میں نے کھانے کو اس کے وقت سے موخر کردیا ۔ الاناء ۔ برتن ۔ آنیۃ ۔ جیسے کساء واکسیۃ اس کی جمع الجمع الاثانی ہے ۔ خشع الخُشُوع : الضّراعة، وأكثر ما يستعمل الخشوع فيما يوجد علی الجوارح . والضّراعة أكثر ما تستعمل فيما يوجد في القلب ولذلک قيل فيما روي : روي : «إذا ضرع القلب خَشِعَتِ الجوارح» «2» . قال تعالی: وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء/ 109] ، وقال : الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون/ 2] ، وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء/ 90] ، وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه/ 108] ، خاشِعَةً أَبْصارُهُمْ [ القلم/ 43] ، أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات/ 9] ، كناية عنها وتنبيها علی تزعزعها کقوله : إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة/ 4] ، وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة/ 1] ، يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور/ 9- 10] . ( خ ش ع ) الخشوع ۔ ( ان ) کے معنی ضواعۃ یعنی عاجزی کرنے اور جھک جانے کے ہیں ۔ مگر زیادہ تر خشوع کا لفظ جوارح اور ضراعت کا لفظ قلب کی عاجزی پر بولا جاتا ہے ۔ اسی لئے ایک روایت میں ہے :۔ (112) اذا ضرعت القلب خشعت الجوارح جب دل میں فروتنی ہو تو اسی کا اثر جوارح پر ظاہر ہوجاتا ہے قرآن میں ہے : وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء/ 109] اور اس سے ان کو اور زیادہ عاجزی پید اہوتی ہے ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون/ 2] جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں ۔ وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء/ 90] اور ہمارے آگے عاجزی کیا کرتے تھے ۔ وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه/ 108] آوازیں پست ہوجائیں گے ۔ ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی ۔ أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات/ 9] یہ ان کی نظروں کے مضطرب ہونے سے کنایہ ہے ۔ جیسا کہ زمین وآسمان کے متعلق بطور کنایہ کے فرمایا ۔ إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة/ 4] جب زمین بھونچال سے لرزنے لگے ۔ وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة/ 1] جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی ۔ يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور/ 9- 10] جس دن آسمان لرزنے لگے کپکپا کر۔ اور پہاڑ اڑانے لگیں ( اون ہوکر ) قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ ذكر الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل : الذّكر ذکران : ذكر بالقلب . وذکر باللّسان . وكلّ واحد منهما ضربان : ذكر عن نسیان . وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء/ 50] ، وقوله : هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء/ 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص/ 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف/ 44] ، أي : شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل/ 43] ، أي : الکتب المتقدّمة . وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق/ 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه . وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد/ 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) . ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف/ 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة/ 200] ، وقوله : فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة/ 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر/ 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته، ( ذک ر ) الذکر ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء/ 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء/ 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص/ 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف/ 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل/ 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق/ 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد/ 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف/ 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة/ 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة/ 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر/ 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو طول الطُّولُ والقِصَرُ من الأسماء المتضایفة كما تقدّم، ويستعمل في الأعيان والأعراض کالزّمان وغیره قال تعالی: فَطالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ [ الحدید/ 16] ، سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] ، ويقال : طَوِيلٌ وطُوَالٌ ، و عریض وعُرَاضٌ ، وللجمع : طِوَالٌ ، وقیل : طِيَالٌ ، وباعتبار الطُّولِ قيل للحبل المرخيِّ علی الدّابة : طِوَلٌ «3» ، وطَوِّلْ فرسَكَ ، أي : أَرْخِ طِوَلَهُ ، وقیل : طِوَالُ الدّهرِ لمدّته الطَّوِيلَةِ ، وَتَطَاوَلَ فلانٌ: إذا أظهر الطُّولَ ، أو الطَّوْلَ. قال تعالی: فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] ، وَالطَّوْلُ خُصَّ به الفضلُ والمنُّ ، قال : شَدِيدِ الْعِقابِ ذِي الطَّوْلِ [ غافر/ 3] ، وقوله تعالی: اسْتَأْذَنَكَ أُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ [ التوبة/ 86] ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا[ النساء/ 25] ، كناية عمّا يصرف إلى المهر والنّفقة . وطَالُوتُ اسمٌ عَلَمٌ وهو أعجميٌّ. ( ط و ل ) الطول یہ اسمائے اضافیہ سے ہے ۔ اور اس کے معنی دراز اور لمبا ہونا کے ہیں یہ القصر کے مقابلہ میں آتا ہے اور اعیان واعرراض مثلا زمانہ وغیرہ سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَطالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ [ الحدید/ 16] پھر ان پر لمبا عرصہ گزر گیا ۔ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] بہت لمبے شغل ( ہوتے ہیں ) طول طول جیسے عریض و عریض دراز لمبا اس کی جمع طوال آتی ہے اور بعض نے طیال بھی کہا ہے اور لمبا ہونے کی مناسبت سے جانور کی پچھاڑی کی رسی کو طول کہا جاتا ہے طول کہا جاتا ہے طول فرسک اپنے گھوڑے کی پچھاڑی باندھ دے ۔ طوال الدھر عرصہ دارز ۔ تطاول فلان درازی یا وسعت کو ظاہر کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] پھر ان پر لمبا عرسہ گزر گیا ۔ اور طول کا لفظ خاص کر فضل و احسان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ شَدِيدِ الْعِقابِ ذِي الطَّوْلِ [ غافر/ 3] سخت عذاب دینے والا اور صاحب کرم ہے ۔ اور آیت کریمہ : اسْتَأْذَنَكَ أُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ [ التوبة/ 86] تو جو ان میں دولتمند ہیں وہ تم سے اجازت طلب کرتے ہیں میں اولوالطول سے خوش حال طبقہ مراد ہے اور آیت کریمہ : وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا[ النساء/ 25] اور جو شخص تم میں سے مقدر نہ رکھے ۔ میں طولا کنایہ ہے اس مال سے ( جو عورت کو ) مہر میں یا نان ونفقہ کے طور پر دینا پڑتا ہے ۔ طالوت یہ اسم عجمی ہے اور بنی اسرائیل کے ایک با اقبال بادشاہ کا نام تھا ۔ امد قال تعالی: تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَها وَبَيْنَهُ أَمَداً بَعِيداً [ آل عمران/ 30] . والأَمَد والأبد يتقاربان، لکن الأبد عبارة عن مدّة الزمان التي ليس لها حدّ محدود، ولا يتقید، لا يقال : أبد کذا . والأَمَدُ : مدّة لها حدّ مجهول إذا أطلق، وقد ينحصر نحو أن يقال : أمد کذا، كما يقال : زمان کذا، والفرق بين الزمان والأمد أنّ الأمد يقال باعتبار الغاية، والزمان عامّ في المبدأ والغاية، ولذلک قال بعضهم : المدی والأمد يتقاربان . ( ا م د ) الامد ۔ ( موت ۔ غایت ) قرآن میں ہے :۔ { تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ أَمَدًا بَعِيدًا } ( سورة آل عمران 30) تو آرزو کریگا کہ کاش اس میں اور اس پرائی میں انتہائی بعد ہوتا ۔ الامد والابد دونوں قریب المعنی ہیں لیکن ابد غیر متعین اور غیر محدود زمانہ کے معنی دیتا ہے لہذا ابد کذا ( اتنی مدت ) کا محاورہ صحیح نہیں ہے اور امد غیر معین مگر محدود زمانہ کے معنی دیتا ہے لہذا امد کذا ( اتنی مدت ) کہنا صحیح ہے جس طرح کہ زمان کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ زمان اور امد کے لفظ میں صرف اتنا فرق ہے کہ امد کا لفظ کسی مدت کی نہایت اور غایت کے لئے بولا جاتا ہے اور زمان کا لفظ کسی مدت کے مندا اور غایت کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی بناء پر بعض نے کہا ہے المدی والامد دونوں قریبامعنی ہیں ( یعنی کسی چیز کی موت کی غایت بیان کرنے کے لئے آتے ہیں ) قسو القَسْوَةُ : غلظ القلب، وأصله من : حجر قَاسٍ ، والْمُقَاسَاةُ : معالجة ذلك . قال تعالی: ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ [ البقرة/ 74] ، فَوَيْلٌ لِلْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر/ 22] ، وقال : وَالْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ [ الحج/ 53] ، وَجَعَلْنا قُلُوبَهُمْ قاسِيَةً [ المائدة/ 13] ، وقرئ : قَسِيَّةً «3» أي : ليست قلوبهم بخالصة، من قولهم : درهم قَسِيٌّ ، وهو جنس من الفضّة المغشوشة، فيه قَسَاوَةٌ ، أي : صلابة، قال الشاعر : صاح القَسِيَّاتُ في أيدي الصيّاریف ( ق س د ) القسوۃ کے معنی سنگ دل ہونے کے ہیں یہ اصل میں حجر قاس سے ہے جس کے معنی سخت پتھر کے ہیں ۔ المقاساۃ سختی جھیلنا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ [ البقرة/ 74] پھر ۔۔۔ تمہارے دل سخت ہوگئے ۔ فَوَيْلٌ لِلْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر/ 22] پس ان پر افسوس ہے جن کے دل خدا کی یاد سے سخت ہورہے ہیں ۔ وَالْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ [ الحج/ 53] اور جن کے دل سخت ہیں ۔ وَجَعَلْنا قُلُوبَهُمْ قاسِيَةً [ المائدة/ 13] اور ان کے دلوں کو سخت کردیا ۔ ایک قرات میں قسیۃ ہے یعنی ان کے دل خالص نہیں ہیں یہ درھم قسی سے مشتق ہے جس کے معنی کھوٹے درہم کے ہیں جس میں ( سکہ ) کی ملاوٹ کی وجہ سے صلابت پائی جائے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 354) صاح القسیات فی ایدی الصیاریف کھوٹے درہم صرافوں کے ہاتھ میں آواز دیتے ہیں ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔ فسق فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به، ( ف س ق ) فسق فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اب اللہ تعالیٰ دنیا میں جو ان کی قلبی حالت تھی اس کا ذکر فرماتا ہے کہ کیا ظاہرا ایمان والوں کے لیے اس بات کا وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے وعدے اور وعید یا یہ یہ کہ توحید خداوندی کے سامنے اور جو اوامرو نواہی حلال و حرام قرآن کریم میں نازل ہوئے ہیں، اس کے سامنے جھک جائیں اور نرم ہوجائیں اور خلوص ان میں پیدا ہوجائے اور توریت والوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو رسول اکرم کی بعثت سے نزول قرآن سے پہلے علم توریت دیا گیا تھا اور پھر ان پر ایک زمانہ گزر گیا جس کی وجہ سے ایمان نہ لانے سے ان کے دل بہت ہی سخت اور گمراہ ہوگئے اسی بنا پر ان توریت والوں میں سے جو کہ دین موسوی کی مخالفت کرنے والے ہیں اکثر علم خداوندی میں کافر ہیں۔ شان نزول : اَلَمْ يَاْنِ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا (الخ) ابن ابی شیبہ نے عبدالعزیز بن ابی روداد سے روایت کیا ہے کہ اصحاب رسول اکرم میں ہنسی و مذاق ظاہر ہو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اور ابن ابی حاتم نے مقاتل بن حیان سے روایت کیا ہے کہ اصحاب نبی اکرم نے کچھ مذاق کیا اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی کہ کیا ایمان والوں کے لیے اس بات کا وقت نہیں آیا۔ نیز سدی عن قاسم نے روایت کیا ہے کہ صحابہ کرام ایک مرتبہ پریشان ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ہم سے کچھ بیان کیجیے اس پر یہ آیت نازل نحن نقص علیک احسن القصس۔ پھر دوسری مرتبہ پیرشان ہوئے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اور ابن مبارک نے کتاب الزہد میں بواسطہ سفیان اعمش سے روایت کیا ہے کہ صحابہ کرام جب مدینہ منورہ آئے تو ان پر سختیوں اور پریشانیوں کے بعد خوش حالی کا زمانہ آیا تو گویا ایسا محسوس ہوا کہ ان کی پچھلی حالت میں کچھ فرق سا آنے لگا اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اب اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ ہر اس شخص سے سوال کر رہے ہیں جس نے اب تک کی یہ سب باتیں پڑھ کر یا سن کر اپنے دل میں اتار لی ہیں۔ سوال و خطاب کا یہ بہت جذباتی انداز ہے : آیت ١٦{ اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ } ” کیا ابھی وقت نہیں آیا ہے اہل ایمان کے لیے کہ ان کے دل جھک جائیں اللہ کی یاد کے لیے اور اس (قرآن) کے آگے کہ جو حق میں سے نازل ہوچکا ہے ؟ “ یہاں قرآن کے بارے میں فرمایا گیا : { وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ } یہی بات سورة بنی اسرائیل میں زیادہ ُ پرزور انداز میں فرمائی گئی ہے : { وَبِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰـہُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ } (آیت ١٠٥) ” اور ہم نے اس کو نازل کیا ہے حق کے ساتھ اور یہ نازل ہوا ہے حق کے ساتھ۔ “ دین یا نیکی کے معاملے میں فیصلہ کرتے ہوئے انسان ہمیشہ تاخیر و تعویق سے کام لیتا ہے کہ یہ کرلوں ‘ وہ کرلوں ‘ بس اس کے بعد اپناطرزِ زندگی درست کرلوں گا ! ابھی ذرا بچیوں کے ہاتھ پیلے کرلوں ! بس ذرا یہ بچوں کی تعلیم مکمل ہو لے وغیرہ وغیرہ۔ اور دیکھا جائے تو بچوں کی تعلیم ہے کیا ؟ صرف دنیا بنانے اور دنیا کمانے کے علم و فن کی تحصیل ! گویا جس کوئے ملامت کے طواف میں خود ساری عمر برباد کردی انہی راستوں پر اپنی اولاد کو گامزن کرنے کے خواب دیکھے جا رہے ہیں ! پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ بچوں کے کیریئرز بنانے کے جنون میں انہیں کچی عمر میں برطانیہ اور امریکہ بھیجنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ وہاں جا کر بچے جب ” ترقی “ کی منازل طے کرتے کرتے اس ” مقام “ پر پہنچ جاتے ہیں کہ مذہب و اخلاق سے اپنے تعلق کو باعث عار سمجھنے لگتے ہیں تو پھر یہ لوگ بیٹھ کر روتے ہیں اور لادینی تہذیب و تمدن کو کو ستے ہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کے اس سوال پر لازم ہے کہ ہم سب اپنے اپنے ضمیر کی عدالت میں پیش ہو کر خود سے پوچھیں کہ کیا ہماری زندگیوں میں وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ ہم اللہ اور قرآن کے احکام کے سامنے جھک جائیں ؟ { وَلَا یَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلُ } ” اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی “ { فَطَالَ عَلَیْھِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُھُمْ } ” تو جب ان پر ایک طویل مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے ۔ “ یہاں پر { فَقَسَتْ قُلُوْبُھُمْ } کے یہ الفاظ پڑھتے ہوئے سورة البقرۃ کی آیت ٧٤ کا وہ حصہ بھی ذہن میں تازہ کرلیں جس میں بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے فرمایا گیا : { ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُـکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً } ” پھر تمہارے دل سخت ہوگئے اس سب کچھ کے بعد ‘ پس اب تو وہ پتھروں کی مانند ہیں ‘ بلکہ سختی میں ان سے بھی زیادہ شدید ہیں۔ “ { وَکَثِیْرٌ مِّنْھُمْ فٰسِقُوْنَ ۔ } ” اور ان کی اکثریت اب فاسقوں پر مشتمل ہے۔ “ آیت زیر مطالعہ کے الفاظ { وَلَا یَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَـبْلُ } میں واضح طور پر بتادیا گیا کہ بنی اسرائیل بھی تمہاری طرح اپنے زمانے کی امت ِمسلمہ تھے۔ ان کی روش کو بھی تم جانتے ہو اور ان کے انجام سے بھی تم آگاہ ہو۔ دیکھ لو ! اگر تم نے اب بھی توبہ نہ کی اور اپنی روش تبدیل نہ کی تو یہ مت بھولو کہ ان کی طرح تمہیں بھی نشان عبرت بنایا جاسکتا ہے۔ اس ڈانٹ کے بعد اب اگلی آیت میں ہمت افزائی کی جا رہی ہے کہ دیکھو ! اگر تم سمجھتے ہو کہ تمہارے دل کی ” زمین “ ایمان کی فصل کے قابل نہیں رہی ‘ تو بھی تمہیں گھبرانے یا مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

28 Here again, the word "believers" is general, but it dces not apply to alI the Muslims; it refers to those particular Muslims who had professed the faith verbally and joined the followers of the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) though their hearts were devoid of any concern for Islam. They were watching that the pagan forces were bent upon wiping out Islam; they had encircled the handful of Muslims from all sides, who were being made the target of persecution everywhere in Arabia, and thus oppressed the Muslims were fleeing to Madinah empty-handed for refuge; the sincere Muslims were extending to them whatever economic help they could; yet they were, at the same time, engaged in a life and-death struggle with the enemy. But, in spite of this, these people who professed the faith were not being moved at all. So, here, they are being put to shame. as if to say: "What kind of believers are you? At this critical juncture for Islam, is it not yet time that your hearts should melt at the mention of AIlah and be filled with the spirit of sacrifice for the sake of His Religion? Can the believers be such that they may 'have no feeling for Islam when it is confronted with hard times, that they may sit un-concerned when they are summoned in the name of Allah, that the hearts may neither tremble out of fear of Allah nor bow to His Command when He Himself should make an appeal for contributions in the Book sent down by Him, declaring it as a loan on Himself and plainly telling that the one who would regard his wealth as dearer than the cause of the true Faith would be a hypocrite and not a believer?" 29 That is, "The Jews and Christians seem to have lost fervour and degenerated spiritually and morally hundreds of years after the passing away of their Prophets; but have you already become so depraved that while the Prophet is still present among you, and the Book of God is still being revealed, and not much time has passed over you since you affirmed the Faith, and you have started behaving like the Jews and Christians who have reached this state through centuries of playing and tempering with the Book of Allah and its verses?"

سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :28 یہاں پھر ایمان لانے والوں کے الفاظ تو عام ہیں مگر ان سے مراد تمام مسلمان نہیں بلکہ مسلمانوں کا وہ خاص گروہ ہے جو ایمان کا اقرار کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں میں شامل ہو گیا تھا اور اس کے باوجود اسلام کے درد سے اس کا دل خالی تھا ۔ آنکھوں سے دیکھ رہا تھا کہ کفر کی تمام طاقتیں اسلام کو مٹا دینے پر تلی ہوئی ہیں ، چاروں طرف سے انہوں نے اہل ایمان کی مٹھی بھر جماعت پر نرغہ کر رکھا ہے ، عرب کی سر زمین میں جگہ جگہ مسلمان تختہ مشق ستم بنائے جا رہے ہیں ، ملک کے گوشے گوشے سے مظلوم مسلمان سخت بے سر و سامانی کی حالت میں پناہ لینے کے لیے مدینے کی طرف بھاگے چلے آ رہے ہیں ، مخلص مسلمانوں کی کمر ان مظلوموں کو سہارا دیتے دیتے ٹوٹی جا رہی ہے ، اور دشمنوں کے مقابلے میں بھی یہی مخلص مومن سر بکف ہیں ، مگر یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ایمان کا دعویٰ کرنے والا یہ گروہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا ۔ اس پر ان لوگوں کو شرم دلائی جا رہی ہے کہ تم کیسے ایمان لانے والے ہو؟ اسلام کے لیے حالات نزاکت کی اس حد کو پہنچ چکے ہیں ، کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ اللہ کا ذکر سن کر تمہارے دل پگھلیں اور اس کے دین کے لیے تمہارے دلوں میں ایثار و قربانی اور سر فروشی کا جذبہ پیدا ہو؟ کیا ایمان لانے والے ایسے ہی ہوتے ہیں کہ اللہ کے دین پر برا وقت آئے اور وہ اس کی ذرا سی ٹیس بھی اپنے دل میں محسوس نہ کریں ؟ اللہ کے نام پر انہیں پکارا جائے اور وہ اپنی جگہ سے ہلیں تک نہیں ؟ اللہ اپنی نازل کردہ کتاب میں خود چندے کی اپیل کرے ، اور اسے اپنے ذمہ قرض قرار دے ، اور صاف صاف یہ بھی سنا دے کہ ان حالات میں جو اپنے مال کو میرے دین سے عزیز تر رکھے گا وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہو گا ، اس پر بھی ان کے دل نہ خدا کے خوف سے کانپیں ، نہ اس کے حکم کے آگے جھکیں ؟ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :29 یعنی یہود و نصاریٰ تو اپنے انبیاء کے سینکڑوں برس بعد آج تمہیں اس بے حسی اور روح کی مردنی اور اخلاق کی پستی میں مبتلا نظر آ رہے ہیں ۔ کیا تم اتنے گئے گزرے ہو کہ ابھی رسول تمہارے سامنے موجود ہے ، خدا کی کتاب نازل ہو رہی ہے ، تمہیں ایمان لائے کچھ زیادہ زمانہ بھی نہیں گزرا ہے ، اور ابھی سے تمہارا حال وہ ہو رہا ہے جو صدیوں تک خدا کے دین اور اس کی آیات سے کھیلتے رہنے کے بعد یہود و نصاریٰ کا ہوا ہے ؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٦۔ ١٩۔ اگرچہ تفسیر سدی وغیرہ میں لکھا ہے کہ یہ آیتیں منافقوں کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ اور معنی یہ ہیں کہ جو لوگ ظاہر میں اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور ان کے دل کفر اور نفاق کے سبب سے سخت ہو رہے ہیں باوجود قرآن کے ہر روز نازل ہونے کے ابھی وہ نوبت نہیں پہنچی کہ ان لوگوں کے دل نرم ہوں اور ان لوگوں کے دل میں خوف الٰہی سمائے لیکن صحیح شان نزول وہی ہے جس کا ذکر صحیح مسلم نسانی ابن ماجہ وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کی روایت سے ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مہاجرین لوگ آپس میں کچھ ہنسی اور دل لگی کی باتیں کرنے لگے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور ہنسی دل لگی اور دنیا میں زیادہ ہنسنے سے منع فرمایا۔ صحیح حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کا خوف آدمی کے دل میں سمانے کی یہی نشانی ہے کہ آدمی کے دل سے ہنسی دل لگی اور دنیا کی محبت کا خیال جاتا رہتا ہے۔ چناچہ صحیح ٢ ؎ بخاری ‘ ترمذی ‘ مسند امام احمد ‘ ابن ماجہ کی حضرت ابوہریرہ (رض) اور حضرت ابوذر (رض) کی روایتیں اوپر گزر چکی ہیں۔ جن کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے فرمایا کہ جس قدر اللہ کا خوف میرے دل میں ہے اس کا حال اگر تم لوگوں کو معلوم ہوجائے تو تم لوگ عورتوں بچوں میں رہنا بسنا چھوڑ کر جنگل میں نکل جاؤ اور اپنا ہنسنا کم اور رونا زیادہ کر دو ۔ اس حدیث کی روایت کے بعد حضرت ابوذر (رض) کہا کرتے تھے کہ بجائے انسان ہونے کے میں درخت ہوتا اور اس درخت کی لکڑی کسی کام میں آجاتی تو اچھا ہوتا۔ ان آیتوں میں صدقہ خیرات دینے والے مسلمان مرد اور عورتوں اور صدیق اور شہیدوں کا ایک ساتھ جو ذکر ہے اس سے بعض مفسروں نے یہ بات نکالی ہے کہ صدیق اور شہدا کا ایک ہی درجہ ہے۔ لیکن صحیح مذہب یہی ہے کہ صدیق کا درجہ شہید سے بڑھ کر ہے کہ کیونکہ صحیحین ٢ ؎ کی حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روز فرمایا کہ نیچے کے درجہ کی جنت کے لوگوں کو اوپر کے درجہ کی جنت کے لوگ ایسے نظر آئیں گے جس طرح زمین پر سے تارے نظر آتے ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا کہ حضرت اتنا بلند درجہ ہم لوگوں کو کب نصیب ہوگا۔ یہ تو شاید انبیاء کا درجہ ہوگا۔ آپ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہوں گے جن کے دل میں اللہ اور اللہ کے رسول کے حکموں کی تصدیق زیادہ ہے اور مسند ٣ ؎ امام احمد میں حضرت عمر سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شہیدوں کے چار درجے ہیں۔ پہلا درجہ وہ ہے کہ کامل ایماندار شخص ہے اور اس نے درجہ شہادت کا دشمن سے مقابلہ کرکے پایا۔ دوسرا درجہ وہ ہے کہ ایمان دار شخص ہے اور اتفاقاً کوئی تیر اس کے آ کر لگ گیا اور وہ شہید ہوگیا۔ تیسرا درجہ وہ ہے کہ ایک ایماندار کسی قدر گناہ گار شخص ہے اور اس نے درجہ شہادت کا پایا۔ چوتھا درجہ وہ ہے کہ نہایت درجہ کا گناہ گار شخص درجہ شہادت کا پائے حضرت عمر (رض) کی حدیث کی سند کو علی بن مدینی نے صالح کہا ہے اور شرح جامع صغیر میں اس حدیث کو حسن اور ترمذی نے اس کو حسن غریب کہا ہے۔ اگرچہ اس کی سند میں عبد اللہ ابن لہیعہ ہے لیکن یہ روایت ابن مبارک کی ابن لہیعہ سے ہے جو حسن کے درجہ کی ہے ابن لہیعہ خود بھی صدوق ہے۔ ان دونوں روایتوں کے مضمون کو ملانے سے یہ بات نکلتی ہے کہ بعض شہیدوں اور صدیق کے درجہ میں بہت بڑا فرق ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(57:16) الم یان ہمزہ استفہامیہ لم یان مضارع نفی جحد بلم (مجزوم) واحد مذکر غائب۔ انی انی انی (باب ضرب) مصادر۔ یان اصل میں یانی تھا۔ حرف جازم لم کے آنے سے یان ہوگیا۔ کیا وقت نہیں آیا۔ انی الرحیل کوچ کا وقت آگیا۔ انی الحمیم۔ گرم پانی، اپنی آخری حد حرارت پر پہنچ گیا۔ یعنی کھولنے لگا۔ اسی لئے ان کا معنی ہے کھولتا ہوا پانی۔ ان الامر کام کا وقت آگیا ۔ ان تخشع : ان مصدریہ ہے۔ تخشع مضارع منصوب (بوجہ عمل ان) واحد مذکر غائب خشوع (باب فتح) مصدر ۔ بمعنی گڑگڑانا۔ عاجزی و فروتنی کرنا۔ عاجزی سے جھک جانا۔ کہ وہ عاجزی سے جھک جائیں۔ قلوبھم : مضاف مضاف الیہ ۔ قلوب فعل۔ تخشع کا فاعل ہے۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب الذین امنوا کی طرف راجع ہے ۔ کہ عاجزی سے جھک جائیں ان کے دل ۔ لذکر اللہ۔ ذکر اللہ سے مراد ۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر و ازکار یا قرآن مجید۔ وما نزل من الحق واؤ عاطفہ ما اسم موصول نزل من الحق صلہ ۔ الحق کے معنی ہیں مطابقت و موافقت۔ اس کا استعمال مختلف طرح ہوتا ہے اور منجملہ دیگر استعمال کے اس ذات کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جو اپنی حکمت کے اقتضاء کی بنا پر کسی شے کی ایجاد فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کو اسی لئے حق کہا جاتا ہے۔ ارشاد ہے :۔ وردو الی اللہ مولہم الحق : اور پھیرے جائیں گے اللہ کی طرف جو ان کا مالک حق ہے یہاں حق سے مراد اگر اللہ لیا جائے تو جملہ کا ترجمہ ہوگا :۔ اور وہ جو اللہ کی طرف سے نزال ہوا ہے یعنی قرآن۔ حق کا دوسرا استعمال :۔ وہ قول یا فعل جو اسی طرح پر واقع ہوا ہو جس پر کہ اس کا ہونا ضرورت ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو کر جس مقدار اور جس وقت میں اس کا ہونا ضرور اور واجب ہے۔ چناچہ قول حق اور فعل حق اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ولکن حق القول منی لاملئن جھنم : لیکن یہ بات میری طرف سے ثابت ہوگئی کہ مجھ کو دوزخ بھرنی ہے۔ اس صورت میں یہاں الحق کے معنی ہوں گے۔ سچ بات، سچ دین۔ اور ترجمہ آیت کا ہوگا :۔ اور جو اترا سچا دین۔ (شاہ وبد القادر دہلوی) ہر دو صورتوں میں ما نزل من الحق سے مراد قرآن مجید لیا جاسکتا ہے۔ اس جملہ کی علت ذکر اللہ (بمعنی قرآن مجید) پر ہے اس کو عطف احد الوصفین علی الاخر کہا جاتا ہے (بیضاوی) ۔ ھذا عطف الشی علی نفسہ مع اختلاف اللفظین (اضواء البیان) ۔ ولا یکونوا کالذین اوتوا الکتب من قبل : ولا یکونوا کا عطف تخشع پر ہے۔ لایکونوا فعل نہی جمع مذکر غائب کا صیغہ بمعنی وہ نہ ہوجائیں۔ کالذین اوتوا الکتبکاف تشبیہ کا ہے الذین اسم موصول۔ اوتوا الکتب اس کا صلہ جن کو کتاب دی گئی۔ یعنی یہودی اور عیسائی۔ من قبل : ای من قبلہم ان سے پہلے ۔ قبل پہلے۔ آگے۔ بعد کی ضد ہے۔ اضافت اس کو لازمی ہے۔ جب بغیر اضافت کے آئے گا تو ضمہ پر مبنی ہوگا۔ ولا یکونوا ۔۔ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو ان سے پہلے کتاب دی گئی۔ فطال : ف بمعنی پھر۔ طال ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب طول (باب نصر) مصدر دراز ہوگیا۔ لمبا ہوگیا۔ الامد : مدت۔ زمانہ۔ زمان اور امد کے لفظ میں صرف اتنا فرق ہے کہ امد کا استعمال بااعتبار غایت یعنی کسی چیز کی مدت ختم ہونے کے لحاظ سے ہوتا ہے اور زمان کا لفظ مبدأ اور گایت دونوں کے لحاظ سے عام ہے یعنی شروع زمانہ کے بتانے کے لئے بھی اور انتہائی زمانہ بتانے کے لئے بھی۔ فطال علیہم الامد پھر ان پر طویل زمانہ گزر گیا۔ یعنی ان کے اور ان کے پیغمبروں کے درمیان۔ فقست قلوبھم : ف تعلیل کا ہے۔ قست ماضی واحد مؤنث غائب قسوۃ (باب نصر) مصدر۔ پس ان کے دل سخت ہوگئے القسوۃ کے معنی سنگ دل ہونے کے ہیں یہ اصل میں حجر قاس سے ہے۔ جس کے معنی سخت پتھر کے ہیں۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے :۔ فطال الامد علیہم فطال الزمان بینھم وبین انبیاء ہم وبدلوا کتاب اللہ الذی بایدیہم واشتروا بہ ثمنا قلیلا ونبذوہ ورآء ظھورھم واقبلوا علی الآراء المختلفۃ والاقوال المؤتفکۃ وقدلدوا الرجال فی دین اللہ واتخذوا احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ فعتد ذلک قست قلوبھم فلا یقبلون موعظۃ ولاتلین قلوبھم بوعد ولا وعید۔ ان کے اور ان کے پیغمبروں کے درمیان مدت مدید گزر گئی۔ اور انہوں نے اللہ کی کتاب کو جو ان کے پاس تھی بدل ڈالا۔ اور اسے حقیر قیمت پر بیچ ڈالا۔ اور اس کے پندو نصائح کو پس پشت ڈال دیا۔ مختلف آراء اور اقوال کو اپنالیا۔ اللہ کے دین میں لوگوں کی پیروی شروع کردی۔ اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور راہبوں کو اپنا رب بنا لیا۔ اس پر ان کے دل پتھر جیسے سخت ہوگئے۔ کہ نہ موعظت قبول کرسکیں۔ اور نہ وعدہ وعید سے نرم ہو سکیں۔ وکثیر منھم فسقون : جملہ حالیہ ہے۔ اور حال یہ ہے کہ اکثر ان میں سے فاسق ہیں ۔ فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کرنے کے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی حالت یہ ہونی چاہیے کہ جب انکے سامنے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے اور اس کی کتاب پڑھی جائے اور ان کے دلوں میں خشوع و خضوع کی کیفیت پیدا ہو عمش کہتے ہیں کہ صحابہ کرام جب مدنیہ آئے اور انہیں فقر و فاقہ کے بعد کچھ تن آسانی کے اسباب ملے تو ان میں کچھ سستی آگئی۔ اس پر بطور عتاب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی الصا المعانی

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ الم یان۔ کیا وہ وقت نہیں آیا۔ ان تخشع۔ یہ کہ ڈریں۔ جھک جائیں۔ الامد۔ مدت تشریح : جب خشک اور بنجرزمین پر بارش برستی ہے تو اس میں تروتازگی کے آثار اور ایک نئی زندگی کروٹیں لینے لگتی ہے۔ اسی طرح جب شرک کی وجہ سے دلوں کی دنیا ویران، خشک اور تاریک ہوجاتی ہے تو اللہ کے پاکیزہ کلام اور نبوت کی روشنی سے روحانی دنیا روشن ومنور ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام اور نبوت کو بارش سے تشبیہ دے کر بتا دیا ہے کہ مردہ قوموں میں نئی زندگی اللہ کے پاکیزہ کلام اور نبوت پر مکمل یقین کرلینے اور ماننے کے بعد ہی پیدا ہوا کرتی ہے جس سے ایک نیا عزم و یقین، حوصلہ اور ولولہ بیدار ہوجاتا ہے۔ اللہ کے کلام اور نبوت کی عظمت پر جتنا بھی یقین بڑھتا جائے گا رفتار اتنی ہی تیز ہوتی چلی جائے گی لیکن اگر ایمان و یقین میں ذرا بھی کمی آئے گی تو مقصد میں کوتاہی اور عمل میں سستی اور بےحسی پیدا ہوتی چلی جائے گی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب اعلان نبوت فرمایا اور اللہ کے کلام کے ذریعہ صحابہ کرام کی تربیت فرمائی تو جاہلی معاشرہ میں رہنے بسنے والے جہالت و تاریکی سے نکل کر علم و عمل کے علم بردار بن گئے اور ساری دنیا کے اندھیرے دور کرنے میں اپنے جان و مال سے اس طرح لگ گئے کہ انہیں اپنی ذات اور بال بچوں سے زیادہ ہر وقت ایک ہی فکر تھی کہ وہ دنیا سے ظلم اور جہالت کو کس طرح مٹائیں چناچہ انہوں نے ہر طرح کے ایثار و قربانی کی بہترین مثالیں قائم کیں۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب اس طرح کی مخلصانہ تحریک کا آغاز ہوتا ہے تو وہ لوگ جو نئے نئے اس عزم و حوصلے میں شریک ہوتے ہیں تو ان میں وہ جذبہ اور اسپرٹ نہیں ہوتی جو ان سے پہلے لوگوں میں ہوتی ہے۔ ان آیات میں ایسے ہی مومنین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ کیا ایمان والوں کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی نصیحت اور وہ سچا دین جو ان کی ہدایات کے لئے نازل کیا جا رہا ہے اس کی طرف پوری طرح جھک جائیں۔ عبرت و نصیحت حاصل کرانے کے لئے فرمایا کہ تمہارے سامنے قرآن کریم کے ذریعہ گذری ہوئی قوموں کے واقعات بیان کئے جا رہے ہیں کہیں تم بھی ان گذری ہوئی قوموں کی طرح نہ ہوجانا کہ جب ان پر ایک طویل زمانہ گذر گیا تو وہ ایمان کی کیفیات سے اتنی دور چلے گئے کہ اللہ کی نعمتوں کی قدر کرنے کے بجائے ان کے دل تکبر اور غرور کی وجہ سے پتھر سے زیادہ سخت ہوگئے اور ان کی بڑی تعداد فسق و فجور اور گناہوں میں مبتلا ہوگئی۔ اگر وہ اللہ کے دین پر قائم رہتے تو جس طرح پانی کے چھینٹے سے زمین میں ایک نئی زندگی پیدا ہوجاتی ہے اسی طرح ان کی زندگی میں بھی بہار آجاتی۔ ہر سمجھ اور عقل رکھنے والے کے لئے اللہ نے ہر بات کو نہایت وضاحت سے کھول کھول کر بیان کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان ایمان والے مردوں اور عورتوں کی تعریف کی ہے جو اپنے مال میں سے اللہ کی راہ میں صدقات اور جب دین کی سربلندی کے لئے قرض حسنہ کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ آگے بڑھ کر اس کارخیر میں حصہ لیتے ہیں اسی طرح اللہ و رسول کی اطاعت اور اپنے ایمان کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ ایسے لوگوں کے اجرو ثواب میں وہ اضافہ ہی کرتا چلا جائے گا اور قیامت میں ان کو عزت کی روزی اور رزق عطا فرمائے گا لیکن وہ لوگ جنہوں نے کفرو شرک کیا اور اللہ کی آیات کو جھٹلایا ان کا انجام بھیانک جہنم ہے جو بدترین ٹھکانا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی دل سے عزم پابندی طاعات ضروریہ و ترک معاصی کا کرلیں۔ 1۔ مطلب یہ کہ مسلمانوں کو جلد توبہ کرلینا چاہئے، کیونکہ بعض اوقات پھر توبہ کی توفیق نہیں رہتی اور بعض اوقات کفر تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقین کا انجام بتلانے کے بعد دین اسلام میں نئے داخل ہونے والے مسلمانوں سے خطاب۔ اسی سورت کی آیت ١٠ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں ایمان لانے والوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جنہوں نے مکہ فتح ہونے سے پہلے اللہ کی راہ میں قتال اور خرچ کیا وہ الفتح کے بعد ایمان لانے، قتال کرنے اور صدقہ کرنے والوں سے اعلیٰ ہیں۔ الفتح کا معنٰی آیت ١٠ کی تفسیر میں بیان ہوچکا ہے۔ فتح مکہ کے بعد ایسے مسلمان بھی تھے جو اپنے ایمان لانے کے ابتدائی دور میں اس معیار تک نہیں پہنچے تھے جو قرآن مجید کا مطلوب ہے اس لیے ان ایمانداروں کو بالخصوص ارشادہوا کہ کیا ان ایمانداروں کے لیے وہ وقت نہیں آیا جب ان کے دل اللہ کی یاد سے لرز جائیں اور جو حق ان کی طرف نازل کیا گیا ہے اس کے سامنے پوری طرح مطیع ہوجائیں۔ انہیں حکم ہوا کہ اے ایماندارو ! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے جب ان پر طویل مدت گزری تو ان کے دل اللہ اور اس کی کتاب کے بارے میں سخت ہوگئے اور ان کی اکثریت نافرمان تھی اور یادرکھو ! اللہ ہی وہ ذات ہے جو زمین کے مردہ ہونے کے بعد اسے زندہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اپنے ارشادات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو۔” اُوْتُوا الْکِتٰبَ “ سے مراد عیسائی اور یہودی ہیں۔ ایک مدت گزرنے کے بعد ان کی بد عملی اور بےحسی کا عالم یہ تھا اور ہے نہ انہیں اللہ کا خوف ہے اور نہ ہی تورات اور انجیل کی نصیحتیں ان پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ عیسائی اور یہودی اپنی کتابوں کے حوالے سے یہ جانتے ہیں کہ آخری نبی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں گے اور وہ عربی النسل ہونے کے ساتھ مکہ معظمہ میں معبوث کیے جائیں گے اور لوگوں کو وہی دعوت دیں گے جو حضرت موسیٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام) دیا کرتے تھے یہ حقیقت جاننے کے باوجود عیسائیوں اور یہودیوں کی غالب اکثریت اس حقیقت کا اعتراف کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ حق کے ساتھ تعصب اور دنیاوی مفادات مقدم رکھتے ہیں۔ ایمانداروں کو اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ اے ایمان کا دعویٰ کرنے والو ! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو ایک مدت گزرنے کے بعد اپنے رب سے غافل ہوئے اور تورات اور انجیل کو فراموش کربیٹھے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے حالات سے آگاہ ہونے کے باوجود آج مسلمانوں کی غالب اکثریت کا وہی حال ہے جو عیسائیوں اور یہودیوں کا حال دکھائی دیتا ہے۔ عیسائی اور یہودی بھی دنیا کی خاطر شقی القلب ہوئے اور مسلمان بھی دنیا کے مفاد کے لیے اللہ اور اس کے رسول سے بےاعتنائی کا شکار ہورہے ہیں۔ اے مسلمانو ! یادرکھو ! کہ اللہ ہی مردہ زمین کو زندہ کرنے والا ہے۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے زمین کے حوالے سے اپنی قدرت کی عظیم نشانی کا ذکر کرتے ہوئے دو خوشخبریوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ 1 ۔ جس طرح ویران اور سنسان زمین بارش کے بعد تروتازہ اور زندہ ہوجاتی ہے اسی طرح اللہ کی یاد اور اس کی کتاب کی پیروی سے مردہ دل زندہ ہوجاتے ہیں۔ جس طرح بارش کے بعد زمین سے نباتات اگتی ہیں اور اس سے زمین پر ہریالی چھا جاتی ہے اسی طرح اللہ کی آیات اور قرآن مجید کی تلاوت سے ایمان زندہ ہوتا ہے اور مسلمان کے نیک اعمال میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کی طبیعت پر نیکیوں کی ایک بہار آتی ہے۔ 2 ۔ جس طرح بارش کے بعد مردہ زمین زندہ ہوتی ہے اسی طرح ہی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے ضعف کو قوت میں تبدیل کرے گا جس سے دنیا میں امن و سکون پیدا ہوگا اور نیکی کی فضا قائم ہوگی۔ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْءَۃً نُکِتَتْ فِيْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الرَّانُ الَّذِيْ ذَکَرَ اللّٰہُ (کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ) ) (رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب بندہ کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نکتہ پڑجاتا ہے جب وہ گناہ چھوڑ دے اور توبہ و استغفار کرے تو اس کا دل پالش ہوجاتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ گناہ کی طرف پلٹے تو گناہ کی سیاہی اس کے دل پر چڑھ جاتی ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے کہ ” ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے گناہوں کی وجہ سے زنگ چڑھ چکا ہے۔ “ ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت میں ایسا وقت ضرور آئے گا کہ وہ بنی اسرائیل کے ساتھ بالکل اس طرح مل جائے گی جس طرح جو تا ایک دوسرے کے ساتھ ملا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے اعلانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی ایسا ضرور ہوگا۔ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ ایک گروہ کے علاوہ سارے کے سارے جہنم میں جائیں گئے۔ صحابہ نے استفسار کیا اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ کون سا گروہ ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ کرام (رض) کے طریقے پر عمل کرنے والا ہوگا۔ “ (رواہ الترمذی : باب ماجاء فی افتراق ہذہ الامۃ، قال البانی ھذا حدیث حسن صحیح) مسائل ١۔ ایمانداروں کو اللہ کے ذکر اور کتاب اللہ کی پیروی کرنی چاہیے ٢۔ مسلمانوں کو یہود ونصارٰی کا انداز اور کردار اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ کی یاد اور قرآن مجید کی تلاوت سے غفلت کرنے پر انسان کا دل سخت ہوجاتا ہے۔ ٤۔ یہود ونصارٰی کی غالب اکثریت نافرمان لوگوں پر مشتمل ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ اس لیے اپنے ارشاد ات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ لوگ عقل سے کام لیں۔ تفسیر بالقرآن دل کی سختی اور برے شخص کا انجام : ١۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے دل سخت ہوتا ہے۔ (البقرۃ : ٧٤) ٢۔ عہد شکنی کی وجہ سے دل سخت ہوتا ہے۔ (المائدۃ : ١٣) ٣۔ اللہ کی یاد سے غافل ہونے والوں کے لیے جہنم ہے۔ ( الزمر : ٢٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

الم یان ................ تعقلون یہ مولائے کریم ورحیم کی طرف نہایت ہی موثر پکار ہے کہ اب تک تو تمہارے دل اللہ کے خوف اور خشوع و خضوع سے بھر جانا چاہئے تھا۔ تم پر تو اللہ کا بہت بڑا فضل ہوچکا ہے۔ تمہارے اندر ایک رسول موجود ہے ، جو تمہیں ایمان کی طرف بلارہا ہے۔ اس رسول پر آیات بینات نازل کردی گئی ہیں تاکہ تمہیں تاریکیوں سے روشنیوں کی طرف لائیں۔ اور تمہیں اس نے اس کائنات میں اور تمہاری تخلیق میں آیات بھی بتا دی ہیں۔ یہ ایک ایسا عتاب ہے جس میں محبت ہے۔ ہمدردانہ عنایت ہے۔ جوش دلایا جاتا ہے اور شعور دیا جاتا ہے کہ اللہ بڑا جلیل القدر ہے۔ اس کا ذکر حضوع وخشوع کے ساتھ کرو ، اور اللہ کی جانب سے جو سچائی آرہی اسے نہایت عزت واحترام اور اطاعت اور سپردگی کے ساتھ لو ، البتہ سوال میں یہ تاثر نمایاں ہے کہ تماری رفتار سست ہے۔ الم یان ................ من الحق (٧٥ : ٦١) ”” کیا ایمان لانے والوں کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور ان کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں “ اس طرح ابھارنے اور ست روی پر عناب کرنے کے ساتھ ان کو لبیک نہ کہنے اور سست روی اختیار کرنے کے برے انجام سے بھی ڈرایا جاتا ہے کہ جب دلوں کو ساتھ ساتھ صاف نہ کیا جاتا رہے تو وہ زنگ آلود ہوجاتے ہیں اور ان کے اندر سنگدلی پیدا ہوجاتی ہے ، یہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ ذکر الٰہی سے غافل ہوجائیں اور جب وہ حق کے سامنے جھکنا بھول جائیں : ولا یکونوا ............ فسقون (٧٥ : ٦١) ” اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی ، پھر ایک لمبی مدت ان پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور آج ان میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں “ جب دل سخت ہوجائیں تو پھر اگلا مرحلہ فسق اور فجور کا ہوتا ہے۔ انسانی دل بہت جلد بدل جاتا ہے۔ انسان بہت جلد بھول جاتا ہے۔ جب وہ صاف شفاف اور روشن ہوتا ہے تو اس سے نور کی لہریں اٹھتی ہیں۔ اور موتی کی طرح چمکتا ہے۔ اور جب اس پر زیادہ وقت گزر جائے یا دہانی اور تربیت ختم ہوجائے تو وہ سخت ہوجاتا ہے زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اسے مسلسل یاد دہانی اور تربیت کی ضرورت پڑتی ہے کہ اس کے اندر خضوع وخشوع پیدا ہو۔ اسے بار بارکھٹکھٹانا چاہئے تاکہ وہ نرم اور صاف ہوتا رہے اور ہر وقت بیدار رہنا چاہئے کہ وہ سنگدل اور کند نہ ہوجائے۔ لیکن اگر کوئی دل بجھ گیا ، پتھر بن گیا ، سخت ہوگیا ، کندہوگیا تو مایوسی کی ضرورت نہیں ہے ، وہ از سر نو زندہ ہوسکتا ہے ، اس میں از سر نو حیات داخل ہوسکتی ہے ، وہ از سر نو اللہ کے سامنے جھک سکتا ہے ، اللہ تو قدرتوں والا ہے ، وہ تو مردہ زمین کو از سر نو زندہ کردیتا ہے۔ ایک مردہ زمین دیکھتے دیکھتے زندگی سے بھر پور اور تروتازہ ہوجاتی ہے۔ سر سبز و شاداب ہوجاتی ہے میوہ جات اور پھل دینے لگتی ہے یہی حال دلوں کا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کیا ایمان والوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے قلوب خشوع والے بن جائیں ان آیات میں ان اہل ایمان کو خطاب اور عتاب فرمایا ہے جن کے اعمال صالحہ میں کمی آگئی اور جن کے دلوں میں ذکر اللہ اور کتاب اللہ کی طرف توجہ درجہ مطلوبہ میں نہیں رہی، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں تشریف لائے وہاں کچھ اصحاب ہنس رہے تھے آپ نے اپنے مبارک چہرہ سے چادر ہٹائی جو سرخ ہو رہا تھا اور فرمایا کہ کیا تم ہنس رہے ہو ؟ اور تمہارے رب کی طرف سے یہ امان نازل نہیں ہوئی کہ اس نے تمہیں بخش دیا ؟ (اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ دنیا سے دل نہ لگاتے اور ہنسی مداق میں وقت خرچ نہ کرتے) تمہارے ہنسنے کے بارے میں مجھ پر آیت کریمہ ﴿اَلَمْ يَاْنِ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا﴾ نازل ہوئی ہے صحابہ (رض) نے عرض کیا، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہمارے اس ہنسنے کا کیا کفارہ ہے ؟ آپ نے فرمایا جس قدر ہنسے ہو اسی قدر رؤو۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے سامنے یہ آیت پڑھی گئی اس وقت یمامہ والے کچھ لوگ موجود تھے۔ وہ بہت روئے ان کی یہ حالت دیکھ کر حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا کہ ہم بھی اس طرح رویا کرتے تھے حتیٰ کہ بعد میں ایسے لوگ آگئے جن کے دل سخت ہوگئے۔ (روح المعانی صفحہ ١٧٩۔ ١٨٠، ٢٧) معلوم ہوا کہ اہل ایمان کو اللہ کے ذکر میں اور قرآن کی تلاوت کرنے اور سمجھنے کی طرف پوری طرح متوجہ رہنا چاہئے، جب دل میں خشوع ہوگا یعنی اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی کتاب کی طرف جھکاؤ ہوگا تو ایمان میں پختگی رہے گی۔ اگر دل میں خشوع نہ ہوا تو شدہ شدہ آہستہ آہستہ دلوں میں قساوت یعنی سختی آجائے گی۔ جب قساوت آجاتی ہے تو دنیا ہی کی طرف توجہ رہ جاتی ہے۔ دین پر چلنے کا اہتمام اور آخرت کی فکر نہیں رہتی نماز بھی یوں ہی چلتی ہوئی پڑھتے ہیں ایک منٹ میں دو رکعتیں نمٹا دیتے ہیں اور نماز میں دکان کی بکری کا حساب لگاتے رہتے ہیں۔ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کے ذکر کے علاوہ زیادہ کلام نہ کرو۔ کیونکہ اللہ کے ذکر کے علاوہ باتیں کرنا قساوت قلب یعنی دل کی سختی کا سبب ہے اور اللہ سے سب سے زیادہ دور وہی دل ہے جو سخت ہو۔ (رواہ الترمذی) ایک تاریخی واقعہ : حضرت فضیل بن عیاض (رح) مشہور محدث ہیں اکابر صوفیاء میں بھی ان کا شمار ہوتا ہے یہ پہلے صحیح راستہ پر نہ تھے ڈاکہ زنی کیا کرتے تھے اسی اثناء میں یہ واقعہ پیش آیا کہ ایک لڑکی سے عشق ہوگیا اس لڑکی کے پاس پہنچنے کے لیے دیواروں پر چڑھ رہے تھے کہ اچانک ایک تلاوت کرنے والے شخص کی آواز کان میں پڑگئی وہ آیت کریمہ ﴿ اَلَمْ يَاْنِ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ ﴾ پڑھ رہا تھا (کیا ایمان والوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ اللہ کے ذکر کے لیے ان کے قلوب جھک جائیں) ۔ فضیل نے جب اس آیت کو سنا تو فوراً منہ سے نکلا : بلی یا رب قدآن (اے میرے پروردگار ہاں وہ وقت آگیا) یہ کہہ کر واپس لوٹے تو ایک ویران گھر کی طرف چلے گئے وہاں کچھ مسافر ٹھہرے ہوئے تھے ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ چلو سفر شروع کردیں دوسرے نے کہا کہ صبح تک ٹھہرو کیونکہ یہاں کہیں فضیل ہوگا وہ ڈاکو ہے کہیں ہم پر ڈاکہ نہ ڈال دے، یہ سن کر فضیل اپنے دل میں کہنے لگے ارے میرا یہ حال ہوگیا کہ رات بھر گناہ کے کاموں میں لگا رہتا ہوں اور مسلمان مجھ سے ڈرتے ہیں، معلوم ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے آج کی رات یہاں اسی لیے بھیجا ہے کہ گناہوں کو چھوڑ دوں اس کے بعد بارگاہ خداوندی میں یوں عرض کیا : اللھم انی قد تبت الیک وجعلت توبتی مجاورة البیت الحرام (اے اللہ میں آپ کے حضور میں توبہ کرتا ہوں اور اپنی توبہ میں یہ بھی شامل کرتا ہوں کہ اب البیت الحرام یعنی مکہ معظمہ میں زندگی گزاروں گا) اس کے بعد مکہ معظمہ چلے گئے اور وہیں پوری زندگی عبادت میں گزاری اور یہ حال تھا کہ جب ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے تو اتنا روتے تھے کہ پاس بیٹھنے والوں کو ان پر رحم آنے لگتا تھا۔ ابن حبان نے اپنی کتاب الثقات میں ان کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے : اقام بالبیت الحرام مجاورًا مع الجھد الشدید والورع الدائم والخوف الوافی والبکاء الکثیر والتخلی بالوحدة ورفض الناس وما علیہ اسباب الدنیا الی ان مات بھا ـ (مكہ معظمہ میں قیام کیا سخت مجاہدہ کے ساتھ اور دائمی پرہیزگاری کے ساتھ اور خوب زیادہ خوف الٰہی کے ساتھ اور خوب زیادہ رونے کے ساتھ اور تنہائی میں وقت گزارنے کے ساتھ اور لوگوں سے بےتعلق رہنے کے ساتھ، دنیا کے اسباب میں سے موت آنے تک ان کے پاس کچھ بھی نہ تھا) ۔ حضرت فضیل بن عیاض (رح) نے ایک مرتبہ علم حدیث کا اشتغال رکھنے والوں کو دیکھا کہ آپس میں دل لگی کی باتیں کر رہے ہیں اور ہنس رہے ہیں، ان کو پکار کر فرمایا کہ اے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے وارثو ! بس کرو بس کرو، تم امام ہو تمہارا اقتداء کیا جاتا ہے۔ (سیرا علام النبلاء ص ٤٢٣ تا ٤٢٦ ج ٨۔ تہذیب التہذیب ص ٢٩٤ تا ٢٩٦ : ج ٨) ایک مرتبہ ایک شخص کو ہنستے ہوئے دیکھا تو فرمایا میں تجھے ایک اچھی بات سناؤں ؟ اس نے کہا فرمائیے ! آپ نے اس کو یہ آیت پڑھ کر سنائی۔ ﴿لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِيْنَ ٠٠٧٦﴾ (اترایا نہ کر بیشک اللہ اترانے والوں کو دوست نہیں رکھتا) ۔ اہل کتاب کی طرح نہ ہوجاؤ جن کے دلوں میں قساوت تھی : ﴿ وَ لَا يَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ١ؕ ﴾ (اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو اس سے پہلے کتاب ملی تھی (ان سے یہودونصاریٰ مراد ہے) ان پر ایک زمانہ دراز گزر گیا (دونوں اپنی اپنی کتاب اور اس کے احکام سے غافل ہوگئے معاصی میں منہمک رہے اس طرح زمانہ گزرتا چلا گیا اور توبہ نہ کی جب یہ حالت ہوگئی) تو ان کے دل سخت ہوگئے) جب دل سخت ہوجاتے ہیں تو نیکی بدی کا احساس نہیں ہوتا اور دین حق پر باقی رہنے کی منفعت کا خیال باقی نہیں رہتا۔ اسی لیے بہت سے لوگ کفر اختیار کرلیتے ہیں۔ ﴿ وَ كَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ ٠٠١٦﴾ (اہل کتاب کا یہی حال ہوا کہ ان میں سے اکثر فاسق یعنی کافر ہوگئے جن کا بقیہ آج بھی دنیا میں موجود ہے) ۔ پس مسلمانوں پر لازم ہے کہ دلوں کو خشوع والا بنائیں، اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے رہیں قرآن کی تلاوت میں لگے رہیں اس کے احکام پر عمل کرتے رہیں، خدانخواستہ یہودونصاریٰ جیسا حال نہ ہوجائے : قولہ تعالیٰ اَلَمْ يَاْنِ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا مضارع من انی الامرا نیا واناءً بالکسر اذا جاء اناہ ای وقتہ ای الم یجیٔ وقت ان تخشع قلوبھم لذکرہ عزوجل (ذكرہ فی الروح صفحہ ١٧٩: ج ٢٧)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

17:۔ ” الم یان “ یہ زجر ہے بعض مسلمانوں میں انفاق کے معاملے میں کچھ تکاسل آگیا تھا یہ ان پر زجر و عتاب ہے یا یہ منافقین پر زجر ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے کتراتے تھے اس صورت میں ” امنوا “ سے امنوا باللسان مراد ہوں گے لیکن سیاق وسباق سے مناسب یہی ہے کہ اس سے بعض مخلص مومنین ہی مراد ہیں کیونکہ اکثر مخلصین تو ہمیشہ ہی اللہ تعالیٰ کے احکام کے آگے سرنگوں رہے ہیں۔ والمعاتب علی ما قالہ الزجاج طائفۃ من المومنین ولا فمنہم من لم یزل خاشعا منذ اسلم الی ان ذھب الی ربہ (روح ج 27 ص 178) ۔ الم یان من انی الامر یانی اذا جاء اناہ ای وقتہ (مدارک) ۔ اور ولا یکونو، تخشع پر معطوف ہے یا استیناف ہے بصیغہ امر غائب (بحر، مظہری) ۔ ان تخشع میں ان مصدریہ ہے اور جملہ بتاویل مفرد لم یان کا فاعل ہے اور وما نزل، ذکر اللہ پر معطوف ہے۔ فطال علیہم الامد، یعنی ان کے اور ان کے پیغمبروں کے درمیان زیادہ وقفہ گذر گیا یا کفر و معاصی میں ڈوبے ان کو کافی زمانہ گذر گیا۔ حاصل یہ ہے کہ کیا ایمان والوں کے لیے ابھی وقت نہیں آیا کہ اللہ کے ذکر قرآن کی آیتوں کے آگے یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام کے سامنے ان کے دل تسلیم و رضاء کے ساتھ عاجز ہوجائیں اور ان کا سر اطاعت ان کے آگے جھک جائے اور وہ ان اہل کتاب (یہود و نصاری) کی مانند نہ ہوجائیں جو کفر و عصیان میں انہماک یا انبیاء (علیہم السلام) کی اصل تعلیمان اور ان کی صحبت سے محروم ہوجانے کی وجہ سے ایسے سنگدل ہوچکے ہیں کہ اللہ کے کسی حکم کا، زجر و تہدید کا اور تبشیر و تخویف کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا، بلکہ ان میں سے بہت سے تو صریح طور پر خدا کے نافرمان اور باغی ہوچکے ہیں۔ اور ایمان والوں میں تو اللہ کا رسول موجود ہے اور اللہ کے تازہ بتازہ احکام نازل ہورہے ہیں اس لیے انہیں تو اللہ اللہ کے احکام کے آگے سراپا تسلیم ورضا بن جانا چاہیے۔ بعض روایتوں میں موجود ہے کہ جن مسلمانوں سے احکام الٰہیہ کی تعمیل میں کچھ سستی ہوئی تھی اس آیت کے نزول کے بعد انہوں نے اس کی تلافی کرلی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(16) کیا مسلمانوں کے لئے ابھی تک وہ وقت نہیں آیاکہان کے قلوب اللہ تعالیٰ کے ذکر اور چور دین حق منجانب اللہ نازل ہوا ہے اس کے سامنے جھک جائیں اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر ان پر ایک طویل اور لمبی مدت گزر گئی ، سو ان کے دل سخت ہوگئے، اور اب ان کی حالت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر فاسق اور دین سے خارج ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی وہی ہے کہ دل نرم ہو پیغمبروں کی صحبت میں یہ پاتے تھے مدت کے بعد سخت ہوگئی اور اب یہ صفت مسلمانوں کو چاہیے۔ شاید مکہ میں جس مسلمان رہتے تھے اور تنگی سے گزر ہوتی تھی اور مدینے میں آکر وہ عسرت دور ہوگئی اور مسلمانوں میں کچھ سستی پیدا ہوئی اس پر یہ آیت اتری۔ حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں ہمارا اسلام لانے اور اس سرزنش اور تنبیہ میں عرصہ چار سال کا ہے یعنی اتنے جلدی ہم کو تنبیہہ کی گئی بہرحال شان نزول کچھ بھی ہو عام طبائع کا یہ حال ہے کہ جوں جوں زمانہ گزرتا ہے دلوں سے ایمانی قوت اور اعمال صالحہ کا شوق اور مستحبات کی رعایت کم ہوتی جاتی ہے اس لئے فرمایا کہ مسلمانوں کو خشوع سے کام لینا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کی نصیحت اور دین حق کی خدمت کے لئے ہر وقت کمر بستہ اور جھکے رہنا چاہیے اہل کتاب کی طرح زمانے اور مدت دراز کے گزارنے سے تمہارے دل اہل کتاب کی طرح سخت نہ ہوجائیں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر اور دین حق کی محبت کم نہ ہوجائے اور فسق تک نوبت نہ ہوجائے۔ ہوسکتا ہے کہ مکہ کی تکالیف کے مقابلے میں مدینے کے عیش اور راحت سے بعض لوگوں کے اعمال میں کچھ اخلال ہوا جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے مراتب علیا کے اعتبار سے ان کو سردنش اور تنبیہ فرمائی ہو لیکن آج کل کا دور تو اس کا مقتضی ہے کہ اس آیت پر مسلمان بار بار غور کریں اور اپنی مجالس میں پڑھیں اور دیکھیں کہ ان کی حالت کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے۔ شاید یاد ہوگا میں نے تیسیر میں کہیں صراحتہً کہیں اشارۃً کئی مرتبہ عرض کیا کہ ایک کوتاہی سے دوسری غلطی اور کوتاہی نشونما پاتی ہے اور ایک غلطی سے دوسری غلطی پیدا ہوتی ہے یہاں تک کہ آہستہ آہستہ ان کوتاہیوں کے اثر سے قلب کی حالت بگڑتی جاتی ہے اور نوبت قساوت بلکہ غلف اور طبع اور ختم تک پہنچ جاتی ہے اور یہ آپ جانتے ہی ہیں کہ اس قسم کی سب بیماریوں کا علاج توبہ اور انابت الی اللہ اور حضرت حق کی جانب رجوع ہونا ہے لفظ خشوع سے اس آیت میں اسی کو ظاہر فرمایا ہے۔ ان تخشع قلوبھم لذکر اللہ مانزل من الحق۔ ہم نے ترجمہ میں جھک جانا کیا ہے۔ مطلب یہی ہے کہ جب کوئی ایسی حرکت سرزد ہو تو فوراً توبہ کرو اور اللہ کی طرف رجوع ہوجائو پھر حالت درست کردی جائیگی کوئی نعمت اسلام سے بہتر نعمت نہیں ہے اور کوئی شغل طاعت اور عبادت سے بڑھ کر شغل نہیں ہے اور کوئی عبرت موت سے بڑھ کر عبرت نہیں ہے۔ یہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے قول کا ترجمہ ہے جو میں نے عرض کیا۔ بہرحال صحابہ کرام (رض) بڑے مرتبے کے لوگ تھے پیغمبر خدا کی ان کو صحبت میسر تھی جب ان کو تھوڑی سی بات میں تنبیہ ہوگئی تو ہم کس شمار میں ہیں۔ بعض حضرات نے یہ بھی فرمایا کہ الم یان للذین امنوا سے مخلص مسلمان مراد نہیں ہیں بلکہ منافق مراد ہیں اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ زبان سے ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں کیا ان کے لئے یہ وقت نہیں آیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نصیحتوں اور دین حق اور قرآن کے لئے خشوع اختیار کریں اور سچے دل سے مسلمان ہوجائیں اس کی طرف آگے بھی اشارہ ہے کہ توبہ کرنا ایسا ہے جیسے مردہ زمین کا زندہ ہوجانا چناچہ ارشاد فرمایا۔