Surat ul Hadeed

Surah: 57

Verse: 3

سورة الحديد

ہُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الۡبَاطِنُ ۚ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۳﴾

He is the First and the Last, the Ascendant and the Intimate, and He is, of all things, Knowing.

وہی پہلے ہے اور وہی پیچھے ، وہی ظاہر ہے اور وہی مخفی ، اورو ہی ہرچیز کو بخوبی جاننے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

هُوَ الاَْوَّلُ وَالاْخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ... He is Al-Awwal and Al-Akhir, Az-Zahir and Al-Batin. This is the Ayah indicated in the Hadith of Irbad bin Sariyah that is better than a thousand Ayat. Abu Dawud recorded that Abu Zamil said, "I mentioned to Ibn Abbas that I felt something in my heart. He said, `Doubts' and then laughed. Next, he said, `No one can escape this. Allah the Exalted stated, فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّأ أَنزَلْنَأ إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَـبَ مِن قَبْلِكَ لَقَدْ جَأءَكَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ So if you are in doubt concerning that which We have revealed to you, then ask those who are reading the Book before you. Verily, the truth has come to you from your Lord. (10:94)' He then said to me, `When you feel any of this in your heart, recite, هُوَ الاَْوَّلُ وَالاْخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ He is Al-Awwaland Al-Akhir, Az-Zahir and Al-Batin. And He is the All-Knower of everything."' There are about ten and some odd number of different sayings collected from the scholars of Tafsir regarding the explanation of this Ayah. Al-Bukhari said, "Yahya said, `Az-Zahir: knowing all things, Al-Batin: knowing all things."' Our Shaykh Al-Hafiz Al-Mizzi said, "Yahya is Ibn Ziyad Al-Farra', who authored a book entitled Ma`ani Al-Qur'an." There are Hadiths mentioned about this. Among them, Imam Ahmad recorded that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah would recite this supplication while going to bed, اللْهُمَّ رَبَّ السَّموَاتِ السَّبْعِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ مُنْزِلَ التَّوْرَاةِ وَالاِْنْجِيلِ وَالْفُرْقَانِ فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوَى لاَ إِلهَ إِلاَّ أَنْتَ أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ شَيْءٍ أَنْتَ اخِذٌ بِنَاصِيَتِهِ أَنْتَ الاَْوَّلُ لَيْسَ قَبْلَكَ شَيْءٌ وَأَنْتَ الاْخِرُ لَيْسَ بَعْدَكَ شَيْءٌ وَأَنْتَ الظَّاهِرُ لَيْسَ فَوْقَكَ شَيْءٌ وَأَنْتَ الْبَاطِنُ لَيْسَ دُونَكَ شَيْءٌ اقْضِ عَنَّا الدَّيْنَ وَأَغْنِنَا مِنَ الْفَقْر O Allah, Lord of the seven heavens and Lord of the Magnificent Throne! Our Lord, and the Lord of everything, Revealer of the Tawrah, the Injil and the Furqan, the Splitter of the grain of corn and the date stone! I seek refuge with You from the evil of everything whose forehead You have control over. O Allah! You are - Al-Awwal, nothing is before You; - Al-Akhir, nothing is after You; - Az-Zahir, nothing is above You; and - Al-Batin, nothing is below You. Remove the burden of debt from us and free us from poverty. Muslim recorded this Hadith via Sahl, who said, "Abu Salih used to order us to lay on our right side when we were about to sleep, and then say, اللْهُمَّ رَبَّ السَّموَاتِ وَرَبَّ الاَْرْضِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوَى وَمُنْزِلَ التَّوْرَاةِ وَالاِْنْجِيلِ وَالْفُرْقَانِ أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ ذِي شَرَ أَنْتَ اخِذٌ بِنَاصِيَتِهِ اللْهُمَّ أَنْتَ الاَْوَّلُ فَلَيْسَ قَبْلَكَ شَيْءٌ وَأَنْتَ الاْخِرُ فَلَيْسَ بَعْدَكَ شَيْءٌ وَأَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَيْسَ فَوْقَكَ شَيْءٌ وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَيْسَ دُونَكَ شَيْءٌ اقْضِ عَنَّا الدَّيْنَ وَأَغْنِنَا مِنَ الْفَقْر O Allah, Lord of the seven heavens and Lord of the Magnificent Throne! Our Lord, and the Lord of everything, Revealer of the Tawrah, the Injil and the Furqan, the Splitter of the grain of corn and the date stone! I seek refuge with You from the evil of everything whose forehead You have control over. O Allah! You are Al-Awwal, nothing is before You; Al-Akhir, nothing is after You; Az-Zahir, nothing is above You; and Al-Batin, nothing is below You. Remove the burden of debt from us and free us from poverty. And he used to narrate that from Abu Hurayrah from the Prophet."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31وہی اول ہے یعنی اس سے پہلے کچھ نہ تھا، وہی آخر ہے، اس کے بعد کوئی چیز نہ ہوگی، وہی ظاہر ہے۔ یعنی وہ سب پر غالب ہے، اس پر کوئی غالب نہیں، وہی باطن ہے، یعنی باطن کی ساری باتوں کو صرف وہی جانتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] یعنی جب کائنات کی کوئی چیز موجود نہ تھی اس وقت بھی اللہ موجود تھا اور جب کائنات کی کوئی چیز باقی نہ رہے گی سب فنا ہوجائیں گی اس وقت بھی وہ موجود رہے گا اور وہ ظاہر اس لحاظ سے ہے کہ ہر چیز کا وجود اور ظہور اس کے وجود سے ہے۔ کائنات اکبر کے نظام میں غور کریں یا کائنات اصغر یا انسان کے جسم کے نظام میں غور کریں تو اس کی قدرت اور اس کے وجود پر بہت سے دلائل مل جاتے ہیں۔ کائنات کی کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اپنے خالق پر رہنمائی نہ کرتی ہو۔ اور وہ باطن اس لحاظ سے ہے کہ حواس خمسہ سے اس کا ادراک تو درکنار ہم عقل سے اس کی ذات یا صفات کے متعلق کوئی صحیح تصور بھی قائم نہیں کرسکتے۔ اس مادی دنیا میں ہمارے سامنے اس قدر غیب کے پردے حائل ہیں کہ ہم ان آنکھوں سے اسے کبھی نہیں دیکھ سکتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ہُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ ج ۔۔۔۔:” ظھر یظھر “ (ف) کا معنی پوشیدہ کے مقابلے میں ظار ہونا بھی ہے اور بلند اور غالب ہونا بھی جیسا کہ فرمایا :(لیظھرہٗ علی الدین کلہ) (التوبۃ : ٣٣) ” تا کہ وہ اسے ہر دین پر غالب کر دے “۔ یہاں بھی ” ھو “ مبتداء کی چاروں خبروں ” الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ ج “ پر الف لام کی وجہ سے حصر پیدا ہو رہا ہے ، یعنی وہی ہے جو سب سے پہلے ہے ، اس کی کوئی ابتداء نہیں اور وہی سب سے آخر ہے ، اس کے بعد کوئی نہیں ، اس کی انتہاء بھی کوئی نہیں ، اس کے سوا سب فناء ہونے والے ہیں ، اس پر فنا نہیں ۔ وہی ہے جس کا وجود ظاہر ہے ، جو کائنات کی ہر چیز سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اسے بنانے والا موجود ہے ، جو ہر چیز پر غالب ہے کہ اس نے جو چاہا بنادیا اور جو چاہتا ہے بنا دیتا ہے ، کوئی اس سے اوپر نہیں جو اسے روک سکے اور وہی ہے جس کی ذات پوشیدہ ہے جس کا آنکھیں ادراک نہیں کرسکتیں ۔ اس کے سوا کسی میں ان چاروں صفات میں سے ایک صفت بھی نہیں پائی جاتی ۔ اس آیت کی بہترین تفسیر خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آئی ہے ، ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں حکم دیتے تھے کہ جب ہم اپنے ستر پر لیٹیں تو یہ کہیں :(اللھم رب السماوات ورب الارض و رب العرش العظیم ، ربنا ورب کل شیئ، فالق الحب وشوی ، ومنزل التوراۃ والانجیل والفرقان ، اعوذ بک من شرکل شیء انت آخذ بنا صیتہٖ ، اللھم انت الاول فلیس قبلک شیء وانت الآخر فلیس بعدک شیء وانت الظاھر فلیس فوقک شیء وانت الباطن قیس دونک شیء ، اقض عنا الدین واغننا من الفقر) ( مسلم ، الذکر والدعا ، باب ما یقول عند النوم و اخذالمضجع : ٢٧١٣)” اے اللہ ! اے آسمانوں کے رب اور زمین کے رب اور عرش عظیم کے رب ! ہمارے رب اور ہر چیز کے رب ! دانے اور گٹھلیوں کو پھاڑ نکالنے والے اور تورات و انجیل اور فرقان کو نازل کرنے والے ! میں ہر اس چیز کے شر سے تیری پناہ مانگنا ہوں جس کی پیشانی کے بالوں کو تو پکڑے ہوئے ہے۔ اے اللہ ! تو ہی اول ہے ، سو تجھ سے پہلے کوئی چیز نہیں اور تو ہی آخر ہے ، سو تیرے بعد کوئی چیز نہیں اور تو ہی ظاہر ہے ، سو تجھ سے اوپر کوئی چیز نہیں اور تو ہی باطن ہے ، سو تجھ سے ” دون ‘ ‘(بعد) کوئی چیز نہیں ۔ تو ہم سے قرض ادا کرے اور ہمیں فقیر سے غنی کر دے “۔ ٢۔” الباطن “ کی ایک تفسیر وہ ہے جو عام طور پر کی جاتی ہے ، یعنی پوشیدہ۔ اس کے مطابق ” لیس دونک شئی “ کا مطلب یہ ہے کہ تو ہی پوشیدہ ہے ، سو تجھ سے زیادہ پوشیدہ کوئی چیز نہیں ۔ یہ مفہوم ” لا تدرکہ الابصار “ میں بیان ہوا ہے ، دیکھئے سورة ٔ انعام (١٠٣) کی تفسیر اور ابو موسیٰ اشعری (رض) سے مروی حدیث میں بھی یہی بات ہوئی ہے ، انہوں نے فرمایا :( قام مینا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بخمس کلمات فقال ان اللہ عزوجل لا ینام ولا ینبغی لہ ان ینام، یحنض القسط و یرفعہ یرفع الیہ عمل اللیل قبل عمل النھار و عمل النھار قبل عمل اللیل، حجابہ النوروفی روایۃ ابی بکر النار لو کشفہ لا حرقت سبحات وجھہ ما انتھی الیہ بصرہ من خلقہ) (مسلم الایمان باب فی قولہ (علیہ السلام) :” ان اللہ لا ینام۔۔۔۔۔ “: ١٧٩)” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم میں کھڑے ہو کر پانچ باتیں بیان فرمائیں ، چناچہ آپ نے فرمایا :” اللہ عزوجل سوتا نہیں اور اس کے لائق نہیں کہ وہ سوئے ، وہ ترازو کو جھکاتا ہے اور اسے اٹھاتا ہے ، رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے اس کی طرف اوپر لے جایا جاتا ہے ۔ اس کا حجاب نور ہے ( اور ابوبکر کی روایت میں ہے کہ نار ہے) اگر وہ اسے ہٹا دے تو اس کے چہرے کی کرنیں اس کی خلوق میں سے ان تمام چیزوں کو جلا دیں جن تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے “۔ ٣۔ اور ” الباطن “ کی ایک تفسیر وہ ہے جو مفسر طبری نے بیان فرمائی ہے ، ان کے الفاظ یہ ہیں :” والظاھر ‘ ‘ یقول وھو الظاھر علی کل شئی دونہٗ وھو العالی فوق کلی شیء فلاشیء اعلیٰ منہ “” والباطن “ یقول وھو الباطن جمیع الاشیاء ، فلا شیء اقرب الی شیء منہ ، کمال قال :(وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ ) (ق : ١٦)” یعنی “ ” والظاھر “ کا مطلب یہ ہے کہ وہی اپنے سوا ہر چیز پر ظاہر ہے اور وہی ہر چیز کے اوپر بلند ہے ، کوئی چیز اس سے بلند نہیں اور ” والباطن “ کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمام اشیاء سے باطن ہے ، چناچہ کوئی چیز کسی چیز سے اس سے زیادہ قریب نہیں ، جیسا کہ فرمایا :(وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ ) (ق : ١٦) ” اور ہم اس کی رگ جاں سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں “۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہر چیز سے زیادہ بلند بھی وہی ہے اور ہر چیز کے زیادہ سے زیادہ قریب بھی وہی ہے۔ بہت سے اہل علم نے اس قرب سے مراد علم کے لحاظ سے قریب ہونا اور ” الباطن “ کا معنی علم کے لحاظ سے ہر چیز کے قریب کیا ہے۔ بحث آگ آیت (٤) ” وھو معکم “ میں کچھ تفصیل سے آرہی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Remedy for Diabolical Whisperings Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) said that if the Shaitan casts an evil scruple in anyone&s heart, and thus causes skepticism about Allah and the religion of truth, he should softly recite the following verse [ 3]: هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ‌ وَالظَّاهِرُ‌ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (He is the First and the Last, the Manifest and the Hidden and He is All-Knowing about everything.) What is meant by Allah&s being First and Last, and Manifest and Hidden? There are more than ten different interpretations of these attributes, and they are not contradictory. The scope is wide enough to accommodate all interpretations. The meaning of the attribute al-awwal [ the First ] is more or less fixed, signifying that ontologically there was nothing before Allah, and that He created everything and He is the First Cause of all existent things. The attribute Al-&akhir [ the Last ] means that He will exist even after everything will perish, as the following verse testifies: كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ (Everything has to perish except His Countenance... [ 28:88]. It should be noted that death or perishing covers two possibilities, either actual death or potential death. Therefore the verse means that all existent creatures will either actually perish on the Day of Judgment, or they may not actually perish, but potentially they could perish. They have the inherent capacity for death and destruction. Thus despite their being existent they may still be described as halik or fani [ perishing ]. As for instance, Paradise and Hell, and the righteous or unrighteous inmates entering them will not actually perish, but potentially they have the inherent capacity to perish. Only the Supreme Being of Allah is such that neither non-existence has ever occurred to Him, nor can death overtake Him. Thus Allah is Al-&Akhir [ the Last ]. Imam Ghazali (رح) has another explanation. He interprets the attribute &Akhir [ the Last ] from the point of view of ma&rifah [ Knowledge ] in the sense that knowing Allah Ta’ ala is the ultimate goal which man hopes to achieve. He moves in the direction of this goal, passing on the way through all the different stages and stations until he attains the Divine Knowledge. [ Ruh ul Ma’ ani ] The attribute Az-zahir [ the Manifest ] signifies a Being whose manifestation is superior to everything. Since &manifestation& is an offshoot of &existence&, and the Existence of Allah is First and superior to all existent entities, the Divine Manifestation surpasses the manifestation of all other beings. Nothing in this universe is more manifest than Him. The manifestation of His wisdom and His power is visible in every particle of this world. The attribute Al-batin [ the Hidden ] means that the accurate nature and essence of Allah&s Being is hidden in the sense that the Divine Essence [ dhat ] is beyond human perception. No intellect or thought can ever reach the accurate and Intrinsic Essence of Allah. اے برتراز قیاس و گمان و خیال و وھم و زھرچہ دیدہ ایم شنیدہ ایم وخواندہ ایم He is far beyond any hypothesis, any guess, any assumption, any imagination, And who is far beyond whatever we have ever seen, heard or read about. اے بروں از جملہ قال و قیلِ من خاک بر فرق من و تمثیل من He is beyond all our discussions and debates. Whatever example I cite to explain Him is no more than a sheer failure.

وساوس شیطانیہ کا علاج : حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اگر کبھی تمہارے دل میں اللہ تعالیٰ اور دین حق کے معاملے میں شیطان کوئی وسوسہ ڈالے تو یہ آیت آہستہ سے پڑھ لیا کرو :۔ هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ (ابن کثیر) اس آیت کی تفسیر اور اول و آخر، ظاہر و باطن کے معنی میں حضرات مفسرین کے اقوال دس سے زیادہ منقول ہیں، جن میں کوئی تعارض نہیں، سبھی کی گنجائش ہے، لفظ اول کے معنی تو تقریباً متعین ہیں، یعنی وجود کے اعتبار سے تمام موجودات و کائنات سے مقدم اور پہلا ہے، کیونکہ ساری موجودات اسی کی پیدا کی ہوئی ہیں اس لئے وہ سب سے اول ہے اور آخر کے معنی بعض حضرات نے یہ کئے ہیں کہ تمام موجودات کے فنا ہونے کے بعد بھی وہ باقی رہے گا، جیسا کہ آیت (كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ ) میں اس کی تصریح ہے، اور فنا سے مراد عام ہے خواہ فنا و عدم کا وقوع ہوجائے، جیسا قیامت کے روز عام مخلوقات فنا ہوجاوے گی، یا فنا کا وقوع نہ ہو، مگر اس کی فنا و عدم کا وقوع ہوجائے، جیسا قیامت کے روز عام مخلوقات فنا ہوجاوے گی، یا فنا کا وقوع نہ ہو، مگر اس کی فنا و عدم ممکن ہو اور وہ اپنی ذات میں عدم کے خطرہ سے خالی نہ ہو، اس کو موجود ہونے کے وقت بھی فانی کہہ سکتے ہیں، اس کی مثال جنت و دوزخ اور ان میں داخل ہونے والے اچھے برے انسان ہیں کہ ان کا وجود فنا نہیں ہوگا مگر باوجود وقوعاً فنا نہ ہونے کے امکان و احتمال فنا سے پھر بھی خالی نہیں، صرف حق تعالیٰ کی ذات ہے جس پر کسی حیثیت اور کسی مفہوم سے نہ پہلے کبھی عدم طاری ہوا اور نہ آئندہ کبھی اس کا امکان ہے، اس لئے اس کو سب سے آخر کہہ سکتے ہیں۔ اور امام غزالی نے فرمایا کہ حق تعالیٰ کو آخر باعتبار معرفت کے کہا گیا ہے کہ سب سے آخر معرفت اس کی ہے انسان علم و معرفت میں ترقی کرتا رہتا ہے، مگر یہ سب درجات جو اس کو حاصل ہوئے راستہ کی مختلف منزلیں ہیں اس کی انتہا اور آخری حد حق تعالیٰ کی معرفت ہے (از روح المعانی) اور ظاہر سے مراد وہ ذات جو اپنے ظہور میں ساری چیزوں سے فائق اور برتر ہو اور ظہور چونکہ وجود کی فرع ہے، تو جب حق تعالیٰ کا وجود سب موجودات پر فائق اور مقدم ہے اس کا ظہور بھی سب پر فائق ہے کہ اس سے زیادہ اس عالم میں کوئی چیز ظاہر نہیں کہ اس کی حکمت وقدرت کے مظاہر دنیا کے ہر ہر ذرہ میں نمایاں ہیں اور باطن اپنی ذات کی کنہ اور حقیقت کے اعتبار سے ہے کہ اس کی حقیقت تک کسی عقل و خیال کی رسائی نہیں ہو سکتی۔ اے برتر از قیاس و گمان و خیال و وہم اے بروں از جملہ قال و قیل من و زہرچہ دیدہ ایم و شنیدیم و خواندہ ایم خاک بر فرق من و تمثیل من

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ہُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ۝ ٠ ۚ وَہُوَبِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝ ٣ الاول۔ ہر چیز سے پہلا۔ کوئی اس سے پہلے نہیں۔ ہر موجود چیز کو نیستی سے ہستی میں لانے والا وہی ہے۔ الاخر ہر چیز کے فنا ہوجانے کے بعد باقی رہنے والا۔ ہر چیز اپنی ذات کے اعتبار سے فناء پذیر ہے اللہ تعالیٰ کا وجود اصل ہے جو قابل زوال نہیں۔ الظاھر ۔ ہر چیز سے بڑھ کر اس کا ظہور ہے۔ یہ ظھور سے جس کے معنی ظاہر ہونے بلند جگہ پر ہونے اور قابو پانے کے ہیں۔ اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر ہے۔ اسماء الٰہی میں الظاھر سے مراد وہ ذات عالی ہے جو ہر شے سے اوپر ہو اور ہر چیز پر غالب ہو۔ الباطن سب سے چھپا ہوا۔ بطن وبطرن سے واحد مذکر اسم فاعل کا صیغہ ہے جو غیر محسوس ہو اور آثار و افعال کے ذریعہ سے اس کا ادراک کیا جائے۔ اس کی حقیقت ذات سے مخفی ہے۔ والظاهر والباطن في صفات اللہ تعالی: لا يقال إلا مزدوجین، كالأوّل والآخرفالظاهر قيل : إشارة إلى معرفتنا البديهية، فإنّ الفطرة تقتضي في كلّ ما نظر إليه الإنسان أنه تعالیٰ موجود، كما قال : وَهُوَ الَّذِي فِي السَّماءِ إِلهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلهٌ [ الزخرف/ 84] ، ولذلک قال بعض الحکماء : مثل طالب معرفته مثل من طوف في الآفاق في طلب ما هو معه . والبَاطِن : إشارة إلى معرفته الحقیقية، وهي التي أشار إليها أبو بکر رضي اللہ عنه بقوله : يا من غاية معرفته القصور عن معرفته . وقیل : ظاهر بآیاته باطن بذاته، وقیل : ظاهر بأنّه محیط بالأشياء مدرک لها، باطن من أن يحاط به، كما قال عزّ وجل : لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] . صفات الہی سے ہیں ۔ اور الاول والاخر کی طرح مزدجر یعنی ایک دوسرے کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں ۔ الظاھر کے متعلق بعض کا قول ہے کہ یہ اس معرفت کی طرف اشارہ ہے جو ہمیں بالبداہت حاصل ہوتی کیونکہ انسان جس چیز کی طرف بھی نظر اٹھا کر دیکھے اس کی فطرت کا یہی فیصلہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ موجود ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي فِي السَّماءِ إِلهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلهٌ [ الزخرف/ 84] اور وہی ایک آسمانوں میں معبود ہے اور دوہی زمین میں معبود ہے اسی لئے بعض حکماء کا قول ہے کہ معرفت الہی کے طالب کی مثال اس شخص کی ہے جو اطراف عالم میں ایسی چیز کی تلاش میں سر گردان پھر رہا ہو ۔ جو خود اس کے پاس موجود ہو ۔ اور الباص سے اس حقیقی معرفت کی طرف اشارہ ہے جس کے متعلق حضرت ابوبکر نے فرمایا ہے ۔ اے وہ ذات جس کی معرفت کی انتہا اس کی معرفت سے در ماندگی ہے ) بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی آیات دولائل قدرت کے لحاظ سے ظاہر ہے اور باعتبار ذات کے باطن ہے ۔ اور بعض نے کہا کہ الظاہر سے اس کا تمام اشیاء پر محیط ہونا مراد ہے اور اس اعتبار سے کہ وہ ہمارے احاطہ اور اک میں نہیں آسکتا الباطن ہے ۔ چناچہ فرمان الہی ہے ۔ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] وہ ایسا ہے کہ ) نگاہوں کا اور اک کرسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ہر ایک چیز پر غالب ہے اور ہر ایک ظاہر و باطن سے واقف اور باخبر ہے اور اس کے اس علم میں سے کسی کے مطلع کرنے کی حاجت نہیں یا مطلب ہے کہ وہ ہر ایک چیز سے پہلے ہے اور اس اولیت کی کوئی انتہا نہیں اور ہر ایک چیز کے بعد بھی ہے اور اس کے بعد رہنے کی کوئی انتہا نہیں یا یہ کہ وہ اول ہے کہ ہر ایک پہلی چیز کو اولیت عطا کرنے والا ہے اور آخر ہے یعنی ہر ایک بعد والی چیز کو اخرویت عطا کرنے والا ہے اور وہ سب سے اول ہے اس سے پہلے کوئی نہیں اور وہ آخر ہے کہ سب کے فنا کرنے کے بعد وہی رہے گا۔ اور وہی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اس کی ذات موت و فنا زوال سے پاک ہے اور کوئی چیز خواہ ظاہر ہو یا پوشیدہ اول ہو یا آخر وہ سب سے واقف ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣{ ہُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ } ” وہی اول ہے ‘ وہی آخر ہے ‘ وہی ظاہر ہے ‘ وہی باطن ہے۔ “ ایک انسان کے لیے اس کیفیت کو سمجھنا یقینا مشکل ہے کہ ہر زمان ‘ ہر مکان اگر وہ ہی وہ ہے تو پھر باقی سب کیا ہے۔ غالب ؔنے اس صورت حال سے متعلق انسانی حیرت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے : ؎ جبکہ تجھ بن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے ؟ اس آیت کے بارے میں امام رازی (رح) کا درج ذیل قول بہت فکر انگیز ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس آیت کو پڑھ کر وہ جلالِ ذات کے رعب کے باعث ساکت و ششدر ہوئے کھڑے ہیں۔ لکھتے ہیں : اِعْلَمْ اَنَّ ھٰذا المَقامَ مقامٌ غامِضٌ عمیقٌ مُہیبٌ” جان لو کہ یہ بہت مشکل ‘ بہت گہرا اور بڑا ُ پرہیبت مقام ہے ! “ اس کی حقیقت کا سمجھنا آسان کام نہیں ہے۔ گویا بقول شاعر ع ” ہشدار کہ رہ بر دمِ تیغ است قدم را ! “ اس راستے پر خبردار ہو کر چلنا ‘ اب تمہار اپائوں تلوار کی دھار پر آگیا ہے ! صوفیاء نے ” وحدت الوجود “ کا فلسفہ اسی آیت سے اخذ کیا ہے ‘ لیکن یہ فلسفے کا بھی مشکل ترین مسئلہ ہے۔ ” وحدت الوجود “ کی تعبیر میں کچھ لوگوں نے ” ہمہ اوست “ کا تصور گھڑا ہے جس کے کفر و شرک ہونے میں کسی اہل علم کو اختلاف نہیں ہے۔ بہرحال ” وحدت الوجود “ کے بارے میں یہ حقیقت بھی واضح رہنی چاہیے کہ یہ عام لوگوں کی سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے ۔ البتہ میں نے اپنے مذکورہ دروس میں اپنی حد تک اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے اور پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم (١٨٩٦۔ ١٩٨٤ ئ) سے مجھے اپنی اس وضاحت کی سند بھی مل چکی ہے ۔ ایک مرتبہ اسی سورت کے میرے ایک درس میں پروفیسر صاحب بھی موجود تھے۔ درس کے بعد مجھ سے کہنے لگے کہ اس ” وحدت الوجود “ کے مسئلے کو پڑھتے پڑھاتے اور سمجھتے سمجھاتے مجھے پچاس برس ہوگئے ہیں ‘ لیکن آپ نے اس ایک درس میں اسے جس انداز میں واضح کیا ہے میں آج تک نہیں کرسکا۔ یہاں ان سطور میں اس مسئلے کی وضاحت کرنا میرے لیے ممکن نہیں ۔ تفصیل معلوم کرنے کے خواہش مند حضرات سورة الحدید پر میرے متعلقہ دروس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ بہرحال اس آیت کا آسان مفہوم یہ ہے کہ یہ کائنات ” حادث “ ہے۔ ایک وقت تھا جب یہ موجود نہیں تھی اور جب یہ موجود نہیں تھی اس وقت کون موجود تھا ؟ ظاہر ہے اللہ اس وقت بھی موجود تھا۔ تو اس کائنات کا آغاز کہاں سے ہوا ؟ اللہ سے ! پھر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب اس کائنات میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ { کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ ۔ } (الرحمن) ” جو کوئی بھی اس (زمین) پر ہے فنا ہونے والا ہے۔ “ تو جب یہ سب کچھ نہیں رہے گا تو اس وقت کون موجود ہوگا ؟ { وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ ۔ } (الرحمٰن) ” اور باقی رہے گا صرف تیرے رب کا چہرہ جو بہت بزرگی والا اور بہت عظمت والا ہے۔ “ تو جب کچھ نہیں رہے گا تو اللہ اس وقت بھی موجود ہوگا۔ تو پھر ” آخر “ کون ہوا ؟ ظاہر ہے کہ اللہ ! اب یوں سمجھیں کہ اول اور آخر کے مابین ظاہر بھی وہ ہے اور باطن بھی وہ ہے۔ اس مشکل مضمون کو درج ذیل حدیث نے عام لوگوں کے لیے آسان کردیا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے : (اَللّٰھُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ وَرَبَّ الْاَرْضِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ ‘ رَبَّـنَا وَرَبَّ کُلَّ شَیْئٍ ‘ فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوٰی ‘ وَمُنْزِلَ التَّوْرَاۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْفُرْقَانِ ‘ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْئٍ اَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہٖ ‘ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الْاَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْئٌ وَاَنْتَ اْلآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْئٌ وَاَنْتَ الظَّاھِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْئٌ وَاَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُوْنَکَ شَیْئٌ) (١) ” اے اللہ آسمانوں اور زمین کے رب ! اے عرش عظیم کے مالک ! اے ہمارے رب اور ہرچیز کے پروردگار ! اے دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والے اور تورات ‘ انجیل اور فرقان کو نازل کرنے والے ! میں ہرچیز کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں جس کی پیشانی تیرے قبضہ قدرت میں ہے۔ اے اللہ ! تو ہی اوّل ہے ‘ پس تجھ سے پہلے کوئی چیز نہ تھی اور تو ہی آخر ہے ‘ تیرے بعد کوئی چیز نہ ہوگی ‘ اور تو ہی ظاہر ہے ‘ تجھ سے بالاتر کوئی چیز نہیں ‘ اور تو ہی ایسا باطن ہے کہ تجھ سے مخفی کوئی چیز نہیں۔ “ { وَہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ ۔ } ” اور وہ ہرچیز کا علم رکھتا ہے۔ “ جب ہر زمان ‘ ہر مکان وہ ہی وہ ہے ‘ وہ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی تو کائنات کی کوئی ذرہ بھر چیز بھی اس سے پوشیدہ کیسے ہوسکتی ہے ! بلکہ وہ تو انسان کے دل میں پیدا ہونے والے خیالات سے بھی آگاہ ہے۔ اس حوالے سے سورة قٓ کی یہ آیت ہم پڑھ چکے ہیں : { وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَـیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ ۔ } ” اور ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم خوب جانتے ہیں جو اس کا نفس وسوسے ڈالتا ہے ‘ اور ہم تو اس سے اس کی رَگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں “۔ پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے ہرچیز پر قادر (عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ) ہونے کا اعلان ہوا ہے ‘ جبکہ زیر مطالعہ آیت میں اس کے علم ِکل ُ کا بیان ہے کہ اسے ہرچیز کا علم ہے (وَھُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ) ۔ اللہ تعالیٰ کی یہ دو صفات ایسی ہیں جن کا ذکر قرآن میں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

3 That is, "When there was nothing, He was, and when there will be nothing, He will be. He is the most Manifest of all the manifest, for whatever manifests itself in the world, does 50 only by His attributes and His works and His light. And He is the Most Hidden of all the hidden, for not only do the senses fail to percieve Him but the intellect and thought and imagination also cannot attain to His essence and reality. The best commentary in this regard are the words of a supplication of the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace and blessings). which Imam Ahmad, Muslim, Tirmidhi, and Baihaqi have related on the authority of Hadrat Abu Hurairah, and Hafiz Abu Ya'la Mosuli in his Musnad on the authority of Hadrat 'A'ishah: "Antal Awwal, fa-laisa qablaka shai'in; wa Antal Akhir fa-laisa ba 'daka shai 'in; wa Antal Zahir, fa-laisa fauqaka shai in; wa Anfal Batin, fa laisa dunaka shai'in. " "You alone are the First; none is before You; You alone are the Last: none is after You; You alone are the Exalted none is above You; You alone are the Hidden: none is more hidden than You. " Here, the question arises: How does this accord with the immortality and eternal life of the dwellrs of Paradise and Hell mentioned in the Qur'an when Allah alone is the Last and Eternal? Its answer has been provided by the Qur'an itself: "Everything is perishable except Allah Himself." (AI-Qasas: 88). In other words no creature is immortal in its personal capacity; if a thing exists or continuos to exist, it does so because Allah keeps it so, and can exist only by His letting it exist; otherwise in its own capacity everything is perishable except Allah, Immortality in Heaven and Hell will not be bestowed upon somebody because he is immortal by himself, but because AIIah will grant him eternal life. The same is true of the angels: they are not immortal by themselves. When Allah willed they came into existence, and will continue to exist only as long as Her wills.

سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :3 یعنی جب کچھ نہ تھا تو وہ تھا اور جب کچھ نہ رہے تو وہ رہے گا ۔ وہ سب ظاہروں سے بڑھ کر ظاہر ہے ، کیونکہ دنیا میں جو کچھ بھی ظہور ہے اسی کی صفات اور اسی کے افعال اور اسی کے نور کا ظہور ہے ۔ اور وہ ہر مخفی سے بڑھ کر مخفی ہے ، کیونکہ حواس سے اس کی ذات کو محسوس کرنا تو درکنار ، عقل و فکر و خیال تک اس کی کنہ و حقیقت کو نہیں پا سکتے ۔ اس کی بہترین تفسیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا کے یہ الفاظ ہیں جنہیں امام احمد ، مسلم ، ترمذی ، اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ سے اور حافظ ابو یعلیٰ موصلی نے اپنی مسند میں حضرت عائشہ سے نقل کیا ہے : انت الاول فلیس قبلک شیءٍ تو ہی پہلا ہے ، کوئی تجھ سے پہلے نہیں وانت الاٰخر فلیس بعدک شیءٍ تو ہی آخر ہے ، کوئی تیرے بعد نہیں و انت الظاھر فلیس فوقک شئٍ تو ہی ظاہر ہے کوئی تجھ سے اوپر نہیں و انت الباطن فلیس دونک شئٍ تو ہی باطن ہے ، کوئی تجھ سے مخفی تر نہیں یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں اہل جنت اور اہل دوزخ کے لیے خلود اور ابدی زندگی کا جو ذکر کیا گیا ہے اس کے ساتھ یہ بات کیسے نبھ سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آخر ہے ، یعنی جب کچھ نہ رہے گا تو وہ رہے گا ؟ اس کا جواب خود قرآن مجید ہی میں موجود ہے کہ کُلُّ شَیْءٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہ ( القصص ۔ 88 ) ۔ یعنی ہر چیز فانی ہے اللہ کی ذات کے سوا ۔ دوسرے الفاظ میں ذاتی بقا کسی مخلوق کے لیے نہیں ہے ۔ اگر کوئی چیز باقی ہے یا باقی رہے تو وہ اللہ کے باقی رکھنے ہی سے باقی ہے ۔ اور اس کے باقی رکھنے ہی سے باقی رہ سکتی ہے ، ورنہ بذات خود اس کے سوا سب فانی ہیں ۔ جنت اور دوزخ میں کسی کو خلود اس لیے نہیں ملے گا کہ وہ بجائے خود غیر فانی ہے ، بلکہ اس لیے ملے گا کہ اللہ اس کو حیات ابدی عطا فرمائے گا ۔ یہی معاملہ فرشتوں کا بھی ہے کہ وہ بذات خود غیر فانی نہیں ہیں ۔ جب اللہ نے چاہا تو وہ وجود میں آئے ، اور جب تک وہ چاہے اسی وقت تک وہ موجود رہ سکتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: اللہ تعالیٰ اول اس معنی میں ہے کہ اس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی، اور وہ ہمیشہ سے موجود ہے، وہ آخراس معنی میں ہے کہ جب اس کائنات کی ہرچیز فنا ہوجائے گی تو وہ اس وقت بھی موجود رہے گا، وہ ظاہر اس لحاظ سے ہے کہ اس کے وجود اس کی قدرت اور اس کی حکمت کی نشانیاں اس کائنات میں ہر جگہ پھیلی ہوئی ہیں، جو اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ وہ موجود ہے، اور چھپا ہوا اس معنی میں ہے کہ یہاں دنیا میں وہ آنکھوں سے نظر نہیں آتا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(57:3) الاول۔ ہر چیز سے پہلا۔ کوئی اس سے پہلے نہیں۔ ہر موجود چیز کو نیستی سے ہستی میں لانے والا وہی ہے۔ الاخر ہر چیز کے فنا ہوجانے کے بعد باقی رہنے والا۔ ہر چیز اپنی ذات کے اعتبار سے فناء پذیر ہے اللہ تعالیٰ کا وجود اصل ہے جو قابل زوال نہیں۔ الظاھر۔ ہر چیز سے بڑھ کر اس کا ظہور ہے۔ یہ ظھور سے جس کے معنی ظاہر ہونے بلند جگہ پر ہونے اور قابو پانے کے ہیں۔ اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر ہے۔ اسماء الٰہی میں الظاھر سے مراد وہ ذات عالی ہے جو ہر شے سے اوپر ہو اور ہر چیز پر غالب ہو۔ الباطن سب سے چھپا ہوا۔ بطن وبطرن سے واحد مذکر اسم فاعل کا صیغہ ہے جو غیر محسوس ہو اور آثار و افعال کے ذریعہ سے اس کا ادراک کیا جائے۔ اس کی حقیقت ذات سے مخفی ہے۔ وھو بکل شیء علیہم : اور وہی ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ الازہری (رح) نے کہا ہے کہ : الظاھر والباطن بمعنی العالم لما ظھر وبطن جو ظاہر ہے اور پوشیدہ ہے اس جاننے والا بغوی (رح) نے لکھا ہے کہ : حضرت عمر (رض) سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو فرمایا کہ :۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح آخر کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے ایسے ہی اول کا علم بھی اسی کو ہے (یعنی مبدأ اور منتہاء دونوں کا علم اس کو ایک جیسا ہے) اور جیسے باطن کا علم ہے ویسا ہی ظاہر کا علم ہے (یعنی وہی عالم الغیب والشہادۃ ہے) ظاہر اور پوشیدہ سب اس کے علم میں برابر ہے (تفسیر مظہری )

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی وہ سب موجودات سے پہلے تھا اور سب موجدات کے فنا ہوجانے کے بعد باقی رہے گا۔11 یا کھلا ہوا اور پوشیدہ اور وہ اس لحاظ سے کہ اس کی کاریگری کے آثار کھلے ہوئے ہیں اور اس کی ذات مقدس ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے۔ آنحضرت نے ظاہر کی تفسیر بلند اور غالب سے کی ہے ایک ماثور دعا ہے : وانت الظاھر فلیس فوقک شی یعنی تو ہیظاہر ہے اور تیرے اوپر کوئی چیز نہیں۔ (ابن کثیر بحوالہ صحیح مسلم)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی نہ اس پر عدم سابق طاری ہوا ہے اور نہ عدم لاحق طاری ہوگا۔ 2۔ یعنی کوئی اس کی ذات کا ادراک نہیں کرسکتا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ھوالاول ................ علیم (٧٥ : ٣) ” وہی اول بھی ہے اور آخر بھی ، اور ظاہر بھی ہے اور مخفی بھی اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ “ وہ اول یوں ہے کہ اس سے ماقبل کوئی چیز نہیں ہے۔ آخر یوں ہے کہ اس کے بعد کوئی چیز نہ ہوگی وہ ظاہر ہے یعنی اس کے اوپر کوئی چیز نہیں ہے اور وہ باطن ہے یعنی اس سے نیچے کوئی شیئی نہیں ہے۔ اول اور آخر کے الفاظ حقیقت زمانیہ کا استیعاب کرتے ہیں اور ظاہر اور باطن حقیقت مکانیہ کا استیعاب کرتے ہیں۔ مطلقاً ہر زمانے میں وہ موجود ہے اور مطلقاً ہر مکان میں وہ موجود ہے۔ اور کسی زمان ومکان میں قید نہیں ہے۔ اس تصور کے مطابق صرف وہی ہے اور اس کے سوا کوئی نہیں ہے اور ہمارا قلب اور ہمارا تصور بھی اسی سے وجود اخذ کرتا ہے۔ لہٰذا وجود الٰہی ہی حقیقی وجود ہے اور اللہ ہی حق ہے اور اللہ ہی حقیقت ہے اور کوئی حقیقت ہے تو وہ اللہ سے مستعاد ہے۔ نہ کسی اور کے پاس ذاتی حقیقت ہے اور نہ ذاتی وجود ہے ، اس پوری کائنات میں۔ وھو ................ علیم (٧٥ : ٣) ” اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ “ وہ حقیقی اور کامل علم رکھتا ہے۔ اس لئے کہ تمام اشیاء کی حقیقت تو ادھر ہی سے آئی ہوئی ہے لہٰذا اللہ کے ذاتی علم میں ہے۔ اور اللہ کا علم ایسا ہے کہ اس کی حقیقت ، اس کی نوعیت اور اس کی صفات میں کوئی بھی شریک نہیں۔ کسی اور کے پاس ایسا علم نہیں ہے۔ چاہے مخلوق کو جس قدر ظاہری معلومات بھی ہوں۔ جب کسی دل میں یہ حقیقت بیٹھ جاتی ہے تو اسے پھر اللہ کی ذات کے سوا کسی اور چیز کی پرواہ ہی نہیں رہتی۔ کوئی چیز یہاں تک کہ انسانی قلب وعقل کوئی حقیقت اور کوئی وجود نہیں رکھتے مگر وہی جو اس حقیقت کبریٰ نے عطا کیا ہوتا ہے۔ ہر چیز وہم ہے ، جانے والی ہے۔ صرف اللہ ہی باقی رہنے والا ہے۔ اور وہی ایک حقیقی وجود ہے۔ جب کوئی دل اس حقیقت کو اپنے اندر بٹھا لے تو وہ اس حقیقت تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔ وہ ایک نہایت ہی بلند مرتبہ سکون وقرار تک پہنچ جاتا ہے۔ لیکن جب تک وہ اس رتبہ حصول الی الحقیقت پر فائز نہیں ہوجاتا اسے چاہئے کہ وہ اس آیت پر تدبر کرتا رہے اور یہ کوشش کرتا رہے کہ وہ اس کے مدلول اور حقیقت تک پہنچ جائے ، اس آیت کا مفہوم ہی بڑی حقیقت ہے۔ اہل تصوف نے اسی حقیقت ، عظیم حقیقت کو پکڑ لیا۔ انہوں نے اسے اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا اور اس میں انہوں نے کئی کئی راتے نکالے۔ بعض نے کہا کہ وہ اس کائنات کی ہر چیز میں اللہ کو دیکھتے ہیں۔ بعض نے کہا انہوں نے دیکھا کہ ہر چیز کے پیچھے اللہ کھڑا ہے۔ بعض نے کہا کہ اس نے اللہ کو دیکھا ہے اور اس کائنات میں تو اسے اللہ کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اگر ہم الفاظ کی کمی بیشی اور الفاظ کی تنگ دامانی کو نظر انداز کردیں تو یہ سب اقوال اسی حقیقت کی طرف اشارہ کررہے ہیں ، لیکن متصوفین پر جو تنقید کی جاسکتی ہے۔ وہ صرف یہ ہے انہوں نے اس تصور کو اپنے اوپر اس قدر طاری کردیا ہے کہ عملی زندگی کو مہمل کردیا۔ جبکہ اسلام کا متوازن انداز یہ تھا کہ انسان کے دل و دماغ اس حقیقت کو اخذ کریں ، اس کے اندر رہیں اور بسیں لیکن وہ اس کرہ ارض پر فریضہ خلافت بھی ادا کریں جس کے لئے اللہ نے ان کی تخلیق کی ہے۔ اور اس کے تمام تقاضے پورے کریں جن میں سے بڑی چیز یہ ہے کہ وہ اس کائنات میں وہ نظام زندگی قائم کریں جو اللہ نے اس قرآن میں نازل فرمایا ہے۔ اس خیال سے کہ اس عظیم حقیقت کے تصور ہی کے مطابق اس دنیا میں انسان کو اپنی زندگی بسر کرنی ہے۔ یہ نظام فطرت انسانی کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ کائنات کی فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہے جس طرح اللہ نے اسے پیدا کیا ہے اور جس طرح اس نے قرآن کو بطور ہدایت نامہ بھیجا ہے۔ اس عظیم حقیقت کو قلب میں بٹھانے کے بعد اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس حقیقت کبریٰ کا ظہور اس کائنات میں کیونکر ہوا ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) وہی سب سے اول اور سب سے آخر ہے اور وہی ظاہر اور وہی باطن اور مخفی ہے اور وہ ہر چیز کو بخوبی جاننے والا ہے۔ یعنی تمام مخلوقات سے پہلے وہی تھا اور تمام مخلوقات کے بعد وہی رہے گا نہ اس پر عدم سابق طاری ہوا اور نہ عدم لاحق طاری ہوگا جیسا کہ عام مخلوقات دو عدموں کے درمیان ہے سابق میں بھی معدوم تھی اور عدم لاحق کے بعد پھر معدوم ہوگی اور وہ اپنے مطلق وجود او شئونات بےپایا کے اعتبار سے ظاہر اور کنہ ذات کے اعتبار سے بالکل مخفی اور پوشیدہ ہے یعنی کوئی اس کی ذات کا ادراک نہیں کرسکتا اور وہ ہر شئی سے خوب واقف ہے یعنی ہر شئی کو من کل الوجو وہ جانتا ہے اور خودمن وجہ معلوم اور من وجہ نامعلوم۔ سبحانہ ا اعظم شانہ۔