Surat ul Hadeed

Surah: 57

Verse: 8

سورة الحديد

وَ مَا لَکُمۡ لَا تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ۚ وَ الرَّسُوۡلُ یَدۡعُوۡکُمۡ لِتُؤۡمِنُوۡا بِرَبِّکُمۡ وَ قَدۡ اَخَذَ مِیۡثَاقَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۸﴾

And why do you not believe in Allah while the Messenger invites you to believe in your Lord and He has taken your covenant, if you should [truly] be believers?

تم اللہ پر ایمان کیوں نہیں لاتے؟ حالانکہ خود رسول تمہیں اپنے رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے اور اگر تم مومن ہو تو وہ تم سے مضبوط عہد و پیمان بھی لے چکا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا لَكُمْ لاَ تُوْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ لِتُوْمِنُوا بِرَبِّكُمْ ... And what is the matter with you that you believe not in Allah! While the Messenger invites you to believe in your Lord; meaning, what prevents you from believing, while the Messenger is among you calling you to faith and bringing forward clear proofs and evidences that affirm the truth of wh... at he brought you? And we have reported the Hadith through different routes in the beginning of the explanation on the chapter on Faith in Sahih Al-Bukhari, wherein one day the Messenger of Allah said to his Companions, أَيُّ الْمُوْمِنِينَ أَعْجَبُ إِلَيْكُمْ إِيمَانًا Who do you consider among the believers as having the most amazing faith? They said, "The angels." He said, وَمَا لَهُمْ لاَ يُوْمِنُونَ وَهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ And what prevents them from believing when they are with their Lord? They said, "Then the Prophets." He said, وَمَالَهُمْ لاَ يُوْمِنُونَ وَالْوَحْيُ يَنْزِلُ عَلَيْهِمْ What prevents them from believing when the revelation comes down to them? They said, "Then us." He said, وَمَالَكُمْ لاَ تُوْمِنُونَ وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ وَلكِنْ أَعْجَبُ الْمُوْمِنِينَ إِيمَانًا قَوْمٌ يَجِييُونَ بَعْدَكُمْ يَجِدُونَ صُحُفًا يُوْمِنُونَ بِمَا فِيهَا What prevents you from believing, when I am amongst you Actually, the believers who have the most amazing faith, are some people who will come after you; they will find pages that they will believe in. We mentioned a part of this Hadith when explaining Allah's statement in Surah Al-Baqarah, الَّذِينَ يُوْمِنُونَ بِالْغَيْبِ (who believe in the Ghayb (unseen), (2:3) Allah's statement, ... وَقَدْ أَخَذَ مِيثَاقَكُمْ ... and He has indeed taken your covenant, is similar to another of His statements, وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمِيثَـقَهُ الَّذِى وَاثَقَكُم بِهِ إِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا And remember Allah's favor to you and His covenant with which He bound you when you said: "We hear and we obey." (5:7), which refers to giving the pledge of allegiance to the Prophet. Ibn Jarir said that the covenant mentioned here, is that taken from mankind, when they were still in Adam's loin. This is also the opinion of Mujahid, and Allah knows best. ... إِن كُنتُم مُّوْمِنِينَ if you are real believers. Allah said,   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

81ابن کثیر نے اخذ کا فاعل الرسول کو بنایا ہے اور مراد وہ بیعت لی ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام سے لیتے تھے کہ خوشی اور ناخوشی ہر حالت میں اطاعت کرنی ہے اور امام ابن جریر کے نزدیک اس کا فاعل اللہ ہے اور مراد وہ عہد ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں سے اس وقت لیا تھا جب انہیں آد... م (علیہ السلام) کی پشت سے نکالا تھا، جو عہد الست کہلاتا ہے، جس کا ذکر (وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا سَنَسْـتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ182ښ) 7 ۔ الاعراف :182) میں ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١] یہاں ایمان لانے سے مراد اللہ اور اس کے رسول کے ان وعدوں کو یقینی اور سچا سمجھنا ہے جو اسلام کے غلبہ سے متعلق انہوں نے مسلمانوں سے کر رکھے ہیں۔ یہ وعدے بھی کہ جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اس سے بہت زیادہ تمہیں غنائم وغیرہ کی صورت میں لوٹا دے گا اور یہ وعدے بھی کہ اللہ آخرت میں تمہیں ایسے صدقات کا ... بہت زیادہ اجر دے گا۔ [١٢] اس اقرار سے مراد عہد (اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ١٧٢؀ۙ ) 7 ۔ الاعراف :172) بھی ہوسکتا ہے جس کی رو سے ہر شخص نے یہ اقرار کیا تھا کہ وہ اللہ کا فرمانبردار بن کر زندگی گزارے گا اور اسلام لانا بھی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اسلام میں داخل ہونا بذات خود اس بات کا پختہ اقرار ہوتا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا فرمانبردار بن کر رہے گا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ وَمَا لَکُمْ لاَ تُؤْمِنُوْنَ بِ اللہ ِ ج ۔۔۔۔۔۔: یہ خطاب بھی مسلمانوں ہی سے ہے ، اس کی دلیل آیت کا آخری جملہ والی آیت (١٠) (لاَ یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰـتَلَ ط ) بھی اس کی دلیل ہے ۔ جس طرح پچھلی آیت میں ایمان والوں کو ایمان لانے اور خرچ کرنے کا حکم ہے ، اسی ط... رح اس آیت میں بھی انہیں جھنجھوڑا جا رہا ہے کہ آخر وجہ کیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے ؟ یعنی اس پر ایمان کے تقاضوں پر عمل کرتے ہوئے اس کے راستے میں خرچ نہیں کرتے ، حالانکہ رسول خود تمہارے درمیان موجود ہے اور بہ نفس نفیس تمہیں اس بات کی دعوت دے رہا ہے کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ اور اس پر یقین رکھتے ہوئے اس کی راہ میں خرچ کرو۔ ٢۔ وَقَدْ اَخَذَ مِیْثَاقَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ :” اخذ “ کا فاعل ” الرسول “ کی ضمیر بھی ہوسکتی ہے اور لفظ ” اللہ “ کی ضمیر بھی ، یعنی جب تم نے ایمان قبول کیا تھا اس وقت اللہ نے تم سے اطاعت کا پختہ عہد لیا تھا، اسی طرح کلمہ ٔ اسلام کے ساتھ تم رسول کو بھی اپنی اطاعت کا پختہ عہد دے چکے ہو ، تو اب اطاعت سے گریز اور جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کرنے سے دریغ کیوں کر رہے ہو ؟ اللہ تعالیٰ کے عہد لینے کا ذکر اس آیت میں ہے :(وَاذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللہ ِ عَلَیْکُمْ وَمِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہٖٓ لا اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَاز وَاتَّقُوا اللہ ط اِنَّ اللہ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ) (المائدہ : ٧)” اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو اور اس کا عہد جو اس نے تم سے مضبوط باندھا ، جب تم نے کہا ہم نے سنا اور ہم نے مان لیا اور اللہ سے ڈرو ، بیشک اللہ سینوں کی بات کو خوب جاننے والا ہے “۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عہد دینے کا ذکر اس حدیث میں ہے جو عبادہ بن صامت (رض) سے مروی ہے ، انہوں نے فرمایا :( بایعنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) علی السمع والطاعۃ فی المنشط والمکرہ وان لا ننازع الامر اھلہ ٗ ، وان نقوم او نقول بالحق حیثما کنا ، لا نحاف فی اللہ لومۃ لائم ) (بخاری ، الاحکام ، باب کیف یبابع الامام الناس ؟: ٧١٩٩، ٧٢٠٠) ” ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کی کہ نشاط اور ناگواری دونوں حالتوں میں سمع و طاعت کریں گے اور صاحب امر سے امارات میں جھگڑا نہیں کریں گے اور جہاں بھی ہوں گے حق کہیں گے ، اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے “۔ ٣۔ بعض مفسرین نے ” وَقَدْ اَخَذَ مِیْثَاقَکُمْ “ سے ” الست بربکم “ والا عہد مراد لیا ہے ، جس کا ذکر سورة ٔ اعراف (١٧٢) میں ہے ، مگر یہاں آیات کا سیاق اس کی موافقت نہیں کرتا ، اس لیے پہلی تفسیر ہی درست ہے۔ ابن کثیر (رح) تعالیٰ نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Ordering Faith وَقَدْ أَخَذَ مِيثَاقَكُمْ (...and He has taken your covenant ....57:8) This could refer to the covenant taken in ` anal& (pre-eternity). According to verses 172-174 of Surah Al-A&raf, Allah gathered all the souls even before they took the form of their existence, and took the covenant of &alast& [ the pre-eternal covenant ]. He asked them: اَلَستُ بِرَبِّکُم (|"Am ... I not your Lord?|" ) They replied: بَلیٰ (Of course You are, we affirm). Another possibility is that this covenant could refer to the pledge taken from the previous prophets and their followers to believe in the final Prophet Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and support him. This covenant is mentioned by the Holy Qur&an in the following words: ثُمَّ جَاءَكُمْ رَ‌سُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُ‌نَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَ‌رْ‌تُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِ‌ي ۖ قَالُوا أَقْرَ‌رْ‌نَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ |"...then comes to you a messenger verifying what is with you; you shall have to believe in him and you shall have to support him. He said: &Do you affirm and accept my covenant in this respect?& They said: &We affirm.& He said: &Then, bear witness, and I am with you among the witnesses.|" (3:81) إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (...if you are believers - 57:8). A question may arise here: In the earlier part of this very verse [ 8], the infidels and idolaters were reprimanded in the following words, |"And what is wrong with you that you do not believe in Allah|" This goes to show that the addressees of this phrase are &non-believers&, then how is it appropriate to say &if you are believers&? The answer to this question is that the unbelievers did not deny the existence of the Creator. In point of fact, they claimed to believe in God, and thus they used to say مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّ‌بُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ (We only worship them [ the idols ] that they may bring us nearer to Allah in position....39:3) In this context, the concluding phrase of verse [ 8] implies that &If your claim [ that you believe in God ] is true, then go about the perfect and right way in |"believing in God|" which is not only to believe in God but also to believe in His Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) .  Show more

معارف ومسائل وَقَدْ اَخَذَ مِيْثَاقَكُمْ ، اس سے میثاق ازل بھی مراد ہوسکتا ہے، جب کہ حق تعالیٰ نے مخلوقات کے پیدا ہونے سے پہلے ہی وجود میں آنے والی تمام ارواح کو جمع کر کے ان سے ربوبیت یعنی اللہ تعالیٰ کے رب العالمین ہونے کا اقرار اور عہد لیا تھا جس کا ذکر قرآن میں (الست بربکم قالو ابلیٰ ) کے الفا... ظ سے آیا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس میثاق سے وہ عہد و میثاق مراد ہو جو پچھلے انبیاء اور ان کی امتوں سے خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے اور ان کی مدد کرنے کے متعلق لیا گیا ہے، جس کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں ہے (آیت) (ثُمَّ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٗ ۭ قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰي ذٰلِكُمْ اِصْرِيْ ۭ قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا ۭ قَالَ فَاشْهَدُوْا وَاَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِيْنَ ) اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ، یعنی اگر تم مومن ہو، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کلام ان کفار سے ہو رہا ہے جن کے مومن نہ ہونے پر تنبیہ اس سے پہلے آ چکی ہے وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ ، پھر ان کو یہ کہنا کیسے درست ہوگا کہ |" اگر تم مومن ہو |"۔ جواب یہ ہے کہ کفار و مشرکین بھی اللہ تعالیٰ پر تو ایمان کے مدعی تھے، بتوں کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ ہم ان کی پرستش اس لئے کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہماری سفارش کریں گے (آیت) ما نعبدھم الا لیقربونا الی اللہ زلفی، تو مطلب آیت کا یہ ہوا کہ تم جو اللہ پر ایمان رکھنے کے مدعی ہو اگر تمہارا یہ دعویٰ سچا ہے تو پھر ایمان باللہ کی صحیح اور معتبر صورت اختیار کرو جو اس کے بغیر نہیں ہو سکتی کہ اللہ پر ایمان لانے کے ساتھ اس کے رسول پر بھی ایمان لاؤ۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝ ٠ ۚ وَالرَّسُوْلُ يَدْعُوْكُمْ لِتُؤْمِنُوْا بِرَبِّكُمْ وَقَدْ اَخَذَ مِيْثَاقَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝ ٨ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غي... ر أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ وثق وَثِقْتُ به أَثِقُ ثِقَةً : سکنت إليه واعتمدت عليه، وأَوْثَقْتُهُ : شددته، والوَثَاقُ والوِثَاقُ : اسمان لما يُوثَقُ به الشیء، والوُثْقَى: تأنيث الأَوْثَق . قال تعالی: وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر/ 26] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد/ 4] والمِيثاقُ : عقد مؤكّد بيمين وعهد، قال : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران/ 81] ، وَإِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثاقَهُمْ [ الأحزاب/ 7] ، وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء/ 154] والمَوْثِقُ الاسم منه . قال : حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف/ 66] ( و ث ق ) وثقت بہ اثق ثقتہ ۔ کسی پر اعتماد کرنا اور مطمئن ہونا ۔ اوثقتہ ) افعال ) زنجیر میں جکڑنا رسی سے کس کر باندھنا ۔ اولوثاق والوثاق اس زنجیر یارسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کو باندھ دیا جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر/ 26] اور نہ کوئی ایسا جکڑنا چکڑے گا ۔ حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد/ 4] یہ ان تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرلو ۔ المیثاق کے معنی پختہ عہدو پیمان کے ہیں جو قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران/ 81] اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء/ 154] اور عہد بھی ان سے پکالیا ۔ الموثق ( اسم ) پختہ عہد و پیمان کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف/ 66] کہ جب تک تم خدا کا عہد نہ دو ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے اہل مکہ تمہارے لیے کیا وجہ ہوئی کہ تم توحید کا اقرار نہیں کرتے حالانکہ رسول اکرم تمہیں توحید کی طرف بلا رہے ہیں تاکہ تم اپنے پروردگار کی توحید کے قائل ہوجاؤ خود اللہ نے تم سے توحید کا عہد لیا تھا جبکہ تم میثاق کے دن اس پر ایمان رکھتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨{ وَمَالَکُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ } ” اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم نہیں ایمان رکھتے اللہ پر ! “ یہ پہلے مطالبے یعنی ” ایمان “ سے متعلق گویا زجر و ملامت اور ایک طرح سے تنبیہہ کا انداز ہے۔ { وَالرَّسُوْلُ یَدْعُوْکُمْ لِتُؤْمِنُوْا بِرَبِّکُمْ } ” جبکہ رسول (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ و... سلم) تمہیں دعوت دے رہے ہیں کہ تم ایمان رکھو اپنے رب پر “ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابھی تمہارے مابین موجود ہیں ‘ اور وہ تم لوگوں کو براہ راست ایمان کی دعوت دے رہے ہیں۔ { وَقَدْ اَخَذَ مِیْثَاقَکُمْ } ” اور دیکھو ! وہ تم سے عہد بھی لے چکا ہے “ اگر تم ایمان کے دعوے دار ہو تو ذرا غور کرو کہ تم نے اپنے رب کے ساتھ کتنے عہد کر رکھے ہیں۔ ایک عہد تو وہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے تم سے عالم ارواح میں لیا تھا : { اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ } ” کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ “ اور تم سب نے اس سوال کے جواب میں { بَلٰی } کہا تھا (بحوالہ الاعراف : ١٧٢) ۔ اس کے بعد تم { سَمِعْنَا وَاَعَطْنَا } (بحوالہ البقرۃ : ٢٨٥ و المائدۃ : ٧) کا عہد بھی کرچکے ہو۔ اس عہد ِاطاعت کے علاوہ تم نے اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو اللہ کے ہاتھ بیچنے کا عہد بھی کر رکھا ہے : { اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ…} (التوبۃ : ١١١) ” یقینا اللہ نے خرید لی ہیں اہل ایمان سے ان کی جانیں بھی اور ان کے مال بھی اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنت ہے “۔ تو تم لوگ اپنے رب کے ساتھ کیے ہوئے اپنے وعدوں اور معاہدوں کا تو لحاظ کرو : { اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ۔ } ” اگر تم حقیقتاً مومن ہو ! “ یہ ڈانٹ سننے کے بعد ہر بندئہ مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے گریبان میں جھانکے اور اپنا جائزہ لے کہ کیا اس کے دل میں حقیقی ایمان موجود ہے یا کچھ خلا سا ہے ؟ الحمد لِلّٰہ ہم سب مسلمان تو ہیں ‘ کسی نہ کسی درجے میں نماز روزہ وغیرہ کا تقاضا بھی پورا کر رہے ہیں ‘ لیکن اللہ کرے ہمیں احساس ہوجائے اور ہم اپنا اپنا جائزہ لیں کہ اسلام کے ساتھ ساتھ کیا ابھی تک ہمیں حقیقی ایمان بھی نصیب ہوا ہے یا نہیں ! اور اگر کسی کو یہ محسوس ہو کہ واقعی اس کے دل میں اس پہلو سے ابھی خلا موجود ہے تو پھر اسے یہ معلوم کرنے کے لیے بھی تگ و دو کرنی چاہیے کہ وہ یقین والا ایمان کہاں سے ملے گا۔ اگلی آیت میں اس حوالے سے راہنمائی فرمائی جا رہی ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11 That is, "You are adopting this unbelieving attitude and conduct at a time when the Messenger of Allah is present among you, and you are receiving the invitation to the Faith not through an indirect and remote means but directly through the Messenger of Allah himself." 12 Some commentators have taken this pledge to imply the pledge of service to Allah, which had been taken at the beginning of ... creation from the future offspring of Adam (peace be upon him), and some others take it for the pledge with which man has been naturally endowed to serve and obey Allah. But the trnth is that it implies the conscious pledge of obedience to Allah and His Messenger that every Muslim makes to his Lord by the affirmation of the Faith At another place in the Qur'an this same pledge has been referred to thus; "Keep in mind the blessing Allah has bestowed upon you and do not forget the solemn covenant which He made with you (and which you confirmed), when you said: `We have heard and submitted.' Fear Allah for Allah knows the very secrets of the hearts," (AI-Ma'idah: 7) Hadrat `Ubadah bin Samit relates: "The Holy Messenger of Allah (upon whom be His peace and blessings) had made us pledge that we would listen and obey both in sound health and in ill health; would spend in the cause of Allah both in prosperity and in adversity would enjoin the good and forbid the evil; would proclaim the truth for the sake of Allah and would not fear the blame of any one in this regard." (Musnad Ahmad)  Show more

سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :11 یعنی تم یہ غیر ایمانی روش اس حالت میں اختیار کر رہے ہو کہ اللہ کا رسول خود تمہارے درمیان موجود ہے اور دعوت ایمانی تمہیں کسی دور دراز واسطے سے نہیں بلکہ براہ راست اللہ کے رسول کی زبان سے پہنچ رہی ہے ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :12 بعض مفسرین نے اس عہد سے مراد ال... لہ کی بندگی کا وہ عہد لیا ہے جو ابتدائے آفرینش میں آدم علیہ السلام کی پشت سے ان کی ذریت کو نکال کر لیا گیا تھا ۔ اور بعض دوسرے مفسرین نے اس سے مراد وہ عہد لیا ہے جو ہر انسان کی فطرت اور اس کی فطری عقل میں اللہ کی بندگی کے لیے موجود ہے ۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا وہ شعوری عہد ہے جو ہر مسلمان ایمان لا کر اپنے رب سے باندھتا ہے ۔ قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ اس عہد کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے : ۔ وَاذکُرُوْا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَیْکُمْ وَ مِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہٖ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاتَّقُواللہَ اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ o ( المائدہ ۔ 7 ) یاد رکھو اس نعمت کو جو اللہ نے تم کو عطا کی ہے اور اس عہد و پیمان کو جو اللہ نے تم سے لیا ہے ، جبکہ تم نے کہا ہم نے سنا اور اطاعت قبول کی اور اللہ سے ڈروِ اللہ دلوں کا حال جانتا ہے ۔ حدیث میں حضرت عبادہ بن صامت کی روایت ہے کہ: بَایَعْنَا رَسُوْل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی السمع والطاعۃ فی النشاط والکسل و علی النفقۃ فی العسر و الیُسر و علی الامر بالمعروف و النھی عن المنکر و علی ان نقول فی اللہ تعالیٰ و لا نخاف لَوْمَۃَ لَا ئمٍ ( مسند احمد ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے اس بات پر بیعت لی تھی کہ ہم چستی اور سستی ، ہر حال میں سمع و طاعت پر قائم رہیں گے ، خوشحالی اور تنگ حالی ، دونوں حالتوں میں راہ خدا پر خرچ کریں گے ، نیکی کا حکم سنیں گے اور بدی سے منع کریں گے ، اللہ کی خاطر حق بات کہیں گے اور اس معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ خطاب کافروں کو ہے، اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہ خطاب ان مسلمانوں کو ہے جن کے ایمان میں کسی قدر کمزوری محسوس کی گئی تھی، جس کی بنا پر وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے سے ہچکچا رہے تھے۔ سیاق و سباق کے لحاظ سے شاید یہ دوسری تفسیر زیادہ راجح ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(57:8) مالکم۔ تم کو کیا عذر ہے۔ تم کیسے ہو۔ تم کو کیا ہوگیا ہے۔ تمہارے لئے کیا سبب ہے۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے وما لکم الا تنفقوا فی سبیل اللہ (57:10) اور تم کو کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ہو۔ اور دوسری جگہ ہے :۔ وقالوا مال ھذا الرسول یا کل الطعام (25:7) اور کہتے ہیں یہ کیسا پ... یغمبر ہے کہ کھانا کھاتا ہے۔ وما لکم لا تؤمنون باللہ۔ اور تم کو کیا ہوگیا ہے کہ اللہ پر ایمان نہیں لاتے۔ والرسول یدعوکم لتؤمنوا بربکم : جملہ حالیہ ہے۔ حالانکہ رسول تم کو تمہارے رب پر ایمان لانے کے لئے (برابر) بلا رہا ہے۔ لتومنوا میں لام تعلیل کا ہے۔ یہ اصل میں تؤمنون تھا (مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر ایمان مصدر سے) نون اعرابی عامل کی وجہ سے گرگیا۔ وقد اخذ میثاقکم واؤ عاطفہ ہے اور جملہ حالیہ ہے اور اس کا عطف جملہ سابقہ پر ہے اور وہ تم سے عہد بھی لے چکا ہے ای وقیل ذلک قد اخذ اللہ میثاقکم حین اخرجکم من ظھر ادم (علیہ السلام) بان اللہ ربکم لا الہ لکم سوأہ۔ اور اس سے قبل اللہ تعالیٰ نے تم سے عہد لے رکھا تھا جب اس نے تم کو حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے برآمد کیا۔ (اور کہا کہ) اللہ تعالیٰ ہی تمہارا رب ہے اور اس کے سوا تمہارا کوئی رب نہیں۔ قرآن مجید میں ہے :۔ الست بربکم قالوا بلی شھدنا (7:172) (یعنی ان سے پوچھا کہ) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں َ وہ کہنے لگے کیوں نہیں ہم گواہ ہیں کہ تو ہمارا پروردگار ہے۔ میثاقکم مضاف مضاف الیہ۔ دونوں مل کر اخذ کا مفعول ۔ تمہارا میثاق، پختہ۔ عہد۔ قول و قرار جس پر قسم کھائی گئی ہو۔ وثق یثق وثوق (باب ضرب) مصدر اعتماد کرنا۔ مطمئن ہونا۔ الوثاق والوثاق اس زنجیر یا رسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کر باندھ دیا جائے۔ اور او ثقہ (باب افعال) زنجیر میں جکڑنا۔ رسی سے کس کر باندھنا۔ میثاق وہ عہد جو قسموں یا شرطوں سے جکڑ کر کیا گیا ہو۔ بمعنی پختہ و مضبوط عہد۔ قرآن مجید میں ہے :۔ ولا یوثق وثاقہ احد (89:26) اور نہ کوئی ایسا جکڑنا جکڑے گا۔ ان کنتم مؤمنین ۔ جملہ شرط ہے اور جواب شرط محذوف۔ (1) اگر تم ایمان لانا چاہتے ہو تو تردد میں مت پڑو اور بغیر کسی تردد کے ایمان لے آؤ (السیر التفاسیر) (2) تم جو اپنے خیال میں اللہ پر ایمان لانے کے مدعی ہو اگر تم واقعی مومن ہو تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ۔ (تفسیر مظہری)  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 امام ابن جریر نے اس سے مراد وہ اقرار لیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں سے اس وقت لیا تھا جب اس نے انہیں حضرت آدم کی پشت سے پیدا کیا تھا اور جو ان میں سے ہر ایک کی سرشت میں داخل ہے۔ وقدم فی سورة الاعراف 172) شاہصاحب لکھتے ہیں :” اقرار اللہ نے چکا ہے دنیا میں آنے سے پہلے اور اس کا اثر رکھ دیا...  دل میں۔ (موضح) حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ بیعت ہے جو آنحضرت نے صحابہ کرام سے لی تھی جس کا ذکر سورة مائدہ میں ہے۔ واللہ اعلم  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کا تمام لوگوں کو حکم ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں لیکن لوگوں کی غالب اکثریت کی یہ حالت رہی ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کی بجائے انکار اور تکذیب کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آخر کیا وج... ہ ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے ؟ حالانکہ رسول تمہیں بار بار اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے، تمہارے لیے ایمان لانا اس لیے بھی لازم ہے کہ تم ” اللہ “ سے عہد کرچکے ہو۔ اس سے پہلی آیت میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے لیکن اس آیت میں یوں ارشاد ہوا کہ آخر تم اللہ پر ایمان کیوں نہیں لاتے ؟ حالانکہ رسول تمہیں اس پر ایمان لانے کے دعوت دے رہا ہے۔ پہلی آیت میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کا حکم تھا۔ اس آیت میں صرف اللہ پر ایمان لانے کا ارشاد ہوا ہے جو تمہارا رب ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان اور اسلام میں پہلی اور مرکزی بات اللہ پر ایمان لانا اور اس کے تقاضے پورے کرنا ہے۔ جن میں سب سے پہلا تقاضا یہ ہے کہ ” اللہ “ پر اس طرح ایمان لایا جائے جس طرح اس کے رسول نے بتلایا اور عمل کرکے دکھلایا ہے۔ اس لیے قرآن مجید کے کئی مقامات پر صرف اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے جس میں ایمان کے تمام اجزاشامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ پر اس لیے ایمان لانا ہے کیونکہ اس نے انبیائے کرام (علیہ السلام) اور عوام الناس سے عہد لے رکھا ہے جس کی یاددہانی یہ کہہ کر کروائی گئی کہ اگر تم اس عہد کو مانتے ہو تو پھر اپنے رب پر ایمان لاؤ۔ آیت کے پہلے حصہ میں اللہ پر ایمان لانے کا حکم ہے اور اس کے بعد رب پر ایمان لانے کا ارشاد ہوا ہے۔ لفظ اللہ کی بجائے رب کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ اگر انسان کو حقیقی علم اور یقین حاصل ہوجائے کہ اللہ کا دوسرا عظیم نام ” رب “ ہے اور وہی میرا خالق، مالک، رازق اور بادشاہ ہے اس کے بعد انسان اپنے ” اللہ “ کے ساتھ کبھی کفر و شرک نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہی ایمان قابل قبول ہے جو اس کے رسول نے بتلایا۔ (وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَ اَشْہَدَہُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی شَہِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ہٰذَا غٰفِلِیْنَ ) (الاعراف : ١٧٢) ” اور جب آپ کے رب نے آدم کے بیٹوں سے ان کی پشتوں میں سے ان کی اولاد کو نکالا اور انہیں خود ان کی جانوں پر گواہ بنایا۔ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ہم گواہی دیتے ہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن کہو بیشک ہم اس سے غافل تھے۔ “ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَلَّمَا خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَّا قَالَ لَاإِیْمَانَ لِمَنْ لَّآ أَمَانَۃَ لَہٗ وَلَادِیْنَ لِمَنْ لَّا عَھْدَ لَہٗ ) (مسند احمد، ٣١: مسند انس بن مالک، ھذا حدیث حسن صحیح) ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں جب کبھی بھی خطبہ ارشاد فرمایا تو یہ الفاظ ضرور ادا فرمائے کہ اس کا ایمان نہیں جو امانت دار نہیں اور اس کا دین نہیں جو وعدے کا پاسدار نہیں۔ “ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ عِنْدَ اِسْتِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَفِیْ رَوَایَۃٍ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرْفَعُ لَہٗ بِقَدَرِ غَدْرِہٖ اَ لَاوَلَا غَادِرَ اَعْظَمُ غَدْرًا مِنْ اَمِیْرِ عَامَّۃٍ ) (رواہ مسلم : باب تحریم الغدر) ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن ہر عہد شکن انسان کی مقعد کے نزدیک جھنڈا ہوگا۔ ایک روایت میں ہے ہر عہد شکن کے لیے قیامت کے دن جھنڈا ہوگا، جو اس کی عہد شکنی کے بقدر بلند کیا جائے گا۔ خبردار ! سربراہ مملکت سے بڑھ کر کسی کی عہد شکنی نہیں ہوتی۔ “ مسائل ١۔ لوگوں کو ہر صورت اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا چاہیے۔ ٢۔ وعدے کا پورہ کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ تفسیر بالقرآن ایمان کی مبادیات : ١۔ غیب پر ایمان لانا، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا۔ (البقرۃ : ٣) ٢۔ پہلی کتابوں پر مجموعی طور پر اور قرآن مجید پر کلی طور پر ایمان لانا۔ (البقرۃ : ٤) ٣۔ اللہ، ملائکہ، اللہ کی کتابوں، اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا۔ (البقرۃ : ٢٨٥) ٤۔ صحابہ کرام جیسا ایمان لانا فرض ہے۔ ( البقرۃ : ١٣٧)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ومالکم ............ رحیم (٩) (٧٥ : ٨۔ ٩) ” تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ رسول تمہیں اپنے رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے اور وہ تم سے عہد لے چکا ہے۔ اگر تم واقعی ماننے والے ہو۔ وہ اللہ ہی تو ہے جو اپنے بندے پر صاف صاف آیتیں نازل کررہا ہے تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر ر... وشنی میں لے آئے ، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تم پر نہایت شفیق اور مہربان ہے۔ “ آخر ایمان کی راہ میں رکاوٹ کیا ہے ؟ ایمان تو وہ لا چکے ہیں ایمان لانے کا حق یہاں مطلوب ہے۔ پھر دعوت ذات رسول کی طرف سے ہے ، جن کے ہاتھ پر تم بیعت کرچکے ہو ، پختہ وعدہ کرچکے ہو۔ اور پھر آسمانوں سے آیات بینات کی پے درپے موسلا دھار بارش ہورہی ہے۔ یہ آیات تمہیں اندھیروں ، شک اور یحرانی سے نکال رہی ہیں۔ ہدایت ویقین اور اطمینان کی روشنی تمہیں دی جارہی ہے ۔ ایسے حالات میں جن میں تم پر رحمتوں کی بارشیں ہورہی ہیں۔ نبی آخر الزمان کا کسی قوم میں موجود ہونا ، ان کا اللہ کی زبان و کلام میں گفتگو فرمانا کلام اللہ پڑھ پڑھ کردیتا ہے۔ اور یہ اس قدر عظیم نعمت ہے جس کا تصور نہ پہلے کسی نے کیا اور نہ بعد میں ہوسکے گا۔ آج ہم چودہ سو سال کی دوری سے جب اسے سوچتے ہیں ، تو یہ دور ، وحی کا دور ، حیات رسول کا دور فی الواقع عظیم نعمتوں کا دور تھا ، خوشیوں کا دور تھا ، نیک بختیوں کا دور تھا ، کیا ہی دور تھا ، اللہ جل جلالہ ، بذات خود رسول اللہ کی زبانی اپنے بندوں کو بتارہا ہے۔ نہایت رحمت ، محبت اور کرم کے ساتھ ، لو یہ کام کرو ، دیکھو اس سے بچو ، یہ ہے راہ اس پر چلو ، یہ دیکھو تم غلط ہوگئے ہو ، یہ ہے میری رسی اسے پکڑو اور نکل آؤ گڑھوں سے ، کنوؤں سے ، توبہ کرو ، توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ ایں درگہ ما درگہ ناامید نیست صدبار اگر توبہ شکستی باز آ آؤ دور تک نہ چلے جاؤ غلط راہوں پر ، میری رحمت سے مایوس نہ ہو ، وہ تو اس قدر وسیع ہے کہ سب کائنات اس میں ڈوب جاتی ہے۔ اسے فلاں نے یہ کہا ہے ، یہ غلط ہے۔ اسے فلاں تونے یہ سوچا ہے ، یہ غلط ہے۔ یہ تو گناہ ہے۔ فلاں فلاں کاموں کا تونے ارتکاب کیا ہے یہ غلط ہے۔ آؤ، توبہ کرو اور میری رحمت میں داخل ہوجاؤ۔ اے فلاں وہ فلاں فلاں چیزیں تمہیں روک رہی ہیں ان کو اتار پھینکو ، فلاں تونے یہ سوال کیا ہے یہ ہے جواب اس کا۔ اور یہ کام جو تونے کیا ہے اس کا یہ وزن ہے۔ یہ لوگ جو اللہ کے ساتھ رہتے ہیں ، جو اس کی مخلوق ہیں ، جن کو اللہ تلقین فرماتا ہے جن کے ساتھ یوں ہم کلام ہوتا ہے۔ یہ اپنے اندر تیز احساس رکھتے ہیں کہ اللہ ان کے ساتھ ہے اور وہ اللہ کے ساتھ ہیں۔ یہ حقیقت ہے اور یہ واقعہ ہے رات کی تاریکیوں میں بھی اللہ کی فریاد سن رہا ہے۔ اور ان کو قبول کرتا ہے۔ قدم قدم پر ان کی رہنمائی کرتا ہے اور ان کی طرف متوجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات اس شخص کی سوچ سے بھی بلند ہے جو اس کے اندر نہ رہا ہو۔ اس لئے آج ہم بھی کہہ سکتے کہ وہ یوں تھے۔ لیکن ان آیات میں سب سے پہلے جن لوگوں کو خطاب کیا گیا وہ ایسے ہی حالات میں زندہ رہے تھے۔ اور ان لوگوں کو اس قسم کی تربیت یاد دہانی اور اکساہٹ کی ضرورت تھی۔ لیکن اب اگر کوئی اس قسم کے تصور کو اپنے ذہنوں میں جمائے اور بسائے ہوئے ہے ہمارے اس گئے گزرے دور میں تو یہ اس فضل سے بھی بڑا فضل ہے۔ یہ بات زیادہ قابل قدر ہے کہ دور صحابہ سے دور پندرہویں صدی میں یہ تصور کرتا ہو۔ بخاری شریف کی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن اپنے صحابہ سے کہا کہ تمہارے نزدیک کون سا مومن قابل تعجب اور صاحب فضل وکرم ہے ، تو صحابہ کرام نے فرمایا فرشتے ؟ تو حضور نے فرمایا ” وہ کیونکر ایمان نہ لائیں گے وہ ہیں ہی اپنے رب کے پاس۔ “ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ پھر ” انبیائ “۔ تو آپ نے فرمایا۔” وہ کس طرح ایمان نہ لائیں جبکہ وحی ان پر نازل ہورہی ہے “ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ پھر ” ہم لوگ “۔ تو حضور نے فرمایا : ” تم کیوں ایمان نہ لاؤ، جبکہ میں تمہارے درمیان ہوں ؟ بلکہ ایمان کے لحاظ سے افضل ترین لوگ وہ ہیں جو تمہارے بعد ہوں گے ، ان کے پاس صحیفے ہوں گے اور وہ ان کے اندر پائی جانے والی تعلیمات پر ایمان لائیں گے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سچ فرمایا کہ صورت حال میں بہت فرق ہے۔ ان لوگوں کے ہاں ایمان کے اشارات ، اسباب اور دلائل بہت زیادہ تھے۔ عجیب و غریب تھے ۔ بلکہ اگر وہ ایمان نہ لاتے تو قابل تعجب بات ہوتی۔ اس کے باوجود ان سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ایمان کو اپنے نفوس کے اندر حقیقت بناؤ، اگر مومن ہو تو۔ اب موجبات ایمان اور دلائل ایمان سے آگے ، دلائل انفاق اور موجبات انفاق کی طرف ، مگر قدرے تاکید کے ساتھ اور تکرار کے ساتھ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(8) اور تم کو کیا ہوا کہ تم اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم کو اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی دعوت دے رہے ہیں اور تم کو ایمان باللہ کی جانب بلا رہے ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائو اور بلا شبہ تم سے تو خود اللہ تعالیٰ پختہ عہد لے چکا ہے بشرطیکہ تم باور ... کرو اور تم کو ایمان لانا ہو۔ یعنی ایمان لانے میں کیوں توقف کررہے ہو اور تم کو کیا چیز مانع اور حارج ہے جبکہ ایمان کے دواعی موجود ہیں اول تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم کو ایمان کی دعوت دے رہے ہیں پھر تم سے اللہ تعالیٰ نے خودبھی عہد لے چکا ہے یعنی یوم میثاق میں الست بربکم فرما کر تم سے عہد لیات ھا اور تم نے بلیٰ کہا تھا تو اگر تم کو ایمان لانا ہو تو رسول کی دعوت اور تمہارا اپنا عدہ خدا کے ساتھ تمہارے ایمان لانے کے لئے کافی داعیہ اور متحرک موجود ہے۔ آگے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مرتبے کی اور وضاحت فرماتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اللہ قرار لے چکا ہے دنیا میں آنے سے پہلے اور اس کا اثر رکھ دیا ہے دل میں۔  Show more